بلند ترین تفریح گاہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
اذان کی آواز سُن کر سلمان کی آنکھ کھل گئی۔
برابر والی چارپائی پر عثمان اور اس کے ساتھ والی چار پائی پر سلمان اور عثمان کے ابو، سلیمان احمد صاحب سو رہے تھے۔ سلمان نے دونوں کو جگایا۔ اسی وقت فضل جان صاحب بھی اندرونی کمرے کا دروازہ کھول کر آ گئے۔
”السلام علیکم! ماشاء اللہ آپ لوگ جاگ گئے۔ آپ لوگ وضو کرلیں،اس وقت شاید آپ کو ہلکی سی سردی لگے گی اس لیے گرم پانی کا انتظام کر دیا ہے۔“
سب نے وضو کر کے محلے کی مسجد میں نماز فجر باجماعت ادا کی۔ فضل جان صاحب کے دونوں بیٹے عمر جان اور خضر جان بھی نماز میں شریک تھے۔ نمازکے بعد فضل جان صاحب نے کہا:
”آئیے گھر چل کر آپ کو قہوہ پلواتے ہیں۔“
گھر پر خوشبو دار قہوے کی پیالیاں، سب کی منتظر تھیں۔ ہلکے سرد موسم میں قہوے نے بڑا لطف دیا۔سلیمان احمد صاحب نے قہوہ پی کر بلند آواز سے الحمد للہ کہی۔ سلمان نے پوچھا:
”آج کہاں چلیں گے فضل چاچا؟“
”آج آپ کو مالم جبہ کی سیر کروائیں گے، ان شاء اللہ۔“فضل جان صاحب نے جواب دیا۔
”یہ کتنے فاصلے پر ہے؟“عثمان نے پوچھا۔
”زیادہ دور نہیں، منگورہ سے کوئی پینتالیس کلومیٹر دور ہوگا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں ان شاء اللہ پہنچ جائیں گے۔“ فضل جان صاحب نے بتایا۔
تقریباً دس بجے سب لوگ تیار ہو کر فضل جان صاحب کی جیپ میں بیٹھ گئے تھے۔ سب نے سواری کی دعا پڑھی اور فضل جان صاحب کی جیپ کا انجن جاگ اٹھا۔ جیپ منگورہ کے بازاروں سے ہوتی ہوئی شہر سے باہر جانے والی سڑک پر دوڑنے لگی۔
کچھ دیر میں جیپ، مدین جانے والی سڑک کو چھوڑ کر دائیں طرف مڑنے لگی۔ فضل جان صاحب نے بتایا کہ یہ جگہ منگلور کہلاتی ہے۔ یہاں سے دائیں طرف جانے والی سڑک مالم جبہ لے جاتی ہے۔
سڑک پختہ تھی لیکن سارا راستہ چڑھائی تھی۔
”مالم جبہ، سوات کی بلند ترین تفریح گاہ ہے۔“ عمر جان نے کہا۔
”اس کی بلندی کتنی ہوگی؟“ سلمان نے پوچھا۔
”سطح سمندر سے مالم جبہ کی بلندی دو ہزار چھے سوچھتیں (2636) میٹر ہے، یعنی تقریباً آٹھ ہزار سات سوفٹ!“ خضر جان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
تقریباً ایک گھنٹے تک، جیپ بلندی کی جانب سفر کرتی رہی۔ راستے میں کئی گاؤں نظر آئے۔ فضل جان صاحب نے بتایا، ان میں سید آباد، جہاں آباد، تیلگرام، کا شور وغیرہ شامل ہیں۔
فضل جان صاحب نے جیپ، مالم جبہ میں ایک بڑے ہوٹل کے قریب لے جا کر روک دی۔ سب نیچے اتر آئے۔
”بہت خوب صورت جگہ ہے ماشاء اللہ۔“ سلیمان احمد چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے بولے۔ ”یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے زمین کو ہمارے لیے پرسکون جگہ بنا دیا اور اس پر پہاڑ جما دیے جو صرف خوبصورتی ہی کا باعث نہیں بلکہ زمین کو قائم رکھنے کا سبب بھی ہیں۔ اس جگہ کی خوبی یہ ہے کہ گرمی ہو یا سردی، ہر موسم میں یہاں آکر تفریح کی جاسکتی ہے۔ ابھی تو جولائی چل رہا ہے، بادل چھائے رہتے ہیں اور بارش بھی ہوتی رہتی ہے لیکن سردیوں میں یعنی دسمبر سے مارچ تک تو یہاں برف کا قالین بچھا ہوتا ہے۔ برف تو سوات میں اور جگہوں پر بھی پڑتی ہے، لیکن اس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے وسیع جگہ عطا کی ہے۔ یہاں سیاح جی بھر کر ’اِسکی انگ‘ کر سکتے ہیں۔“
”اسکی انگ؟“ عثمان نے پوچھا۔
