skip to Main Content

خون

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

ہسپتال میں اچھی خاصی بھیڑ تھی۔ یوں تو اس ہسپتال میں روزانہ بڑی تعداد میں مریض آتے تھے لیکن آج اتنا ہجوم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ شہر سے گاؤں جانے والی ایک بس کو حادثہ پیش آ گیا تھا۔ جس میں تیس سے زیادہ افراد زخمی تھے، جنھیں ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تھا۔ کئی زخمیوں کی حالت نازک تھی۔ اُن کے آپریشن فوراً ہونے تھے۔ خون زیادہ بہ جانے کی وجہ سے بھی ان زخمیوں کی جان خطرے میں تھی، اس لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بار بار اعلان کیا جا رہا تھا کہ صحت مند افراد بڑے ہسپتال پہنچ کر خون کے عطیات دیں تاکہ زخمیوں کی جان بچائی جا سکے۔
نوید نے بھی ریڈیو پر یہ اعلان سنا تھا۔ اس نے اس حادثے میں زخمی ہونے والوں کے لیے جلد صحت یاب ہونے کی دعا بھی مانگی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ہسپتال جا کر خون کا عطیہ دے۔ نوید نے اپنے دوست افضل سے مشورہ کیا۔ وہ دونوں اپنے گھر والوں سے اجازت لے کر ہسپتال پہنچے۔ وہاں بہت سے لوگ خون دینے کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن ہسپتال والوں نے نوید اور افضل کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ ابھی آپ کی عمر کم ہے۔
رات میں ڈاکٹر خورشید گھر نہیں آئے کیونکہ وہ زخمیوں کی جانیں بچانے میں مصروف تھے۔ اُن سے نوید کی ملاقات تین روز بعد ہو سکی۔ نوید نے پہلے تو زخمیوں کی خیریت دریافت کی۔ ڈاکٹر خورشید نے بتایا کہ فوری طور پر خون مل جانے کی وجہ سے چوبیس شدید زخمی افراد کی جانیں بچالی گئیں۔ آپریشن ہوئے اور اب الحمد اللہ سب زخمی تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
”بھائی جان، کیا خون بہ جانے سے دل کام نہیں کر سکتا؟“ نوید نے سوال کیا۔
”صرف دل؟ ارے بھائی، خون بہ جانے کے نتیجے میں جسم کا کوئی بھی حصہ کام نہیں کر سکے گا۔ اس لیے کہ ہم زندہ اس لیے ہیں کہ ہماری ہر سانس کے ساتھ آکسیجن ہمارے جسم میں پہنچ رہی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نہایت حیرت انگیز اور پیچیدہ نظام ہے جو خود کار طریقے سے کام کر رہا ہے اور ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوتی، حالانکہ ہمیں تو ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔“
”بھائی جان، خون اور کیا کام انجام دیتا ہے؟“ نوید نے پوچھا۔
”پہلے یہ سُن لو کہ خون ہوتا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں تقریباً پانچ لیٹر خون پیدا فرمایا ہے۔ اس خون میں بہت ہی چھوٹے خلیے پائے جاتے ہیں۔ خون میں مائع حصہ یعنی پانی پچپن فی صد ہوتا ہے۔ خون کے گاڑھا ہونے کی وجہ اس میں مختلف خلیے مثلاً سرخ خلیے، سفید خلیے، شکر اور مختلف لحمیات ہوتے ہیں۔ خون میں کئی نمکیات، دیگر کیمیائی اجزاء، چکنائی اور گلوکوز بھی ہوتا ہے۔ یہ سب چیزیں ہماری صحت کے لیے ضروری ہیں اور اگر کسی وجہ سے خون کے اُن اجزاء کی مقدار میں کمی یا اضافہ ہو جاتا ہے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے، بعض اوقات مر بھی سکتا ہے۔ یہ تو، ہم پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے جسم میں جو کیمیائی اجزاء موجود ہیں، ان کی مقدار عام طور پر اتنی ہی برقرار رہتی ہے، جتنی کہ جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔“
