بابِ سوم: بچوں کے نمائندہ ادیب وشاعر
بابِ سوم
بچوں کے نمائندہ ادیب وشاعر
۱۹۷۱ء ___۲۰۰۰ئ
حصہ نثر:
میرزا ادیب، حکیم محمد سعید،مسعود احمد برکاتی،شفیق الرحمن، طالب الہاشمی، سعید لخت، اے حمید، معراج، بیگم ثاقبہ رحیم الدین، اشتیاق احمد،ڈاکٹر افتخار کھوکھر، کلیم چغتائی، پروفیسرسلیم مغل، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، منیر احمد راشد، ابن آس محمد، نعیم احمد بلوچ، سیما صدیقی، اختر عباس، محمد ادریس قریشی
حصہ نظم:
صوفی غلام مصطفی تبسمؔ ،قیوم نظرؔ، ا بن انشاؔ،عنایت ؔعلی خان، عبدالقادر عارفؔ، ابصارؔ عبدالعلی، تنویر پھول ؔ، احمد حاطبؔ صدیقی،شاہ نواز فاروقیؔ، شاہین اقبال اثرؔ
بابِ سوم
بچوں کے نمائندہ ادیب وشاعر
۱۹۷۱ء ___۲۰۰۰ئ
حصہ نثر
بچوں کے ادب میں لکھنے والے ادبا اور شعرا کی تخلیقی جہت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان ادیبوں نے بچوں کے ادب کے اس گلشن کو سینچ کر رکھا، اسے بنانے اور سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ان میں ایسے ادیبوں کی بھی بڑی تعداد ہے جنھوں نے تاعمر بچوں کے لیے لکھنے کا کام جاری رکھا اور ادبِ اطفال کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔اسی طرح رسائل کے مدیران ، نائب مدیران، اسے سجانے اور سنوارنے میں تمام پیش پیش افراد دامے درمے سخنے قدمے اس ادب میں اپنا حصہ ملاتے رہے۔
ادب اطفال کے ابتدائی نقوش میںنظیر اکبر آبادی، مولوی اسماعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد سے لے کر غلام عباس، منشی پریم چند تک متعدد اہم لکھنے والوں کا تذکرہ متعدد بار محققین کرچکے ہیں۱۔ محمود الرحمن ، خوش حال زیدی کے مقالوں میں ہمیں کئی اہم ادیبوں کا تعارف ملتا ہے۲۔ چوں کہ ہماری تحقیق کا دائرہ ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک کے عرصے پر محیط ہے، اس لیے اس عرصے میں لکھنے والے چندمشہور ادیبوں اور شاعروں کا تذکرہ آنے والے سطور میں کیا جائے گا۔کوشش کی گئی ہے کہ مختصر سے تعارف کے بعد تحریریا نظم کا نمونہ دیا جائے تاکہ لکھنے والے کا اصل کام دیکھ کر راے قائم کی جاسکے۔
میرزا ادیب :
دلاور حسین علی المعروف میرزاادیب۴؍اپریل ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا، میرزا ادیب کا قلمی نام اُنھوں نے نویں جماعت میں رکھا جو تاحیات چلتا رہا۳۔ آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔اے کیا۔ابتدائی طور پر شاعری کو اظہار رائے کا ذریعہ بنایا مگر بعد میںایک بڑے نثر نگار کے طور پر پہچانے گئے اور ہر صنفِ ادب میں بہت اچھا لکھا۴۔
بچوں کے لیے بھی آپ نے بہت کچھ لکھا اور بہت عمدہ لکھا۔آپ کے ناولوں میںگدھا کہانی اور جن شہزادی بچوں میں بہت پسند کیے گئے، جب کہ کہانیوں میں، شرفو کی کہانی،چچا چونچ،دوصندوق،وہ ایک تتلی تھی،چا چونچ، شہر سے دور، گڑیوں کا شہر (مہم جوئی)، جن شہزادی، گدھا کہانی، چچا صدر دین اورنواب صاحب کا قانون۵بہت عمدہ کہانیاں ہیں۔ آپ کی کہانیوں کے مجموعے روشنی ہی روشنی۶ میں بھی بچوں کے حوالے سے بہت خوب صور ت کہانیاںشامل ہیں۔
بچوں کے لیے لکھے گئے آپ کے ڈرامے جہاں بہت زیادہ مقبول ہوئے وہیں ان ڈراموں کو اسٹیج پر کھیلا بھی گیا۔یہ ڈرامے بچوں کے ادب میں اچھا اضافہ بھی ہیں۔بچوں کے لیے لکھے گئے ڈراموں میں میرزا ادیب کا نام بہت نمایاں ہے۔ قیام پاکستان سے قبل میرزا ادیب نے بچوں کے لیے چند نظمیں بھی لکھی تھیں، جن میں میرے توتے تجھے ہوا کیا ہے، ایک چھوٹی پری کا ماں سے سوال، چھٹی آتی ہے، ایک قصہ، سہیلی سے شکوہ، ننھی عذرا کی اپنی امی سے شکایت، بڑھتا ہی جاؤں گا شامل ہیں۷۔
بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول میرزا ادیب کا انتقال ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء کولاہور میں ہوا۸۔
مرزا ادیب نے بچوں کے لیے جو کہانیاں تحریر کیں، اُنھیں آج بھی بچے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں، اُن کی ایک مزے دار تحریرچاچا صدر دین سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
صدر دین کومیں نے پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنے کاروبار میں خاصا کام یاب تھا۔وہ پیشے کے لحاظ سے ایک موچی تھا۔جوتیاں تیار کرتا تھا اور کسی بڑے دُکان دار کے ہاں جاکر بیچ آتا تھا۔ اس کی دُکان میں ایک تو اس کا سگا بھائی کام کرتا تھا اور ایک شاگرد۔جوتوں کی کمائی سے صدر دین نے اپنے لیے ایک دو منزلہ مکان بھی خرید لیا تھا اور اس کی دکان اس مکان کے نیچے تھی۔
انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ہر کمال کو زوال ہوتا ہے۔صدر دین کا کاروبار گھٹنے لگا،کیوں کہ بازار میں ہر جگہ بڑی بڑی فرموں کے بنائے ہوئے جوتے بکنے لگے تھے اور لوگ دیسی جوتوں کو چھوڑ کر ان نئے فیشنوں کے جوتے خریدنے لگے۔
صدر دین کا گزارا کسی نہ کسی طرح ہو جاتا تھا۔ روکھی سوکھی کھاکر دُکان پر بیٹھا رہتا تھا۔ ایک مصیبت یہ آئی کہ وہ بیمار ہوگیا۔ گھر میں جو کچھ تھا وہ اس کی بیماری پر خرچ ہورہا تھا اور اس کی بیماری تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
وہ بڑا ہنس مکھ اور ہمدرد قسم کا انسان تھا۔ محلے کے ہر شخص کی عزت کرتا تھا اور بچوں سے تو اسے بڑا ہی پیار تھا۔ کوئی بچہ اس سے اپنا جوتا بنواتا تھا تو قیمت میں خاص رعایت کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچے ہر روز اس کا حال پوچھنے کے لیے آجاتے تھے اور دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے۹۔
بڑے ادیبوں کا کمال یہ ہے کہ وہ بڑے حساس موضوعات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا وہ نصیحت ، وہ اچھی بات بچوں کے دلوں میں پیوست ہوجاتی ہے، اچھائی کا ایک جذبہ دل میں اُبھرآتا ہے۔مرزا ادیب کی اوپر دی گئی اس تحریر میں محبت میں گندھا ہوا ایک ایسا جذبہ بچے کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ برسوں تک اس جذبے کے تحت نیکی اس کے دل میں پنپتی رہتی ہے۔
حکیم محمد سعید:
حکیم محمد سعید۹جنوری ۱۹۲۰ء کو پیدا ہوئے ۱۰۔ وہ ایک مایہ ناز حکیم تھے جنھوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ اْنھوں نے مذہب اور طب و حکمت پر ۲۰۰ سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۱۱۔
آپ ہمدرد لیبارٹریز (وقف)، پاکستان کے بانی تھے۔ حکیم محمد سعید کی کتابیں طب، مذہب، سفر نامے، بچوں کا ادب، معاشرتی علوم و سماجیات پر ہیں۔ اْردو میں بچوں کا مشہور ترین رسالہ ماہنامہ ہمدرد نونہال، اردو میں صحت و صفائی پر رسالہ ماہنامہ ہمدرد صحت اور انگریزی میں اسلام کے موضوع پر ہمدرد اسلامکس اور طب پر، ہمدرد میڈیکس جاری کیے، اس کے علاوہ ہمدرد خبرنامہ، ہفتہ وار بھی جاری کیا۔ آپ نے اُردو زبان میں بچوں کے لیے پہلی بار سفر نامے اور ڈائری شائع کرنے کی ابتدا کی۔ آپ کا ہمدرد نونہال میں چھپنے والا اداریہ جاگو جگاؤ آپ کی وفات کے بعد بڑے تسلسل کے ساتھ اب بھی قند مکرر کے طور پر شائع ہو رہا ہے۱۲۔ آپ نے بچوں کے لیے حکیم محمد سعید کی کہانی کے عنوان سے خودنوشت لکھی، جس کی پہلی اشاعت ۳۵ ہزار تھی۱۳۔
بچوں کے لیے آپ کے لکھے گئے سفرناموں کے علاوہ یہ کتابیں بھی شامل ہیں:
نقوش سیرت صلی اللہ علیہ وسلم (۵ حصے)، نور کے پھول، کتاب دوستاں، حلال اور حرام اسلام میں، سنہرے اصول، نونہالوں کے خطوط، لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب، نماز پڑھیے، تلاش امن۱۴۔
حکیم محمد سعید بچوں کے لیے بطور سفرنامہ نگار مشہور ہیں، آپ نے متعدد ممالک کے دورے کیے اور وہاں گزارے گئے اپنے روز وشب کو ہمدرد نونہال کے قارئین کے لیے پیش کرتے رہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں زندگی کیسی ہے، وہاں کے لوگ کیسے ہیں اور ان لوگوں سے اپنا تقابلی جائزہ لے کر وہ بچوں کو بہت سی کام کی باتیں بتاتے تھے۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوا کہ ان کے سفر میں دقیق قسم کی معلومات آگئیں جو سفرنامے کو بچوں کے بجاے بڑوں کے لیے زیادہ کارآمد بناتا تھا۔
ان کے مشہور سفرناموں میں سے ایک سعید سیاح جاپان میں شامل ہے، اس سفرنامے سے یہ چند سطور ملاحظہ کیجیے:
دو مہمان دوست:
نو نہالو! ٹھیک ساڑھے چھے بجے میرے کمرے نمبر ۱۴۲۴ کے ٹیلے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اُٹھایا۔ جناب محترم محمد رئیس صاحب بات کر رہے تھے۔ جناب رئیس صاحب اور ان کے دوست جاپان کی مشہور گوڈری لمیٹڈ کے چیئرمین جناب محترم میدوری کاوامورا صاحب اوکایاما اور ٹوکیو سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ میں نے ان کو یہی وقت دیا تھا۔ یہ بلٹ ٹرین سے آئے ہیں جو دوسوا دوسو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہے۔ میں بھی اس میں بارہا بیٹھا ہوں۔ مائونٹ فیوجی سے ٹوکیو، ٹوکیو سے اوساکا اسی ٹرین سے آیا تھا۔ ان دونوں حضرات سے تین گھنٹے میں تبادل خیال کیا۔ آدھی باتیں تجارتی صنعتی اور آدھی خیراتی فلاحی۔ اب طے یہ پایا ہے کہ جناب میدوری کاوامورا صاحب نومبر میں جب میں اوکایاما سے کراچی جائوں گا میرے ساتھ پاکستان چلیں گے۔ اُنھوں نے ایک تیل ایجاد کیا ہے۔ اس تیل کو پٹرول میں ملادینے سے بجائے ۲۰ میل فی گیلن کے ۳۰ میل گیلن موٹر کار چل سکے گی۔
انڈین ریستوران:
ہوٹل ماکوہاری پرنس سے ہم پل ہی پل پر چلتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے۔ جہاں ایک انڈین ریستوران ہے۔ آج رات کھانا یہاں ہی نوش جان کیا۔ یہ جاپان میں میرا پہلا ڈنر ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے میں سعدیہ بیٹی کے دیے ہوئے بسکٹوں سے اپنا پیٹ زندہ رہنے کے لیے بھرتا رہا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ میزبانی کروں گا مگر ہوٹل کا بل جناب میدوری صاحب نے اصرار کے ساتھ اد اکر دیا ہے۔ اچھا کھانا تھا۔ گوشت تو کھایا نہیں جاسکتا۔ جھینگے کا سالن تھا۔ چنے کی دال تھی۔ نہایت گرم گرم نان تھے۔ پچھلی بار جب میں کو بے آیا تھا تو وہاں جناب محمد رئیس صاحب ملنے آئے تھے۔ اْنھوں نے کوبے میں انڈین ریستوران گیلارڈمیں مجھے کھانا کھلایا تھا۔ آج بھی وہ انڈین ریستوراں میں لے گئے۔ جاپان میں انڈین ریستوراں بہت مقبول ہیں۔آج بھی یہاں جاپانی بکثرت تھے۔ یہاں دیکھا کہ جناب ڈاکٹر کوشی اوٹسو اور میری نواسی بھی کھانا کھا کر نکل رہے ہیں، اس وقت میرے ساتھ کیمرا تھا۔ میں نے فوٹو گرافی کرلی۔
نونہالان جاپان!
