skip to Main Content

باب دوم: حصہ دوم، ہمدرد نونہال: مختصر تاریخ

ہمدرد نونہال: مختصر تاریخ
نوعیت وانفرادیت کے نمایاں پہلو

ـہمدرد نونہال پاکستان کے قدیم ترین رسائل میں شمار ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے چند برس بعد ـ’حکیم محمد سعید‘ اور ’مسعود احمد برکاتی‘ نے یہ رسالہ جاری کیا۔
حکیم محمد سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے ’’نونہال اَدب‘‘ کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے، روزہ رکھتے تھے چوں کہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا وجہ شفا نہیں ہوتی۔ حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔
ـہمدرد نونہالکی ابتدا کے حوالے سے مسعود احمد برکاتی بتاتے ہیں کہ اس وقت بچوں کے رسائل کم تھے اور جو تھے، ان میں بھی بچوں کے لیے بے سرو پا کہانیاں، بے وزن نظمیں اور انتہائی غلط زبان و بیان اور غیر معتبر معلومات شائع ہوتی تھیں، اس کا حل حکیم محمد سعید نے یہ پیش کیا کہ بچوں کے لیے ایک خوب صو رت ، معیاری اور دلکش رسالے کا اجرا کیا جائے۵۔ یہ سن۱۹۵۳ء کی بات ہے۔ رسالے کا نام نونہال تجویز ہوا۔ نونہال کا پہلا شمارہ۴۰صفحات پر مشتمل تھا اور اس کی قیمت دو آنے تھی۶۔
اس کے پہلے مدیر ’مسعود احمد برکاتی‘ مقرر ہوئے اور تقریباً ۸۵سال کی عمر یعنی ۲۰۱۷ء تک نونہال کے مدیر اعلیٰ رہے۷۔ مسعود احمد برکاتی پاکستان کے واحد مدیر ہیں جو اتنے طویل عرصے تک ایک رسالے کے مدیر رہے ہیں۔
ہمدرد نونہال کے قیام کے مقاصد کا ذکر کرتے ہو ئے مسعود احمد برکاتی بتاتے ہیں :

ابتدا ہی سے کوشش رہی کہ ہمدرد نونہال بچوں کے لیے دلچسپ ہونے کے علاوہ زبان و بیان اور مشمولات کے لحاظ سے بھی معیاری اور معتبر ہو۔ اس میں صاف ستھرا ادب پیش کیا جائے اور ایسی تحریریں شامل کی جائیں جو علم و اخلاق دونوں کے لحاظ سے بچوں کے کردار کی تعمیر میں مفید ثابت ہوں، اس رسالے کے ذریعے سے بچوںکو ایک طرف تو اپنے تہذیبی ورثے سے واقف کیا جائے اور وہ مسلمان اصحاب کے کارناموں سے باخبر ہو کر احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں، دوسری طرف ان کو نئی معلومات اور سائنسی ترقیوں سے مانوس کروایا جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنے کردار اور اپنی اہلیت سے وطن عزیز کی خدمت کریں۔۸

یقینا ابتدا کے مسائل اور مقاصد کے حصول کے لیے بے انتہا محنت اور مشقت اُٹھانی پڑی ہوگی۔ بڑے ادیبوں سے بچوں کے لیے لکھوانا، نئے ادیبوں کی تحریروں کی نوک پلک سنوارنا یقینا مستقل مزاجی مانگتا ہے۔ ’مسعود احمد برکاتی‘ اس کام میں ایسے منہمک ہوئے کہ برسوں اسی کام میں صرف کردیے اور بچوں کے ادب میں اپناایک بڑا حصہ شامل کردیا۔ دوسری جانب ہمدرد نونہال کے سرپرست اعلیٰ ’حکیم سعید صاحب‘ کی ہمدرد نونہال میں دلچسپی کچھ ایسی رہی کہ نونہالوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھے گئے ہر خط پر حکیم صاحب کے خصوصی دستخط ہوتے، آج بھی بے شمار مشہور ادیب اس وقت کے لکھے گئے حوصلہ افزا خط کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں کرتے ہیں۔
ہمدرد نونہال ابتدا میں دیگر رسائل کی طرح ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔ جسے کاتب تحریر کیا کرتے تھے۔ اچھے کاتبو ں کی تلاش اور خوب صورت طباعت اس زمانے میں ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کتابت کے لیے لامحالہ وقت درکار ہوتا اور رسالہ ہر ماہ جاری کرنا ہوتا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ تصویر اور سرورق کی طباعت کے لیے بلاک بنائے جاتے تھے۹۔
اگر آج کے دور سے اس کا موازنہ کیا جائے تو وہ کام مشکل بھی تھا اور مہنگا بھی۔ جدید مشینو ں نے جہاں کتابت اور تزئین کاری کو آسان اور سہل بنا دیا ہے، اُس وقت اِس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابتدا میں رسالے کا سائز ۸/۳۰x۲۰ رکھا گیا۱۰ لیکن ۱۹۶۳ء میں ہمدرد نونہال کا سائز ایک بار پھر تبدیل کرکے ۱۶/۳۳x۲۳کیا گیا۱۱ ، یہ ڈائجسٹ سائز تھا اور یہی سائز آج تک ہمدرد نونہالنے برقرار رکھا ہے۔ابتدا میں رسالے کا نام صرف نونہال تھا ۱۲جو اپریل۱۹۵۶ء میں معمولی اضافے کے ساتھ بدل دیا گیا اب نونہالہمدرد نونہال ہو گیا تھا۱۳۔
ہمدرد نونہال کے ابتدائی لکھنے والوں میں مسعود احمد برکاتی، رئیس امروہوی، آغا اشرف، ملا واحدی،مولوی محمد حسین حسان، آمنہ نازلی، محشر بدایونی، قمر ہاشمی ، شاعر لکھنوی، رشید احمد بٹ، محمد انور بھوپالی کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔بعد میں ان ناموں میں اضافہ ہوتا گیااور اس فہرست میں مزید بڑے بڑے نام شامل ہوئے جن میں…حامد اللہ افسر میرٹھی، مسلم ضیائی، پروفیسر وحیدہ نسیم، اشرف صبوحی، علی ناصر زیدی، رئیس فروغ، پروفیسر تلوک چند محروم، محمد زکریا مائل، میر زاادیب، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر ڈاکٹر سہیل برکاتی، ڈاکٹر یونس حسنی، پروفیسر سحر انصاری، کرشن چندر ، رشید الدین احمد، شمیم نوید، انجم اعظمی، پروفیسر حبیب اللہ رشدی، شفیع الدین نیر، معراج، حسن عابدی، شان الحق حقی، طالب ہاشمی، نظر زیدی، ضیاء الحسن ضیا، تنویر پھول، شبنم رومانوی، اشتیاق احمد، عبدالو احد سندھی، اسلم فرخ، ثاقبہ رحیم الدین، قمر علی عباسی، پروفیسر ابوالخیر کشف، اطہر شاہ خان، وقار محسن، ابرار محسن، حسن منظر، ذکیہ بلگرامی، رؤف پاریکھ، عباس العزم، حسن ذکی کاظمی، کشور ناہید اور رئیس فاطمہ کے نام نمایاں ہیں ۱۴۔
ابتدا میں ہمدرد نونہال کا صرف سرورق رنگین شائع ہوتا تھا جب کہ اندر کے صفحات یک رنگی ہوا کرتے تھے۱۵۔
ہمدرد نونہال کی زندگی میں ہمیں تین ادوار بہت اہم نظر آتے ہیں۔ پہلی بڑی تبدیلی ۱۹۵۶ء میں ہمدرد نونہال کے سائز میں تبدیلی کی تھی ۱۶۔ دوسری بار۱۹۶۳ء میں رسالے کے نام کی تبدیلی کے ساتھ اس کے ،سائز اور معیار میں بھی واضح فرق محسوس ہوا ۱۷، اسی دوران ہمیں کچھ بڑے نام ایسے نظر آتے ہیں جو ہمدرد نونہال کی طرف آئے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد کی۔ جب کہ تیسری تبدیلی اگست۲۰۲۰ء میں محسوس کی گئی۱۸ جب ہمدرد نونہال کو ایک پرائیویٹ ادارے ’’آر جے بلیو‘‘ کے سپرد کیا گیا۔ یوں ہمدرد نونہال اب ایک کمرشل ادارے کے پاس ہے۔ اس کے صفحات بڑھ چکے ہیں، پورا میگزین رنگین کر دیا گیا ہے، اعلیٰ اور بین الاقوامی سطح کی ڈیزائننگ ہونے لگی ہے، اب رسالہ ذولسانی ہوگیا ہے ۔
مسعود احمد برکاتی جب تک ہمدرد نونہال سے وابستہ تھے، ہمدرد نونہال ایک ہی طرز پر شائع ہوتا تھا، اگر چہ یہ صورت حال ایک طویل عرصے تک ایسی نہیں رہی اور ہمدرد نونہال میں طرح طرح کے موضوعات پر مشتمل کہانیاں، مضامین شائع بھی ہوتے رہے ، جس نے ایک عرصے تک قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔
اسے ایک اہم اعزاز یہ بھی دیا جاتا ہے کہ بچوں کے لیے لکھا گیا پہلا سفر نامہ اس میں شائع ہوا۔ یہ سفرنامہ نومبر ۱۹۸۲ء میںدو مسافر دو ملک کے نام سے مسعود احمد برکاتی نے تحریر کیا تھا۱۹۔ حالاںکہ اس سے قبل ایک فرضی سفرنامہ مسلم ضیائی بچوں کے لیے تحریر کرچکے تھے ۲۰۔وہ چوں کہ فرضی سفرنامہ تھا ، اس لیے اسے پہلا سفرنامہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
لیکن! ماہنامہ تعلیم وتربیت کے ۱۹۸۲ء سے بھی کئی برس قبل کے شماروں میں ہمیں سفرنامے ملتے ہیں، ان سفرناموں کی تفصیلاتتعلیم وتربیت کے جائزے میں شامل ہے اور اس کے مطابق دو مسافر دو ملک بچوں کا پہلا سفرنامہ نہیں ہے۔

