skip to Main Content

غیرت مند محتاج کی پوشیدہ مدد

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ جس طرح علم کا سمندر تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا رحم دل ،سخی اور غریبوں مسکینوں کا ہمدرد بنایا تھا۔ان کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔اگر کبھی کسی سائل کو آئے ہوئے زیادہ دن گزر جاتے تو وہ ڈھونڈ کر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے۔ا ن کی علمی مجلسوں میں جہاں طالبِ علموں ،دین کے مسائل پوچھنے والوں اور فتویٰ لینے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا ،وہاں کئی مسکین حاجت مند بھی آجاتے تھے ۔وہ اپنی ضرورت امام صاحب ؒ کو بتاتے تووہ ان کی ضرورت پوری کر دیتے تھے۔اسی زمانے میں کوفہ میں ایک بڑا امیر آدمی رہتا تھا۔اگرچہ وہ اپنی دولت اکثر نیک کاموں میں صرف کر تا تھا لیکن بد قسمتی سے اس کو کچھ ایسے حالات پیش آگئے کہ اس کی سب دولت او ر جائیداد برباد ہو گئی اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔کچھ عرصہ تو تنگی ترشی کے ساتھ جوں توں کر کے گزارہ کرتا رہا لیکن پھر اس کی حالت اتنی پتلی ہو گئی کہ کبھی کبھی فاقے گزرنے لگے۔بیوی نے کئی مرتبہ کہا کہ ہمارے شہر میں امام ابو حنیفہ جیسے دریا دل بزرگ ہیں ،آپ ان کی خدمت میںجاکر اپنی حالت بتائیں اور مدد کی درخواست کریں ،وہ ضرور ہماری مدد کریں گے لیکن وہ شخص بڑا غیرت مند تھا۔اس نے اچھے دن دیکھے ہوئے تھے،کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے یا کسی سے مدد مانگنے میں شرم محسوس ہوتی تھی اس لئے بیوی کی بات کو ٹال دیتا۔اتفاق سے اس کے گھر کے سامنے ایک دن تازہ ککڑیاں بیچنے والا کوئی شخص گلی سے گزرا۔مفلسی کے مارے میاں بیوی کی چھوٹی بچی ککڑیاں لینے کے لئے مچل گئی ۔ماں سے ککڑیاں خریدنے کے لئے پیسے مانگے لیکن چیل کے گھونسلے میں ما س کہاں۔بیچاری کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ایک ہی ککڑی خرید کر بچی کو بہلا سکے ۔یہی حال باپ کا تھا ،بچی بلبلا رہی تھی لیکن وہ خالی ہاتھ تھا اور بچی کی خواہش پوری نہ کر سکتا تھا۔اپنی بے بسی پر اس کو رونا آگیا اور اس نے امام ابو حنیفہؒ سے مدد مانگنے کا ارادہ کر لیا۔چنانچہ وہ دل پر پتھر رکھ کر امام صاحب کی مجلس میں پہنچا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔اس نے کبھی کسی سے کچھ نہ مانگا تھاآج بھی امام صاحب کے سامنے ہاتھ پھیلانے کاحوصلہ نہ ہوا۔شرم اور غیرت کی وجہ سے امام صاحب کو کچھ بتائے بغیر مجلس سے اٹھ کر گھر کا رخ کیا۔ادھر امام صاحب نے اس کے چہرے سے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ کوئی حاجت مند ہے اور شرم کے مارے مجھ سے کچھ کہہ نہیں سکا۔جب وہ مجلس سے اٹھ کر گھر کی طرف چلا تو امام صاحب چپکے سے اس کے پیچھے ہو لئے۔

 جس گھر میں و ہ داخل ہوا،اما م صاحب نے اس کو اچھی طرح پہچان لیا ۔رات ہوئی تو امام صاحب نے پانچ سو درہم کی تھیلی لی اور اس حاجت مند کے مکان کے باہر جاکر دروازہ کھٹکھٹایا ۔جب اس شخص نے دروازہ کھولا تو امام صاحب نے جلدی سے وہ تھیلی اس کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دی اور خود اندھیرے میں جلدی سے یہ الفاظ کہتے ہوئے واپس آگئے۔

