جواب
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”مانکی! دیکھو، و ہ آرہا ہے۔“ کارنکو نے سرگوشی کی۔
”ہاں! آج یہ بچ کر نہیں جا سکے گا۔“ مانکی نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ پھر جیسے ہی وہ اُن کے نزدیک پہنچا۔ دونوں جھاڑیوں سے نکل کر، اس کے سامنے آگئے۔ ان کا شکار ایک ریچھ تھا۔ وہ ٹھٹک کر رُک گیا اور انہیں عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔ دفعتاًاُس کے چہرے پر غصہ کے آثار اُبھرے:
”تم نے پھر میرا راستہ روکنے کی کوشش کی ……“
”کمینے ریچھ! ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، تم نے ہمارے بھائی کو مارا تھا، ہم اُس کا بدلہ لے کے رہیں گے۔“ مانکی نے غصے سے کہا۔
”بے وقوف بندر…… کیوں اپنی جان کا دشمن ہو گیا ہے، میری مان، جا چلا جا یہاں سے اور آئندہ بھول کر بھی میرا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ…“ ریچھ نے مستی میں جھومتے ہوئے کہا۔
”تم کچھ بھی کہو، ہم آج بدلہ لے کر رہیں گے۔“
”لگتا ہے، پہلی پٹائی بھول چکے ہو۔“کالو ریچھ نے کہا اور خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا۔
مانکی نے کارنکو کی جانب دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کیا۔ پھراچانک اُس نے ریچھ پر چھلانگ لگا دی۔ ریچھ کے منھ سے چیخ نکل گئی، چیخ تو مانکی کے منھ سے بھی خارج ہوئی تھی۔ وہ جونہی ریچھ سے ٹکرایا تھا، ریچھ نے اپنا پنجہ مانکی کے جڑ دیا تھا۔
جب کارنکو نے دیکھا کہ مانکی پنجہ کھا کر دُور جا گرا ہے تو اُس نے ریچھ کی طرف دوڑ لگا دی اور سیدھا اُس سے جا ٹکرایا۔ ریچھ چوں کہ جسامت میں اُس سے کافی بڑا تھا، اس لیے اُسے تو کچھ نہ ہوا، کارنکو کے چوٹ لگ گئی۔ اب کارنکو اور مانکی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اچانک مانکی نے دانت نکال دیے اور ساتھ ہی کارنکو کو اشارے سے حملہ کرنے کے لیے کہا اور خود ایک طرف بڑھ گیا۔ ریچھ دُور کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ کارنکو نے وقت ضائع کیے بغیر ریچھ پر حملہ کر دیا …… اس مرتبہ وہ کامیاب رہا اور ریچھ اُچھل کر پرے جا گرا۔ پھر وہ غصے سے اُٹھا اور کارنکو کی طرف بڑھا۔ وہ ایک بار پھر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا۔
”میں …… میں اب تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، پاگل بندر۔“ ریچھ نے غصے سے کہا اور کارنکو کے قریب پہنچ کر اپنا پنجہ اُس کے منھ پر دے مارا۔ وہ ہوشیار تھا، پھرتی سے ایک طرف ہو گیا۔ ریچھ نے اپنا وار رائیگاں جاتے دیکھا تو پلٹا لیکن اسی وقت ایک پتھر اُڑتا ہوا آیا اور اس کے سر پر لگا۔ پتھر کافی بڑا تھا لہٰذا اُس کے سر سے خون بہنے لگا۔ اب تو ریچھ کا برا حال ہو گیا۔ غصے کی شدت سے اس کے نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔
”شاباش مانکی! آج ہمیں اس سے اگلا پچھلا حساب چکانا ہے۔“ کارنکو نے زور سے کہا۔ عین اسی وقت ریچھ نے اس پرچھلانگ لگا دی اور اُسے لے کر دُور تک لڑکھڑتا چلا گیا۔جونہی وہ دونوں رکے، ریچھ نے کارنکو کا،کان منھ میں لے کر کاٹ ڈالا۔ اُس کے منھ سے زور دار چیخ نکل گئی۔
