بوجھ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”ابو جی! مجھے موٹر سائیکل کی ضرورت ہے۔“
عابد صاحب نے اخبار پڑھتے ہوئے، نظریں اٹھا کر دیکھا۔ ان کانو جوان بیٹا شاہد، منہ پھلائے کھڑا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ بہت ناراض ہے۔
”موٹر سائیکل کے لیے کچھ انتظار کر لو بیٹا۔“ عابد صاحب نے تسلی دی۔
”کب تک انتظار؟ میرے سارے دوست میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ تمہارے ابو جی تمہیں ایک موٹر سائیکل تک نہیں دلا سکتے۔“ شاہد نے غصے سے کہا۔
”اچھا پر سوں تمہیں موٹر سائیکل مل جائے گا۔“
”کیا واقعی ابو جی؟“ شاہد کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
”ہاں، ہاں۔“
”اوہ، ابو جی، بہت بہت شکریہ۔“ شاہد خوش خوش چلا گیا۔
عابد صاحب پھر اخبار پڑھنے لگے، ابھی وہ ایک خبر ٹھیک طرح نہ پڑھ سکے تھے کہ ان کی بیٹی جمیلہ آگئی۔
”ابو جی، آپ نے مجھے ہار نہیں دلایا۔ میں اپنی دوست کی سالگرہ میں کیاپہنوں گی۔“
”بیٹے آپ کے پاس پہلے ہی دو ہار ہیں۔“
”وہ میں کئی مرتبہ پہن چکی ہوں۔ آپ مجھے نیا ہار بنوا کر دیں۔“
”اچھا بھئی کل بنوا دیں گے۔“
”ابوجی، شکریہ بہت بہت۔“
عابد صاحب پھر اخبار کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کی بیگم آ گئیں۔
”اے ہے، آپ کو تو ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ سب لوگوں نے اپنے گھر کا فرنیچر بدل لیا ہے، ہم ابھی تک پچھلے سال والا فرنیچر چلا رہے ہیں اور آپ نے نئے ماڈل کی کار بھی نہیں خریدی۔ ابھی تک پچھلے سال کا ماڈل لیے بیٹھے ہیں۔ میں کہتی ہوں، آپ کوئی فکر کیوں نہیں کرتے؟“
عابد صاحب مسکرائے اور بولے: ”فکر تو ہمیشہ رہتی ہے۔ میں فرنیچر کا آرڈر دے چکا ہوں البتہ کار کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔“
”کوئی ٹیڑھا ویڑھا نہیں۔ آپ اتنے بااختیار افسر ہیں، سب کچھ کر سکتے ہیں۔“ عابد صاحب کی بیگم بولیں، پھر انہوں نے بھی منہ بنا کر کہا۔
”آپ کو کون سا اپنی بیگم کا خیال ہے، کبھی پوچھا کہ شادی بیاہ میں پہننے کے کپڑے ہیں یا نہیں۔“
”او ہو بھئی، بیگم، آپ جو چاہیں خرید لیا کریں، میں پیسے دے دوں گا۔“عابد صاحب ذرا جھنجلا کر بولے۔
”اب بات ہوئی نا!!“ بیگم صاحبہ ذرا مطمئن ہو کر بولیں اور رات کا کھانا لگوانے چلی گئیں۔
عابد صاحب یوں تو ایک سرکاری محکمے میں سینئر اسسٹنٹ تھے،مگران کے گھر اور رہن سہن کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک معمولی سرکاری ملازم ہیں۔ ان کے ٹھاٹ باٹ اور عالی شان طرز زندگی کی وجہ یہ تھی کہ دفتر میں ان کے اختیارات بہت تھے۔ کئی منصوبوں کی فائلیں منظور کروانے کے لیے انہی سے رابط قائم کرنا پڑتا۔جو شخص انہیں ”خوش“ کر دیتا، صرف اسی کی فائل ’او پر‘ جاسکتی تھی، اس لیے ہر آدمی ان سے اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔
عابد صاحب، اگلے دن دفتر پہنچے۔ انہوں نے میز پر رکھی فائلوں کے ڈھیر میں سے چند فائلیں ڈھونڈ کر نکالیں۔ ان فائلوں سے عابد صاحب کو بڑا فائدہ حاصل ہونے کی امید تھی۔ عابد صاحب نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا کہ وہ ان فائلوں کو دیکھے اور ان میں لگی درخواستوں کی مدد سے درخواست بھیجنے والوں سے رابطہ قائم کرے۔ اسسٹنٹ نے صرف دو گھنٹے میں سب سے رابطہ قائم کر لیا۔ دو پہر تک تمام افراد عابد صاحب سے آ کر مل چکے تھے۔’معاملے‘ کی بات ہوگئی تھی۔ پارٹیوں نے ایڈوانس رقم بھی دے دی تھی۔ باقی رقم ’کام‘ ہو جانے کے بعد ملنی تھی۔
عابد صاحب نے آج ایڈوانس کے طور پر ملنے والی رقم گنی۔ 35 ہزار روپے تھے۔ وہ خوش ہو کر مسکرائے۔ دفتر کے لوگوں کا ’حصہ‘ نکالنے کے بعد بھی ان کو 25 ہزار روپے تو مل ہی جاتے۔ بیٹے کو موٹر سائیکل دلانے کے لیے انہیں کچھ اضافی رقم کی ضرورت تھی۔ اب یہ ضرورت پوری ہو چکی تھی۔
عابد صاحب نے اطمینان بھرا سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ اسی وقت ان کے اسسٹنٹ نے ادب سے کہا۔
”سر، ایک بڑے میاں، ملنا چاہتے ہیں۔“
”افوہ۔ ایک تو یہ لوگوں کو تمیز نہیں، جب دیکھو چلے آتے ہیں۔“
”سر کوئی ضرورت مند لگ رہا ہے۔ ممکن ہے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہمارا بھی کچھ فائدہ ہو جائے گا۔“ اسسٹنٹ نے توجہ دلائی۔
”اوہ، ہاں۔۔۔ اچھا، تو بلاؤ۔“
بڑی عمر کے ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ سر اور داڑھی کے سارے بال سفید تھے۔ آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ، سفید شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے۔ شاید دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے سے ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔
”تشریف رکھیے۔“عابد صاحب نے بڑے صاحب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے، اپنی کلائی اٹھا کر گھڑی دیکھی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ جلدی میں ہیں اور لمبی بات نہیں کرنا چاہتے۔
بڑے میاں نے بات شروع کی۔ ان کی کوئی بے حد ضروری فائل عابد صاحب کے محکمے میں کئی ماہ سے اٹکی ہوئی تھی۔ وہ اپنے بیٹوں کو کئی بار بھیج چکے تھے، مگر یہاں کوئی سننے والا ہی نہ تھا۔ آخر بڑے میاں کو خود آنا پڑا تھا۔
”دیکھیے بزرگو، آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ آپ کو معلوم ہے ہر شخص کے ساتھ ضرورتیں لگی ہوتی ہیں۔ اب گورنمنٹ کی سوکھی تنخواہ میں تو گزارہ نہیں ہوتا۔ ہم بھی ماشاء اللہ بال بچے دار ہیں۔ بچوں کی تعلیم ہے، گھر کے اخراجات ہیں، بیوی بچوں کی سو فرمائشیں ہیں۔ سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آخر معاشرے میں ہماری کوئی عزت ہے۔ پھٹے ہوئے اور پیوند لگے کپڑے پہن کر تو شادی بیاہ میں نہیں جا سکتے۔ آپ بھی ماشاء اللہ سمجھ دار ہیں۔“
”جی، جی، میں سب سمجھتا ہوں، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“
”نقصان؟“
”جی ہاں، میں اگر آپ کی اور آپ کے بیوی بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں آپ کی مدد کرنے لگوں تو، میں آپ کو نقصان ہی پہنچاؤں گا۔“
”او ہو بھئی آپ تو پہیلیوں میں باتیں کرنے لگے ہیں۔ میں ایک سرکاری افسر ہوں اور میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ سمجھے آپ؟“
”بالکل سمجھ گیا ہوں، اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اللہ نے آپ کو اس کرسی پر اس لیے بٹھایا ہے کہ آپ اپنا قیمتی وقت لوگوں کے مسائل حل کرنے میں استعمال کریں۔“
