skip to Main Content

پیش لفظ

معاشرے کا ہر خواندہ فرد کسی نہ کسی ضمن میں ادبِ اطفال سے وابستہ ہوتا ہے اور اس کی دل چسپی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ادبِ اطفال میں بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے، جو لوگ تا عمر اس ادب کا حصہ بنے رہتے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے اور ان میں بھی بیش تر بچوں کے مصنف یا محقق ہوتے ہیں۔
فروری 2007ء کو اپنے پہلے مضمون فاتح اندلس کی اشاعت کے بعد میں نے خود کو ادب اطفال کا حصہ سمجھنا شروع کیا، راقم الحروف تحریری طور پر رسائل کا حصہ بننے سے قبل بچوں کے رسائل نونہال، ساتھی، تعلیم وتربیت، شاباش، سم سم، بچوں کا اسلام کامطالعہ کیا کرتا تھا، ان رسائل نے اپنی مزے مزے کی کہانیوں کے ذریعے لطف عطا کر کے بچپن کی خوشیوں کو دوبالا کیا۔ خصوصاً ماہنامہ نونہال، ساتھی دسترس میں ہونے کے باعث اس وقت ہمارے پسندیدہ رسائل میں شمار ہوتے تھے۔ بچوں کی کتابوں سے بھی اس زمانے میں خوب استفادہ کیا۔ ”دعوۃ اکیڈمی“ نے بچوں کے لیے دل چسپ کتابیں شائع کی تھیں،اس کی زیادہ تر کتابیں ہمارے محلے میں قائم ایک انجمن کی لائبریری میں موجود تھیں،اس لیے سب سے پہلے منظم انداز میں ان کتابوں کو جھٹ پٹ پڑھ لیا۔
اس وقت ہمارے گھر سے کافی دور ایک دوسرے علاقے میں ایک لائبریری کا پتا چلا، اس لائبریری میں بچوں کی سیکڑوں کتابیں تھیں جن میں عمروعیار، شیخ چلی، آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، ٹارزن، ہر کولیس، امیر حمزہ کی تقریباً تمام کتابوں کو پڑھنے کا موقع ملا، اسی لائبریری میں عمران سیریز کی بھی اچھی خاصی کتابیں موجود تھیں لیکن بچوں کی کتابوں کو پڑھنے میں ایسے منہمک تھے کہ ہم نے ان سے کبھی تعرض ہی نہیں کیا۔ محلے ہی کے ایک لڑکے نے ہمیں عمران سیریز پڑھنے کے لیے اُکسایا اور ہم نے عمران سیریز کا ایک ناول پڑھ لیا۔ اس کے بعد تو گویا نشہ سالگ گیا اور لائبریری میں موجود مظہر کلیم، ابن صفی، صفدر شاہین سمیت متعدد ناول نگاروں کی لکھی گئی عمران سیریز پڑھیں لیکن کہانی میں سسپنس، ایکشن اور قاری کو اپنی گرفت میں لکھنے کا جو اسلوب مظہر کلیم کی تحریروں میں پایا جاتا ہے وہ ہمیں ان کے دیگر معاصرین کے ہاں نظر نہیں آیا۔ کہانی میں تھرل، سنسنی، ایکشن اور مزاح کا جو ملاپ مظہر کلیم نے پیدا کیا اس نے شاید دیگر لکھنے والوں سے زیادہ قارئین اپنے گرد اکھٹے کیے۔ اس وقت ہم بھی جماعت پنجم، یاششم کے طالب علم تھے۔
مناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کا اعلیٰ ادب کئی برسوں بعد ہماری نظروں میں آیا……اگر چہ اسے بھی ہم نے پڑھا لیکن جو لطف بچپن کے ابتدائی دنوں میں اس وقت ہمیں میسر آیا تھا وہ یہاں عنقا تھا۔ یہ اسی پڑھنے کا نتیجہ تھا کہ کم عمری ہی میں بچوں کے مختلف رسائل کی ادارت سے منسلک ہونے کے بعد ادارت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے تحریر کی باریکیوں سے واقف ہوئے۔
٭……اچھی کہانی کسے کہتے ہیں؟کس قسم کی کہانی برسوں یاد رہتی ہے؟
٭……مضمون کو کس طرح دل چسپ اور مؤثربنایا جاسکتا ہے؟اس کی طوالت کتنی ہو؟
٭……بچے کس قسم کی نظمیں پسند کرتے ہیں؟ چھوٹے بچوں کے لیے نظم لکھتے ہوئے کس چیز کا خیال رکھنا چاہیے؟
یہ سارے سوالات ہمارے ذہن میں پیدا ہوئے اور ان کی تلاش میں بچوں کے ادب پر ہونے والی تنقیدوں پر جا پہنچے۔ ڈاکٹر اسد اریب اور ڈاکٹر محمود الرحمن کی بچوں کا اَدب نے جہاں بہت ساری گتھیاں سلجھائیں وہیں خوشحال زیدی کی کتاب اُردو میں بچوں کا اَدب بڑے کام آئی۔ مشیر فاطمہ کی کتاب بچوں کے ادب کی خصوصیات کی کئی باتوں سے اختلاف کے باوجود بہت ساری نئی باتیں پتا چلیں۔