”کارنکو! تم فکر مت کرو …… میں آرہا ہوں۔“ مانکی نے زور سے چلا کر کہا اور پھر اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پتھر ریچھ کے سر پر دے مارا۔ ریچھ کا سر پہلے ہی بہت زخمی تھا، اب جو پتھر لگا تو بے چارے کو دن میں تارے دکھائی دینے لگے اور پھر اگلے لمحے ہی وہ بھاگ اُٹھا۔ یہ دیکھ کر مانکی نے ایک اور پتھر اُٹھایا اور اُس کے پیچھے بھاگنے لگا لیکن اس کا بھاگنا بے سود رہا۔ ریچھ قریب ہی موجود اپنے گھر میں داخل ہو گیا تھا۔ مانکی نے پتھر اُس کے گھر میں دے مارا۔ پھر بھاگتا ہوا کارنکو کے پاس پہنچا۔ وہ زخمی حالت میں پڑا تھا۔ اس کے کان سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ مانکی نے پھرتی سے اُسے اٹھایا اور ایک طرف بھاگنے لگا۔
”خالہ لومڑی… او خالہ لومڑی۔“ مانکی نے لومڑی کے گھر کے سامنے پہنچ کر ہانک لگائی۔
”کیا بات ہے مانکی؟“ لومڑی نے گھر سے نکلتے ہوئے پوچھا۔
”خالہ! کالو ریچھ نے میرے بھائی کا کان کاٹ کھایا ہے۔ تمہارے پاس جو دوا ہے، وہ لگا دو۔ جلدی کرو خالہ، کہیں خون زیادہ نہ بہہ جائے۔“ مانکی نے جلدی جلدی کہا۔
”اوہ …… اس کا مطلب ہے، تم آج پھر اُس سے اُلجھے ہو؟“
”ہاں …… خالہ! تم جلدی سے دوائی لگا دو۔“
”ہوں، ٹھیک ہے۔میں لاتی ہوں۔“ لومڑی نے کہا اور اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں دوائی کا ڈبہ تھا۔ اس نے ڈبے کو کھول کر اس میں سے ایک مرہم نکالی اور کارنکو کے کان والے مقام پر لگا دی۔ کارنکو کو محسوس ہوا جیسے اُس کی ساری تکلیف اور درد ختم ہو گیا ہو۔ اس کے چہرے پر جو تکلیف کے آثار تھے، اب جاتے رہے تھے۔ خون نکلنا بند ہو چکا تھا۔ جانے یہ کیسی مرہم تھی!!
”بھئی واہ… خالہ لومڑی! آپ کی دوائی نے تو کمال ہی کر دیا۔“ مانکی نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا۔
”میری دوا ایسی ہی ہے…… تم بتاؤ،کس جگہ تمہیں کالو ریچھ ملا تھا؟“
”وہ کم بخت گھر کے قریب ہی، وہ ایک بڑا سا درخت ہے نا، وہاں ملا تھا۔ وہ بھاگ کراپنے گھر میں جا گھسا تھا، ورنہ آج اُس کی خیر نہیں تھی۔“ مانکی نے غصے سے کہا۔
”تم شیربادشاہ سے انصاف طلب کرو،آخر اُس ظالم نے تمہارے بھائی کو مارا ہے۔مجھے اُمید ہے، بادشاہ ضرور انصاف کریں گے اور کالو ریچھ کو زبردست سزا دیں گے۔“ لومڑی نے کہا۔
”کیا بات کرتی ہو، تمہارا کیا خیال ہے، ہمارے بھائی کے مارے جانے کی اطلاع اُس تک نہیں پہنچی ہو گی۔ خالہ!کالو ریچھ بہت مکار اور عیار ہے۔ میرا خیال ہے، اس نے بادشاہ کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔“ مانکی نے کہا جب کہ کارنکو ایک طرف کھڑا، خاموشی سے اُن کی باتیں سن رہا تھا۔ لومڑی کچھ دیر تو خاموش رہی، پھر بولی:
”ٹھیک ہے، تم چونکہ مظلوم ہو، لہٰذا تمہیں بادشاہ سے میں انصاف دلاؤں گی۔ رہی بات کالو کے مکار اور عیار ہونے کی، تم مجھے نہیں جانتے ہو۔ میرا نام لومڑی ہے اور حضرت انسان مجھے جنگل کا سب سے عیار جانور خیال کرتا ہے۔ تم فکر مت کرو، اب اس کالو کے بچے کی خیر نہیں۔“