میں بہت سے نونہالوں سے ملتا رہا ہوں۔ ماکوہاری پرنس ہوٹل میں بکثرت نونہال کھلاڑیوں سے ملتا رہا ہوں۔ آج میں نے نہایت خوب صورت نو نہالوں کے ساتھ اپنی تصویریں لی ہیں۔ دل خوش ہوا ہے۱۵۔
مسعود احمد برکاتی:
مسعود احمد برکاتی ۱۹۲۰ء میں راجستھان کی ایک مسلم ریاست ٹونک میں پیداہوئے۔ پاکستان کے معروف مدیر اور بچوں کے ادیب مسعود احمد برکاتی ۱۹۵۳ء سے دسمبر ۲۰۱۷ء تک مسلسل بچوں کے ایک ہی رسالے ہمدرد نونہال کے مدیر رہے۔ بچوں کے لیے اُردو میں سفر نامے کے مصنف اور حکیم محمد سعید کے قریبی دوست تھے۔ مسعود احمدبرکاتی ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے۔ ہمدرد فاؤنڈیشن سے منسلک رہے، ہمدرد صحت کے مدیر منتظم اور ہمدرد وقف پاکستان کے ٹرسٹی اور پبلی کیشنز ڈویژن کے سینئر ڈائریکٹر تھے۱۶۔
مسعود احمد برکاتی کی عمر ابھی محض چودہ برس تھی جب اُنھوں نے اپنے دادا برکات احمد کے نام پر البرکات کے نام سے ایک قلمی رسالے کا اجرا کیا۔ ۱۶ سال کی عمر میں مسعود احمد برکاتی نے انجمن ترقی اُردو کے رسالے معاشیات میں مضامین لکھناشروع کیے۔ اس سلسلہ مضامین پربابائے اردو مولوی عبد الحق نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں مسعود احمد برکاتی اپنے بڑے بھائی اختربرکاتی کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور حیدرآباد میں قیام کیا۱۷۔
مسعود احمد برکاتی ۱۹۵۲ء میں ادارہ ہمدرد سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۵۳ء میں بچوں کے رسالے نونہال کے اجرا پر اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ تقریباً ۶۵ سال اس ذمہ داری کو نہایت احسن طریقے سے نبھایا۔ اس زمانے میں کراچی میں کچھ نوجوان نونہال پاکستان کے نام سے بھی ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔ ہمدرد وقف کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے نونہال کا نام بعد میں ہمدرد نونہال کر دیا گیا۔
آپ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے کوریئر (Courier) کے اُردو ایڈیشن پیامی کے شریک مدیر بھی رہے۱۸۔
کوریئر کی مجلس ادارت کی، پیرس میں منعقدہ میٹنگ میں بھی شریک ہوئے۔ بعض رسائل کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل رہے۔ مسعود احمد برکاتی نے پاکستان میں اور بیرون ممالک مختلف علمی اجلاسوں اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ بعض بین الاقوامی مجالس کی صدارت بھی کی۔ کئی اخبارات و رسائل میں مسعود احمد برکاتی کی مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی تحریروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ مسعود احمد برکاتی کوان کی قابل قدراورمسلسل خدمات کے اعتراف میں آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی جرائد کمیٹی نے ۲ مارچ، ۱۹۹۶ء میں نشان ِسپاس اور اے پی این ایس کی جانب سے ۲۰۱۲ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۱۹۔
مسعود احمد برکاتی نے بچوں کے لیے کئی کتابیں تصنیف کیں جن میںقیدی کا اغوا، چور پکڑو،ایک کھلا راز، دو مسافر دو ملک، انکل حکیم محمد سعید،سعید پارے، وہ بھی کیا دن تھے، مونٹی کرسٹو کا نواب، ہزاروں خواہشیں، تین بندوقچی، چھوٹی سی پہاڑی لڑکی شامل ہے۲۰۔۱۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو کراچی میں ان کا انتقال ۸۶ برس کی عمر میں ہوا۲۱۔
مسعود احمد برکاتی نے بچوں کے لیے لکھتے وقت بالکل سادہ زبان استعمال کی، کہیں بھی ان کی تحریر میں ہمیں مرصع مقفیٰ جملے نظر نہیں آتے۔اُنھوں نے متعدد تراجم کیے، اس میں بھی اپنا یہی انداز برقرار رکھا۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تحریروں میں ہمیں زبان وبیان کی وہ خوب صورتی یا کہانی میں تجسس کی وہ کیفیت نظر نہیں آتی جو عموماً بچوں کی کہانیوں کا خاصا ہوا کرتی ہے۔ اس دورانیے میںہمیں زیادہ تر ادیب بچوں کے لیے ملتے جلتے موضوعات پر لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں، بہت کم ایسے ادیب رہے ہیں جنھوں نے منفرد موضوعات پر طبع آزمائی کی ہو۔
مسعود احمد برکاتی کی اس تحریر میں آپ کو ایک روایتی کہانی بالکل سادہ انداز میں نظر آئے گی، یہ کہانی اپنے ہلکے پھلکے انداز کے باعث بچوں کی اچھی کہانیوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔
سونے کی تین ڈلیاں
دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف، سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لیے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔ سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔ امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔ سلیموف جنگل سے لکڑیاں لے آیا۔ رات ہوگئی تھی۔ اس کے پاس رسّی نہیں تھی۔ اس لیے اس نے دروازے سے اس کی دُم باندھ دی۔ رات کو گھوڑا بھاگ گیا۔ دم ٹوٹ گئی۔ سلیموف بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر گھوڑا واپس لایا، مگر امیروف نے بے دُم کا گھوڑا لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں تو کچہری میں مقدمہ کروں گا۔
دونوں بھائی شہر روانہ ہوگئے۔ شہر بہت دور تھا۔ راستے میں رات ہوگئی۔ امیروف کے ایک دوست کا گھر قریب تھا۔ وہ دونوں اس دوست کے گھر ٹھہر گئے۔ امیروف اور اس کا دوست گھر کے اندر آرام کرنے لگے۔ سلیموف کو گھر کے اندر جگہ نہ ملی تو وہ چھجے پر لیٹ گیا۔ سلیموف کی آنکھ لگ گئی۔ سوتے میں اس نے کروٹ لی تو وہ نیچے گر گیا۔ نیچے دوست کا بچہ بیٹھا تھا۔ وہ دَب کر مر گیا۔ دوست بہت غصّے ہوا۔ اس نے کہا:’’میں بھی مقدمہ کروں گا۔‘‘
اب تینوں شہر کو چل پڑے۔ راستے میں پل آیا۔ سلیموف نے دو دو مقدموں میں سزا کے ڈر سے پل پر سے چھلانگ لگا دی۔ نیچے ایک نوجوان اپنے بوڑھے بیمار باپ کو لے کر جا رہا تھا۔ سلیموف بوڑھے پر جا پڑا۔ بڈھا مر گیا۔ نوجوان بھی مقدمہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگیا۔
چلتے چلتے شہر آگیا تو وہ کچہری پہنچے۔ جج آیا اور کچہری لگی۔ سلیموف نے راستے سے ایک پتھر اُٹھا کر رومال میں لپیٹ لیا تھا۔ امیروف نے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ سلیموف نے ڈرانے کے لیے رومال میں بندھا پتھر جج کو دکھایا۔ جج سمجھا کہ رومال میں رشوت کا سونا ہے۔ اس نے خوش ہو کر سلیموف کے حق میں فیصلہ دے دیا اور کہا کہ جب تک گھوڑے کی دُم نہ نکل آئے گھوڑا سلیموف کے پاس رہے گا۔
اب دوسرا مقدمہ پیش ہوا۔ امیروف کے دوست نے کہا کہ سلیموف نے میرے بچے کو کچل کر مار دیا۔ سلیموف نے پھر رومال دکھایا اور جج پھر دھوکہ کھا گیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ جب تک سلیموف امیروف کے دوست کو بچہ نہ لا کر دے، امیروف کا دوست سلیموف کو اپنے گھر رکھے اور کہیں جانے نہ دے۔ دوست نے سوچا ایک تو میرا بچہ مرا دوسرے میں سلیموف کو اپنے گھر رکھوں اور کھلاؤں پلاؤں۔ اس کا کیا بھروسہ یہ دوسرے بچے کو بھی مار دے۲۲۔
اس میں ایک بھائی کی خود غرضی کو عیاں کیا جارہا ہے۔ زیادہ چالاک بننے کی کوشش میں اکثر اوقات انسان اپنا نقصان کر بیٹھتاہے۔ غریب رشتے دار اور وہ بھی اپنا بھائی ہو۔ وہ توقع رکھتا ہے کہ امیر بھائی اس کی مدد کرے گا اور اصولی طور پر مددکرنی بھی چاہیے لیکن جب ایک بھائی اپنا حق ادا نہیں کرتا تو قدرت کسی نہ کسی طریقے سے وہ حق دلواکر رہتی ہے اور یہی اس کہانی میں بتایا گیا ہے۔اس طرح کی کہانیاں چھوٹے بچے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
شفیق الرحمن:
اُردو مزاح کا ایک بہت بڑا نام ڈاکٹرشفیق الرحمن ۹نومبر ۱۹۲۰ء کو ہندوستان کے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام راؤ شفیق الرحمن ہے۔ ۱۹۴۲ء میں پنجاب یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔ میو ہسپتال لاہور میں چند ماہ ہاوس سرجن رہے اور اسی سال انڈین میڈیکل سروس میں چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر ملازمت کرنے اور کئی ممالک کی سیر کرنے کا موقع ملا۲۳۔
۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے بعد آپ کو بری سے بحری فوج میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے ستمبر۱۹۷۹ء میں سرجن ریرایڈمرل کی رینک سے بطور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ریٹائر ہوئے۔ آزادی کے بعد پاکستان آرمی کی طرف سے ایڈنبرا اور لندن یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیجاگیا۔ دسمبر۱۹۸۰ء میں آپ کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۲۴۔ آپ بہت بڑے افسانہ نگار بھی تھے، لیکن مزاح نگاری میں آپ کو بڑا مقام حاصل ہوا۔ آپ کی پہلی ہی کہانی چاکلیٹکو عام قارئین کے ساتھ ساتھ خواص نے بھی بے حد پسند کیا۔جناب مشتاق احمد یوسفی نے ایک بارکہا کہ جب یہ کہانی چھپی تو میں بھی لکھنے کا آغاز کر چکا تھا۔ اِس کہانی سے اتنا متاثر ہوا کہ کچھ عرصے کے لیے میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور تہیہ کیا کہ آئندہ اُس وقت لکھوں گا، جب اِس طرح کا لکھ سکا۲۵۔ آپ نے بچوں کے لیے بھی کئی بہترین کہانیاں لکھیں۔
بچوں کے ادب میں بڑوں کی طرح طنزو مزاح والی کہانیوں میں صرف مزاحیہ کہانیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ کہانیاں ہی بچوں کو زیادہ محبوب ومرغوب ہیں۔ مزاح اور پھکڑ پن میں بہت باریک سی لکیر پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر ادیب اسے سمجھ نہیں پاتے لیکن شفیق الرحمن صاحب کے یہاں پھکڑپن کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا۔ مزاح سے بھرپور ان کی کہانیاں بچوں کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کردیتی ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی ایک عدد تحریر پڑھ لے تو وہ دیگر تمام تحریروں کو پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔بچوں کے ادب میں مزاحیہ لکھنے والے زیادہ نہیں رہے، لیکن جن ادیبوں نے اس طرح کے موضوعات پر لکھا، بہت خوب لکھا۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، معراج، قاسم بن نظر، سیما صدیقی کی تحاریر میں شفیق الرحمن اورامتیاز علی تاج کا عکس نظر آتا ہے۔
نمونے کے طور پر آپ کی کہانی شکاری صاحب اور بھوتسے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔ کیا خوب صورت اُسلوب بیاں ہے۔
شکاری صاحب کی کہانیاں ایسی ہوتیں کہ اُن پر کچھ یقین آتا، کچھ نہ آتا۔
بڑھے بوڑھے تو اْن کے قصوں پر مسکراتے رہتے لیکن ہم لڑکوں کو یہ باتیں اور کہانیاں بڑی دل چسپ معلوم ہوتیں۔کہانی کو ختم وہ بہت اچھی طرح کرتے تھے۔مثلاً شیر کے واقعات سناتے وقت ایسا ہولناک سماں باندھتے کہ سب کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔
آخر میں بڑی مصیبتوں کے بعد جب شیر نظر آتا اور بندوق کا ذکر ہوتا تو شکاری صاحب کہتے:
’’شیر دور کھڑا دھاڑ رہا تھا۔ میں نے اپنی بندوق کو مضبوطی سے تھام کر نشانہ لیا اور اللہ کا نام لے کر لبلبی دبادی، لیکن اتفاق ملاحظہ ہو کہ شیر بندوق کی زَد سے صرف چار فٹ دور تھا۔گولی زنّاٹے سے گئی مگر شیر کی دُم سے ٹھیک چار فٹ اِدھر بائیں طرف جاکر زمین میں ٹھنڈی ہوگئی۔خود شیر نے خوف زدہ ہوکر پیچھے گھوم کر گولی کو زمین پر گرتے دیکھا…!‘‘
ریچھ کے شکار کے سلسلے میں ایک قصہ یوں بتاتے کہ:
