skip to Main Content

دوسرا مالک

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

”بیٹے! تم اس دکان کو دیکھ رہے ہو؟“
”ہاں دادا جان! بہت زبردست دکان ہے… ہر وقت گاہکوں کا ہجوم رہتا ہے، لیکن اس کا مالک ہے بہت عجیب انسان… ارے! مم… مگر… آپ نے کیوں پوچھا اس کے بارے میں؟“
توقیر نے چونک کر اپنے دادا جان کی طرف دیکھا… وہ اب تک اس دکان کی طرف دیکھے جارہے تھے…
”پہلے تم بتاﺅ… تم نے اس دکان کے مالک میں کیا عجیب بات دیکھی ہے؟“
”آپ دیکھ رہے ہیں… عید قریب ہے… خریداروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہیں… دکان داروں کو سر کھجلانے کی فرصت نہیں… رات کو ایک دو بجے کبھی دکان بند کرتے ہیں… ان حالات میں بھی اس دکان کا مالک عجیب ہے… جوں ہی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے… جھٹ سے وقفہ برائے نماز کا بورڈدکان کے دروازے پر لٹکا دیتا ہے… اور پھر تو کوئی لاکھ ضد کرے… یہ سودا فروخت نہیں کرتا… کہتا ہے، رمضان کے دن ہیں… ایک نماز کا ثواب ستر گناہے آج کل… رمضان کے روزے اور رمضان کے دنوں میں مسجد میں باجماعت نمازیں تو میں نہیں چھوڑ سکتا… اب یہ صاحب… دکان سے مسجد چلے جاتے ہیں… خود ہی نہیں… دکان میں جتنے لوگ کام کرتے ہیں، ان سب کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں… میں نے دادا جان… بہت اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا ہے… پورے بازار میں ان دنوں نماز کے لیے اس طرح کوئی بھی نہیں جاتا، بس صرف یہ جاتا ہے… ارے! مم… مگر… آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کیوں مجھے اس دکان کو دیکھنے کی طرف متوجہ کر رہے تھے؟
ویسے دادا جان… میں نے لوگوں کا ایک معمول غور سے دیکھا ہے… اسے محسوس کیا ہے… جوں ہی رمضان شروع ہوتا ہے… مساجد بھر جاتی ہیں، تروایح کے وقت تو عجیب رونق دیکھنے میں آتی ہے… شروع کے آٹھ دس دن تمام مسجدوں میں رونق دیکھنے میں آتی ہے… دوسراعشرہ شروع ہوتا ہے تو نمازیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے… تراویح کے وقت رونق نصف رہ جاتی ہے… اور بازاروں میں رونق بڑھ جاتی ہے… تیسرے عشرے میں تو حد ہی ہوجاتی ہے… مساجد میں نمازی عام دنوں سے کم ہوجاتے ہیں اور بازاروں میں بے تحاشا رش شروع ہوجاتا ہے… جب کہ آپ دیکھ رہے ہیں… یہ آخری عشرہ ہے… رمضان المبارک رخصت ہونے کے قریب ہے، لیکن مساجد میں رونق ختم ہوگئی ہے اور بازاروں کی رونق کئی گنا بڑھ گئی ہے… ایسا کیوں دادا جان… صرف ایک دکان دار اتنے بڑے بازار میں ایسا کیوں ہے… جو ان دنوں میں بھی جب کہ رش بے تحاشا ہے… دکان چھوڑ چھاڑ کر مسجد کی طرف چلا جاتا ہے۔“
”ہاں بیٹے! یہی تو میں تم سے کہہ رہا ہوں… اسی لیے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ توقیر… تم اس دکان کو دیکھ رہے ہو… چلو شکر ہے… تم نہ صرف یہ کہ دیکھ رہے ہو، بلکہ تم تو مجھے بھی دکھا رہے ہو… واقعی توقیر تمہارا مشاہدہ بہت تیز ہے… جن لوگوں کا مشاہدہ تیز ہوتا ہے نا… انہیں زندگی میں آسانی رہتی ہے۔“
”آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آپ میری توجہ اس دکان کی طرف کیوںدلا رہے تھے؟“
”آﺅ، پہلے ذرا دکان کے مالک سے علیک سلیک کر لیں… مجھے اس سے سلام دعا کرنا بہت پسند ہے… ویسے اس شخص کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔“
”احسان! میں سمجھا نہیں دادا جان!“
”پہلے ملاقات کر لیں، پھر گھر کا رخ کرتے ہوئے بتاﺅں گا کہ میں تمہاری توجہ اس دکان کی طرف کیوں دلا رہا تھا۔“
اب توقیر کے دادا اس کا ہاتھ تھامے دکان میں داخل ہوئے… دکان میں اگرچہ گاہکوں کا ہجوم تھا، لیکن اس کے باوجود دکان دار نے انہیں اندر داخل ہوتے دیکھ کر فوراً ہی کہہ دیا:
”آئیے آئیے صاحب جی! آئیے! ارے، یہ تواپنے شیخ احمد صاحب ہیں۔“ یہ کہتے ہی وہ گرم جوشی سے ان کی طرف بڑھا، پھر خلوص سے دونوں سے ہاتھ ملایا، پھر بولا:
”مجھے افسوس ہے… میں اس وقت آپ کو بیٹھنے کے لیے کچھ پیش نہیں کر سکتا… آپ دیکھ ہی رہے ہیں ماشاءاللہ دکان میں کتنا رش ہے۔“
”آپ اپنے گاہکوں کی طرف توجہ دیجیے… میں تو ایسے ہی اپنے پوتے کو آپ سے ملوانے کے لیے لے آیا ہوں… کراچی میں رہتے ہیں نا، کئی سال بعد آنا ہوا ہے… سوچا آپ سے ملوا لاﺅں۔“
”بہت بہت شکریہ… اگر آپ انہیں روزہ کھلنے کے بعد لے آئیں تو اکٹھے بیٹھ کر چائے پی لیں گے۔“
”ٹھیک ہے… ہم کوشش کریں گے… وعدہ نہیں کرتے۔“ توقیر کے دادا فوراً بولے۔
”جی شیخ صاحب… ٹھیک ہے۔“
اور پھر دونوں ان سے ہاتھ ملا کر باہر آگئے۔ اس وقت دادا جان نے کہا:
”بیٹے پہلے اس دکان کا مالک کوئی اور تھا… وہ عام دنوں میں تو نماز پڑھتا تھا، لیکن رمضان میں صرف اپنی دکان کا بن کر رہ جاتا تھا… نہ مسجد میں نمازیں ادا کرتا… نہ تراویح… بس اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کا ایسا کرنا شاید ناگوار گزرا… اور اس کی دکان کے گاہک کم ہونے لگے… ہوتے ہوتے ایسا ہوا کہ دکان میں الو بولنے لگے… مجبور ہو کر اس نے دکان فروخت کر دی۔“
”اوہ… دکان فروخت کر دی!“
”ہاں… اور اس دکان دار نے خرید لی جس سے میں نے ابھی تمہیں ملوایا ہے۔“
”اب میں سمجھا… تو اسی لیے آپ میری توجہ اس دکان کی طرف دلا رہے تھے۔“
”ہاں! یہ وجہ بھی تھی اور ایک اور وجہ بھی۔“ یہ کہہ کر انھوں نے سرد آہ بھری۔
”اور کیا وجہ تھی دادا جان؟“
”اور وہ وجہ یہ ہے میرے بچے کہ اس دکان کا وہ پہلا مالک دراصل میں تھا۔“
”کیا!!!کیا کہا دادا جان؟“
مارے حیرت کے توقیر کے منہ سے نکلا۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top