”بہت بہت شکریہ، خالہ لومڑی! اب ہم چلتے ہیں۔“ مانکی نے جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم جاؤ اور چین کی بانسری بجاؤ، میں اُسے دیکھ لوں گی۔“ لومڑی نے ہنستے ہوئے کہا۔ مانکی اور کارنکو وہاں سے چل دیے۔
O
”شہنشاہ ِجنگل! کچھ سنا آپ نے۔“ لومڑی نے شیر کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا……؟“ شیر نے اُسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
”وہ جوکالو ریچھ ہے نا، وہ آپ کے خلاف بغاوت کرنا چاہتا ہے……“ لومڑی نے دھیمے لہجے میں کہا۔ اُس کی بات سن کر شیر اچھل پڑا، حیرت سے بولا:
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا، بھلا وہ میرے خلاف کیوں بغاوت کرنے لگا۔“
”بادشاہ سلامت! اللہ آپ کی عمر دراز کرے، اقتدار کی ہوس نے اُسے اندھا کر دیا ہے اور وہ یہ بھول گیا ہے، اس پر آپ کے کتنے احسانات ہیں اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سمجھتا ہے، اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں اور حکومت کرنے کے قابل نہیں رہے۔“ لومڑی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
شیر بادشاہ نے چونک کر اُسے دیکھا اور بولا:
”مکار لومڑی! کہیں تم جھوٹ تو نہیں بول رہی ہو؟“
”مجھے آپ کے سر کی قسم بادشاہ سلامت! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔“ لومڑی جھٹ بولی۔ شیربادشاہ یہ سن کر چپ ہو گیا اور کافی دیر تک خاموش رہا، آخر کہنے لگا:
”اگر یہ بات ٹھیک ہے تو اس پاگل ریچھ کی خیر نہیں۔ غضب خداکا ……میں اُس کا اتنا خیال رکھتا ہوں اور ایک وہ ہے کہ میرے ہی خلاف……“ اُس کا چہرہ خوف ناک ہوگیا۔ لومڑی دل ہی دل میں مسکرائی۔ اُس کی چال کامیاب ہو رہی تھی۔
جہاں ظلم ہوتا ہے، وہاں چالیں چلی جاتی ہیں اور بعض اوقات کامیاب بھی ٹھہرتی ہیں …… لومڑی بھی ایک چال چل رہی تھی ……
”تم جاؤ اور جا کر اُس بے وقوف کو بھیج دو۔“ شیربادشاہ نے کہا اور لومڑی نے مسکراتے ہوئے سلام کیا اور باہر نکل آئی۔ اب اُس کا رُخ کالو ریچھ کے گھر کی جانب تھا۔ جب وہ اُس کے گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا…… اس کے سر پر دوا لگی ہوئی تھی۔ وہ مسکرا دی۔
کالو ریچھ اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا:
”کیوں خالہ لومڑی! کیسے آنا ہوا؟“
”بادشاہ کا پیغام لائی ہوں۔“ اُس نے ہنس کر کہا۔
”یعنی شیر کا؟“ کالو ریچھ نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
”ہاں …… چلو آؤ میرے ساتھ۔“
”بات کیا ہے……؟“
”مجھے علم نہیں، تم آؤ۔“ لومڑی بولی۔
”ٹھیک ہے …… چلو مجھے بھی ان سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ کالو ریچھ نے کہا اور دونوں شیربادشاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک جگہ لومڑی رُک گئی۔
”کیا ہوا خالہ لومڑی؟“ کالو ریچھ نے حیرت سے پوچھا۔
”تم چلو، میں ابھی آتی ہوں۔“ لومڑی نے ایک طرف چلتے ہوئے کہا۔
”کہاں جا رہی ہو……؟“
