انصاف
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
۔۔۔۔۔
چوہوں کا بڑا جج ’’موش بہادر سردار چوہان خان ‘‘اپنی عدالت کے کمرے میں بڑی شان سے بیٹھا وکیلوں کی بحث سن رہا تھا۔ عدالت کے ایک کٹہرے میں ایک بوڑھا چو ہا کھڑا تھا جس کی مونچھوں اور بھوؤں کے بال بھی سفید ہو گئے تھے اور کمر بڑھا پے اور کمزوری سے جھک گئی تھی ۔وہ ایک لا ٹھی کا سہارا لیے کھڑا تھا۔
ملزم کے کٹہرے میں ایک جوان موٹا تازہ چوہا تھا جس کے چہرے پر خون جوش مار رہا تھا اور آنکھوں میں جوانی کی چمک تھی۔ آس پاس چوہوں کا ہجوم تھا جو بے چینی سے کبھی تو جج کو دیکھتے اور کبھی بوڑھے چوہے کے وکیل کو۔ یہ وکیل دائیں ہاتھ میں عینک اور بائیں ہاتھ میں کاغذ کا پلندا لیے نہایت ادب کے ساتھ عدالت سے کہہ ہاتھا:
’’سرکار والا! حضور نے مقدمے کی ساری کارروائی دیکھ لی۔ مدعی، ملزم اور اُن دونوں کے گواہوں کے بیان بھی سن لیے۔ سارا ماجرا آپ کے سامنے ہے۔ آپ سے کوئی بات چھپی نہیں۔اس بارے میں میرا آپ سے کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھاناہے۔ لیکن جناب عالی! میں آپ کی اجازت سے صرف دوایک باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جناب عالی! آج سے کوئی دو مہینے کی بات ہے۔ جون کی چودہ تاریخ تھی۔ ہفتے کے روز رات کو گیارہ بجے یہ بوڑھا نحیف چوہا جو اس وقت، مدعی کے کٹہرے میں سر جھکائے کھڑا ہے اور آپ سے انصاف چاہتا ہے، اپنے گھر سے نکلتا ہے۔ اس کی بیوی بیمار ہے، بستر پر پڑی کراہ رہی ہے۔ اس کے ننھے ننھے بچے بھوک کے مارے بلک رہے ہیں۔ یہ بوڑھا، محبت کا مارا آدھی رات کو گھر سے باہر آتا ہے کہ کوئی چیز ملے تو اُس سے اپنے معصوم بچوں کا پیٹ بھرے۔
جناب والا! رات کا وقت ہے۔ آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ گھپ اندھیرا ہے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ہوا بند ہے اور بلا کی گرمی ہے۔ یہ غریب، نادار، کمزور چوہا پسینے میں شرابور، گرتا پڑتا باہر آتا ہے۔ کوئی دو گھنٹے لگاتار تلاش کے بعد اسے ایک گوشت کا ٹکڑا ملتا ہے۔ یہ اُس گوشت کے ٹکڑے کو اُٹھا کر گھر کا رخ کرتا ہے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے گوشت کا ٹکڑا ایک جگہ رکھ کر دم لینے لگتا ہے۔ اتنے میں یہ جوان ہٹا کٹا ملزم خدا جانے کس لیے بے وقت وہاں آپہنچتا ہے اور گوشت اٹھا کر چل دیتا ہے۔ یہ بوڑھا مظلوم اس کے پیچھے جا کر اس سے اپنی چیز لینا چاہتا ہے تو وہ اُسے ڈانٹتا ہے، رعب دیتا ہے اور صرف یہی نہیں۔ گالیاں بھی دیتا ہے اور جب یہ غریب فریاد کرنے لگتا ہے تو وہ اُسے چپ کرانے کے لیے اس کے منہ مکے مارتا ہے۔ غریب کی آنکھ زخمی ہو جاتی ہے اور دانتوں سے خون بہنے لگتا ہے۔
شورسن کر محلے کے کچھ چو ہے وہاں جمع ہو جاتے ہیں مگر یہ زبر دست، یہ زور آور، پہلوان ملزم، سب کو ڈرا کر بھاگ جاتا ہے۔