”بھائی جان!خون میں سرخ خلیے کتنے ہوتے ہیں؟“ نوید نے پوچھا۔
”بہت زیادہ۔ اتنے کہ ہماری گنتی ختم ہو جائے گی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگاؤ کہ اگر ایک مکعب ملی میٹر کا ڈبہ لیں، یعنی ایسا چوکور ڈبہ جس کی ہر دیوار صرف ایک ملی میٹر کی ہو، تو اس ننھے سے ڈبے میں پچاس لاکھ سرخ خلیے سماجائیں گے۔“
”کیسے ممکن ہے؟“نوید نے حیرت سے پوچھا۔
”اللہ کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں۔ اب خود اندازہ لگاؤ کہ صرف ایک مکعب ملی میٹر جگہ میں خون کے پچاس لاکھ خلیے آ جاتے ہیں تو ان میں سے ہر خلیہ کتنا بڑا ہوگا اور پورے پانچ لیٹر خون میں، کتنے بہت سے سرخ خلیے ہوں گے۔“ ڈاکٹرخورشید نے اطمینان سے کہا، پھر وہ بولے:
”تمہارا کیا خیال ہے، خون کے ایک سرخ خلیے کی کیا عمر ہوتی ہو گی؟“
”عمر؟ یعنی ایک خلیہ کتنے عرصے رہتا ہے؟ شاید ہماری عمر کے برابر ہوگا۔“ نوید نے سوچ کر کہا۔
”نہیں، خون کے ایک خلیے کی عمر صرف ایک سو بیس دن ہوتی ہے۔“
”پھر یہ کہاں جاتا ہے؟“
”پھر یہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور جسم کا خود کار نظام اس میں موجود لو ہے کو جسم کے کسی اور استعمال میں لے آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ہر سیکنڈ پر بیس لاکھ سرخ خلیے ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں اور بیس لاکھ نئے سرخ خلیے ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہوتے رہتے ہیں۔“
”یعنی، اتنی تیزی سے لاکھوں نئے خلیے تیار بھی ہو رہے ہوتے ہیں، اورہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔“نوید نے تعجب سے کہا۔
”ہاں، یہ سب اللہ کا خاص کرم ہے۔ ہماری کئی ہڈیوں میں جو گودا ہوتا ہے، اس میں خون کے سرخ خلیے تیزی سے تیار ہو کر خون میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر سرخ خلیوں کا یہ کارخانہ کام بند کر دے یا اس کی رفتار سست ہو جائے تو انسان کی موت واقع ہو جائے گی، کیونکہ خون کے سرخ خلیے ٹوٹتے تو رہیں گے، ان کی جگہ لینے کے لیے نئے خلیے نہیں آئیں گے۔ اچھا ایک اور دلچسپ بات سنو۔ خون کا ایک خلیہ اپنی ایک سو بیس دن یعنی تقریباً چار ماہ کی عمر میں، خون کے ساتھ پورے جسم میں گھومتا پھرتا ہے۔ تم اندازہ کر سکتے ہو، ان چار مہینوں میں یہ کتنا فاصلہ طے کر لیتا ہو گا؟“
”شاید پانچ میل!“ نوید نے اندازہ لگایا۔
”صرف پانچ میل؟ ارے بھائی، یہ ننھا سا خلیہ، ہمارے جسم میں چکر لگاتے ہوئے چار ماہ میں ایک ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے؟“ ڈاکٹر خورشید مُسکراکر بولے۔
”بھائی جان، خون انہی سرخ خلیوں کی وجہ سے سرخ نظر آتا ہے؟“نوید نے سوال کیا۔
