باغ خدا کے پھول
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و شفقت کے چند واقعات ،
جو ہمارے لیے رہنمائی کاذریعہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینے کی گلیوں میں ہر طرف چہل پہل ہے۔ مسلمان، بوڑھے، جوان اور بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے، خوشبو لگائے عید گاہ جا رہے ہیں۔ مدینے کی گزرگاہیں اور راستے تکبیر و تہلیل کی صداؤں سے گونج رہی ہیں۔ ایک راستے سے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی عید کی نماز پڑھنے کے لیے عید گاہ کی طرف ذرا تیز تیز جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے ایک جگہ بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُک جاتے ہیں۔ مدینہ کے کچھ بچے بڑی بے فکری سے اچھے اچھے کپڑے پہنے خوش خوش کھیل رہے ہیں۔ کچھ فاصلے پر ایک بچہ سب سے الگ افسردہ اور غمگین بیٹھا ہے جو میلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے، کھیلنے والے بچوں کو بڑی حسرت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مصیبت زدہ لڑکے کے پاس پہنچے۔ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ’’بیٹے تم نہیں کھیلتے؟ تم نے کپڑے نہیں بدلے؟ بیٹے تم اتنے غمگین اور افسردہ کیوں ہو؟‘‘ بچے نے سر اٹھا کر دیکھا اور جلد نگاہیں نیچی کر لیں۔ ہمدردی اور پیار کا برتاؤ دیکھ کر بے اختیار بچے کے آنسو بہنے لگے۔ بچے کو روتا دیکھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھی بھر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو تیرنے لگے۔ لڑکے کو گلے سے چمٹا لیا اور فرمایا: ’’بیٹے بتاؤ تو سہی، تمہیں کیا دکھ پہنچا ہے۔‘‘
’’میں ایک یتیم بچہ ہوں۔ میرے ماں باپ نہیں ہیں۔‘‘
آپ نے نہایت پیار و محبت کے ساتھ اس بچے سے کہا: ’’بیٹے کیا تم یہ پسند کرو گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے باپ ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا تمہاری ماں ہو۔فاطمہ رضی اللہ عنہا تمہاری بہن ہو اور حسن وحسین رضی اللہ عنہ تمہارے بھائی ہوں۔‘‘ یہ سن کر وہ بچہ بے حد خوش ہوگیا۔
کھجوروں کے باغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم کا مارا ایک بچہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچااور فریاد کرنے لگا ، ’’یا رسول اﷲ فلاں شخص نے زبرستی میرے کھجوروں کے باغ پر قبضہ کر لیا ہے اور مجھے کچھ نہیں دیتا۔‘‘
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مقدمہ پیش کیا گیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یتیم بچے کے خلاف تھا۔ اپنے خلاف فیصلہ سن کر یتیم بچہ رونے لگا۔ مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکا۔ یتیم بچے کو روتا دیکھ کر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا: ’’بھائی واقعی باغ کا فیصلہ تو تمہارے ہی حق میں ہوا ہے اور باغ تمہارا ہی ہے۔۔۔ لیکن کیا اچھا ہو اگر تم اپنا وہ باغ اس یتیم بچے کو ہبہ کر دو۔۔۔ خدا تمہیں اس کے بدلے جنت میں سدا بہار باغ عطا فرمائے گا۔‘‘
اس وقت دربار رسالت میں حضرت ابو الدحداح رضی اللہ عنہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ وہ فوراً اٹھے اور اس شخص کو خاموشی سے ایک طرف لے جا کر اس سے کہا:’’اگر میں تمہیں اس باغ کے بدلے اپنا فلاح باغ دے دوں تو تم اپنا باغ میرے حوالے کر دو گے؟‘‘
’’ کیوں نہیں۔‘‘ وہ شخص فوراً راضی ہوگیا۔ اس لیے کہ ابوالدحداح رضی اللہ عنہ کا باغ اس کے باغ سے کہیں زیادہ اچھا اور قیمتی تھا۔ ابوالدحداح رضی اللہ عنہ نے خوشی سے جھوم کر کہا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے وہ باغ اپنے ایک باغ کے بدلے میں اس شخص سے لے لیا ہے اور اب میں وہ باغ اس یتیم بچے کو دے رہا ہوں۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ گواہ رہیں کہ میں نے صرف خدا کی رضا کے لیے ایسا کیا ہے۔ یتیم بچے کا کملایا ہوا چہرہ کھل اٹھا اور یتیم کے غم خوار خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھی خوشی کی چمک دوڑ گئی۔