  ”دیکھو !تمہارے دروازے پر ایک تھیلی پڑی ہوئی ہے اس میں پانچ سو درہم ہیں ،یہ تمہارے ہی لئے ہیں “

 وہ تھیلی اٹھار کر اندر گیا اور تھیلی کھولی تو درہموں کے ساتھ کاغذ کا ایک پرزہ بھی پڑا تھا جس پہ یہ عبارت لکھی ہوئی تھی ۔

 ”ابو حنیفہ اس رقم کو لیکر تیرے پاس آیا تھا،یہ حلال کے ذریعے حاصل کی گئی ہے،اس کے کسی تردد کے بغیر اپنے استعمال میں لے آﺅ۔“

™¤Ž„ Ÿ ‹ Ÿ‰„‡ œ¤ ƒ¢“¤‹¦ Ÿ‹‹ ‰•Ž„ ŸŸª ˜—Ÿ ‚¢ ‰ ¤š¦ ç ‡’ –Ž‰ ˜žŸ œ ’Ÿ ‹Ž „§¥ ’¤ –Ž‰ žž¦ „˜ž¤½  ¥   œ¢ ‚ Ž‰Ÿ ‹ž í’Š¤ ¢Ž ™Ž¤‚¢¡ Ÿ’œ¤ ¢¡ œ ¦Ÿ‹Ž‹ ‚ ¤ „§ó  œ¥ ‹Ž¢¥ ’¥ œ‚§¤ œ¢£¤ ’£ž Šž¤ ¦„§  ¦ ‡„ „§óŽ œ‚§¤ œ’¤ ’£ž œ¢ ³£¥ ¦¢£¥ ¤‹¦ ‹  Ž ‡„¥ „¢ ¢¦ Œ§¢ Œ œŽ ™Ž¤‚¢¡ ¢Ž Ÿ’œ¤ ¢¡ œ¤ Ÿ‹‹ œŽ„¥ó   œ¤ ˜žŸ¤ Ÿ‡ž’¢¡ Ÿ¤¡ ‡¦¡ –ž‚ª ˜žŸ¢¡ 틤  œ¥ Ÿ’£ž ƒ¢ˆ§ ¥ ¢ž¢¡ ¢Ž š„¢¤½ ž¤ ¥ ¢ž¢¡ œ ‡Ÿ§… ž Ž¦„ „§ í¢¦¡ œ£¤ Ÿ’œ¤  ‰‡„ Ÿ ‹ ‚§¤ ³‡„¥ „§¥ ó¢¦ ƒ ¤ •Ž¢Ž„ ŸŸ ”‰‚ ç œ¢ ‚„„¥ „¢¢¦   œ¤ •Ž¢Ž„ ƒ¢Ž¤ œŽ ‹¤„¥ „§¥ó’¤ Ÿ ¥ Ÿ¤¡ œ¢š¦ Ÿ¤¡ ¤œ ‚ Ÿ¤Ž ³‹Ÿ¤ Ž¦„ „§óŽˆ¦ ¢¦ ƒ ¤ ‹¢ž„ œ†Ž  ¤œ œŸ¢¡ Ÿ¤¡ ”Žš œŽ „ „§ ž¤œ  ‚‹ ›’Ÿ„¤ ’¥ ’ œ¢ œˆ§ ¤’¥ ‰ž„ ƒ¤“ ³£¥ œ¦ ’ œ¤ ’‚ ‹¢ž„ ¢ Ž ‡£¤‹‹ ‚Ž‚‹ ¦¢ £¤ ¢Ž ¢¦ œ¢¤ œ¢¤ œ Ÿ‰„‡ ¦¢ ¤óœˆ§ ˜Ž”¦ „¢ „ ¤ „Ž“¤ œ¥ ’„§ ‡¢¡ „¢¡ œŽ œ¥ Ž¦ œŽ„ Ž¦ ž¤œ  ƒ§Ž ’ œ¤ ‰ž„ „ ¤ ƒ„ž¤ ¦¢ £¤ œ¦ œ‚§¤ œ‚§¤ š›¥ Ž ¥ ž¥ó‚¤¢¤  ¥ œ£¤ ŸŽ„‚¦ œ¦ œ¦ ¦ŸŽ¥ “¦Ž Ÿ¤¡ ŸŸ ‚¢ ‰ ¤š¦ ‡¤’¥ ‹Ž¤ ‹ž ‚Ž ¦¤¡ 큳ƒ   œ¤ Š‹Ÿ„ Ÿ¤¡‡œŽ ƒ ¤ ‰ž„ ‚„£¤¡ ¢Ž Ÿ‹‹ œ¤ ‹ŽŠ¢’„ œŽ¤¡ í¢¦ •Ž¢Ž ¦ŸŽ¤ Ÿ‹‹ œŽ¤¡ ¥ ž¤œ  ¢¦ “Š” ‚ ™¤Ž„ Ÿ ‹ „§ó’  ¥ ˆ§¥ ‹  ‹¤œ§¥ ¦¢£¥ „§¥íœ’¤ œ¥ ’Ÿ ¥ ¦„§ ƒ§¤ž ¥ ’¥ ¤ œ’¤ ’¥ Ÿ‹‹ Ÿ  ¥ Ÿ¤¡ “ŽŸ Ÿ‰’¢’ ¦¢„¤ „§¤ ’ ž£¥ ‚¤¢¤ œ¤ ‚„ œ¢ …ž ‹¤„ó„š› ’¥ ’ œ¥ §Ž œ¥ ’Ÿ ¥ ¤œ ‹  „¦ œœ¤¡ ‚¤ˆ ¥ ¢ž œ¢£¤ “Š” ž¤ ’¥ ŽóŸšž’¤ œ¥ ŸŽ¥ Ÿ¤¡ ‚¤¢¤ œ¤ ˆ§¢…¤ ‚ˆ¤ œœ¤¡ ž¤ ¥ œ¥ ž£¥ Ÿˆž £¤ 󟁡 ’¥ œœ¤¡ ŠŽ¤‹ ¥ œ¥ ž£¥ ƒ¤’¥ Ÿ ¥ ž¤œ  ˆ¤ž œ¥ §¢ ’ž¥ Ÿ¤¡ Ÿ ’ œ¦¡ó‚¤ˆŽ¤ œ¥ ƒ’ „ ¥ ƒ¤’¥ ‚§¤  ¦¤¡ „§¥ œ¦ ¤œ ¦¤ œœ¤ ŠŽ¤‹ œŽ ‚ˆ¤ œ¢ ‚¦ž ’œ¥ 󤦤 ‰ž ‚ƒ œ „§ 킈¤ ‚ž‚ž Ž¦¤ „§¤ ž¤œ  ¢¦ Šž¤ ¦„§ „§ ¢Ž ‚ˆ¤ œ¤ Š¢¦“ ƒ¢Ž¤  ¦ œŽ ’œ„ „§óƒ ¤ ‚¥ ‚’¤ ƒŽ ’ œ¢ Ž¢  ³¤ ¢Ž ’  ¥ ŸŸ ‚¢ ‰ ¤š¦ç ’¥ Ÿ‹‹ Ÿ  ¥ œ Ž‹¦ œŽ ž¤óˆ  ˆ¦ ¢¦ ‹ž ƒŽ ƒ„§Ž Žœ§ œŽ ŸŸ ”‰‚ œ¤ Ÿ‡ž’ Ÿ¤¡ ƒ¦ ˆ ¢Ž ‹¢’Ž¥ ž¢¢¡ œ¥ ’„§ ‚¤…§ ¤ó’  ¥ œ‚§¤ œ’¤ ’¥ œˆ§  ¦ Ÿ  „§³‡ ‚§¤ ŸŸ ”‰‚ œ¥ ’Ÿ ¥ ¦„§ ƒ§¤ž ¥ œ‰¢”ž¦  ¦ ¦¢ó“ŽŸ ¢Ž ™¤Ž„ œ¤ ¢‡¦ ’¥ ŸŸ ”‰‚ œ¢ œˆ§ ‚„£¥ ‚™¤Ž Ÿ‡ž’ ’¥ …§ œŽ §Ž œ ŽŠ œ¤ó‹§Ž ŸŸ ”‰‚  ¥ ’ œ¥ ˆ¦Ž¥ ’¥  ‹¦ œŽ ž¤ „§ œ¦ ¤¦ œ¢£¤ ‰‡„ Ÿ ‹ ¦¥ ¢Ž “ŽŸ œ¥ ŸŽ¥ Ÿ‡§ ’¥ œˆ§ œ¦¦  ¦¤¡ ’œó‡‚ ¢¦ Ÿ‡ž’ ’¥ …§ œŽ §Ž œ¤ –Žš ˆž „¢ ŸŸ ”‰‚ ˆƒœ¥ ’¥ ’ œ¥ ƒ¤ˆ§¥ ¦¢ ž£¥ó     ‡’ §Ž Ÿ¤¡ ¢ ¦ ‹Šž ¦¢íŸ Ÿ ”‰‚  ¥ ’ œ¢ ˆ§¤ –Ž‰ ƒ¦ˆ  ž¤ 󎁄 ¦¢£¤ „¢ ŸŸ ”‰‚  ¥ ƒ ˆ ’¢ ‹Ž¦Ÿ œ¤ „§¤ž¤ ž¤ ¢Ž ’ ‰‡„ Ÿ ‹ œ¥ Ÿœ  œ¥ ‚¦Ž ‡œŽ ‹Ž¢¦ œ§…œ§…¤ ó‡‚ ’ “Š”  ¥ ‹Ž¢¦ œ§¢ž „¢ ŸŸ ”‰‚  ¥ ‡ž‹¤ ’¥ ¢¦ „§¤ž¤ ’ œ¥ ‹Ž¢¥ œ¤ ˆ¢œ§… ƒŽ Žœ§ ‹¤ ¢Ž Š¢‹  ‹§¤Ž¥ Ÿ¤¡ ‡ž‹¤ ’¥ ¤¦ žš— œ¦„¥ ¦¢£¥ ¢ƒ’ ³£¥ó      þþ‹¤œ§¢ Ú„Ÿ¦Ž¥ ‹Ž¢¥ ƒŽ ¤œ „§¤ž¤ ƒ¤ ¦¢£¤ ¦¥ ’ Ÿ¤¡ ƒ ˆ ’¢ ‹Ž¦Ÿ ¦¤¡ í¤¦ „Ÿ¦Ž¥ ¦¤ ž£¥ ¦¤¡ ýý     ¢¦ „§¤ž¤ …§Ž œŽ  ‹Ž ¤ ¢Ž „§¤ž¤ œ§¢ž¤ „¢ ‹Ž¦Ÿ¢¡ œ¥ ’„§ œ™ œ ¤œ ƒŽ¦ ‚§¤ ƒ „§ ‡’ ƒ¦ ¤¦ ˜‚Ž„ žœ§¤ ¦¢£¤ „§¤ ó     þþ‚¢ ‰ ¤š¦ ’ Ž›Ÿ œ¢ ž¤œŽ „¤Ž¥ ƒ’ ³¤ „§í¤¦ ‰žž œ¥ Ž¤˜¥ ‰”ž œ¤ £¤ ¦¥í’ œ¥ œ’¤ „Ž‹‹ œ¥ ‚™¤Ž ƒ ¥ ’„˜Ÿž Ÿ¤¡ ž¥ ³£¢óýý

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top