موضوعات:
بچوں کے رسائل میں تنوع کی کمی نہیں۔ ایک تجربہ کار اور ماہر مدیر مختلف پہلوؤں پر کہانیاں مرتب کرتا ہے تاکہ اس کا پڑھنے والا قاری مختلف النوع قسم کی باتوں اور مسائل سے واقف ہو، بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ کہانی میں بیان کیا گیا کوئی واقعہ کسی کی زندگی میں پیش آیا اور اس نے کہانی میں موجود اس حل کے مطابق برتاؤ کرکے خود کو مشکل سے نکال لیا اور ایسا صرف بڑوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں نہیں ہوتا بلکہ بچوں کے لیے بھی ایسی کہانیاں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی ہیں جو اُنھیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرواتی ہیں۔
ابتدا میں بچوں کے لیے جو کہانیاں ہمیں میسر آئی ہیں ان کے موضوعات کم و بیش ایک جیسے ہیں، جیسے جیسے اُردو ادب نے انگریزی ودیگر زبانوں کے علمی ذخیرے سے استفادہ کیا ویسے ویسے اس کے موضوعات کا تنوع بھی بڑھتا گیا۔ اصلاحی اور مافوق الفطرت کہانیوں سے نکل کر شوخی و مستی سے بھرپو ر زندگی کے دیگر پہلوؤں کو کہانی کا موضوع بنایا گیا۔
ہمدرد نونہال کے مدیر اعلیٰ ’مسعود احمد برکاتی‘ جب تک حیات رہے اور رسالہ مرتب کرتے رہے، اُنھوں نے رسالے کا مزاج ایک ہی انداز میں رکھا۔ یہ رسالے کا ایک مختلف رنگ تھا اور اس سے بچے بہت حد تک مانوس تھے۔ ’اشتیاق احمد‘ جیسے بڑے ادیب البتہ اس مزاج میں اپناایک الگ رنگ پیدا کرتے تھے۔ ان کی کہانیاں اگرچہ مافوق الفطرت نہیں ہوتی تھیں لیکن انھیں حقیقی زندگی کا عکس بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس لیے وہ ہمدرد نونہال کے لیے قابل قبول رہیں۔
ہمدرد نونہال کا مزاج اور اس کے موضوعات میں سے ایک موضوع کو آپ چاند کی بیٹی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ’ابرار محسن‘ کی تحریر کردہ یہ تحریر ترجمہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس تحریر میں اسے کہیں ترجمہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔ جنگل میں رہنے والے غریب لکڑہارے اور اس کی بیوی کو ایک چاند جیسی خوب صورت لڑکی ملتی ہے۔وہ اسے بڑے شوق اورناز و نعم سے پالتے ہیں۔ گاؤں کے نوجوان، لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سب کو انکار کر دیتی ہے ۔ کہانی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے روایتی پانچ امیر لوگوں کا کردار سامنے لایا جاتا ہے۔ جو لڑکی کی شرائط پوری کرنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں لیکن کوئی بھی لڑکی کی شرط پو ری نہیں کرتا او ر لڑکی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لڑکی سب کے جھوٹ پکڑ لیتی ہے اور ایک دن یوں ہوتا ہے کہ بادشاہ کو لڑکی کا پتا چل جاتا ہے۔
بادشاہ کی شادی کی خواہش کو بھی لڑکی ٹھکرا دیتی ہے اور بضد ہوتی ہے کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی اور اس کے جانے کا وقت آگیا ہے اور بالآخر چاند کی ایک چودھویں کو لڑکی چاند سے آئے ہوئے سفید برف جیسی ڈاڑھی والے بوڑھے کے ساتھ چلی جاتی ہے۲۱۔
اسی طرح مافوق الفطرت قسم کی کہانیوں میں حیدربخش حیدری کیآرائش محفل کا خلاصہ قسط وار ہمدرد نونہال کا حصہ بنتا رہا۔ اس کا موضوع بھی مافوق الفطرت ہے۲۲۔
آدم خور کا خاتمہ کی تحریر بھی اس موضوع پر ہے۔ ہمدرد نونہالکا کچھ عرصہ ایسا رہا کہ تقریباًہر دوسرے رسالے میں مافوق الفطرت کہانیاں نونہال کا جز رہی ہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے دلچسپ اور جاسوسی کہانیوں کا بھی التزام کیا جاتا رہا ہے ۲۳۔
برش کا کارنامہمیں مصوری کے شوق کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ایک غریب کا بچہ بھی بہت اچھا مصور ہوسکتا ہے۲۴۔
اسی طرح دوستی ، ماں ، بے غم کی جیت ، آدمی کی قیمت، معائنہ، غربت کا سوال، چوتھا کہاں گیا؟، ماشا کی کہانی، زندگی سے قریب ترین کہانیاں ہیں، اسی طرح اور لیمپ بجھا رہا میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک لالچی ، خود غرض اور بے وقوف حاکم کو دو معمولی نوکر بے وقوف بناتے ہیں۲۵۔
یہ کہانیاں حقیقت سے قریب تر ایسی تحریریں ہیں جو انسان کو اخلاق، تہذیب، ہمت سے آراستہ کرتی ہیں۔
۸۰ء اور ۹۰ء کی دہائیوں کے شماروں میں ہمدرد نونہال نے مافوق الفطرت کہانیوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس میں مزاحیہ، جاسوسی، مہماتی، اخلاقی، طنز و مزاح والی کہانیاں شامل کیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے غیر ملکی ادب سے کہانیوں کو رسالے کا حصہ بنایا گیا اور اعلا معیار کی کہانیوں کے ان تراجم نے بچوں کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا اور ان کے سوچنے سمجھنے کا معیار بھی بلند ہوا۔
ہمدرد نونہال نے موضوعات کے اعتبار سے جانوروں کی کہانیوں کا بھی اہتمام کیا ہے، ان کہانیوں میں ہمت و بہادری اور اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔ ہرن بادشاہ بن گیا ، ہار کی چوری ۲۶، سنہرا تاج، ۲۷ جیسی کہانیاں شامل ہیں جس میں جانور باتیں کرتے ہوئے بچوں کی دلچسپی کو اُبھار رہے ہیں۔
ہمدرد نونہال میں سائنس، طب، کھیل، سمیت متفرق موضوعات پرمضامین بھی شائع کیے گئے۔ یہ مضامین مختصر اور دلچسپ انداز میں تحریر کیے جاتے تھے تاکہ قارئین خشک اور طویل مضامین کی وجہ سے اُکتا نہ جائیں۔
۱۹۸۹ء میں دعوۃ اکیڈمی کے تحت کروائے گئے ایک سروے کے مطابق ۴۹ فیصد بچے معلوماتی تحریروں کی وجہ سے ہمدرد نونہال کو پسند کرتے ہیں۲۸جب کہ دل چسپ تحریروں کی وجہ سے اسے پسند کرنے والوں کی تعداد ۴۷ فیصدہے۔
اگر ہم موضوعات کے اعتبار سے ۱۹۸۹ء اور۱۹۹۰ء کا تقابلی جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس موضوع پر کتنی تحریریں سالانہ شائع ہوئی تھیں۔
ہمدرد نونہال ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء کے شماروں کا جائزہ۲۹

شمار عنوانات ۱۹۸۹ء ۱۹۹۰ء
۱ دینی تحریریں ۷ ۷
۲ اسلامی تاریخی تحریریں ۵ ۶
۳ اخلاقی کہانیاں ۵۷ ۲۴
۴ معاشرتی تحریریں ۷ ۷
۵ مہماتی کہانیاں ۶ ۱۲
۶ جذبہ حب الوطنی پر مبنی کہانیاں ۳
۷ سائنس فکشن ۸
۸ سلسلہ وار ناول ۱ ۱
۹ مزاحیہ تحریریں ۸ ۴
۱۰ غیر ملکی ادب سے تراجم ۶ ۱۵
۱۱ سفر نامے
۱۲ تصویری کہانیاں
۱۳ شخصیات ۴ ۱۱
۱۴ ڈراما ۱
۱۵ معلوماتی مضامین ۴۲ ۵۰
۱۶ مافوق الفطرت کہانیاں ۲
۱۷ نظمیں ۴۸ ۷۴
۱۸ حمد و نعت ۶ ۲۹
۱۹ مستقل سلسلے ۱۳
۲۰ متفرقات ۳۲ ۱۹