”کہیں نہیں، تم چلو…… میں بھی تمہارے پیچھے آتی ہوں۔“ لومڑی نے کہا اور چھلانگ لگاتی ہوئی چلی گئی۔ کالو ریچھ، شیربادشاہ کی طرف چلا۔ وہ ابھی شیربادشاہ کے گھر کے سامنے پہنچا ہی تھا کہ لومڑی بھی وہاں آگئی۔
”ارے خالہ! تم آگئیں؟“ کالو ریچھ نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں …… میں نے کہا نہیں تھا، تمہارے پیچھے ہی آرہی ہوں۔“ لومڑی نے ہنس کر کہا اور شیر کے پاس، اندر پہنچ گئی۔ کالو بھی اندر داخل ہو گیا۔
”کالو! یہ میں کیا سن رہا ہوں ……؟“ شیربادشاہ نے اُسے دیکھتے ہی دھاڑتے ہوئے کہا۔
”کک…… کک …… کیا؟“ کالو بوکھلا اُٹھا۔ اس نے شیربادشاہ کو اس سے پہلے، اتنے غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔
”یہی کہ تم میرے خلاف بغاوت کرنے کا سوچ رہے ہو…… یہ بھی تمہارے ہی الفاظ ہیں کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں، لہٰذاحکومت کرنے کے قابل نہیں رہا۔“ شیر بادشاہ کے منہ سے آگ برس رہی تھی۔
”یہ …… یہ آپ سے کس نے کہہ دیا؟“ کالو ریچھ کی حیرت قابل دید تھی۔
”اس نے ……“ شیر بادشاہ نے لومڑی کی طرف اشارہ کیا۔
”کیا ……؟“ وہ حیرت سے چلا اُٹھا۔ لومڑی مسکرا رہی تھی۔
”یہ…… یہ غلط ہے…… اس مکار نے مجھ پرجھوٹا الزام لگایا ہے۔“ کالو ریچھ نے کانپتے ہوئے کہا۔
”بادشاہ سلامت! مجھے پہلے ہی علم تھا، یہ ضرور انکار کرے گا، لہٰذا آپ اجازت دیجئے، باہر موجود جنگل کے کچھ دوسرے جانور میری بات کی سچائی کو ثابت کر دیں۔“ لومڑی نے نہایت ادب سے کہا۔
تھوڑی دیر بعد جنگل کے کئی جانور شیربادشاہ کے سامنے تھے۔ وہ سب کالو ریچھ کے ظلم سے آگاہ تھے۔ انھوں نے کالو کے خلاف گواہی دے دی۔انھیں مانکی اور کارنکو سے ہمدردی تھی۔ سب کی بات سن کرشیربادشاہ نے جھپٹ کر، ریچھ کی گردن اپنے منہ میں لے لی …… پھرشیر بادشاہ نے کالو کی گردن کو زور سے دبایا اور پھر چھوڑتے ہوئے بولا:
”نمک حرام! دُور ہو جا میری نظروں سے…… میرے احسانوں کا تم نے اچھا بدلہ دیا ہے۔ بیوی بچوں کو لے کر جنگل سے نکل جاؤ۔ میں آج کے بعد، تمہاری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔“
”ایک منٹ بادشاہ سلامت…… میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔“ اچانک لومڑی بول اُٹھی۔
شیر بادشاہ نے گردن گھما کر اُسے دیکھا:
”حضور! کالو ریچھ بہت ظالم ہے، اس نے مانکی اور کارنکو بندر کے بھائی کو بلا وجہ ہلاک کیا تھا۔“
اس کی بات سن کر شیربادشاہ، کالو کی طرف دیکھنے لگا…… کالو کا سر جھکا ہوا تھا۔ اُسے اپنا انجام صاف نظر آ رہا تھا۔
”کیا لومڑی کی بات سچ ہے گندے ریچھ……؟“
”بادشاہ سلامت! یہ سچ ہے، ہم سب اس بات کے گواہ ہیں۔“ سب جانور ایک ساتھ بول اُٹھے۔
”ٹھیک ہے …… لے جاؤ اس بد بخت کو اور قید خانے میں ڈال دو۔“ شیربادشاہ نے غصے سے کہا تو وہاں موجود جانور کالو ریچھ کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک طرف موجود، مانکی اور کارنکوخوشی سے اُچھل پڑے……
بزرگ سچ ہی کہتے ہیں، ظلم اور زیادتی کا ایک دن جواب تو دینا ہی پڑتا ہے……ہے نا؟
OOO