”دعوۃ اکیڈمی، شعبہ بچوں کا اَدب“ کے تحت نوجوانوں کے لیے ورکشاپس کا ایک سلسلہ برسوں سے جاری تھا، اسی طرح ”ساتھی گائیڈنس فورم“کے تحت بھی نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کی جاتی تھی، ان ورکشاپس میں معروف اہل قلم حضرات سے استفادہ کرتے ہوئے بچوں کے اَدب کی کئی جہتوں کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملا، خصوصاً محترم سلیم مغل، محترم ڈاکٹر افتخار کھو کھر، محترم احمد حاطب صدیقی، محترم منیر احمد راشد کی تحریروں اور لیکچرز نے اَدب اطفال کو سمجھنے میں رہنمائی فراہم کی۔
اس پس منظر کے ساتھ جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو میں داخلے کے وقت ہم یہ تہیہ کر چکے تھے کہ ”ادب اطفال“ پر کام کریں گے۔
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے چیئر مین ”جناب سید شاہد ہاشمی“ چوں کہ ہم سے واقف تھے اس لیے شعبہ اُردو میں داخلہ، بعد ازاں ایم فل میں داخلہ اِنھیں سے مشورے کے بعد لیا۔
ایم فل میں داخلے سے پہلے ہی ہمارے ذہن میں ایک خاکہ سا بن گیا تھا کہ ہمیں کس موضوع پر کام کرنا ہے لیکن محترم اَساتذہ، ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے مشورے سے موضوع میں تھوڑی سی ترمیم کر کے اپنے نگراں ڈاکٹر خالد امین کے ساتھ مل کر پاکستان میں بچوں کے اُردو رسائل: 1970ء سے 2000ء تک کو حتمی شکل دی۔
پاکستان میں بلا شبہ بہت سارے اداروں اور ناشران نے بچوں کے اَدب پر کام کیا ہے لیکن ماسوائے دعوۃ اکیڈمی کے شعبہ بچو ں کا اَدب کے سوا کسی ادارے کی تفصیلات خود اس ادارے کے پاس محفوظ نہیں ہیں۔ کہیں کتابوں کی فہرست ندارد ہے تو کہیں اس ادارے میں تندہی کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کوئی ذکر نہیں۔ادارے نے کیا کیا خدمات سر انجام دیں؟ یہ ساری باتیں ادارے کے ملازمین یا مالکان کے سینوں میں دفن ہیں۔ اگر کہیں کوئی مختصر سی تاریخ ملتی بھی ہے تو وہ سرسری سی ہے اور ادارے کے کئی کارنامے ان میں شامل نہیں ہیں۔
یہی حال رسائل کا بھی ہے۔ رسائل میں سوائے ماہنامہ ساتھی کے، کسی رسالے نے اپنی تاریخ کو مرتب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ان رسائل سے بہت سے لوگ وابستہ رہے ہیں، جنھوں نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، کہانیاں لکھیں، سر گرمیاں ڈیزائن کیں لیکن ان میں بہت سے ایسے گمنام ہیروز ہیں جن کا ایک سطری تعارف تک کہیں موجود نہیں کہ آیا وہ شاعر یا ادیب زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں ہوپاتیں۔ بچوں کے رسائل کو اپنی خوب صورت تصویروں سے سجانے والے مصوّروں کا کہیں کوئی ذکر نہیں بلکہ یوں محسوس ہوا کہ اُنھیں رسالے کی ٹیم کا باقاعدہ حصہ ہی نہیں سمجھا گیا۔ کہیں کسی رسالے یا کتب میں مصور کا نام موجود ہے تو کہیں وہ بھی ندارد۔
دعوۃ اکیڈمی اس حوالے سے خوش نصیب رہی کہ اُنھیں ڈاکٹر افتخار کھو کھر کی صورت میں ایک محنتی اور باصلاحیت فرد میسر آیا جس نے 25 سال کے دوران ہونے والی تمام سر گرمیوں کا ریکارڈ محفوظ رکھ کر اسے روشنی کا سفر کے نام سے شائع کیا۔