”ہاں، یہ برف پر پھسلنے کا ایک کھیل ہے۔ اس کے لیے ذرا مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محکمہ سیاحت کی طرف سے ایک صاحب اسکی انگ سکھانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک ہفتے میں اسکی انگ سیکھی جاسکتی ہے۔ اسکی انگ کا سامان بھی قیمت دے کر یا کرائے پرمل جاتا ہے۔“ فضل جان صاحب نے بتایا۔
”اور یہ شاید چیئر لفٹ ہے؟“ سلمان نے ایک طرف اشارہ کیا جہاں آہنی تار سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کرسیاں سی لٹکی ہوئی تھیں۔
”جی ہاں، یہ چیئر لفٹ ہے۔ ابھی اس کی سیر کرواتے ہیں آپ کو۔ پہلے ذرا گھوم پھر لیں۔“ فضل جان صاحب نے کہا۔
سب لوگ سیر کرنے لگے۔ عثمان نے پوچھا:”فضل چا چا، مالم جبہ کا کیا مطلب ہے؟“
”بیٹے ’مالم‘ کا مطلب ہے چراگاہ اور’جبہ‘ کے معنی ہیں گاؤں۔ شروع شروع میں لوگ یہاں اپنے مویشی چرانے کے لیے لاتے ہوں گے، اس لیے لوگ اسے مالم جبہ کہنے لگے ویسے چند برسوں پہلے تک تو اکثر لوگ مالم جبہ کو جانتے ہی نہ تھے، پھر حکومت نے یہاں تفریح گاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسکی انگ، چیئر لفٹ کا انتظام کیا گیا۔ یہ بڑا ہوٹل بنا جس میں باون کمرے ہیں۔ اس میں درون خانہ کھیل مثلاً بلیئر ڈ، ٹیبل ٹینس، کیرم وغیرہ کی جگہیں مخصوص ہیں۔“
فضل جان صاحب نے عمر جان سے کہا کہ وہ لفٹ چیئر کے ٹکٹ لے آئے۔ سلیمان احمد صاحب پیسے دینے لگے تو فضل جان صاحب نے سختی سے روک دیا اور بولے:
”آپ مہمان ہیں، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ آپ ادائیگی کریں۔“
عمر جان ٹکٹ لے آیا تو سب چیئر لفٹ کی طرف چلے۔ چیئر لفٹ دھیمی رفتار سے مسلسل حرکت کر رہی تھی۔ لفٹ پر متعین آدمی نے دو، دو افراد کو آنے کے لیے کہا۔ جوں ہی ایک چیئر لفٹ گھوم کر ان کی طرف آئی فضل جان صاحب اور سلمان اس کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوئے اور جھٹکے سے اس میں سوار ہو گئے۔ سلمان ابھی پوری طرح سنبھلنے نہ پایا تھا کہ اس نے محسوس کیا، لفٹ بلندی کی طرف رواں دواں ہے۔ فضل چاچا بولے:
”بلندی کی طرف جاتے ہیں تو اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ یہ پیارے نبی کا طریقہ ہے۔“
کچھ دیر بعد وہ سب چیئر لفٹ کے بالائی مرکز پر اتر چکے تھے۔
“ یہ چیئر لفٹ آٹھ سو میٹر طویل تار پر حرکت کرتی ہیں۔“ فضل صاحب نے بتایا۔
”ان لفٹوں کی تعداد کتنی ہے؟“سلمان نے پوچھا۔
”یہ پچپن (55) لفٹیں ہیں۔“ خضر جان نے بتایا۔
بلندی پر قدرتی نظارے اور بھی دلکش تھے۔ دور تک کا منظر نظر آتا تھا۔ فضل جان صاحب نے دور ایک چمکتی ہوئی لکیر کی طرف اشارہ کیا اورپوچھنے لگے۔
”آپ جانتے ہیں وہ کیا ہے؟“
عمر جان اور خضر جان مسکرانے لگے۔ سلمان اور عثمان سوچ میں پڑ گئے۔ فضل جان صاحب نے کہا: ”یہ دریائے سوات ہے۔“
اونچے نیچے سر سبز پہاڑوں پر دیر تک تفریح کرنے کے بعد، سب نے کھانا کھایا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ گرم گرم چائے پی، جو عمر جان کے تھرماس میں تھی۔ نماز ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ سب نے ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر لفٹ چیئر کے ذریعے سے سب واپس نیچے اتر آئے۔
جوں ہی یہ لوگ لفٹ چیئر سے اُترے بارش شروع ہو گئی۔ سب نے ہوٹل کی طرف دوڑ لگائی اور اُس کے برآمدے میں پناہ لی۔ تقریباً دس منٹ بعد بارش تھم گئی۔ فضل جان صاحب نے بتایا کہ بارش اسی طرح اچانک ہوتی ہے اور ذرا دیر میں اچانک تھم بھی جاتی ہے۔
کچھ دیر بعد سب لوگ جیپ میں بیٹھے واپس منگورہ جا رہے تھے۔