skip to Main Content
چڑیلوں کی سرائے

چڑیلوں کی سرائے

ناول: The Inn of The Two Witches
مصنف: Joseph Conrad
مترجمہ: رضوانہ سید علی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول کا پس منظر

اسپین جنوب مغربی یورپ کا ایک ملک ہے۔ اسے آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے شمالی افریقہ کے ایک عرب سپہ سالار طارق بن زیاد نے فتح کیا اور اس کا نام اندلس رکھا۔عربوں نے اس ملک پر600سال تک نہایت شان و شوکت سے حکومت کی اور قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کے شہروں میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ اس زمانے میں جب سارا یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اسپین یا اندلس تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے میدان میں دنیا بھر کی راہ نمائی کر رہا تھا۔
عربوں نے اسپین میں تعلیمی اداروں کے علاوہ بہت سے شان دار محل، مسجدیں اور مینار بھی تعمیر کیے۔ ان میں غرناطہ کا شاہی محل ”الحمرا“تمام دنیا میں مشہور تھااور اب بھی اسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
آپس کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے عربوں کی حکومت کم زور ہو گئی تو آس پاس کے عیسائی ملکوں نے اسپین کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور آخرمیں ان کی حکومت صرف غرناطہ کے علاقے تک رہ گئی۔آج سے 500سال پہلے(1492ء میں) غرناطہ پر بھی پڑوسی ملک کے بادشاہ فرڈی نند نے قبضہ کر لیا اور عرب شمالی افریقہ کی طرف فرار ہو گئے۔ جو بھاگ نہ سکے، انہیں نہایت بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
1588ء تک اسپین یورپ کی ایک طاقت ور سلطنت شمار ہوتا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ کمزور ہوتا گیااور 1808ء میں اس پر فرانسیسیوں نے قبضہ کرلیا۔یہاں چھ سال تک ان کی حکومت رہی۔
یہ دلچسپ ناول(چڑیلوں کی سرائے) جسے پولینڈ کے ادیب کان راڈ نے تقریباً 100سال پہلے لکھا تھا اور جس کا رضوانہ سید علی نے آزادترجمہ کیا ہے، اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب اسپین پر فرانسیسیوں کا قبضہ تھا اور اسپین کے لوگ ان کے خلاف گوریلاجنگ لڑ رہے تھے۔ ان گوریلوں کا سردار گونزلز(Gonzales) نام کا ایک شخص تھا اور اس نے سمندر کے قریب ایک ایسی جگہ اپنا اڈا بنا رکھا تھا جہاں دور دور تک پہاڑیوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یورپ کے کئی ملک خفیہ طور پر اس کی مدد کر رہے تھے۔اس وقت بھی، جب یہ ناول شروع ہوتا ہے، گونزلز کے ایک ہمدرد ملک کا ایک ایلچی ایک خاص پیغام لے کر اس علاقے میں آیا ہوا ہے اور لوگوں سے گونزلز کا ٹھکانا معلوم کر رہا ہے۔اس ایلچی کو یہاں کن پر اسرار اور خوف ناک حالات کا سامان کرنا پڑتا ہے۔ یہ آ پ کو اس ناول میں معلوم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیوبا ٹام
وہ چھوٹا سا جنگی جہاز کئی دن سے سمندر کی سطح پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ یہ ایک تنگ کھاڑی یا خلیج تھی اور یہاں سنگلاخ چٹانیں دور دور تک سمندر میں سینہ تانے کھڑی تھیں۔ جنگی جہاز کو کوئی ایسی جگہ نہ مل رہی تھی جہاں وہ لنگر ڈال سکے۔ کپتان کئی روز سے آنکھوں سے دور بین لگائے ہوئے تھا مگر اب تک کوئی مناسب جگہ نہ دیکھ پایا تھا۔ البتہ آج کچھ ایسے آثار نظر آرہے تھے کہ وہ اپنی منزل پا ہی لے گا۔
آخر ایسا ہی ہوا۔ سنگین چٹانیں نیچی ہوتی چلی گئیں اور ایک ایسی ہموار جگہ دکھائی دینے لگی جہاں آبادی کے آثار نظر آرہے تھے۔ یہ چند جھونپڑیاں تھیں، جن میں سے دُھواں اُٹھ رہا تھا۔
”میرا خیال ہے، ہم اپنا کام یہاں سے شروع کر سکتے ہیں۔“کپتان نے ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ان جھونپڑیوں کے پیچھے جو پہاڑی سلسلہ نظر آ رہا ہے۔ گونزلز کا ٹھکانا وہیں کہیں ہو گا۔ مسٹر بائرن!تمہارا کیا خیال ہے؟“
”جی ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے۔“بائرن نے جواب دیا۔ وہ نائب کپتان تھا۔
”ٹھیک۔اچھا، اب یہ بتاؤ کہ گونزلز کو پیغام کس کے ہاتھ بھیجا جائے؟تمہیں تو پیغام کی اہمیت کا اندازہ ہے ہی۔“
بائرن نے ایک لمحے کو کچھ سوچا اور پھر کیوبا ٹام کا نام لے دیا۔ کپتان نے یہ نام سنا تو اس کے چہرے پر اطمینان کے ایسے آثار نظر آئے جیسے وہ خود بھی یہی چاہ رہا ہو۔
”ٹھیک ہے،مسٹر بائرن۔ کیوبا ٹام بالکل صحیح رہے گا او ر اگر ہمارے اندازے کے مطابق گونزلز کا ٹھکانا انہی پہاڑیوں میں کہیں ہوا تو ٹام اُسے ڈھونڈ نکالے گا، لیکن اب تو شام ہو رہی ہے۔ کچھ دیر بعد اندھیرا چھا جائے گا اور اندھیرے میں اَن جانی جگہ پر اُترنا دُرست نہیں ہو گا۔“
”آپ نے دُرست فرمایا، جناب۔ ہمیں یہ بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ ہمارا فالکن کسی کی نظر میں نہ آئے۔“بائرن بولا۔
”فالکن“اس چھوٹے سے جنگی جہاز کا نام تھا۔
”ایسا کرتے ہیں۔“کپتان نے اپنی عُقابی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”کہ وہ جو ایک بڑی سی چٹان نظر آرہی ہے، اُس کی آڑ میں لنگر ڈال دیتے ہیں اورتم صبح منہ اندھیرے ٹام کو کشتی میں بٹھا کر ساحل کی طرف روانہ کر دینا۔ وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ ساری رات کے جاگے ہوئے کُتے بھی اونگھنے لگتے ہیں۔ اس طرح ٹام کو علاقے کا جائزہ لینے کا بہت اچھا موقع مل جائے گا۔“
”جناب، آپ بالکل بے فکر رہیں۔ ساحل تک میں ٹام کے ساتھ خود جاؤں گا اور اچھی طرح دیکھ بھال کر اُسے پہاڑیوں کی طرف روانہ کروں گا۔“
”بس، تو پھر ٹھیک ہے۔ لو یہ دور بین سنبھالو۔میں اپنے کیبن میں جا کر آرام کرنا چاہتا ہوں۔“
کپتان نے دور بین بائرن کے ہاتھ میں دی اور اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
اگلے روز صبح کاذب کے وقت،جب سمندر میں کچھ ہل چل سی تھی اور آسمان پر بادل کے ٹکڑے تیرتے پھر رہے تھے۔فالکن سے ایک کشتی سمندر کے سینے پر اُتاری گئی۔ دو ملاح اسے کھے رہے تھے اور اس کا رخ ساحل کی طرف تھا۔
یہ ٹام اور بائرن تھے۔
اُن دونوں کا ساتھ بہت پُرانا تھا۔ جب کوئی افسر کسی بحری جہاز میں نئی نئی ملازمت اختیار کرتاتو ایک تجربہ کار ملاح کو اس کے ساتھ کر دیا جاتا تا کہ مشکل وقت میں وہ اس کی راہ نمائی کرے۔بائرن نے بھی جب بحری افسر کی وردی پہنی توجس تجربہ کار ملاح کو اس کے ساتھ کیا گیا وہ کیوبا ٹام تھا۔
سات فٹ لمبے اور بھائی بھر کم قد کاٹھ کے مالک کیوبا ٹام کا کیو با کے ملک سے صرف اتنا ہی تعلق تھا کہ اس نے اپنی جوانی کے چند سال کیوبا میں گزارے تھے۔ اس کا اصل نام ٹام کاربن تھا۔ وہ ذہین اور طاقت ور ہونے کے علاوہ ہمت اور حوصلے والا بھی تھا۔ اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس کے سینے میں ایک محبت بھرا دل تھا۔ ورنہ پانیوں میں رہنے والے ملاحوں کے دل سمندری چٹانوں سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔ مگر ٹام سب سے پیار کرتا تھا۔ لہٰذا جہاز کے کپتان سے لے کر ملاحوں تک سارے لوگ اس سے محبت کرتے تھے۔ اور نائب کپتان بائرن سے تو اس کا خاص تعلق تھا کیوں کہ اس کا راہ نما وہی مقرر ہوا تھا۔
ٹام نے ایک زمانہ دیکھا تھا۔ ایک دنیا گھومی تھی۔ مگر جو وقت اس نے کیوبا میں گزارا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی زندگی کا نچوڑ ہے۔ فارغ اوقات میں وہ ملاحوں کو وہ حیرت انگیز واقعات سنایا کرتا تھاجو کیوبا میں اسے پیش آئے تھے۔ کیوبا کا ملک شمالی اور جنوبی امریکا کے وسط میں خلیج میکسیکو میں واقع ہے اور ویسٹ انڈیز کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اس کا بیشتر علاقہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے جہاں صنوبر اور مہاگنی کے درخت پائے جاتے ہیں۔شہر ’ہوانا‘ اس کا دارالحکومت ہے۔ یہ شہر اس ملک کی اہم بندرگاہ بھی ہے۔
