skip to Main Content
صفحہ نمبر گیارہ

صفحہ نمبر گیارہ

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری تاریخ میں ہمارے قومی ہیروز کے حالات جاننے کا بہترین ذریعہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارتو مسلم نے فیصلہ کر لیاتھا کہ چاہے کچھ ہو جائے وہ نئی جماعت میں نئی کتابیں ہی لے گا۔جماعت ہفتم کے سالانہ امتحان کا آخری پرچہ دینے کے بعد اس نے اماں سے کہا تھا۔
’’اما ں میں نئی جماعت میں پرانی کتابیں نہیں لوں گا۔‘‘
’’تمہارا نتیجہ تو آجائے پھر کتابوں کے بارے میں سوچیں گے ۔‘‘
’’ان شاء اللہ ہر بار کی طرح رزلٹ تو شاندار ہی آئے گا۔‘‘
’’تم نے پڑھنا ہی تو ہے کتاب پرانی ہو یا نئی۔‘‘
’’بس میں نے نہیں لینی پرانی کتا بیں۔میں تو نئی کتابیں لوں گا‘کیا میرے نصیب میں پرانی کتابیں ہی رہ گئی ہیں۔‘‘
تمہارے جیسے کئی بچوں کو تو یہ پرانی کتابیں بھی میسر نہیں۔‘‘اماں نے مسلم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔مسلم پر تو نئی کتابوں کی دھن سوار تھی اس پر بھلا اماں کی باتوں کا کیا اثر ہوتا۔وہ کوئی جواب دئیے بغیر باہر چلا گیا۔
مسلم کا جی چاہتا تھا کہ اپنے گھر کے باہر جلی حروف میں لکھ دے ’’پرانی چیزوں کا مر کز‘‘جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوا تھا تو اپنے گھر کے دروازے پر دیوار میں پتھر کے ایک ٹکڑے پر چوہدری غلام رسول کا نام پڑھ کر اس نے اماں سے سوال کیا تھا کہ یہ نام کس کا ہے۔اماں نے جواب دیا تھا کہ جب تم ابھی چھ ماہ کے تھے تو ہم نے یہ گھر غلام رسول نامی شخص سے خریدا تھا۔مسلم نے یہ سن کر فوراًکہا تھا۔
’’اچھا تو ہمارا گھر نیا نہیں پرانا ہے۔‘‘
اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ جب ہمسائے رنگین ٹی وی لائے تو ان کا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ان کے گھر آ گیا تھا۔کچھ عرصہ قبل اس کے دوست گھر آئے تو فہد نے ٹی وی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’کیا یہ چلتابھی ہے کہ صرف سجاوٹ کے لیے رکھا ہے؟‘‘
’’ہاں چلتاہے مگر دھکا لگا کر ۔‘‘عزیز مسکراتے ہوئے بولا۔
’’ایسا ٹی وی میں نے کسی اور جگہ بھی دیکھا ہے۔‘‘محسن نے کہا۔
’’مجھے اس جگہ کا نام معلوم ہے۔‘‘بلال بولا۔
’’کونسی ہے وہ جگہ؟‘‘فہد نے پوچھا۔
’’عجائب گھر……‘‘بلال کی اس بات پر سب دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔مسلم خاموش ہی رہاتھا۔ٹی وی کا ماڈل اتنا پرانا تھا کہ اس کو بنانے والی کمپنی بھی بند ہو چکی تھی۔
سکول جانے کے لیے ابا جان کی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کا مر حلہ آتا تو محلے بھر کو پتہ چل جاتا کہ مسلم کے ابا کی موٹر سائیکل اسٹارٹ ہو رہی ہے۔موٹر سائیکل کا مزاج کبھی کبھا ر تو اتنا بگڑ جاتا کہ ابا جان کک پر کک لگا رہے ہوتے مگر موٹر سائیکل ڈھیٹ بنی کھڑی رہتی۔ کئی بار وہ موٹر سائیکل اسٹارٹ نہ ہونے کی وجہ سے سکول بھی لیٹ پہنچتا تھا۔مسلم نے جب موٹر سائیکل کی تاریخ پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ موٹر سائیکل کی عمر تیس سال سے زائد ہے اور ان کے گھر میں یہ دس سال سے ہے۔ایک شام وہ برآمدے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ خالہ کلثوم اماں سے باتوں میں مصروف تھیں۔’’رانی اگر تم کہو تو میں بشریٰ سے بات کرتی ہوں۔‘‘
