skip to Main Content

بابِ دوم: بچوں کے نمائندہ رسائل ۱۹۷۱_ ۲۰۰۰ء

بابِ دوم
بچوں کے نمائندہ رسائل
۱۹۷۱___ ۲۰۰۰ء

۱۔ ماہنامہ تعلیم وتربیت :مختصر تاریخ
عہد ساز رسالے کی نمایاں خصوصیات

۲۔ ہمدرد نونہال :مختصر تاریخ
نوعیت وانفرادیت کے نمایاں پہلو

۳۔ ماہنامہ آنکھ مچولی :مختصر تاریخ
تاریخ، نمایاں موضوعات کا علمی وادبی تناظر

۴۔ ماہنامہ ساتھی :مختصر تاریخ
نمایاں موضوعات، تصاویر، سرگرمیاں، حصہ نظم و نثر
حوالہ و حواشی

۵۔ رسائل میں جدید رجحانات کا مطالعہ
حوالہ و حواشی

بابِ دوم
بچوں کے نمائندہ رسائل
۱۹۷۱ء تا ۲۰۰۰ء

قیام پاکستان سے قبل اور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان سے بچوں کے کئی اُردو رسائل نکلے ، جن میں چند ایک رسائل مستقل شائع ہوتے رہے ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے رسائل کی ہے جن میں شخصیات کی ذاتی دل چسپی شامل حال رہی لیکن معاشی مشکلات کے سبب اس میں سے بیشتر رسائل اشاعتی سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے۔ ان میں بعض ایسے ادارے بھی شامل ہیں جنھیں اپنا میگزین بند کرنا پڑا، ان میں آنکھ مچولی بچوں کا مقبول رسالہ تھا، جو انتہائی کامیابی سے نکلتے نکلتے اچانک ادارے کے باہمی مسائل کی نظر ہوگیا۱۔
اس مقالے میں ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک نکلنے والے بچوں کے رسائل کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے ، اس دوران بچوں کے کم وبیش ۱۷۹ ؍رسائل منظر عام پر آئے اور بے شمار رسائل کچھ عرصہ شائع ہونے کے بعد بند ہوگئے۲۔ جن میں کئی ایک ایسے ہیں جو آج بھی تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ ذیل میں اس دوران نکلنے والے رسائل کی فہرست شامل کی جارہی ہے تاکہ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۰ء تک شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کی توقیتی نوعیت کا عمومی تناظر ہمارے سامنے آجائے۔

شمار ۔ رسالے کا نام ۔  سال اشاعت
۱۔ سا ئنس بچوں کے لیے جنوری ۱۹۷۰ء
۲۔ ہونہار پاکستان جنوری ۱۹۷۰ء
۳۔ پھول اکتوبر ۱۹۷۰ء
۴۔ سند باد نومبر ۱۹۷۰ء
۵۔ بچوں کا اخبار جنوری ۱۹۷۲ء
۶۔ ہلال جنوری ۱۹۷۳ء
۷۔ چندا ماموں اکتوبر ۱۹۷۲ء
۸۔ جگنو اکتوبر ۱۹۷۴ء
۹۔ پیغام جون ۱۹۷۵ء
۱۰۔ بچوں کی باجی اگست ۱۹۷۵ء
۱۱۔ بچوں کا گلشن مئی ۱۹۷۶ء
۱۲۔ گلستان جولائی۱۹۷۶ء
۱۳۔ تصویری دنیا ستمبر ۱۹۷۶ء
۱۴۔ گلدستہ مارچ۱۹۷۷ء
۱۵۔ پیامی اگست ۱۹۷۷ء
۱۶۔ اتفاق جنوری ۱۹۷۸ء
۱۷۔ ٹوٹ بٹوٹ جنوری ۱۹۷۸ء
۱۸۔ اسکول میگزین جنوری ۱۹۷۸ء
۱۹۔ پیغام مارچ ۱۹۷۸ء
۲۰۔ ساتھی مئی۱۹۷۸ء
۲۱۔ بچوں کا پھول نومبر ۱۹۷۸ء
۲۲۔ ننھا مسافر نومبر۱۹۷۸ء
۲۳۔ بچوں کا نیا پھول جنوری ۱۹۷۹ء
۲۴۔ اُردو کامک مارچ ۱۹۷۹ء
۲۵۔ پھول ہی پھول جولائی ۱۹۷۹ء
۲۶۔ نوبہار اگست ۱۹۷۹ء
۲۷۔ نوائے اطفال اکتوبر۱۹۷۹ء
۲۸۔ ننھا منا ڈائجسٹ مئی۱۹۸۲ء
۲۹۔ ذہانت جولائی ۱۹۸۲ء
۳۰۔ بچوں کا رسالہ جنوری ۱۹۸۳ء
۳۱۔ بچوں کی محفل جنوری ۱۹۸۳ء
۳۲۔ کوثر مارچ ۱۹۸۴ء
۳۳۔ ذہین اپریل ۱۹۸۵ء
۳۴۔ کایا پلٹ جون ۱۹۸۵ء
۳۵۔ آموزش اکتوبر ۱۹۸۵ء
۳۶۔ رنگ برنگ دسمبر ۱۹۸۵ء
۳۷۔ اسکول میگزین جون ۱۹۸۶ء
۳۸۔ ننھے شاہین جون۱۹۸۶ء
۳۹۔ ننھے ادیب جون۱۹۸۶ء
۴۰۔ آنکھ مچولی جولائی ۱۹۸۶ء
۴۱۔ ننھی دنیا مارچ۱۹۸۷ء
۴۲۔ امن دسمبر ۱۹۸۷ء
۴۳۔ چہکار جنوری ۱۹۸۸ء
۴۴۔ ننھے تارے مئی۱۹۸۸ء
۴۵۔ روشن تارے جون ۱۹۸۸ئ
۴۶۔ روشن چراغ ستمبر ۱۹۸۸ء
۴۷۔ پیغام ڈائجسٹ جنوری ۱۹۸۹ء
۴۸۔ ایجو کیشن ٹائمز جنوری ۱۹۸۹ء
۴۹۔ چلڈرن ڈائجسٹ جنوری ۱۹۸۹ء
۵۰۔ مجاہد جنوری۱۹۸۹ء
۵۱۔ منزل جنوری۱۹۸۹ء
۵۲۔ چائلڈ اسٹار فروری ۱۹۸۹ء
۵۳۔ چلڈرن نیوز فروری ۱۹۸۹ء
۵۴۔ تاروں کی دنیا مارچ ۱۹۸۹ء
۵۵۔ چاند گاڑی اپریل ۱۹۸۹ء
۵۶۔ بچوں کا گلشن اپریل ۱۹۸۹ء
۵۷۔ نکھار اپریل ۱۹۸۹ء
۵۸۔ بے بی ٹائمز مئی ۱۹۸۹ء
۵۹۔ کردار مئی ۱۹۸۹ء
۶۰۔ بہار چمن جون ۱۹۸۹ء
۶۱۔ رانگ نمبر جون ۱۹۸۹ ء
۶۲۔ خزانہ اگست ۱۹۸۹ء
۶۳۔ اسکول ٹائمز اگست ۱۹۸۹ئ
۶۴۔ انکل سر گم ستمبر ۱۹۸۹ء
۶۵۔ نئے چراغ ستمبر۱۹۸۹ء
۶۶۔ جہانِ ادب اکتوبر ۱۹۸۹ء
۶۷۔ چاند ستارے نومبر ۱۹۸۹ء
۶۸۔ بچوں کا ڈائجسٹ نومبر ۱۹۸۹ء
۶۹۔ بچپن دسمبر ۱۹۸۹ء
۷۰۔ درخشاں میگزین دسمبر ۱۹۸۹ء
۷۱۔ الف اُجال جنوری۱۹۹۰ء
۷۲۔ اسکول ڈائجسٹ جنوری ۱۹۹۰ء
۷۳۔ لوٹ پوٹ جنوری۱۹۹۰ء
۷۴۔ بچوں کا دوست فروری ۱۹۹۰ء
۷۵۔ غنچے اور کلیاں مارچ ۱۹۹۰ء
۷۶۔ فاختہ مارچ ۱۹۹۰ء
۷۷۔ بچوں کا نشیمن اپریل ۱۹۹۰ء
۷۸۔ راجارانی اپریل ۱۹۹۰ء
۷۹۔ بچوں کا مون مئی ۱۹۹۰ء
۸۰۔ نو عمر جولائی۱۹۹۰ء
۸۱۔ پھول ستمبر ۱۹۹۰ء
۸۲۔ نٹ کھٹ ستمبر۱۹۹۰ء
۸۳۔ بزم گل اکتوبر ۱۹۹۰ء
۸۴۔ اُمید ِبہار اکتوبر ۱۹۹۰ء
۸۵۔ اکیڈمی۔ بچوں کے لیے دسمبر ۱۹۹۰ء
۸۶۔ اسکول ٹائمز ۱۹۹۰ء
۸۷۔ جان عالم جنوری ۱۹۹۱ء
۸۸۔ نونہال اخبار جنوری۱۹۹۱ء
۸۹۔ ہمجولی جنوری ۱۹۹۱ء
۹۰۔ مستقبل اپریل۱۹۹۱ء
۹۱۔ بچوں کی آواز مئی ۱۹۹۱ء
۹۲۔ خزینہ جون ۱۹۹۱ء
۹۳۔ چٹاخ پٹاخ جون ۱۹۹۱ء
۹۴۔ انوکھی کہانیاں اگست ۱۹۹۱ء
۹۵۔ تعلیمی ڈائجسٹ اگست ۱۹۹۱ء
۹۶۔ چاند نگر اکتوبر ۱۹۹۱ء
۹۷۔ چھوٹی دنیا نومبر ۱۹۹۱ء
۹۸۔ دلچسپ نومبر ۱۹۹۱ء
۹۹۔ کہکشاں ۱۹۹۱ء
۱۰۰۔ بلندی دسمبر ۱۹۹۱ء
۱۰۱۔ ٹپ ٹاپ جون ۱۹۹۲ء
۱۰۲۔ بزم قرآن جولائی ۱۹۹۲ء
۱۰۳۔ دوست اگست ۱۹۹۲ء
۱۰۴۔ پھلوں کی مہک اگست ۱۹۹۲ء
۱۰۵۔ روشنی ستمبر ۱۹۹۲ء
۱۰۶۔ بچوں کا اخبار اکتوبر ۱۹۹۲ء
۱۰۷۔ اخبارِ بزم گل ۱۹۹۲ء
۱۰۸۔ چھوٹو جنوری ۱۹۹۳ء
۱۰۹۔ نشان منزل فروری۱۹۹۳ء
۱۱۰۔ شاہین ڈائجسٹ جون ۱۹۹۳ء
۱۱۱۔ عظیم پاکستان جون ۱۹۹۳ء
۱۱۲۔ شاہین نامہ اگست ۱۹۹۳ء
۱۱۳۔ بچوں کی دنیا نومبر ۱۹۹۳ء
۱۱۴۔ بزم قرآن نومبر ۱۹۹۳ء
۱۱۵۔ شاہین عالم نومبر ۱۹۹۳ء
۱۱۶۔ اطفال ملکوت دسمبر ۱۹۹۳ء
۱۱۷۔ اسکول میگزین مارچ ۱۹۹۴ء
۱۱۸۔ دَھنک اپریل ۱۹۹۴ء
۱۱۹۔ سحر اپریل ۱۹۹۴ء
۱۲۰۔ بچوں کا باغ مئی ۱۹۹۴ء
۱۲۱۔ چنبیلی جون ۱۹۹۴ء
۱۲۲۔ معصوم جون ۱۹۹۴ء
۱۲۳۔ پلے ٹائم جون ۱۹۹۴ء
۱۲۴۔ پٹاخہ ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۲۵۔ معمار نومبر ۱۹۹۴ء
۱۲۶۔ چمن کی گلیاں جنوری۱۹۹۵ء
۱۲۷۔ شاہین اقبال ڈائجسٹ مارچ ۱۹۹۵ء
۱۲۸۔ چیمپئن مارچ ۱۹۹۵ء
۱۲۹۔ بزم قرآن اپریل۱۹۹۵ء
۱۳۰۔ ممی ڈیڈی جون۱۹۹۵ء
۱۳۱۔ صدائے معصوم جون ۱۹۹۵ء
۱۳۲ بچوں کی دنیا ستمبر ۱۹۹۵ء
۱۳۳۔ صفہ نومبر ۱۹۹۵ء
۱۳۴۔ چندا نومبر ۱۹۹۵ء
۱۳۵۔ علم دوست جنوری ۱۹۹۶ء
۱۳۶۔ شاہ رخ فروری ۱۹۹۶ء
۱۳۷۔ اسکول ستارہ فروری ۱۹۹۶ء
۱۳۸۔ بچوں کا دوست مارچ ۱۹۹۶ء
۱۳۹۔ بچوں کا محور مارچ ۱۹۹۶ء
۱۴۰۔ شہباز اپریل ۱۹۹۶ء
۱۴۱۔ پنکھڑی جولائی ۱۹۹۶ء
۱۴۲۔ ون۔ ٹو جولائی ۱۹۹۶ء
۱۴۳۔ خزانہ اگست ۱۹۹۶ء
۱۴۴۔ کلیاں اگست ۱۹۹۶ء
۱۴۵۔ سہیلی میگزین ستمبر ۱۹۹۶ء
۱۴۶۔ کہانی نگر اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۴۷۔ ببلو بلی اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۴۸۔ طفیل کوکب اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۴۹۔ اسکول لائف دسمبر ۱۹۹۶ء
۱۵۰۔ معمارِ جہاں جنوری۱۹۹۷ء
۱۵۱۔ تصور نو نہال جنوری۱۹۹۷ء
۱۵۲۔ ہیلو چلڈرن مارچ ۱۹۹۷ء
۱۵۳۔ تعلیم و تعلم جون ۱۹۹۷ء
۱۵۴۔ چلڈرن اسپورٹس اگست ۱۹۹۷ء
۱۵۵۔ کزی میگزین اگست ۱۹۹۷ء
۱۵۶۔ کھیل کھیل میں ستمبر ۱۹۹۷ء
۱۵۷۔ چائلڈ ایجو کیشن دسمبر ۱۹۹۸ء
۱۵۸۔ زکوٹا جنوری ۱۹۹۸ء
۱۵۹۔ دبستان جولائی ۱۹۹۸ء
۱۶۰۔ علمی روشنی جنوری ۱۹۹۸ء
۱۶۱۔ قومی بچے جنوری ۱۹۹۸ء
۱۶۲۔ کہانی نگر ڈائجسٹ مئی ۱۹۹۸ء
۱۶۳۔ گل افشاں دسمبر۱۹۹۸ء
۱۶۴۔ ہلال جنوری ۱۹۹۸ء
۱۶۵۔ اسکول لائف فروری ۱۹۹۹ء
۱۶۶۔ بچوں کا اخبار اکتوبر ۱۹۹۹ء
۱۶۷۔ اسکول ٹائمز دسمبر ۱۹۹۹ء
۱۶۸۔ چمن میگزین جنوری ۲۰۰۰ء
۱۶۹۔ ہونہار ڈائجسٹ فروری ۲۰۰۰ء
۱۷۰۔ اطفالِ پاکستان مارچ ۲۰۰۰ء
۱۷۱۔ اسکول دوست اپریل ۲۰۰۰ء
۱۷۲۔ عروج اپریل ۲۰۰۰ء
۱۷۳۔ علمی آبشار مئی ۲۰۰۰ء
۱۷۴۔ رنگارنگ جون ۲۰۰۰ء
۱۷۵۔ پیغام اقبال ڈائجسٹ جون ۲۰۰۰ء
۱۷۶۔ اسٹوڈنٹ کلب ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۷۷۔ تعلیم ِنو اکتوبر ۲۰۰۰ء
۱۷۸۔ چلڈرن ورلڈ ۲۰۰۰ء
۱۷۹۔ اُسوہ میگزین ۲۰۰۰ء

تیس سال کے عرصے میں شائع ہونے ان رسائل کی تعداد اگرچہ زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں صرف چند رسائل ہی زیادہ عرصہ شائع ہوسکے، زیادہ تر رسائل کی عمر سال دو سال بھر ہی رہی۔ ۳
ان رسائل میں چار رسائل نے اپنی الگ سے پہچان بنائی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی اشاعت کو جاری رکھا۔
یہ چار رسائل درج ذیل ہیں۔
۱۔ ماہنامہ تعلیم وتربیت
۲۔ ماہنامہ ہمدردنونہال
۳۔ ماہنامہ آنکھ مچولی
۴۔ ماہنامہ ساتھی
ان میں تین رسائل نونہال، تعلیم وتربیت اور ساتھی آج بھی شائع ہورہے ہیں جب کہ آنکھ مچولی جو کہ احمد فوڈز کے زیر اہتمام شائع ہورہا تھا، وہ ادارے کے مسائل کی وجہ سے بند کرنا پڑا۴۔
اگلے صفحات پر ان چاروں رسائل کا ایک مجموعی مطالعہ ان کے موضوعات، سرگرمیوں اور حصہ نظم ونثر کے حوالے سے کیا جائے گا ۔

حوالہ وحواشی

۱۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، مارچ ۱۹۹۷ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص۱
۲۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد،ص۱۳۵
۳۔ ایضاً
۴۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، ص ۲