”ہاں، اور سرخ خلیے اس لیے سرخ رنگ کے ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر ہیموگلوبن ہوتا ہے۔ یہ بے حد ضروری کیمیائی مادہ ہے، اگر یہ نہ ہو تو ہم سانس کے ذریعے سے جو آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں ہر روز بے شمار مرتبہ لے جاتے ہیں، وہ ہمارے جسم کے مختلف حصوں میں پہنچ ہی نہ سکے۔ ہیموگلوبن ہی آکسیجن کو جسم کے گوشے گوشے میں پہنچاتا ہے، یہ آکسیجن جسم کے ہر خلیے میں پہنچتی ہے اور وہاں کیمیائی عمل ہوتے ہیں جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ بنتی ہے، جسے ہیموگلوبن خون کے ساتھ لے کر ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچا دیتا ہے۔ ہم اس کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنی سانس کے ساتھ ناک کے راستے باہر خارج کر دیتے ہیں۔ اگر یہ ہیموگلوبن نہ ہوتا تو ہمیں جسم کے ہر خلیے تک آکسیجن پہنچانے کے لیے خون کی موجودہ مقدار پانچ لیٹر کی بجائے تین سو پچھتر (375) لیٹر خون کی ضرورت پڑتی۔“
”بھائی جان، خون میں سفید خلیوں کا کیا کام ہے؟“
”وہی، جو پہرے داروں کا ہوتا ہے۔ سفید خلیے بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان کی تعداد سرخ خلیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے یعنی ایک مکعب ملی میٹر میں پانچ ہزار سے دس ہزار سفید خلیے ہوتے ہیں۔ ان کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور ہر قسم کا سفید خلیہ ہمارے جسم میں چوکیداری کا کام کرتا ہے، یعنی جو نقصان پہنچانے والے جراثیم ہمارے جسم میں پہنچ جاتے ہیں، یہ سفید خلیے ان کو کھا جاتے ہیں اور ان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ جراثیم کے مقابلے کے لیے دوسرے کیمیائی مادے بھی تیار کرتے ہیں۔ سفید خلیوں کے علاوہ ہمارے خون میں طشتریاں بھی ہوتی ہیں۔“
”طشتریاں؟“نوید نے چونک کر پوچھا۔
”ہاں یہ بھی ایک طرح کے خلیے ہوتے ہیں۔ ایک مکعب ملی میٹر میں دو لاکھ سے تین لاکھ طشتریاں ہوتی ہیں۔ یہ خون میں خاموشی سے تیرتی رہتی ہیں لیکن جوں ہی کہیں چوٹ لگنے سے جسم کی جلد کٹ جائے اور خون نکلنے لگے، یہ طشتریاں فوراً ایک دوسرے سے مل کر ایک جال سا بناتی ہیں اور متاثر ہونے والی رگ کی دیواروں سے چمٹ جاتی ہیں۔ وہ ایک کیمیائی مادہ بھی خارج کرتی ہیں جس کی وجہ سے خون کی ایک پروٹین تبدیل ہو کر ریشہ نماشے بن جاتی ہے، ریشے کے اس جال میں خون کے سرخ اور سفید خلیے قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ زخم لگنے کے بعد چند سیکنڈ میں یہ عمل ہو جاتا ہے۔ اس طرح خون زیادہ بہنے نہیں پاتا اور جم جاتا ہے۔ دیکھا تم نے، جسم کے اندر تو خون روانی سے گردش کرتا رہتا ہے لیکن جوں ہی وہ جسم سے باہر نکل آتا ہے اور اسے ہوا لگتی ہے، وہ جم جاتا ہے۔“
”اس کا مطلب یہ ہے کہ خون بہت سارے کام کرتا ہے۔“
”اس میں کیا شک ہے۔ خون ہمارے جسم کے ہر حصے کو کام کے قابل بنانے اور زندہ رکھنے کے لیے، اس تک آکسیجن اور غذا پہنچاتا ہے۔ مختلف اعضاء کو مختلف درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس حصے کو جتنی حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، اتنی ہی مقدار میں خون وہاں پہنچتا ہے،ویسے خون کا درجہ حرارت صحت مندی کی حالت میں یکساں رہتا ہے یعنی اٹھانوے اعشاریہ چھے فارن ہائٹ یا سینتیس درجے سینٹی گریڈ۔ جسم میں بہت سے اہم غدود ایسے ہیں جو رطوبتیں خارج کرتے ہیں۔ خون ان رطوبتوں کو مختلف اعضاء تک پہنچاتا ہے، تا کہ وہ درست کام کریں۔“
”بھائی جان! آج کی ”خونی گفتگو“بہت مفید رہی!“ نوید نے شرارت سے کہا۔
”خونی گفتگو؟ اچھا، بڑے شریر ہو گئے ہو، چلو اب جاؤ، مجھے کام کرنا ہے۔“ ڈاکٹر خورشید مُسکراتے ہوئے بولے اور نوید انہیں سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top