’’ہاں خالہ بات کر لیں‘بس پیسے میں تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گی۔‘‘
’’تم فکر ہی نہ کرو دو ہزار میں تو صوفہ بالکل مفت ہے۔ذرا سی پالش سے صوفہ نیا بن جائے گا۔‘‘
یوں تین سو روپے ماہوار قسط پرصوفہ مسلم کے ہاں آ گیا۔برآمدے میں لگے پنکھے کی کہانی بھی دوسری پرانی چیزوں سے مختلف نہ تھی۔یہ پنکھا بھی پہلے کبھی اور گھر میں ہوا دیتے دیتے مسلم کے گھر آ گیا تھا کیونکہ پرانی چیزوں کے لیے یہی گھر مناسب تھا۔مسلم جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا اس کو ہر حقیقت معلوم ہوتی جا رہی تھی۔اسے پہلے تو معلوم ہی نہیں ہو تا تھا کہ اس کے جوتے اور کپڑے کہاں سے آتے ہیں جب اس نے غور کیا تو معاملے کی تہہ تک پہنچا۔امیر رشتہ دار اور کھاتے پیتے ہمسائے جو شاپنگ بیگ بھیجتے تھے اس کا معمہ وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتا جا رہا تھا۔مسلم نے پہلی بار تب احتجاج کیا تھا جب اماں نے جوتے پالش کر کے اس کے سامنے رکھے تھے۔اس نے جوتوں کوٹھوکر مارتے ہوئے کہا تھا۔
’’میں پرانے جوتے نہیں پہنوں گا۔‘‘
’’یہ جوتے زیادہ پرانے نہیں ہیں۔‘‘
’’یہ جوتے پرانے ہیں‘میں نئے جوتے پہنوں گا۔‘‘مسلم چیخا۔ 
’’مت چلّاؤ۔پہنو ورنہ ایک ہاتھ دوں گی۔‘‘اماں کا یہ روپ پہلی بار اس کے سامنے آیا تھا۔اِدھراماں مسلم کو جوتا پہنانے کی کوششوں میں تھیں اُدھر ابا موٹرسائیکل اسٹارٹ کرنے میں اپنی توا نائی صرف کررہے تھے۔موٹر سائیکل کے اسٹارٹ ہوتے ہی ابا نے پکارا۔
’’مسلم بیٹا اب آ بھی جاؤ۔‘‘
اماں کا اٹھا ہاتھ دیکھ کر مسلم کے ہاتھ جوتوں کی طرف بڑھ گئے ۔
پچھلے سال دیگر پرانی چیزوں کی طرح پرانی کتابوں کے مسئلے نے بھی سر اٹھایا تھا۔ساتویں جماعت کی پرانی کتابیں دیکھ کر مسلم کو غصہ آگیاتھا۔کتابوں کی جلدیں خراب ‘صفحات اکھڑے ہوئے ‘جگہ جگہ بد نما داغ،پہلے صفحے پر شہزاد کا نام اور پھر اسے کاٹ کر راحیل لکھا ہوا تھا۔اماں یہاں بھی نرمی اور سختی دونوں کا استعمال کرکے مسلم کو پرانی کتا بیں دینے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ان پرانی کتابوں ہی سے مسلم سالانہ امتحان تک پہنچا تھا۔سال بھر مسلم کی زبان پر نئی کتابوں کی گردان رہی۔جماعت ہفتم کے سالانہ امتحان کے بعد تو گویا اس نے اماں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس بار پرانی کتابیں لے کر وہ نئی جماعت میں نہیں جائے گا۔مسلم کے رونے پیٹنے اور احتجاج کرنے کے باوجود جماعت ہشتم میں بھی حسبِ سابق پرانی کتابوں سے اس کا ناطہ قائم رہا۔رب نواز کی بہو اماں کو یہ کتابیں دے گئی تھی۔اپنے دوستوں کی نئی نئی کتابیں دیکھ کر مسلم کا دل بھر آتا تھا۔اُردو کی کتاب کا پہلا صفحہ بہت خراب تھا۔جماعت میں ایک ہفتہ پڑھنے کے بعد اُردو کے استاد نے طلبہ کو صفحہ نمبر گیارہ کھولنے کے لیے کہا تو مسلم نے اپنی پرانی کتاب کا صفحہ نمبر گیارہ کھول لیا۔اب پڑھائی شروع ہوئی۔
’’اچھے بچو!آج ہم ایک سفر نامے ’’امریکہ اور امریکہ‘‘کا کچھ حصہ جوہمارے نصاب میں شامل ہے وہ پڑھیں گے۔‘‘
’’سر صفحہ نمبر گیارہ پر تو نشان حیدر پانے والے شہدا کا تذکرہ ہے۔‘‘مسلم بولا۔
’’مسلم بیٹے نصاب بدل چکا ہے۔اب اس سبق کی جگہ ’’امریکہ اور امریکہ‘‘کا سفرنامہ شامل کیا گیا ہے تم نئی کتاب لو یا یہ سبق فو ٹو کاپی کر وا لو۔‘‘
’’سر نصاب کون بدلتا ہے؟‘‘
’’حکومت‘‘’’حکومت کو ایسا کرنے کے لیے کون کہتا ہے؟‘‘مسلم نے پوچھا۔