معروف محقق ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب سے جب بچوں کے ادب میں ایم فل کرنے کا ذکر کیا تو اُنھوں نے نا صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ کئی معاملات میں رہنمائی بھی کی۔ خصوصاً مقالے کی ابواب بندی میں کئی اہم نکات سمجھائے، اسی طرح 1902ء میں اُردو زبان میں بچوں کے لیے نکلنے والا پہلا رسالہ بچوں کا اخبار کے چند شمارے ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہیں، ان رسائل سے اُنھوں نے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اس مقالے کی تیاری کے دوران ”بیدل لائبریری بہادر آباد“ اور اس کے لائبریرین، محترم جناب زبیر بھائی کی بے پناہ محبت اور مدد نے اس کام کو آسان بنایا۔ بچوں کے اَدب کے حوالے سے کیا جانے والا کوئی بھی کام اُنھیں نظر آتا تو وہ اس کی اطلاع دیتے، نہ جانے کتنے لوگوں کے سندی مقالے زبیر بھائی کے تعاون سے مکمل ہو پائے ہیں۔
اسی طرح ”اَنجمن ترقی اُردو پاکستان“ کے محترم معروف بھائی کا بھی تعاون شامل حال رہا۔ وہیں ”لیاقت نیشنل لائبریری“ نے بچوں کے لیے الگ سے سیکشن بنایا ہے جہاں بچوں کی کتابوں کا اچھا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح جامعہ کراچی کے شعبہئ اُردو میں بھی بچوں کے اَدب کے حوالے سے نہ صرف دو مقالے موجود ہیں وہیں ثاقبہ رحیم الدین صاحبہ کے خصوصی گوشے میں بھی بچوں کی کتابیں موجود ہیں۔ ان لائبریریوں سے بھی استفادے کا موقع ملا۔ جامعہ ہمدرد، حب کیمپس میں ایک وسیع وعریض لائبریری میں ہمدرد نونہال کا کم وبیش تمام ذخیرہ موجود ہے،ملاحت کلیم صاحبہ کے تعاون کا شکریہ کہ اُنھوں نے ہمدرد نونہال کے قدیم شماروں تک رسائی دی۔
اس کام کے دوران مختلف اشخاص نے بھی دامے درمے سخنے قدمے مدد واستعانت کی۔ جناب محمد فیصل شہزاد، جناب سلیم مغل، جناب احمد حاطب صدیقی، سمیت متعدد افراد نے بہت ساری اُلجھنوں کو سلجھایا۔بہت سارے تاریخی کاموں کی تصدیق وتردید کی۔ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کی رہنمائی وشفقت اس سارے عرصے میں شامل رہی۔
نگراں ڈاکٹر خالد امین نے جہاں تحقیقی اُسلوب کی باریکیاں سمجھائیں، وہیں ادب اطفال پر ان کی گہری نظر کے باعث کئی اہم کتابوں کا پتا چلا خصوصاً تحقیقی حوالوں سے کئی کتابوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مقالے کا مسودہ مکمل ہونے پر ہر ایک باب کو نہ صرف خود پڑھا بلکہ بلند خوانی کروا کر مجھ سے سننے کے ساتھ ساتھ جہاں کمی نظر آئی اس کی اصلاح کردی، اس لیے اس مقالے میں جو ربط اور نظم وضبط ہے یہ اُنھیں کی توجہ کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔
دنیا کے تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے پڑھ لکھ جائیں، یہی خواہش ہمارے والدین کی بھی ہے۔ ایم فل کے نتیجے میں ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے، اللہ ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔اسی طرح اپنی اہلیہ میمونہ طارق کا بھی شکریہ کہ اُنھوں نے مجھے اس کام کو مکمل کرنے کے لیے نا صرف اُکسایا بلکہ کئی دفعہ مقالے کی حروف خوانی کرکے مددبھی فراہم کی۔
شمعون قیصر (مرحوم) مجھے بے حد عزیز تھے، اُنھوں نے بچوں کی تعلیم وتربیت میں رسائل کے کردار کے حوالے سے مقالہ تحریر کیا تھا، شمعون بھائی کی بھی خواہش تھی کہ بچوں کے ادب پر کام ہونا چاہیے، اگرچہ شمعون قیصر اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کے بڑے بھائی ہارون قیصر نے مقالے کی تکمیل کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کیا۔
چھوٹے بھائی محمد طاہر خان نے مقالے کی کمپوزنگ بروقت کرکے کام میں آسانی پیدا کی۔اُن کا بھی شکریہ۔
یہ سب کام نہ ہوپاتے اگر اللہ رب العزت کی مدد شامل حال نہ ہوتی۔ رب العالمین کا بے پناہ شکریہ کہ اس نے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسباب بہم پہنچائے اور یکسوئی عطا فرمائی۔

محمد طارق خان
شعبۂ اُردو، جامعہ کراچی
3مارچ 2022ء

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top