کیوبا ہری بھری چراگاہوں کا ملک ہے اور یہاں کے زیادہ تر لوگ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ یہاں تمباکو اور گنا کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ کافی،کوکا، مکئی، چاول اور پھل بھی افراط سے پیدا ہوتے ہیں۔
ٹام کاربن جنوبی امریکا کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے کا رہنے والا تھا۔ اس کا باپ فرنیچر بناتا تھا۔ اس نے ٹام کو اپنا کام سکھانے کی بڑی کوشش کی مگر ٹام تو پیدائشی ملاح تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت ساحل سمندر پرگزرتا تھا۔ وہ دن بھر مچھلیاں پکڑتا، سمندر میں نہاتا اور سمندر کے سینے پر تیرنے والی رنگ برنگی کشتیوں اور جہازوں کو حسرت سے تکتا رہتا۔
آخر اُس سے زیادہ صبر نہ ہو سکا اور ایک روز وہ چپکے سے ایک جہاز میں چھپ گیا۔
جہاز گہرے پانیوں میں پہنچا تو کپتان کو علم ہوا کہ ایک لڑکا اُس کے جہاز میں سوار ہو گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا جنگی جہاز تھا جو کیوبا کی طرف جا رہا تھا تا کہ اُن ڈاکوؤں کی سرکوبی کر سکے جنہوں نے خلیج میکسیکو میں اُن دنوں تباہی مچا رکھی تھی۔
جنوبی امریکا کی ایک ریاست کے بادشاہ نے اِن ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لئے یہ جنگی جہاز بھیجا تھا۔ راستے میں جب وہ ٹام کے جزیرے کے قریب خوراک اور تازہ پانی لینے کے لیے رُکا تو ٹام نہ جانے کیسے فوجیوں کی آنکھ بچا کر اُس میں سوار ہو گیا اور اُس کے اسٹور میں بوریوں کے پیچھے جا چھپا۔ کپتان نے چاہا کہ ٹام کو کسی دوسری کشتی میں سوار کر کے واپس بھیج دے مگر اُس نے صاف انکار کر دیا۔
کچھ دن بعد کپتان کو پتا چلا کہ ٹام بہت نڈر اور محنتی نوجوان ہے تو اس نے اسے جہاز میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح ٹام نے اپنی نو جوانی کے دن کیوبا میں گزارے اور ڈاکوؤں کے خلاف اس مہم میں بھر پور حصہ لیا۔ آخر یہ مہم ختم ہوئی۔ ڈاکو مارے گئے مگر جہاز کا کپتان بھی مارا گیا۔ اس کے بعد ٹام مختلف جہازوں پر ملازمت کرتا رہا آخر اس جہاز میں ملازم ہو گیا جو گونزلز کے لئے ایک خاص پیغام لے کر جا رہا تھا۔ وہ کیوبا کے بارے میں ا س قدر باتیں کرتا تھا کہ لوگ اسے کیوبا ٹام کہنے لگے۔
ٹام اپنے طاقت ور بازوؤں سے تیزی سے کشتی کھے رہا تھا۔جلد ہی اُس کی کشتی ساحل سے جالگی۔کچھ دور ایک چھوٹے سے ساحلی گاؤں کے آثار نظر آرہے تھے۔یہ چند ٹوٹی پھوٹی سی جھونپڑیاں تھیں۔بائرن نے ساحل پر کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا اور پھر ٹام سے کہا۔ ”ہمیں اِس گاؤں کا قہوہ خانہ تلاش کرنا چاہیے۔وہاں سے ہمیں اِس عِلاقے اورگونزلز کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔“ اُس زمانے میں ہر علاقے میں چھوٹے چھوٹے قہوہ خانے ہُوا کرتے تھے اور اِن قہوہ خانوں کے مالک عِلاقے بھر کی معلومات رکھتے تھے۔
ٹام اور بائرن قہوہ خانے کی تلاش میں گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے۔صبح کا اُجالا تیزی سے پھیل رہا تھا اور گاؤں میں بیداری کے آثار پیدا ہورہے تھے۔اِکا دُکادروازے کُھل گئے تھے اور چند لوگ اِدھر اُدھر چل پھر رہے تھے۔اُنہوں نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ اُن کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں،شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ اجنبی کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔اُن میں ایک ٹھنگنا آدمی سب سے الگ نظر آرہا تھا۔ اُس نے ایک لمبا سا کوٹ پہن رکھا تھا اور اُس کے سر پر پیلے رنگ کا ہیٹ تھا۔
بائرن اور ٹام گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ایک چوراہے پر آپہنچے۔یہاں ایک جھونپڑی کے اندر سے دُھواں اٹھ رہا تھا اور قہوہ کی خوش بُو بتا رہی تھی کہ یہی قہوہ خانہ ہے۔
قہوہ خانے کا مالک لمبوترے مُنہ والا دُ بلا پتلا ساآدمی تھا اوراُس کی صِرف ایک آنکھ تھی۔بائرن نے اپنا اور ٹام کا تعارُف کروایا تو اُس نے اُنہیں قہوہ خانے کی سب سے بہترین کرسیوں پر بٹھایا اور پھر لڑکے کو قہوہ لانے کے لیے کہا۔قہوہ خانے میں بیٹھے ہوئے لوگ اُنہیں یُوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کسی دُسری دُنیا کی مخلوق ہوں۔جو لوگ اُن کے پیچھے پیچھے آئے تھے،اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر حیرت اور دلچسپی سے دیکھنے لگے۔
قہوہ خانے کے مالک نے اپنا نام برنارڈنیو بتایا۔بائرن نے قہوہ پیتے ہوئے برنارڈینو سے پہاڑیوں کا تذکرہ چھیڑا تو ہر شخص چوکنّا ہو گیا اور پھر جب گونزلز کا نام آیا تو وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔بائرن اور ٹام کو اندازہ ہوا کہ گونزلز سے یہاں کے لوگ بہت محبت کرتے ہیں اور چُوں کہ اُنہوں نے خود کو گونزلز کا دوست ظاہر کیا تھا،لہٰذا سب لوگ اُن سے گُھل مِل کر باتیں کرنے لگے۔ ماحول کو مزید دوستانہ بنانے کے لیے بائرن نے برنارڈنیو سے کہا کہ یہاں جتنے بھی گاہک موجود ہیں،اُن سب کو میرے طرف سے ایک ایک پیالی قہوہ پلایا جائے۔
قہوہ پینے کے بعد بائرن نے برنارڈنیو سے پوچھا کہ یہاں کوئی گھوڑا کرائے پر مل جائے گا۔یہ سُن کر ہجوم کو چیرتا ہو ا وہی ٹھنگنا آدمی آگے بڑھا۔مگر ابھی اُس نے کچھ بولنے کے لئے مُنہ کھولا ہی تھا کہ برنارڈنیو نے اپنی اکلوتی آنکھ سے اُسے گُھوراا ور پھر تیزی سے بولا۔ ”جناب! یہاں گھوڑا کہاں۔ہم غریب لوگوں کے پاس گھوڑے کا کیا کام۔اِس بستی میں تو ایک بھی گھوڑا نہیں ہے۔“
یہ سُن کر ٹھنگنا آدمی بھی جلدی سے سرہلا کر بولا۔”ہاں،جناب!یہاں بھلا گھوڑا کہاں۔آج کل جیسے حالات ہیں،اِن میں یا تو بدمعاش گھوڑے پال سکتے ہیں یا مال دار لوگ۔“
بائرن کو محسوس ہوا کہ ٹھنگنا کہنا کچھ اور چاہتا تھا مگر کہ کچھ اور رہا ہے۔لیکن کیوں؟یہ وہ نہ سمجھ سکا۔
”کوئی بات نہیں،جناب!میں پیدل سفر کر سکتا ہوں“ٹام نے مسکرا کر کہا۔

”اور میں ایک ایسا گائیڈ آپ کے ساتھ کردوں گا جو آپ کی اِن مشکل اور پُر پیچ راستوں پر راہ نُمائی کرے گا۔“برنارڈنیو بولا۔اِس پر ٹھنگنا آدمی سرہلا کر کہنے لگا۔ ”ہاں،جناب،میرے بہنوئی برنارڈنیو اِس بستی کے سب سے مُعزز آدمی ہیں۔یہ آپ کے لئے بہترین گائیڈ کا بندوبست کردیں گے۔بہت اچھے آدمی ہیں۔“ اور پھر جب اُس نے برنارڈنیو کو اپنی طرف گھورتے دیکھا تو کِھسیا کر ایک طرف ہوگیا۔ بائرن کو اُس کی باتیں عجیب سی لگیں۔
کچھ دیر بعد گائیڈآگیا۔ ٹام اور بائرن نے سب لوگوں کو خدا حافظ کہا اور گائیڈ کے ساتھ باہر نکل گئے۔موسم خاصا خراب تھا۔آسمان گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔گاؤں کی آخر ی حد پر ایک پتلی سی پگڈنڈی بل کھاتی پہاڑوں میں گُم ہو رہی تھی۔یہاں سے آگے ٹام کو اکیلے سفر کرنا تھا اور بائرن کو واپس جانا تھا۔
”اچّھا،میرے دوست،ہوشیاری سے سفر کرنا۔“بائرن نے ٹام سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور پھر اس پر ایک چھچلتی ہوئی نظر ڈالی۔ ٹام کی پیٹی میں دائیں طرف دو پستول لٹکے ہوئے تھے اور بائیں طرف ایک لمبا سا خنجر تھا۔ بحری فوج کی وردی میں وہ خاصا بارُعب نظر آرہا تھا۔ بائرن کو اسے دیکھ کر تسلی ہوئی۔
ٹام نے بڑے وقار سے اپنے افسر کو سیلوٹ کی اور تیز تیز قدم اُٹھاتا گائیڈ کے ساتھ اُس بل کھاتی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ بائرن نے چِلا کر کہا:
”سُنو، ٹام! ہم چار روز بعد ایک کشتی تمہارے لئے بھیجیں گے۔ اگر تم اس سے پہلے ہی لوٹ آئے تو بستی میں ٹھہر کر ہمارا انتظار کرنا۔“
”ٹھیک ہے، جناب۔“ٹام نے جواب دیا۔
بائرن نے مطمئن ہو کر واپسی کا ارادہ کیا۔ ابھی اُس نے ایک موڑ ہی کاٹا تھا کہ اچانک سامنے کی جھاڑیاں ہلیں، کوئی اچھل کر باہر نکلا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔!

