مقدمہ
بچوں کے ادب پر بیسویں صدی میں تاریخی وتہذیبی اعتبار سے کئی بلند پایہ کام ہوئے ہیں۔بچوں کے رسائل وجرائد کی تاریخ، بچوں کے ادیبوں کے مختصر سے احوال پر مبنی کئی اہم نوع کے مقالات، اسنادی اور غیر اسنادی حوالوں سے منصہ شہود پر آئے لیکن یہ تمام کام اب بھی ادبِ اطفال کے مطالعے کے حوالے سے ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جہاں بڑوں کے ادب میں ہمیں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے، وہیں اس کا اثر بچوں کے ادب پر بھی پڑا۔ بچوں کے لیے ایسی نظمیں اور کہانیاں لکھی جانے لگیں، جن میں اُنھیں نیکی پر اُبھارا جاتا اور بُرے کاموں سے بچنے کی ترغیب دی جاتی۔ ایسوپ کی حکایتوں کی طرز پر بے شمار حکایتیں اختراع کی گئیں اور اِن حکایتوں اور کہانیوں کے آخر میں باقاعدہ نتیجہ بھی لکھا جانے لگا۔ اُس دور میں بڑوں کے لیے لکھی گئیں قصے کہانیوں اور داستانوں کو بچوں کے لیے سادہ، سہل زبان میں مختصراً لکھا جانے لگا۔جیسے داستان امیر حمزہ، کلیلہ ودمنہ1، نوطرز مرصع، فسانہ عجائب، طلسم حیرت، رستم وسہراب، الف لیلیٰ، الہٰ دین اور چراغ، علی بابا چالیس چور، باغ وبہار، بوتل کا جن وغیرہ قسم کی کہانیوں کو بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ آسان اور سلیس زبان میں لکھا گیا۔
ان مافوق الفطرت قوت رکھنے والے کرداروں والی افسانوی طرز کی کہانیوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کے لیے لکھنے والوں نے اسی طرز کے نت نئے کردارتخلیق کرنا شروع کردیے۔اُن دنوں جن، پری، دیو اور جادوگروں کو موضوع بنا کر بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں لکھی گئیں۔ ان کہانیوں میں ہیرو ہیروئین کے طور پرنیک شہزادہ اور شہزادی کا کردار ڈال کر اِنھیں سنسنی خیز بنایا جاتا۔ تجسس اس میں اس قدر شامل کیا جاتا کہ بچے ان کہانیوں کے اسیر ہو جاتے۔
قصہ مختصر:ظالم جادوگروں اوربہادر شہزادوں کی کشمکش پر مبنی اس طلسماتی دنیا سے بچے ایک طویل عرصے تک محظوظ ہوتے رہے۔ اس زمانے میں بچوں کے رسائل و جرائد میں غیر ملکی تراجم کے حصے میں بھی ایسی ہی کہانیوں کا انتخاب کیا جانے لگا جو کہانیوں کی اسی قبیل سے تعلق رکھتی تھیں، مثلاًڈنمارک کے ہینز کر سچین انڈرسن (Hans Christian Andersen) کی کہانیوں کوکئی ادیبوں نے اپنے اپنے انداز سے ترجمہ یا تلخیص کیا ہے۔ ”سنڈریل“ا اور ”خوابیدہ شہزادی“ تو آج بھی بچوں میں مقبول ہے2۔
اِس سلسلے میں بیسویں صدی کی کئی اہم انجمنوں اور اداروں کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ مثلاً انجمن ِپنجاب کی تحریک جہاں تعلیمی حوالوں سے اہم رہی، وہیں اُس نے ادب ِ اطفال کے سلسلے میں نصابی کتب کی تیاری میں خاطر خواہ کردار اداکیا۔ علاوہ ازیں ”انجمنِ حمایت اسلام“ کا تذکرہ کیے بغیر بھی بچوں کے ادب کا مطالعہ نامکمل دکھائی دیتا ہے۔ اس انجمن نے جہاں یتیم بچوں کی کفالت کا کام سرانجام دیا ہے، وہیں ان کی فکری اور نظری تربیت کے لیے کہانیاں اورنظموں کو پیش کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اقبال کی کئی نظمیں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں پیش کی گئی ہیں۔اِس انجمن کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر تو ہمیں مختلف نوع کے مطالعات نظر آتے ہیں، لیکن ادب اطفال کے ضمن میں ان کوششوں کا مطالعہ تاحال نہیں ہوسکا ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل نظیر اکبر آبادی، سورج نرائن مہر، بے نظیر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے،فراق گورکھ پوری، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا تاجور نجیب آبادی، عبد المجید سالک، اختر شیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت سمیت بے شمار ادیبوں اور شعرانے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور مضامین لکھے۔
ان میں نظیر اکبر آبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہترین نظمیں لکھیں۔ مولانا آزاد، مولانا تاجورنجیب آبادی، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، حفیظ جالندھری، مولانا سالک اور مولانا حسرت نے نظم اور نثر دونوں میں لکھا، جب کہ مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم اور رگھو ناتھ سہائے نے بچوں کے لیے اخلاقی، اصلاحی اور دلچسپ نثری مضامین اور کہانیاں تخلیق کیں۔
ان تمام ادیبوں نے نظمیں، اصلاحی نثر پارے، کلاسیکل داستانوں اور قصوں کی تلخیص، تخیّلی داستانیں، حکایتیں اور کہانیاں، شکاریات کے موضوع پر قصے کہانی، تراجم جیسے موضوعات کا احاطہ کیا۔
