skip to Main Content

ہرنوٹے نے کہانی لکھی

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پھول ہوا میں جھول رہے تھے اور تتلیاں پھولوں پر ناچ رہی تھیں۔ درخت کے نیچے ہری ہری گھاس پر ہرنوٹا (ہرن کا بچہ) پیٹ کے بل لیٹ کر کچھ لکھ رہا تھا۔ ننھے خرگوش کا ادھر سے گزر ہوا تو ہرن کے بچے کو لکھتا دیکھ کر وہ رک گیا اور اس کے پاس جا کر بولا: ”کیا ہورہا ہے بھائی ہرنوٹے؟“
ہرنوٹا چونک گیا اور خرگوش کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہنے لگا: ”نومبر میں ماہنامہ ساتھی کا خاص نمبر شائع ہورہا ہے۔ اس کے لیے کہانی لکھ رہا ہوں۔“
”اچھا!“ ننھا خرگوش ہنس کر بولا: ”ذرا سناﺅ تو سہی کہانی، لکھا کیا ہے؟“
ہرنوٹا کہانی سنانے لگا: ”لکھا ہے، کسی شہر میں دو انسان رہتے تھے۔ دونوں میں بہت دوستی تھی۔ جو بھی گھاس اور چارہ ملتا دونوں مل جل کر کھاتے اور رات کو درخت پر گھونسلے میں سوجاتے۔“
یہ سن کر ننھا خرگوش زور زور سے ہنسنے لگا۔
”کیا ہوا؟ کیوں ہنس رہے ہو؟“ ہرنوٹا حیرت سے کہنے لگا۔ ہرنوٹے کی عمر بہت کم تھی اور انسانوں کے بارے میں اسے صرف اتنا پتا تھا کہ وہ جنگل کے جانوروں کا شکار کرکے لے جاتے ہیں۔
”بھائی ہرنوٹے! تم بالکل گدھے ہو۔“ ننھے خرگوش نے جواب دیا۔
”ارے آہستہ بولو دوست! اگر گدھے نے سن لیا تو اماں ہرنی سے شکایت کردے گا اور وہ ماموں چیتے سے ڈانٹ کھلوائیں گی، لیکن تم ہنس کیوں رہے ہو؟“
ہرنوٹے کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی کہانی میں کیا خرابی ہے۔
”یہ تمھیں کس نے بتایا کہ انسان درخت پر رہتے ہیں اور گھاس کھاتے ہیں؟“ خرگوش نے پوچھا۔ پھر خرگوش کہنے لگا: ”لو سنو، میں تمھیں بتاتا ہوں۔ میں نے انسانوں کے بارے میں بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ اس کے علاوہ میرے دادا انسانوں کے درمیان بہت عرصہ رہ چکے ہیں، انھوں نے بھی مجھے انسانوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔ مجھے ان کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔“ ننھے خرگوش نے شیخی بگھاری۔
”مجھے بھی بتاﺅ، میں ایک کہانی لکھوں گا انسانوں کے بارے میں۔“ ہرنوٹے نے کہا۔
”ہاں ہاں ضرور بتاﺅں گا، لیکن کہانی میں میرا نام بھی آنا چاہیے، مجھے جو اتنی ڈھیر ساری معلومات ہیں وہ میں تمھیں مفت میں کیسے دے دوں۔ اتنی معلومات تو جنگل کے کسی جانور کو نہیں ہوںگی۔“ یہ کہتے ہوئے ننھے خرگوش کا سینہ فخر سے پھول گیا۔
”دیکھو بھائی خرگوش! بڑا بول مت بولو۔ اللہ تعالیٰ کو غرور پسند نہیں ہے۔“ ہرنوٹا بولا۔
”بھائی ہرنوٹا بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔“ چوہے نے جھاڑی کے پیچھے سے سر نکال کر کہا۔ وہ کافی دیر سے ہرنوٹے اور خرگوش کی باتیں سن رہا تھا۔ ”غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔“
”ارے بھائی مونچھ مروڑ! تم کہاں سے آن ٹپکے؟“ ننھے خرگوش نے چوہے کو چھیڑا۔ وہ ہمیشہ بے چارے چوہے کو مونچھ مروڑ کہہ کر چڑایا کرتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے شریر جانور بھی اسے مونچھ مروڑ کہنے لگے۔