دو چڑیلیں
بائرن خیالات میں گُم چلا جا رہا تھا۔کوئی ایسی بات ضرور تھی جو اُسے بُری طرح سے کھٹک رہی تھی۔جانے کیوں وہ بُری طرح اُلجھ رہا تھا۔اِسی لئے جب اِس موڑ پر اچانک جھاڑیا ں ہٹا کر کوئی دھم سے سامنے آیا تو وہ اُچھل پڑا اور پھر اُسے یہ دیکھ کر سخت غصّہ آیا کہ یہ وہی ٹھنگنا ہے جو پیلے رنگ کا ہیٹ اور لمبا سا کوٹ پہنے اُس وقت سے اُن لوگوں کے پیچھے لگا ہوا تھا جب سے انہوں نے اِس بستی میں قدم رکھا تھا۔
ابھی بائرن کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ٹھنگنے نے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر ”شی“ کی آواز نکالی اور پھر راز داری سے بولا۔ ”جناب،ذرا اُدھر چلیں،اُدھر جھاڑیوں کے پیچھے۔یہاں کوئی دیکھ لے گا۔میں آپ کو بہت کچھ بتاناچاہتا ہوں۔“ یہ کہ کر جھاڑیوں میں گھس گیا۔
بائرن نے سوچا کہ مجھے اِس کی بات سُن لینی چاہئے۔یہ سوچ کر وہ بھی اُس کے پیچھے جھاڑیوں میں گھس گیا۔جھاڑیوں کے دوسری طرف ایک کھلا میدان تھا۔
”جناب،وہ جو بر نارڈ ینو ہے نا؟وہی قہوہ خانے کا مالک۔وہ میرا بہنوئی ہے۔سخت کمینی فطرت کا انسان ہے۔میں اُسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔“
بائرن کو یاد آیا کہ وہ قہوہ خانے میں بھی کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن بر نارڈینو کے گھور نے پر چُپ ہوگیا تھا۔
”جناب،ہم لوگ بھی یہاں اجنبی ہیں۔میری ماں مرگئی۔ میرا باپ مجھے اور میری بہن کو لے کر یہاں آکر بس گیا۔جب وہ میری بہن کی شادی برنارڈینو سے کر رہا تھا تو میں نے سختی سے مخالفت کی تھی،مگر اُس نے میری ایک نہ سُنی۔میرے اندازے بِا لکل دُرست تھے۔ اِس ظالم نے میری معصوم بہن پر اتنے ظلم کیے کہ آخر ایک دن مر گئی۔اچّھا ہی ہُوا اُس کی جان چھوٹ گئی اِس ظالم سے۔“اُس کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔
بائرن اِس قصے سے سخت بیزار ہو رہا تھا،مگر اُس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر کچھ پسیج گیا۔اُس نے پوچھا۔ ”تمہارا باپ کہاں ہے
؟“
”جناب،وہ بھی مر گیا،اور اب میں برنارڈینو کے رحم و کرم پر ہوں۔آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اُس نے صرف ایک بستر اور تھوڑی سی خوراک کے عوض میرا گھوڑا ہتھیالیا ہے۔“
”گھوڑا؟“بائرن اچھل پڑا۔
”ہاں، سرکار۔ میں آپ کو یہی تو بتانے کے لئے یہاں آیا ہوں کہ برنارڈینو کے پاس ایک گھوڑا ہے اور وہ میرا گھوڑا ہے۔“
”اچھا! اگر ایسا ہے تو اُس کے پاس تو رقم کمانے کا یہ بہت اچھا موقع تھا۔میں اُسے گھوڑے کے عِوض ایک معقول رقم دے سکتا تھا۔“
”اللہ ہی جانے،سرکار۔ویسے وہ بڑا سیاست دان آدمی ہے۔اُس کی ہربات میں کوئی نہ کوئی نُکتہ ضرور ہوتا ہے۔“
”مگر جب وہ کَہ رہا تھا کہ یہاں کوئی گھوڑا نہیں ہے تو اُس وقت تو تم اُس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔“
”جناب،میں ایسا کرنے پر مجبور تھا۔آپ نہیں جانتے کہ وہ کیسا آدمی ہے۔یہاں اُس کے سامنے کوئی نہیں بول سکتا۔“
”چلو،مٹی ڈالو،اِس قصے پر۔یہ بتاؤ کہ جس راستے پر میں نے اپنے آدمی کو بھیجا ہے،وہ تو محفوظ ہے یا نہیں؟“
ٹھنگنے نے آگے بڑھ کر بائرن کا بازو اِتنا کس کے پکڑا کہ اُس کی پتلی پتلی اُنگلیاں بائرن کے گوشت میں گُھس گئیں۔اُس نے کہا۔ ”سنیے،جناب۔اِس سڑک کے ایک خاص حصّے پر پہنچ کر لوگ غائب ہوجاتے ہیں،خاص طور سے وہ لوگ جو اکیلے ہوں۔آپ کو اپنے آدمی کے ساتھ خود بھی جانا چاہیے تھا۔کیوں کہ دو یا دو سے زیادہ آدمی کبھی غائب نہیں ہوتے۔ہمیشہ ایک آدمی غائب ہوتا ہے۔“
بائرن نے دہشت زدہ ہو کر اُسے دیکھاتو وہ بولا۔ ”ہاں،جنا ب۔میں بِالکل ٹھیک کہ رہا ہوں۔اِس راستے کے درمیان برنارڈینو کی سرائے ہے۔کسی زمانے میں یہ سرائے بہت چلتی تھی۔اُس وقت میرے پاس بھی کئی بگھیاں اور گھوڑے تھے،اور مسافروں کو ساحل سے سرائے تک لایا لے جایا کرتے تھے۔اب تو نہ مسافر ہیں،نہ بگھیاں۔خدا ان فرانسیسیوں کو تباہ کرے۔اِنہوں نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا۔ اُجاڑ دیا ہمیں ان کم بختوں نے۔جب سرائے میں کچھ باقی نہ رہا توبرنارڈینو بھی سرائے چھوڑ کر ادھر آگیا اور قہوہ خانہ کھول کر بیٹھ گیا۔مگر اُس کی دو خالائیں اب بھی اُس سرائے میں رہتی ہیں۔توبہ! توبہ!کتنی خو ف نا ک عورتیں ہیں۔بِالکل چُڑیلیں لگتی ہیں۔“
یہ کہ کر اُس نے جُھر جُھری لی اور پھر اُسے دوبارہ اپنا گھوڑا یاد آگیا۔بولا۔”ہائے!میرا گھوڑا بھی اس برنارڈینو کے بچے نے ہتھیالیا۔ جناب،آپ کے پاس تو بندوق،پستول سب کچھ ہے۔آپ ایسا کریں کہ بندوق اُس کے سر پر تان کر اُس سے گھوڑا مانگیں۔پھروہ انکار نہیں کر سکے گا۔قہوہ خانے کے پیچھے لکڑی کے ایک کیبن میں اُس نے گھوڑا باندھ رکھا ہے۔وہ ڈر کر گھوڑا لے آئے گا۔آپ اُس پر سوار ہو کر اپنے آدمی کے پیچھے چلے جائیں۔آپ دو ہوں گے تو محفوظ رہیں گے۔کیوں کہ دو لوگ کبھی غائب نہیں ہوتے،جب کہ اکیلا آدمی ہمیشہ غائب ہو جاتا ہے۔وہ کہاں جاتا ہے؟یہ کوئی نہیں جانتا۔ بس جناب،آپ گھوڑا لیں اور اُس کے پیچھے جائیں۔مجھے آپ پر اعتماد ہے۔مجھے معلوم ہے کہ آپ میرا گھوڑا مجھے لوٹا دیں گے۔“
بائرن کو شُبہ ہوا کہ ٹھنگنا آدمی یہ سارے ڈرامے اِس لیے کر رہا ہے کہ وہ خود تو برنارڈینو سے اپنا گھوڑا لے نہیں سکتا،اِس لئے چاہتا ہے کہ کسی طرح میں اُس کا گھوڑا اُسے واپس دلوادوں۔لیکن اچانک اُس کی چھٹی حِس پکار پکار کر کہنے لگی کہ ٹام خطرے میں ہے اور اُسے ٹام کی مدد کرنی چاہیے۔مگر کیسے؟کیا وہ ٹام کے تعاقُب میں جائے؟مگر اُدھر کپتان اُس کا انتظار کر رہا ہوگا۔ پھر کپتان کا حکم یہی تھا کہ میں ٹام کو ساحل تک پہنچاکر لوٹ آؤں۔مجھے واپس جہاز پر جانا چاہئے اور کپتان کو تمام حالات سے آگاہ کرنے کے بعد واپس آنا چاہیے۔
یہ سوچ کر اُس نے ٹھنگنے کا کندھا تھپ تھپایا اور ایک چاندی کا سِکّہ اُسے دیتے ہوئے کہا۔ ”دوست،تمہارا بہت بہت شکریہ۔مگر کوئی کام کرنے سے پہلے مجھے اپنے کپتان سے اجازت لینی چاہیے۔میں پہلے جہاز پر جاؤں گا۔“
”اچھا،خدا بہتر کرے گا۔“ٹھنگنے نے سکہ لیتے ہوئے آہستہ سے کہا اور بائرن اُسے الوداع کہ کر واپس لوٹ گیا۔
بائرن نے جہاز پر پہنچتے ہی کپتان کو تمام واقعات بتائے،جنہیں سُن کر اُسے بہت تشویش ہوئی۔اُنہوں نے تمام معلومات پر غور کیا، ہر طرح سے اور ہر پہلو سے حالات کا جائزہ لیا اور آخر اِس نتیجے پر پہنچے کہ اُنہیں ٹام کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔اُنہوں نے جہاز کو کنارے کے ساتھ ساتھ چلانا شروع کردیا۔وہ اس اُمید پر چلے جارہے تھے کہ شاہد بل کھاتے پہاڑی راستے کا کوئی موڑ کسی ایسی چٹان پر آجائے جو سمندر کے بِالکل قریب ہو اور وہاں کہیں ٹام مل جائے۔مگر ایسا نہ ہوا۔آخر وہ جہاز کو دوبارہ اُسی مقام پر لے آئے جہاں وہ پہلے لنگر انداز ہوئے تھے۔