تعلیم وتربیت:مختصر تاریخ
عہد ساز رسالے کی نمایاں خصوصیات

بچوں کے موجودہ رسائل میں تعلیم وتربیت سب سے قدیم رسالہ ہے۔ جس نے اپنی اشاعت کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل کیا تھا۔ فیروز سنز لاہور کے بانی مولوی فیروزالدین نے اسکولوں کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے تعلیم وتربیت کے نام سے جنوری ۱۹۴۱ء میں پرچے کا اجرا کیا۱، مگر اُنھیں جلد احساس ہوا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لیے رسالہ جاری ہونا چاہیے، اس طرح مارچ ۱۹۴۱ء میں تعلیم وتربیت کوبچوں کے لیے مخصوص کردیا گیا۲۔ رسالے کے پہلے مدیر مقبول انور دائودی مقرر ہوئے،مقبول انور دائودی ایک طویل عرصے تک تعلیم وتربیت کی ادارت سے وابستہ رہے، جب کہ بعد میں مدیران کی فہرست میں ان ناموں کا اضافہ ہوا ۔
٭… ڈاکٹر عبدالرئوف
٭… سعید لخت
٭… الطاف پرواز
٭… خالد بزمی
٭… عزیز اثری
٭… ذولفقار احمد تابش۳
تعلیم وتربیت کے تمام مدیران اور ان کے معاونین کا کردار رسالے میں کہانیوں اور مضامین کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔ تعلیم وتربیتمیں کہانیوں کا معیار بہتر کرنے میں اس کے مدیران کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کی ایک اہم وجہ تو یہ تھی کہ مدیران خود بڑے اچھے مصنّفین کے طور پر مشہور تھے۔ مقبول انور دائودی یا سعید لخت…اُنھوں نے اپنی شاہ کار کہانیوں اور دل چسپ مضامین کی بدولت جہاںتعلیم وتربیت کو بچوں کا بہترین رسالہ بنایا وہیں بچوں کے ادب کو بھی غیر معمولی ترقی دی۔ تعلیم وتربیتکے پلیٹ فارم سے ایسی کہانیاں اور نظمیں تحریر کی گئیں جنھیں کلاسک ادب کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
ابتدا میں تعلیم وتربیت کا سائز بڑا رکھا گیا۔ یہ سائز ۷X۵۔۹؍انچ تھا۴۔ بعد میں اس سائز کو تبدیل کرکے اسے ۵۔۵X۸۔۷؍انچ کیا گیا۵ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ایک بار پھر اس سائز میں بہت ہی معمولی فرق نظر آیا اور نیا سائز ۸۔۵X۵۔۷؍انچ کیا گیا۶۔
مئی ۱۹۸۸ء تعلیم وتربیت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس مہینے جہاں تعلیم وتربیت نے اپنے سائز میں اضافہ کرکے اسے اسی سائز پر شائع کیا جس پر یہ پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا وہیں تعلیم وتربیت میں رنگین صفحات شامل کرکے اسے خوب صورت اور دلکش بنادیا تھا ۷۔ اس مہینے کے اداریے میں مدیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا:

تعلیم وتربیت کا یہ نیا رنگ وروپ اور نیا سائز دیکھ کر آپ حیران ہورہے ہوں گے لیکن شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ آج سے ۴۸ سال پہلے ۱۹۴۱ء میں یہ رسالہ جاری ہوا تھا تو اس کا یہی سائز تھا اور یہ اس وقت بھی بچوں کا اتنا ہی پسندیدہ رسالہ تھا جتنا کہ آج ہے۔ آج ہمیں آپ کے تعلیم وتربیت کو پھر اُسی سائز میں چھاپ کر بے حد خوشی ہورہی ہے۔ اُمید ہے آپ اسے پہلے سے بھی زیادہ پسند کریں گے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اسے زیادہ سے زیادہ دل چسپ اور خوب صورت بنانے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ مفید بھی بنائیںگے تاکہ تفریح کے ساتھ ساتھ آپ کی بہتر تعلیم وتربیت بھی ہوسکے، جو اس رسالے کا بڑا مقصد ہے۸۔

یہ حقیقت ہے کہ تعلیم وتربیت نے اپنے نام کی طرح بچوں کی تعلیم وتربیت کو ملحوظ رکھا۔ اپنی کہانیوں کے ذریعے ان میں اچھے اخلاق اور پاکیزہ کردار بنانے کی کوشش کی۔ اُنھیں جہاں اسلامی شعور دیا وہیں ان کے لیے مزے دار تفریح کا بھی اہتمام کیا۔
تعلیم وتربیت ایک بڑے مستحکم ادارے فیروز سنز لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے، اس لیے اس رسالے کو اپنی ابتدا سے اب تک زیادہ مالی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ رسالہ بغیر کسی وقفے یا تعطل کے مستقل شائع ہوتا رہا۔ تعلیم وتربیت کے بعد ہمدرد نونہال کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کا قدیم ترین رسالہ ہے جو مستقل شائع ہورہا ہے۹، لیکن تعلیم وتربیت کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
سائز میں آخری بار تبدیلی کا جو فیصلہ تعلیم وتربیت نے کیا، وہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوا۔ اور اپنی دلکش طباعت کی وجہ سے وہ دیگر رسائل میں ممتاز نظر آیا۔ خصوصاً تعلیم وتربیت کے رنگین خاکوں نے ان کی کہانیاں اور تاریخی مضامین کو خوب صورت بنادیا تھا۔
ڈاکٹر محمود الرحمن کی راے کے مطابق:
تعلیم وتربیتنے بچوں کا بڑا صاف ستھرا اور اعلیٰ ادب پیش کیا ہے۔ اس رسالے کو ہمیشہ اچھے اچھے لکھنے والوں کا تعاون حاصل رہا ہے۔ یہ پرچہ نہ صرف معنوی خوبیوں کی وجہ سے مشہور عام ہے بلکہ ظاہری حسن اور صوری بلندی کے لحاظ سے بھی اس کا مقام بچوں کے دوسرے رسائل میں ممتاز ہے۱۰۔

دعوۃ اکیڈمی کے شعبہ بچوں کا ادب نے ۱۹۸۹ء میں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ہزار بچوں سے سروے کے ذریعے بچوں کے رسائل کے متعلق ان کی آرا معلوم کی۔ اس سروے میں بچوں نے ماہنامہ تعلیم وتربیت کے متعلق اس طرح کی آرا کا اظہار کیا۔
٭… ۴۵ فیصد بچوں نے معلوماتی تحریروں کی وجہ سے رسالے کو پسند کیا۔
٭…۴۱ فیصد بچوں نے دلچسپ تحریروں کی وجہ سے پسندیدگی کا اظہا رکیا۔
٭… ۱۶ فیصد بچوں نے مزاحیہ کہانیوں کو پسند کی وجہ قرار دیا۔
٭… ۱۵ فیصد بچوں نے رنگین صفحات اور تصاویر کو بنیادی وجہ قرار دیا کہ اس کی وجہ سے اُنھیں رسالہ پسند ہے۔
٭… ۵ فیصد بچوں نے اسلامی اور سائنسی کہانیوں کی وجہ سے رسالہ اچھا قرار دیا۔
جبکہ دیگر چیزوں میں پہیلیاں، مختلف چیزیں بنانے کی تراکیب، تصویری کہانیاں، کارٹون اور تاریخی تصویری کہانیوں کو پسندیدگی کی وجہ قرار دیاہے۱۱۔
ڈاکٹر افتخار کھوکھر اس پروجیکٹ کے انچار ج تھے۔ ان کے مطابق:

ماہنامہ تعلیم وتربیت کے سال بھر کے جائزے کے بعد یہ بات محسوس کی گئی کہ مجموعی طور پر اسلامی تعلیمات پر مبنی تحریروں کا تناسب کم ہے۔ قرآنی کہانیوں کے سلسلے میں احتیاط ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے۔ جون ۱۹۸۹ء کے شمارے میں شائع ہونے والی قرآن کہانی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو حضرت لوط علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ اسی سال اکتوبر کے شمارے میں مدین کے کنویں پر قرآن کہانی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے بیٹوں کی فرضی تصویروں کی اشاعت انتہائی قابل اعتراض ہے۔ آئندہ اس سلسلے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۱۲۔

تعلیم وتربیت نے سالنامے اور خصوصی نمبر بھی شائع کیے۱۳۔اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

سالنامہ اپریل ۱۹۸۵ء
سالنامہ اپریل ۱۹۸۷ء
سالنامہ مئی ۱۹۸۹ء
گولڈن جوبلی نمبر مئی ۱۹۹۰ء
کہانی نمبر جنوری ۱۹۹۳ء
اطفال پاکستان نمبر مارچ ۱۹۹۷ء
آزادی نمبر اگست ۱۹۹۷ء

تعلیم وتربیت میں نمایاں نثر لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی، ان میں سعید لخت، اشتیاق احمد، مرزاادیب،مقبول انور دائودی، محمد یونس حسرت، رانا دائود علی خان، حمیرا خانم، یوسف سراج ، عفرا ء رضوی، نعیم ہارون، علی ناصر رضوی، کوکب کاظمی، سلیم خان گمی، ابرار محسن، محمد اقبال ثاقب، حنا خیری، نجمہ معراج، حسن ذکی کاظمی، معراج محمد جبریل، ذیشان ہاشمی، محمد ادریس قریشی، عفت گل اعزاز، محمد اعظم شاد ، مسعود اقبال، محمد امتیاز شاہد، نعیم سرور باجوہ، شہناز بٹ، ڈاکٹر عبدالرئوف، خدیجہ طلعت، ڈاکٹر رضوان ثاقب، سید نظر زیدی، حسان عارف اور شہناز خان کے نام نمایاں ہیں۱۴۔
جب کہ نظمیں لکھنے والے شعرا میں ہمیں عابد نظامی، رفیق احمد خان، نزہت منزہ ہاشمی، ذکیہ بلگرامی، راز کشمیری، سید افتخار راز، خالد بزمی، تاج الدین طیش، سمیع اکبر آبادی، بشیر مُندر، فیض لدھیانوی، حفیظ الرحمن احسن، اجمل وجیہہ، عنایت علی خان اور ضیاء الحسن ضیا کے نام نظر آتے ہیں۱۵۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تعلیم وتربیتکی اشاعت مستقل ہورہی ہے۔ تعلیم وتربیت میں مدیر کے طور پر ظہیر سلام جبکہ اسسٹنٹ ایڈیٹر میں عابدہ اصغرکا نام نظر آتا ہے۱۶۔ بچوں کے موجودہ بڑے ادیبوں میں کوئی نام ہمیں تعلیم وتربیت کی انتظامی ٹیم میں نظر نہیں آتا، جب کہ جو معیار ہمیں مئی ۱۹۸۸ء کے شمارے سے تسلسل کے ساتھ نظرآتا تھا ، اُس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
کہانیوں اور مضامین میں تعلیم وتربیتکا جو معیار تھا، اس میں بھی بہتری کی بہت گنجائش موجود تھی۔ کسی مضمون کو بچوں کے لیے دل چسپ اور مزے دار بنانا ایک فن ہے۔ تعلیم وتربیت کے بڑے ادبا، سعید لخت، رضوان ثاقب ان مضامین کو زبان وبیان کے اعتبار سے بھی خوب صورت انداز سے لکھتے تھے۔ معلومات کہانی کی صورت میں ہوتی تھی، جس کی وجہ سے بچے اس میں زیادہ دلچسپی محسوس کرتے تھے۔
تعلیم وتربیتمیں شائع ہونے والے خاکوں کا معیار بھی وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔بہت ہی معمولی کاغذ پر اس کی اشاعت طباعت کو بھی گہنا رہی ہے اور یہ شعبہ بھی توجہ کا متقاضی ہے۔طباعت کے لحاظ سے ملک میں اس شعبے میں بڑی بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں، لیکن تعلیم وتربیت اس میدان میں بھی بہت پیچھے نظرآتا ہے۱۷۔
تعلیم وتربیتمیں اس تنزلی کی وجوہ یقینا انتظامی ہوں گی۔ مالکان کی نظرِ التفات اگر دوبارہ اس رسالے کی جانب پڑے تو بعید نہیں کہ یہ رسالہ ایک بار پھر پاکستان کے بہترین رسائل میں شمار ہو۔

موضوعات:
تعلیم وتربیت نے اپنے عمدہ موضوعات پر منفرد کہانیوں اور مضامین کی صورت میں کئی نسلوںکو متاثر کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ’’پنجاب‘‘ کے دارالحکومت ’’لاہور‘‘ سے شائع ہونے والے اس پرچے نے بلاشبہ بچوں کے اُردو اَدب کو وہ قیمتی سرمایہ دیا ہے، جس کا احاطہ کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ ’’فیروز سنز‘‘ نے بچوں کے اَدب میں مختلف موضوعات پر ناصرف اپنے مقامی قلمکاروں سے لکھوایا بلکہ غیر ملکی اَدب کوبھی ترجمے کے ذریعے بچوں تک پہنچایا۔
دینی، اسلامی تاریخی، اخلاقی، معاشرتی، مہماتی، جذبہ حب الوطنی، سائنس فکشن، سلسلہ وار ناول، مزاحیہ تحریریں، غیر ملکی اَدب سے تراجم، تصویری کہانیاں، شخصیات، ڈراما، مافوت الفطرت کہانیاں، معلوماتی مضامین سمیت متعدد موضوعات پر تحریریں تعلیم وتربیت کاحصہ بنتی رہی ہیں، چوں کہ تعلیم وتربیت کے پیچھے مقبول انور داؤدی، سعید لخت، الطاف پرواز، خالد بزمی، عزیز اثری، ذوالفقار احمد تابش، ڈاکٹر رضوان ثاقب جیسے قابل مدیران موجود تھے ۱۸ جنھوں نے تعلیم وتربیت کو بچوں کے اَدب میں نمایاں مقام دیا۔
’’دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد‘‘ نے اپنے ’’شعبہ بچوں کا ادب‘‘ کی طرف سے جو جائزہ پیش کیا۔ اس میں جہاں بچوں کے سال بھر کے شماروں کا جائزہ لیا جاتا رہا، وہیں اس میں ایک سروے کے ذریعے متعلقہ رسائل کے قارئین سے رسالے کی خوبیاں اور خامیاں بھی پوچھی گئیں۔ ۱۸۸۹ء کے جائزے میں بچوں نے تعلیم وتربیت کی خوبیوں میں اس کا معلوماتی ہونا اور دلچسپ کہانیوں کی اشاعت قرار دیا۱۹۔
جب کہ ۱۹۹۰ء کے جائز ے میں قارئین نے اس کے سائز، اچھی تحریریں، اچھا خوب صورت سرورق کے ساتھ عمدہ طباعت کو پسندیدگی کی وجہ قرار دیا۲۰۔ رسالے کو ناپسند کرنے والے بچوں نے کہا کہ اس میں صرف ان مصنّفین کو جگہ دی جاتی ہے جواس کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ رسالے میں سلسلہ وار کہانیوں کی بہتات کو بھی ناپسند کرنے کی وجہ بتایا۲۱۔
اس سے قبل آنکھ مچولی کے حوالے سے بھی قارئین کی طرف سے اسی قسم کا خیال ظاہر کیا گیا۔ حالاں کہ رسالے میں نئے ادیبوں کی تحریریں ہر ماہ کثرت سے شائع کرنے کا باقاعدہ سلسلہ موجود ہے۔ رسالے کے معیار کو بھی برقرار رکھنا ادارے کے لیے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس لیے ہر بڑے اور اچھے رسالے کو بہر حال اس قسم کے اعتراضات کا سامنا رہتا ہے۔ اس جائزے کے مطابق ۱۹۸۹ء میں ۱۵ دینی کہانیاں، ۳۶ ؍اخلاقی کہانیاں، ۱۸ نظمیں اور ۶۵ معلوماتی مضامین شائع ہوئے۔ جب کہ ۱۹۹۰ء کے جائزے کے مطابق ۳۶ ؍اخلاقی کہانیاں، ۱۸ مہماتی تحریریں، ۱۱ تصویری کہانیاں، ۶۲ معلوماتی مضامین جب کہ ۲۲ نظموں کی اشاعت ہوئی۲۲۔ ان دو برسوں کی ایک مکمل فہرست ذیل میں دی جارہی ہے اس فہرست کی مدد سے ہم تعلیم وتربیت میں شامل تحریروں کے موضوعات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

ماہنامہ تعلیم وتربیت ۱۹۸۹ئ۲۳ اور ۱۹۹۰ء ۲۴کے شماروں کا جائزہ

شمار عنوانات ۱۹۸۹ء ۱۹۹۰ء
۱ دینی تحریریں ۱۱ ۱۵
۲ اسلامی تاریخی تحریریں ۵ ۴
۳ اخلاقی کہانیاں ۳۶ ۳۶
۴ معاشرتی تحریریں ۷ ۸
۵ مہماتی کہانیاں ۱۰ ۱۸
۶ جذبہ حب الوطنی پر مبنی کہانیاں ۳ ۲
۷ سائنس فکشن ۳ ۸
۸ سلسلہ وار ناول ۳ ۲
۹ مزاحیہ تحریریں ۵ ۷
۱۰ غیر ملکی ادب سے تراجم ۱۳ ۸
۱۱ سفر نامے ۔ ۔
۱۲ تصویری کہانیاں ۲ ۱۱
۱۳ شخصیات ۲ ۳
۱۴ ڈراما ۔ ۔
۱۵ معلوماتی مضامین ۶۵ ۶۲
۱۶ مافوق الفطرت کہانیاں ۔ ۔
۱۷ نظمیں ۱۸ ۲۲
۱۸ حمد و نعت ۵ ۳
۱۹ مستقل سلسلے ۸؍ اوسط ۱۱
۲۰ متفرقات ۱۴ ۱۲