اُردومیں بچوں کے لیے لکھے گئے ابتدائی ادب میں ہمیں نظموں کا ایک بڑا سلسلہ نظر آتا ہے۔ اِن نظموں میں موسیقیت اور ردیف قافیے کی تکرار بچوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔اس طرح کی نظموں میں قدرت کے مظاہروں مثلاً آسمان، پہاڑ، بارش، بادل، موسم، قدرتی مناظر سمیت چرند پرندوں اور جانوروں کے متعلق لکھا گیا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بچہ اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتا ہے اور اُن سے مانوس ہوتا ہے۔ بچوں کے ان شعرا نے اِنھیں روزمرہ کی چیزوں کو چھوٹی چھوٹی نظموں کے ذریعے بیان کیا ہے اور بے شمار نظمیں ان موضوعات پر لکھ دی ہیں جو اگر چہ اصلاحی نظمیں نہیں کہلائی جاسکتیں لیکن ان نظموں کو بچے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ خصوصاً نظیر اکبر آبادی کی نظمیں ان نظموں میں شمار کی جاسکتی ہیں جس میں وہ مختلف جانوروں اور قدرتی اشیا کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کی ریچھ کا بچہ، چڑیوں کی تسبیح، حلوہ، پتنگ بازی، برسات، دیوالی، شب برأت، عید، برتن، روٹیاں، تل کا لڈو، پنکھا، گلہری کا بچہ اور نارنگی کو اس ضمن میں پیش کیا جاسکتا ہے3۔
محمد حسین آزاد نے نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے تدریسی کتابیں بھی تیار کیں۔ جن میں اُردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کتابیں آزاد کی لکھی گئیں وہ کتابیں ہیں جو ایک عرصے تک اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ برسوں گزرجانے کے باوجودبھی آزاد کی سادہ لیکن ادبی چاشنی سے مزیّن تحریروں کا انداز ہی نرالا ہے۔ ان کتابوں میں جہاں آ پ کو جانوروں کی فہرست میں مور، کوا، بھینس، گھوڑا، اُونٹ، ہاتھی، کتا، نیولا، چیونٹی اور مکڑی کا بیان ملے گا،وہیں درختوں کی فہرست میں بڑ، پیپل، نیم، روئی اور گنے کا ذکر بھی دیکھنے کو ملے گا4۔
منشی محبوب عالم کی ادبی خدمات کو بھی ہم ایک دور سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اپنے پیسہ اخبار، کلیدِ امتحان، ہمت، زمیندار وباغبان وبیطار، اخبار عام، شریف بی بیاں، انتخاب لاجواب، دی سن The sun کا اجرا کر کے وہ جنوبی ایشیا میں اُردو صحافت کے حوالے سے ایک سنہری دور کا آغاز کر چکے تھے۔ بعد ازاں بچوں کے لیے سب سے پہلا باقاعدہ رسالہ ”بچوں کا اخبار“ مئی 1902ء میں اُنھوں نے جاری کر کے بچوں کے ادب کو ایک نئی جہت دی5۔
بچوں کا اخبار کے بعد بچوں کے لیے رسائل کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ سید امتیاز علی کا 1909ء میں شروع کردہ ہفت روزہ ”پھول“6، حامد حسن قادری کا 15 مارچ 1918ء کو اجرا کردہ ”سعید“7، ابو الکلام آزاد کی ایما پر 1922ء میں ”غنچہ“ کی اشاعت8 اورمکتبہ جامعہ ملیہ کا 1926ء کو باقاعدہ شائع ہونے والے ماہنامہ ”پیام تعلیم“ نے بچوں کے ادب کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا9۔ قیام ِپاکستان کے وقت یہ سب بچوں کے ادب کا ورثہ کہلایا۔
ایسا بالکل نہیں ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد بچوں کے اَدب نے اچانک کوئی کروٹ لی ہو، بلکہ یہ بتدریج بہتر ہوتا گیا تھا۔ اسے دوبارہ انھیں خطوط پر استوار کیا گیاجو ہمارے اہل قلم حضرات نے بچوں کا اَدب تخلیق کرتے ہوئے قائم کیا تھا، ان روایات کی روشنی میں پاکستان کے اہل قلم نے ادب ِ اطفال میں ایک سلیقے اور قرینے کے ساتھ نہ صرف اضافہ کیا،بلکہ اسے ترقی دیتے ہوئے عروج بخشا۔
قیام پاکستان کے بعد، چند اماموں، اطفال، جگنو، بچوں کا باغ، بچوں کی باجی، ٹوٹ بٹوٹ، پیغام، بچوں کا رسالہ، کوثر، ذہین، چاندتارا، شاہین، آنکھ مچولی، نونہال، ساتھی، جگمگ تارے، بچوں کا اسلام، ذوق وشوق، بچوں کا آشیانہ، الف نگر، چاند ستارے، نٹ کھٹ، پھول،انوکھی کہانیاں، بزم قرآن، کلیاں، چندا، کھیل کھیل میں سمیت سیکڑوں بچوں کے رسائل شائع ہوئے، جن میں کچھ اب بھی شائع ہورہے ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد اُن رسائل کی ہے جو حالات کی نذر ہوگئے10۔