جب را ت کی سیاہی صبح کا ذب کے دُھندلکے میں تبدیل ہونے لگی تو بائرن چُپ چاپ ساحل پر اتر گیا۔گاؤں کی گلیاں سُنسان پڑی تھیں۔لوگ ابھی بستروں سے باہر نہیں نکلے تھے۔وہ کسی کی نظر وں میں آئے بغیر سیدھا اُسی موڑ تک جا پہنچا جہاں اُس نے ٹام کو الوداع کہا تھا۔آج موسم کل سے بدتر تھا۔تیز ہوا میں تیر کی سی کاٹ تھی۔پھر موٹی بوندیں بھی پڑنے لگیں جو جسم کو چھیدتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ مگر بائرن کسی بھی چیز کی پروا کیے بغیر آگے کی طرف جا رہا تھا۔
وہ چلتا رہا،چلتا رہا۔بھوک،تھکن اور گیلے کپڑوں نے اُس کا حُلیہ خراب کر دیا تھا۔راہ میں اُسے چند لوگ بھی ملے مگر ٹام کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔پہاڑی سلسلہ شاید قریب آرہا تھا مگر پُراسرار سی دُھند میں لپٹے پہاڑڈراؤنے ہیولے لگ رہے تھے۔اور پھر رفتہ رفتہ تاریکی بڑھنے لگی۔ہوا کے شور میں بھی اضافہ ہوگیا۔بائرن کو یوں محسوس ہو ا جیسے کوئی زور زورسے ڈھول پیٹ رہا ہو۔
پھر اُسے یوں لگا جیسے دُور کسی دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے۔اُس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر کسی عمارت کا دُھند لا سا خاکہ نظر آیا۔اور آگے بڑھا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی لکڑی کے دروازے کو زور زور سے پیٹ رہا ہے۔پھر اُسے ایک دُھندلی سی روشنی دکھائی دی۔
”ارے! یہ تو کوئی دیہاتی سرائے ہے اور کوئی مسافر اِس کا دروازہ کھٹ کھٹا رہا ہے۔“یہ سوچ کر با ئرن آگے بڑھا۔اب عمارت بِالکل صاف نظر آرہی تھی۔اچانک دروازہ کُھلا۔اندر کی روشنی چمکی تو وہ بے تابی سے آگے بڑھا۔کوئی شخص عمارت کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔بائرن کو دیکھتے ہی اُس کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اور وہ بھاگ کر تاریکی میں گُم ہوگیا۔
بائرن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کون شخص تھا اور مجھے دیکھ کر چیخا کیوں،کہ دروازے پر بھی ایک ہلکی سی چیخ سُنائی دی۔یہ حیرت کی چیخ تھی اوراِس کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوگیا۔لیکن بائرن نے چٹخنی لگنے سے پہلے ہی زور لگا کر دروازہ کھول لیا اور اندر داخل ہوگیا۔

کافی دیر تو اُس کو پتا نہ چلا کہ وہ کہاں آگیا ہے۔لیکن جب وہ تاریکی میں دیکھنے کے قابل ہُوا تو اُس نے دیکھا کہ وہ ایک ہال نما کمرے میں کھڑا ہے۔کمرے کے وسط میں ایک لمبی سی میز پڑی تھی جس کے آخری کونے میں ایک شمع دان میں سفید رنگ کی لمبی اور موٹی سی موم بتی جل رہی تھی اور اُس کے پاس ایک دُبلی پتلی لڑکی کھڑی زور زور سے ہانپ رہی تھی۔اُس کا رنگ خاصا کالا تھا۔بال بِکھرے ہوئے تھے۔ بائرن کو دروازے پر اُسی کی جھلک نظر آئی تھی۔وہی دروازہ ہ بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور اِسی زور آزمائی کی وجہ سے اب وہ ہانپ رہی تھی۔کالے رنگ کی وجہ سے اُس کے سفید سفید دانت خاصے نُمایاں نظر آرہے تھے۔پھر بائرن کو کمرے میں ایک عجیب طرح کا شور بھی سُنائی دیا۔کچھ کانپتی سی آواز یں اُس کے کانوں سے ٹکرارہی تھیں۔
اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔کمرے میں ایک طرف ایک انگیٹھی رکھی تھی جس میں آگ جل رہی تھی۔اُس کے قریب دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھیں،جو عجیب و غریب قسم کی مخلوق نظر آرہی تھیں۔سفید بگلا سے سر،پوپلے منہ،مُڑی ہوئی ناکیں اور نوک دار ٹھوڑیاں۔اُن کے رنگ بِالکل پیلے تھے اور مُنہ میں ایک بھی دانت نہ تھا۔دونوں کُبڑی تھیں۔
بائرن نے اِتنی بد صورت عورتیں آج تک نہ دیکھیں تھیں۔شاید اُس کے ایک دم اندر گُھس آنے سے وہ ڈر گئی تھیں اور خوف کے مارے اُن کے سر گھڑی کے پینڈولم کی طرح ہل رہے تھے۔ بائرن نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ صرف پناہ کے لئے یہاں آیا ہے اور اُس کا اِرادہ کسی کو نُقصان پہنچانے کا نہیں۔
انگیٹھی پر ایک برتن رکھا تھا جس میں سے اُٹھتی ہوئی بھاپ بتارہی تھی کہ اِس میں کچھ پک رہا ہے۔ایک بُڑھیا اُس برتن کو گھورنے لگی اور دوسری سرجھکا کرگولا سابن گئی۔بائرن کو ہوں محسوس ہوا جیسے وہ چڑیلیں ہیں اور برتن میں کوئی جادوئی شوربا تیار کررہی ہیں۔
اُس نے ایک جھُرجھُری لی اور اُس لڑکی کو دیکھا جو اپنی تیر جیسی آنکھوں سے اُسے گھور رہی تھی۔”یااللہ!میں کہاں پھنس گیا؟مجھے یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔“اُس نے سوچا مگر ساتھ ہی اُسے یادآیا کہ باہر موسم بہت خراب ہے۔یہاں گرمی ہے،حرارت ہے،کھانے کی مہک ہے۔اِس کے سامنے ہی اُسے اِحساس ہوا کہ وہ بھوکا ہے۔تھکا ہوا ہے۔خوراک چاہیے۔آرام چاہیے۔یہ تین عورتیں ہی تو ہیں۔ میرا کیا بگاڑلیں گی۔
اُس نے سر جھٹک کر تمام فِکروں کو جھٹک دیا اور آگے بڑھ کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا!

ٹام پر کیا گزری
سیاہ فا م لڑکی کے لبا س پر بندھا ہوا اَیپرن بتا رہا تھا کہ وہ مُلازمہ ہے۔ اُس نے جلدی سے آگے بڑھ کر شمع کی لَو کو تیز کیا او رپھر جُھک کر بولی:
”جناب، میں آپ کے لیے کھانا لاتی ہوں، اور آپ آج رات یہاں آرام بھی کر سکتے ہیں۔ صبح سویرے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیے گا۔“ اُس کی آواز بہت کراری تھی۔
”ٹھیک ہے۔“ بائرن نے سر ہلایا۔
”جناب، آپ کی وَردی بتارہی ہے کہ آپ بحری فوج کے افسرہیں۔“ لڑکی نے کہا تو بائرن نے اُ س کی طرف دیکھا۔ اُس کی تیز آنکھیں بائرن کی جیکٹ کے سونے کے بٹنوں پر جمی ہوئی تھیں۔
”تمہا را اندازہ دُرست ہے۔ میں فالکن جہاز کا نائب کپتان ہوں اور اپنے ملاّح ٹام کی تلاش میں نکلا ہوں۔ وہ کل اِس راستے سے گزرا ہوگا۔یہاں تونہیں آیا؟“
لڑکی خاموش کھڑی رہی۔ البتہ اُس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ ٹام کے بارے میں کچھ جانتی ہے۔
اچانک دونوں بوڑھی عورتیں یوں چاق و چوبند ہوگئیں کہ بائرن حیران رہ گیا۔ ایک عورت اُٹھ کر سوُپ کے برتن میں لکڑی کا چمچہ زورزور سے چلانے لگی اور دوسری ناک میں گُن گُنا کر بولی:
”کل ایک لمبا چوڑا آدمی ہمارے ہاں ٹھہرا تو تھا۔ اُس نے کھانا بھی کھایا تھا اور رات بھر آرام بھی کیا تھا۔پھر صبح اپنے سفر پر روانہ ہوگیا تھا۔“
بائرن چونک اُٹھا، اچّھا! کل ٹام یہیں تھا۔ چلو، کچھ پتا تو چلا اُس کے بارے میں۔
”صبح کس وقت وہ یہاں سے گیا تھا؟“بائرن۔
”صبح کو ناشتہ کر کے روانہ ہوگیا تھا۔ اُس نے دودھ کے ساتھ دوتوس کھا ئے تھے۔ آپ بھی آرام کریں۔ صبح کو چلے جانا۔“ مُلازمہ نے کہا۔
”اچھا!“ بائرن کچھ سوچتے ہوئے بولا۔”کیا ٹام کے ساتھ اُ س کا گائید بھی تھا؟“
”گائید؟“ تینوں عورتیں ایک ساتھ بولیں ”نہیں جناب۔ وہ باِلکل اکیلا تھا۔“