’’کتنی تکلیفوں اور کس قدر انتظار کے بعد آخر کار ریچھ دکھائی دیا۔وہ مزے سے ندی کے کنارے بیٹھا آرام کر رہا تھا کہ میں نے بھری ہوئی بندوق اٹھائی نشانہ لیا اور پھر لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ یکایک خیال آیا کہ یار!میرے پاس تو ہتھیار ہے، لیکن ریچھ بے چارہ نہتا ہے۔ اگر ریچھ کے پاس بھی بھری ہوئی بندوق ہوتی تب تو کوئی بات بھی تھی اور پھر وہ تو آرام کر رہا تھا۔چناں چہ میں نے گولی نہیں چلائی۔‘‘
اگر کوئی درمیان میں انھیں ٹوک دے تو وہ خفا ہوجاتے تھے۔اِس لیے بچوں کو کہانیاں نہیں سناتے تھے، کیوں کہ بچے بہت زیادہ بے صبری دکھاتے اور درمیان میں بار بار پوچھتے، پھر کیا ہوا؟
پھر آپ نے کیا کیا؟ شیر نے آپ پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
مجھے یاد تھا کہ پچھلے مہینے جب وہ چیتے کے شکار کی کہانی سنا رہے تھے تو بچوں نے اُنھیں بے حد پریشان کیا تھا۔
شکاری صاحب کہہ رہے تھے:
’’سنسان جنگل، ہو کا عالم، چاروں طرف گہری تاریکی… اور سامنے گھنے درختوں میں چھپا ہوا خونخوار چیتا…!‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک بچے نے درمیان میں ٹوک دیا۔
’’پتا بھی کھڑکتا تو میرا دل ایک دم دھڑکنے لگتا۔فوراً بندوق سنبھال کر آہٹ کی طرف لپکتا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ دوسرے بچے نے پوچھا۔
’’ایسے ڈرائونے منظر کی ذرا تصویر تو بنائیے… ذرا سوچیے کہ…‘‘
’’تصویر بنالی… پھر کیا ہوا؟‘‘
’’اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ چیتا سامنے کھڑا ہے۔بندوق جو چلاتا ہوں تو گولی ندارد… معلوم ہوا کہ جلدی میں کارتوس ڈالنا بھول گیا تھا… اب اندازہ کیجیے کہ…‘‘
’’اندازہ کرلیا… پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر میں نے جلدی سے اپنی بندوق میں کارتوس بھرا… اُدھر چیتے نے چھلانگ لگائی اور سیدھا…‘‘
’’پھرکیا ہوا؟‘‘ ایک بچہ بولا۔
’’پھر خاک ہوا۔دھول ہوا… میرا سر ہوا…!‘‘ شکاری صاحب جھنجھلا کر بولے۲۶۔
ایسی بے تکلف کہانیاں ہمیں عصمت چغتائی، رؤف پاریکھ کے ہاں بھی نظرآتی ہیں۔ قاری ہر جملے سے حظ اُٹھاتا ہے، محظوظ ہوتا ہے اور اگر ایسی کہانیاں طویل بھی ہوجائیں تو بوریت کا باعث نہیں بنتیں۔
بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کرکے آپ ۱۹مارچ۲۰۰۰ء کو اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۲۷۔
طالب الہاشمی:
محمد یونس قریشی المعروف طالب الہاشمی ۱۲ جون ۱۹۲۳ء کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے ’’دھیدو والی‘‘ نزد ڈسکہ میں پیدا ہوئے۔ طالب الہاشمی کو بچوں کے لیے ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان کے تحت کتاب لکھنے پر صدارتی ایوارڈ جب کہ آپ کی کتاب سیرت طیبہ رحمت دارین صلی اللہ علیہ وسلم کو صوبائی ایوارڈ سے نوازا گیا۲۸۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اُنھوں نے بطور خاص بہت قیمتی سرمایہ فراہم کیا جو زیادہ تر کہانیوں کی شکل میں ہے۔ آپ کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد ۱۲۰ تک پہنچتی ہے۔ ان کی اہم کتابوں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
سیرت طیبہ رحمت دارین ؐ، ہمارے رسول پاک ؐ ( بچوں کے لیے )، خلیفہ الرسول سیدنا صدیق اکبر ؓ ، تیس پروانے شمع رسالتؐ کے، خیر البشر ؐ کے چالیس جانثار، سرور کائنات ؐ کے پچاس صحابہ ؓ، رحمت دارین کے سو شیدائی، تذکار صحابیات ؓ، آسمان ہدایت کے ستر ستارے، یہ تیرے پر اسرار بندے، سلطان نور الدین محمود زنگی، حکایات رومی، حکایات سعدی ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ،حضرت عثمان غنی ؓ،حضرت علی مرتضیؓ۲۹۔
جب کہ چھوٹے بچوں کے لیے ان کی یہ کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
آج کے بچے کل کے جوان، چاندی کی ہتھکڑی اور دوسری کہانیاں، قسمت کا سکندر اور دوسری کہانیاں، یمن کا سورما اور دوسری کہانیاں، علم بڑی دولت ہے اور دوسری کہانیاں شامل ہیں۳۰۔
۱۶ فروری ۲۰۰۸کو آپ دنیا سے رحلت فرماگئے۔ سیرت پر لکھے گئے کاموں کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو طالب ہاشمی کا ضرور ذکر کیا جائے گا۔ اُن کی کتابوں کی خاص بات یہ ہے کہ بڑوں سے لے کر بچے تک اُنھیں پسند کرتے ہیں۔ان کی کتاب چاند کی ہتھکڑی اور دوسری کہانیاںمیں شامل یہ واقعہ دیکھیے کہ جس میں وہ ہمارے اسلاف کے کارناموں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی انگوٹھی
بنو اُمیہ کے آٹھویں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ بہت نیک اور اللہ سے ڈرنے والے انسان تھے۔ وہ خلیفہ بننے سے پہلے بڑی امیر انہ زندگی گزارتے تھے۔ان کا لباس اور جوتے اتنے قیمتی ہوتے تھے کہ غریب آدمی ان کو خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔خوشبو اتنی اعلیٰ استعمال کرتے تھے کہ جس راستے سے گزرتے وہ راستہ مہک جاتا تھا لیکن جب وہ ۹۹ ہجری (۷۱۷ عیسوی) میں خلیفہ بنے تو اتنی سادہ زندگی اختیار کر لی کہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق ؓ کی یاد تازہ ہوگئی۔ اب ان کا لباس معمولی کپڑے کا ہوتا تھا اوراس کا بھی صرف ایک جوڑا ان کے پاس ہوتا تھا۔ بعض دفعہ اس میں بھی پیوند لگے ہوتے تھے۔ کھانا بھی بہت معمولی ہوتا تھا اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے۔ ان کی سلطنت لاکھوں مربع میل پھیلی ہوئی تھی لیکن وہ ایک معمولی مکان میں رہتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت کے زمانے میں ملک کے بعض حصوںمیں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط پڑ گیا اور لوگ سخت مصیبت میں مبتلا ہوگئے۔حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کو خبر ہوئی تو تڑپ اُٹھے۔ اُنھوں نے بیت المال (سرکاری خزانے) کا منھ کھول دیا اور قحط والے علاقے کے لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ خلیفہ بننے سے پہلے اُنھوں نے ایک خوب صورت انگوٹھی خرید کر اپنی ایک انگلی میں پہنی تھی۔ اس انگوٹھی کا نگ اتنا قیمتی تھا کہ جوہری اس کی قیمت لگانے سے عاجز تھے۔ قحط کی خبر سنتے ہی اُنھوں نے یہ انگوٹھی اتار کر حکم دیا کہ اسے بیچ دیا جائے اور جس قدر رقم حاصل ہو اس کو غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ انگوٹھی بیچنے سے اتنی رقم حاصل ہوگئی کہ سات دن تک ملک بھر کے غریبوں اور محتاجوں میں بٹتی رہی اور وہ سب خوشحال ہوگئے۔
ایک شخص نے حضرت عمرؒ سے کہا: ’’اے امیر المومنین یہ آپ نے کیا کیا؟ اس انگوٹھی کے نگ جیسا نگ تو اب دنیا بھر میں کہیں نہیں مل سکتا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر عبدالعزیز ؒ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اُنھوں نے فرمایا:
’’بھائی!یہ بات اللہ تعالیٰ کو کیسے پسند آسکتی ہے کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہوں اور میں قیمتی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہنے رہوں حالاںکہ ان لوگوں کی حفاظت اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا میرا فرض ہے۔ یہ نہ کر سکا تو کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔‘‘۳۱
طالب ہاشمی کی زیادہ تر کہانیاں یوں ہی چھوٹی اور اصلی کرداروں پر مشتمل ہیں۔ انھیں کہانی کے بجاے سچے واقعات بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابتدائی جماعت میں بھی اس طرح کے واقعات بچوں کے لیے نصائح کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔بچوں کے لیے سیرت رسول اللہ ہو یا پھر صحابہ ؓ سے متعلق کچھ لکھا جائے تو ہمارے بیشتر ادیب طالب ہاشمی کی تصانیف سے استفادہ کرتے ہیں۔
سعید لخت:
۱۹۲۴ء میں رام پور میں پیدا ہونے والے جناب سعید لخت کا اصل نام سعید احمد خان تھا۔ آپ کی ادب سے دلچسپی اسی بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ چوتھی جماعت ہی میں جانباز کے نام سے ایک رسالہ نکالا، جسے خود ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ سعید لخت ۱۹۴۵ء میں تعلیم و تربیت کے مدیر مقرر ہوئے اور پھر تعلیم و تربیت اور تعلیم و تربیت کے مالک ادارے فیروز سنز کے لیے بہت کام کیا۔ کئی قلمی ناموں سے نہ صرف شہرہ آفاق کہانیاں اور مضامین لکھے،بلکہ عالمی ادب سے بھی عمدہ تحریروں کے ترجمے کیے۔ آپ کے متعدد کہانیوں کے مجموعے اور ناولز شائع ہوئے۔ جن میں حافظ جی، گگو میاں، نک چڑھی شمو، ہائے اللہ سانپ،سرائے کے اندر، اُلو کے گھونسلے، پناکو کے کارنامے، پانچ موتی شامل ہیں۳۲۔ تعلیم و تربیت میں آپ نے بچوں کے لیے سیکڑوں دل چسپ مضامین تحریر کیے۔ عموماً مضامین لکھنے والے ادیب مضمون کو ثقیل اور بوجھل بنادیتے ہیں، لیکن سعید لخت نے اپنے منفرد اور سادہ اسلوب کی بدولت جو مضامین لکھے، اْنھیں ایک الگ انفرادیت حاصل ہے۔ ۱۹۶۱ء کے پاکستان ریویو کے ایڈیشن میں تعلیم و تربیت کے ایڈیٹر سعید لخت کو بچوں کا مقبول ترین لکھاری قرار دیاگیا۳۳۔معروف ادیب اشتیاق احمد نے اپنی کتاب میری کہانی میں سعید لخت کا ذکرکچھ یوں کیا۔
میں جب اپنی کتاب فیروزسنزسے چھپوانے کے لیے ادارے کے مالک سے ملا تو اُنھوں نے کہا: ’’بات یہ ہے بھئی کہ مسودے سعید لخت صاحب پڑھتے ہیں، وہ تعلیم وتربیت کے ایڈیٹربھی ہیں، میں اُنھیں فون کردیتا ہوں،آپ اپنا مسودہ ان کے پاس لے جائیں،اگرانھیں ناول پسندآگیا تو ٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔‘‘
یہ سن کروہ سعید لخت سے ملنے گئے، جنھوں نے ناول وصول کرلیا اورپندرہ دن بعد ان سے دوبارہ ملنے کو کہا۔ وہ مقررہ تاریخ پر پہنچے تو پھر پندرہ دن کا وقت مل گیا، دو باراوربھی ایسا ہواتوان کی ہمت جواب دینے لگی لیکن اس کے بعد جب وہ پندرہ دن بعد پہنچے تو سعید لخت نے ان سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورمسکراتے ہوئے نوید سنائی: ’’بھئی واہ! میں نے آپ کا مسودہ پڑھا اورایک ہی نشست میں پڑھا۔ آپ توبہت اچھا لکھتے ہیں، آپ ایساکریں کہ مسودے کا بل بنادیں، آپ کو ادائیگی کرادی جائے گی۔‘‘
’’جی‘‘! میرے منھ سے بہت لمبا جی نکلا۔ مارے حیرت اورخوشی کے کچھ کہا ہی نہ گیا، کہیں تو مسودہ پڑھ ہی نہیں رہے تھے، کہاں مسودے کا بل مجھ سے بنوارہے تھے۔ آگے چل کر اشتیاق احمد لکھتے ہیں ’’میرے دل سے منوں بوجھ ہٹتا محسوس ہوا،اس سے پہلے سعیدلخت صاحب کے بارے میں نہ جانے کیا کیا سوچتارہا تھا ، اب وہ فرشتہ نظر آئے، یہ کتنی بڑی اورانصاف کی بات تھی کہ اُنھوں نے جب یہ دیکھا کہ میرا لکھا ہواناول آستین کا سانپ اس قابل ہے کہ اسے شائع کیا جائے توفوراً ہی اس کا اظہار کردیا، اس سے پہلے اُنھوں نے پڑھ کرنہیں دیکھا تھا، اس لیے وہ مجھے پندرہ دن کی تاریخ دیتے رہے۔‘‘ ۳۴
مدیر ہونے کے ناتے بڑے بڑے ادیبوں اور قلم کاروں کی تحریروں کی نوک پلک اور زبان و بیان سیدھے کرتے کرتے ۱۵ نومبر ۲۰۱۴ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۳۵۔ویسے تو آپ کی باقی کتب بھی نہایت عمدہ ہیں ،مگرحافظ جی آج بھی روزِ اول کی طرح مقبولیت کے عروج پر ہے۔تعلیم وتربیتمیں نہ صرف سیکڑوں کہانیاں لکھیں، بلکہ کئی بہترین مضامین لکھ کر تعلیم وتربیت کا معیار بہتر بنایا۔بلاشبہ اس رسالے کی کامیابی میں سعید لخت صاحب کا بہت بڑا کردار ہے۔
ان کی کہانی جگنو اور بندرسے یہ دل چسپ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