’’کوئی نہیں کہتا‘بس وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں ترمیم و اضافہ کرنا پڑتا ہے۔اب باتیں ختم سفر نامے کی تدریس شروع۔‘‘مسلم کو گویا خا موش رہنے کا حکم ملا تھا۔اس نے نشان حیدر اور سفر نامہ دونوں اسباق پڑھے۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے سر نے تو مزید سوال نہ کرنے کا بورڈ لگا لیا تھا۔اس نے اپنا پرانے ٹی وی جسے شاید اب عجائب گھر میں ہونا چاہیے تھا اس پر خبر نامے میں درسی کتب میں نصاب کی تبدیلی کے بارے میں وزیر تعلیم کا بیان سنا تھا‘جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم کسی بیرونی دباؤ کے تحت نصاب میں رد و بدل نہیں کر رہے۔اس سلسلے میں بازار فروش امین نے بھی اس کی مدد کی تھی ۔وہ چھٹی والے دن اخبار دیکھنے کے لیے اس کے پاس چلا جاتا تھا۔پچھلے اتوار اس نے امین سے نصاب کی تبدیلی کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایک اخباراس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اس میں ان اسباق کا تجزیہ کیا گیا ہے جن کو نصاب میں شامل یا خارج کیا گیا ہے۔‘‘
مسلم نے پوری خبر نہایت توجہ سے پڑھی ۔اب اس پرساری با ت واضح ہو چکی تھی کہ غیر مسلم طاقتیں پاکستانی بچوں کو ان کے مذہب ‘ثقافت اور روایات سے دور کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی کروا ررہی ہیں ۔ یہ حقیقت جانتے ہی وہ پرانی کتابیں جن کو اسنے کبھی دل سے قبول نہیں کیا تھا اس کے دل و نظر میں بلند مقام حاصل کر چکی تھیں۔ نشان حیدر پانے والوں کے بارے میں اس نے پرانی کتاب سے جانا ‘ اماں اور ابابھی مسلم میں ہونے والی تبدیلی محسوس کر چکے تھے۔ مسلم کی پرانی کتابوں سے محبت کی وجہ وہ جان چکے ہے ۔ مسلم نے اس دن اماں ابا کو چونکا دیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ وہ تمام پرانے اسباق کو جو نصاب سے خارج کر دئے گئے ہیں نئے نصاب میں شامل کروائے گا۔ یہ سن کر اماں سوالیہ نشان بن گئی تھی ۔
’’وہ کیسے؟‘‘…………‘‘
’’بڑا اور با اختیارآدمی بن کر ، آپ کو پتہ ہے میں بڑا با اختیار آدمی کیسے بنوں گا ؟‘‘ 
’’کیسے؟ ……… ‘‘ اب ابا کے بولنے کی باری تھی۔
’’علم حاصل کر کے میں بڑا اور با اختیار آدمی بنوں گا ۔ میں اس لیے بھی علم حاصل کروں گا کہ اللہ میرے لیے جنت کی راہ آسان کر دے ۔ میں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث مبارکہ پڑھی ہے کہ ’’جو شخص علم کی راہ پر چلتا ہے اس کے لیے اللہ جنت کی راہ آسان کر دیتاہے۔‘‘
’’کہاں سے سیکھی ہیں اتنی بڑی بڑی باتیں…………..‘‘
’’کتابوں سے‘نہیں پرانی کتابوں سے‘وہ کتابیں جن کو میں اچھا نہیں سمجھتا تھا ۔ایسی پرانی کتابیں تو ہمارا اثاثہ ہیں۔ہماری تاریخ میں ہمارے قومی ہیروز کے حالات جاننے کا بہترین ذریعہ ہے ۔مسلم کی باتوں سے اماں ابا حیران بھی تھے اور خوش بھی۔مسلم اب سکول جاتا ہے۔اپنی پرانی کتابوں کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتاکیونکہ اردو کی کتاب میں صفحہ نمبر گیارہ پر جو اس کے پاس ہے وہ کسی اورکے پاس نہیں ۔وہ ہر روز یہ عزم لے کر سکول جاتا ہے کہ اس نے نئی کتابوں میں بھی صفحہ نمبر گیارہ پر وہی کچھ لانا ہے جو اس کی پرانی کتاب کے صفحہ نمبرگیارہ پر ہے ۔مسلم کا یہ خواب کب حقیقت بنتا ہے بس تھو ڑی دیر ہی کی تو بات ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top