بائرن کچھ اُلجھ سا گیا۔ کل ٹام جب گاؤں سے نکلا تھا تو برنارڈینو کا دِیا ہوا گائیڈ اُ س کے ہمراہ تھا۔ برنارڈینو کا خیال آتے ہی بائر ن کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ کل اُس ٹھنگنے آدمی نے بتایا تھا کہ برنارڈینو کی ایک سرائے تھی جس میں اُس کی دو بوڑھی خالا ئیں رہتی ہیں۔ کہیں یہ دونوں بوڑھی چڑیلیں بر نارڈینو کی خالائیں تو نہیں؟ اور یہی سوال اُس نے جب ان عورتوں سے کیا تو وہ چپ رہیں۔بِلّی جیسی مکار ملازِمہ اپنی تیز آنکھو ں سے اُسے گھور تی رہی، ایک بوڑھی عورت زور زور سے سُوپ کے برتن میں چمچہ چلانے لگی اور دوسری پھرگولاسابن کر مُراقبے میں چلی گئی۔
بائرن نے بات بدلی اور اُن سے پوچھا۔ ”کیا مجھے یہا ں کوئی ایسا گائید مل سکتا ہے جو پہاڑوں تک میرے ساتھ جائے۔“
”ہاں، ہاں۔“ ایک بُڑھیا بولی۔ ”ایک لڑکا ہمارے پاس آتا ہے۔ وہی جو آپ کے آنے کے وقت یہاں سے جا رہا تھا۔“
”جارہا تھا؟“ بائرن نے حیران ہو کر کہا۔ ”وہ تو باہر کھڑا دروازہ کھٹ کھٹا رہا تھا اور مجھے دیکھ کر بھا گ گیا تھا۔ شاید وہ اندر آنا چاہتا تھا۔“
”نہیں، وہ تو یہیں رہتا ہے۔ وہ ایک بے سہارا یتیم لڑکا ہے اور ہم نے ترس کھا کر اُسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ ہم اُس کا خیا ل رکھتے ہیں، وہ ہما را خیال رکھتا ہے۔ آج وہ گاؤ ں گیا ہے۔ صبح واپس آجائے گا۔“ بوڑھی عورت خنخنی آواز میں بتا رہی تھی۔
اور بائرن پریشان ہورہا تھا۔ اُس نے اپنے کانوں سے سرائے کے دروازے پر دستک کی آواز سُنی تھی اور باہر کسی کو کھڑے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ یہ عورت کچھ اور ہی کہانی سُنا رہی تھی۔ نہ جانے وہ کو ن تھا اور اُسے دیکھ کر کیوں چیخا تھا۔ مجھے یہ سب شیطان کی خالائیں معلوم ہورہی ہیں۔
وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مُلازمہ نے کھانا لا کر اُس کے سامنے رکھ دیا۔ کھانا دیکھتے ہی بائرن کی بھوک چمک اُٹھی اور وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا۔
کمرہ گرم تھا اور کھانامزے دار۔ پھر بھی بائرن ایک نا معلوم سی اُلجھن محسوس کر رہا تھا۔ اب دونوں بوڑھی عورتیں اُس کے قریب آبیٹھیں اور اُسے پُرانے وقتوں کے قصّے سُنا نے لگیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ کسی زمانہ میں اُن کی سرائے کی شُہرت دُور دُور تک تھی۔ بڑے بڑے آدمی اُن کی سرائے میں ٹھہرا کرتے تھے بلکہ ایک مرتبہ تو ایک شہزادہ بھی آکر ٹھہرا تھا۔
شہزادے کا ذکر آتے ہی لڑکی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ بائرن بھی مسکرادیا۔
بوڑھی عورتیں بڑی سنجیدگی سے اپنی سرائے کے قصّے سُناتی رہیں۔ پھر اچانک کسی بات پر اُن میں جھگڑا ہوگیا۔ دونوں عجیب سی آواز میں چیخنے اور ہوا میں ہاتھ پاؤ ں لہرانے لگیں۔ بائرن گھبرا گیا، مگر مُلازمہ یوں کھڑی رہی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شاید یہ اُن کی پُرانی عادت تھی۔ اور واقعی کچھ دیر بعد جھگڑا خود بہ خودختم ہوگیا۔ عورتوں کی چیخیں بھی رُک گئیں اور ہاتھ پاؤں بھی۔ وہ کس بات پر جھگڑی تھیں؟ بائرن کو اِس کا بِالکل پتا نہ چل سکا۔
”یا اللہ! میں کہاں پھنس گیا ہوں؟“اُس نے سوچا۔ عورتوں کے خاموش ہوتے ہی ایک بھیا نک سنّا ٹا ہر طرف چھا گیا۔
”چلیے، جناب۔ اب آرام کیجیے۔ سونے کے کمرے اُوپر کی منزل میں ہیں۔ آپ یقیناشہزادے کی خواب گاہ میں آرام کرنا پسند فرمائیں گے۔“ ملازمہ نے قریب آکر قدرے جُھک کر کہا تو بائرن فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔
ملازِمہ نے مٹّی کے تیل کا لیمپ روشن کر کے سیڑھوں کے قریب رکھ دیاتھا۔ لیمپ کی چمنی بالکل سیاہ ہورہی تھی۔ اُوپر جانے سے پہلے بائرن نے اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا تو اُسے معلوم ہو ا کہ باہر جانے کا صرف ایک ہی دروازہ ہے۔ اُس کے قفل میں چابی لٹک رہی تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر چابی نکالی اور اپنی جیب میں ڈال لی۔
”کل جب ٹام یہاں ٹھہرا ہوگا تو اُس کی کیا حالت ہو گی!“
یہ خیال آتے ہی بائرن کو ایک عجیب و غریب سے خوف نے آگھیرا۔ اُسے یوں لگا جیسے ٹام یہیں کہیں اُس کے آس پاس موجود ہے۔ اور پھر اُسے واضح طو ر پر اُس کی سرگوشی سُنائی دی بالکل اپنے کا ن کے قریب۔وہ کہ رہا تھا:
”مسٹر بائرن، یہاں سے فوراً نکل بھاگیں۔ اِسی وقت۔“
بائرن نے دہشت زدہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کمرے میں اُن تین عورتوں کے سِوا اور کوئی نہ تھا۔ اُس نے اپنے وہم کو جھٹکنے کی کوشش کی اور اپنے آپ سے کہا ”بائرن، تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم تو کبھی ایسے وہمی اورڈرپوک نہ تھے۔“ اور پھر لڑکی کے پیچھے پیچھے ہولیا جو کالی چمنی والا لیمپ اُٹھائے اُس کا اِنتظار کر رہی تھی۔
لڑکی راستہ دکھاتی ہوئی اُوپر چڑھتی گئی اور بائرن اُس کے پیچھے چلتا رہا۔ اوپر کی منزل پر ایک لمبی سی راہ داری میں کئی دروازے دکھائی دے رہے تھے۔ بائرن نے ہر کمرے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر دروازے کو کھول کر اندر جھانکتا، سب کمرے خالی پڑے تھے۔ لڑکی لیمپ تھامے اِ طمینان سے چلتی رہی۔ اُس کی نظریں بائرن پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ آخری دروازے پر پہنچے تو لڑکی نے لیمپ بائرن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا:
”یہ شہزادے کی خواب گاہ ہے۔ یہاں آپ آرام سے سوئیں گے۔“
”اچھا، خدا حافظ۔“ بائرن نے لیمپ پکڑتے ہوئے کہا۔ جواب میں لڑکی کے لب تو ہلے مگر کوئی آواز سُنائی نہ دی۔ بائرن نے لیمپ کمرے میں رکھا اور پلَٹ کر لڑکی کو دیکھا۔ وہ اپنی جگہ جمی کھڑی تھی اور بِالکل بے حِس و حرکت تھی۔
بائرن کچھ خوف زدہ ساہوگیا۔ اُس نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا۔ دروازہ بند کرتے ہی اُسے خیا ل آیا کہ لیمپ تو اُس کے پاس ہے باہر گُھپ اندھیرا ہوگا۔ لڑکی واپس کیسے جائے گی۔ یہ سوچ کر اُس نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ راہ داری بالکل خالی پڑی ہے۔ لڑکی غائب ہو گئی تھی۔ گھبرا کر اُس نے دروازہ بند کر دیا۔
”یا اللہ! میں کہاں پھنس گیا ہوں!“ اُس نے اپنی کنپٹیاں دباتے ہوئے سوچا۔”وہ چڑیلیں چپکے چپکے کیوں لڑرہی تھیں؟اور وہ لڑکی مجھے کیوں مسلسل گھورے جارہی تھی؟ اور پھر وہ آناً فاناً غائب کیسے ہوگئی؟ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

اس نے بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھا اور پورے کمرے کا بہ غور جائزہ لیا۔ کمرے کے ایک کونے میں بڑا سا چھپرکھٹ پڑا ہوا تھا۔ اُس کے چاروں طرف نیلے رنگ کے مخملیں پردے بھی لہرارہے تھے اور مخملیں پردوں کے ساتھ باریک جالی والے ملائم پردے بھی لٹک رہے تھے۔ اب یہ سو نے والے کی مرضی تھی کہ وہ موٹے پردے گراکر سوئے یا اُنہیں سمیٹ کر صِرف جالی کے پردے لٹکے رہنے دے۔