دوسرے دِن شام کو جنگل میں سب جانور اُس جگہ جمع ہوگئے۔ یہ ایک بڑا سا میدان تھا، جس کے چاروں طرف گھنے درخت تھے۔اتنے میں خوں خوں کی آواز آئی اور جانوروں نے دیکھاکہ وہی بندر ہاتھ میں ایک موٹا سا ڈنڈا پکڑے آ رہا ہے۔ اُس نے چِلاّ کر کہا:
’’کہاں ہے وہ جگنو کا بچہ؟ ہمت ہے تو سامنے آئے۔ ایسا مزہ چکھائوں گا کہ عمر بھر یاد رکھے گا۔‘‘
’’میں یہاں ہوں!‘‘ جگنو کی آواز آئی۔ وہ جھم جھم چمکتا بندر کی طرف آ رہا تھا۔
پھر جگنو نے پوچھا:’’اکیلے ہی آئے ہو؟ ساتھی کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ بھی آ رہے ہیں۔‘‘ بندر نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’وہ دیکھو!‘‘
جانوروں نے دیکھا، نناوے بندر ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے پکڑے میدان کی طرف آ رہے ہیں۔
’’اب جگنو کی خیر نہیں۔‘‘ ایک گیدڑ بولا۔
’’اِ س کے لیے تو ایک ہی بندر کافی تھا۔‘‘ لومڑی بولی۔’’اِتنے سارے بندر کیوں آ گئے؟‘‘
سب جانور بڑا ساگھیرا بنا کر بیٹھ گئے اور بیچ میں جگنو اور بندروں کے لیے جگہ چھوڑ دی۔
’’ٹھہرو!‘‘ بندر بولا۔
’’پہلے کسی کو ریفری مقرر کر لو۔ وہ فیصلہ کرے گا کہ کو ن جیتا، کون ہارا؟‘‘
’’میں فاختہ کا نام تجویز کرتا ہوں۔‘‘ جگنو بولا۔
تمام جانوروں نے ایک آواز ہو کر کہا:’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘
فاختہ اْڑتی ہوئی میدان میں آئی اور بولی:’’بندر دائیں طرف ہو جائیں، اور جگنو بائیں طرف۔‘‘
جگنو اور بندروں نے اپنی اپنی جگہ سنبھال لی تو فاختہ نے زور سے کہا:
’’ریڈی…!‘‘
بندروں نے ڈنڈے اْوپر اْٹھائے، اور حملے کے لیے تیار ہوگئے۔
’’ایک۔۔۔‘‘ فاختہ نے کہا۔ بندر ڈنڈے لہراتے ہوئے دو قدم آگے آگئے۔
’’دو۔۔۔‘‘ فاختہ بولی۔ بندر دو قدم اور آگے آ گئے۔ اُن کے سامنے جگنو اُڑرہا تھا، اُس کی دُم چمک رہی تھی۔
’’تین۔۔۔‘‘ فاختہ نے زور سے کہا اور اِس کے ساتھ ہی سو کے سو بندر خوں خوں کرتے، ڈنڈے لہراتے جگنو کی طرف دوڑے۔ جگنو جلدی سے ایک بندر کی ناک پر بیٹھ گیا۔ بندروں نے تاک تاک کر اُس کی ناک پر ڈنڈے مارے۔
جگنو تو اُڑگیا لیکن اُس بندر کی ناک کا کچومر نکل گیا۔ وہ زمین پر لیٹ کر ہاے ہاے کرنے لگا۳۶۔
اے حمید:
اے۔حمید کا اصل نام عبدالحمیدہے۔ان کا شمار اُردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں ہوتا ہے۔ اُنھوں نے دو سو سے زیادہ افسانے، ناول اور ڈرامے لکھے۔ ان کی پیدائش ۲۵ ؍اگست ۱۹۲۸ء کو امرتسر میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد پرائیویٹ طور پر ایف اے پاس کرکے ریڈیو پاکستان سے بطوراسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئے۔ جہاں ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر اور ریڈیو ڈرامے لکھنا شامل تھا۔ ۱۹۸۰ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر امریکا چلے گئے اور وائس آف امریکا میں پروڈیوسر کی نوکری اختیار کی لیکن جلد ہی وہاں کی زندگی کے ہنگاموں سے اکتا کر پاکستان لوٹ آئے اور زندگی کے آخری لمحوں تک فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے رہے۳۷۔
اے۔حمید کا پہلا افسانہ منزل منزل۱۹۴۸ء کو ادب لطیف میں شائع ہوا۔ ابتدائی کہانیوں سے ہی ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا تھا۔ نوے کی دہائی میں اُنھوں نے بچوں کے لیے ایک سلسلہ وار ڈراما عینک والاجنکے نام سے لکھا۔ اس ڈرامے نے بچوں سمیت بڑوں میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ اے۔ حمیدکی ساری کتابوں کی تعداد دوسو سے زیادہ ہے۔ جن میں سب سے زیادہ اُنھوں نے بچوں کے لیے ناول لکھے۔ ان ناولوں میں:
سومنات کے بت شکن ،سرینگر کے شیردل کمانڈو ،لکشمی پور کی ناگن دْرگا ،دہشت زدہ ،آسیب زدہ تابوت ،دلی کا پراسرار سادھو ،گنگا کے پجاری ناگ،کشمیر کے آتش فشاں ،رنگوں سے فرار ،ٹاپ سیکرٹ مشن شامل ہے۳۸۔
اے حمید ۲۹ ؍اپریل ۲۰۱۱ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۳۹۔یوں تو اے حمید کا لکھا گیا ڈراما عینک والاجن نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا لیکن ان کی عنبر ناگ ماریا سیریز نے اپنے پڑھنے والوں کے ذوقِ تجسس کو خوب اْبھارا۔ اس سیریز کے ناولوں نے اپنے پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
بچوں کے اس قسط وار ناول کا ہیرو عنبر پانچ ہزار سال سے زندہ ہے۔ قبرستان میں ایک جادوگر نے اسے بتایا تھا کہ تم کبھی نہیں مروگے۔ عنبر بادبانی جہاز پر سمندری طوفان کا مقابلہ کرتا سب سے پہلے مردہ روحوں کے جزیرے میں پہنچتا ہے۔ یہاں ایک لڑکا ناگ اس سے آن ملتا ہے۔ وہ اصل میں ایک سانپ ہے اور جب چاہے لڑکا بن جاتا ہے۔
ماریا ایک ایسی لڑکی ہے جو اہرام مصر کے ایک تہہ خانے کی قبر سے اُسے ملتی ہے۔ وہ جادو کے اثر سے غائب ہے۔ وہ سب کو دیکھتی ہے مگر اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ تینوں بہن بھائی بن کر اپنے حیرت انگیز، پراسرار اور خوفناک سفر پر نکلتے ہیں۔ بادشاہ مرجاتے ہیں مگر وہ تینوں زندہ رہتے ہیں۔
یہ قسط وار ناول انسان کی ہزاروں سالہ تاریخ کے ہر دروازے سے گزر کر آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔تین سو قسطوں میں ایک مکمل اور سنسنی پیدا کرنے والی داستان۔ ہر ناول ایک مکمل دلچسپ اور پُراسرار کہانی ہے۔ جیتے جاگتے کرداروں پر مشتمل حیرت انگیز، سنسنی خیز اور پُراسرار تاریخی کہانی کے ہر ناول کا پلاٹ الگ تھلگ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ناول میں تاریخی کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ خلائی تختی کا راز اس سیریز کا۱۸۳ واں ناول ہے۔ اس ناول میں موجود اس ٹکڑے میں کہانی کے مرکزی کردارتھیو سانگ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے سپہ سالار کی نظروں میں آجاتا ہے۔ تھیوسانگ کی غیر معمولی قابلیتوں کا اندازہ بھی اس سے لگایا جاسکتا ہے۔
تھیوسانگ کو یوں محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے اس نے ایک مست ہاتھی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو سمجھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ہاتھی نے آتے ہی تھیوسانگ کے جسم پر زور سے اپنی سونڈ ماری۔ سونڈ ایک گرز کی طرح تھیوسانگ کے جسم پر پڑی مگر تھیوسانگ تو خلائی آدمی تھا۔اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔بلکہ اُلٹاہاتھی کی سونڈ درد کرنے لگی مگر ہاتھی ہاتھی ہی ہوتا ہے۔اس نے آگے بڑھ کر اپنی ٹانگ تھیوسانگ کو ماری۔ کھمبا اکھڑ گیا۔ تھیوسانگ کھمبے کے ساتھ ہی زمین پر گر پڑا۔ اب تھیوسانگ کو احساس ہوا کہ ہاتھی اسے جان سے مار ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تھیوسانگ کو بھی غصہ آگیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے زنجیروں کو توڑ ڈالا اور ہاتھی کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ تھیوسانگ بالکل خاموش تھا۔ مست ہاتھی نے اپنے شکار کو اپنے سامنے دیکھا تو طیش میں آکر اس کو سونڈ میں جکڑ کر اْٹھالیا اور زور سے صحن کے کچے فرش پر دے مارا۔ جلاد اور اصطبل کے دوسرے لوگ پہلے ہی حیران تھے۔ اب اْنھوں نے دیکھا کہ ہاتھی نے پوری طاقت سے تھیوسانگ کو زمین پر دے مارا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا ہے تو ان کی مارے حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
تھیوسانگ نے ایک چھلانگ لگائی اور ہاتھی کے سر پر آکر بیٹھ گیا۔ہاتھی زور سے گھوما کہ اس طرح سے تھیوسانگ نیچے گر پڑے گا مگر تھیوسانگ تو جم کر بیٹھا ہوا تھا۔ اب تھیوسانگ پر چوں کہ طلسمی کیل کا اثر تھا اس واسطے وہ ہاتھ لگانے سے کسی کو چھوٹا نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کی طاقت اس کے پاس ہی تھی بلکہ اب طاقت کچھ زیادہ ہی آگئی تھی۔ تھیوسانگ ہاتھی کی سونڈ پکڑ کر نیچے آگیا۔سامنے سنگ مر مر کا ایک بہت اْونچا اور مضبوط کھمبا تھا۔ تھیوسانگ ہاتھی کو سونڈ سے کھینچتا ہوا اس سنگ مر مر کے ستون تک لے آیا پھر اس نے سونڈ کو ستون کے ساتھ ایک بل دے کرباندھ دیا۔ ہاتھی نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سونڈ کو کھمبے میں سے نکال لے اور کھمبے کو گرادے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ ہاتھی غصے سے چنگھاڑنے لگا۔ جلاد اور دوسرے آدمی ڈر کر اِدھر اْدھر چھپ گئے کہ یہ اتنا طاقتور آدمی کوئی جن بھوت ہی ہوسکتا ہے۔ تھیوسانگ نے حلق سے ایک عجیب سی جانوروں جیسی آواز نکالی، ہاتھی کے پیٹ میں اْچھل کر اتنی زور سے فلائنگ کک لگائی کہ ہاتھی کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں باہر آگئیں۔ ہاتھی نیچے گر پڑا اور مرگیا۴۰۔
معراج:
معراج صاحب کا پورا نام خواجہ محمد عارف تھا۔ خواجہ محمد عارف کے والد خواجہ محمد حنیف صاحب سرگودھا کے رہنے والے تھے، لیکن معراج صاحب ۱۹۴۰ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ۱۹۵۱ء میں کراچی آئے اور جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر کے ۱۹۶۹ء سے کالج میں پڑھانے لگے۔ معراج صاحب ریاضی کے استاد تھے۔ اپنے ساتھی استادوں اور شاگرد طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ وہ ایک سادہ اور فرض شناس انسان تھے۔ معراج صاحب اردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ بچوں کے لیے آپ نے جو بھی لکھا وہ اپنے قلمی نام ’معراج‘ہی سے لکھا۔ معراج صاحب نے اپنے بڑے بیٹے ’’ندیم عارفی‘‘ کے نام سے بھی کچھ کہانیاں لکھی تھیں۴۱۔
آپ کی سب سے پہلی کہانی جون ۱۹۶۶ء کو نوشیرواں کا تختکے نام سے نونہال میں شائع ہوئی تھی۔ بچے اُن کی کہانیاں بہت شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں کی زبان آسان اور جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اُن کا طرزِ تحریر سب سے الگ تھا۔ کالج میں پڑھاتے ہوئے ابھی آپ ریٹائر نہیں ہوئے تھے کہ ۲۸ مارچ ۲۰۰۰ء کو آپ کا انتقال ہوگیا۔
ہمدرد فاؤنڈیشن نے ان کی تین کتابیں چالاک خرگوش کے کارنامے، چالاک خرگوش کی واپسی اورعلامہ دانش کے کارنامے شائع کی ہیں۔ معراج صاحب نے متعدد تراجم کیے۔ ترجمہ اُنھوں نے اس عمدگی سے کیا کہ وہ کردار مقامی لگنے لگے۔تحریر سے بالکل اندازہ نہیں ہوپاتا کہ وہ ترجمہ ہے یا طبع زاد۔اگر ہمدرد نونہال کے مشہور قلم کاروں کی فہرست بنائی جائے تو لامحالہ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہوگا۴۲۔
ذیل میں ان کی کہانی نارنجی بیل سے ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔
میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلے میں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اُس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی نارنجی رنگ کا کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔
میں نے اسے کیچوا سمجھا اِس لیے اُس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ! ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنھیں میں کیڑے سمجھ رہا تھا وہ تو عجیب سی بیلیں تھیں۔
میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں بڑھنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے، لیکن ہمارے جہاز کے اِرد گرد جو نارنجی رنگ کی بیل اُگ رہی تھی اُس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔
پہلے تو میں کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟
دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہوگئیں۔ اب کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔پھر اچانک مجھے ہوش آگیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آزونا کو وہم نہیں ہوا تھا۔اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ دراصل اِن بیجوں کا چھڑکاؤ تھا، جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔
جب یہ بیج زمین پر گرے تو انھوں نے جڑ پکڑلی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جارہی تھیں۔
تھوڑی دیر میں ہی یہ جہاز کو اپنی لپیٹ میںلے لیں گی اور پھر اُس کا اڑنا ناممکن ہوجائے گا۔
میں نے گھبرا کر بے ساختہ ایک چیخ ماری ،جسے سن کر سب ہڑبڑا کر بیدار ہوگئے اور میری طرف دوڑنے لگے۔
اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آرہی تھی۔
ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔
ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اُکھاڑ اُکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا، لیکن اِدھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے،اُدھر وہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔
مرشد چلا کر بولا: ’’جہاز پر سوار ہوجاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنی ہے۔‘‘۴۳
بیگم ثاقبہ رحیم الدین:
بیگم ثاقبہ رحیم الدین ۱۹۴۰ء کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئیں۴۴۔آپ کا تعلق معروف علمی وادبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد ڈاکٹر محمد حسین ۱۹۴۸ء میں وفاقی وزیر تعلیم کے علاوہ ڈھاکہ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں۴۵۔آپ نے افسانوں، کالموں، مضامین کے علاوہ بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔بچوں کے لیے اب تک نو۹ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں :
صبح کا تارا، جاگو جاگو پاکستان، دوستو چلے چلو، سورج ڈھلے، کرنیں، چاند نکلا، گلاب، بادل جھومے، نیند آئی شامل ہیں۴۶۔
ثاقبہ رحیم الدین اپنی کہانیوں میں بچوں سے باتیں کرتی ہیں اور کسی دادی اماں کی طرح کہانی سناتی ہیں، ان کہانیوں کے بیچ بیچ میں وہ اُنھیں نصیحتیں بھی کرتی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک روایتی انداز ہے اور اب کہانی کے فارمیٹ میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود ایسی کہانیاں بچوں کا سنا کر ان سے نتائج اخذ کروائے جاسکتے ہیں۔ البتہ بچہ جب خود ایسی کہانیاں پڑھتا ہے تو تجسس اور تحیر ان تحریروں میں نہ پاکر مایوس ہوجاتا ہے۔
ثاقبہ رحیم الدین نے بچوں کے لیے بہت ساری کہانیاں اور مضامین لکھے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی تحریروں کے ذخیرے کا اندازہ ان کی کہانیوں کے مجموعوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی انجو منجو کے نام سے لکھی گئی تحریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
پیارے منے دوستو! جب سے دنیا بنی ہے۔ بچوں نے ہمیشہ بے زبان جانوروں اور پرندوں سے پیار کیا ہے اور دوستی کی ہے۔ انجو اور منجو کو کھیر تھر پارک بہت اچھا لگتا تھا۔ وہاں اڑیال، چنکارا، چیتا، لومڑی، گیدڑ اور پہاڑی بکرے (آئی بیکس) رہتے تھے۔ رنگا رنگ پرندوں کے چہچہانے سے خوب صورت سماں رہتا تھا اور ہمیں تو یوں لگتا تھا کہ چڑیوں کے گانوں سے سورج بھی جلد سو کر اُٹھ جایا کرتا تھا۔
انجو، منجو کی ایک پہاڑی بکرے سے بڑی دوستی تھی۔ وہ پہاڑی بکرا بھی ان کا دوست بن گیا تھا۔ انجو اور منجو دوڑ کر اس کے پاس جاتے، مگر وہ ہمیشہ پہاڑی کی چوٹی یا کسی چٹان پر کھڑا رہتا تھا۔ وہ ہر ایک سے گھبراتا تھا، مگر انجو، منجو کو دیکھتا تو سر ہلاتا اور آوازیں نکالتا تھا۔ منجو کبھی اس کی طرف روٹی پھینک دیا کرتا تھا۔ دیکھو بھئی ہے تو عجیب سی بات، مگر یہ پہاڑی بکرا دونوں لڑکوں کا گہرا دوست بنتا چلا گیا۔
ایک دن کیا ہوا۔ صبح چار بجے کا وقت تھا کہ اچانک ریت کا طوفان آیا۔ مولی بخش اپنی بالٹی اٹھائے اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا۔ ذرا کی ذرا دیر میں ہر طرف اندھیرا ہو گیا۔ وہ تیز چلنے لگا، مگر ایک بہت پرانا بڑا درخت ٹوٹ کر دھڑ سے مولی بخش پر گر گیا۔ وہ منھ کے بل زمین پر گرا، اس کی ٹانگوں سے خون نکلنے لگا۔ وہ چلایا: ’’ہائے میری ٹانگیں، ہاے میری ٹانگیں۔‘‘
دونوں لڑکے انجو، منجو سو رہے تھے۔ وہ جب طوفان کی آواز سے اٹھے تو اپنے بابا کو نہ پا کر آوازیں دیتے ہوئے دوڑے۔ ان کی آنکھوں اور کانوں میں ریت بھر گئی۔ ان کو کچھ نہ سوجھتا تھا۴۷۔
اشتیاق احمد:
اشتیاق احمد بچوں کے معروف ناول نگار تھے۔ وہ۵جون ۱۹۴۴ء میں ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیدا ہوئے ۴۸ ۔تقسیم پاک و ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر جھنگ میں قیام کیا۔ آپ نے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی اور ۸۰۰ سے زائد جاسوسی ناول لکھے۔ وہ اُردو میں سب سے زیادہ بچوں کے ناول لکھنے والے ادیب ہیں۴۹۔ روزنامہ اسلام کے ساتھ شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالہ بچوں کا اسلام کے وفات تک مدیر رہے، ہفت روزہ کے ساتھ ۱۵ سال تک ان کی وابستگی رہی۔ پہلی کہانی ہفت روزہ قندیل میں بڑا قد کے نام سے ۱۹۶۰ء میں شائع ہوئی۔ جب کہ آپ کا پہلا ناول پیکٹ کا راز تھا، جس دور میں آپ نے لکھنے کی ابتدا کی اس دور میں ٹارزن وغیرہ کے کردار کی حامل کہانیاں و ناول ہی مصنفوں کے تصنیفی میدان کا محور تھے، تاہم آپ نے ناولوں میں عالمی ریکارڈ پانے کے باوجود ان چیزوں سے اجتناب برتا۔ اشتیاق احمد نے جاسوسی ناولوں کے علاوہ خودنوشت اور بچوں کے لیے کہانیاں اور رسالے بھی لکھے۔ مگرآپ کی وجہ شہرت جاسوسی ناول بنے۵۰۔
اشتیاق احمد بیک وقت تین سیریز پر مشتمل ناول لکھا کرتے تھے جن میں جمشید سیریز، کامران سیریز اور شوکی سیریز شامل تھیں۔ مہینے میں عموماً جمشید سیریز کے دو ناول، کامران سیریز اور شوکی سیریز کا ایک ناول شائع ہوتا تھا۔ چھہ ماہ یا سال کے بعد ایک خاص نمبر آیا کرتا تھا جس میں انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران اور شوکی برادران شامل ہوتے تھے اور یہ خاصہ ضخیم ناول ہوتا تھا۔جاسوسی ناولز میں انسپکٹر جمشید سیریز ، شوکی برادرز کو مقبولیت ملی۔ آخری عمر میں عمران سیریز پر بھی ایک ناول عمران کی واپسی لکھا۵۱۔
ناولز میں بھی اُنھوں نے خاص نمبرز کی روایت ڈالی۔ان خاص نمبرز میں جیرال کا منصوبہ، بلیک ہول،برف کے اس پار،ڈسکاؤنٹ پرائز،دنیا کے اس پار،سونے کا جہاز ، خزانے کی روح،آخری سمندر، بلیک ہول، جیکان کی واپسی،سرلاس،یوڈا پر حملہاورجھیل کی موت شامل ہے۔
اشتیاق احمد کے جاسوسی ناولوں کی سب سے مقبول سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے جس کے مرکزی کرداروں میں انسپکٹر جمشید، ان کے بچے محمود ، فاروق ، فرزانہ اور دوست خان رحمان ، سائنس دان پروفیسر داؤد شامل ہیں۔جب کہ آپ نے بچوں کے مختلف رسائل میں سیکڑوں کہانیاں بھی لکھیں۔
اشتیاق احمد کراچی کتب میلے میں شرکت کرنے کے بعد واپس اپنے آبائی شہر جھنگ جا رہے تھے کہ کراچی ایئرپورٹ پر حرکت قلب بند ہوجانے کی صورت میں انتقال کر گئے۵۲۔
چاند کا نشان
’’ اس کے چہرے پر چاند کا نشان ہے۔‘‘
’’ چاند کا نشان؟‘‘ سرور غنی نے حیران ہو کر اختر نذیر کی طرف دیکھا ، کیونکہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ آخر اس نے کہا: ’’میں سمجھا نہیں! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اس کے چہرے پر چاند کا پیدائشی نشان ہے …جو چھپاے نہیں چھپتا، مطلب یہ کہ اگر وہ کسی طرح یا کسی چیز سے اس نشان کو چھپانا چاہے، تو بھی نشان نظر آتا رہے گا … اس نشان میں ایک باقاعدہ چمک ہے … اس چمک کی وجہ سے نشان دور سے نظر آجاتا ہے … اب بات سمجھ میں آگئی؟‘‘ اختر نذیر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’جی ہاں بالکل…اب آپ تفصیل بتائیں … اس نوجوان کی تصویر بھی دکھا دیں… تو بہتر ہوگا … اور بھی اس کے بارے میں جو باتیں آپ جانتے ہیں…میں وہ سب جاننا چاہوں گا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں… میں آپ کو تصویر دکھائوں گا ،باقی معلومات بھی دوں گا لیکن پہلے معاملہ طے ہو جائے تب۔‘‘
’’ آپ صر ف یہ چاہتے ہیں نا کہ میں آپ کے لیے اس نوجوان کو تلاش کروں …‘‘
’’ ہاں ! یہی بات ہے۔‘‘
’’اور آپ اس کام کا مجھے کتنا معاوضہ دیں گے؟‘‘ سرور غنی نے پوچھا۔
’’ اپنی فیس بتانا آپ کا کام ہے… یہ دیکھنا میرا کہ فیس مناسب ہے یا مجھے کوئی بات کرنی چاہیے۔‘‘
’’اچھی بات ہے … فیس بتانے سے پہلے میں یہ گارنٹی چاہوں گا کہ نوجوان ملک میں ہی ہے… ملک سے باہر نہیں چلاگیا۔‘‘
’’اس کے ملک سے باہر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… وہ اپنے ملک سے باہر جانے کے نام سے بھی گھبراتا ہے… لہٰذا میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہے ملک ہی میں… لیکن شہر سے باہر ضرو ر ہو سکتا ہے … بلکہ نہ جانے کون سے شہر میں ہو۔‘‘
’’اس کی آپ فکر نہ کریں … وہ ملک کے جس شہر میں بھی ہوگا… میں وہاں پہنچ جائوں گا… اس کام میں کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھہ ماہ لگ سکتے ہیں، اس سے کم تو لگ سکتے ہیں… زیادہ نہیں ،گویاآپ کو چھہ ماہ کا انتظار تو کرنا ہوگا۔‘‘
’’کوئی پروانہ نہیں … میں کر لوں گا۔‘‘
’’ آپ اس نوجوان کو کیوں تلاش کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’وہ میرے دو عدد ہیرے چرا کر بھاگا ہے… مجھے اپنے دونوں ہیرے اس سے حاصل کرنے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ سرور غنی کے منھ سے نکلا۵۳۔
ڈاکٹر محمدافتخار کھوکھر:
پاکستان میں جب بھی بچوں کے اَدب کی ترویج کی بات ہوگی، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کے نام کے بغیر مکمل نہ ہوگی۔ آپ ۱۷ دسمبر ۱۹۵۲ء کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے تاریخی قصبے کلاس والا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سب سے اہم کارنامہ بچوں کے لیے پیغام ڈائجسٹ کا اجرا ہے، جو کلاس والا سے شروع کیا گیا۵۴۔
آپ نے۱۹۹۵ء میں پی ایچ ڈی بعنوان پاکستان میں دینی صحافت کا کردار (۱۹۲۹ئ۔۱۹۸۸ئ) کا مقالہ مکمل کیا ۵۵۔ آپ دعوۃ اکیڈمی کے ’’شعبہ بچوں کا ادب‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔یہی وہ عرصہ تھا جسے اِس شعبے کاسنہری دور کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ نے اس دور میں نئے اور پرانے ادیبوں کی تربیت کے لیے دعوہ اکیڈمی کے تحت متعدد تربیت گاہوں اور کیمپوں کا انعقاد کیا اور قابل ستائش بات یہ ہے کہ ملک کے دور دراز اور چھوٹے شہروں میں بھی اِن تربیت گاہوں کا انعقاد کیا گیا جن میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے دور دراز علاقے کے شامل ہیں تاکہ وطن عزیز کے ہر کونے کے نوآموز قلم کاروں کو نکھار کر سامنے لایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے بہت سے جانے پہچانے قلم کار برملا یہ بات کہتے ہیں کہ وہ افتخارصاحب کے لگائے ہوئے وہ پودے ہیں جو اب درخت بن چکے ہیں۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ننھے پھول،کامیابی کا راز ،پچھتاوا ،روشنی، اقبال کہانی، لہو رنگ پکنک، نور پور، قائد کہانی، ظلم کا بدلہ، صحرا کا جہاز، وعدہ، تیرتی قبر، شامل ہے لیکن آپ کا خاص طور پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ناول اُجالا بے حد معروف ہے۵۶۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی، اقبال کہانی کے حوالے سے اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر افتخار کھو کھر اور بچوں کا اسلامی، دینی اور ملّی اَدب اب لازم وملزوم بنتے جارہے ہیں۔ کھو کھر صاحب نے گزشتہ دو عشروں کے دوران بچوں کے اَدب پر اتنا کام کیا ہے کہ اب اُردو کی ’’ تاریخ ادبیات اطفال‘‘ میں ان کا ایک مقام بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں اور بہت سے شعبوں کے علاوہ یہ اہم شعبہ بھی ایک عرصہ تک بے توجہی کا شکار رہا۔ پورے ملک میں صرف سعیدملت حکیم محمد سعید، میرزا ادیب اور اشتیاق احمد کے علاوہ ہمدرد نونہال اور تعلیم وتربیت کے لکھنے والوں نے چالیس سال یہ اہم ذمہ داری نبھائی اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا۔