اس دوران میں بچوں کا ادب دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوا۔ ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا جب کہ دوسرے حصے کو پاکستان میں موجود ادیبوں نے سینچا۔ اس طرح خالصتاً پاکستانی ادبِ اطفال وجود میں آیا۔ یہ ادب اطفال اُن روایات سے الگ تھا، جو ہمیں ورثے میں ملی تھیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمیں ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں پاکستانیات کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ اس وقت قوم کی ضرورت تھی کہ بچوں کو اِس نئے ملک سے روشناس کروایا جائے، اس لیے رسائل میں حب الوطنی کے موضوع پر کہانیوں، نظموں اور مضامین کی اشاعت کے علاوہ ایسی کتابیں لکھی گئیں جس میں پاکستان سے محبت کی تلقین ملتی ہے یا پھر پاکستان کے جغرافیے کے حوالے سے معلومات میسر آتی ہیں۔ بچوں کو مقاصدِ پاکستان اور جدوجہد ِآزادی سے روشناس کروانے کے لیے کلیم احمد کی ”پاکستان کی کہانی“، پاکستان کے احوال وکوائف واضح کرتی ہوئی زاہد حسین انجم کی ”پاکستان“، زینت غلام عباس کی ”دیس ہمارا پاکستان“، سید قاسم محمود کی ”قائد اعظم کی تصویر“منظر عام پر آئیں 11۔
تحریکِ پاکستان سے آگاہی اور قوم کو متحد کرنے کے لیے ایسی کتابوں کی ضرورت تھی اور ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کبھی ختم نہیں ہوگی اور اس موضوع پر کتابیں، تحریر یں لکھی جاتی رہیں گی۔ نت نئے مسائل کی وجہ سے موضوعات بدلتے رہیں گے لیکن حب وطن کے موضوع پر تحریروں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
قائداعظم، سر سید احمد خان، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر علی خان نے تحریک پاکستان میں کسی نہ کسی انداز میں حصہ لیا ہے،اس لیے وہ قومی ہیروز ہیں اور ان ہیروز پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح مسلمان سائنس دانوں کے حالات زندگی اور ان کے کارنامے، اسلامی تحریکوں کے راہنماؤں، حکمرانوں اور سپہ سالاروں پر بچوں کے لیے کتابیں لکھی گئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ محمد بن قاسم سے لے کر ٹیپو سلطان تک تمام ہیروز پر کتابیں لکھ کر بچوں میں اِن شخصیات سے محبت والفت پیداکرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر اس وقت بھی پاکستان وبھارت کے لیے ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس موضوع پر پاکستان میں کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھی گئیں، کتابیں بھی تصانیف ہوئیں جن میں تسنیم حمید کی ”جاگ اٹھا کشمیر“، بشیر احمد چودھری کی ”کشمیر کا بیٹا“، راز یوسفی کی ”کشمیر کی بیٹی“، آغا محمد اشرف کی ”کشمیر کا مجاہد“،قیوم نظامی کی ”پاک بھارت جنگ“، آغا محمد اشرف کی ”توپوں کی گھن گرج“،ریاض خان کی ”دو مجاہد“بشیراحمد چودھری کی ”چھمب کے مجاہد“ کے علاوہ”راجھستان کے فاتح“،”کھیم کرن کے فاتح“، ”لاہور کے رکھوالے“ شائع ہوئیں 12۔
بچوں کا ادب میں مہم جوئی اور جاسوسی پر مبنی کہانیوں کو بہت پسند کیا گیا۔ ان موضوعات کی بچوں میں مقبولیت کی وجہ سے سب سے زیادہ ادب اطفال انہی موضوعات پر تخلیق ہوا۔ان موضوعات کو زیادہ تر ناول کی صنف میں لکھا گیا۔ ان مشہور ناولوں میں، اُونچی حویلی کا راز، ایک ٹانگ کا آدمی، بھوت بنگلا، پانچ لاکھ، چاندی کے چور، پرندے کا راز، چمائی کا مندر، کامران اور شاہی خنجر، ہیروں کے چور،کلیم کے کارنامے شامل ہیں 13۔
اسی طرح مہمات کے حوالے سے،ایک سپاہی کی کہانی، چار دوستوں کا حیرت انگیز سفر، طوفانی جزیرہ، عرب کی بیٹی، خطرناک مہم اور زندہ لاشیں فیروز سنز نے شائع کیں۔ سائنسی مہمات کے حوالے سے،بھیانک غار، ارژنگ اور خوف ناک اژدھے، جاسوس حجام، نیلی روشنی کا راز لکھے گئے14۔
معاشرتی ناول بھی بچوں کے لیے بہت لکھے گئے اور انھیں پسند بھی کیا گیا۔ معاشرتی ناولوں سے جہاں زندگی کے نشیب وفراز سے بچے آشنا ہوتے ہیں، وہیں وہ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پاتے ہیں۔ ان معاشرتی ناولوں میں دولت پور میں، مجھ پر کیا گزری، میرا نام منگو ہے، ننھے شیطان کی ڈائری، نورا،دوست یا دشمنی، عالی پر کیا گزری،محمود پر کیا بیتی، سلیم کی آپ بیتی، چھہ برے لڑکے شامل ہیں 15۔
داستان امیر حمزہ اردو کی مشہور طویل داستان ہے۔اس کی 46 جلدیں ہیں اور ہر جلد دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ مقبول جہانگیر نے اس داستان کو بچوں کے لیے آسان زبان میں لکھا۔ اسے پہلے ”داستان امیر حمزہ“ کے نام سے دس حصوں میں لکھا، بعد میں ”طلسم ہوشربا“ کے نام سے اس کے دس مزید حصے اختر رضوی نے تحریر کیے16۔
رتن ناتھ سر شار نے ”ہزار داستان“ لکھی۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے، جسے مقبول جہانگیر نے کچھ یوں تحریر کیا ہے کہ اُسلوب اور زبان رتن ناتھ سر شار ہی کا لگتا ہے۔ اِس داستان کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ملکہ شہر زاد،گنجا لنگور، حجام اور قزاق، سند باد کے سات سفر، چین کی شہزادی، معروف موچیاس کے مختلف حصے ہیں 17۔