چھپر کھٹ کے بستر کی چادر بھی بہت خوبصورت اور قیمتی تھی۔ جھالر دار غِلافوں والے تکیے اور رضائی بھی بہت شان دار تھی۔ واقعی یہ چھپر کھٹ بادشاہوں اور شہزادوں کے لائق ہی تھا۔ کمرے میں ایک طرف ایک بڑی سی میز اور چند آرام کُر سیاں بھی پڑی تھیں۔ دوسری طرف دیوار کے پاس لکڑی کی ایک بھاری الماری نظر آرہی تھی۔ بائرن نے الماری کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اُس میں تالالگا تھا۔اُس نے کمرے کا دروازہ ٹھو ک بجا کر دیکھا۔ وہ بِالکل محفوظ تھا۔ اُسے باہر سے کھولنا تقریباًناممکن تھا۔ اب اُسے قدرے اِطمینان ہُواکہ اُس کے سونے کے بعد کوئی باہرسے ا ندر داخل نہیں ہوسکے گا۔”مگر کیا مجھے یہاں نیند آجائے گی؟“ اُس نے خود سے پوچھا۔
کاش! آج ٹام بھی میرے ساتھ ہوتا، یا پھر کل میں ٹام کے ساتھ ہوتا۔ ہم دونوں نے اِکھٹے بے شُمار خطروں کا سامنا کیا ہے۔ کئی مرتبہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے للکارا ہے۔ کاش! میں اُسے اکیلا نہ بھیجتا۔ کاش! …… میں اب یہاں پھنسا ہوں اور وہ جانے کہاں دھکے کھا رہا ہوگا۔
اچانک بائرن کو یوں محسوس ہو جیسے کمرااُس کی خاموش سر گوشیوں سے گونج رہا ہے۔”اُف! میرے اللہ! مجھے ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟ شاید اِس لیے کہ گُزشتہ 30 گھنٹوں سے میں مسلسل ٹام کے بارے میں سوچ رہاہوں۔
”جب اُس ٹھنگنے آدمی نے مجھ سے کہا تھا کہ لوگ راستے میں ”غائب“ ہوجاتے ہیں، تب سے یہ لفظ ”غائب“ میرے دماغ کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔ اِسی لیے مجھے ہر چیز مشکوک نظر آرہی ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ٹام گونزلز کے پاس پہنچ چکا ہو۔ صرف ایک رات ہی کی تو بات ہے۔ کل میں ضرور اُسے تلاش کرنے میں کام یاب ہوجاؤں گا۔ پھر ہم دونوں واپس اپنے فالکن پر جائیں گے۔ بس اب مجھے سب کچھ بُھلا کر آرام کرنا چاہیے۔“
یہ سوچ کر بائرن کو کچھ اِطمینا ن سا ہُوا۔ اُس نے اپنا پستول اور تلوار میزپر رکھ دی، کرسی پر بیٹھ کر جوتے اُتارے اورایک طویل انگڑائی لے کر خود کو بستر پر گرادیا۔ بستر بہت نرم،گرم اور آرام دہ تھا۔ اُس نے آنکھیں بند کرلیں۔
”مسٹر بائرن! اُٹھیے! ذرا باہر نکل کر تو دیکھیے!“
جُوں ہی یہ سر گوشی بائرن کے کانوں سے ٹکرائی، اُس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ مگر اُس نے واضح طور پر ٹام کی آواز سُنی تھی۔ وہ ایک دم اُٹھ بیٹھا۔ اُسے یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے وہ اکیلا نہیں۔ کوئی اور بھی اُس کے ساتھ ہے۔ اُس نے بے تابی سے اُٹھ کراِدھر اُدھر دیکھا۔ حتیٰ کہ مسہری کے نیچے بھی جھانک لیا۔ وہاں بھی کچھ نہ تھا۔ اُس نے اپنے آپ کو بہلانے کے لیے ایک قہقہہ لگایا۔ مگر وہ کھوکھلا تھا۔ اُس کے دماغ میں ٹام کی سر گوشیاں مُسلسل گونج رہی تھیں:
”مسڑ بائرن! باہر نکلیے!“
”مسڑبائرن! یہاں سے بھاگ جائیے!“
اب بائرن کو یوں محسوس ہونے لگا کہ یا تو اُس کی چھٹی حِس اُسے کسی اَن جانے خطرے سے خبر دار کررہی ہے یا پھر ٹام کہیں نہ کہیں سے اُس کی راہ نُمائی کر رہا ہے۔ مگر وہ کیا کرے؟ وہ کمرے کو اچھی طرح دیکھ بھال چکا تھا۔ مگر یہ الماری؟ ہا ں، بس یہی الماری ہے جسے میں نے اندر سے نہیں دیکھاہے۔ اگر میں کسی طرح اِسے کھول لوں تو شاید میرا وہم دور ہوسکے۔
اُس نے الماری کا اچھّی طرح جائزہ لیا۔ اُس کا دروازہ بہت مضبوط تھا اور اُس میں تالا لگا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی تلوار اُٹھا کر دروازے کے دونوں پٹوں کے درمیان پھنسائی او ر پوری قُوّت سے اُسے کھولنے کی کوشش کی۔ آخر اُس کی قوت اور تجربہ کامیاب رہااور پٹ چر چر ا کر کُھل گئے۔
اُس کی فکر بے جانہ تھی۔ اُس کے تمام سوالات کا جواب الماری میں موجود تھے۔ الماری کے اندر ٹام کھڑاتھا! خاموش اور بے حِس و حرکت! بائرن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

موت کا چھپر کھٹ
وہ بہادر، عقل مند اور قابل ِ اعتمادملاح، جس کی تلاش میں بائرن نے گزشتہ تیس گھنٹے صرف کیے تھے، وہ وہاں خا موش اور بے حس و حرکت کھڑا تھا!
بائرن نے اُسے چُھوا تو اُس کے سر د جسم نے بتادیا کہ وہ مر چکا ہے۔اُس کی آنکھیں پوری کھلی تھیں اور گھورتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔بائرن کو ایک دھچکا سا لگا۔ خوف کی سرد لہر اُسے اپنی ریڑھ کی ہڈی سے محسوس ہوئی۔وہ ڈر کر جوں ہی ایک قدم پیچھے ہٹا، ٹام یُوں اُس کے اُوپر آپڑا جیسے وہ آگے بڑھ کی اپنے افسر کا استقبال کر رہا ہو۔ اُس کی لاش برف کی طرح سرد اور اکڑی ہوئی تھی۔ بائرن نے مشکل سے اُس کو اپنے اُوپر سے ہٹایا۔
”اچھا، تو یہ ہے ٹام کا انجام! میں اسی کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہوں اور یہ موت کی وادیوں میں اُتر چکاہے۔“
بائرن نے جُھک کر لاش کا جائزہ لیا۔ ٹام کا سیاہ اِسکارف اُس کی گردی میں نہیں تھا۔ اُ س کے پاؤں میں جوتے اور جُرابیں بھی نہیں تھیں۔ اُسکی جیکٹ پرلگے چاندی کے چھ بٹن بھی نوچ لیے گئے تھے۔ مگر اُس کے بدن پر کسی لڑائی جھگڑے کے آثار نہ تھے۔
”ہائے! میرے بہترین ملاح کایہ حشر ہوا!“
بائرن کا ذہن ایک مرتبہ پھر طرح طرح کے خیالات سے بھر گیا۔”وہ جو نچلی منزل پر چڑیلیں ہیں،وہ تو اِس قابل نہیں کہ ٹام جیسے آدمی کو مار سکیں۔ پھر اسے کس نے مار ااور کیسے مارا۔“
بائرن کویاد آیا کہ وہ مکّار بلّی جیسی آنکھوں والی لڑکی کس ندیدے پن سے اُس کی جیکٹ کے بٹنوں کو گھور رہی تھی۔ اور ٹام کی جیکٹ کے بٹن بھی غائب ہیں!
کیا وہ گائید اِن کا ساتھی تھا؟ کیا وہی بہلا پُھسلا کر ٹام کو یہاں تک لایا تھا اور پھر اِن سب نے مل کر اِسے ہلاک کردیا! شاید اُس وقت وہی دروازہ کھٹ کھٹا رہا تھا، اور مجھے دیکھ کر فوراًچلاتا ہو ابھاگ گیا تھا۔
بائرن نے لیمپ اُٹھایا اور ٹام کی لاش پر جُھک کر اُس کا جائزہ لینے لگا۔ اُس کے کپڑوں پر خون کا کوئی دھبانہ تھا۔ جسم پر کسی گولی یا چاقو کا زخم نہ تھا۔ گردن بھی ثا بِت تھی۔بلکہ گلے پر بھی کوئی نشان نہ تھا، یعنی پورے جسم پر کسی قسم کے حملے کے آثار نہ تھے۔
مگر پھر بھی و ہ مرچکا تھا۔حال آں کہ اُس کے پاس دو پستول تھے، خنجر تھا۔ مگر اُس کے ہتھیار اُس کے کسی کام نہ آسکے۔ وہ کسی انجانی موت سے دو چار ہُوا ہے۔ اُسے دھوکے سے مارا گیا ہے، اور اب میری باری ہے۔ میرے بھی ہتھیار کسی کا نہ آسکیں گے۔ میرا پستول، میری تلوار، شاید رکھی کی رکھی رہ جائے گی۔ موت میری طرف بھی اسی طرح دبے پاؤں آئے گی۔ کسی پُر اَسرار طریقے سے۔ پھر کل یہاں دو مُردہ جسم ہوں گے۔ جانے یہ کیسی موت ہے! جانے کس راستے سے آئے گی!