اس جائزے کے مطابق ہمیں مافوق الفطرت کہانیاں، ڈرامے اور سفر نامے نظر نہیں آتے، لیکن یہ صرف دو برسوں کا جائزہ ہے، آگے حصہ نثر کے مجموعی جائزے میں ان موضوعات پر بھی کہانیاں ملتی ہیں۔
تعلیم وتربیت میں مزاحیہ کہانیوں کا معیار اچھا تھا۔ تعلیم وتربیت میں تجربہ کار مصنّفین کی ایک بڑی تعداد لکھتی تھی، اس لیے بچوں سے متعلق ہر موضوع کا ماہر مصنف ہمیں اپنے قلم کی جولانیاں دکھاتا نظر آتا ہے۔
’’انیلہ کرن‘‘ کی تحریر بکرے کاایکسرے میں ایک دلچسپ صورت حال کا تذکرہ ہے۔ یہ صورت حال کہانی کے ہیرو ’’خلیل‘‘ نے خود پیدا کی ہوئی ہوتی ہے ۲۵۔ کہانی کا ہیرو ’’خلیل‘‘ گھر کے باہر ایک کمزور بکرے کو اپنے گھر کا بکرا سمجھ کر بطور سزا ایک شرط لگاتا ہے۔ وہ شرط ملا حظہ کیجیے۔

جس کی بات غلط ہوگی وہ عید کے دن پہلے تو سو بیٹھکیں نکالے گا۔ پھر قصائی[قسائی] کو ڈھونڈ کر لائے گا۔ بکرا بنانے میں اس کی مدد کرے گا۔ بکرے کی ناقابل استعمال چیزیں باہر پھینکے گا، تمام رشتے داروں میں اکیلا گوشت تقسیم کرے گا اور اس کی عیدی کا پچھتر فی صد حصہ دوسرے فریق کو دے دیا جائے گا۔
ہم نے خوشی سے کہا ،کیوں کہ ہمیں یقین تھا کہ بھائی جان یہ سب کچھ برداشت نہ کر پائیں گے اور ہم اُن کو خوب چھیڑیں گے۲۶۔

اسلامی تاریخی موضوع پر شکیل عزیزی دوشہید تحریر لکھتے ہیں، اس میں حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا اسلام کے پہلے شہدا کی شہادت کا درد ناک بیان ہے۔ بچوں کے لیے اس واقعے کو بالکل سادہ اور سلیس انداز میں لکھا گیا ہے کہ بچہ کہیں پڑھنے میں دِقت اور رِکاوٹ محسوس نہیں کرتا۲۷۔
محمد یونس حسرت بچوں کے مشہور ادیب ہیں۔ اُنھوں نے بچوں کے لیے متعدد کہانیاں لکھیں ۔اپنی ایک کہانی میں وہ ڈاک بنگلے میں آنے والے ایک عجیب وغریب واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ایک جنونی آدمی اُنھیں ایک شکار سے واپسی پر ملتا ہے اور وہ نیلم کا ایک ہیرا اُنھیں دکھا کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے، نیلم کو یوں توڑنے کی وجہ وہ دیوانہ شخص یہ بتاتا ہے کہ اس ٹکڑے کے لیے لوگ لڑیں گے اور مریں گے، اس لیے اسے توڑ دینا زیادہ بہتر ہے۲۸۔
ویسے تو اس کہانی میں بہت سے جھول پائے جاتے ہیں لیکن بچوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی تحریر میں کچھ نیا ڈھونڈتے ہیں ۔ اُنھیں تحریر کی دل چسپی سے غرض ہے۔ اگر تحریر اچھی اور مزے دار ہے تو جھول بھی برداشت ہوجاتا ہے۔ یونس حسرت، سعید لخت، اشتیاق احمد جیسے بڑے مصنّفین کی خاص بات ان کا مخصوص اسلوب ہے۔ اس اسلوب کے بل پر اُنھوں نے کمزور پلاٹ پر لکھی گئیں تحریریں بھی بچوں کی پسندیدہ کہانیوں کی فہرست میں ڈال دی ہیں۔
آر ایم راہی نے بچوں کے متعدد رسائل میں لکھا۔ تعلیم وتربیت میں بھی انھوں نے متعدد کہانیاں لکھی ہیں۔ نومبر ۲۰۰۰ء میں ان کی تحریر آزادی منتظر ہیکشمیر کے موضوع پر لکھی گئی تھی۔ ’’بھولے‘‘ نامی بچے کی اس کہانی کے اختتام پر المیہ ہے۔ آزادی کے لیے لکھی جانے والی زیادہ تر کہانیوں کے اختتام پر اس میں ہمیں عزم کے ساتھ المیہ بھی کار فرما نظر آتا ہے۔ بھارتی فوج مجاہدین کے تلاش میں ننھے بھولے کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۲۹۔ یہ اور اس قسم کے سیکڑوں واقعات حقیقت میں رونما ہوتے ہیں۔ خبروں سے پتا چلتا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران نوجوان یا بچے کو قتل کر دیا گیا اور جب یہ واقعات کہانیوں میںڈھلتے ہیں تو ہمیں لامحالہ اس میں المیہ نظر آتا ہے۔
مضامین میں ہمیں ایک منفرد موضوع تصویری تاریخ کا ملتا ہے، اس طرح کی کوشش ہمیں تعلیم وتربیت ہی میں نظر آتی ہے، مختلف تاریخی شخصیات پر خاکے بنا کر اُن کی زندگی کے نشیب وفراز سے بچوں کو آگاہ کرنا یقینا ایک اہم اور بڑا کام ہے، جسیتعلیم وتربیت نے سر انجام دیا۔ اس سلسلے کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم کی زندگی کے مختلف گوشوں پر تصویر کشی کی گئی، ان تصویروں کے ساتھ معلوماتی نوٹ بھی شامل کیے گئے۔ مارچ ۱۹۹۷ء میں قائد اعظم کی ولادت پر تین صفحات پر مشتمل باتصویر مضمون شامل کیا گیا تھا۳۰۔
مئی ۱۹۸۸ء کے شمارے میں ہمیںآٹھ مختلف موضوعات پر مضامین نظر آتے ہیں۔ عموماًرسائل میںاتنے زیادہ مضامین شائع کرنے کا رجحان نظر نہیں آتالیکن تعلیم وتربیت میں ہمیں مئی ۱۹۸۸ء کے بعد سے متنوع موضوعات پر مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ یاد رہے کہ مئی ۱۹۸۸ء وہی مہینا ہے جب تعلیم وتربیت کا سائز دوبارہ سے بڑا کردیا۔ یہ وہی سائز ہے جو ابتدا میں ہم تعلیم وتربیت کا دیکھتے تھے۔
اس شمارے میں وائلڈ لائف کے موضوع پر ہاتھی کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہے۳۱۔
ڈاکٹر انور کا شف کا فرسٹ ایڈ کے موضوع پر مضمون بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۳۲۔
اسلامی تاریخی موضوع پر باتصویر تاریخی مضمون محمد بن قاسم (ڈاکٹر عبدالرئوف) شائع کیا گیا ہے۳۳۔
وطن کے موضوع پر کوکب کاظمی کا مضمون لاہور بھی شامل کیا گیا ہے۔ سائنس کے موضوع پر سعیدلخت کے دو مضامین نظام شمسی۳۴ اور ٹیلی وژن ۳۵ شائع کیاگیا ہے۔
کھیلوں کے موضوع پر بھی ایک مضمون ہاکی کے عنوان سے ملتاہے۳۶ لیکن اس مضمون کے لکھنے والے مضمون نگار کا نام ندارد ہے اور آخر ی مضمون آپ کے اسکول کے نام سے موجود ہے۳۷۔
ایک شمارے میں اتنے زیادہ موضوعات پر مضامین کی اشاعت کو اگر چہ والدین اور اساتذہ کی جانب سے پذیرائی ملتی ہے لیکن بچوں کی دل چسپی کو بھی مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ کسی شمارے میں زیادہ کہانیاں تو بچوںکے لیے دل چسپی کا باعث ہوسکتی ہیں لیکن زیادہ مضامین زود و ہضم ہونے کے باوجود بوریت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں بچوں کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رسالہ اگر چہ والدین بچوں کے لیے خریدتے ہوں لیکن اسے پڑھنے والا ایک بچہ ہی ہے اور اس بچے کو کہانی سے بہلایا جاسکتا ہے۔ مضامین کی کثرت کے باوجود تعلیم وتربیت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ مضامین میں تصویروں کا استعمال مضمون کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے وہیں مضامین کو طوالت سے بچاتے ہوئے اُنھیں مختصر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اچھا موضوع، اچھی کتابت، اچھی تصویریں اور اچھا اسلوب مضمون کی خوب صورتی اور دلکشی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

تصاویر؍ اسکیچز:
پاکستان میں اشاعت کے لحاظ سے تعلیم وتربیت بچوں کاسب سے قدیم رسالہ ہے۔ اس رسالے نے زمانے کے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ بچے کس چیز سے محظوظ ہوتے ہیں اور تصاویر ان کی دلچسپی کا کتنا محوربنتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں بہر حال تجربات سے سیکھ لیے جاتے ہیں۔ ۱۹۰۲ء میںنکلنے والے بچوں کے پہلے رسالے بچوں کا اخبار نے بچوں کے رسائل کے لیے ایک ایسی مثال پیش کی جس پر چل کر بچوں کا صحافتی ادب تیزی سے ترقی کے منازل طے کرنے لگا۳۸۔ بچوں کے صحافتی اَدب میں تصاویر کے استعمال کا رجحان موجود تھا۔ اس رجحان کا عکس ہمیں تعلیم وتربیت میں بھی ملتا ہے۔ تعلیم وتربیت اپریل ۱۹۸۸ء تک یک رنگا اور دو رنگا شائع ہوتا رہا۔ مئی ۱۹۸۸ء میں جہاں رسالے کا سائز تبدیل ہوکر بڑاہوا ہے، وہیں اس میں رنگین صفحات کا اضافہ بھی ہوا۔ رسالے نے بیک وقت ترقی کی منازل طے کیں۔ یاد رہے یہ وہی وقت ہے جب کراچی سے آنکھ مچولی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوا تھا۳۹۔
یہ غالبا ً اسی کا اثر تھا کہ بچوں کے بیشتر رسائل میں ہمیں معیار کے اعتبار سے فرق نظر آتا ہے۔
تصاویر کے معاملے میں تعلیم وتربیتمیں بھی ہمیں وہی مسئلہ نظر آتا ہے جو بچوں کے دیگر رسائل میں موجود تھا اور وہ ہے خاکہ نگاروں کے نام کا مسئلہ۔ تعلیم وتربیت کے تمام زیر مطالعہ رہنے والے رسائل کے جائزے میں کسی جگہ خاکہ نگار کا نام موجود نہیں تھا۔
سرورق کس نے بنایا؟ کہانیوں اور مضامین کے خوب صورت خاکے کس کے شاہکار ہیں؟
اس حوالے سے کوئی تفصیلات درج نہیں ہے، البتہ اپریل ۱۹۷۷ء کے شمارے میں ’’محمد اعظم شاد‘‘ کا مضمون تعلیم وتربیت کس طرح چھپتا ہے میں تین آرٹسٹوں کے ناموں کا ذکرہے جو رسالے میں اسکیچز بناتے تھے۔ رسالے کے ہیڈ آرٹسٹ کے طور پر ’’عبدالرشید بٹ‘‘ کا نام نظر آتا ہے۔ وہیں ’’جاویدرضوی‘‘ اور ’’جمشید باری‘‘ کو بھی رسالے کے تزئین کارکے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۴۰۔جبکہ اپریل ۱۹۸۹ء ۴۱میں آرٹ ڈائریکٹر کے طور پر ’’محمود حسن رومی‘‘ براجمان ہیں۔ آگے چل کر السٹریشنز ڈیزائننگ میں ’’سید شوکت اعجاز‘‘ کا نام ملتا ہے۴۲۔
جب رسالہ یک رنگا شائع ہوا کرتا تھا تو اس کے خاکوں میں زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہوتی تھیں۔ وہ باریک کام جو مصور اپنی مصوری میں انجام دیتا ہے، پنسل کی لائنوں سے مرکزی منظر سمیت پس منظر کو یوں پیش کرتا ہے کہ جیسے تصویر بول اُٹھی ہو، یہ باریک کام ہمیں آنکھ مچولی۴۳ یا پھر ماہنامہ ساتھی کے ۱۹۹۷ء کے بعد کے خاکوں میں نظر آتا ہے۴۴۔ مئی ۱۹۸۸ء میں رسالہ رنگین ہونے کے بعد ہمیں خاکوں میں بہتری نظر آتی ہے۔ خاکے دلکش اور متحرک نظر آتے ہیں۔ رنگوں کا استعمال ایسا کیا جاتا تھا کہ بچے اس سے یقینا خوب لطف اندوز ہوا کرتے ہوں گے۔
کارٹون کہانی اور شرارتی لکیریں کے نام سے ایک سلسلہ ایسا نظر آتا ہے جس میں مصور کا باقاعدہ نام موجود ہے۔ ’’شاہد ریاض شاہد‘‘ شرارتی لکیریں کے نام سے متفرق مزاحیہ خاکے بنا کر بچوں کو محظوظ کرتے نظرآتے ہیں۴۵ ۔جبکہ کارٹون کہانی میں کسی مزاحیہ کہانی کا باتصویر احوال بیان کیا جارہا ہوتا تھا ۴۶۔
ذیل میں ہم تعلیم وتربیتمیں ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک شائع ہونے والے منتخب خاکوں کا جائزہ لیں گے کہ اس دورانیے میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔

۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک تعلیم وتربیتمیں
شائع ہونے والے منتخب خاکے

شیر محمد کی تحریر مولا بخش پر اپریل ۱۹۷۷ء میں بنایا گیا خاکہ۴۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر ۱۹۸۱ء میں ’’آفتاب امین چشتی‘‘ کی کہانی مرغی کا انڈا پر بنا یا گیااسکیچ۴۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی ۱۹۸۸ء میں سائز کی تبدیلی کے بعد سند باد جہازی اور سمندر کا بھتنا کا خوب صورت خاکہ۴۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف احمد چشتی کی کہانی چاچو چاند ہوئے اِغوا کا نومبر ۲۰۰۰ء میں بنایا گیا خاکہ ۵۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان تصاویر میں برسوں کا فرق ہے۔ یہ فرق ہمیں خاکوں میں بھی نظرآتا ہے۔ اپریل ۱۹۷۷ء کا خاکہ ہلکا ہے۔ اس کام میں نفاست کی بھی کمی ہے۔ اسی طرح دسمبر ۱۹۸۱ء میں بنائے گئے خاکے میں بھی ہمیں زیادہ فرق نظر نہیں آتا لیکن مئی ۱۹۸۸ء میں رسالے کے اندر ہونے والی انقلابی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ فرق خاکوں پر پڑا ہے۔ یہ خاکے زیادہ خوب صورت، جاذب نظر اور دلکش نظرآتے ہیں۔ تعلیم وتربیت نے اپنے خوب صورت خاکوں کے ذریعے رسالے کو بچوں کا پسندیدہ رسالہ بنائے رکھا۔ ان تصویروں سے کئی نسلیں محظوظ ہوئیں۔ فیروز سنز نے بعد میں ان اسکیچز کا استعمال کتابوں میں بھی کیا۔ جس سے فیروز سنز کی کتابیں رنگین اور جاذب نظر ہوگئیں اور بچوں کے ادب میں نئی روایت بھی قائم کی۔

سرگرمیاں:
تعلیم وتربیت نے کہانیوں اور مضامین کے علاوہ مختلف سرگرمیوں کے ذریعے قارئین کو خود سے جوڑے رکھا۔ قارئین کی شمولیت کے بغیر رسائل وہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتے جو قارئین کی شمولیت کے بعد اُنھیں ملتی ہے۔ اس لیے ہر اچھا رسالہ مختلف سلسلوں کے ذریعے قارئین کو رسالے میں حصہ لینے پر اُکساتا ہے۔ اس کے لیے لوگوں کے ذوق اور شوق کے مطابق کسی سلسلے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ا سی طرح انعامی سلسلوں کا آغاز بھی اسی نقطۂ نظر کے تحت ہوتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین رسالے سے منسلک رہیں۔ ذیل میں تعلیم وتربیت کے مستقل اور انعامی سلسلوں کو ترتیب وار بیان کیا جارہا ہے۔

مستقل سلسلے:
تعلیم وتربیت نے اپنے مستقل سلسلوں کا تسلسل بر قرار رکھا ہے۔ عنوانات میںبھی ہمیں وہ تبدیلی نظر نہیں آتی جو ساتھی جیسے رسائل میں ہر چھے ماہ بعد رونما ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تویہ ہے کہ تعلیم وتربیت کی ادارتی ٹیم میں ہمیں لمبے عرصے تک تبدیلی نظر نہیں آتی۔ پس پردہ کام کرنے والے لوگ اگر چہ تبدیل ہوتے رہتے تھے لیکن مدیران وغیرہ کی تبدیلی کا عمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی وجہ سے مستقل سلسلے بھی برسوں تک ایک ہی نام سے براجمان نظرآتے ہیں۔
تعلیم وتربیتمیں شائع ہونے والے مستقل سلسلے یہ تھے۔

٭…پہلے یہ پڑھیے، باتیں
٭…احکام الہٰی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
٭…حمد، نعت
٭…روشنی
٭…وہ آئی ہنسی ،لوہنس دیے، آئیں مسکرائیں
٭…ہونہار ادیب، آپ بھی لکھیے
٭…ہم سے ملیے(قلمی دوستی)
٭… آپ کی رائے ، آپ کا خط ملا
٭…کارٹون کہانی
٭…دلچسپ وعجیب
٭… آپ بھی پوچھیے، اپنی کہیے ہماری سنیے
٭… شرارتی لکیریں
٭… قائداعظم کلاسک
٭… کھیلوں کی دنیا
٭… کیوں؟
٭… چٹ پٹے مسالے دار

