نوعمر ڈاکو
بیان کیا جاتا ہے، ملک عرب میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محفوظ ٹھکانا بنا لیا تھا۔ وہ اپنی کمین گاہ میں بیٹھے رہتے اور جیسے ہی کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا پہاڑسے اتر کر اسے لوٹ لیتے خلق خدا ان کے ہاتھوں بہت پریشان تھی۔
ڈاکوؤں کا یہ ٹھکانا کچھ ایسا محفوظ تھا کہ انھیں پکڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوتی تھی۔ جو بھی ان کی طرف آتا تھا، وہ دور ہی سے دیکھ کر چھپ جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو بادشاہ نے ایک ہوشیار جاسوس کو ان کی گرفتاری کے کام پر مقرر کیا۔ یہ جاسوس ایک جگہ چھپ گیا اور جب یہ خطرناک ڈاکو ڈاکا ڈا لنے کے لیے چلے گئے تو اس نے شاہی فوج کو خبر دے دی۔ فوج کے جوان پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر چھپ گئے۔
ڈاکو ڈاکا ڈال کر واپس آئے تو لمبی تان کر سوگئے۔ ان میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ ہم موت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ فوج کے جوانوں کو جب اطمینان ہو گیا کہ ڈاکو سوگئے ہیں تو انھوں نے سب ڈاکوؤں کو مضبوط رسیوں سے جکڑ کر بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا اور بادشاہ نے فوراً ہی حکم سنادیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔
ان ڈاکوؤں میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی شکل بہت بھولی بھالی تھی۔ بادشاہ کے وزیر نے اس نوجوان کو دیکھا تو اسے اس کے اوپر بہت ترس آیا۔ اس نے سوچا، کیا اچھی بات ہو جو اس نوجوان کی جان بچ جائے۔ یہ سوچ کر اس نے بادشاہ سے سفارش کی کہ حضور والا، اس نوجوان پر رحم فرمائیں اور اس کی جان بخشی کر دیں۔ ابھی تو اس نے زندگی کی چند بہاریں ہی دیکھی ہیں۔ اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کر دیا جائے تو امید ہے۔ یہ ایک اچھا انسان بن جائے گا۔
بادشاہ کو اپنے وزیر کی یہ بات پسند نہ آئی۔ اس نے کہا، تعلیم و تربیت سے انسان کی فطرت نہیں بدلا کرتی۔ یہ ڈاکوؤں کے خطرناک گروہ میں شامل تھا اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکوؤں کےساتھ اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ یہ عقلمندی نہیں کہ انسان آگ بجھائے اور انگار ے کو چھوڑ دے یا سانپ کو مارے اور سپولیے کو زندہ رہنے دے۔
وزیر نے بادشاہ کی اس بات کی تائید کی اور کہا، بے شک حضور نے بجا فرمایا۔ لیکن موقع دیکھ کر ایک بار پھر نوجوان کی سفارش کی اور کہا۔ اس نوجوان کی عادتیں واقعی اچھی نہیں۔ لیکن یہ بُری عادتیں اس نے بُرے لوگوں میں رہنے کی وجہ سے اپنائی ہیں۔ اب اچھے لوگوں کے ساتھ رہے گا تو اچھا بن جائے گا۔
بادشاہ اپنے وزیر کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا اور وزیر نے ڈاکو نوجوان کو آزاد کر کے اس کی تعلیم و تربیت کا بہت اچھا انتظام کر دیا۔
کہتے ہیں، یہ نوجوان کچھ دن تو ٹھیک رہا لیکن پھر اوباش لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا اور ایک دن نیک دل وزیر اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے اور اس کے گھر کا مال متاع لوٹ کر بھاگ گیا اور اسی پہاڑی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لیا جس پر اس کے ساتھیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
بادشاہ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو اس نے بہت افسوس کیا اور کہا جو برے ہیں، بہترین تربیت سے بھی ان کی اصلاح نہیں ہوتی۔ اچھے سے اچھے کاریگر بھی برے لوہے سے عمدہ تلوار نہیں بنا سکتا۔
بادل سے برستا ہے جو پانی، وہ ایک ہے
لیکن زمیں کو ایک سا دیتا نہیں لباس
برسے جو باغ پر تو اگیں لالہ وسمن
بنجر زمیں پہ اگتی ہے لے دے کے صرف گھاس
حاصل کلام:
شیخ سعدیؒ نے اس حکایت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بد اصل سے بھلائی کی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ مشہور مقولہ ہے اصل سے خطا نہیں، کم اصل سے وفا نہیں۔ مزید یہ کہ کتے کی دم کو سوبرس بھی نلکی میں رکھا جائے، جب نکالیں گے ٹیڑھی ہو گی۔ یہاں یہ بات بطور خاص سمجھنے کے قابل ہے کہ مشرق کا یہ نامور مفکر اس بات کا ہر گز قائل نہیں کہ انسانوں کی کچھ نسلیں شریف اور کچھ ذلیل ہیں، جیسا کہ عام نسل پرست لوگ خیال کرتے ہیں۔ بلکہ اس کا اشارہ انسانوں یا افراد کے شریف اور خبیث ہونے کی طرف ہے جیسا کہ ہم اپنی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص بے گناہوں کو ستا کر خوش ہوتا ہے اور دوسرا مظلوموں کی مدد میں اپنی جان قربان کر دینے کو بھی ایک معمولی بات خیال کرتا ہے۔
انسانوں کی فطرتیں ایسی متضاد اور متصادم کیوں ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایسا ہے او ر سعدی یہی کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی خباثتوں میں پختہ ہو چکے ہیں، انتہائی کوشش اور حسن سلوک سے بھی ان کی اصلاح ممکن نہیں۔