بچوں کے پاکستانی ادیبوں نے بچوں کے لیے لکھتے ہوئے ادب کی کم وبیش تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور کوئی صنف ایسی نہ چھوڑی جس میں اُنھوں نے اچھا ادب تخلیق نہ کیا ہو مگر ان کی زیادہ توجہ ناول اورمختصر کہانیاں لکھنے پر رہی۔ دنیا بھر میں بچوں کے لیے لکھا جانے والا زیادہ تر ادب اِنھیں دو اصناف پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد کہانیاں پڑھنا پسند کرتی ہے۔ ان کہانیوں اور ناولوں میں بہت زیادہ تنوع بھی نظر آتا ہے، ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں، دیووں، جادوگروں کی کہانیوں سمیت حیرت انگیز واقعات پر مبنی کہانیاں، سراغ رسانی کی کہانیاں، جنگلوں صحراؤں کی کہانیاں، شہروں کی کہانیاں، کلاسیکل کرداروں کی کہانیاں، سائنس فکشن اور سائنسی مہماتی کہانیوں کے موضوعات شامل ہیں۔
بچوں کے لیے مزاحیہ ادب بھی لکھا گیا لیکن اس کی تعداد بہت کم ہے۔ ”چچا چھکن“ کو امتیاز علی تاج نے انگریزی کے مشہور ادیب Jerome K. Jeromeسے متاثر ہوکر لکھا18۔ بعد ازاں اُردو میں اس طرح کے چچا ؤں اور ماموؤں پر کئی کردار بنائے گئے۔ ذکیہ بلگرامی نے چچا بھلکڑ19، ادریس قریشی نے چچا حیرت20، قاسم بن نظر نے چچا فلسفی21جب کہ جاوید بسام نے چچا ہادیپر طبع آزمائی کی22۔
بچوں کے لیے لکھے جانے والے اس ادب پر تجزیے وتبصروں کی تعداد جہاں بہت کم ہے، وہیں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں بھی بچوں کے ادب میں کئی حوالوں سے بہت کم کام ہوا ہے۔
اُردو زبان میں بچوں کے ادب پر پاکستان وہندوستان میں سب سے پہلا پی ایچ ڈی ”ڈاکٹر اسد اریب“ نے 1965ء میں کیا۔
اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں اُنھوں نے بچوں کے اس ابتدائی عہد کا تذکرہ کیا جب ”خالق باری“ لکھی جارہی تھی اور یہ سلسلہ ”قادر نامہ“ تک چلتا رہا۔ اس دوران میں بچوں کی تعلیم وتربیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قصیدہ درلغات ہندی، مقبول الصبیان، حفظ اللسان المعروف بہ خالق باری، اللہ خدائی، فرح الصبیان، نصاب مصطفی، حمد باری،ذدق الصبیان، آمدن نامہ، قادر نامہ، لولی نامہ احمدی، لولی نامہ سنیلکھی گئیں۔ مغرب کے اثرات اور نئے تعلیمی تقاضوں کے حوالے سے فورٹ ولیم کالج کا کردار اور انیسویں صدی میں اس طرز کی کتابیں جو محکمہ تعلیم نے شائع کیں یا کسی نہ کسی انگریز افسر کے اشتراک عمل سے وجود میں آئیں یا ان کی فرمائش / حکم پر لکھی گئیں ان کتب کا تذکرہ ہے جو بچوں کے حوالے سے کسی نہ کسی درجے میں رکھی جاسکتی ہیں 23۔
پی ایچ ڈی کے اس مقالے میں بچوں کے اشاعتی اداروں کا تذکرہ ہے، جس کے ذیل میں بچوں کے رسائل اور ادیبوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور آخر میں بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے چھوٹے بڑے تمام اداروں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔
اسد اریب نے شاعری کے حوالے سے بچوں کے مثالی ادب میں مولانا الطاف حسن حالیؔ، اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال، تلوک چند محروم، برج نارائن چکبست، شبلی نعمانی، سورج نرائن مہر، عظمت اللہ،صوفی غلام مصطفی تبسم، مہدی علی خان، اختر شیرانی، عبد المجید بھٹی، شیداکاشمیری، محشر بد ایوانی، حامد علی خان، سید مقبول حسین کی نظموں کا جائزہ لیا۔ بچوں کے نثری ادب کا جائزہ لینے کے بعد اُنھوں نے کچھ تجزیے کچھ تجاویز کے نام سے کہانی کے مختلف زاویوں پر بھی بحث کی۔ ڈاکٹر اسد اریب بر صغیر میں بچوں کے ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے ڈاکٹر ہیں اور ان کے اسی کام پر بچوں کے ادب میں تنقید کی بنیادیں استوار کی گئیں۔
ڈاکٹر محمود الرحمن نے بچوں کے ادب پر مفصل تبصرہ ”بچوں کا ادب“ کے نام سے کیا، جسے نیشنل پبلشنگ ہاؤس لمیٹڈ نے شائع کیا۔ 1970ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب بلا مبالغہ پی ایچ ڈی کا مقالہ محسوس ہوتا ہے جس میں بچوں کے اَدب کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں بچوں کے اَدب کے تعارف وتاریخ میں اُردو زبان میں بچوں کے اَدب کے ابتدائی دورکو بیان کیا گیا ہے۔ قدیم دور میں نظیراکبر آبادی اور مرزا غالب کا تذکرہ کیا گیاہے، اسی طرح بیسویں صدی میں بچوں کے اَدب پر پڑنے والے اثرات کے تحت نظم، کہانی اور ناول کے مصنّفین کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمود الرحمن نے ایک منفرد کام یہ کیا کہ ریڈیائی اَدب کا تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد جائزہ لیتے ہوئے اس شعبے کے اہم ناموں میں راجہ فاروق علی خان، عبدالماجد مرحوم، افضل صدیقی، ظفر اقبال، فاروق تیموری اور عصمت زہرہ کا تذکرہ کیا جنھوں نے اچھا لکھنے والوں سے متعدد چیزیں لکھوائیں۔ اسی باب میں اخبارات و رسائل کا بھی جائزہ لیا گیا24۔