پروالا گھوڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ جو کہ ابھی کم سن تھیں اور دوسری لڑکیاں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔ گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا۔ جس کے دائیں بائیں دو پر بھی لگے ہوئے تھے۔
’’عائشہ یہ کیا ہے؟ ‘‘خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔
’’یہ گھوڑا ہے۔‘‘ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔
’’گھوڑے کے پر کہاں ہوتے ہیں؟‘‘ رسولِ خدا نے پھر پوچھا۔
’’ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔‘‘ عائشہ نے برجستہ جواب دیااور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بے ساختہ جواب پر بے اختیار مسکرا دیئے۔
کم سن ابراہیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مدینے کے بیرونی علاقے میں ایک لوہار ابوسیف کے یہاں پرورش پا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پیدل وہاں جاتے۔ ابو سیف لوہار تھے۔ گھر دھوئیں سے بھرا رہتا۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نظافتِ طبع کے باوجود بیٹے کی محبت میں وہاں بیٹھے رہتے اور اسی دھوئیں میں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیتے۔ پیار کرتے۔ اپنا منھ اور ناک اس کے گالوں پر رکھتے۔ گویا سونگھ رہے ہیں اور پھر پیدل مدینہ واپس آجاتے۔
ننھے نواسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں خطبہ دے رہے تھے۔ دیکھا کہ مسجد میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی آرہے ہیں۔ مسجد کے صحن میں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے نانا جان کے پاس جلد پہنچنا چاہتے ہیں لیکن قدم لڑکھڑا رہے ہیں اور ہر قدم پر خطرہ ہے کہ گر نہ جائیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، سرخ جوڑا پہنے بڑے پیارے لگ رہے ہیں۔ ننھی ننھی ٹانگیں لرز رہی ہیں اور وہ نانا جان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر تک تو دیکھتے رہے مگر ضبط نہ کر سکے۔ ممبر سے اترے۔ نواسوں کو آغوش میں لیا اور لے جا کر اپنے سامنے بٹھالیا۔ اب سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدا نے کتنی سچی بات فرمائی ہے۔ فی الواقع تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے ذریعہ آزمائش ہیں۔‘‘
آپؐ اکثر فرمایا کرتے: ’’حسین میرا ہے اور میں حسین کا، خدا اس سے محبت رکھے جو میرے حسین سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
عمدہ سوار اور سواری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شاہراہ سے گزر رہے ہیں۔ پیارا نواسہ اس کندھے پر سوار ہے۔ جس پر پورے عالم کی قیادت کا بوجھ تھا۔ راہ میں کسی نے کہا:’’ کیا اچھی سواری ہاتھ آئی ہے تمہیں صاحبزادے۔‘‘
پیار کرنے والے نانا نے کہا۔ ’’سوار بھی کیسا اچھا ہے۔‘‘
اقرع بن حابس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفیق نانا پیارے نواسے حسین رضی اللہ عنہ کو پیار کررہے تھے۔ اسی دوران مکے کے ایک دولت مند سردار اقرع بن حابس بھی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو انہیں حیرت ہوئی کہ اتنی عظیم ہستی بچوں کو اس طرح پیار کررہی ہے۔ اور اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولے:’’مجھے خدا نے دس بچے دے رکھے ہیں، مگر میں نے تو آج تک کسی ایک بچے کو بھی پیار نہیں کیا ہے۔‘‘
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا خدا بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔‘‘
*۔۔۔*