جناب عالی! آپ نے ملزم کی طرف سے پیش کیے ہوئے صفائی کے گواہوں کے بیان ابھی سن لیے ہیں، میں مانتا ہوں کہ وہ چاروں کے چاروں گواہ بڑے معتبر ہیں اور اُنھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل سچ کہا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ یہ جو ان ملزم ایک دلیر اور بہادر چوہا ہے جس کی دلیری اور بہادری کی دھاک چوہوں کی ساری قوم پر بیٹھی ہوئی ہے۔ میں بھی اور جناب والا! آپ بھی اسی قوم کے ممبر ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہماری قوم میں ایسے بہادر اور دلیر چوہے موجود ہیں۔ لیکن جناب عالی! گواہوں میں سے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ اس نے گوشت نہیں اُٹھایا ،خود اس بہادر ملزم نے بھی اس سے انکار نہیں کیا۔ اُس نے کہا تو یہی کہا کہ میں نے گوشت کو اس بوڑھے سے چھینا نہیں زمین پر سے اٹھایا ہے۔ جناب والا! کسی شخص کی چیز کو زمین پر سے اُٹھا لینے سے وہ ہماری نہیں بن سکتی۔ گوشت کا مالک پاس کھڑا کہہ رہا ہے کہ یہ گوشت میرا ہے۔ جناب عالی !اگر یہ پہلوان جھوٹ نہیں بولتا تو یہ بوڑھا چوہا کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ آپ نے ہمارے گواہوں کے بیان بھی سنے ہیں۔ اُنھوں نے سارا واقعہ آپ کو بتا دیا ہے اور ان میں سے ایک نے یہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ میں نے اس بوڑھے چوہے کو اپنے گھر کی کھڑکی میں سے گوشت لے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور حضور انور! ہمارے گواہ اس بہادر ولیر، ملزم کے گواہوں سے کم معتبر تو نہیں۔‘‘
بوڑھے چوہے کا وکیل یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں شور ہوا۔ کمرے کے باہر چوہوں کی بھیڑ تھی۔ اس میں چھوٹے بڑے، امیر غریب سبھی تھے۔ پولیس انہیں لاٹھیوں سے دھکیل رہی تھی۔
جج نے زور سے گھنٹی بجائی اور پوچھا۔’’ یہ شور کیسا ہے؟‘‘اردلی نے آداب بجا لا کر کہا۔ ’’جناب! باہر بے شمارچوہے جمع ہیں۔‘‘
’’کیوں؟ ‘‘جج نے پوچھا ۔
’’حضور! وہ مقدمہ سننے کے لیے آئے ہیں اور پولیس انھیں روک رہی ہے۔‘‘
’’روکنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘جج نے کہا ۔’’ انھیں اندر آنے دو۔ یہ چوہوں کا مقدمہ ہے۔ یہ چو ہوں کی قوم کی عزت اور بے عزتی کا معاملہ ہے۔ انھیں دیکھنے دو روکونہیں۔‘‘
اس پر چو ہے، چو ہیاں، بچے، ٹڈی دل کی طرح دروازہ کے پر ٹوٹ پڑے۔ آن کی آن میں عدالت کا کمرہ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اتنے ہجوم میں کسی چوہے کی پگڑی اچھل کر گر پڑی، کسی ننھے بچے کا پاؤں کچل گیا۔ کسی بوڑھی کے بازوپر چوٹ لگی۔
جج نے پھر زور سے گھنٹی بجائی ۔سب کے سب چپ ہو گئے۔ وکیل نے ایک بار پھر اجازت لے کر بولنا شروع کیا:
’’ جناب والا! میں اپنے گواہوں کا ذکر کر رہا تھا، میں عرض کر رہا تھا کہ ان گواہوں کے بیان کے مطابق یہ گوشت اس بوڑھے کا تھا اور وہ گوشت زبر دستی اس پہلوان ملزم نے چھین لیا۔ جناب عالی! میں نے مانا یہ ملزم پہلوان بڑا دلیر اور بہادر ہے۔ لیکن حضور! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس طرح علانیہ کسی کا حق چھین لینا کہاں کی دلیری اور بہادری ہے؟ آپ جج ہیں، منصف ہیں، آپ اس وقت عدل و انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔کسی کمزور مگر سچے حقدار کا حق چھیننے کے بعد گالی گلوچ اور مارپیٹ کرنا زبر دستی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کا فیصلہ کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔
جناب والا! مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا، البتہ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ آپ ذراایک منٹ کے لیے تصور کریں کہ جب یہ بوڑھا، کمزور، غریب باپ خالی ہاتھ اپنے گھر میں آیا ہوگا اور اپنے ننھے، معصوم، بھوکے بچوں کو کھانے کا انتظار کرتے دیکھا ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی، اور پھر جب ان معصوم بچوں اور اُس کی بیمار بیوی نے اُس کے خون سے لت پت چہرے کو دیکھا ہو گا تو اُن کے نازک دلوں پر کیا گزری ہوگی ؟‘‘
وکیل نے یہ کہہ کر اپنی عینک اور کاغذ میز پر رکھے۔ سر جھکا کر جج کو سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔
عدالت کے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ صرف ایک کونے میں دو ایک ننھے بچوں کے رونے کی مدھم اور دبی ہوئی آوازسنائی دے رہی تھی۔
جج نے اپناقلم اٹھایا، کچھ لفظ سامنے رکھے ہوئے کاغذوں پر لکھے اور پھر ملزم کی طرف رخ کرکے کہا:
’’ملزم پہلوان ! تم نے اپنے خلاف ساری کارروائی سن لی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس میں قصور تمہارا ہے۔ تم سراسر خطاوار ہو، میں تمھیں اس جرم کے لیے ……‘‘
جج یہاں تک کہنے پایا تھا کہ ملزم پہلوان چیخ اُٹھا:
’’ حضور! حضور!! مجھے معاف کر دیجئے، میں قصو وار ہوں ، مجھ سے غلطی ہوئی ، مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘یہ کہہ کر وہ کٹہرے پر جھک گیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ہاتھ باندھے ہوئے۔’’معاف کر دیجیے۔ معاف کر دیجیے۔‘‘کے لفظ دہرا رہا تھا۔
جج نے عینک اتار دی اور قلم نیچے رکھ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ۔’’ پہلوان !سنو! غور سے سنو! انصاف نے میرے ہاتھ میں قلم دیا ہے۔ میں اگر تمھیں سزا دینا چاہتا ہوں تو اس لیے نہیں کہ مجھے تم سے کوئی دشمنی ہے بلکہ اس لیے کہ میری نظر اس بوڑھے مظلوم کے دکھی دل پر پڑتی ہے۔ معاف کرنے والا میں نہیں یہ ہے۔‘‘
اس پر پھر عدالت میں خاموشی چھا گئی ۔ملزم پہلوان اسی طرح سر جھکائے ہوئے کھڑا تھا۔
جج نے پھر زبان کھولی۔ ’’ایک بات اور بھی سنو۔ یہ بات میں جج ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک چوہے کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔ سنو تم نے اس غریب کا حق چھین لیا یہ جرم ہے لیکن اس جرم سے بڑھ کر ایک اور جرم بھی تم نے کیا۔ تم نے اسے گالی دی اور پیٹا۔ آج تک ہماری قوم کے کسی چوہے نے کسی دوسرے چوہے کو گالی نہیں دی تھی اور کسی پر یوں ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا، یہ انسانوں کا شیوہ ہے ۔ایسی شرمناک حرکت کر کے تم نے نہ صرف اس غریب کے دل کو دکھایا بلکہ اپنی قوم کی عزت پر دھبا بھی لگایا ہے۔‘‘
پہلوان یہ سنتے ہی اپنی جگہ سے ہلا اور بوڑھے چوہے کے پاؤں پر گر کر زار زار رونے لگا۔ ’’بابا! بابا !!مجھے معاف کردو، بخش دو، میں گنہگار ہوں۔ آپ کا، جج صاحب کا، ساری قوم کا گنہگار ہوں۔ مجھے معاف کر دو ۔‘‘
بوڑھے چوہے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے جھک کر اس کے مضبوط بازوؤں کو پکڑ کر کہا ۔’’اٹھو بیٹا میں نے تمھیں معاف کیا۔ ‘‘
حج نے عینک لگائی اور قلم لے کرکچھ لکیریں کاغذ پر کھینچ دیں۔ پہلوان بری ہو گیا۔
بوڑھے کے آنسوؤں میں خوشی کی چمک تھی۔ جج کی نظریں اپنی میز پر لگی تھیں۔ کمرے کے باہر چوہوں کا جلوس زور سے نعرے لگا رہا تھا۔ ’’انصاف زندہ باد۔ موش بہادر زندہ باد۔‘‘
اس جلوس کے پیچھے پیچھے پہلوان، بوڑھے کے ننھے بچوں کو گود میں لیے ہوئے چل رہا تھا۔