پاکستان اور ہندوستان میں وقتاً فوقتاً بچوں کے اَدب کے حوالے سے تنقیدی کام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی نے ”اُردو میں بچوں کا ادب“ اور ”معمار ادب اطفال“ کتابیں تحریر کیں۔ ”اُردومیں بچوں کا ادب“ ڈاکٹر خوشحال زیدی کے پی ایچ ڈی کا موضوع تھا، جسے بعد ازاں کتابی شکل دی گئی۔ یہ مقالہ12 ابواب پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر بھارت سے نکلنے والی کتابوں اور رسائل کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان سے وابستہ مصنّفین کا تعارف دیا گیا ہے۔ بچوں کی نفسیات سمیت بچوں کے ادب کے بنیادی عناصر یعنی کہانی، ناول، ڈرامے کے نظریاتی پہلوؤں کامطالعہ پیش کیا گیا ہے25۔
بھارت ہی سے بچوں کے ادب کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ زیب النساء بیگم نے 1992ء میں ”اقبال اور بچوں کا ادب“ میں بچوں کے ادب کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کی نہ صرف نظموں کو بلکہ اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نثراُردو کورس(چھٹی،ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے) تاریخ ہند، آئینہ عجم، انتخابِ بیدل کا بھی مطالعہ پیش کیا ہے26۔
نعیم الدین زبیری نے ”بچوں کے اسماعیل میرٹھی“27 کے حوالے سے جب کہ ممبئی سے محمد مسلم غازی نے ”بچوں کے مرتضیٰ ساحل“ کی تخلیقات کا مطالعہ پیش کیا28۔
اسلم فرخی کے دو تفصیلی تبصرے ”مکتبہ پیام تعلیم“ نے شائع کیے۔ جن میں ”بچوں کے مرزا غالب“ اور ”بچوں کے رنگا رنگ خسرو“شامل ہیں 29۔
سیدہ سیرین حمید نے ”بچوں کے الطاف حسین حالی“30، عاصم شاہ نواز شبلی نے مغربی بنگال میں لکھے جانے والے بچوں کے ادب کا جائزہ ”مغربی بنگال اور بچوں کا ادب“ کے نام سے کیا ہے31۔ نئی دہلی میں قائم بچوں کا ادبی ٹرسٹ نے بچوں کے ادب کے حوالے سے سروے کروایا جسے بعد ازاں ”بچوں کے ادب کا سیمپل سروے“ کے نام سے شائع کیا32۔
”بچوں کے ادب کی خصوصیات“ کے حوالے سے مشیر فاطمہ نے بہت اہم کام کیا اور اِس اہم موضوع پر بچوں کے اَدب کی خصوصیات کے نام سے کتاب تحریر کی33۔ پٹنہ سے سید محمد اجمل جامعی نے ”بچوں کے شاعر“کے نام سے تحقیقی کتاب لکھی جس میں اُنھوں نے تقسیم سے قبل کے شعرا اور تقسیم کے بعد ہندوستان کے شعرا کا تعارف اور نمونہ کلام پیش کیا ہے۔ اس کتاب سے بہت سے شاعروں کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔ ان شعرا میں نظیر اکبر آبادی، پروفیسر عبدالغفور شہباز، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی، مولوی اسماعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی، مولانا شبلی نعمانی، منشی درگا سہائے سرور، ڈاکٹر سر اقبال، پنڈت برج نارائن چکبست، منشی تلوک چند محروم، مولانا غلام رسول، قوس حمزہ پوری شیر گھاٹوی، حامد اللہ افسر، محمود اسرائیل، منشی سورج نارائن مہر دہلوی، اندر جیت شرما، ناظم میواتی، شوکت تھانوی، عبدالحفیظ جالندھری، مولوی شفیع الدین نیر، سید شاہ احسن الدین احمد، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، احمد پرویز، سید ابراہیم بلخ نادم، علقمہ شبلی، ناوک حمزہ پوری، ڈاکٹر محبوب راہی، ڈاکٹر مناظرعاشق ہر گانوی، نذیر فتح پوری، ظفر ہاشمی، سید مشتاق جوش ادیب کے نام شامل ہیں 34۔
ہندوستان میں بچوں کے لیے دیگر تحقیقی کاموں میں پروفیسر اکبر رحمانی نے ”اُردو میں ادب اطفال ایک جائزہ“35، محمد رضا فراز نے ”اُردومیں بچوں کاسائنسی ادب“36جب کہ محمد خالد نے ”اُردو اور ہندی میں بچوں کے نثری ادب“37کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔محمد خالد کا یہ کام پی ایچ ڈی سطح کا ہے، جس سے اُردو اور ہندی میں بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
پاکستان سے شیما مجید نے ”بچے اور ادب“ کے نام سے مختلف لکھنے والے نامور ادیبوں کی تحریروں کو مرتب کیا ہے۔ انتظار حسین، محمود الرحمن، میرا ادیب، ذولفقار احمد تابشؔ، سید امتیاز علی تاج، ریاض صدیقی اور خاطر غزنوی وغیرہم نے بچوں کی کتابوں کی زبان، بچوں کے لیے سیرت کا ادب، بچوں کے لیے جاسوسی ادب پاکستان میں بچوں کا ادب اور مسائل اور ریڈیو اور ٹیلی وژن کا ادب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ بچوں کے ادیب بھی تھے، بچوں کے ادب اور اس کے مسائل سے ان سے زیادہ کون واقف ہوگا،بچے اور ادب میں شیما مجید نے مختلف موضوعات کو جمع کرکے ادب اطفال کو سمجھانے کی کوشش کی ہے38۔
