حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ماں، ہے معراج تو محبت کی۔۔۔ہے علامت وقار و عظمت کی
میں نے تیری ہمیشہ خدمت کی۔۔۔کبھی ٹالا نہیں کہا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
پاک جذبوں کا نام ہے ماں تو۔۔۔رفعتوں پر مدام ہے ماں تو
الفتوں کا دوام ہے ماں تو۔۔۔ہے سراپا سدا دعا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
تجھ میں پھولوں کی سی لطافت ہے۔۔۔اورسمندر کی جیسی وسعت ہے
کوہساروں کی طرح رفعت ہے۔۔۔اور فولاد حوصلہ تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
کون سا دکھ نہیں سہا تونے۔۔۔دی ہے سب کو مگر دعا تونے
چاہا اس کا بھی ہے بھلا تونے۔۔۔جس نے چاہا سدا برا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
میں اگر پڑ گیا کبھی بیمار۔۔۔ایک پل بھی تجھے نہ آیا قرار
کر دیا اپنا آپ مجھ پر وار۔۔۔حال دیکھا نہیں گیا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
تیری ممتا کی ہے گھنی چھاؤں ۔۔۔کیونکر اس کا بدل میں لے آؤں
غیر ممکن، اسے کہیں پاؤں ۔۔۔چونکہ سایہ ہے بے بہا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
اپنے چہرے پہ نور لے کر تو۔۔۔چاندنی سی بکھیر دے ہر سُو
تیرے لہجے میں پیار کی خوشبو۔۔۔اور سراپا گلاب سا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
گفتگو میں تری صداقت ہے۔۔۔درِ نایاب تیری عصمت ہے
گوہر نایاب تیری عفت ہے۔۔۔اور انداز باحیا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
تجھ سے پائی ہے علم دیں کی ضیا۔۔۔راستی کا سبق تجھی سے لیا
تونے درس خودی مجھے ہے دیا۔۔۔تیری ہستی ہے مدرسہ تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا
پائے حفظ اور تندرستی تو۔۔۔اور درجات میں بلندی تو
دوجہانوں میں شادمانی تو۔۔۔رب ہمیشہ ہو آسرا تیرا
حق ادا پر نہ ہو سکا تیرا