نگہت یاسمین نے اپنے ہمدرد نونہال کے جائزے میں یہ تجزیہ کیا کہ اس کے مدیر بچوں کے طویل عرصے سے مدیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہیں، اس لیے رسالے میں یکسانیت آگئی ہے ۳۰۔
یہ تاثر اس حد تک تو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے کہ رسالے کی تزئین کاری میں کوئی بہت زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ تزئین کاری کی یکسانیت کو مدیر پر ڈال کر رسالے کے مجموعی تاثر کو یکسانیت کا شکار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ۱۹۸۹ء اور۱۹۹۰ء کے اس جائزے ہی کو دیکھ لیجیے کہ یہاں ہمیں دینی تحریروں سمیت مہماتی کہانیاں، سائنس فکشن کہانیاں، غیر ملکی ادب سے تراجم، معلوماتی مضامین سمیت متعدد نت نئے موضوعات ہمدرد نونہال کے صفحات پر بکھرے نظر آتے ہیں۔

تصاویر:
بچوں کے رسائل اگربغیر تصویر کے ہوں تو شاید ایسے رسالوں کو بچوں کا رسالہ مانا ہی نہیں جائے گا۔ اس لیے جب ہم بچوں کے ابتدائی رسالے بچوں کا اخبارکو دیکھتے ہیں جو ۱۹۰۲ء کو منشی محبوب عالم نے جاری کیا تو وہاں ہمیںپہلے شمارے کے ساتھ ہی خوب صورت اور دلکش تصاویر نظرآتی ہیں۳۱، چوں کہ اس وقت رنگین تصاویر کی اشاعت شرو ع نہیں ہوئی تھی اس لیے پنسل اسکیچز سے کام لیا گیا تھا، یہ اسکیچز اعلیٰ معیار کے تھے اور اگر ان کا آج کے زمانے میں موجود پنسل اسکیچ سے موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کے اسکیچز بنانے والے موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو رسائل میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے یا پھر بہت کم ہے۔ رسالے کے لیے اسکیچز بنانا اور بچوں کو مصوری کے اعلیٰ نمونوں سے متعارف کروانا کہیں اہم کام ہے۳۲۔
ہمدرد نونہال نے بھی اپنی ابتدا سے بچوں کے لیے تصاویر کا اہتمام کیا۔ ہمدرد نونہال کے ابتدائی شماروں میں ہمیں تحریروں کے ساتھ تصاویر کا اہتمام نظر آتا ہے۔ ہمدرد نونہال کی تاریخ اس حوالے سے چوں کہ طویل ہے اس لیے ہمیں یہاں مختلف اوقات میں مختلف مصوران نظر آتے ہیں۔
ہمدرد نونہال کے لیے تصاویر بنانے والوں میں مشیر صدیقی ۳۳، ارق ۳۴، ایاز۳۵ ، سمیع۳۶ ،اصغر علی۳۷ ، منصور ۳۸، طاہر حسن۳۹، مسعود یحییٰ۴۰، فرقان وہاب۴۱ اور غزالہ عزیز۴۲کا نام سامنے آتا ہے۔
ہمدرد نونہال میں تحریروں کے ساتھ تو باقاعدہ ہاتھ سے بنے ہوئے خاکے شامل کیے جاتے تھے جب کہ مضامین میں کمپیوٹر سے تصاویر تلاش کرکے اُنھیں مضمون کا حصہ بنایا جاتا تھا تاکہ مضمون کی اہمیت و افادیت بڑھائی جاسکے۔ اسی طرح نونہال میں مزاحیہ لطیفوں پر خاکے بنا کر بھی بچوں کو محظوظ کیا جاتا رہا ہے۔ نونہال کے مختلف ادوار میں کیسے کیسے اسکیچز شامل رہے ہیں، اِن کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے:

’فریحہ ابتسام رائو‘ کی کہانی صرف ایک قانون پر مصور’ منصور‘ کا خاکہ۴۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’مشیر صدیقی‘ کا ’سلیمان اختر علوی‘ کی تحریرشک پر بنایا گیا خاکہ۴۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’معراج‘ کی کہانی چچا نواب بنجارا پر ’فرقان وہاب‘کی بنائی گئی تصویر۴۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمدرد نونہال کے اندرونی صفحات میں جو تصاویر استعمال ہوتی تھیں، وہ پنسل اسکیچ کہلاتی ہیں، یہ تصویریں مختلف مصوروں نے بنائی تھیں، اسی طرح سرورق بھی مختلف مصوروں کے ہاتھوں بنے ہوئے تھے۔ ارق، مسرت، مسعود یحییٰ کے نام ہمیں مختلف سرورق پر لکھے نظر آتے تھے، رسالے کے اندرونی صفحات پرکہیں مصوروں کا نام موجود نہیں، اس لیے سرورق ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ کس کا بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح اندرونی اسکیچز بھی مختلف مصوروں نے بنائے ہیں جب کہ دیگر زبانوں کے تراجم میں ان تحریروں کے ساتھ موجود تصاویر کو بھی کاٹ کر لگایا گیا ہے۔
اگست۱۹۶۴ء کے شمارے سے ہمدرد نونہال نے اپنے کچھ صفحات رنگین کیے۴۶، چاررنگوں اوردو رنگوں میں ہمیں تصاویر اور موادنظر آنے لگا… یہ سلسلہ چلتا رہا اور رسالہ وقت کے ساتھ ساتھ رنگین ہوتا گیا۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ اگست۲۰۲۰ء میں ہمدرد نونہال کو مکمل رنگین کر دیا گیا۴۷۔

سرگرمیاں:
سرگرمیاں کسی بھی رسالے کی جان ہوتی ہیں۔ بچے کھیل کود اور تفریحی چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور یہ تفریح ذہنی مشق ہی کیوں نہ ہو اِنھیں بہت مرغوب لگتی ہے۔رسالہ ہاتھ میں آتے ہی بچے پہلے جس چیز کی طرف لپکتے ہیں وہ سرگرمیاں ہیں، ان سرگرمیوں کو حل کرنا اور حل نہ ہونے پر جھنجھلاجانا … گویا یہی تو زندگی ہے۔ معمّوں میں حصہ لینے سے دماغی ورزش بھی ہوتی ہے اور ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طلبہ ذہنی مشق جاری رکھیں۔
یہ سرگرمیاں دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہیں، اس میں انعامی سلسلے اور مستقل سلسلے شامل ہیں، انعامی اور مستقل سلسلوں میں قارئین حصہ لیتے ہیں، دماغ لڑاتے ہیں، اس عمل میں اکثر پورا گھرانا شریک ہوجاتا ہے، اس شعبے میں ہمدرد نونہال نے کس قسم کی سرگرمیوں کو متعارف کروایا ہے۔

انعامی سلسلے:
ہمدرد نونہال میں اگرچہ کئی نئے تجربات ہوئے۔ کئی قسم کی کہانیاں اور مضامین لکھے گئے لیکن ان سب میں ہمیں انعامی سلسلوں کی کمی نظر آتی ہے اور انعامی سلسلہ اگر کوئی شروع بھی کیا گیا تو وہ ہمیں ۱۹۶۶ء کے وقت معلومات عامہ کے نام سے نظر آتا ہے۴۸۔ معلومات عامہ ہمدرد نونہال کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو اب تک چل رہا ہے۔ درمیان میں اس کا نام تبدیل ہوتا رہا ہے لیکن اس کی تھیم ایک ہی رہی ہے۔
اس سلسلے میں ہمدرد نونہال اپنے قاریوں کو چند سوالات دیتا ہے، ان سوالات کے ساتھ چند اشارے بھی موجود ہوتے ہیں اور قاری کو ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کثیر الانتخابی سوالات کی طرح ہیں جو دوران امتحان اسکول وغیرہ میں پوچھے جاتے ہیں، اس سلسلے کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں سوالات قسما قسم کے ہوتے ہیں اور اسی طرح ہر قسم کے قاری کا ذہن میں سوچتے ہوئے ان کے ذوق اور دلچسپی کے مطابق سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قارئین ان سوالات کے جوابات رسالے کو بھیج کر بذریعہ قرعہ اندازی یا صحیح جواب ہونے کی صورت میں انعام حاصل کرتے ہیں۔
جنوری ۱۹۹۰ء سے ہمدرد نونہال نے کسوٹی کے نام سے ایک انعامی سلسلہ شروع کیا، ۴۹ اس سلسلے میں سوالات کو ذرا تفصیل سے پوچھا جاتا تھا اور قاری کو کثیر الانتخابی سوالات کی طرح اشارے دینے کے بجائے سوال ہی میں اشارے دے دیے جاتے تھے۔یہ کھیل پہلے کی نسبت زیادہ دل چسپ اور مزے دار رہا اور کافی عرصے تک نونہال میں کسوٹی کا سلسلہ جاری رہا۔

مستقل سلسلے:
بچوں کا کوئی بھی ماہنامہ ، دو ماہی، ہفت روزہ رسالہ ہو تو اس میں مستقل سلسلے ضرور ہوتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ہر ماہ بدل بدل کر طلبہ کے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ قاری ان سلسلوں کا انتظار کرتا ہے اور ان سلسلوں کے نام اسے باقاعدہ یاد ہو جاتے ہیں۔ ہمدرد نونہال میں بھی ہمیں کئی ایک مستقل سلسلے نظر آتے ہیں ان میں درج ذیل سلسلے شامل ہیں۔
۱:جاگو جگاؤ
۲: تمھارا خیال ہے (خطوط)
۳: پہلی بات
۴: نونہال لُغت (ان الفاظ کے معنی کیا ہیں)
۵: کھل کھلائیے، رنگ برنگی پھلجڑیاں، ہنسو بچو ہنسو
۶: کچھ کہو …کچھ سنو
۷:پھول پھول خوشبو
۸: صحت مند نونہال
۹:میری پسند کی نظم
۱۰:اخبار نونہال
۱۱:بزم ہمدرد نونہال
۱۲:مسکراتی لکیریں
۱۳:آدھی ملاقات
۱۴:نونہال ادیب
۱۵:گل دستہ
۱۶:حلقہ دوستی
۱۷:دانہ دانہ
۱۸: خیال کے پھول
۱۹:ہمدرد انسائیکلو پیڈیا