افتخار کھو کھر اسی روایت کے امین ہیں۔ اْن کے ہاں حکیم محمد سعید جیسی مقصدیت، میرزا ادیب جیسا فنی اسلوب اور اشتیاق احمد جیسی آسان اور رواں زبان یکجا ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں کھو کھر صاحب کی تحریریں دن بدن مقبول ہورہی ہیں۔ ان کی درجنوں تحریروں میں بہت سی انعام یافتہ کتب بھی شامل ہیں۔ بعض کتابوں کے ایک ایک درجن ایڈیشن نکل چکے ہیں جن سے ان کتابوں کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۵۷۔
پاکستان میں بچوں کے ادب پر ہونے والا تنقیدی کام ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کی مرہون منت ہے۔ اُنھوں نے اس حوالے سے جو کام کیا ہے، اب تمام محققین اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
دارالسلام سے شائع ہونے والی ان کی کتاب صحرا کا جہاز کا یہ ٹکڑا دیکھیے کہ جس میں وہ اُونٹ کے حوالے سے تفصیلات کو کہانی کی صورت میں بیان کررہے ہیں۔ یہ ان کا ایک خاص اسلوب ہے، اُجالا،خزانے کی تلاش سمیت متعدد ان کی تحریریں ایسی ہیں جس میں وہ اہم معلومات کو ناول، یا کہانی کی صورت میں بیان کررہے ہیں۔اس کا عکس اس تحریر میں دیکھیے:
’’بھئی لڑتے نہیں اگر لڑو گے تو میں اپنی بات ختم کردوںگا۔‘‘ماموں جان نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’ماموں جان! میں اب ایسا نہیں کروں گا۔‘‘راشد نے معذرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں آپ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ۔۔۔‘‘مامو ں جان نے بات دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا۔’’اونٹ عجیب طرز زندگی رکھنے والا جانور ہے۔ کھانے پینے کے انداز دوسرے جانوروں سے مختلف ہیں۔اگر ہم اس تین میٹر لمبے اور اڑھائی میٹر اُونچے جانور کی ساخت پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ چوبیس کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے اور معمولی چال پر آئے تو ایک منٹ میں بیس قدم کا فاصلہ طے کر تا ہے۔اسی لیے اسے ’’صحرائی جہاز ‘‘ کہتے ہیں۔اس کے پانی پینے کا الگ ہی اندازہے۔ اگر پانی نہ ملے تو تیس دن تک بغیر پانی پیے چلتا رہے گا۔ مگر جب پانی پینے پر آئے گا تو دس منٹ میں ۱۳۵ لیٹر سے زیادہ ایک ہی سانس میں پی جائے گا۔‘‘
ماموں جان ذرا دیر کے لیے رُکے تو مریم نے کہا:’’ماموں جان! میں نے سنا ہے کہ قرآن مجید میں صالح علیہ السلام کی اُونٹنی کے متعلق آتا ہے کہ وہ اتنا زیادہ پانی پیتی تھی کہ ایک دن قوم ثمود کے لوگ پانی استعمال کرتے تھے، جب کہ دوسرا دن صرف اُونٹنی کے لیے ہوتا تھا، کیا یہ بات سچ ہے؟‘‘۵۸
کلیم چغتائی:
کلیم چغتائی کا پورا نام کلیم اللہ بیگ چغتائی اور قلمی نام کلیم چغتائی ہے۔ آپ ۹ جون ۱۹۵۴ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کراچی سے آپ نے ایم اے صحافت اور ایم ایس سی بایو کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ اگست ۱۹۷۷ء میں بچوں کے لیے باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا۔ ا دبِ اطفال میں آپ ۲۰ مقبول کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ پیامی کے پہلے مدیر رہے ہیں، جس کا نام بعد میں تبدیل کرکے ماہنامہ ساتھی کردیا گیا۵۹، اس کے علاوہ ماہنامہ خوشیاں کے مدیر اعلیٰ بھی رہے ہیں۔ بین الاقوامی ماہنامہ رابطہ، روزنامہ جسارت، ہفت روزہ وقت میں بھی ادارتی اُمور سرانجام دیے ہیں۔ آپ کی کہانی بے خبرلوگکو ۱۹۹۹ء میں یونی سیف نے بہترین کہانی کا ایوارڈ دیا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان اور پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے سہہ ماہی تحقیقی جرائد میں آپ ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۶۰۔
بچوں کے رسائل، ماہنامہ تعلیم وتربیت، آنکھ مچولی، پھول، پیغام ڈائجسٹ اور ماہنامہ ساتھی میں آپ نے سیکڑوں کہانیاں لکھیں۔ اسی طرح کئی اخبار وجرائد میں اَدب، تاریخ، سائنس، سیاحت پر آپ کی درجنوں تحریریں موجود ہیں۔ آپ شاعر بھی ہیں۔ بچوں کے لیے آپ نے کئی نظمیں تحریر کیں، آپ کی نظم جلدی میاں کو قارئین کی طرف سے کافی پذیرائی ملی۶۱۔
آپ نے مختلف شخصیات اور واقعات پر جو مضامین تحریر کیے ، اُنھوں نے بچوں کے ادب میں اسلامی مضامین لکھنے کی کمی پوری کی۔ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والے ان کے مضمون فاتح قادسیہ کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جب مجوسیوں (اہل فارس) نے لڑنے کے لیے ایک بڑی فوج تشکیل دی تو ان سے مقابلے کے لیے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلمانوں کا سپہ سالار مقرر کیا۔ اس فوج نے قادسیہ کے مقام پر تاریخی جنگ ’’جنگ قادسیہ‘‘ لڑی جس میں فتح کے نتیجے میں پورے عراق اور عرب پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح ایران کہلائے جانے لگے۔
جنگ قادسیہ میں اللہ نے دو لاکھ مجوسیوں کے مقابلے میں تیس ہزار مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بابل تک، دشمنوں کا پیچھا کیا۔ مختلف علاقے فتح کرتے ہوئے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دارالحکومت مدائن تک جا پہنچے۔ مسلمانوں کے لشکر اور مدائن کے درمیان صرف دریا دجلہ حائل تھا۔ دشمنوں نے دریا پر بنے تمام پل توڑ دیے تھے تاکہ مسلمان اسے پار نہ کرسکیں مگر حضرت سعد بن ابی وقاص نے اس موقع پر بے حد جرأت سے کام لیا اور اللہ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریا میں اُتاردیا۔ امیر لشکر کا دریا میں اُترنا تھا کہ سارا لشکر ان کے پیچھے دریا میں کود پڑا۔ دریا میں بارش کی وجہ سے طغیانی تھی مگر سارا لشکر دریا کی تند موجوں سے لڑتا ہوا دریا پار پہنچ گیا۔ مجوسیوں نے دیکھا تو وہ دہشت زدہ ہوگئے اور ’’دیو آگئے دیو آگئے‘‘ کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔
’مدائن‘ کی فتح کے بعد حکمران کسریٰ کے دیوان میں اذان دی گئی اور پہلی بار یہاں جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔ ادھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغام بھیجوایا کہ اب آگے بڑھنے کے بجاے علاقے کے انتظامات درست کیے جائیں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امور مملکت کو بہت عمدگی سے چلایا۔ پورے علاقے کی زمین کی پیمائش کروائی۔ لگان اور جزیہ کے اصول بنائے۔ مدائن میں ایک جامع مسجد تعمیر کروائی۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے نیا شہر کوفہ آباد کیا۔ ’کوفہ‘ میں چالیس ہزار افراد کے لیے مکانات بنوائے گئے۔ شہر میں ہر قبیلے کی ایک آبادی تھی۔ ہر آبادی کی ایک مسجد تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہر میں چھوٹی چھوٹی نہریں کھدوائیں، پل، مسافر خانے بنوائے، ذاتی سرماے سے کئی مدارس قائم کیے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ کے نتیجے میں ’کوفہ‘ اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی فوجی چھائونی بن گیا۔ ۲۳ ہجری (۶۴۴ئ) میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ وفات سے قبل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے لیے جن صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام تجویز کیے ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ ’کوفہ‘ کا حاکم مقرر کیا۔ تین سال بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے دس میل دور عقیق کے مقام پر رہنے لگے۔ بقیہ عمر آپ ؓنے وہیں گزاری۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد متقی اور صاحب علم صحابی تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو سو پندرہ احادیث روایت کی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ کے خوف سے جسم لرزنے لگتا۶۲۔
محمد سلیم مغل:
محمدسلیم مغل ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۵۵ء کو ڈسٹرکٹ عمر کوٹ کے ایک چھوٹے سے شہر کنری میں پیدا ہوئے ۶۳۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں بی اے اونرز کیا اور ماسٹر جرنیلزم میں کیا۔ پی ٹی وی میں پانچ سال تک اور یونی سیف کا بچوں کے لیے شروع کیے گئے پروجیکٹ ’الف اْجالا‘ کے لیے کام کیا۔ اس عرصے میں ’فائن لائن‘ ادارہ بنایا جو بعد میں ’زومن‘ بنا۔ بچوں کے معروف رسالے آنکھ مچولی کا نام آپ ہی نے تجویز کیا تھا۔ آپ تقریباً دس برس تک آنکھ مچولی میں ادارتی اُمور سرانجام دیتے رہے۶۴۔
اب تک آپ کی دوکتابیں جستجو اوردستک بھی شائع ہوچکی ہیں۔سلیم مغل نے کہانیاں، مضامین، کالم، انٹرویوز، کوئز، امی ابو کے لیے صفحات، افسانے اور نظمیں لکھیں۔ بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی کہانیوں میں بازگشت، پھولوں والی بستی، ماسٹر جی، جھوٹ موٹ کا پاکستان، جھوٹی آس، فرض، بند ڈبہ، وعدہ، سچی خوشی، بخیل کہیں کا، دوستی دشمنی نمایاں ہیں جب کہ آپ کی منظوم کہانی اُداس بچی بھی بے حد مقبول ہوئی، یہ نظم دو بار چند عرصے کے بعد آنکھ مچولی میں شائع ہوئی۶۵۔
بچوں کے لیے آپ نے بچوں کا مشرق، بھائی جان، بچوں کے جنگ میں لکھا۔ آنکھ مچولی کے اجرا کے بعد اس میں تواتر کے ساتھ لکھا۔
ویسے تو آپ نے ہر صنف میں لکھا لیکن بچوں کے لیے لکھے گئے آپ کے مضامین اور انٹرویوز رسالے کو دل چسپ اور معیاری پرچہ بنانے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔ مضمون اور انٹرویوز میں لگا بندھا طریقہ استعمال کرنے کے بجاے وہ قاری سے بے تکلفانہ کلام کرتے ہوئے اسے اپنے اصل مدعے پر لے آتے ہیں۔ کسی کا انٹرویو کریں تو اسے پڑھنے والا اس شخصیت کا پرستار ہوجائے۔ آنکھ مچولی میں شائع ہونے والے متعدد انٹرویوز اور مضامین مقبول ہوئے۔
آنکھ مچولی ہی میں شائع شدہ ان کا مضمون مواصلاتی سیارے: رابطوں کے سفیر دیکھیے:
انائونسر نے علان کیا کہ آئیے ناظرین ہم آپ کو کوریا کے شہر سیؤل لیے چلتے ہیں جہاں سے آپ ایشین گیمز کے مقابلے براہ راست دیکھ سکیں گے، اس اعلان کے چند لمحوں بعد ہی اسکرین پر کوریا کا ایک خوب صورت سا اسٹیڈیم اپنی تمام تر رنگینیوں اور زندگی کی تمام تر علامتوں کے ساتھ اْبھر کر سامنے آجاتا ہے…اور ہم اپنا مطلوبہ پروگرام دیکھنے لگتے ہیں…بظاہر ہر بات کتنی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے ایک تصویر چلتی ہے اور پلک جھپکتے ہی آپ کے ڈرائنگ روم میں رکھے ہوئے ٹی وی کے اسکرین پر نمودار ہوجاتی ہے…‘‘