”دیکھو میں تمھیں پھر سمجھا رہا ہوں خرگوش میاں! شیخی اور غرور اللہ کو پسند نہیں۔“ چوہے نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا اور اسے سمجھایا۔ ”فوراً توبہ کرو۔“
یہاں تو یہ باتیں ہورہی تھیں اور ادھر شکاریوں کی ایک جیپ جنگل میں داخل ہورہی تھی۔ اس میں چار شکاری بندوقیں، دوربین، کیمرہ، جال، رسیاں، کھانے پینے کا سامان، خیمے اور دوسری بہت سی چیزیں لے کر جنگل میں شکار کھیلنے آرہے تھے۔ چوں چوں چڑیا ایک درخت پر بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ شکاری جنگل میں خیمے لگا رہے ہیں اور بندوقیں اٹھا اٹھا کر اس میں گولیاں بھر رہے ہیں تو وہ پھر سے اڑ کر جنگل میں تمام جانوروں کو خبردار کرنے لگی کہ چھپ جاﺅ، شکاری آرہے ہیں۔ چوں چوں چڑیا نے ننھے خرگوش، ہرنوٹے اور مونچھ مروڑ چوہے کو ایک درخت کے نیچے زور زور سے باتیں کرتے پایا تو ان کے پاس پہنچی اور انھیں سمجھایا کہ جلدی سے اپنے اپنے گھر چلے جاﺅ اور باہر نہ نکلنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ شکاری رات کو جو تکے اور کباب کھائیں وہ تمھارے ہی گوشت کے بنے ہوئے ہوں۔
یہ کہہ کر چوں چوں چڑیا تو اُڑ گئی، لیکن ننھا خرگوش پھر شیخی بگھارنے لگا۔ ”ارے یہ انسان میرا کیا بگاڑ لیں گے، میں کتنا تیز دوڑتا ہوں۔ یہ نہ مجھے پکڑسکتے ہیں اور نہ مارسکتے ہیں، چلو ذرا ان انسانوں کی خبر لیں۔ آئے ہیں بڑے ہمیں شکار کرنے۔“
ہرنوٹا کان پکڑ کر بولا: ”نہ بابا، نہ، زبردست کا جوتا سر پر ہوتا ہے۔ دوڑتا تو میں بھی تیز ہوں، لیکن ان شکاریوں کے آگے جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ کیوں اپنی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو۔“
”آﺅ بھائی ہرنوٹے، ہم تو چلتے ہیں۔ اس خرگوش کے بچے کو شکاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلا ہی چھوڑدو۔“ چوہے نے کہا۔
لیکن ہرنوٹا خرگوش کو سمجھانے میں لگا رہا اور شکاریوں نے اپنی دور بینوں سے ان تینوں کو باتیں کرتا دیکھ لیا۔ پہلے تو وہ چپکے چپکے ان تینوں کے قریب آئے اور جھاڑیوں کے پیچھے سے چپکے سے ان کی تصویر اتارلی۔ پھر ان کے جی میں آئی کہ ہرن کے اتنے خوبصورت بچے کو زندہ پکڑنا چاہیے۔ پھر خرگوش کو شکار کرکے اس کی بوٹیاں نمک مرچ لگا کر کھائیں گے۔ چنانچہ انھوں نے رسی کا پھندا بنایا اور درختوں کی آڑ لے کر چپکے چپکے آگے بڑھنے لگے۔ جانوروں کے کان بہت تیز ہوتے ہیں۔ وہ ذرا سی آہٹ بھی فوراً سن لیتے ہیں۔ ایک شکاری کے جوتے کے نیچے درخت کے سوکھے پتے چرمرائے تو ہرن کے کان کھڑے ہوگئے۔ چوہا بھی چوکنا ہوگیا۔ ”ہرن بھاگو“ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ چوہے نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ ڈر تو ننھے خرگوش کو بھی لگ رہا تھا لیکن وہ چوہے اور ہرنوٹے پر رعب جمانے کے لیے وہیں کھڑا رہا۔ شکاریوں نے جو ہرن کے بچے کو یوں بھاگتے دیکھا تو جھٹ رسی کا پھندا گھما کر پھینکا جو خرگوش کی گردن میں جا کر پھنس گیا۔ خرگوش کی گردن میں پھندا بہت مضبوطی سے لگا ہوا تھا۔ وہ بہت اچھلا، تڑپا لیکن شکاریوں نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اسے جال میں ڈال کر اپنے ٹھکانے کی طرف چل دیے۔