جاگو جگاؤ دراصل حکیم محمد سعید صاحب کا اداریہ ہوا کرتا تھا۔ اس سلسلے میں وہ بچوں سے گفتگو کیا کرتے، اُنھیں نصیحت کرتے یا پھر کوئی اطلاع دیتے۵۰۔قارئین نے اس سلسلے کو بہت پسند کیا اور حکیم سعید کی شہادت کے بعد بھی ان کا یہ سلسلہ بند نہیں کیا گیا اور پچھلے شماروں سے جاگو جگاؤ کا انتخاب پیش کیا جاتا رہا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
جاگو جگاؤ کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

انسان اگر قاعدے اور تنظیم سے کام کرے تو کام اچھا ہوتا ہے، جلد ہوتا ہے اور آسانی سے ہوتا ہے، جو کام وقت پر کیا جائے اُس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور قوت بھی کم خرچ ہوتی ہے۔ وقت پر کام کرنا باقاعدگی اور تنظیم کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ ترتیب بھی بہت ضروری ہے۔ اگر کاموں کو ترتیب کے ساتھ کیا جائے تو بڑی سہولت ہوتی ہے۔ کام شروع کرنے سے پہلے اس کی ایک ترتیب قائم کرلو، پھر اسی ترتیب کے مطابق ایک کے بعد دوسرا کام کرتے جائو۔ سب کام خوبی کے ساتھ پورے ہوجائیں گے۔۵۱

پہلی بات مسعود احمد برکاتی کا سلسلہ تھا جس میں وہ قارئین سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اس سلسلے کو بھی آپ اداریے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ مسعود احمد برکاتی نے اس میں ایک اچھا اضافہ یہ کیا کہ کوئی ایک قول الگ سے پہلی بات میں شامل کیا۵۲۔ یہ قول اس مہینے کے خیال کے عنوان سے پہلی بات میں شامل ہوتا تھا۔یہ قول مسعود احمد برکاتی کی اپنی اختراع تھی۔ مسعود احمد برکاتی۱۹۹۱ء سے پہلی باتلکھ رہے تھے۔
پہلی بات میں عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ مسعود برکاتی صاحب بچوں کو خط لکھنے کا قرینہ سکھا رہے ہیں۔ تحریر بھیجنے اور بھیج کر اس کا انتظار کرنے کی تلقین نظر آتی ہے۔ ان کی پہلی بات میں مدیر، قارئین کی رہنمائی کررہا ہوتا ہے۔ ان کی پہلی بات کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں وہ بچوں کو تحریر بھیجنے کا دورانیہ بتا رہے ہیں کہ وہ کب بھیجی جائے:

’’انکل! میں ایک کہانی بھیج رہی ہوں، اسے جون کے رسالے میں ضرور شامل کرلیجیے گا، نہیں تو میں ناراض ہوجائوں گی۔‘‘
یہ خط اور کہانی ایک بچی نے بھیجی، جو ہمیں ۵ مئی کو موصول ہوئی۔ ہر مہینے کے پہلے ہفتے میں اگلے مہینے کا رسالہ پریس چھاپنے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔ اب یہ جون کا رسالہ ۸ مئی تک پریس کو دے دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں اس بچی کی، معصوم سی بچی کی کہانی جون کے شمارے میں کس طرح شامل کی جاسکتی ہے؟ یہ بات میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ نونہال یہ بات سمجھ لیں کہ رسالہ تیار کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ تحریروں کو پڑھنے ، انتخاب کرنے، درست کرنے، کتابت کرانے اور تصویریں بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ ہم بیک وقت دو شماروں کا کام کرتے ہیں۵۳۔

کھل کھلائیے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس میں ہنسنے مسکرانے کی بات ہو رہی ہے اور بچے لطیفوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۵۴۔
لطیفوں کو ہر چند عرصے بعد نام بدل بدل کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ہنسو بچو ہنسو ۵۵ اور رنگ برنگی پھلجڑیاں۵۶ لطیفوں کے سلسلوں ہی کے نام ہیں۔ اسی طرح ہنسی گھر ۵۷ بھی لطیفوں کے عنوان کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ہمدرد نونہال میں شائع ہونے والے لطائف میں یہ چیز واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مزاح کے نام پر کسی قوم، مذہب، کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
ہمدرد نونہال میں شائع شدہ ایک لطیفہ پڑھیے:

ایک صاحب ایک شان دار ہوٹل میں پہنچے اور عمدہ کھانوں کا آرڈر دیا۔کھانا کھانے کے بعد جب بیرا بل لایا تو اُنھوں نے ادائی سے انکار کردیا اور بولے: ’’میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر بیرا منیجر کے پاس پہنچا اور اُنھیں تمام بات بتائی۔ منیجر نے غصے میں اُن صاحب کی اچھی طرح مَرمَّتْ کی۔ وہ کراہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک بیرے نے جھپٹ کر ان کے منھ پر دو گھونسے اور ماردیے۔ یہ دیکھ کر منیجر نے بیرے کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’جب میں مار چکا تو تمھیں مارنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’ جی، وہ تو آپ نے اپنا بل وصول کیا تھا۔ مجھے بھی تو اپنی ٹپ وصول کرنی تھی۔‘‘
بیرے نے جواب دیا۵۸۔

پھول پھول خوشبو قارئین کی طرف سے بھیجی گئی مختصر مگر دل چسپ اور پراثر تحریروں پر مشتمل سلسلہ ہے۵۹۔ جس میں متفرق موضوعات پر قارئین اقتباسات بھیجتے ہیں۔ اس میں نثری اور شعری دونوں حصہ شامل ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ اس سے قبل دانہ دانہ کے نام سے جاری تھا جس میں قارئین دلچسپ اقتباسات بھیجا کرتے تھے۶۰۔ کراچی سے مرزا نعمان بیگ کا ایک شذرہ ملاحظہ کریں جو ہمدرد نونہال میںپھول پھول خوشبو سلسلے میں شائع ہوا۔
کمال کیا ہے
حضرت شیخ ابو سعید مہتولیؒ سے ایک مرتبہ ایک شخص نے کہا کہ فلاں شخص پانی پر چلتا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’آسان ہے، جل مرغی بھی پانی پر چلتی ہے۔‘‘
اس نے کہا کہ فلاں آدمی ہوا میں اُڑتا ہے۔
فرمایا:’’یہ کوئی ایسی بات نہیں، کوا اور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں۔‘‘
حاضرین مجلس میں سے ایک اور شخص نے کہا کہ فلاں شخص پلک جھپکتے ایک شہر سے دوسرے شہر میں پہنچ جاتا ہے۔
آپ نے فرمایا:’’ یہ کیا کمال ہے؟ آخر شیطان بھی ایک لمحے میں مشرق سے مغرب تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:’’ ان چیزوں کی قدر نہیں ہے۔ باکمال وہ ہے جو لوگوں میں اُٹھے بیٹھے، اُن کے ساتھ لین دین کرے، اہل وعیال کے حقوق پورے کرے اور پھر بھی ایک لحظہ اللہ سے غافل نہ رہے۔‘‘۶۱

میری پسند کی نظم کا سلسلہ بھی ہمدرد نونہال میں ایک عرصے تک چلتا رہا۔ ۶۲
اس سلسلے میں قارئین اپنی پسندیدہ نظم شاعر کے نام کے ساتھ ارسال کیا کرتے تھے۔ گویا یہ سلسلہ نئے شعرا کے لیے مخصوص تھا جو اپنے ذوق کی تسکین اس سلسلے کی بدولت کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ’ایاز حسین‘ کی پسندیدہ حمد دیکھیے جو امیر مینائی نے سپرد قلم کی تھی:

دوسرا کون ہے جہاں تو ہے
کون جانے تجھے کہاں تو ہے
لاکھ پردوں میں تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشاں تو ہے
تو ہے خلوت میں تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں کہیں عیاں تو ہے
نہیں تیرے سوا یہاں کوئی
میزباں تو ہے مہماں تو ہے
نہ مکاں میں نہ لامکاں میں تو
جلوہ فرما یہاں وہاں تو ہے
رنگ تیرا چمن میں، بو تیری
سچ تو یہ ہے کہ باغباں تو ہے
محرمِ راز تو بہت ہیں امیر
جس کو کہتے ہیں رازداں تو ہے۶۳

بزم ہمدرد نونہال ایک عملی سرگرمی ہے جس کی رپورٹ تقریباً ہر ماہ نونہال کا حصہ بنتی رہی ہے اس سلسلے میں ہمدرد اسکولوں میں ہونے والی تقریبات ، مقابلہ جات وغیرہ کی رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بزم ہمدرد نونہال کے قیام سے لے کر اب تک جاری و ساری ہے۔
اس سلسلے میں رپورٹنگ کرنے والے بدلتے رہے لیکن اس کا انداز سادہ رپورٹنگ سا ہی رہا کہ بزم ہمدرد نونہال کی تقریبات کب کب اور کہاں کہاں ہوتی رہیں اور ان تقریبات میں کن اہم شخصیات نے شرکت کی۔بزم کی ایک رپورٹ دیکھیے۔