پہلے یہ پڑھیے رسالے کا اداریہ ہوا کرتا تھا۔ جس میں عموماً قارئین کے ساتھ رسالے سے متعلق کسی بات کا جواب دیا جاتا تھا۔ کسی نئے عنوان کے اضافے کسی خبر، کسی انعامی سلسلے کو شروع اور ختم کرنے سے متعلق زیادہ تر باتیں اداریے میں ہوا کر تی تھی۔ کسی خاص ماہ کی مناسبت سے اداریے بھی ہوا کرتے تھے۔ جیسے ستمبر۱۹۸۴ء کا اداریہ ملا حظہ کیجیے جس میں ، عید قرباں، چھہ(۶) ستمبر سمیت انعامی معمے پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔

عید قربان آرہی ہے۔ ایسا مبارک موقع اللہ آپ کی زندگی میں بار بار لائے۔ یہ عید دنیا بھر کے مسلمان ذوالحج کی دسویں تاریخ کو جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔ یہ اللہ کے ایک پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
چھہ (۶) ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح کو بھارت نے اعلانِ جنگ کیے بغیر پاکستان پر حملہ کردیا تھا لیکن ہمارے فوجی مجاہدوں نے بھارتی فوج کو عبرت ناک شکست دی۔ بھارتی فوج کو اپنے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی کثرت پر ناز تھا اور ہمارے مجاہدوں کو اللہ کی رحمت پر۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور بھارتیوں کا غرور خاک میں ملادیا۔ اس جنگ میں ہمارے بہت سے مجاہد شہید ہوئے لیکن ان کے خون سے ہمارے وطن کی عزت بڑھ گئی۔ اب ساری دنیا مانتی ہے کہ پاکستان کی فوج واقعی بڑی بہادر ہے۔ چھہ ستمبر کا دن ہم ہر سال وطنِ عزیز پر قربان ہونے والے ان جیالے مجاہدوں کی یاد میں مناتے ہیں۔
عام بچوں کو شکایت ہے کہ علمی معمّے کے سوالات بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ بہت زیادہ آسان سوال دینے سے وہ مقصد ختم ہوجائے گا جس کے تحت ہم نے علمی معمّا جاری کیا تھا۔ ہم نے علمی معمّااس لیے شروع کیا تھا کہ آپ میں محنت اور تحقیق کا جذبہ پیدا ہو اور آپ کا علم بڑھے۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ علمی معمّے کو بند کرکے نیا انعامی سلسلہ شروع کیا جائے جو آپ کے لیے اس سے بھی زیادہ مفید ہو۔ ویسے بھی خوش گوار تبدیلیاں طبیعت کو بھلی لگتی ہیں۔ انعامی مقابلے کا اعلان جلد کردیا جائے گا۵۱۔

اداریہ باتیں کے نام سے بھی شائع ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اداریہ کو کسی خاص عنوان کے بجاے بغیر عنوان کے دیا جانے لگا اور آج بھی اداریہ بغیر کسی خاص عنوان کے شائع ہو رہا ہے۵۲۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے رسالے کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا۵۳۔ اس میں قرآن کی مختلف آیتوں کا ترجمہ دیا جاتا تھا۔ جب کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مختلف مختصر احادیث پیش کی جاتی تھیں۵۴۔ ان دونوں سلسلوں کی خامی یہ تھی کہ ان میں حوالے موجود نہیں ہوتے تھے، جب کہ دینی احکامات وتعلیمات میں اس چیز کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ اسے با حوالہ دیا جائے۔
یہ سلسلہ احکام الٰہی کے نام سے بھی نظر آتا ہے جسے مقبول انور داؤدی تحریر کیا کرتے تھے۵۵۔ اس میں حوالے تو تھے لیکن ذرا مشکل ترتیب کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ حمد اور نعت کو بھی تعلیم وتربیت کا مستقل سلسلہ قرار دیا جاسکتا ہے۵۶۔ ابتدائی قرآن وحدیث کے بعد حمد یا پھر نعت رسالے کی زینت بنتی تھی۔ مئی ۱۹۸۱ء میں شائع ہونے والی نعت کے چند مصرعے دیکھیے۵۷۔

محمد حبیب خدا ہیں ہمارے
محمد ہیں دونوں جہاں کے سہارے
غریبوں کے حامی رسولِ گرامی
ہمیں مل گئی اُن کے در کی غلامی
خدا کی نظر میں وہ ہیں سب سے پیارے

روشنی کا سلسلہ بھی رسالے کے ابتدا میں جولائی ۱۹۸۴ء کے شمارے میں نظر آتا ہے۵۸۔ یہ اور اوپر بیان کیے گئے سلسلے مختلف اوقات میں تعلیم وتربیت کا حصہ رہے۔ روشنی میں تربیت کی غرض سے اسلامی واقعات کو بیان کیا جاتا تھا، تاکہ بچوں میں بھی وہ اوصاف پیدا ہوسکیں۔ حکومتی بیت المال میں ذراسی بے احتیاطی ہمارے اسلاف کو کتنی گراں گزرتی تھی اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ روشنی میں دیکھیے۔
عید قریب آرہی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا نے بیت المال کے خزانچی علی بن ابی رافع سے کہا: ’’سنتی ہوں کہ بیت المال میں ایک ہار موجود ہے۔ کیا آپ اسے صرف عید کے دن کے لیے مجھے عنایت فرماسکتے ہیں۔ عید کے دوسرے دن واپس کردوں گی۔‘‘
ہار بہت قیمتی تھا لیکن علی بن ابی رافع نے اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کو ہار بھجوادیا اور اُنھوں نے عید کے دن وہ ہار پہن لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نظر پڑی تو آپ نے تعجب سے دریافت فرمایا۔
’’اُمّ کلثوم یہ ہار تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘
اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا نے ساری بات سچ سچ بتادی۔آپ نے ہار اسی وقت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے گلے سے اُتارلیا۔خزانچی کو بلا کر بہت ڈانٹا اور فرمایا:’’ خدا کی قسم! اگر اُمّ کلثوم یہ ثابت نہ کرسکتی کہ اُس نے یہ ہار مانگ کر لیا ہے تو میں اُس کا ہاتھ کٹوادیتا اور بنو ہاشم میں یہ پہلی چوری ہوتی۵۹۔‘‘
وہ آئی ہنسی۶۰، لو ہنس دیے۶۱، تعلیم وتربیت کے لطائف پر مبنی سلسلے تھے۔ بچوں کا پسندیدہ سلسلہ کہلانے والے اس حصے میں نت نئے لطائف کی اِشاعت کو یقینی بنایا جاتا تھا۔ تعلیم وتربیت کے تین منتخب لطائف درج ذیل ہیں جس سے رسالے میں لطائف کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک خاتون نے دُوکان دار[دُکان دار] سے شکایت کرتے ہوئے کہا:
ــ’’کل آپ نے مجھے صابن کی جو ٹکیہ دی تھی، وہ بہت ناقص نکلی، اس میں جھاگ ہے ہی نہیں۔‘‘
دُوکان دار[دُکان دار] نے کہا:’’ کل تو آپ پنیر کی ٹکیہ لے گئی تھیں۔‘‘
’’اوہو۔‘‘ خاتون نے کہا:’’جبھی تو میں حیران ہورہی تھی کہ ناشتے کے وقت میرے شوہر کے منھ سے جھاگ کیوں نکل رہی ہے؟‘‘(مرسلہ: خالدہ پروین، اسلام آباد)۶۲
٭…٭
گاہک (بیرے سے): ’’ایک پلیٹ گوشت لاؤ۔ جو اتنا سخت ہو جتنا پرانے جوتے کا چمڑا۔ ایک پلیٹ مٹر لاؤ، جو اتنے سخت ہوں جتنی بندوق کی گولی۔ ایک پلیٹ دہی لاؤ، جس میں سے مرے ہوئے چوہے کی سڑاند آرہی ہو۔‘‘
بیرا: ’’افسوس ہے سر! ہم آپ کو ایسی چیزیں پیش نہیں کرسکتے۔‘‘
گاہک: ( میز پر مُکّا مارکر): ’’کیوں نہیں کرسکتے؟ کل تم نے ایسی ہی چیزیں مجھے کھلائی تھیں۔‘‘
(مرسلہ: محمد انور۔ لالہ موسیٰ)۶۳
٭…٭
ایک وزیر کسی پٹرول پمپ کا افتتاح کرنے گئے۔ جب افتتاح ہوچکا تو وزیر صاحب نے پٹرول پمپ کے مالک سے پوچھا:
’’بہت خوب! مگر آپ کو یہ کیسے پتا چلا کہ زمین کے اس مخصوص حصے میں پٹرول موجود ہے۔‘‘
(مرسلہ: افشاں ارجمند۔ ڈیرہ غازی خان)۶۴
٭…٭
تعلیم وتربیت نے ایک اور دلچسپ سلسلہ چٹ پٹ مسالے دار کے نام سے شروع کیا۶۵۔ اس سلسلے میں قارئین اپنی زندگی میں پیش آنے والے کسی مزاحیہ واقعہ کو بیان کرتے جبکہ بہترین لطیفے پر ۲۵ روپے کی کتابوں کا انعام بھی حاصل کرتے۔ اس سلسلے کا ایک واقعاتی لطیفہ ملاحظہ کیجیے۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں اپنے گاؤں ’کالواں‘ میں رہا کرتا تھا اور پہلی جماعت میں پڑھتا تھا۔ایک دن ہمارے کلاس ٹیچر ماسٹر اعجاز حسین صاحب نے ہم سے کہا کہ اگلے دن ہیڈ ماسٹر صاحب معائنہ کریں گے۔ تمام لڑکے اچھے کپڑے پہن کر آئیں۔
اگلے دن ہم صاف ستھرے کپڑے پہن کر اسکول گئے۔ دوسرے پیریڈ میں ہیڈ ماسٹر صاحب آئے اور اُنھوں نے لڑکوں سے سوالات پوچھے۔ آخر میں اُنھوں نے مجھ سے پوچھا کہ چابی کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟
میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں نے گھبرا کر کہا:’’کی؟‘‘
یہ سن کر ہیڈ ماسٹر نے مجھے بہت شاباش دی۔
میں حیران تھا کہ میں نے کچھ بھی نہیں بتایا۔ یہ شاباشی کس بات کی دے رہے ہیں۔
گھر آکر میں نے اپنے ابو کو بتایا تو اُنھوں نے کہا کہ انگلش میں چابی کو ’کی‘(Key) کہتے ہیں۔ تم نے پنجابی میں ’کی‘ یعنی ’کیا‘ کہا تو اُنھوں نے اُسے انگریزی کا ’کی‘ سمجھا۔ اس لیے تمھیں شاباش دی۔ یہ سن کر گھر والے خوب ہنسے۶۶۔ (قیصر بشیر۔ اوکاڑہ)

اس سلسلے میں تعلیم وتربیتکی انفرادیت جھلکتی ہے۔ عموماً قارئین لطائف کے پرانے اور گھسے پٹے ہونے کا رونا روتے ہیں۔ اس سلسلے کی وجہ سے ان کی یہ شکایت بھی دور ہوگئی۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والے لطائف زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں، اس طرح کے لطائف سے قارئین خوب لُطف اُٹھاتے ہیں۔ تعلیم وتربیتکے تمام سلسلوں میں اس سلسلے کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔اس طرح کے سلسلے رسائل کی الگ سے پہچان بن جاتے ہیں۔
ہم سے ملیے قلمی دوستی کا سلسلہ تھا۶۷۔ اس سے قبل ہم نے نونہال، آنکھ مچولی اور ساتھی کا جائزہ لیا۔ ان تمام رسائل میں بھی یہ سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ قارئین کی شمولیت اس سلسلے میںبھر پور انداز سے ہوتی تھی۔ بچوں کو اپنا نام، تصویر شائع کروانے کا شوق ہوتا ہے۔ اس لیے رسالے میں شامل یہ سلسلہ مقبول سلسلہ رہا۔ یہ سلسلہ آؤ بنائیں دوست کے نام سے بھی شاملِ اشاعت رہا۶۸۔
ہونہار ادیب میںنئے قلمکاروں کی تحریریں شائع کی جاتی تھیں۶۹۔ لکھنے کے شوقین بچے اس سلسلے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ آپ بھی لکھیے کے عنوان سے بھی شائع ہوتا رہا۷۰۔ اس سلسلے میں لکھنے والے بیشتر ادیب بعد میں بچوں کے بہت اچھے مصنف بنے۔ خصوصاً ماہنامہ ساتھی کے مدیران میں کثیر تعداد ان بچوں کی رہی ہے جو اپنے بچپن کے دور میں چھوٹی چھوٹی تحریریں اور خطوط کے ذریعے رسالے میں شریک ہوا کرتے تھے۔
آپ کی رائے میں قارئین رسالے سے متعلق اپنی راے کا اظہار کرتے تھے۷۱۔ وہ رسالے کے حوالے سے اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرتے۔ بچوں کی آرا پر مشتمل یہ سلسلہ کسی بھی رسالے کے لیے آکسیجن کا کام دیتے ہیں۔ آپ کا خط ملااس عنوان کے تحت بھی خطوط شائع ہوا کرتے تھے۷۲۔ رسالے میں قارئین کی طرف سے ہر قسم کی تنقید کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ ایسے خطوط کو شائع بھی کیا جاتا تھا۔
اگست ۲۰۰۰ء کے شمارے میں ’’جواد یوسف ڈار‘‘ کا تجزیہ دیکھیے:

سرورق کچھ خاص نہ تھا۔ سائنس فکشن پھیکی تھی۔ اسے تھر لنگ ہونا چاہیے۔ سلیم خان اپنی کوشش میں کامیاب رہے۔ راہنمائی بھی اچھی رہی۔ نمک جیسا پیارا باپ نہ جانے کتنی مرتبہ پڑھ چکے ہیں۔ اسی طرح حامد مشہود نے کورس میں موجود ایک کہانی کو تھوڑا سا تبدیل کر کے بخیل بکرما کی صورت دے دی۔ کرکٹ کیا اور کیسے اور بلاعنوان کو جاری رکھیں۷۳۔

اگر بچوں کو ابتدا ہی میں اختلاف راے کے حوالے سے شعور وآگاہی دی جائے تو بڑے ہوکر یقینا یہ بچے بڑے اختلافات پر بھی آپے سے باہر نہ ہوں۔ اسی طرح ایک اور تنقیدی خط ملاحظہ کیجیے جو انتہائی سخت الفاظ میں لکھا گیا اور اسی خط پر ایک اور قاری نے اگلے ماہ تبصرہ کیا۔پہلے راول پنڈی سے ’’حرا ماہین ملک‘‘ کا خط دیکھیے:

رسالے میں کسی فنکشن کا حال نہیں چھپتا نہ آپ لوگ بلا کر تقسیمِ انعامات کرتے ہیں۔ آپ کا رسالہ انہی خوبیوں کی وجہ سے نمبرون بھی نہیں آتا۔ صفحات بڑھانے کے لیے یوں تو آپ کے پاس بڑا اچھا بہانہ ہوتا ہے کہ غریب ساتھی خرید نہیں سکیں گے۔ آپ نے خاص نمبر بھی نہیں نکالا۷۴۔

تعلیم وتربیتمیں بچوں کے خطوط کے جوابات انتظامیہ کی طرف سے نہیں دیے جاتے تھے،اسی لیے اس خط کو بھی جواب کے بغیر جوں کا توں شائع کیا گیا۔ جب کہ اس کے اگلے ماہ کے شمارے میں صادق آباد سے ’’مدیحہ اصغر‘‘ نے کچھ یوں تبصرہ کیا:

اگست کے شمارے میں اپنے پیارے رسالے کے بارے میں ’حرا ماہین ملک‘ کے خیالات پڑھ کر دُکھ ہوا اور غصہ آیا۔ اگر انھیں تعلیم وتربیتاچھا نہیں لگتا تو انھیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ لازمی یہی رسالہ پڑھنا ہے۔ اگر اُنھیں یہ رسالہ پسند نہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے پیارے تعلیم وتربیت میں کیڑے نکالیں۷۵۔

رسالوں میں بچوں کی یہ چشمک چلتی رہتی ہے، مدیر کو فراخ دلانہ انداز سے بچوں کو اس کا موقع دینا چاہیے کہ وہ رسالے پر اپنی آرا کا کھل کر اظہار کریں۔ یہاں مدیر بچوں کو اختلاف راے کے آداب سے بھی آگاہ کرسکتا ہے۔ معاشرے میں موجود عدم برداشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اختلافِ راے پر اتفاق کرنے کی تعلیم نہیں دیتے۔
دلچسپ وعجیب ایک ایسا مستقل سلسلہ تھا جسے بچوں کے علاوہ بڑوں میں بھی سب سے زیادہ قبولیت حاصل تھی۷۶۔ اس سلسلے میں مختلف سائنسی سوالات کے جوابات یا پھر دلچسپ معلومات ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ کیوں؟ اور دلچسپ اور ناقابل یقین کے نام سے بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دلچسپ اور ناقابل یقین سلسلے میں ہمیں ’’عبدالستار خان طاہر‘‘ کا نام بطور مضمون نگار نظر آتا ہے۷۷ ۔ اپریل ۲۰۰۰ء کے شمارے میں اس سلسلے کے تحت درج ذیل عنوانات پر معلومات دی گئی تھیں۔

٭… عجیب وغریب گھڑی
٭… گدھا الیکشن جیت گیا
٭… وقت کا مجسمہ
٭… جبڑے ساکت ہوگئے
٭… بھکاری کی مرغی
٭… جڑواں بھائیوں میں حیران کن مماثلت