ڈاکٹر محمد افتخار کھو کھرنے ”روشنی کا سفر“ میں دعوۃ اکیڈمی، شعبہ بچوں کا ادب میں پچیس سال کے دوران میں ہونے والے کاموں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ بچوں کے ادب کا تعارف کرواتے ہوئے بچوں کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور انجمنوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ دعوۃ اکیڈمی کی ہونے والی ورکشاپس، کیمپس، کتابوں کی اشاعت کے علاوہ سیکڑوں کاموں کی تفصیل اس کتاب میں کم وبیش موجود ہے39۔ ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کے ان تمام کاموں پر مہرین صبا نے ”ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر اور بچوں کے ا دب کا تجزیاتی مطالعہ“ میں اُن کی خدمات کا جائزہ لیا ہے40۔
پاکستان میں حالیہ چند برسوں میں ماسٹر، ایم فل پروگرام کے تحت بچوں کے اَدب پر بہت سے مقالے لکھے گئے ہیں جن میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا نام نمایا ں ہے،جہاں بچوں کے اَدب کے حوالے سے مختلف ادیبوں پر تحقیقی نوعیت کا کام کیا گیا ہے۔
2017ء میں محمد جنید مجیب نے ”بچوں کا ادب اور نذیر انبالوی“ کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا41۔ مزمل صدیقی نے ”بچوں کی منتخب ادیبوں کی آپ بیتیوں“کا تحقیقی مطالعہ کیا42۔ مزمل صدیقی نے یہ جائزہ بی ایس سطح کی ڈگری پر تحریر کیاجب کہ ایم فل پروگرام میں اُنھوں نے ”ادب اطفال اور اُردو افسانہ نگار“کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا43۔
جواد احمد نے ”عبد الرشید فاروقی اور بچوں کا اَدب“44، علی رضا نے ”ادب اطفال اوراحمد عدنان طارق کی خدمات“45، عامر خاں نے ”علی اکمل تصورکی ادب اطفال میں خدمات“46،جب کہ فرحت کوثر نے ”بچوں کا ادب اور نیر رانی“47پر مختلف سندی مقالے لکھے۔
بچوں کا اَدب کے آغاز سے لے کر 1960ء کی دہائی تک اسد اریب نے 1960ء سے 1963ء کے دوران اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جب کہ اس جائزے میں اضافہ ڈاکٹر محمود الرحمن نے کیا۔ ان کا تحقیقی کام 1970ء میں منظر عام پر آیا، اس کے علاوہ دیگر ہونے والا تحقیقی کام مختلف مصنّفین کی انفرادی کوششوں کا احوال بیان کرتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی تھی کہ1970ء کے بعد کے دور کا مطالعہ کیا جائے۔ اس دور میں اگر چہ بے شمار کتابیں اور رسائل شائع ہوتے رہے لیکن چار رسائل ایسے رہے جنھوں نے بچوں کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان رسائل کا مبسوط مطالعہ ناگزیر تھا تاکہ ان کی جملہ خصوصیات کا پتا چل سکے۔
1970ء کے بعد معاشرتی اور سماجی تبدیلی نے بچوں کے ادب اور مزاج پر کئی حوالوں سے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ دور کافی ہنگامہ خیز ثابت ہوا ہے،پاکستان میں برپا ہونے والی سیاسی تبدیلی اور نظریاتی سطح پر غیر مستحکم رویوں نے بچوں پر بھی فکری افلاس کو مرتب کردیا تھا، ایسے میں پاکستان بھر میں شائع ہونے والے رسائل وجرائد نے اس عہد کے نوزائیدہ ذہن میں پاکستان سے محبت اور الفت کا بیج بویا، ان کی تربیت کا سامان ادبِ اطفال کے حوالے کیا۔جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کی ٹوٹتی ہوئی فکری ربط کی زنجیر ایک لڑی میں پیوستہ ہوگئی۔
اِس مقالے میں 1970ء کے بعد نکلنے والے رسائل وجرائد کا درج بالا سطور کے حوالے سے مطالعہ پیش کیا گیا، ساتھ ساتھ ان ادیبوں کی کوششوں اور کاوشوں کو اس مقالے میں جگہ دی گئی ہے جو صرف بچوں سے وابستہ تھے اور ادبی تاریخ میں گم ہوگئے تھے۔ بچوں کے ادیبوں کو ہماری ادبی تاریخ میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ اصل میں اُنھیں ایک محدود دائرے کا ادیب تصور کرکے ان کے مقام سے کوتاہی برتی گئی ہے۔
یہ مقالہ اس نسل کی تاریخ کو یاد دلانے کی ایک کوشش ہے کہ ان ادیبوں نے ہمارے معاشرے کی ایک پوری نسل کی ذہن سازی میں اپنے رشحات قلم کے ذریعے آپ کی تربیت کا اہتمام کیا۔اس طرح یہ مقالہ تاریخ کے ایک خلا کو پُر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
1970 ء کے بعد جدید رجحانات کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے بچوں کے رسائل میں موضوعات، اسالیب، رنگین تصاویر، سر گرمیوں سمیت نظم ونثر میں مصنّفین کے کیے گئے کاموں میں بہت سی تبدیلیاں در آئیں۔ اسِ مقالے میں ان تمام موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس مقالے کے پہلے باب میں بچوں کے ادب کا تعارف کروایا گیا کہ بچوں کا ادب کسے کہا جائے گا؟ اہل علم وقلم کس قسم کے ادب کو بچوں کا ادب گردانتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے رسائل میں لکھی جانے والی تحریروں میں کس قسم کی خصوصیات ہونی چاہییں؟ منطقی ادب اور بچوں کے لیے لکھے جانے والے غیر منطقی ادب میں تمیز کرواتے ہوئے کہانیوں میں تحرک،آسان زبان کا استعمال، مشکل اور نئے الفاظ میں تفاوت کا جائزہ لیا گیا ہے۔تحریر کی خوبیوں کو چارٹ سے واضح کیا گیا۔بچوں کے ادب کا تاریخی جائزہ لیا گیا کہ ابتدا میں کس قسم کی کتابیں اور رسائل بچوں کی تعلیم وتفریح کے لیے نکالے گئے تھے۔