اس کاجی چاہا کہ وہ ٹام کے مُردہ جسم کو جھنجوڑڈالے اور چیخ چیخ کر پوچھے کہ مُجھے بتاؤ، تمہار ے ساتھ کیا ہوا تھا۔مگر اُس نے ضبط سے کام لیا اور ایک مرتبہ پھر گھٹنوں کے بل جُھک کر لیمپ کی مدہم روشنی میں ٹام کی لاش کو بغور دیکھنے لگا۔ اور پھر ایک دم اُ سے ٹام کی اُنگلیوں پر کچھ مدہم مدہم سی خرا شیں دکھائی دیں۔اِس کے ساتھ ہی اُس کی پیشانی پر ایک ہلکا سا دھبا دکھائی دیا۔
بائرن پہلے سے بھی زیادہ خوف زدہ ہوگیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ ٹام کسی ایسی نادیدہ قوت کے خلا ف لڑتے لڑتے مراہے جو یوں ضرب لگاتی ہے کہ بغیر کسی زخم کے آدمی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ایک اَن جانے اور نادیدہ خوف نے بائر ن کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ اُسے لاش کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ڈرلگنے لگا۔ پہلے اُس نے سوچا کہ لاش کو واپس الماری میں رکھ دے۔ پھر جانے کیوں اُس نے اُسے چھپر کھٹ پرلٹا کر رضائی اوڑھادی، اورپھر چھپر کھٹ کے پردے چاروں طرف سے کھینچ کر برابر کردیئے۔ اب نہ لاش اُس کے سامنے تھی۔ نہ چھپر کھٹ۔ وہ نڈھال ہوکر آرام کر سی پر بیٹھ گیا، لیمپ اُس کے قدموں کے قریب فرش پر پڑا تھا۔ اُس کی آنکھیں ہر طرف گردش کر رہی تھیں۔ کبھی دیواروں پر۔ کبھی چھت پر۔ کبھی فرش پر۔ وہ محسوس کررہا تھاکہ بس کچھ ہونے والا ہے۔ کوئی خوف ناک اور پُر اسرار واقعہ ہونے والا ہے۔ وہ موت کا فرشتہ جو یُوں ہلاک کردیتا ہے کہ نہ زخم آئے نہ کوئی نشان باقی رہے، کہیں قریب ہی چُھپا ہواہے۔
اب بائرن کو خود پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔ خوف نے اُس پر کپ کپی طاری کر دی تھی۔ وہ خیال ہی خیا ل میں اُن چُڑیلوں کو دیکھ رہا تھاجو ابھی کہیں سے نمودار ہو کرا ُس کی پیشانی پر موت کا داغ ثبت کردیں گی۔ وہ اپنے آپ کو بالکل کمزور اور بے سہا را محسوس کر رہا تھا۔ خوف اُسے نیم مُردہ کیے دے رہا تھا۔ صرف اُس کی آنکھیں تھیں جو اُس وقت پوری طرح حرکت میں تھیں۔
وہ گھوم رہی تھیں۔ دیواروں پر۔ چھت پر۔ فرش پر۔ اِدھرسے اُدھر۔ اُدھر سے اِدھر۔ اور پھر وہ ایک جگہ جمی کی جمی رہ گئیں۔ پوری کھلی ہوئی اور بے حرکت۔
اور وہ جگہ تھی، چھپر کھٹ، جس کے پردے بُری طرح ہِل رہے تھے اور اُس کی چھتری یا اُوپر کافریم، جس میں پردے لٹکے ہوئے تھے، ہچکولے کھا رہا تھا۔ ہلنے سے پردے اِدھر اُدھر سرک گئے تھے اور بائرن کا مُردہ جسم سامنے نظر آرہا تھا۔ اور پھر بائرن نے دیکھا کہ لاش کو یوں جھٹکا لگا کہ وہ آدھی اُوپر اُٹھ گئی۔ خوف کے مارے اُس کے سر کے بال سیدھے کھڑے ہوگئے۔ اُس نے کرسی کے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑلیا۔ اُس کی زبان خشک ہوکر تالُو سے جالگی۔
عین اُسی وقت پردے دوبارہ ہلے۔ بائرن کو یوں لگا جیسے ٹام زندہ ہورہا ہے۔ وہ چیخنا چاہ رہا تھا۔ ”نہیں، ٹام، نہیں۔“
مگر اُس کے مُنہ سے جو آواز نکلی و ہ محض ایک،سِسکی تھی، بالکل ایسی جیسی سوئے ہوئے آدمی کے مُنہ سے کوئی ڈراؤ نا خواب دیکھ کر نکلتی ہے۔ پھراُسے خیال آیا کہ یا تو وہ پاگل ہوچکا ہے یا ٹام کی روح دوبارہ اُ س کے جسم میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہے۔
اب بائرن کی ہمّت بالکل جواب دے گئی۔ اُس نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں۔ وہ عذاب کا ایک طویل لمحہ تھا۔ آخر آہستہ آہستہ اُس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔ اب اُس نے دیکھا کہ چھپر کھٹ کے پردے لہرا لہرا کر فرش پر ڈھیر ہورہے ہیں، اور پردوں والا فریم آہستہ آہستہ نیچے کو کِھسک رہا ہے، یہاں تک کہ وہ نیچے آکر چھپر کھٹ پر فِٹ ہو گیا۔ چھپر کھٹ پر پڑی ہوئی ٹام کی لاش چھپر کھٹ اور فریم کے درمیان دب گئی تھی۔
بائرن اُٹھ کھڑا ہوگیا اور ایک لمبی سی سانس لے کر چھپر کھٹ کی طرف بڑھا۔ غصّے سے اُس کا بُرا حال تھا۔ ”اچھا، تو یہ وہ موت تھی جو میرے لیے تجویز کی گئی تھی۔ اِسی شیطانی طریقے سے ٹام کو موت کے گھاٹ اُتار ا گیا تھا۔ او ر اس سے پہلے خد امعلوم کتنوں کو اسی طرح مار ا گیا ہوگا۔ اُف! نیند میں تو طاقت ور سے طاقت ور اور بہادر سے بہادر آدمی بھی خاموشی سے موت کی وادی میں اُترجائے گا۔ اُس کے ہتھیار، اُس کی بہادری کسی کام نہ آسکے گی۔ اُف! کس قدر مکّا ر ہیں یہ چُڑیلیں۔ کس آسانی سے لوگوں کی جان لے لیتی ہیں۔
بائرن نے چھپر کھٹ کے قریب پہنچ کر فریم کو اُٹھا نے کی کوشش کی مگر وہ اِس قدر بھاری تھا کہ ہِلا تک نہیں۔ اُف! اس قبر کی سِل جیسے وزنی فریم کے نیچے ٹام کتناتڑپا ہوگا! یقینا اُوپر کے فریم کو حرکت دی جاتی ہے۔ اور وہ تینوں چُڑیلیں ضرور اُوپر موجود ہو ں گی اور مجھے مُردہ خیال کر کے قہقہے لگا رہی ہوں گی۔
مگر اِن کم بختوں کو شاید معلوم نہیں کہ میرا ملّاح میرا کتنا وفادار تھا۔ مرکر بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھا۔ اُس کی روح مجھے مُسلسل خبردار کرتی رہی۔
اب میں تمھیں دیکھ لوں گا۔ یہ بھیا نک شیطانی کارخانہ اب بند ہوجائے گا۔ آئندہ کوئی مُسافر غائب نہ ہوگا۔ یہ راستے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گے۔ اوچُڑیلو! میں تمھاری موت ہوں۔ تمہارے اِ س خونی چھپر کھٹ کا آخری نشانہ ٹام تھا۔ اور اب تمہاری شامت آئی ہے۔

بائرن کمرے میں دیوانہ وار ٹہل رہا تھا۔ وہ تمام معاملے کو سمجھ کر سمجھ داری سے اِن شیطانوں کی خالاؤں سے نمٹنا چاہتا تھا۔ اچانک مٹّی کے تیل کا لیمپ بھڑک کر بجھ گیا۔ شاید اُس کا تیل ختم ہوچکا تھا۔ کمرے میں بھیا نک اندھیرا چھا گیا۔ اب بائرن کو کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔ اُس کے گلے سے خوف ناک آوازیں نکلنے لگیں۔ اور پھر اچانک باہر سے سرائے کا دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا!

دہشت کا خاتمہ
سرائے کا دروازہ اس بے دردی سے پیٹا جا رہا تھا جیسے کوئی لوہے کو کوٹ رہا ہو یا جنگل میں وحشی لوگ ڈھو ل پیٹ رہے ہوں۔ مگر ان آوازوں کا فائدہ یہ ہوا کہ بائرن انہیں سن کر اپنے حواس میں واپس آ گیا۔ وہ اندازے سے کھڑکی کی طرف بڑھا اور اس کے پٹ کھول دیے۔باہر صبح کا ڈھندلا سا اُجالا پھیل رہا تھا۔ اس ہلکی سی روشنی نے بائرن کے تمام ڈر، اندیشے اور وسوسے دور کر دیے۔ اس نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ سرائے کے دروازے پر ایک ہجوم جمع تھا۔
”یہ لوگ کون ہو سکتے ہیں؟“بائرن نے اندازہ لگانے کی کوشش کی ”میرے دوست یا دوشمن؟“یہ مجھ پر حملہ کرنے آئے ہیں یا میرا اور ٹام کا مردہ اٹھانے کے لئے؟یہ جو کوئی بھی ہیں۔ میں ان کا سامنا کروں گا۔ میں انہیں بتا دوں گا کہ میں بزدل نہیں ہوں۔ میں بہادروں کی طرح مروں گا۔“
لیکن یہ سب کچھ سوچنے کے باوجود اس کا دماغ پوری طرح حاضر نہیں تھا۔ اسے اپنے ہتھیار یاد نہیں رہے اور وہ دروازہ کھول کر خالی ہاتھ ہی باہر نکل گیا۔ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر اس نے دروازہ کھولا اور ایک زور دار نعرہ لگا کر مجمع پر جھپٹ پڑا۔ جو پہلا شخص اس کے ہاتھ لگا، اس نے اس کا گلا دبوچ لیا اور پھر دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔
اب اس کو ہوش آیا کہ اُس نے اپنے ہتھیار تو لئے ہی نہیں۔ خالی ہاتھ وہ اتنے لوگوں سے کب تک لڑ سکتا ہے؟اس نے سوچا کہ بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ میں کسی نہ کسی طرح راستہ بنا کر یہاں سے نکلوں اور سیدھا پہاڑوں کا رُخ کروں۔ وہاں مجھے گونزلز کا ٹھکانا مل جائے گا۔وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کوئی وزنی چیز اس کے سر پر لگی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ جب اُسے ہوش آیا تو وہ کافی دیر آنکھیں بند کئے چُپ چاپ لیٹا یاد کرتا رہا کہ اسے کیا ہوا تھا اور وہ کہاں ہے؟رفتہ رفتہ اسے سب کچھ یاد آگیااور پھر درد کی ایک تیز لہر نے اسے یاد دلادیا کہ اس کے سر پر کوئی وزنی چیز لگی تھی۔ اس نے سر پر ہاتھ پیرا تو اس پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی آرام دہ بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اسی وقت اسے کسی کی آواز سنائی دی۔
”سر یہ ہوش میں آ رہا ہے۔“
”اچھا میں آرہا ہوں“ایک ملائم سی آواز سُنائی دی۔ بائرن نے آنکھیں کھولیں۔ ایک لمبا تڑنگا شخص اس پر جھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہم دردی اور دوستی کی پر چھائیاں تھیں۔
”تم کون ہو؟اور میں کہاں ہوں؟“بائرن نے اُٹھتے ہوئے پوچھا۔
”لیٹے رہو دوست۔تم بالکل محفوظ ہو۔تمہاری وردی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو۔“
”کیا تم کونز لز ہو……؟“ہائرن نے پوچھا۔
”ہاں،میں گونزلز ہوں۔“
”آہ! دوست! تم تک پہنچنے کے لیے ہمارا ایک قیمتی آدمی قربان ہو گیا۔“یہ کہ کر بائرن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جنہیں اس نے جلدی سے پونچھ ڈالا۔
”ہاں،ہم نے ایک آدمی کی لاش دیکھی ہے۔مجھے بتاؤ، کیا ہوا تھا؟“
بائرن نے تمام واقعات اُسے سُنا دیے۔ گونزلز خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر اس نے بتایا کہ میں خود تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ کیوں کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ عن قریب ایک جہاز آنے والا ہے جس میں میرے لئے کوئی اہم پیغام ہو گا۔ میرے آدمی روزانہ ساحل پر جا کر اس جہاز کا انتظار کرتے۔ پھر انہیں خبر ملی کہ فرانسیسی فوج ساحل پر چھاپا مارنے والی ہے۔ لہٰذا وہ پہاڑوں میں جا کر رو پوش ہو گئے لیکن انہیں یقین تھا کہ اگر جہاز آ گیا تو کوئی شخص آکر ان سے رابطہ ضرور کرے گا۔ اسی لئے ایک آدھ آدمی روزانہ پہاڑی سلسلے کی آخری چٹان تک جا کر سمندر پر نظر ڈالتا تھا۔
پھر مجھے اطلاع ملی کہ فرانسیسی فوج کے دستے کسی اور طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا کل رات میں نے اپنے آدمی ساحل کی طرف روانہ کئے۔راستے میں سرائے دیکھ کر وہ رک گئے تا کہ یہاں سے کچھ معلومات حاصل کر سکیں مگر تم نے اچانک ان پر حملہ کر دیا۔ یہ لوگ تمہیں فرانسیسی سمجھے۔ مگر جب روشنی میں تمہاری وردی دیکھی تو انہیں اندازہ ہوا کہ تم ہمارے دشمن نہیں دوست ہو۔انہوں نے فوراً مجھے خبر دی اور میں یہاں پہنچ گیا۔“
اب بائرن نے دیکھا کہ وہ اسی سرائے کے نچلے ہال کے ایک کونے میں لیٹا ہوا ہے۔ ”وہ بوڑھی بدصورت چُڑیلیں اور ان کی مکار لومڑی جیسی ملازمہ کیاں ہے؟“اس نے غصے سے پوچھا۔
”خدا کی پناہ!“واقعی وہ عورتیں چُڑیلیں ہی معلوم ہوتی ہیں۔ میرے آدمیوں نے انہیں اوپر اسی کمرے میں بند کر دیا تھا جہاں تمہارے آدمی کی لاش پڑی تھی۔ آؤ چل کر دیکھیں۔“
اور جب اس کمرے کا دروازہ کُھلا تو وہ بوڑھی بد شکل عورتیں چادروں میں لپٹی گولے سے بنی پڑی تھیں اور ان کی ملازمہ کھڑکی کے قریب کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصہ اور نفرت تھی۔ اس نے بائرن کو گھور کر دیکھا اور پھر اپنا منہ پرے کر لیا۔ شاید اسے یہ غصہ تھا کہ یہ شخص بچ کیوں گیا اور وہ اس کے ہاتھوں بے وقوف بن گئی کہ دوبارہ ایک مردے کو اپنی خونی مشین کے نیچے دبا دیا۔
گونز لز نے بوڑھی عورتوں کی چادر کھینچی تو وہ غوں غاں کی آوازیں نکالتی ہوئی ہاتھ پاؤں ہوا میں چلانے لگیں۔ ان کی بے چارگی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کیا یہ عورتیں قاتل بھی ہوسکتی ہیں!