اس میں سے ایک دلچسپ معلوماتی ٹکڑا دیکھیے:

یہ ۱۹۳۸ء کی بات ہے کہ امریکا کے شہر واشنگٹن سے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک میئر نے ری پبلکن پارٹی کی طرف سے امید وار کے طور پر ایک گدھا کھڑا کیا۔ اس سے صرف وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ووٹر ووٹ دینے کے لیے اُمیدوارکی قابلیت کو نہیںدیکھتا بلکہ وہ پارٹی سے وابستگی کو دیکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گدھا ۵۱ ووٹوں سے جیت گیا۷۸ ۔

کیوں؟کے تحت شائع ہونے والے سائنسی سوالات بچوں کی دلچسپی کو اُکسانے والے ہوتے تھے۔ مثال کے طور پرستمبر ۲۰۰۰ء کے کیوں؟ میں شامل عنوانات ملاحظہ کیجیے۷۹۔

۱۔ اندھیرے میں اچھی طرح نظر کیوں نہیں آتا؟
۲۔ پرندے اپنا راستہ کیوں نہیں بھولتے؟
۳۔ قطب نما کی سوئی ہمیشہ شمال کی طرف کیوں رہتی ہے؟
۴۔ ہمیں مختلف ذائقے کیوں محسوس ہوتے ہیں؟
۵۔ مکھیاں چھت پر اُلٹی لٹکتی ہیں تو گرتی کیوں نہیں؟
۶ ۔ آنسو کیوں بہتے ہیں؟
۷۔ ہمیں نیند کیوں آتی ہے؟

’’کیوں‘‘ پر مبنی ان دل چسپ سوالات کو پڑھ کر بھلا کس بچے کا دل ان کے جوابات جاننے کا نہ کرتا ہوگا۔ بچوں کے ذہن میں آنے والے سیکڑوں سوالوں کے جوابات اس سلسلے کے تحت دے کر بچوں کے علم میں وسعت لائی گئی۔ مکھیاں چھت پر اُلٹی لٹکتی ہیں تو گرتی کیوں نہیں؟ کی تفصیل دیکھیے:

کبھی آپ نے غور کیا کہ ہماری گھریلو مکھیاں چھت پر اُلٹی کیسے چلتی ہیں اور یہ نیچے کیوں نہیں گرتیں۔ اصل میں وجہ یہ ہے کہ مکھیوں کے پائوں کے تلوے نیچے سے گدی نما ہوتے ہیں جو درمیانی حصے میں قریب قریب کھوکھلے ہوتے ہیں۔ مکھیاں چھت پر اُلٹی لٹکتی ہیں تو اس وقت ان کے پائوں کے تلووں کی درمیانی کھوکھلی جگہ کی ہوا نکل جاتی ہے اور ان کے پائوں کے تلوے ہوا سے خالی ہونے کی وجہ سے چھت سے چپک جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مکھیاں چھت پر اُلٹی لٹکی ہونے کے باوجود نیچے نہیں گرتیں۸۰۔

آپ بھی پوچھیے میں قارئین کو موقع دیا جاتا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کا سوال تعلیم وتربیت سے کر سکتے ہیں۸۱، اس طرح کے سوالات بچے خطوط والے حصے میںبھی کر سکتے تھے لیکن وہاں جواب نہ دینے کی روایت نے ہی اس نئے سلسلے میں قارئین کو سوال کرنے کا موقع پیش کیا۔ نومبر ۱۹۸۲ء میں بچے کچھ اس قسم کے سوالات پوچھتے نظرآتے ہیں ۸۲۔

سوال :ہمارے محبوب رسالے تعلیم وتربیت کانام کس نے تجویز کیا۔ (ثروت یعقوب، لاہور)
جواب:مولوی فیروزالدین مرحوم نے۔
سوال:راستے کا علم ہونے کے باوجود لوگ بھٹک کیوں جاتے ہیں؟ (افضال ندیم،حافظ آباد)
جواب: جب علم پر عمل نہ کیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
سوال: ایمان دار لوگوں کو بزدل کیوں کہا جاتا ہے؟(سید اکبر رضا،تلہ گنگ)
جواب: کون کہتا ہے ؟کہیں آپ شرافت کو تو بزدلی نہیں کہتے؟

یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے چلنے کے بعد بند کر دیا گیا۔ اس سے قبل یہ سلسلہ جوابستان۸۳ اور اپنی کہیے ہماری سنیے۸۴ کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا۔
جس طرح ’’شاہد ریاض شاہد‘‘ شرارتی لکیریں پیش کیا کرتے تھے بالکل اسی طرح اُنھوں نے کار ٹون کہانی کے نام سے بھی ایک سلسلہ لکھا، اس میں کسی مزاحیہ واقعے کو بیان کیا جاتا۔ تصویروں پر مبنی یہ سلسلہ قارئین کوخوب لُبھاتا۸۵ ۔اس سلسلے کو انگریزی میں ’’کامک‘‘ کہتے ہیں، دیگر زبانوں، خصوصاً انگریزی، عربی کے رسائل میں ہمیں کامک پر بہت زیادہ کام نظر آتا ہے۔ بچہ تصاویر پسند کرتا ہے، تصاویر کے ذریعے اُسے جو بات سمجھائی جائے اُسے زیادہ جلدی سمجھ آجاتا ہے۔ اُردو میں بھی بچوں کے لیے اس قسم کی تصویری کہانیوں کی اشاعت ہورہی ہے اور اس سلسلے کو بچے پسند بھی کررہے ہیں۔
تعلیم وتربیتمیں مارچ ۱۹۹۹ء کے شمارے میں عید قرباں کے موقع پر شاہد ریاض شاہد ملانصیر الدین کا دنبہ کا قصہ لے کر آئے تھے اور بچوں کو احوال سنا رہے تھے۔
نمونہ دیکھیے:

مارچ ۱۹۹۹ء میں شاہد ریاض شاہد کی تحریر ملانصیر الدین کا دنبہ اور اس پر بنایا گیا اُنھیں کا خاکہ دیکھیے۸۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کہ شرارتی لکیریں بھی اس سلسلے کے ساتھ ساتھ چلنے والا سلسلہ تھا۔ اس سلسلے میں ایک جملہ اور ایک دلچسپ تصویر قارئین کو محظوظ کر رہی ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر:

شاہد ریاض شاہد کی شرارتی لکیریں ۸۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قائد اعظم کلاسک کا سلسلہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کے حوالے سے باتصویر معلوماتی سلسلہ تھا ۸۸۔ اس سلسلے میں جہاں تحریک پاکستان کا احاطہ کیا تھا، وہیں قائد اعظم کی نجی زندگی کے خوشگوار پہلوئوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ رنگین خاکوں نے اس سلسلے میں خوب رنگ بھر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر قائد اعظم کی پیدائش پر ان کے والدین کے درمیان ہونے والے اس باتصویر مکالمے کو دیکھیے۸۹۔

اس طرح کے باتصویر مضامین بچوں کو تاریخ کی جانب راغب کرواتے ہیں۔چوں کہ تاریخ ایک خشک مضمون سمجھا جاتا ہے اور عموماً بچے اس سلسلے میں دلچسپی نہیں لیتے، لیکن تعلیم وتربیت نے اس کا حل یہ نکالا کہ تاریخ کو باتصویر کردیا۔ اس بنا پر تاریخی مضامین پڑھنے والوں میں اضافہ ہوا۔یہی سلسلے تعلیم وتربیت کی پہچان بنے۔
کھیلوں کی دنیا ایک منفرد مستقل سلسلہ تھا جس میں کسی بھی کھیل کو تفصیلاً بیان کیا جاتا تھا۹۰۔ اس کھیل کی تمام جزئیات سے قاری کو آگاہ کیا جاتا۔ کرکٹ کے حوالے سے بعنوان کرکٹ کیا اور کیسے کو کئی قسطوں میں بیان کیا گیا ہے۔جس میں ابتدائی دس حصے صرف ’’بالنگ‘‘ سے متعلق تھے۔ کھیلوں کے شوقین بچوں کے لیے یہ ایک اچھا سلسلہ تھا۔ اپریل ۲۰۰۰ء کے شمارے میں ’’این الطاف‘‘ اسپن بولنگ کے مختلف انداز کے بارے میں بتارہے ہیں۔

اسپن بولنگ (Spin Bowling)سے مراد گیند آہستہ پھینکتے ہوئے گھمانا ہے۔ کام یاب اسپن بولنگ کے لیے اسپن گیند کے فن کا علم اور وسیع تجربہ ہونا لازمی ہے۔ ایک اسپنر کو بہت زیادہ بولنگ اور خاصی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسپن اور فلائٹ گیندیں کرانے کی پیچیدگیاں اتنی ہیں کہ بولنگ کے اس انداز میں مہارت حاصل کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس لیے اسپنر کو ون ڈے کرکٹ میں دیگر انداز کی بولنگ میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہیں کرنی چاہییں۔ عام طور پر اسپن بولنگ دو قسموں کی ہوتی ہے۔ ایک فنگر اسپن اور دوسری ریسٹ اسپن جن کو دوسرے الفاظ میں آف اسپن اور سلو لیفٹ بولنگ بھی کہا جاسکتا ہے۹۱۔

تعلیم وتربیت نے اپنے مستقل سلسلوں پر اپنی ٹیم کے ذریعے خوب محنت کی اور یہ مستقل سلسلے تعلیم وتربیت کی پہچان بن گئے اگر چہ ہمیں تعلیم وتربیت اور قارئین میں ایک فاصلہ نظر آتا ہے اور وہ بے تکلفی نظر نہیں آتی جیسے آنکھ مچولی نے اپنے قارئین سے روا رکھی تھی لیکن اس سب کے باوجود تعلیم وتربیت کا شمار بچوں کے بہترین رسائل میں ہوتا ہے۔

انعامی سلسلے:
انعامی سلسلوں میں بھی تعلیم وتربیت پیچھے نہ رہا اور مختلف منفرد انعامی سلسلے جاری کیے گئے۔ ان سلسلوں میں قارئین بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے ۔ تعلیم وتربیت ایک بڑے ادارے ’’فیروز سنز لمیٹڈ‘‘ کے تحت شائع ہوتا تھا۔ اس لیے اس ادارے کے لیے انعامات کا انتظام کرنا زیادہ بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ تعلیم وتربیت سے بڑے بڑے نام بھی جڑے ہوئے تھے جو رسالے کو بناتے، سنوارتے اور نکھارتے تھے، جس طرح مستقل سلسلو ں میں ہمیں محنت نظر آتی ہے، اسی طرح انعامی سلسلوں میں بھی منفرد خیال گردش کرتے نظر آتے تھے۔
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے انعامی سلسلوں کے نام یہ ہیں:

٭… علمی معمّا
٭… انعامی معمّا
٭… بلا عنوان
٭… داؤدی علمی آزمائش
٭… مجرم کون؟
٭… ہونہار مصور

سب سے پہلے آپ علمی معمّا لیجیے۔ اپریل ۱۹۹۷ء میں شروع ہونے والے اس معمے میں مختلف قسم کے سوالات قارئین سے پوچھے جاتے تھے ۹۲۔ قارئین ان سوالات کے جوابات ایک صفحے پر لکھ کر دیے گئے کوپن میں اپنا نام، پتاتحریر کر کے سپرد ڈاک کردیا کرتے تھے۔ جیتنے والوں کو انعامات دیے جاتے تھے۔ جیتنے والوں کی تعداد اگر زیادہ ہوتی تو بذریعہ قرعہ اندازی انعام دینے کا اعلان کیاجاتا تھا۔ علمی معمّا میں کچھ اس قسم کے سوالات پوچھے جاتے تھے۹۳۔

۱۔ ابن بطوطہ کس مقام اور کس ملک میں پیدا ہوا تھا؟
۲۔ جاپان ایک ایرانی سپہ سالار تھا۔اس کی جان بخشی کیسے ہوئی؟
۳۔ مقامی وقت کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟
۴۔ ہندوستان کا وہ کون سا مسلمان رئیس تھا جسے حاتم ثانی کہا جاتا ہے؟
۵۔ یہ شعر کس کا ہے؟

کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

اس قسم کے معمے بچوں کی معلومات میں خوب اضافہ کرتے تھے اور وہیں یہ بچے ان مقابلوں میں حصہ لے کر انعام بھی حاصل کرتے تھے۔ بچپن کی ان سرگرمیوں کو… بچہ بڑے ہو کر چاہے جتنا بڑا مرتبہ پالے، وہ نہیں بھول سکتا۔ اسی طرح انسان کے بڑے مرتبے کے پیچھے یقینا ایسی ہی سرگرمیوں کا ہاتھ ہوتا ہے، جہاں وہ اپنے دماغ کا استعمال کر کے دنیامیں نام پیدا کرتا ہے۔
انعامی معمّا کا بھی آغاز اپریل ۱۹۷۸ء میں کیا گیا تھا ۹۴۔ اس معمے میں ایک چوکور خانہ دیا جاتا تھا جس میں مزید چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں اُردو کے حروف لکھے ہوتے تھے۔ قارئین سے دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے چند سوالات پوچھے جاتے تھے۔ اس سلسلے کا بھی باقاعدہ کوپن ادارے کو بھیجنا ہوتا تھا۔ اس معمے میں دماغی ورزش ہوتی تھی۔ قاری کو اپنا دماغ استعمال کرنا پڑنا تھا۔ اس قسم کی مشقیں بچوں کے لیے بہت ضروری ہیں اور یہ ضرورت وقت کے لحاظ سے بڑھتی جارہی ہے۔
بلاعنوان، تعلیم وتربیت کا طویل عرصے سے چلنے والاایک ایسا انعامی سلسلہ ہے جو آج بھی شائع ہورہا ہے۹۵۔ اس سلسلے میں ایک خاکہ قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اس خاکے پر بہترین جملہ چست کرنے پر پانچ یا چھے بچوں کو انعامات دیے جاتے تھے۔ یہ خاکے عموماً فکاہیہ اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتے تھے۔ تاکہ قاری بچہ آسانی سے جملہ چست کر سکے۔
ستمبر ۲۰۰۰ء کا بلاعنوان دیکھیے جس میں ایک بچہ چابی سے چلنے والے چوہے کو شیر کے پنجرے میں چھوڑرہا ہے جب کہ شیر ایک کونے میں دبکا پڑا خوف ذدہ نظروں سے چو ہے کو دیکھ رہا ہے۹۶۔

داؤدی علمی آزمائش یعنی دماغ لڑاؤ سلسلے میں مختلف سوالات قارئین سے پوچھے جاتے تھے۹۷۔ ان سوالات کی تعداد دس (۱۰) ہوا کرتی تھی۔ جیتنے والے قارئین کو کتابیں انعامات میں دی جاتی تھیں۔ اس سلسلے کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں اُسی شمارے میں موجود تحریروں سے سوالات اخذ کیے جاتے تھے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا تھا کہ مقابلے میں حصہ لینے کے خواہش مند بچے بڑے غور سے رسالہ پڑھتے۔ اس سلسلے کے ساتھ بھی کوپن قارئین کو بھر کر بھیجنا ہوتا تھا۔ مارچ ۱۹۹۷ء میں شائع شدہ داؤدی علمی آزمائشمیں شامل چند سوالات کچھ یو ںتھے۔

۱۔ سردار نشتر___________کو پشاور کے ایک پڑھے لکھے اور دین دار گھرانے میں پیداہوئے۔
۲۔ اس رومال میں ایک ___________ہے۔
۳۔ جائو ان سے کہو کہ میری ماںکا نامـ___________ہے۔
۴۔ بہترین مشغلہ بچوں کی___________ہے۔
۵۔ ایسے ایسے لوگ کوٹھیوں اور بنگلوں کے مالک بن گئے جنھیں___________چلانا اور بند کرنا نہ آتا تھا۹۸۔

مجرم کون؟ایک منفرد انعامی سلسلہ تھا۹۹۔ ذہنی مشق کے ان سلسلوں نے بلاشبہ تعلیم وتربیت کو دیگر رسائل سے ممتاز کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک باتصویر واقعہ بیان کیا جاتا، جس میں اصل مجرم تک کھوج لگانے کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ جو قارئین اصل مجرم کو پکڑنے کی صحیح وجہ بتا دیتے تو ان بچوں کو انعام دیا جاتا تھا۔ یہ ایک انوکھا خیال تھا۔ جاسوسی طبیعت کے حامل بچے اس طرح کے سلسلوں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں، جب کہ بچپن والے دور میں بچے خوب چاق چو بند ہوتے ہیں، اس لیے تقریباً ہر دوسرا بچہ اس قسم کے سلسلوں میں دلچسپی لیتا نظر آتا ہے۔ نومبر ۲۰۰۰ء میں مجرم کون؟ کے اس سلسلے میں ایک سوال پوچھا گیا، جب کہ سوال کے ساتھ ایک خاکہ بھی دیا گیا ہے، تاکہ پڑھنے والا قاری مزید بہتر انداز سے منظر کو سمجھ سکے ۔
سوال یہ تھا:
ایک ملازم نے روپوں کے لالچ میں اپنے سیٹھ کو قتل کردیا۔ قتل سے پہلے دونوں کے درمیان دھینگا مشتی کے دوران میں شیلف کے اوپر لگا ہوا آئینہ ٹوٹ گیا۔ وہاں شیلف پر ایک پیتل کا بھاری گل دان بھی پڑا تھا جس میں پلاسٹک کے پھول لگے ہوئے تھے۔ مجرم نے سیٹھ کے قتل کے بعد تمام ثبوت مٹا کر پولیس کو اطلاع کردی کہ کسی نے سیٹھ کا قتل کردیا ہے۔ انسپکٹر زاہد جب تفتیش کے لیے آئے تو ان کی نظر گل دان پر پڑی اور اُنھوں نے اس کے بارے میں مجرم سے پوچھ گچھ کی۔ آخر گل دان کو آلہ قتل قرار دے کر انسپکٹر نے سیٹھ کے ملازم کو گرفتار کرلیا۔بتائیے کہ انسپکٹر زاہد نے گل دان سے مجرم کا کھوج کس طرح لگایا؟۱۰۰