دوسرے حصے میں بچوں کے چار رسائل ماہنامہ تعلیم وتربیت، نونہال، آنکھ مچولی اور ساتھی کا جائزہ لیا گیا ہے کہ اس عرصے میں ان رسائل میں موضوعات کے اعتبار سے کہانیاں، نظمیں، تصاویر اور اسکیچز کس نوع کی شائع ہوتی رہیں، ان کی انفرادیت کو آپ اس مقالے میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس جائزے کے دوران میں مختلف جگہوں پر رسائل میں افادیت کے حوالے سے مؤثر کہانیوں، نظموں کی نشاندہی کی گئی ہے اور افادیت میں خلا رہ جانے والے مقامات کو بھی نمایاں کیا گیا۔ جب کہ شائع ہونے والی کہانیوں، نظموں اور مضامین کی منتخب فہرست بھی شائع کی گئی ہے۔
باب سوم میں اس دور کے نمایاں اُدبا و شعرا کا مختصر تعارف اور ان کے کاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں بہت سے ادیب ایسے ہیں جن کی کہانیاں صرف رسائل میں شائع ہوئیں اور کتابی شکل میں نہ آنے کی وجہ سے نمایاں نہ ہوسکیں۔بہت سارے شعرا کا کلام اُن رسائل میں دفن ہے۔ اِن کہانیوں اور نظموں کا ازسرِ نو جائزہ لے کر زندہ کیا گیا ہے۔ ان میں بہت سے ادیب وشعرا ایسے بھی ہیں جن کی بچوں کے لیے خدمات بے تحاشا ہیں لیکن وہ ادبی تاریخ میں گم ہوکر رہ گئے اور ان کا یادگار کام منظر عام پر نہ آسکا۔ ادیبوں اور شاعروں کے اس خصوصی تذکرے میں ان کی کہانی یا نظم کا نمونہ بھی دیا گیا ہے۔
باب چہارم میں بچوں کے رسائل اور معاشرے پر ان کے اثرات کا جائزہ اخلاقی، قومی، مذہبی اور زبان پر اثرات کے تحت لیا گیا ہے۔ ان رسائل نے کئی نسلوں کو محظوظ کرنے کے ساتھ ان کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے بھی فرائض سر انجام دیے ہیں۔بچوں کے اخلاق پر کہانیوں اور نظموں کے اثر کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔جذبہ حب الوطنی کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ادب اطفال نے بچوں کی نظریاتی سطح پر کس طرح آبیاری کی ہے، اسی طرح بچوں میں دینی رجحان کے فروغ میں یہ رسائل کیسے ممدومعاون ثابت ہوئے اور ان کی زبان وبیان پر رسائل نے کیا اثرات مرتب کیے۔
باب پنجم میں بچوں کے نمائندہ سر پرست ادارے اور ناشران کا تعارف اور ان کے دور میں شائع ہونے والی کتابوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔بچوں کے لیے رسائل عموماً بڑے ناشران ہی نے شائع کیے اور ان رسائل میں شائع ہونے والی کہانیوں کو کتابی صورت میں بھی یہی ناشران قارئین کے سامنے پیش کرتے رہے۔ رسائل کے ساتھ کتابوں کی اشاعت میں ناشران نے کن چیزوں کا خیال رکھا، تعداد اور معیار کے لحاظ سے سرفہرست اداروں کا جائزہ اس حصے میں زیر مطالعہ رہا۔
بچوں کے ادب میں بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن پر اب تک کام نہیں ہوسکا۔ بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے تمام اداروں پر نہ صرف کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے اَدب کے تمام شعبہ جات واصناف میں لکھی گئیں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح بچوں کے رسائل پر بھی تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے۔ رسائل میں بے شمار موضوعات ایسے ہیں جنھیں نمایاں کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کے رسائل میں شائع ہونے والی کہانیوں، نظموں، مضامین، لطائف، حکایتوں کے علاوہ مختلف انعامی اور عمومی سرگرمیوں کا تحقیقی جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔
بچوں میں مطالعے کی کمی کے اسباب کا بھی پتا چلانا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچوں کے لیے اچھے اور معیاری ادب کے فقدان کے باعث نئی نسل بچوں کے ادب سے دور ہوتی جارہی ہے۔
حوالہ وحواشی:
1۔ حسین، انتظار، 2002ء، کلیلہ ودمنہ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص2
2۔ کرشن، بال، ستمبر 2000ء، سنڈریلا، مکتبہ جدید، نئی دہلی، ص5
3۔ پرویز، اطہر، جولائی 1959ء، بچوں کے نظیر، اُردو گھر، علی گڑھ، ص12
4۔ آزاد، محمد حسین، جون 1963ء، اُردو کی چوتھی کتاب، فیروز سنز، کراچی، ص 8
5۔ بچوں کا اخبار، ماہنامہ، جولائی 1902ء، خادم التعلیم سٹیم پریس، لاہور، ص2
6۔ محمود الرحمن، 1970ء، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہاؤس لمیٹڈ، کراچی،ص 456