۲۲ مارچ ۱۹۹۰ء کوبزم ہمدرد نونہال نیشنل میوزیم پاکستان کے سبزہ زار پر منعقد ہوئی، جس میں ہزاروں نونہالوں نے جوش وخروش سے شرکت کی۔ بچوں کے دوست اور ہمدرد جناب حکیم محمد سعید نے اپنی عادت کے مطابق بڑی مزے دار تقریر کی اور اچھی اچھی باتیں بتائیں۔ جناب جسٹس قدیر الدین صاحب سابق گورنر سندھ نے وطن سے محبت کی ضرورت بتائی اور جناب ڈاکٹر احمد نبی خان صاحب نے بھی اپنے انداز سے بچوں سے باتیں کیں۶۴۔

آدھی ملاقات دراصل قارئین کے خطوط ہوا کرتے ہیں، اس سلسلے میں قارئین رسالے کے حوالے سے اپنی پسند وناپسند کے بارے میںیا پھر کوئی تجویز یا شکایت پیش کرتے ہیں۔ خط کے ذریعے باتیں کرنے کو عموماً آدھی ملاقات کہتے ہیں، اس لیے اس سلسلے کا یہی نام رکھا گیا ہے۔ ۶۵ آدھی ملاقات سے قبل خطوط کا یہ سلسلہ تمھارا خیال ہے کے نام سے شائع ہوتا تھا۶۶۔
گل دستہ ،ہمدرد نونہال کے بالکل ابتدائی حصے میں شائع ہونے والا مقبول سلسلہ رہا ہے، اس سلسلے میں مختلف نامور شخصیات کے اقوال کو قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے، ان اقوال میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خلفائے راشدین اور غیر مسلم دانشوروں کے اقوال بھی شامل ہیں۶۷۔
چند اقوال دیکھیے، جو فروری ۱۹۹۰ء کے شمارے میں مختلف قارئین نے بھیجے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’اپنے گھر کی دیوار اتنی بلند نہ کرو کہ تمھارے پڑوسی کی ہوا رُک جائے۔‘‘
بطلیموس: ’’غرور کو کم کرلینا سب سے بڑی مالداری ہے۔‘‘
ایمرسن: ’’خیالات کے پیچھے اگر عظیم اور بہادر لوگوں کے دماغ اور بازو نہ ہوں تو وہ
خوابوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘ ۶۸

ہمدرد انسائیکلو پیڈیا میں نونہالوں کے لیے مختلف معلومات کو یکجا کرکے اسے پیش کیا جاتا تھا۔ ۶۹
اسے انسائیکلو پیڈیا کا نام ہی اس لیے دیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں ہر ماہ چیزیں اَدل بدل کر دی جاتی تھیں، کبھی جانوروں کی معلومات تو کبھی کسی ملک کا تذکرہ…اور مختلف عمارات، مساجد و غیرہ کا تذکرہ بھی انسائیکلو پیڈیا میں کیا جاتا تھا۔ اس انسائیکلوپیڈیا کے ایک مضمون کا اقتباس پڑھیے:

یوں تو سرزمین یورپ پر عربوں کے عہدِ زرّیں میں کئی حسین محلّات تعمیر ہوئے، لیکن جو نفاست وپاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصے میں آئی اسے نہ تو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ فنی اصطلاحات میں۷۰۔

نونہال لُغتنہ صرف ہمدرد نونہالکامقبول سلسلہ ہے بلکہ طالب علم کے لیے کئی حوالوں سے مفید ہے۔۷۱ ہمدرد نونہال میں شامل مشکل الفاظ کے معنی مع تلفظ ہر ماہ رسالے کے آخر میں شائع کیے جاتے ہیں۔ اس سے بچوں کا نہ صرف تلفظ درست ہوتا ہے بلکہ وہ کئی نئے الفاظ اور اس کے استعمال سے بھی آشنا ہو جاتے ہیں۔
فی زمانہ مطالعے کے رجحان میں کمی کے باعث بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں بے تحاشا کمی آگئی ہے اور اس طرح کے مفید سلسلے ان کمیوں کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ دیکھیے… چند الفاظ اور ان کے معنی مع تلفظ۔

مُبَلّغْ (ع) تبلیغ کرنے والا، پہنچانے والا
مُنْسَلِکْ (ع) پرویا ہوا، شامل، نتھی
مَسْدُوْدْ (ع) بند کیا گیا، بند، رُکا ہوا۷۲

ابتدا میں یہ سلسلہ ان الفاظ کے معنی کیا ہیں کے عنوان سے شائع کیے جاتے تھے، اس وقت الفاظ کے معنی دیے جاتے تھے، جب کہ تلفظ ٹھیک کرنے کا حصہ اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔

خوش الحان: اچھی آواز والا
خبط: جنون، دیوانگی
پژمُردہ: مرجھایا ہوا۷۳

کچھ کہو… کچھ سنو!یہ بھی ہمدرد نونہال کا مستقل سلسلہ رہا ہے، اس سلسلے میں قارئین مدیر سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتے تھے۷۴۔ یہ سوال معلومات عامہ سے بھی ہوسکتا تھا اور ویسے ہی خیال و قیاس کے گھوڑے بھی دوڑائے جاتے تھے۔مثال کے طور پر چند سوالات دیکھیے جو قارئین نے مدیر محترم سے پوچھے۔

سوال: دنیا کی سب سے لمبی نہر کون سی ہے؟
سوال:کیا علم بھی ایک ہنر ہے؟
سوال: بھائی جان! آپ کو کون سی مٹھائی زیادہ پسند ہے؟
سوال:ایک طالب علم کی خصوصیات؟
سوال: چاند ستاروں پر تفریح کا سلسلہ کب شروع ہوگا؟۷۵

صحت مند نونہال اس حصے میں بچوں کی تصاویر شائع کی جاتی تھیں، چھوٹے بچوں کی تصاویر ان کے والدین کے توسط سے آتی تھیں اور اِنھیں اس سلسلے میں شائع کیا جاتا تھا۔۷۶
اخبار نونہال میں دنیا بھر کی ان خبروں کو جمع کیا جاتا تھا جو بچوں سے متعلق ہوں، یہ خبریں مزیدار اور دلچسپ ہوا کرتی تھیں۷۷، جب کہ یہ سلسلہ معلومات میں اضافے کا باعث بھی بن رہا تھا، آج بھی ہمدرد نونہال میں اخبار نونہال کے حوالے سے صفحات مختص ہیں اور قارئین اس سلسلے سے اپنی معلومات میں اضافہ کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں کچھ یوں خبریں شامل کی جاتی ہیں، مثلاً :
٭…چار ٹانگوں والا چوزہ،
٭…۶ سال کی عمر میں طب۔۷۸
مسکراتی لکیریں ایک دلچسپ سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ ا خبار سے رسالے میں آیا۷۹۔ مختلف اخبارات حالات حاضرہ پر مزاحیہ کارٹون بنا کر شائع کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمدرد نونہال نے اپنے قارئین کو محظوظ کرنے کے لیے مسکراتی لکیریں کے عنوان سے یہ سلسلہ شروع کیا۔ اس میں عموماً کسی لطیفے پر مصور اسکیچ بناتا ہے۔ یہ اسکیچ شوخی و شرارت سے بھرپور ہوتا ہے۸۰۔
نونہال ادیب! اس سلسلے میں نئے لکھاریوں کی نگارشات شائع ہوتی ہیں ، یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور کئی نامور ادیب بھی اس میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
نئے قلم کاروں کو مواقع مہیا کرنا کہ وہ اپنا تخلیقی جوہر دکھا سکیں۔ یہ بچوں کے رسائل کا خاصہ رہا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً بڑوں کے رسائل اور اخبارات میں نوآموز قلم کاروں کی تحاریر شائع نہیں کی جاتیں۔ اس لیے اس حوالے سے بچوں کے رسائل میں شامل اس طرح کے سلسلے جہاں اس کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں۔ وہیں مستقبل کے تربیت یافتہ ادیبوں کی پرورش بھی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ جون۱۹۷۸ء کے ہمدرد نونہال میں نونہال ادیب کی فہرست ملاحظہ کیجیے جس میں ایک حصہ نونہال ادیبوں کا تحریر کردہ ہے۸۱۔

ہمدردر نونہال، جون ۱۹۷۸ء کی نونہال ادیب کی فہرست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حلقۂ دوستی میں نونہال اپنا تعارف رسالے میں اپنے مشغلے اور پتے کے ساتھ اس لیے بھیجا کرتے تھے کہ وہ اپنے ہم مزاج لوگوں کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ دوست بن جائیں۔ یہ قلمی دوستیاں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ جدید مشنری آلات کے باعث اب میل ملاقات سوشل میڈیا کے توسط سے ہوتی ہیں۔حلقۂ دوستی ایک طویل عرصے تک ہمدرد نونہال کا حصہ رہا۔۸۲