اگلے ماہ انعام یا فتگان کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی شائع کیا گیا تھا۔ اس گتھی کو قارئین نے کچھ ایسے سلجھایا تھا۔

نوکر نے قتل کے تمام ثبوت مٹادیے لیکن جو گل دان اس نے آلہ قتل کے طور پر استعمال کیا تھا، وہ گل دان بے خیالی میں آئینے کے ٹوٹے ہوئے ان ٹکڑوں پر رکھ دیا جو قتل سے پہلے نوکر اور سیٹھ کی دھینگا مشتی کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ جب انسپکٹر زاہد نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا تو اس نے سوچا کہ شیشے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے خود بخود پیتل کے بھاری گل دان کے نیچے تو نہیں آسکتے۔
یقینا اس گل دان سے سیٹھ کو قتل کرنے کے بعد اسے دوبارہ اس جگہ پر رکھا گیا ہے۔یوں انسپکٹر زاہد نے گل دان کو آلہ قتل قرار دے کر سیٹھ کے ملازم کو مجرم قرار دے دیا۱۰۱۔

ہونہار مصور میں قارئین کو دو ماہ قبل موضوع بتایا جاتا ہے ۱۰۲۔ اس موضوع کے مطابق بچے تصاویر بنا کر بھیجتے ہیں۔ ۵ پانچ بہترین مصوریوں پر ادارے کی جانب سے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ موضوعاتی مصوریوں کے اس سلسلے میں یقینا مستقبل کے بڑے نام بھی شامل ہوں گے۔ ستمبر ۲۰۰۰ء میں ستمبر کا موضوع یوم دفاع رکھا گیا جبکہ اکتوبر کے مہینے میں برسات کے نظارے اور نومبر میں آتش زدگی کے مناظر پر مصوریاں بنانے کے مقابلے کا اعلان کیا گیا۱۰۳۔ خاکہ بنانا تخلیق کا ایک ایسا فن ہے جو بچے کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ اس کے سوچنے، سمجھنے کے زاویوں میں وسعت اور تنوع پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کسی تصویر سے مصور کے خیالات، جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ کسی بھی بچے کی ذہنی پرواز کو بلندیوں پر لے جا نا ہو تو اس بچے سے کہانی یا مصوری کروانی چاہیے تاکہ اس کے خیالات میں بلندی اور ندرت پیدا ہو۔

حصہ نثر:
تعلیم وتربیتکو ابتدا ہی میں اچھے مدیر ان اور معاونین میسر تھے جنھوں نے رسالے کے ادارتی اُمور کو بڑی تند ہی سے سر اَنجام دیا۔ تعلیم وتربیت کے مختلف مستقل وانعامی سلسلوں کے علاوہ کہانیوں اور مضامین میں بھی مدیران کا اچھا حصہ شامل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ تعلیم وتربیت نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً ہزاروںکہانیاں اپنے قارئین کو دی ہیں اور اُردو ادب میں ہونے والا یہ اضافہ اردو کو بحیثیت زبان مضبوط بنیادیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ بچوں کے سیکھنے کی نرسریاں ہیں۔ یہاں زبان وبیان کے بڑے بڑے نقاد آکر بچوں کی زبان میں سہل گفتگو کرتے ہیں۔ اُن کی زبان بچوں کے ادب کو نکھارتی ہے اور بچوں کی زبان کو ستھرا رکھتی ہے۔ تعلیم وتربیت کے ہر شمارے میں ہمیں اچھی اچھی کہانیاں اور مضامین نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم ان کہانیوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ جنھوں نے بچوں کے ادب میںاپنے گہرے نقوش چھوڑے۔

تعلیم وتربیت ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران شائع ہونے والی چند کہانیوں کی فہرست۱۰۴

شمار ۔ نام کہانی ۔ مصنف ۔ ماہ وسال
۱ ۔ منشی منقّٰی نے شیر مارا ۔ سعید لخت ۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء
۲ ۔ سکوٹر سے بھوت تک ۔ اشتیاق احمد ۔ اپریل ۱۹۷۷ء
۳ ۔ سونے کا ہار ۔ اشتیاق احمد ۔ جولائی ۱۹۷۷ء
۴ ۔ رنگ دار بطخ ۔ مرزاادیب ۔ ستمبر۱۹۷۷ء
۵ ۔ مجرم ۔ مقبول انور دائودی ۔ نومبر ۱۹۸۱ء
۶ ۔ روم کا سودا گر ۔ محمد یونس حسرت ۔ نومبر ۱۹۸۱ء
۷ ۔ تین ڈاکو ۔ رانا دائود علی خان ۔ جون ۱۹۸۲ء
۸ ۔ پاپا جان کی سیڑھی ۔ حمیرا خانم ۔ جولائی ۱۹۸۱ء
۹ ۔ ڈاک بنگلہ ۔ محمد یونس حسرت ۔ اپریل ۱۹۸۱ء
۱۰ ۔ اماں بی ۔ یوسف سراج ۔ دسمبر ۱۹۸۳ء
۱۱ ۔ امی کھو گئیں ۔ عفرا ء رضوی ۔ دسمبر۱۹۸۳ء
۱۲ ۔ برباد محل کا تہ خانہ ۔ نعیم ہارون ۔ دسمبر۱۹۸۳ء
۱۳ ۔ بونے میاں کا پاجامہ ۔ محمد یونس حسرت ۔ اگست ۱۹۸۶ء
۱۴ ۔ بڑاآدمی ۔ علی ناصر رضوی ۔ ستمبر۱۹۸۲ء
۱۵ ۔ سانپ ۔ راناناصررضوی ۔ ستمبر۱۹۸۲ء
۱۶ ۔ شرارت ۔ کوکب کاظمی ۔ ستمبر ۱۹۸۴ء
۱۷ ۔ ہائی جیکر ۔ سلیم خان گمی ۔ ستمبر۱۹۸۴ء
۱۸ ۔ سند باد جہازی اور سمندر کا بھتنا ۔ ابو تمیم ۔ مئی ۱۹۸۸ء
۱۹ ۔ گلہری کی آزادی ۔ ابرار محسن ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۲۰ ۔ سنہری انگوٹھی ۔ محمد اقبال ثاقب ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۲۱ ۔ بے بی کا جوتا ۔ سعید لخت ۔ جون ۱۹۹۴ء
۲۲ ۔ پشیمانی ۔ حنا خیری ۔ جون ۱۹۹۴ء
۲۳ ۔ بالکل سچی ۔ نجمہ معراج ۔ مارچ ۱۹۹۷ء
۲۴ ۔ منصف موت تھی ۔ سلیم خان گمی ۔ مارچ ۱۹۹۷ء
۲۵ ۔ پُر اسرار ڈاکٹر ۔ حسن ذکی کاظمی ۔ اپریل ۲۰۰۰ء
۲۶ ۔ ایک قیدی کی آپ بیتی ۔ معراج محمد جبریل ۔ اپریل ۲۰۰۰ء
۲۷ ۔ لاش کی چوری ۔ ذی شان ہاشمی ۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۲۸ ۔ وہ کون تھا؟ ۔ حسن ذکی کاظمی ۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۲۹ ۔ کمال کے پائے ۔ محمد ادریس قریشی ۔ مارچ ۱۹۹۹ء
۳۰ ۔ دوسری انگوٹھی ۔ نجمہ معراج ۔ نومبر ۱۹۹۷ء

تعلیم وتربیت میںچند بڑے ادیبوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ لکھا۔ کچھ بڑے نام تعلیم وتربیتسے وابستہ بھی تھے، اس لیے ان کے لیے تو لکھنا لازم وملزوم ٹھہرا، لیکن ان بڑے قلم کاروں نے صرف صفحات بھرنے کے لیے نہیں نکلا بلکہ ان کی لکھی ہر کہانی ، مضمون کو قارئین کی طرف سے ہر ماہ سندِ پسندیدگی ملتی تھی۔ انھیں تحریروں نے تعلیم وتربیت کے معیار کو دیگر رسائل کے مقابلے میں اچھا رکھا تھا۔
سعید لخت ان لکھاریوں میں اہم نام تھے۔ حافظ جی جیسی کہانیاں ان کی پہچان تھیں۔ جب وہ مزاح لکھنے پر آتے تو بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ وہیں ان کے معلوماتی مضامین انتہائی آسان انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیے جاتے۔
اکتوبر۱۹۷۴ء کیتعلیم وتربیتمیں شائع ہونے والی کہانی منشی منقّٰی نے شیر مارا نے بہت شہرت حاصل کی۱۰۵۔ اگرچہ اس وقت تعلیم وتربیت رنگین شائع نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی تعلیم وتربیتکے خاکے معیاری ہوتے تھے لیکن اس کہانی کے کردار ’’منشی منقّٰی‘‘ نے شہرت حاصل کی۔
دھان پان سے منشی منقّٰی کے شیر مارنے کی ڈرامائی تفصیلات اس تحریر میں کچھ اس انداز سے بتائی گئی ہے کہ ہر سطر پڑھتے ہوئے بچہ زیرِ لب مسکراتا ہے اور چھتری کھلنے پر شیر کی بدحواسی کا سوچ کر ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔
اس تحریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے جو کہانی میں نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔

شیر چند سیکنڈ بکرے کو دیکھتا رہا۔ پھر بڑے مزے سے جمائیاں لیتا ہوا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر منشی منقّٰی بیٹھے تھے۔ ابھی وہ درخت سے چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دھم کی آواز آئی۔ منشی منقّٰی درخت سے لڑھک کر زمین پر گر پڑے تھے۔
میں اس وقت کا منظر بیان نہیں کرسکتا۔ شیر غصے سے دُم ہلارہا تھا اور اس سے دس بارہ گز کے فاصلے پر منشی منقّٰی چھتری ہاتھ میں لیے مٹک مٹک کر اسے دھمکا رہے تھے۔’’دھت دھت۔ ابے دھت!‘‘ اُنھوں نے چھتری شیر کی طرف اس طرح تان رکھی تھی جیسے وہ کوئی بندوق ہو۔
منشی جی کبھی دایاں پیر زمین پر مارتے اور کبھی بایاں۔ کبھی کولھے مٹکاتے تو کبھی گردن۔ اس دوران میں ان کی چھتری کا رُخ شیر کی طرف رہا اور وہ منھ سے ’’دھت دھت‘‘ کی آوازیں بھی نکالتے رہے۔
شیر پندرہ بیس سیکنڈ خاموش کھڑا دُم ہلاتا رہا۔ وہ شاید یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ منشی منقّٰی کون سا رقص کررہے ہیں؟ بھنگڑا، لُڈّی یا خٹک؟ منشی جی اسی طرح دھت دھت کرتے اور پینترے بدلتے بکرے کے پاس پہنچ گئے۔ بکرے کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ اس نے گردن جھکا کر ٹکر جو ماری تو منشی جی پانچ فٹ اُوپر اچھل پڑے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کمر بند ٹوٹ گیا۔ اب وہ ایک ہاتھ سے پاجامہ پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھتری۔ ساتھ ہی ’’دھت دھت ابے دھت‘‘ کیے جارہے تھے ۔ اگر چچا جان میری کوکھ میں کہنی نہ مارتے تو میری ہنسی نکل گئی ہوتی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیر اب منشی منقّٰی کے ناچ سے اُکتا گیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تو کھڑا دُم ہلاتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس کے منھ سے غوں غاں کی آواز بھی نکلی۔ پھر اُس نے اگلے پنجوں سے مٹی کریدی، پچھلی ٹانگیں سمیٹیں اور ایک خوف ناک چیخ مار کر منشی منقّٰی پر چھلانگ لگادی۔ منشی جی بھی غافل نہیں تھے۔ شیر ابھی آدھے ہی راستے میں تھا کہ اُنھوں نے کھٹاک سے چھتری کھولی اور اس کا رُخ شیر کی طرف کردیا۔
شیر نے ایسا خوف ناک ہتھیار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چھتری کے اچانک کھلنے اور اس کے کالے کپڑے سے وہ ایسا بوکھلایا کہ راستے ہی میں اُلٹی قلابازی لگائی اور دل ہلادینے والی چیخیں مارتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ اس کی پہلی دہاڑ ایک فرلانگ کے فاصلے پر سنائی دی، پھر دو فرلانگ پر اسی طرح دور ہوتے ہوتے بالکل غائب ہوگئی۱۰۶۔

اس کہانی کو پڑھ کر بچے تو اپنی جگہ ، بڑے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ اس طرح کی کہانیوں کا موازنہ ہم مغرب میں لکھی گئی کہانیوں سے کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسی تمام شاہکار کہانیوں کے دیگر زبانوں میں تراجم کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُردو زبان میں بچوں کے لیے لامحالہ سیکڑوں شاہکار کہانیاں لکھی گئی ہیں، ان تحریروں کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی نہ ہونے کی وجہ ان کہانیوں کا ترجمہ نہ ہونا ہے۔ اس وقت انگریزی زبان کو بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن اس زبان میں ہمیں اُردو میں بچوں کا بہترین ادب منتقل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ بڑے اداروں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ادارہ ساتھی نے ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی اپنی ’’بیس بہترین کہانیوں‘‘ کو انگریزی زبان میں منتقل کرکے اسے کتابی صورت میں The Tale Of Nosesکے نام سے شائع کیا۱۰۷۔یہ پہلی کاوش اس سلسلے میں نظر آتی ہے، اس طرح کے تجربات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والی محمد یونس حسرت کی تحریر روم کا سودا گر بچوں کو مدتوں یادر ہتی ہیں۔ یہ عمر بن یحییٰ نامی نوجوان کی ایک کہانی ہے جو روم سے آنے والے سوداگر کا انتظار کرتا ہے، سوداگر تو نہیں آیا لیکن اس کے ایک ہزار دینار نوجوان کو دریا میں تیرتے ہوئے مل جاتے ہیں۱۰۸۔
ایمان داری جیسے جذبے پر مشتمل ایسی کہانیاں بچوں میں نیک صفات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
پُر اسرار ڈاکٹر ’’حسن ذکی کاظمی‘‘ کی تحریر ہے۱۰۹۔حسن ذکی کاظمی تعلیم وتربیت کے علاوہ ہمدرد نونہال میں لکھا کرتے تھے۔ حسن ذکی کاظمی کا پسندیدہ موضوع سائنس فکشن تھا۔ اُنھوں نے اس موضوع پر سیکڑوں کہانیاں تحریر کیں۔پُر اسرار ڈاکٹرمیں ہمیں طوالت نظر آتی ہے، جو کہ بچوں کی کہانیوں میں نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کہانی میں بدلتی ہوئی ڈرامائی تبدیلیاں قدم قدم پر قاری کو چونکادیتی ہیں۔ ایک بن مانس کا ڈاکٹر بن کر تحقیق کرنا خود ہی اتنی اچھنبے کی بات ہے کہ قاری اس انکشاف پر اُچھل پڑتا ہے۔ حسن ذکی کاظمی نے بلاشہ بچوں کے ادب میں اپنی سائنس فکشن کہانیوں کی بدولت اچھا اضافہ کیا۔
سند باد جہازی اور سمندر کا بھتناابو تمیم کی تحریر کردہ کہانی کو بچوں نے بہت پسند کیا۱۱۰۔ اس قسم کی کہانیاں تقریباً ہمیں بچوں کے تمام رسائل میں نظر آتی ہیں لیکن تعلیم وتربیت نے رنگین اور خوب صورت خاکوں کے ذریعے ان کہانیوں کو ندرت بخشی۔ سند باد جہازی اور سمندر کا بھتنا کا ایک اقتباس دیکھیے کہ کہانی کیسے قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔

دو مہینے کے بعد ہم نے ایک ایسا جزیرہ دیکھا جہاں آدمی تو آدمی، پرندہ تک نہ تھا۔ ہاں پھلوں کے درخت بہت تھے۔ ہم یہاں رُکے تو ہمیں ایک بڑا سا سفید گنبد نظر آیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کسی ’’اُڑن پہاڑی‘‘ کا انڈا ہے؟میں ڈر کے مارے جہاز سے نہیں اُترا مگر دوسرے مسافر اور ملاح سیر کرنے چلے گئے۔ ان لوگوں نے انڈے پر پتھر مارنے شروع کردیے۔ انڈا ٹوٹ گیا۔ اس کے اندر درخت کے برابر ایک بچہ تھا۔ وہ لوگ بھاگ جہاز پر آگئے اور مجھے بتایا۔ میرا رنگ زرد پڑگیا۔
میں نے کہا:’’ ارے بے وقوفو! یہ کیا مصیبت مول لی تم نے؟ وہ تو اُڑن پہاڑی کا انڈا تھا۔ اب شام قریب ہے اس بچے کے ماں باپ آتے ہوں گے، اگر ان کو معلوم ہوگیا کہ تم نے اس کے انڈے کو توڑا ہے تو تمھاری خیر نہیں۔‘‘۱۱۱