آخر گونز لز نے اس لڑکی کو پکڑا جس کا نام ٹریسا تھا۔ وہ پہلے تو آئیں بائیں شائیں کرتی رہی اور پھر اس نے جو واقعات سنائے، وہ بے حد ہولناک تھے اور ان سے پتا چلتا تھا کہ دولت کی ہوس انسان کو کس طرح اندھا کر دیتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اسپین کے اس حصے میں بہت رونق ہوا کرتی تھی۔ ٹروپسی کی بندرگاہ اس علاقے کے لئے خاصی اہمیت رکھتی تھی۔ اندرون ملک کے تاجر یہیں سے جہازوں کے ذریعے اپنا مال و اسباب تجارت کے لیے باہر بھیجتے تھے۔ لہٰذا پہاڑوں سے نکلنے والی یہ سڑک ایک اہم شاہ راہ تھی۔
ان دنوں برنارڈینو کی دونوں خالائیں اتنی بوڑھی نہ تھیں۔ انہوں نے اپنے بھانجے کے ساتھ مل کر اس شاہ راہ کے وسط میں ایک سرائے بنالی جو دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ تھکے ماندے مسافروں کے لئے یہاں ہر سہولت موجود تھی۔ آرام دہ بستر، عمدہ کھانا، گرم پانی، جانوروں کے لئے اصطبل اور چارے پانی کا انتظام اور پھر سرائے کی اپنی بگھیاں اور گھوڑے بھی تھے جو مسافروں کو ساحل تک لانے لے جانے کے لئے با آسانی دستیاب تھے۔ ان دنوں ٹریسا کی ماں اور باپ سرائے میں مُلازم تھے۔لیکن رفتہ رفتہ اسپین کا امن و سکون غارت ہونے لگا۔
خانہ جنگی نے ملک کی حالت تباہ کر دی۔ اس کے علاوہ بہت سے علاقوں پر چھوٹے چھوٹے نوابوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ اور کچھ حصوں پر فرانس قابض ہو گیا اور وہ باقی علاقوں میں بھی خون خرابا کروانے لگا۔
اس افراتفری کی وجہ سے یہ شاہ راہ ویران ہو گئی۔ تجارتی اور مسافر جہاز اب بھول کر بھی اس طرف نہ آتے تھے۔ لوگوں کی حالت تباہ ہو گئی۔ وہ اپنا مال و اسباب سمیٹ کر ادھر ادھر نکل گئے۔ ٹریسا کے ماں باپ بھی بیمار ہو کر مر گئے۔ اب ٹریسا سرائے میں نوکری کرتی تھی۔ اُن ہی دنوں بر نارڈینو نے پر پرزے نکالے۔ وہ اِکا دُکا مسافروں کو گھیر گھار کر سرائے میں لاتا اور اُن کو موت کے گھاٹ اُتار کر اُن کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیتا۔
پھر برنارڈینو کے شیطانی ذہن میں اُس شیطانی مشین کا خیال آیا جسے اُس نے شاہی بستر کا نام دیا تھا مگر جو در حقیقت موت کا چھپر کھٹ تھا۔ وہ مسافر کو اس چھپر کھٹ پر سُلا دیتا اور پھر رات کو چھت پر جا کر ایک کھٹکا دباتا تو پردوں کا فریم آہستہ آہستہ نیچے آخر چھپر کھٹ پر فٹ ہو جاتا اور سویا ہوا مسافر دم گھٹ کر مر جاتا۔
برنارڈینو کی بیوی نے اس شیطانی کھیل میں شامل ہونے سے انکار کیا تو اس ظالم نے اُسے ایک کمرے میں قید کر دیا اور وہ وہیں اس کے ظلم و ستم جھیلتی ہوئی مر گئی۔ اس کے بعد یہ شاہراہ بالکل ہی ویران ہو گئی۔ جب سرائے میں خاک اُڑنے لگی تو برناڈینو نے ساحل کے قریب گاؤں میں جا کر قہوہ خانہ کھول لیا اور دھونس اور دھاندلی سے گاؤں کا نمبر دار بن بیٹھا۔ اس کی خالائیں البتہ ابھی تک سرائے میں ہی تھیں۔ ٹریسا اُن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔اور برنارڈینو اپنے ملازم ٹم کے ہاتھ انہیں کھانے پینے کا سامان بھیج دیا کرتا تھا۔ یہ ٹم وہی تھا جسے اس نے ٹام کا گائیڈ بنا کر بھیجا تھا۔
ٹام کو دیکھ کر ٹریسا للچا گئی۔ برسوں بعد کوئی شکار اس کے ہاتھ لگا تھا۔ ٹام کی جیکٹ پر لگے چاندی کے بٹن ٹریسا کو بھا گئے تھے۔ لہٰذا ایک مدت بعد موت کا چھپر کھٹ پھر آباد کیا گیا اور ایک بے گناہ کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ اس بھیانک اور مکروہ حرکت میں ٹم بھی اس کا مدد گار تھا۔ اگلے روز بائرن کو دیکھ کر ٹم تو ڈر کر بھاگ گیا مگر ٹریسا خوش ہو گئی کہ دوسرا شکار بھی ہاتھ آگیا جس کی جیکٹ پر سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے اور جیب میں سے نکلی ہوئی سنہری زنجیر بتا رہی تھی کہ اس کے پاس سونے کی گھڑی بھی ہے۔ لہٰذا اس نے بائرن کو بھی موت کے چھپر کھٹ پر سلا دیا۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکّھے۔
گونزلز کا غصے سے برا حال تھا۔ اس نے بائرن سے کہا کہ وہ ان خبیث لوگوں کو ایسی سزا دے گا کہ دوسروں کو عبرت ہو۔ اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ بر نارڈینو اور ٹم کو پکڑ کر لائیں۔ پیغام کے کاغذات ٹام کی جیب میں تھے۔ وہ بائرن نے گونزلز کے حوالے کر دیے اور گونزلز کے آدمیوں نے ٹام کی لاش کو پورے احترام سے ساحل تک پہنچا دیا۔
ساحل پر دو کشتیاں ان کے انتظار میں لنگر انداز تھیں اور اب فالکن بھی ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب ٹام کی لاش فالکن پر پہنچائی گئی تو جہاز کا تمام عملہ ٹام کو آخری سلامی دینے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ جب جہاز گہرے پانیوں میں رواں دواں ہوتے ہیں اور ان کے عملے کا کوئی شخص قضائے الٰہی سے فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جسم سے بھاری پتھر باندھ کر اس کی لاش سمندر میں اتار دی جاتی ہے تا کہ سمندر کا بیٹا سمندر میں ہی دفن ہو جائے۔
ٹام بھی سمندر کا بیٹا تھا۔ لہٰذا اسے سمندر کی نذر کرنے کے لئے فالکن نے اپنے لنگر اٹھائے اور خلیج بسکے کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب بائرن عرشے پر کھڑا ساحل پر الوداعی نظریں ڈال رہا تھا تو اسے دور اس ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جو ساحلی گاؤں سے پہاڑوں کو جاتی تھی۔ پیلے رنگ کے ہیٹ کی جھلک دکھائی دی جو ایک ٹھنگنے آدمی نے اوڑھ رکھا تھا۔ اور جو گھوڑے پر سوار تھا۔ شاید اُسے اُس کا وہ گھوڑا مل گیا تھا جو برنارڈینو نے اُس سے چھین لیا تھا، مگر بائرن کا دوست ٹام موت کی وادیوں میں گُم ہو گیا تھا۔
بائرن کی اِس پیلے ہیٹ والے سے مُلاقات نہ ہوتی تو ٹام کی گُم شُد گی ایک راز ہی رہتی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top