ادھر ہرنوٹا اور چوہا کچھ دور تک بھاگتے رہے لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ ننھا خرگوش ان کے ساتھ نہیں ہے تو وہ رک گئے اور سوچنے لگے کہ ننھا خرگوش شاید کسی مصیبت میں ہے۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ دبے پاﺅں واپس چلے لیکن خرگوش کا وہاں نام و نشان تک نہ تھا، البتہ دور جنگل میں آگ جلتی نظر آرہی تھی۔ وہ دونوں چپکے چپکے وہاں پہنچے اور جھاڑیوں کی آڑ سے جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ شکاری آگ جلا رہے تھے اور باتیں کرتے جارہے تھے کہ خرگوش کا گوشت کس طرح پکایا جائے۔ ایک طرف ننھا خرگوش جال میں بندھا پڑا تھا۔ بے چارہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔
وہ دونوں رات ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جیسے ہی شام ہوئی اور اندھیرا پھیلنے لگا ایک شکاری نے اپنا لمبا چاقو نکالا اور اسے تیز کرنے لگا۔ خرگوش نے دیکھا تو اسے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی۔ بے چارہ رونے لگا اور دل ہی دل میں خدا سے دعا کی کہ ”یا اللہ! میں نے غرور کیا تھا اس کی یہ سزا ملی ہے، اگر تو مجھے اس قید سے رہائی دلادے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی غرور نہیں کروں گااور نہ کسی کو ستاﺅں گا۔“
ادھر ہرنوٹا اور چوہا بھی سمجھ گئے کہ اگر ذرا بھی دیر کی تو خرگوش اپنی جان سے جائے گا۔ چنانچہ دونوں اٹھے اور چپکے چپکے کھسکتے ہوئے جال تک پہنچے۔ خرگوش نے انھیں دیکھا تو دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ چوہے نے آگے بڑھ کر سرگوشی کی ”کیوں بھائی خرگوش! اب کیا ہوا؟ کہاں گئی تمھاری تیز رفتاری اور انسانوں کے بارے میں تمھاری معلومات؟“
”یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔“ ہرنوٹے نے سرگوشی میں چوہے کو ڈانٹا۔ ”تمھارے دانت تیز ہیں۔ فوراً جال کو کُتر ڈالو۔“
چوہے نے جلدی جلدی جال کی رسیاں اپنے دانتوں سے کُترنا شروع کیں اور تھوڑی ہی دیر میں خرگوش آزاد ہوچکا تھا۔ اس کے آزاد ہوتے ہی تینوں وہاں سے سر پر پیر رکھ کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ بھاگتے بھاگتے جب تینوں کافی آگے نکل گئے اور گھنے جنگل میں پہنچے تو رک گئے۔ خرگوش نے چوہے اور ہرنوٹے کو گلے لگالیا اور ان سے معافی مانگی۔ ”اگر تم نہ ہوتے تو شاید اب تک میں مرچکا ہوتا۔ میں نے جو بڑا بول بولا تھا، اس کی سزا مجھے مل گئی ہے۔ بھائی چوہے! میں تمھیں بہت ستایا کرتا تھا، مجھے معاف کردو۔“ خرگوش نے کہا۔
”تم ہمارے بھائی ہو، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں سمجھ دی، چلو اس واقعے کا کم از کم اتنا فائدہ تو ہوا کہ اب تم غرور نہیں کرو گے۔“ چوہے نے جواب دیا۔
”اور ہاں اب میں ہرنوٹے کو انسانوں کے بارے میں ساری معلومات دوں گا تاکہ وہ کہانی لکھ سکے۔“ خرگوش نے کہا۔
ہرنوٹے نے کہا: ”بھئی جو واقعہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے۔ میں اسی پر ایک کہانی لکھ ڈالوں گا اور اس کا عنوان ہوگا ”غرور کا سر نیچا“ اور تینوں ہنسنے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top