سند باد کی کہانیاں ایک سیریز کی صورت میں تھیں، یہ بچوں کی محبوب سیریز رہی ہے، آج بھی بچے سند باد کی کہانیوں کو ذوق وشوق سے پڑھتے ہیں۔اس موضوع پر کئی کارٹون فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
لاش کی چوری، وہ کون تھا؟ اور ہائی جیکر جیسی کہانیوں کے عنوانات ہی کو دیکھ لیجیے کہ ان کے عنوان کتنے دل چسپ ہیں۔یہ عنوانات ہی بچوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے تھے۔
تعلیم وتربیت کے تقریباً ہر شمارے میں ہمیں اچھی اچھی کہانیاں ملتی ہیں۔ کچھ شمارے تو ایسے بھی ہیں کہ جس میں شاید ہی کوئی تحریر بوریت پیدا کرتی ہو۔ کہانیوں کے اسی اچھے معیار اور تنوع نے تعلیم وتربیت کو بچوں کا محبوب رسالہ بنایا تھا۔تعلیم وتربیتکی ان کہانیوں کو فیروز سنز نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۱۱۲ ۔
بچوں کے لیے فیروز سنز کی یہ کتابیں اتنی زیادہ مقبول رہی ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ اس بات کا دعویٰ کرسکے کہ اُس نے فیروز سنز سے زیادہ تعداد میں اور مقبول کتابیں شائع کی ہیں۔

مضامین:
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے مضامین میں ہمیں مئی ۱۹۸۸ء کے بعد بہتری نظر آتی ہے، مئی ۱۹۸۸ء کے بعد نا صرف مضامین کی تعداد میں اضافہ ہوا، وہیں رسالے میں رنگین صفحات کی شمولیت سے تصویروں میں خوب صورتی نظر آتی ہے۔ رنگین تصاویر سے سجے سعید لخت اور کوکب کاظمی کے مضامین اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
تعلیم وتربیت کے پیچھے چوں کہ طباعت واشاعت کا ایک بڑا ادارہ موجود ہے جو رسالے میں شائع ہونے والے مضامین کو کتابی صورت میں بھی شائع کرتا ہے۔اس لیے یہاں مضامین یا کہانیوں پر ہونے والی محنت ایک مہینے تک محدود نہیں رہتی تھی، بلکہ یہ کتابی صورت میں شائع ہوکر برسوں قارئین کو محظوظ کرتی تھیں۔
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے مضامین زیادہ تر مدیران یا ان کے معاونین تحریر کیا کرتے تھے۔
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے مضامین کی فہرست دیکھیے کہ گویا متنوع موضوعات پر منفرد مضامین کا گلدستہ سجایا گیا ہے۔

تعلیم وتربیت ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران شائع ہونے والی چند مضامین کی فہرست۱۱۳

شمار ۔ مضامین کی فہرست ۔ مضمون نگار ۔ ماہ وسال
۱ ۔ مہارت ۔ عفت گل اعزاز ۔ نومبر ۱۹۹۷ء
۲ ۔ تعلیم وتربیت کیسے چھپتا ہے ۔ محمد اعظم شاد ۔ اپریل ۱۹۷۷ء
۳ ۔ سمندر کی کہانی ۔ مسعود اقبال ۔ جولائی ۱۹۷۸ء
۴ ۔ کھیل کا میدان ۔ محمد امتیاز شاید ۔ نومبر ۱۹۸۱ء
۵ ۔ عربی سیکھیے ۔ نعیم سرور باجوہ ۔ جولائی۱۹۸۱ء
۶ ۔ اللہ کے سپاہی ۔ مقبول انور دائودی ۔ جون ۱۹۸۲ء
۷ ۔ قلعے کی کہانی ۔ محمد یونس حسرت ۔ دسمبر ۱۹۸۳ء
۸ ۔ عیدالاضحی ۔ ادارہ ۔ ستمبر ۱۹۸۴ء
۹ ۔ لائبریری کے فائدے ۔ شیناز بٹ ۔ ستمبر ۱۹۸۴ء
۱۰ ۔ محمد بن قاسم ۔ ڈاکٹر عبدالرئوف ۔ مئی ۱۹۸۸ء
۱۱ ۔ لاہور ۔ کوکب کاظمی ۔ مئی ۱۹۸۸ء
۱۲ ۔ ٹیلی وژن ۔ سعید لخت ۔ مئی ۱۹۸۸ء
۱۳ ۔ چھاپہ خانہ ۔ ادارہ ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۱۴ ۔ معصوم اُونٹنی کا قتل ۔ ڈاکٹر عبدالرئوف ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۱۵ ۔ مری ۔ خدیجہ طلعت ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۱۶ ۔ ایک دیوانہ ۔ ڈاکٹر رضوان ثاقب ۔ مارچ ۱۹۹۷ء
۱۷ ۔ روشن نام ۔ سید نظر زیدی ۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۱۸ ۔ چٹانیں اور معدنیات ۔ ڈاکٹر رضوان ثاقب ۔ نومبر ۱۹۸۸ء
۱۹ ۔ سب سے کم عمر چیمپئن ۔ حسان عارف ۔ نومبر ۱۹۹۷ء
۲۰ ۔ دھماکا ۔ شہناز خان ۔ مئی ۱۹۹۹ء

بچے اپنے بچپن میں بہت ساری چیزوں کے متعلق نہیں جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے کوئی بھی معلومات۔۔۔ حیرت اور اچھنبے کا باعث ہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے بچے عموماً بہت زیادہ سوالات کرتے رہتے ہیں، سوالات کرنا ان کے سیکھنے کی خواہش کو ظاہر کررہا ہوتا ہے۔ ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے رسائل مضامین شائع کرتے ہیں۔ یہ معلومات رنگین تصاویر کی صورت میں بچوں کے لیے زیادہ پرکشش ہوجاتی ہے۔ بچے نت نئی چیزیں جاننا چاہتے ہیں اور مضامین میں مضمون نگار اُنھیں نئی جہانوں کی سیر کرواتا ہے۔ اُن کی انگلی پکڑ کر نگر نگر کی سیر کراتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ چیز بھی حیرت کا باعث بنتی ہے کہ جو رسالہ وہ پڑھ رہے ہیں، وہ کیسے تیار ہوتا ہے؟ کیسے چھپتا ہے؟اور کیسے اُن تک پہنچتا ہے؟
اس لیے جب ’’محمد اعظم شاد‘‘ کا مضمون تعلیم وتربیت کیسے چھپتا ہے پڑھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں، معلومات میں اضافہ کرتے ہیں اور جو چیز حیرت واستعجاب کا باعث بنتی ہے، وہی چیز معمول کی چیز بن جاتی ہے۔ تحیُّر سے حقیقت تک کا سفر طے ہوتا ہے۱۱۴۔
ٹیلی وژن ایک عام سی چیز بن گئی ہے، لیکن ۱۹۸۸ء میں یہ ٹیلی وژن ایک انوکھی چیز تھی۔ جسے صرف بچے ہی کیا، بڑے بھی حیرت سے دیکھا کرتے تھے کہ اس ڈبے میں متحرک تصاویر کیسے نظر آرہی ہیں ۔ ریڈیو چوں کہ اس سے قبل آچکا تھا اور وہ ایک پرانی چیز ہوگئی تھی اس لیے آواز کا آنا تو اتنی بڑی بات نہیں تھی۔
ٹیلی وژن کے متعلق جاننے کا شوق یقینابچوں کے تجسس کے ذوق کو بڑھاوا دے رہا ہوگا۔اس لیے ہمیں اس موضوع پر سعید لخت کا مضمون نظر آتا ہے، وہ لکھتے ہیں:

یہ عجیب اور مفید آلہ سکاٹ لینڈ کے ایک شخص ’جان لوگی بیئرڈ‘ نے آج سے تقریباً ۶۰ سال پہلے ایجاد کیا تھا[واضح رہے کہ یہ مضمون مئی ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا تھا]۔ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں زیادہ ٹھنڈ نہ ہو۔ چناںچہ وہ سکاٹ لینڈ سے انگلینڈ آگیا اور ایک ساحلی شہر ہیٹنگز میں رہنے لگا۔ اسے فوٹو گرافی اور ٹیلی فون کا بہت شوق تھا اور ان پر طرح طرح کا تجربے کرتا رہتا تھا۔
ایک دن بیئرڈ سمندر کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ اس کے کانوں میں گانے کی آواز آئی۔ اُس نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا تو پتا چلا کے پاس ہی ایک ہوٹل میں ریڈیو بج رہا ہے۔ اُس نے سوچا کہ ہوا کی لہروں پر آواز کتنی دُور چلی جاتی ہے! کیا اِن لہروں پر تصویر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتی؟
اُس نے ایک صندوق، کپڑا سینے کی چند سُوئیاں، بسکٹوں کے خالی ڈبے، سائیکل کے لیمپ کا شیشہ، کچھ بیٹریاں، بجلی کی تار اور بہت سا موم اِکھٹا کیا۔ اس کے بعد بجلی سے چلنے والی ایک موٹر خریدی اور اِس سامان کو لے کر ایک کمرے میں بند ہوگیا۔
ایک عرصے تک وہ دن رات، اسی کمر ے میں بند تجربے کرتا رہا۔ اس نے دوسرے کمرے میں ایک پردہ لگا رکھا تھا، وہ اس پردے پر تصویر لانا چاہتا تھا۔ آخر کار پردے پر تصویر آگئی لیکن وہ کچھ زیادہ صاف نہ تھی۔ اس پر بیئرڈ نے زیادہ روشنی استعمال کر نے کی سوچی اور اس نے ایک ہزار بیٹریاں خرید لیں لیکن اسی دوران میں اسے مالک مکان نے نکال دیا اور وہ ہیٹنگز سے بددل ہو کر لندن آگیا۔ یہاں اس نے بڑا سا مکان کرائے پر لیا۔ ایک کمرے میں اس نے سٹوڈیو بنایا اور دوسرے کمرے میں ٹی وی سیٹ رکھا، جو بہت بے ڈھنگا اور بھدّا تھا۔ اس کے آگے پردہ لگا ہوا تھا جب اُس نے سٹوڈیو میں ٹی وی مشین کے آگے گڑیا رکھ کر مشین چلائی تو گڑیا کا عکس دوسرے کمرے میں لگے پردے پر آگیا۔ یہ عکس بہت صاف اور واضح تھا۔ بیئرڈ خوشی سے ناچ اُٹھا۔ اب اُس نے ایک لڑکے کو مشین کے سامنے کھڑا کیا اور اُس پر تیز روشنی ڈالی۔ لڑکے کی تصویر بھی پردے پر آگئی! یہ ۱۹۲۶ء کی بات ہے۱۱۵۔

ٹیلی وژن کی کہانی سعید لخت نے کتنے دل چسپ انداز سے سنائی کہ اسے پڑھتے ہوئے بچے کی توجہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتی۔تعلیم وتربیت نے سیکڑوں موضوعات پر کئی مضامین شائع کیے۔ان میں کئی مضامین کو کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔
تعلیم وتربیتنے سفرنامے بھی شائع کیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خالد بزمی کا سفرنامہ لاہور سے کاغان تک ستمبر ۱۹۷۷ء کے شمارے میں شائع ہوا۱۱۶۔ جب کہ مسعود احمد برکاتی کا سفرنامہ دو ملک دو مسافر نومبر ۱۹۸۲ء کو نونہال میں شائع ہوا۔
اس طرح تاریخی اعتبار سے خالد بزمی کا سفرنامہ پہلے شائع ہوا، یہ سفرنامہ بچوں کے لیے لکھا گیا تھا جو تعلیم وتربیتمیں شائع ہوا تھا۔اس کے بعد اپریل ۱۹۸۱ء میں احمد خلدون کا سفرنامہ قدم قدم آباد بھی تعلیم وتربیتمیں شائع ہوا۱۱۷۔ یہ سفرنامہ بھی دو ملک دو مسافرسے پہلے شائع ہوا۔یہ دونوں سفرنامے مقامی سیاحتی مقامات کی سیر سے متعلق تھے۔ اگر اسے تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پہلا سفرنامہ خالد بزمی کا لاہور سے کاغان تکتک کو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس طرح بچوں کے لیے لکھے گئے پہلے سفرنامے کا اعزاز’’ مسعود احمد برکاتی‘‘ کے پاس نہیں رہے گا۔
اس سلسلے میں مزید تحقیق بھی مطلوب ہے کہ بچوں کے لیے شائع ہونے والے تمام رسائل کا جائزہ لیا جائے، ہوسکتا ہے کہ اس سے قبل بھی بچوں کے لیے کوئی سفرنامہ لکھا گیا ہو۔ جب کہ بچوں کے دستیاب رسائل اور تحقیق کے مطابق ’’خالد بزمی‘‘ بچوں کے پہلے سفرنامہ نگار بن گئے ہیں۔

حصہ نظم:
تعلیم وتربیت کے مدیران نے اپنے رسالے کے تمام شعبہ جات کا معیار برقرار رکھا تھا۔ جس طرح کہانیوں اور مضامین میں ہمیں تعلیم وتربیت کا ایک خاص انداز اور معیار نظر آتا ہے، اسی طرح حصہ نظم میں بھی اچھی نظموں کی اشاعت مدیرانِ تعلیم وتربیت کے ذوق اور تجربے کا پتا دیتے ہیں۔ بچوں کے مزاج کے مطابق ایسی نظم لکھناکہ بچہ اس سے لُطف اندوز ہوسکے، اتنا آسان نہیں، لیکن تعلیم وتربیت کے شعرا نے اس میدان میں مایوس نہیں کیا۔
تعلیم وتربیتکے مستقل شعرا میں عابد نظامی، رفیق احمد خان، راز کشمیری، خالد بزمی،حفیظ الرحمن احسن،ضیاء الحسن ضیا،تاج الدین طیش،فیض لدھیانوی،ذکیہ بلگرامی اور سمیع اکبر آبادی کے نام نمایاں ہیں۱۱۸۔
تعلیم وتربیت نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک سیکڑوں نظمیں شائع کی ہیں۔ ہر ماہ چار، پانچ نظموں کی اہتمام کے ساتھ اشاعت یقینی ہوتی تھی۔ ذیل میں چند نظموں کی فہرست ملاحظہ کیجیے۔ دستیاب رسائل میں سے ان نظموں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

تعلیم وتربیت میں ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران شائع ہونے والی چند نظموںکی فہرست۱۱۹
شمار ۔ نظم ۔ شاعر ۔ ماہ وسال
۱ ۔ بہنوں کی لڑائی ۔ عابد نظامی ۔ اپریل۱۹۷۷ء
۲ ۔ مسٹر پیٹو ۔ رفیق احمد خان ۔ اپریل ۱۹۷۷ء
۳ ۔ ننھی روزی ۔ نزہت منزہ ہاشمی ۔ جولائی ۱۹۷۸ء
۴ ۔ ننھی عالیہ کا خط ۔ ذکیہ بلگرامی ۔ ستمبر ۱۹۷۷ء
۵ ۔ چھوٹا سا ایک لڑکا ۔ راز کشمیری ۔ جولائی۱۹۷۷ء
۶ ۔ چاند کی سیر ۔ رفیق احمد خان ۔ نومبر ۱۹۸۱ء
۷ ۔ گڑیاں آگئیں ۔ سید افتخار راز ۔ جون ۱۹۸۲ء
۸ ۔ اُف یہ لڑائی ۔ رفیق احمد خان ۔ جولائی ۱۹۸۱ء
۹ ۔ آج کی تازہ خبر ۔ خالد بزمی ۔ اپریل ۱۹۸۱ء
۱۰ ۔ نبی بخش نائی ۔ تاج الدین طیش ۔ اپریل ۱۹۸۱ء
۱۱ ۔ مرغ پلاؤ ۔ ذکیہ بلگرامی ۔ اپریل ۱۹۸۱ء
۱۲ ۔ وہ ریل جارہی ہے ۔ سمیع اکبر آبادی ۔ مئی ۱۹۸۱ء
۱۳ ۔ پیاری ماں ۔ بشیر مُندر ۔ دسمبر ۱۹۸۳ء
۱۴ ۔ دادی اماں سنو کہانی ۔ راز کشمیری ۔ دسمبر ۱۹۸۳ء
۱۵ ۔ اے چڑیو ۔ فیض لدھیانوی ۔ ستمبر ۱۹۸۲ء
۱۶ ۔ سکول کا وقت ۔ حفیظ الرحمن احسن ۔ ستمبر ۱۹۸۲ء
۱۷ ۔ مجاہدوں کا ترانہ ۔ اجمل وجیہہ ۔ ستمبر ۱۹۸۴ء
۱۸ ۔ سلام (نعت) ۔ عنایت علی خان ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۱۹ ۔ توند ۔ فیض لدھیانوی ۔ جون ۱۹۹۴ء
۲۰ ۔ بچہ اخبار ۔ ضیاء الحسن ضیا۔ اپریل ۲۰۰۰ء

بچہ جیسے جیسے شعور سنبھالتا ہے تو سب سے پہلے اسے نظم سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ ماں کی لوری کی صورت ہوتی ہے۔ اسکول کی بھی ابتدائی جماعتوں میں بچوں کو نظمیں یاد کروائی جاتی ہیں۔ نظموں میں موجود نغمگی بچوں کے لیے پرکشش ہوتی ہے۔ یہی موسیقیت بچے کو نظم پڑھنے پر اُکساتی ہے۔ تعلیم وتربیت میں بھی ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے کہ شعرا نے نظموں میں نغمگی کو برقرار رکھا ہے۔ اگر نظم تھوڑے بڑے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے تو اس میں شاعر نے بچوں کو لُبھانے کے لیے کوئی ظرافت بھری بات کہہ دی ہے۔ظرافت بچوں کی نظموں میں شامل ایک ایسا پہلو ہے جو بچوں کو نظم پڑھنے کی طرف مائل کرتا ہے۔
تعلیم وتربیت میں رفیق احمد خان نے اس طرح کی بے شمار نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظم مسٹر پیٹو دیکھیے، جس میں شوخی ہے، شرارت ہے اور قافیوں کا ایسا استعمال ہے کہ بچہ نظم سُبک روی سے گنگنا سکتا ہے۱۲۰۔

