صلاح الدین ایوبی
بارھویں صدی عیسوی کے آخر میں یورپ کے بعض پادریوں نے صلیبی جنگوں کی بنیاد رکھی اور بے شمار یورپی عیسائیوں کے لشکر شام و فلسطین میں بھیجے تاکہ فلسطین اور آس پاس کے علاقے مسلمانوں سے چھین لیں اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیں۔ ان جنگوں میں صلاح الدین ایوبی بہت بہادری سے لڑا اور نوے برس کے بعد فلسطین دوبارہ عیسائیوں سے واپس لے لیا۔
صلاح الدین ایوبی کا اصل نام یوسف تھا۔ اس کا باپ نجم الدین ایوب موصل کے امیر عماد الدین زنگی کے پاس ملازم تھا۔ 1138 میں یہ بچہ پیدا ہوا جو آگے چل کر صلاح الدین ایوبی کے نام سے نامور ہوا۔
جب صلاح الدین آٹھ برس کا تھا، عماد الدین زنگی اپنے غلاموں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا چھوٹا لڑکا نور الدین محمود حلب کا امیر بن گیا۔ نجم الدین اور اس کا بھائی شیر کوہ اس کے حامی تھے،چنانچہ جب انہوں نے دمشق فتح کیا، تو نور الدین محمود شام کا بادشاہ بن گیا۔ صلاح الدین کے لڑکپن کا زیادہ زمانہ دمشق میں گزرا۔
فاطمی خلافت کے خاتمے پر خلیفہ بغداد نے صلاح الدین کو مصر کا سلطان بنادیا، اس زمانے میں تیسری صلیبی جنگ کے لیے یورپ سے فوجیں آنے لگیں۔ صلاح الدین نے کئی جنگوں میں ان کو شکستیں دیں اور دو اڑھائی برس کے بعد 20ستمبر 1187 کو بیت المقدس کے سامنے پہنچ گیا۔ طویل محاصرے کے بعد فتح حاصل ہوئی اور 4 اکتوبر 1187 کو نوے برس کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول پھر ان کے قبضے میں آگیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس سے یورپ کے عیسائیوں کو سابقہ پڑا۔ سلطان نے عیسائیوں سے اس قدر عدل و احسان، رحم و کرم اور دریا دلی کا برتائو کیا کہ آج تک تاریخ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
سلطان بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد دمشق چلا گیا۔ 1193 کے ماہر فروری میں ٹھنڈ لگ جانے کی وجہ سے بیمار ہوگیا اور اسی علالت میں وفات پائی۔ اس وقت سلطان کی عمر 55 برس کی تھی۔