بلکہ اب تو شاید اس بات پر حیرت بھی نہ ہوتی ہو کیوں کہ ہم ایسے پروگرام دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں اور آئے دن دنیا کے دور دراز ملکوں سے ایسے بہت سے پروگرامز براہ راست دیکھتے رہتے ہیں لیکن فرض کیجیے کہ آج سے سو سال قبل اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے یہ کہتا کہ کچھ عرصے بعد ہم ہزاروں میل دور ہونے والے واقعات کو اپنے گھر میں براہ راست دیکھ اور سن سکیں گے تو یقیناً سننے والا کہنے والے کی دماغی حالت پر شبہ کرتا اور اسے پاگل یا دیوانہ قرار دیتا۔
وہ بات جو آج سے پچاس یا سوسال قبل ناممکنات میں شامل تھی آج سائنسی ترقی کے باعث ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔ آپ سوچتے تو ہوں گے کہ آواز اور تصویر کا یہ سفر جو پل بھر میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیتا ہے کیوںکہ ممکن ہوا!۶۶۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ:
ڈاکٹر رؤف پاریکھ ۲۶؍اگست ۱۹۵۸ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُردو فرہنگ نویس، ماہر لسانیات، مزاح نگار اور کالم نگار ہیں۔ پاریکھ صاحب نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے اُردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اُنھوں نے۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء تک اُردو ڈکشنری بورڈ کراچی کے لیے بطور مدیرِ اعلا کام کیا۶۷۔
انجمن ترقیِ اُردو پاکستان کے تحقیقی جریدے اْردو کے مدیر رہے ہیں۔ مختلف موضوعات پر اُن کی تقریباً ۳۵ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ اُردو میں ایک عرصے تک تدریسی فرائض بھی سر انجام دیے۔ سال ۲۰۱۸ء میں یومِ پاکستان کے موقع پر حکومتِ پاکستان نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ’’ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ پیش کیا۶۸۔
روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار ادبی کالم لکھتے ہیں۶۹۔
تحقیقی مقالہ جات، مزاحیہ مضامین اور تنقیدی تحریروں کے علاوہ بچوں کے لیے آپ نے بہت سی کہانیاں تحریر کیں۔جن میں ہاتھی کی سائیکل، مفت مشورہ، بیگم شیر کی توبہ، درختوں سے پیار کرو، الٰہ دین کا چراغ اور ہم، ہمارے پڑوسی، نازک صاحب کا بکرا، ہرنوٹے نے کہانی لکھی، ایک اوور میں چھے چھکے، قلمی دوستیاور چلتے ہو تو مری کو چلیے شامل ہے۔ آپ نے بچوں کے لیے انگریزی سے اُردو میں بھی کہانیاں ترجمہ کیں۔ دس لاکھ کا نوٹ، پچاس لاکھ کا نوٹ، ہیرے والا شتر مرغاور پہاڑی کے بھوت کے نام سے یہ تراجم مختلف رسائل کے علاوہ ان کی کتاب ہیرے والا شتر مرغ میں بھی شامل ہیں۷۰۔
ایک انٹرویو میںادب سے اپنی دلچسپی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
میرے بڑے بھائی سلیمان پاریکھ اُردو کے رسالے اور کتابیں نہ صرف پڑھتے تھے، بلکہ جمع بھی کرتے تھے۔ وہیں سے مجھے بھی بچوں کے رسالے پڑھنے اور جمع کرنے کی چاٹ پڑگئی۔ پھر بچوں کی کتابیں تقریباً سبھی پڑھ ڈالیں۔بیشتر کرائے پر لے کر۔ ساتویں آٹھویں جماعت سے نونہال اورتعلیم و تربیت میں لکھنا شروع کردیا۔کچھ کہانیاں چھپیں توپھر چل سوچل۷۱۔
رئوف پاریکھ نے بچوں کے مزاحیہ ادب میں اچھا اضافہ کیا۔ ان کا انداز بناوٹی نہیں تھا، وہ بچوں کے لیے بے تکلفانہ لکھتے، چوں کہ مزاح سے اُنھیں خاص شغف تھا۔اس لیے جگہ جگہ وہ اپنے قاری کو مسکرانے یا پھر قہقہہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اُنھوں نے مزاح میں شائستگی کا دامن نہ چھوڑا اور بچوں کے لیے لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ مزاح میں بھی کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے بچے کوئی منفی پیغام لے سکیں۔وہ بچوں کے پسندیدہ ادیب تھے۔ اُن کی کہانی بیگم شیر کی توبہ سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ اپنے زبان وبیان کے ذریعے وہ کہانی کو کتنا دل چسپ بنارہے ہیں۔
شیر نے آنکھیں کھول کر ایک انگڑائی لی اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ گھڑی پر اس کی نظر پڑی تو احساس ہوا کہ نو بج چکے ہیں۔
’’لاحول ولاقوۃ۔‘‘ شیر نے برا سا منھ بنا کر کہا۔
’’کم بخت یہ بھی کوئی زندگی ہے، وقت پر اُٹھو اور دفتر چلے جائو اور ناشتے میں کیا ملے گا؟ اُبلے ہوئے انڈے! آخ تھو…‘‘اس کے بعد وہ اس سنہری زمانے کو یاد کرنے لگا، جب وہ سب بارہ بجے اُٹھتے اور ایک ہرن مار کر اس کا تازہ گوشت ہڑپ کرجاتے۔ اس کے بعد قیلولہ، شام کو دریا پر پانی پی کر جنگل کی سیر کو نکل گئے۔ ہاتھی سے علیک سلیک کی۔ بھیڑیے کو پچکارا، بندر کو دھمکایا اور سیٹیاں بجاتے گھر آگئے۔ واپسی پر بیگم شیر کا شکار کیا ہوا زیبرا یا بارہ سنگھا کھالیا اور کبھی کبھی تو ماسٹر شیر یعنی منے میاں بھی ایک آدھ خرگوش مار لاتے۔
اس زندگی میں واحد خامی یہ تھی کہ کبھی کبھی شکار نہ ملتا تو بیگم شیر خفا ہوجاتیں اور میکے جانے کی دھمکی دے دیتیں۔ اس پر شیر صاحب خوب دھاڑتے اور گرجتے، لیکن اس کا بھی ایک فائدہ ہوتا اور وہ یہ کہ سارے جنگل کے جانور مارے دہشت کے اپنے اپنے ٹھکانوں میں جا دبکتے کہ بادشاہ سلامت غصے میں ہیں۔ یہاں تک کہ پڑوس میں مسز ریچھ بھی لڑائی جھگڑا ختم کرکے بیگم شیر سے دوستی کرلیتیں اور ننھے شیر کے لیے دو دن قبل ادھار دیے گئے شہد کی واپسی کا تقاضا بھی نہ کرتیں۔
اتنے میں بیگم شیر کمرے میں داخل ہوئیں اور غصے سے بولیں: ’’آج دفتر نہیں جائو گے؟ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہو۔ یہ عادتیں اب بھول جائو۔ وہ دن گئے کہ شیر خان ہرن مارا کرتے تھے۔‘‘
شیر اپنے خیالات سے چونکا تو بیگم شیر کہہ رہی تھیں:’’منے کے اسکول کی فیس دینی ہے۔ مجھے پارٹی میں جانے کے لیے نئی ساڑھی خریدنی ہے اور ڈرائیور بھی تنخواہ مانگ رہا ہے۔ تین ہزار رپوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’بیگم تمھیں علم تو ہے کہ آج کل کاروبار مندا جارہا ہے۔ بس اگلے مہینے تک یہ سارے خرچ اٹھا رکھو۔‘‘
شیر نے جواب دیا۔
’’اگلے مہینے تک؟ اور اگلے ہفتے مسز چیتا کی پارٹی میں وہی پرانا سوٹ پہنوں؟ اور لوگ کیا کہیں گے کہ شیر کی بیوی اور ایک ہی سوٹ ہر بار پہن کر چلی آتی ہے۔ یاد ہے ابھی پچھلے ہفتے ہاتھی کی سالگرہ میں بھی میں نے یہی کپڑے پہنے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ لعنت ہے ایسی زندگی پر۔‘‘
’’بھئی میں نے کہا نا کہ مجبوری ہے۔‘‘ شیر نے بے زاری سے جواب دیا اور اس کے بعد شیر اور بیگم شیر میں ایسی لڑائی ہوئی کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے سارے پرندے اُڑگئے۔ سانپ بِل میں گھس گئے۔ بندر درختوں پر چڑھ گئے اور مگرمچھ نے غڑاپ کرکے سر پانی میں ڈالا اور دریا کی تہ میں جا کر دَم لیا۷۲۔
منیر احمد راشد:
منیر احمد راشد ۱۳ فروری ۱۹۶۱ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اُردو اَدب میں ایم اے، کراچی یونیورسٹی سے کیا تھا جس میں اُنھیں پہلی پوزیشن آنے پر گولڈ میڈل ملا۔ آنکھ مچولی میں بطور معاون مدیر خدمات سر انجام دیں۔کچھ عرصہ عثمان پبلک اسکول میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں، ای آر آئی، سی ای آر ڈی، این سی ای وغیرہ اداروں کے بانی رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ انسٹیٹیوٹ فاربیسک ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے نام سے اپنا ادارہ بنایا۔ جہاں نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت کے علاوہ تدریس اساتذہ و معلمات کی خدمات انجام دی جارہی تھیں۷۳۔ تعلیم بالغان پر کیا گیا آپ کا کام بہت مقبول ہوا۔ جگنو سبق اور اذان اُردو سلسلہ کے نام سے کتابیں تعلیم بالغان کے لیے ہی لکھی گئی ہیں۷۴۔
منیر احمد راشد نے آنکھ مچولی کی ادارت کے دوران بچوں کے لیے سیکڑوں کہانیاں اور مضامین بھی تحریر کیے۔ اسی طرح ماہنامہ ساتھی میں آپ نے مشہور زمانہ ناول کمانڈو فور لکھا۔ یہ ساتھی کا طویل ترین ناول تھا۔ جس نے مقبولیت حاصل کی اور اس ناول کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۷۵۔
کمانڈو فور ناول لکھتے ہوئے منیر احمد راشد اپنی کیفیت کچھ یوں بتاتے ہیں:
کمانڈو فور دراصل میرے ایک بہت گہرے اور ذاتی دُکھ کا کتھارسس ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا پاکستان سے میری جذباتی وابستگی ہے۔ مجھے لگتا ہے پاکستان میری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور کیوں نہ دوڑے اس کی بنیادوں میں میرے خاندان کا لہو موجود ہے۔ میں ان دنوں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا جب ۱۹۷۱ء میں جنگ جاری تھی۔ ہم لوگوں نے اسکولوں اور محلوں میں خندقیں کھود کر مورچے بنا رکھے تھے۔ اکثر ہوائی حملے کے خطرے کے پیش نظر دن میں سائرن بجتے رہتے اور راتوں کو بلیک آئوٹ ہوتا۔ ہم لوگ بڑے پرجوش تھے۔ دشمن کو ناکوں چنے چبوادینے کا عزم لے کر ہم سب بچے دن بھر گلیوں میں نعرے لگاتے۔ ریڈیو پر خبریں اور ترانے سنتے۔
۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاک فوج کی بہادری اور کامیابی کی داستانیں ہمارے ذہنوں میں نقش تھیں۔ درسی کتب میں بھی یہی کچھ پڑھا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دن دوپہر میں ایک بھارتی جہاز ہمارے شہر کی فضا میں داخل ہوگیا۔ سائرن بجے کہ لوگ مورچوں اور خندقوں میں پناہ لے لیں لیکن ہمارے جوش کا یہ عالم تھا کہ میں خود مورچے میں جانے کے بجاے چھت پر چڑھ گیا اور جہاز کو پتھر مارنے لگا کہ میں تجھے یوں کردوں گا اور ووں کردوں گا، وہ جہاز حملہ تو نہ کرسکا کیوں کہ ہمارے شاہینوں نے اسے گھیر کر اپنے اڈے پر اتارلیا تھا لیکن پھر اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ ہم جنگ ہار گئے۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ اس دن میں بہت رویا تھا، سبھی دُکھی تھے لیکن میری حالت زیادہ خراب تھی۔ شاید میں بیمار بھی ہوگیا تھا۔ پھر جیسے دوسرے زخم بھر جاتے ہیں، اس گھائو پر بھی کھرنڈ آگئے۔ جب میں نے کمانڈو فور لکھنا شروع کیا تو دراصل اس پرانے زخم سے کھرنڈ اُترنے لگے۷۶۔
منیر احمد راشد ماہر تعلیم ہیں۔ بچوں کے لیے اُنھوں نے کئی درسی کتابیں خود تیار کیں جو آج بھی پاکستان کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جارہی ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی کہانیوں میں اکو، بونگا،کھوٹا سکہ، لمبا ہاتھ، ہم نے بھی روزہ رکھا، سلو میرا دوست ہے، حفاظت، دوستی شامل ہے۷۷۔ آنکھ مچولی اور ساتھی چوں کہ نوعمر بچوں کا رسالہ ہے، اس لیے اس میں آپ کی لکھی گئی تمام کہانیاں بڑے بچوں کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ان کی تحریر سلو میرا دوست ہے کا اقتباس دیکھیے جس میں نوعمر بچوں ہی کا ایک مسئلہ زیر بحث لایا گیا ہے:
شارب اور سَلّو کی دوستی کو دوسال بیت چکے تھے۔ اس دوران دونوں نے ایک دوسرے کو ہزاروں خطوط لکھے، سیکڑوں بار فون پر بات ہوئی ، مگر آج تک دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا۔ شارب نے کئی بار سلو سے تصویر بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا مگر اپنی تجسس پسند طبیعت کی وجہ سے سلو نے ہمیشہ تصویر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بلکہ اس نے شارب کو بھی منع کر دیا تھاکہ وہ بھی اپنی تصویر نہ بھیجے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر ہم سچے دوست ہیں تو پھر پہلی ملاقات میں ہم ایک دوسرے کو خود ہی پہچان لیں گے۔ شارب نے بھی اس کی بات مان لی تھی۔اسے اس گمنام دوستی میں بھی بہت مزا آرہا تھا۔ البتہ اس نے سلو کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں اس کا ایک خاکہ سا اپنے ذہن میں تشکیل دے لیا تھااور یہ خاکہ اس کے آئیڈیل سے ملتا جلتا تھا۔