حصہ نثر:
مجموعی طور پر حصہ نثر،حصہ نظم کے مقابلے میں زیادہ وسعت کا حامل ہے۔ اپنے حجم کے حساب سے فطرتاً حصہ نثر زیادہ جگہ لیتا ہے، لیکن تعداد اور معیارکے اعتبار سے ہمدرد نونہال میں ہمیں حصہ نثر زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ دل چسپ اور پُر تجسس کہانیوں کی بدولت اس حصے کو قارئین کی طرف سے بھی اچھی پذیرائی ملتی ہے۔ بچوں کے بھیجے جانے والے خطوط عموماً کہانیوں پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمدرد نونہال نے کم وبیش ہزاروں کہانیاں اب تک شائع کی ہوں گی۔ اگر ہم ان کہانیوں میں نمائندہ کہانیوں کی ایک فہرست مُرتب کریںتو اس کی صورت کچھ یوں بنے گی۔
ہمدرد نونہال میں شائع شدہ نمائندہ کہانیوں کی فہرست ۸۳
شمار ۔ تحریر ۔ مصنف ۔ ماہ وسال
۱ ۔ ہیرے والا شترمرغ ۔ مترجم: رؤف پاریکھ ۔ اکتوبر۱۹۹۰ء
۲ ۔ سام پہ کیا گزری ۔ مترجم: اظفر مہدی ۔ فروری ۱۹۸۹ء
۳ ۔ منشی جی ۔ ساجد احمد خان ۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء
۴ ۔ گانے کی تھیلی ۔ سید محمد علی بابر زیدی ۔ مارچ ۱۹۸۸ء
۵ ۔ بہادر شکاری ۔ نجم الثاقب ۔ دسمبر ۱۹۹۰ء
۶ ۔ سچ جھوٹ ۔ زبیدہ عنبرین ۔ مارچ ۱۹۸۸ء
۷ ۔ پیشن گوئی ۔ ابرار محسن ۔ فروری ۱۹۹۰ء
۸ ۔ ملکہ اولگا کا انتقام ۔ مولانا عبدالحلیم ۔ فروری ۱۹۹۱ء
۹ ۔ غریب ہی اچھا ۔ مسعود احمد برکاتی ۔ جنوری ۱۹۸۹ء
۱۰ ۔ مچھلی سب کو ملی ۔ سید خرم ریاض ۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۱۱ ۔ ’’ب‘‘ سے بچ کر رہنا ۔ میم ندیم ۔ اکتوبر ۱۹۹۳ء
۱۲ ۔ ستاروں کی گنتی ۔ ابرار محسن ۔ نومبر ۱۹۸۹ء
۱۳ ۔ دو خواہشیں ۔ ۔۔ ۔ اگست ۱۹۸۸ء
۱۴ ۔ قازوں کا سردار ۔ جونکوواسا سے ۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۱۵ ۔ ادیب کا لاکر ۔ شازیہ نور ۔ اپریل ۱۹۹۰ء
۱۶ ۔ مغرور لومڑی ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ۔ ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۷ ۔ شاہی شاعر ۔ میم ندیم ۔ مارچ ۱۹۹۰ء
۱۸ ۔ کاہلی کا انجام ۔ نیاز علی بھٹی ۔ نومبر ۱۹۹۰ء
۱۹ ۔ بادشاہ کا فیصلہ ۔ رحمت اللہ ۔ فروری ۱۹۸۹ء
۲۰ ۔ عقلمند کسان ۔ محمد مقبول الٰہی ۔ ستمبر ۱۹۸۸ء
۲۱ ۔ چوتھا کہاں گیا؟ ۔ اشرف نوشاہی ۔ فروری ۱۹۸۸ء
۲۲ ۔ ۸۰ دن میں دنیا کا چکر ۔ مترجم: علی اسد ۔ اکتوبر ۱۹۹۰ء
۲۳ ۔ سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر ۔ احمد خاں خلیل ۔ جولائی ۱۹۸۹ء
۲۴ ۔ مغرور شہزادی ۔ شمشاد خان ۔ نومبر ۱۹۸۸ء
۲۵ ۔ ماشا کی کہانی ۔ ساجدہ رحمن ۔ فروری ۱۹۸۸ء
۲۶ ۔ گروی آنکھ ۔ شکیل فاروقی ۔ جون ۱۹۹۳ء
۲۷ ۔ اصلی جادو ۔ معراج ۔ اگست ۱۹۹۴ء
۲۸ ۔ خوشی کی پری ۔ نصرت شاہین ۔ جولائی ۱۹۸۹ء
۲۹ ۔ گدھے کے کان ۔ فاطمہ مسعود ۔ اگست ۱۹۸۸ء
۳۰ ۔ ڈرپوک چڑیلیں ۔ اظہر علی اظہر ۔ نومبر ۱۹۸۹ء
۳۱ ۔ مونٹی کرسٹو کا نواب ۔ مترجم: مسعود احمد برکاتی ۔ اگست ۱۹۸۹ء
۳۲ ۔ کہاوتوں کی کہانیاں ۔ رؤف پاریکھ ۔ اکتوبر ۱۹۸۹ء
۳۳ ۔ انشا پارے ۔ ابن انشا ۔ جولائی ۱۹۸۸
۳۴ ۔ پراسرار غار میں ۔ معراج ۔ اگست ۱۹۸۷ء
۳۵ ۔ خزانے کی تلاش ۔ معراج ۔ مارچ ۱۹۸۸ء

اس فہرست میں ہر کہانی کا عنوان کہانی کی جانب متوجہ کرتا نظرآتا ہے۔ ان نمائندہ کہانیوں میں کچھ کہانیاں انگریزی سے ترجمہ ہیں۔ یہ تراجم رواں اور سبک ہیں اور کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ انھیں کسی اور زبان سے اُردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ہر کہانی کو مصنف نے ایسے برتا ہے کہ اس میں مقامی رنگ جھلکتا نظر آتا ہے۔
ایچ جی ویلز (H. G. Wells)کی کہانی ہیرے والا شتر مرغ کو دیکھیے کہ اس کا آغاز ہی اتنے دلچسپ انداز سے ہورہا ہے کہ قاری فوراً کہانی کی گرفت میں آجاتا ہے۔ ۸۴

’’اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمھیں بتائوں کہ میں نے ایک ایسا شتر مرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پائونڈ لگائی گئی تھی۔‘‘
’’تین ہزار پائونڈ! سمجھے؟‘‘اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔
اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھس بھر کر اُنھیں بیچنا تھا۔ اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصے سنایا کرتا تھا۔
’’تین ہزار پائونڈ؟‘‘ میں نے حیرت ظاہر کی۔ ’’کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شتر مرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اُڑ گیا تھا لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔‘‘
’’شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
اس نے ہماری دلچسپی کو دیکھ کر پورا قصہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا۔۸۵

ایچ جی ویلز کی یہ کہانی اپنے ابتدائی چند سطور ہی میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ دوسرا اہم کام مترجم کا ہے کہ وہ کتنا رواں ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے ہمدرد نونہال میں اس کے علاوہ بھی بے شمار کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے، جن میں’’و اشنگٹن اِروِنگ‘‘ (Washington Irving) کی کہانی پہاڑی کا بھوت،۸۶ ’’ایڈگرویلس‘‘ کی کہانی پچاس لاکھ کا نوٹ۸۷ اور ’’مارک ٹوئن‘‘ (Mark Twain)کی دس لاکھ کا نوٹ ۸۸شامل ہے۔یہ کہانیاں کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ یہ تمام تراجم ایسے ہیں کہ انھیں قاری کا ذوق بڑھانے کے لیے ضرور پڑھانا چاہیے۔
ہمارے ہاں موجودہ دور میں مصنّفین اور رسائل میں لکھنے والے بچوں کے قلم کار ان عموماً اوسط درجے کا ادب پڑھ کر بچوں کے لیے لکھ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کہانیوں کے مرکزی خیال ایک ہی نقطے کے گرد گھومتے ہیں اور وہ کوئی نئی چیز پیش نہیں کرپاتے۔ ایسے قلمکاروں کے لیے ایسی نمائندہ کہانیوں کی فہرست ضرور مرتب ہونی چاہیے جس کا مطالعہ کرکے وہ اپنے کینوس کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔ جتنا اچھا ادب پڑھا جائے گا، اتنا ہی اچھا ادب تخلیق بھی ہوگا۔

حصہ نظم:
ہمدرد نونہال میں جہاں نثر کے میدان میں ہمیں بڑے بڑے ادیب نظرآتے ہیں، وہیں بڑے شاعروں نے بھی بچوں کے لیے لکھا۔انور شعور، تنویر پھول، ضیاء الحسن ضیا، شاعر لکھنوی، پروفیسر آفاق صدیقی،حمایت علی شاعر، حامداللہ افسر،حسن عابدی، قمر ہاشمی، عنایت علی خان، مہر وجدانی،فیض لدھیانوی، عاصمہ گل عصمی، رشید گوالیاری، عنبر چغتائی، نازش حیدری اور غلام محی الدین ان شاعروں میں نمایاں شاعر رہے ہیں جو ہمدرد نونہال کے لیے مستقل بنیادوں پر نظمیں لکھتے رہے ہیں۸۹۔ ان میں کچھ نظمیں تو ایسی ہیں جنھیں ہم عمدہ کہہ سکتے ہیں لیکن بہت ساری نظمیں ایسی بھی ہیں جو بالکل عمومی نوعیت کی ہیں۔
نظموں کے معاملے میں بہرحال محتاط رہنا چاہیے۔ اکثر اوقات ایسی نظمیں بھی شائع ہوجاتی ہیں جو وزن اور بحرسے خارج ہوتی ہیں۔اگر مدیر یا اس کی ٹیم کا کوئی فرد شاعر ہے یا پھر عروض جانتا ہے تو پھر اس شعبے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ ان نظموں کو کسی اچھے شاعر سے چیک کرواکر شائع کیا جائے، مگر عموماً ادارہ اس چیز کاتردّد نہیں کرتا اور ’جیسا اور جہاں ہے‘ کی بنیاد پر نظم شائع کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے رسالے کا مذاق خراب ہوتا ہے اور اہل علم حضرات کو یہ چیزیں گراں گزرتی ہے کہ بچے اس طرح کی غلطیوں سے نا آشنا ہوتے ہیں اور وہ لاشعوری طور پر ایک غلط چیز سیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ذیل میں ہمدرد نونہال میں شائع شدہ چند نظموں کی فہرست دیکھیے۹۰:

۱۔ ترانۂ علم جنوری ۱۹۷۸ء
۲۔ کنجوس کا تحفہ فروری ۱۹۸۲ء
۳۔ سمندر کے پاسباں جنوری۱۹۷۲ء
۴۔ تم کھیلتے رہو جنوری ۱۹۷۸ء
۵۔ دھنک فروری ۱۹۸۲ء
۶۔ اچھی لڑکی مارچ۱۹۷۳ء
۷۔ بندر والا جنوری ۱۹۷۸ء
۸۔ کوئی دن اور اکتوبر۲۰۰۰ء
۹۔ ہم ہیں پاکستانی اکتوبر۱۹۹۹ء
۱۰۔ جاں باز سپاہی جنوری۱۹۷۲ء
۱۱۔ عید مبارک مئی ۱۹۹۰ء
۱۲۔ میں پاکستانی بچہ ہوں اگست۱۹۹۰ء
۱۳۔ شہیدِ پاکستان اکتوبر۱۹۹۹ء
۱۴۔ حکمت کا چراغ اکتوبر۲۰۰۰ء
۱۵۔ قائداعظم دسمبر۱۹۹۰ء
۱۶۔ ملیریا نومبر۱۹۹۰ء
۱۷۔ کچی کلیوں کی خوشبو اکتوبر۱۹۹۰ء
۱۸۔ اُخوت کا نغمہ فروری۱۹۹۵ء
۱۹۔ میاں چونچال اکتوبر۲۰۰۰ء
۱۰۔ عیدو کی عید مئی ۱۹۹۰ء
۲۱۔ گڑیا کی شادی اکتوبر۲۰۰۰ء
۲۲۔ مجھ کو آواز دو اگست۱۹۹۰ء
۲۳۔ یادِ سعید اکتوبر۲۰۰۰ء
۲۴۔ دکھی بچے دسمبر۱۹۹۰ء
۲۵۔ چوہے کا جشن شادی اکتوبر۱۹۹۰ء
۲۶۔ قائد ملت اکتوبر۱۹۹۹ء

ہمدرد نونہال میں تعداد کے لحاظ سے بھی نظمیںکم شائع ہوئی ہیں ۔ان نظموں میں ایک نظم دیکھیے جو معروف شاعر پیرزادہ عاشق کیرانوی نے لکھی ہے۔

ترانۂ علم۹۱
علم نورِ زندگی، علم حسنِ آدمی، علم آوازِ خودی
خود کو ہوشیار کر، روشنی سے پیار کر
علم عظمت کا نشاں، علم ہے قوموں کی جاں، علم ہے روح جہاں
اس پہ اعتبار کر، روشنی سے پیار کر
نغمۂ بہار سُن اور باربار سُن، وقت کی پکار سُن
اب نہ خود کو خوار کر، روشنی سے پیار کر
عزمِ بے پناہ سے، لشکروسپاہ سے، ترقیوں کی راہ سے
خود کو ہم کنار کر، روشنی سے پیار کر

جب کہ ان چیزوں میں ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ کمی مثنوی کی صنف کا استعمال نہ ہونا ہے۔ بچوں کے کسی رسالے کے لیے شاذ ہی کسی شاعر نے مثنوی لکھی ہو۔ حالاں کہ یہ صنف بچوں کی طبیعت سے بہت زیادہ میلان کھاتی ہے۔ کسی واقعے یا کہانی کو اس صنف میں بیان کرکے بچوں کو خوب محظوظ کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ چھوٹے بچوں کے لیے مثنوی بور یت کا باعث بنے گی لیکن تھوڑے بڑے بچے اس سے خوب لُطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
ہمدرد نونہال اپنے آغاز کے بعد سے جیسے جیسے تناور درخت بنتا گیا ویسے ویسے اس کے مختلف سلسلوں میں بہتری آتی گئی، اچھے لکھنے والے ملے،اچھی ٹیم میسرآئی تو رسالے میں نکھار آیا۔ رسائل میں البتہ یہ مسئلہ رہتا ہے کہ آپ کو ہر ماہ ہر چیز بہت اچھی نہیں مل سکتی۔ فرض کریں کہ ایک رسالے میں ہر ماہ ۸ سے ۱۰ کہانیاں شائع ہوتی ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ تمام کہانیاں لاجواب ہوں گی۔ کچھ کہانیاں عمدہ ہوتی ہیں تو کچھ اوسط درجے کی۔ اچھا مدیر وہ ہوتا ہے جو کمزور پلاٹ پر مشتمل کہانیوں کو یا تو بہتر بنائے یا پھر تحریروں کو شامل اشاعت ہی نہ کرے۔ ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ بہت سارے مدیران بڑے ادیب کا نام دیکھتے ہوئے تحریر کو شائع کردیتے ہیں، اب چاہے تحریر اس قابل ہو بھی یا نہیں…یہ نہیں دیکھا جاتا۔ اس کی وجہ سے رسائل کا معیار ٹھیک نہیں رہتا۔
ہمدرد نونہالکا جائزہ لیتے ہوئے اندازہ ہوا کہ مدیران نے بچوں کی دلچسپی کو مقدم رکھا، کہیں کہیں ایسا محسوس ہوا کہ تحریر طوالت کی وجہ سے اپنی افادیت کھو دیتی ہے، مثال کے طور پر ہم ابرابر محسن کی کہانی چاند کی بیٹی۹۲ کو دیکھتے ہیں جو ہمیں طوالت کا شکار نظر آتی ہے یا پھر علی اسد کی ولایتی شیخ چلی۹۳، یہ کہانیاں دل چسپ ضرور ہیں لیکن طوالت ان کی خوب صورتی کو گہنا رہی ہے۔ بچوں کے ادب میں ہمیں اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایک بچے کی اوسط پڑھنے کی طاقت کتنی ہے؟ کیا وہ ایک طویل کہانی کو پڑھ پائے گا جب کہ اس میں طوالت کی وجہ سے دلچسپی ختم ہورہی ہو۔ یاد رہے کہ یہاں قسط وار ناول کی بات نہیں ہورہی، قسط وار ناول کی ہر قسط میں تجسس کا عنصر اس قدر موجود ہوتا ہے کہ قاری اس کی اگلی قسط کا بے صبری سے انتظار کرتا ہے، اگر ہم بچے کی ذہنی استعداد کو دیکھیں گے تو خود بخود ہماری کہانیوں میں یا تو دلچسپی کا عنصر بڑھے گا یا پھر ہم مختصر کہانیاں لکھ سکیں گے۔
ہمدرد نونہال نے ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے عرصے میں قارئین کو اپنے دلچسپ سلسلوں اور کہانیوں سے محظوظ کیا۔ البتہ انعامی سلسلے، معمے یا اس قسم کی سرگرمیوں کی تعداد بہت کم رہی۔ دوسری جانب نظموں پر بہت زیادہ کام نظر نہیں آتا۔
کلاسک نظموں کا انتخاب بھی شائع کیا جاتا رہا ہے، لیکن نئی نظموں میں وہ چاشنی، نغمگی ہمیں نظر نہیں آتی جو بچوں کی نظموں میں ہونی چاہیے۔ یہ سلسلہ تاحال اچھا نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے مستعدی کے ساتھ شاعروں سے نئے موضوعات پر نظمیں لکھوائی جاسکتی ہیں۔
ہمدرد نونہال نے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ تقریباً چار نسلیں اس رسالے سے مستفید ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں۔ لوگوں کی اس رسالے سے ایک جذباتی وابستگی ہے۔ بچوں کے اُردو ادب کا تذکرہ ہمدرد نونہال کے بغیر ادھورا ہے۔

حوالہ وحواشی:

۱۔ کھوکھر، محمدافتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص:۲۰
۲۔ ایضاً،ص۱۷
۳۔ کھوکھر،محمد افتخار،پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص ۱۵
۴۔ شنید ہے،اس حوالے سے آنکھ مچولی کے سابق مدیر سلیم مغل سے زبانی معلوم ہوا ہے۔
۵۔ سہ ماہی ارمغان ، جولائی تا دسمبر ۱۹۹۶ء ، مشترکہ شمارہ، ۴،۵،کراچی؛ مزید دیکھیے:محمد سعید، حکیم، ۱۹۹۲ئ، بچوں کے حکیم محمد
سعید، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۲۰
۶۔ کھوکھر،محمد افتخار،۱۹۸۹ئ، رسائل کا جائزہ،دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص ۲۳
۷۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، دسمبر ۲۰۱۷ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص:۳
۸۔ سہ ماہی ارمغان ، جولائی تا دسمبر ۱۹۹۶ء ، مشترکہ شمارہ، ۴،۵،کراچی،ص:۳۰
۹۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، فروری ۱۹۵۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۲
۱۰۔ ___________، جنوری ۱۹۵۴ئ،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص۳
۱۱۔ ___________، مارچ ۱۹۶۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۴
۱۲۔ ___________، اپریل ۱۹۵۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۱
۱۳۔ ___________، اپریل ۱۹۵۶ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۳
۱۴۔ ___________، جنوری ۱۹۵۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۱
۱۵۔ ___________، اپریل ۱۹۵۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۲
۱۶۔ ___________، جنوری ۱۹۵۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۴
۱۷۔ ___________، اپریل ۱۹۶۳ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱
۱۸۔ ___________، اگست۲۰۲۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۵
۱۹۔ ___________، نومبر۱۹۸۲ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی،ص ۳
۲۰۔ عندلیب ،فرح،۲۰۰۸ئ، مسعود احمد برکاتی: شخصیت وفن، کراچی، ص:۱۷
۲۱۔ محسن، ابرار ،جون ۱۹۸۱ئ، چاند کی بیٹی، مشمولہ :’ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، ص ۱۷
۲۲۔ حیدری، حیدر بخش، دسمبر۱۹۸۰ئ، آرائش محفل، مشمولہ: ’ہمدرد نونہال‘،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۶۱
۲۳۔ معراج، فروری۱۹۸۸ئ، مشمولہ: ہمدرد نونہال، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس ، کراچی، ص ۳
۲۴۔ ایضاً
۲۵۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، اکتوبر۱۹۹۸ئ، مشمولہ :’اور لیمپ بجھا رہا‘،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۲۶۔ ___________، جنوری ۱۹۸۷ئ، مشمولہ: ہمدرد نونہال، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۲۷۔ ___________، جون ۱۹۸۱ئ، مشمولہ: ہمدرد نونہال، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۲۸۔ کھوکھر،افتخار،ڈاکٹر، ۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا سالانہ جائزہ، دعوۃ اکیڈمی ، اسلام آباد، ص۲۴
۲۹۔ ایضاً
۳۰۔ نگہت، یاسمین، ۱۹۹۸ء ،بچوں کے ادب کی ترقی وترویج میں ہمدرد نونہال کا کردار،
جامعہ کراچی، کراچی، ص۱۳۹
۳۱۔ عالم،منشی محبوب، جون تا دسمبر ۱۹۰۲ئ، بچوں کا اخبار، خادم التعلیم پنجاب، لاہور،ص ۲
۳۲۔ اس حوالے سے یہ یاد رہے کہ یہ تجزیہ ۲۰۰۰ء تک کے رسائل کے جائزے پر مشتمل ہے۔ جب کہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آج کل
بچوں کے رسائل اور کتابیں رنگین اور تصاویر سے مزین ہو کر سامنے آرہی ہیں۔ بچوں کے بڑے رسائل میں تصویروں کا باقاعدہ اہتمام
ہونے لگا ہے۔ مثلاً ، جگمگ تارے، بچوں کا آشیانہ، ہمدرد نونہال، تعلیم وتربیت، بچوں کا اسلام،
الف نگر رسائل دیکھیے
۳۳:۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، اکتوبر۱۹۹۸ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۳۴۔ ___________، جون۱۹۷۳ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص ۶۴
۳۵۔ ___________،اکتوبر۱۹۹۹ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۲۴
۳۶۔ ___________،دسمبر۱۹۶۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص۱۷
۳۷۔ ___________، دسمبر۱۹۹۵ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص۱۹
۳۸۔ ___________،فروری۱۹۹۵ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۱۹
۳۹۔ ___________،جنوری۱۹۹۵ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص ۵۵
۴۰۔ ___________،نومبر۱۹۶۳ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۱
۴۱۔ ___________، اکتوبر۲۰۰۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۶۳
۴۲۔ ___________،اپریل۲۰۱۲ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۴۴
۴۳۔ ___________،فروری۱۹۹۵ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۱۹
۴۴۔ ___________،اپریل۱۹۹۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص۱۹
۴۵۔ ___________،اکتوبر۲۰۰۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص۶۳
۴۶۔ ___________، اگست ۱۹۶۴ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص۲
۴۷۔ ___________، اگست ۲۰۲۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص ۲
۴۸۔ خان، فیصل احمد، اپریل ۱۹۶۶ئ، کیا تم بتاسکتے ہو؟ مشمولہ: ’ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ،ص۸۹
۴۹۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، جنوری۱۹۹۰ئ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی ، ص ۲
۵۰۔ سعید، حکیم محمد، جنوری۱۹۷۸ئ،جاگو جگاؤ، مشمولہ: ’ہمدرد نونہال‘،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۲
۵۱۔ سعید، حکیم محمد، اپریل۱۹۷۸ئ، جاگو جگاؤ، مشمولہ: ’ہمدرد نونہال‘،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۳
۵۲۔ برکاتی، مسعود احمد ، جون ۱۹۹۰ئ، پہلی بات، مشمولہ: ’ہمدرد نونہال‘، کراچی، ص۲
۵۳۔ ایضاً
۵۴۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، ستمبر ۱۹۹۰ئ، مشمولہ: کھل کھلائیے، کراچی، ص۹۵
۵۵۔ ___________، جون ۱۹۸۱ئ، مشمولہ:ہنسو بچو ہنسو، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۷۹
۵۶۔ ___________، جولائی ۱۹۷۳ئ، مشمولہ:رنگ برنگی پھلجڑیاں، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۷۱
۵۷۔ ___________، جولائی۲۰۱۰ئ، مشمولہ:ہنسی گھر، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۷۱
۵۸۔ ___________، مارچ ۱۹۹۰ئ، مشمولہ:کھل کھلائیے،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۸۷
۵۹۔ ___________، جنوری ۱۹۹۵ئ، مشمولہ:پھول پھول خوشبو، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۳
۶۰۔ ___________، جنوری ۱۹۹۰ئ، مشمولہ:دانہ دانہ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۱
۶۱۔ ___________، جنوری۱۹۹۵ئ، مشمولہ:پھول پھول خوشبو، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۳
۶۲۔ ___________، مئی۱۹۹۰ئ، مشمولہ:میری پسند کی نظم، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۹۱
۶۳۔ ایضاً
۶۴۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، مئی۱۹۹۰ئ، بزم ہمدرد نونہال، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۸۱
۶۵۔ ___________، اپریل۱۹۹۰ئ، مشمولہ:آدھی ملاقات، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۰۹
۶۶۔ ___________، اکتوبر ۱۹۶۵ئ، مشمولہ:تمہارا خیال ہے، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۰۵
۶۷۔ ___________، فروری۱۹۹۰ئ، مشمولہ:گل دستہ، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۳
۶۸۔ ایضاً
۶۹۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، مئی ۱۹۶۷ئ، مشمولہ:’مسجد قرطبہ:عظمت وشوکت کا نشان‘، کراچی، ص۶۲
۷۰۔ ایضاً
۷۱۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، مارچ۱۹۹۰ئ، مشمولہ:نونہال لُغت، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۲۰
۷۲۔ ___________، فروری۱۹۸۰ئ، مشمولہ:نونہال لُغت، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۲۰
۷۳۔ ___________، نومبر۱۹۶۵ئ، مشمولہ:ان الفاظ کے معنی کیا ہیں، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۲۰
۷۴۔ ___________،اکتوبر۱۹۶۵ئ، مشمولہ: کچھ کہو… کچھ سنو!، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۹۱
۷۵۔ ایضاً
۷۶۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، اکتوبر۱۹۶۵ئ، مشمولہ: صحت مند نونہال، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۵۳
۷۷۔ ___________، اگست۱۹۷۸ئ، مشمولہ:اخبار نونہال،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۶۷
۷۸۔ ایضاً
۷۹۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، اکتوبر۱۹۹۰ئ، مشمولہ:مسکراتی لکیریں،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۹۵
۸۰۔ ایضاً
۸۱۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، جون ۱۹۷۸ئ، مشمولہ: نونہال ادیب، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۸۱
۸۲۔ ___________، مئی ۱۹۷۸ئ، مشمولہ: حلقہ دوستی، کراچی،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، ص۱۰۹
۸۳۔ ___________، جنوری ۱۹۸۰ئ،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۸۴۔ پاریکھ ، رئوف،دسمبر ۲۰۱۷ئ، ہیرے والا شترمرغ، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص:۹۲
۸۵۔ ایضاً
۸۶۔ ایضاً، ص:۹۸
۸۷۔ ایضاً، ص:۸۳
۸۸۔ ایضاً، ص:۷۳
۸۹۔ ہمدرد نونہال،ماہنامہ ، جنوری ۱۹۷۰ء ،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۳
۹۰۔ ایضاً
۹۱۔ کیرانوی، پیرزادہ عاشق ، جنوری ۱۹۷۸ء ، ترانۂ علم، مشمولہ:’ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۷
۹۲۔ محسن ، ابرار ، جون ۱۹۸۱ئ، چاند کی بیٹی، مشمولہ : ’ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، ص ۱۷
۹۳۔ اسد،علی ، جولائی۱۹۷۳ئ، ولایتی شیخ چلی ، مشمولہ : ’ہمدرد نونہال‘،ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، ص ۲۳

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top