7۔ _____،ایضاً، ص 459
8۔ _____،ایضاً، ص 490
9۔ _____،ایضاً، ص 492
10۔ کھوکھر، محمد افتخار، 2013ء، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص217
11۔ ادیب، مرزا، مئی 1978ء، پاکستان میں بچوں کا ادب، مشمولہ: ماہنامہ’کتاب‘، نیشنل بک کونسل آف پاکستان، ص6
12۔ _____،ایضاً، ص7
13۔ سعید، احمد، 1990ء، اونچی حویلی کا راز، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور،ص13
14۔ حسام، سیف الدین، 1975ء، جاسوس حجام، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور، ص22
15۔ اثری، عزیز، 1977ء، عالی پر کیا گزری، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور، ص32
16۔ جہانگیر، مقبول،1975ء، بادشاہ کا خواب، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور، ص 22
17۔ _______،1976ء، ملکہ شہرزاد، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور، ص 12
18۔ تاج، امتیاز علی، 2013ء، چچا چھکن،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص23
19۔ بلگرامی، ذکیہ، 2002ء، چچا بھلکڑ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص12
20۔ قریشی، محمد ادریس، 2018ء، چچا حیرت، بچوں کا کتاب گھر، لاہور، ص 61
21۔ قاسم بن نظر،2007ء، چچا فلسفی، مشمولہ: ماہنامہ’ساتھی‘، کراچی، ص44
22۔ بسام، جاوید، فروری2016، چچا ہادی نے کیا شکار، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، کراچی، ص24
23۔ اریب،اسد، ڈاکٹر، 1982ء، بچوں کا ادب، کاروان ادب، ملتان، ص: 41
24۔ محمود الرحمن، 1970ء، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہاؤس لمیٹڈ، کراچی 439
25۔ زیدی، خوش حال، ڈاکٹر، مارچ،1989ء، اردو میں بچوں کا ادب، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص 5
26۔ بیگم، زیب النساء، 1992ء، اقبال اور بچوں کا ادب، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، ص123
27۔ زبیری، نعیم الدین، نومبر 1991ء، بچوں کے اسماعیل میرٹھی، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، ص26
28۔ غازی، محمد مسلم، 1994ء، بچوں کے مرتضیٰ ساحل، سید پبلشنگ کمپنی، نئی دہلی، ص22
29۔ فرخی، اسلم،فروری 2011ء، بچوں کے مرزا غالب، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، ص 32
30۔ حمید، سیرین، سیدہ، فروری2011ء، بچوں کے الطاف حسین حالی، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، ص 2
31۔ شبلی، عاصم شاہ نواز، جنوری 1994ء، مغربی بنگال اور بچوں کا ادب، مغربی بنگال اردو اکادمی، کلکتہ، ص28
32۔ حیدر،غلام،2012ء، بچوں کے ادب کا سیمپل سروے، بچوں کا ادبی ٹرسٹ، نئی دہلی،ص 10
33۔ فاطمہ،مشیر،1962ء، بچوں کے ادب کی خصوصیات،انجمن ترقی اُردو(ہند)،علی گڑھ،ص 29
34۔ جامعی،سید محمد اجمل،1993ء بچوں کے شاعر، گڈول پبلی کیشن، ٹپنہ، ص5
35۔ رحمانی،اکبر، پروفیسر، دسمبر1991ء، اُردو میں ادب اطفال ایک جائزہ، ایجوکیشنل اکادمی، اسلام پورہ، جلگاؤں، ص31
36۔ فراز، محمد رضا،جون 2017ء، اُردومیں بچوں کاسائنسی ادب،مشمولہ: ’اُردو ریسرچ جرنل‘، دہلی یونیورسٹی، دہلی، ص39
37۔ خالد، محمد، اُردو اور ہندی میں بچوں کے نثری ادب، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ص2
39۔ مجید، شیما، 1985ء، بچے اور ادب، مشمولہ: ’بچوں میں مطالعہ کی عادات‘، گلوب پبلشرز، لاہور،ص 2
39۔ کھوکھر، محمد افتخار، 2013ء، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص6
40۔ صبا، مہرین، 2020ء، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر اور بچوں کے ا دب کا تجزیاتی مطالعہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،
اسلام آباد، ص22
41۔ مجیب، محمدجنید،2017ء، بچوں کا ادب اور نذیر انبالوی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، ص2
42۔ صدیقی، مزمل،2019ء، بچوں کی منتخب ادیبوں کی آپ بیتیوں کا تحقیقی مطالعہ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، ص2
43۔ ______،2021ء، ادب اطفال اور اُردو افسانہ نگار،ادارہ زبان وبیان اردو، جامعہ پنجاب، لاہور، ص2
44۔ احمد، جواد، 2019ء، عبد الرشید فاروقی اور بچوں کا اَدب، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، ص2
45۔ رضا، علی،2020ء، ادب اطفال اوراحمد عدنان طارق کی خدمات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، ص2
46۔ خاں، عامر،2019ء،علی اکمل تصورکی ادب اطفال میں خدمات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد، ص2
47۔ کوثر، فرحت، 2018ء،بچوں کا ادب اور نیر رانی،گورنمنٹ کالج، لاہور،ص21