عابد صاحب کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہو گیا، وہ کوئی سخت بات کہنے ہی والے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
عابد صاحب ابھی غصے کے اثر سے باہر نہیں نکلے تھے۔ فون کا ریسیور اٹھا کر دھاڑے:
”ہیلو! کیا؟ کون؟…… اچھا اچھا فرنیچر ہاؤس سے ملک صاحب بول رہے ہیں۔ اچھا تو فرنیچر تیار ہے؟ بہت خوب۔ آپ نے کام وقت پر کر دیا۔ پیسے بھی آپ کو وقت پر مل جائیں گے۔۔۔ جی؟۔۔۔ ارے صاحب آپ تو شرمندہ کرتے ہیں۔۔۔ اچھا تو فرنیچر آپ گھر پہنچوا دیجیے۔۔۔ نہیں نہیں، دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں دیکھ تو چکا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے، شکریہ بہت بہت، او کے اللہ حافظ۔“
عابد صاحب نے فون کا ریسیور رکھا تو بڑے میاں بولے:
”میں آپ کا قیمتی وقت مزید بر باد نہیں کرنا چاہتا۔ معلوم نہیں آپ کی زندگی کتنی رہ گئی ہے، بہر حال جتنی بھی رہ گئی ہے، اس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، میں صرف یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آپ نے جو فرنیچر بنوایا ہے، وہ یقینا بہت عمدہ اوربھاری ہو گا؟“
”ہاں ہے، تو پھر؟“ عابد صاحب ماتھے پر بل ڈال کر بولے۔ ”کیا آپ اکیلے اس فرنیچر کو اٹھا لیں گے؟“
”کیا بکواس ہے۔ میں کیسے اٹھا سکتا ہوں۔ مزدور کس لیے ہیں؟“ عابد صاحب بیزاری سے بولے۔ ساتھ ہی انہوں نے پھر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی۔
”آپ نے درست فرمایا۔“ بڑے میاں بولے۔ ”آپ خود فرنیچر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ مزدور یہ بوجھ اٹھا لیں گے لیکن میں آپ کو قرآن پاک کی سورۃ فاطر کی ایک آیت کا ترجمہ سناتا ہوں۔ یہ آیت نمبر اٹھارہ ہے۔ چھوٹی سی ہے۔ سن لیجے، جہاں آپ نے میری اتنی بات سنی ہے۔ وہاں مجھے اور آپ کو پیدا کرنے والے کی بات بھی سن لیجیے۔“
بڑے میاں نے ذرا رک کر عابد صاحب کی طرف دیکھا، جو شاید فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ بڑے میاں کو قرآنی آیت کا ترجمہ سنانے سے روکیں یا نہ روکیں۔ بڑے میاں بولے:
”سینے۔ اس آیت کا ترجمہ ہے، جس میں آخرت کا ذکر ہے:
’کوئی بوجھ اٹھانے والا، کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بوجھ کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے، وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔‘
اچھا اب میں چلتا ہوں۔ اللہ آپ کو نور ہدایت عطا فرمائے۔ آپ بہت وقت لیا۔اللہ حافظ۔“
عابد صاحب کو پتا ہی نہ چلا، کب بڑے میاں الوداعی کلمات کہہ کر چلے گئے۔ عابد صاحب کو تو یوں لگ رہا تھا کہ ان کی رگوں میں لہو کسی نے نچوڑ لیا ہو۔جیسے ان کے سر پر بہت بھاری بوجھ آ پڑا ہو، وہ چلا کر دوسروں سے التجا کر رہے ہوں کہ کوئی ذرا سا بوجھ اٹھا لے مگر کوئی ان کی نہیں سن رہا۔
بے بسی کے عالم میں ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ریلا بہہ نکلا۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کا دل، اس کائنات کے بے حد رحیم و کریم مالک کے حضور جھکا چلا جا رہا ہے۔