کھانے کی ہر چیز اُڑائے جو کچھ پائے، چٹ کرجائے
یہ بھی کھائے، وہ بھی کھائے کون اِسے آخر سمجھائے

کھانا پینا اُس کا کام
مسٹر پیٹو اُس کا نام

کرتا ہے ہر وقت جگالی جو شے دیکھی، منھ میں ڈالی
جھٹ سے نگلی، پٹ سے کھالی پیٹ رہے کب اس کا خالی

کھانا پینا اُس کا کام
مسٹر پیٹو اُس کا نام

موقع پاکر، آنکھ بچا کر کسی بہانے اندر جاکر
الماری تک ہاھ بڑھا کر لے آتا ہے چیز اُڑا کر

کھانا پینا اُس کا کام
مسٹر پیٹو اُس کا نام

کھاتا ہے بازاری چیزیں چٹنی، چاٹ، کراری چیزیں
کھٹی میٹھی ساری چیزیں اس کی ہیں سب پیاری چیزیں

کھانا پینا اُس کا کام
مسٹر پیٹو اُس کا نام

اب لیکن بیمار ہوا ہے چلنے سے لاچار ہوا ہے
اُٹھنا بھی دشوار ہوا ہے جینے سے بیزار ہوا ہے

کھانا پینا اُس کا کام
مسٹر پیٹو اُس کا نام

اس نظم میں جہاں بچوں کے پیٹ بڑھنے پر اُنھیں متنبہ کیا جارہا ہے، وہیں پیٹ کے بڑھنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھی دل چسپ انداز میں بیان کیا جارہا ہے۔بازار کی الٹی پلٹی چیزیں کھانے کی وجہ سے بچوں کا بیمار ہونا ایک عام سی بات ہے۔ اس سلسلے میں جہاں والدین اور اساتذہ بچوں کو نصیحتیں کرتے ہیں وہیں نصابی کتب میں بھی ایسے مضامین شامل کیے جاتے ہیں جو بچوں کی صحت سے متعلق ہوتے ہیں۔اس حوالے سے بچوں کے رسائل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی رہنمائی کریں اور روایتی ناصحانہ انداز کے بجاے کسی منفرد انداز کو بروئے کار لائیں۔ یہ نظم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اسی طرح اسی شمارے میں ہمیں’’ضیاء الحسن ضیا‘‘ کی نظم آج کی تازہ خبر نظر آتی ہے اور اس نظم میں بھی ظرافت کا پہلو نمایاں ہے۱۲۱۔
۲۰۰۰ء کے بعد ہمیں تعلیم وتربیت میں نظموں کا یہ حصہ کمزور نظر آتا ہے۔ بڑے شعرا کی نظموں کی کمی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے والے بڑے شاعروں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ احمد ندیم قاسمی آخری بڑے شاعر تھے جنھوں نے اپنے آخری وقت میں بھی بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، لیکن اس کے بعد ہمیں اس صف میں کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا۔حالاں کہ زیادہ تر شعرا نے اپنے لکھنے کا آغاز بچوں کے لیے لکھنے سے کیا تھا۔ بچوں کے رسائل کے مدیران نے بھی اس سلسلے میں کوئی قابل قدر کوشش نہیں کی کہ وہ بڑے شعرا کو اس جانب مستقل متوجہ رکھتے۔ تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والی کئی نظمیں ایسی ہیں جنھیں کلاسک کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ تعلیم وتربیت نے بچوں کی نظموں میں اُردو ادب کو ایک بڑا سرمایہ دیا ہے۔
تعلیم وتربیت کے حصہ نثر اور حصہ نظم اپنے معیار، تنوع اور طباعت کے لحاظ سے بچوں کی اُمنگوں پر پورا اُترے ہیں۔ سائز کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں نے تعلیم وتربیت کی ظاہری صورت بھی نکھار دی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں تعلیم وتربیت نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ کئی نسلیں تعلیم وتربیت سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ تعلیم وتربیت آج بھی شائع ہورہا ہے لیکن اس کی جو آب وتاب ہمیں ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۰ء تک نظر آتی ہے، وہ عنقا ہے۔

حوالہ وحواشی:

۱۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہاؤس لمیٹڈ، کراچی، ص۴۶۴
۲۔ کھوکھر، محمد افتخار،۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۴
۳۔ خلدون، احمد، اپریل ۱۹۷۷ء ، جوابستان، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص ۱۲۳
۴۔ تعلیم وتربیت، ماہنامہ، جنوری ۱۹۶۸ئ،ص۲
۵۔ ______________، جنوری ۱۹۷۷ئ،ص۱
۶۔ ______________، جنوری ۱۹۸۱ئ،ص۳
۷۔ ______________، مئی ۱۹۸۸ئ،ص۴
۸۔ ______________،مئی ۱۹۸۸، ص۱
۹۔ ______________، نومبر۲۰۲۱ئ،ص۲
۱۰۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہاؤس لمیٹڈ، کراچی، ص۴۶۴
۱۱۔ کھوکھر، محمد افتخار،۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۵
۱۲۔ ایضاً، ص۱۵
۱۳۔ کھوکھر، ضیاء اللہ، ۲۰۰۴ئ، بچوں کی صحافت کے سو سال، عبدالمجید کھوکھر یادگار لائبریری، گوجرانوالہ، ص ۶۰
۱۴۔ تعلیم وتربیت، ماہنامہ، جنوری ۱۹۷۰ء تا دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۵۔ ________________، جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۳
۱۶۔ ________________، اکتوبر۲۰۲۱ئ،ص۱
۱۷۔ ________________، نومبر۲۰۲۱ئ،ص۲
۱۸۔ خلدون، احمد، اپریل ۱۹۷۷ء ، جوابستان، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص ۱۲۳
۱۹۔ کھوکھر، محمد افتخار،۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۵
۲۰۔ ایضاً، ص۸
۲۱۔ ایضاً، ص۹
۲۲۔ کھوکھر، محمد افتخار،۱۹۹۰ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۰
۲۳۔ _______، ۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۰
۲۴۔ _______، ۱۹۹۰ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۱
۲۵۔ کرن، انیلہ، ستمبر۱۹۸۴ئ، بکرے کا ایکسرے، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۶۱
۲۶۔ ایضاً، ص۶۳
۲۷۔ عزیزی، شکیل ،مئی۱۹۸۱ئ، دو شہید ، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص۴۱
۲۸۔ حسرت ، یونس،محمد، اپریل ۱۹۸۱ئ، ڈاک بنگلہ، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور، ص۴۵
۲۹۔ راہی، آر ایم، نومبر ۲۰۰۰ئ،آزادی منتظر، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۱۱
۳۰۔ ماہنامہ تعلیم وتربیت، مارچ ۱۹۹۷ئ، ’قائداعظم محمد علی جناح‘، لاہور، ص۷۰
۳۱۔ علی ، سیماں، مئی ۱۹۸۸ئ، ہاتھی، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۷
۳۲۔ کاشف، انور، ڈاکٹر، مئی ۱۹۸۸ئ، فرسٹ ایڈ، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۸
۳۳۔ عبدالرئوف،ڈاکٹر ، مئی ۱۹۸۸ئ، محمد بن قاسم، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص ۱۲
۳۴۔ لخت، سعید، مئی ۱۹۸۸ئ، نظام شمسی، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص ۱۸
۳۵۔ ________، ٹیلی وژن، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور،ص ۳۴
۳۶۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ،مئی ۱۹۸۸ئ، ’ہاکی‘،مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص۲۲
۳۷۔ اختر، نسیم، مئی ۱۹۸۸ئ،آپ کے اسکول ، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور، ص ۴۶
۳۸۔ عالم، منشی محبوب، جون ۱۹۰۲ئ، بچوں کا اخبار، خادم التعلیم پنجاب، لاہور،ص۲
۳۹۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۴۰۔ اعظم شاد، محمد، اپریل ۱۹۷۷ء ، تعلیم وتربیت کس طرح چھپتا ہے،مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور، ص۱۱۵
۴۱۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ،اپریل ۱۹۸۹ء ،فیروز سنز، لاہور، ص۱
۴۲۔ ___________، اپریل۲۰۰۰ء ، ص۱
۴۳۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، فروری ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۲
۴۴۔ ساتھی،ماہنامہ، فروری ۲۰۰۰ئ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۳
۴۵۔ شاہد، ریاض، اگست ۲۰۰۰، شرارتی لکیریں،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص۳۷
۴۶۔ ___________، کارٹون کہانی،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص۶۲
۴۷۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، اپریل ۱۹۷۷ء ، فیروز سنز،لاہور، ص ۷۵
۴۸۔ ___________، دسمبر ۱۹۸۱ء ،فیروز سنز،لاہور، ص۳۱
۴۹۔ ___________، مئی ۱۹۸۸ء ، فیروز سنز،لاہور، ص۴۲
۵۰۔ ___________، نومبر ۲۰۰۰ء ،فیروز سنز،لاہور، ص۲۵
۵۱۔ ___________، ستمبر ۱۹۷۷ئ، باتیں،فیروز سنز،لاہور، ص۲
۵۲۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۴ء ،باتیں ، لاہور، ص۲
۵۳۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۳ء ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، فیروز سنز،لاہور، ص۴
۵۴۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۳ء ،ہمارے نبیؐ نے فرمایا ، فیروز سنز،لاہور، ص۴
۵۵۔ دائودی ، مقبول، انور، جولائی۱۹۷۸ئ، احکام الٰہی،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص۳
۵۶۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ،ستمبر ۱۹۸۲ء ،’حمد، نعت‘ ، لاہور، ص۵
۵۷۔ ضیا، ضیاء الحسن، مئی ۱۹۸۱ئ،نعت،مشمولہ: ’ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص۵
۵۸۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ،جولائی ۱۹۸۴ئ، ’روشنی‘،فیروز سنز،لاہور، ص۴
۵۹۔ ___________، جولائی ۱۹۸۴ئ، روشنی،فیروز سنز،لاہور، ص۴
۶۰۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۳ئ،وہ آئی ہنسی، فیروز سنز،لاہور، ص۵۱
۶۱۔ ___________، اپریل ۱۹۸۱ئ،لو ہنس دیے، فیروز سنز،لاہور، ص۹۱
۶۲۔ ___________، جولائی ۱۹۷۷ئ،وہ آئی ہنسی، فیروز سنز،لاہور، ص۵۳
۶۳۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۸ئ، آئیے مسکرائیں، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۱
۶۴۔ ___________، اکتوبر ۱۹۹۸ئ، آئیے مسکرائیں،فیروز سنز، لاہور، ص ۱۸
۶۵۔ ___________، اگست۱۹۹۳ئ، چٹ پٹ مسالے دار، فیروز سنز،لاہور، ص ۴۰
۶۶۔ ___________، دسمبر۱۹۹۳ئ، چٹ پٹ مسالے دار، فیروز سنز،لاہور، ص ۴۰
۶۷۔ ___________، ستمبر۱۹۸۳ئ، ہم سے ملیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۵۷
۶۸۔ ___________، مارچ ۱۹۹۹ئ، آؤ بنائیں دوست، فیروز سنز،لاہور، ص ۲۷
۶۹۔ ___________، ستمبر۱۹۸۳ئ، ہونہار ادیب، فیروز سنز،لاہور، ص ۵۹
۷۰۔ ___________، ستمبر۲۰۰۰ئ، آپ بھی لکھیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۵۴
۷۱۔ ___________، ستمبر۱۹۸۳ئ، آپ کی رائے، فیروز سنز،لاہور، ص۶۹
۷۲۔ ___________، مارچ ۱۹۹۷ئ، آپ کا خط ملا، فیروز سنز،لاہور، ص۲۷
۷۳۔ ___________، اگست ۲۰۰۰ئ، آپ کا خط ملا، فیروز سنز،لاہور، ص۵۱
۷۴۔ ___________، اگست ۲۰۰۰ئ، آپ کا خط ملا، فیروز سنز،لاہور، ص۴۹
۷۵۔ ___________، ستمبر ۲۰۰۰ئ، آپ کا خط ملا، فیروز سنز،لاہور، ص۵۱
۷۶۔ ___________، اپریل ۱۹۸۱ئ، دلچسپ وعجیب، فیروز سنز،لاہور، ص۱۰۱
۷۷۔ طاہر، عبدالستار خان،ستمبر ۲۰۰۰ئ،دلچسپ اور ناقابل یقین، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۸
۷۸۔ ___________، اپریل ۲۰۰۰ء ،دلچسپ اور ناقابل یقین، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۵۲
۷۹۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، ستمبر ۲۰۰۰ئ،’کیوں؟‘، فیروز سنز، لاہور، ص۳۸۔۳۹
۸۰۔ ___________، ستمبر ۲۰۰۰ئ،کیوں؟، فیروز سنز، لاہور، ص ۳۹
۸۱۔ ___________، جون ۱۹۸۲ئ، آپ بھی پوچھیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۶۱
۸۲۔ ___________، نومبر ۱۹۸۲ئ، آپ بھی پوچھیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۶۳
۸۳۔ ___________، اپریل ۱۹۷۷ئ، آپ بھی پوچھیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۱۲۳
۸۴۔ ___________، جولائی ۱۹۷۸ئ، آپ بھی پوچھیے، فیروز سنز،لاہور، ص ۶۱
۸۵۔ شاہد، شاہد ریاض، مارچ ۱۹۹۹ئ، کار ٹون کہانی،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۸
۸۶۔ ایضاً، ص ۳۸
۸۷۔ ___________، شرارتی لکیریں،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۳
۸۸۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، مارچ ۱۹۹۷ئ،’ قائد اعظم کلاسک‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۷۰
۸۹۔ ___________،مارچ ۱۹۹۷ئ، قائد اعظم کلاسک، فیروز سنز،لاہور، ص ۷۱
۹۰۔ ___________، ستمبر۲۰۰۰ئ، کھیلوں کی دنیا،فیروز سنز، لاہور، ص ۳۴
۹۱۔ الطاف، این، اپریل ۲۰۰۰ئ، کھیلوں کی دنیا، مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز،لاہور، ص ۳۴
۹۲۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، ستمبر۲۰۰۰ئ، ’علمی معمّا‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۴
۹۳۔ ___________، جولائی ۱۹۹۷ء ،فیروز سنز،لاہور، ص ۴۳
۹۴۔ ___________،اپریل ۱۹۷۸ئ،فیروز سنز،لاہور، ص ۵۵
۹۵۔ ___________،اگست ۲۰۰۰ئ، بلاعنوان، فیروز سنز،لاہور، ص۶۸
۹۶۔ ___________، ستمبر ۲۰۰۰ئ، فیروز سنز،لاہور، ص۶۸
۹۷۔ ___________،مارچ ۱۹۹۷ئ، داؤدی علمی آزمائش، فیروز سنز،لاہور، ص۳۵
۹۸۔ ___________،مارچ ۱۹۹۷ئ، فیروز سنز،لاہور، ص۳۵
۹۹۔ ___________،ستمبر۲۰۰۰ئ،مجرم کون؟، فیروز سنز،لاہور، ص۴۱
۱۰۰۔ ___________، نومبر ۲۰۰۰ئ، فیروز سنز،لاہور، ص۵۹
۱۰۱۔ ___________، دسمبر ۲۰۰۰ئ، فیروز سنز،لاہور، ص۴۱
۱۰۲۔ ___________، مارچ ۱۹۹۷ئ،ہونہار مصور، فیروز سنز،لاہور، ص۶۵
۱۰۳۔ ___________، ستمبر ۲۰۰۰ء ، فیروز سنز،لاہور، ص۶۵
۱۰۴۔ ___________، جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۲
۱۰۵۔ لخت، سعید، اکتوبر۱۹۷۴ئ،منشی منقّٰی نے شیر مارا، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص ۱۵
۱۰۶۔ ایضاً، ص ۱۹
۱۰۷۔ کوہستانی، اعظم طارق، ۲۰۱۸ئ، The Tale Of Noses، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۳
۱۰۸۔ حسرت، محمد یونس، نومبر۱۹۸۱ئ، روم کا سوداگر، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۱۱
۱۰۹۔ کاظمی، حسن ذکی، نومبر۱۹۸۱ئ، پُر اسرار ڈاکٹر ، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۲۸
۱۱۰۔ ابوتمیم، مئی ۱۹۸۸ئ،سند باد جہازی اور سمندر کا بھتنا، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۹
۱۱۱۔ ایضاً، ص ۴۰
۱۱۲۔ بحوالہ ویب گاہ: https://ferozsons.com.pk/product-category/childrens-books
۱۱۳۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۳
۱۱۴۔ شاد، محمد اعظم، مئی ۱۹۸۸ئ،تعلیم وتربیت کیسے چھپتا ہے، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص ۱۱۵
۱۱۵۔ لخت، سعید، مئی ۱۹۸۸ئ، ٹیلی وژن، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص ۳۴
۱۱۶۔ بزمی، خالد،ستمبر ۱۹۷۷ئ، لاہور سے کاغان تک، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۳۵
۱۱۷۔ خلدون، احمد، اپریل ۱۹۸۱ئ، قدم قدم آباد، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۷۹
۱۱۸۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، ۱۹۷۰ء تا دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۹۔ ___________، جنوری ۱۹۷۰ء تا دسمبر ۲۰۰۰ئ
۱۲۰۔ خان، رفیق احمد، اپریل۱۹۷۷ئ، مسٹر پیٹو، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز،لاہور، ص۴۸
۱۲۱۔ ضیا، ضیاء الحسن، اپریل ۱۹۷۷ئ، آج کی تازہ خبر، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘،فیروز سنز، لاہور، ص۱۰۴

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top