خوب صورت مسکراتا ہوا روشن چہرہ۔ ذہانت سے بھر پور آنکھیں، کسرتی بدن، مناسب قامت اور شاندار لباس…اپنے اسی آئیڈیل کو سامنے رکھتے ہوئے وہ خوشی خوشی سلو کا استقبال کرنے کے لیے اسٹیشن پر پہنچا تھا مگر اسے دیکھتے ہی اس کی ساری خوشی کافور ہوگئی تھی۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی شارب کو یوں لگا تھا جیسے وہ یک دم کسی برف زار میں آگیا ہو۔ چند لمحے پہلے تک دل میں اْٹھنے والے ولولے، جوش اور محبت کے طوفان اچانک کہیں غائب ہوگئے تھے اور ان کی جگہ ایک بے نام سی بے کیفی نے لے لی تھی۔ اس کے منھ کا ذائقہ پھیکا سا ہوگیا تھا جیسے بہت عرصہ بیمار رہنے کی وجہ سے ہوجاتا ہے۔
شارب کے ذہن میں فوراً ریحان کا خیال آیا، جس کی دوستی کو اس نے ہمیشہ صرف کالے رنگ کی وجہ سے ٹھکرادیا تھا۔مگر اب اس کا سب سے پیارا دوست جو اس کے سامنے کھڑا تھا، ریحان سے بھی زیادہ کالا تھا۔ ریحان کے نقوش تو اچھے تھے۔ مگر سلو توکسی حد تک بدصورت لڑکا تھا۔عجیب بے چار گی کا عالم تھا۷۸۔
ابن آس محمد:
ابن آس محمد کا اصل نام محمد اختر آس ہے۔ آپ سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں’سرانوالی‘ میں ۱۷ ستمبر ۱۹۶۱ء کو پیدا ہوئے۔ آپ۱۹۷۹ء سے کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ کہانی کار، سینئرجرنلسٹ اور اسکرین پلے رائٹر بھی ہیں۔ آپ کی سیکڑوں کہانیاں مختلف رسائل اور اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ اب تک آپ کی ۱۹ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۷۹۔
مختلف رسائل میں چالیس سے زائد قسط وار ناول شائع ہوئے ہیں۔ پہلی کہانی روزے کی خوش بوسات سال کی عمر میں تیسری جماعت میں لکھی تھی۔ آپ مترجم بھی ہیں۔ سیکڑوں کہانیاں انگریزی سے اردو میں منتقل کی ہیں۔ ماہنامہ ساتھی میں کئی برس تک اسکیچزبھی بناتے رہے۸۰۔
بچوں کے لیے لکھی جانے والی انگریزی کی مقبول ترین کتاب ہیری پورٹر (Harry Potter)کا ترجمہ کیا جو سات برس تک روزنامہ امت میں شائع ہوتا رہا۔ آپ کی کتابوں میں ابن آس کی کہانیاں، دل چسپ اور مزے دار کہانیاں، ہیری پورٹر(ترجمہ)، بھیانک آسیب، خون آشام، جنگلادمی، ملکہ نارانی، للو پنجو، نگیٹو کا پازیٹو، سکندر نمایاں ناولز اور کہانیوں کے مجموعے ہیں۸۱۔
آپ نے کئی رسائل میں ادارتی ذمہ داریاں ادا کیں۔ بچوں کے ادب میں کئی اعزازات آپ کے نام ہیں۔
چھوٹے بچوں کے لیے بھی آپ نے کئی عمدہ کہانیاں لکھیں۔ذیل میں آپ کی چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی چوہے کا چاکلیٹ کیک سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
جھوٹ موٹ کا ایک قصہ ہے۔کہیں ایک خوب صورت جھیل تھی۔اس جھیل میں پگلو مگر مچھ رہتا تھا۔وہ پاگل تو نہیں تھا،مگر سب اس کی حرکتوں کی وجہ سے اسے پگلو کہتے تھے۔
پگلو کے بہت سارے شوق تھے ،جیسے پانی میں تیرنا ،جھیل کے باہر کنارے کی ریت پر آنکھیں بند کیے پڑے رہنا ،اور جو بھی چھوٹا موٹا اجنبی جانورقریب سے گزرے اسے جھٹ اپنے جبڑوں میں دبا کر ہڑپ کر جانا۔ پگلو کو ویسے تو سب ہی کچھ کھانے کا شوق تھا ،مگر چاکلیٹ کیک اس کی کم زوری تھی۔بہت عرصہ ہو گیا تھا ا س نے چاکلیٹ کیک نہیں کھایا تھا۔کھانا تو دور کی بات ہے ا س نے چاکلیٹ کیک کی جھلک بھی نہیں دیکھی تھی۔
ایک روز وہ جھیل کنارے لیٹا ہوا تھا۔ حسرت سے سوچ رہا تھا کہ کاش کہیں سے چاکلیٹ کیک کھانے کو مل جائے تو مزہ آجائے۔یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے ایک بڑا سا چاکلیٹ کیک لہرانے لگا۔اس کے جبڑے میں پانی آنے لگا۔وہ چاکلیٹ کیک کے تصور میں دھیرے دھیرے کچھ گنگنانے لگا۔
چاکلیٹ کیک کھلادے مولا
کہیں سے ایک دلادے مولا
جانے کب سے کیک نہیں کھایا
سب کچھ کھایا ،ایک نہیں بھایا
چاکلیٹ کیک کھلادے مولا
کہیں سے ایک دلادے مولا
چاکلیٹ کیک تو سب کو بھائے
میرے خواب میں شب کو آئے
چاکلیٹ کیک کھلادے مولا
کہیں سے ایک دلا دے مولا
ادھر تو پگلو مگر مچھ ،چاکلیٹ کیک کے لیے گیت گا رہا تھا۔دعا کر رہا تھا کہ اسے کسی طرح چاکلیٹ کیک مل جائے ،اْدھر جھیل کے دوسرے کنارے پر ایک درخت کی کھو ہ کے پاس چوچو چوہا رہتا تھا۔
چو چوچوہے نے پگلو مگرمچھ کا یہ گیت سنا تو مزیدافسردہ ہوگیا۔ دراصل آج ا س کی سال گرہ تھی۔ا س نے ایک ایک جانور کے پاس جا کر انھیں بتایا کہ میری سال گرہ ہے۔سب نے مبارک بادتو دی ،مگرکسی نے سال گرہ نہیں منائی۔چوچو، چوہا افسردہ ہو گیا۸۲۔
نعیم احمد بلوچ:
نعیم احمد بلوچ ۶ نومبر ۱۹۶۱ء کو ضلع قصور کے ایک گاؤں رام تھمن میں پیدا ہوئے۔ اسلامیات میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ ماہ نامہ اشراق کا اجرا ہوا تو ابتدا ہی سے اعزازی طور پر اس سے منسلک رہے۔ ۱۹۸۴ء میں صحافت سے پیشہ وارنہ زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف اخبار و جرائد سے منسلک رہے۔ ۱۹۹۴ء کو تعبیر پبلشرز کے نام سے ایک مکتبہ قائم کیا جس کے زیر اہتمام بچوں کے لیے ماہنامہ آنکھ مچولی کا اجرا کیا جو چار برس تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۸۳۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ ۱۹۹۷ء تک آنکھ مچولی کراچی سے گرین گائیڈ اکیڈمی کے تحت شائع ہوتا رہا، بعد ازاں نعیم احمد بلوچ نے اس کے حقوق لے کر دوبارہ اشاعت کا آغاز کیا۸۴۔
نعیم احمد بلوچ ۲۰۰۴ء میں سپیریئر کالج سے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر المورد کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہو گئے۔ اُنھوں نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے ۲۵ سے زائد کتب لکھی ہیں اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے نوجوانوں کے لیے بہترین ادیب برائے سال ۱۹۹۲ء کا ایوارڈ حاصل کیا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے ۱۹۹۸ء سے ملکی سطح پر مقابلے میں ان کے مسودے کو پہلے انعام سے نوازا گیا۔ عام قارئین کے لیے بھی متعدد ادبی اور تاریخی موضوعات پر کتب لکھ چکے ہیں۸۵۔
بچوں کے لیے آپ کی لکھی گئی کتابوں کو دارالسلام پبلشرز نے بڑے اہتمام سے شائع کیا، ان کتابوں میں سنگین مذاق، احساس کے آنسو، اُجالوں کی منزلاور قصہ دو اونٹوں کا شامل ہے۸۶۔
آپ کی زیادہ تر کہانیاں تاریخی موضوعات پر ہیں۔ ان موضوعات کو کہانی کی صورت میں کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ اس سے نا صرف نفس مضمون کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے بلکہ بچے بھی اسے بڑی دل چسپی سے پڑھتے ہیں۔ان کی کتاب احساس کے آنسوکا یہ ٹکڑا دیکھیے جس میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کو کہانی کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
آنے والا سخت گھبرایا ہواتھا۔ اس نے ذرا بھی خیال نہ کیا کہ محفل میں بیٹھے لوگ ضروری بات کر رہے ہیں یا غیر ضروری۔ اس نے آتے ہی شور مچادیا:
’’غضب ہوگیا دوستو، غضب ہوگیا…متٰی کے بیٹے نے اعلان کردیا ہے کہ تین دن…‘‘
جوشخص آنے والے سے پہلے بات کر رہاتھا، سخت غصے سے بولا:’’تم اس شخص کی بات پر شور مچا رہے ہو جسے ہر وقت نصیحتوں اور وعظ کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔‘‘
’’کوئی زبردست لطیفہ سن رہے تھے ہم !کباب میں ہڈی بن کر آیا ہے یہ بد تہذیب!‘‘ ایک دوسرے شخص نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا۔
تب آنے والا بھی غصے سے بولا:’’بھاڑ میں گئے تمھارے لطیفے!ابے احمقو کچھ جانتے بھی ہوکہ میں کیا خبر لایا ہوں، سنوگے تو تمھاری سٹی گم ہوجائے گی۔تم کیا سمجھتے ہو کہ متّٰی کا بیٹا کوئی عام شخص ہے؟ تم تو اسے اچھی طرح جانتے ہو۔ بتاؤ کبھی جھوٹ بولا ہے اس نے؟اور کیا تم یہ نہیں جانتے کہ پہلے بھی کئی بستیاں اللہ کے رسولوں کا انکار کرکے تباہ ہوچکی ہیں۔‘‘اس کی بات میں اس قدر وزن تھا کہ محفل میں کچھ لمحے مکمل خاموشی چھائی رہی۔۔پھر وہی شخص ڈھٹائی سے بولا:
’’یار لگتا ہے تم تو آج متٰی کے بیٹے کو اللہ کا رسول مان کر رہو گے…مگر ہمارا فیصلہ بھی سن لو…ہم اپنے باپ دادا کو احمق اور گمراہ نہیں مان سکتے !مجھے تو متٰی کے بیٹے کی کسی بات پر یقین نہیں!‘‘
’’نہیں دوست یہ بات اس قدر معمولی نہیں جتنی تم سمجھتے ہو۔ یہ تو زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ٹھیک ہے ہم نے آج تک متٰی کے بیٹے کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی مگر اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ وہ ایک نیک اور مخلص انسان ہے۔فرض کر وہ واقعی اللہ کا رسول ہوا تو پھر ہمارا انجام کیا ہوگا؟اس لیے ہمیں کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر نا چاہیے!‘‘۸۷
سیما صدیقی:
طلعت سیما اپنے قلمی نام سیما صدیقی سے جانی جاتی ہیں۔ آپ ۷ مارچ ۱۹۶۳ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ کراچی ہی کے ایک مقامی ادارے سے بی اے اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ ماہنامہ آنکھ مچولی، ماہنامہ ساتھی، دعوۃاکیڈمی سے متعدد انعامات حاصل کرنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہے۔ امن کے موضوع پر یونی سیف کی طرف سے بہترین کہانی لکھنے پر سند توصیف کی بھی مستحق ٹھہریں۸۸۔
اشتیاق احمد نے سیما صدیقی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کیا۔ سیما صدیقی لکھتی ہیں:
ہمارے لکھنے لکھانے کا آ غاز خطوط نگاری سے ہوا۔ ’’اشتیاق احمد صا حب ‘‘ کے نا ولو ں پہ تبصرہ لکھا کرتے تھے۔
اُنھوں نے کہا: ’’آ پ کہانیاں کیوں نہیں لکھتیں؟ آ پ لکھ سکتی ہیں!‘‘ یہ ہمارے لیے ایک انکشاف ہی تھا۔ بہر حا ل ابتدا میں لا ش کا فرار جیسی پرا سرار کہانیاں لکھنے کی کو شش کی، بعد میں طنزومز اح پر مبنی تحریر یں لکھنے لگے۔ معلو م ہوا کہ نانا مرحوم کے لکھنے لکھانے کے جرا ثیم ہم تک آپہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ تقر یباً سب ہی بہنیں نا ئلہ صدیقی، بینا صدیقی، گل ِ رعنا کی تحریریں مختلف رسائل میں شائع ہونے لگیں۔
روز نامہ جنگ کی ’شبا نہ شفیق‘ نے ہم سے فیچر اور مضا مین لکھو ائے تو ’رابطہ انٹر نیشنل ‘کے’ جناب عبدالسلام سلا می ‘ اور ’جنا ب کلیم چغتائی‘نے فکا ہیہ مضا مین، انٹرویواور سروے کروائے۔ ’ڈاکٹر طاہر مسعود ‘ نے آ نکھ مچولی کے لیے بچوں کی مزا حیہ تحریریں لکھوائیں تو ’جناب مسعود احمد بر کاتی ‘ نے ’طب ‘ کے سنجیدہ رسا لے ہمدرد صحت میں ہم سے ’طنز و مزاح‘پر مبنی مضا مین لکھوا لیے۔ ماہ نامہ ٹی وی ٹا ئمز کے ’وسیع قریشی ‘نے ہم سے شو بز پر لکھوایا۔ ایک سال ’جناب سلیم مغل ‘کے ادارے ’فائن لائن ‘میں کام کر کے ہم نے ’صحا فتی تجربہ ‘حاصل کیا۔آ نکھ مچولی بند ہوا تو ماہنامہ ساتھی ہمیں لے کر چلنے لگا۸۹۔
آپ کی جن جنجال میں۹۰ اور گیدڑ بھبکی۹۱ دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
سیما صدیقی کے یہاں ہمیں تنوع ملتا ہے۔ بچوں سے متعلق اُنھوں نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ہے، ڈے کیئر سینٹر کے حوالے سے اُن کی طنزومزاح پر مبنی اس کہانی کو دیکھیے جس میں دو بچے ڈے کیئر سینٹر میں اُدھم مچائے ہوئے ہیں:
بڑا بچہ ٹونی جو ماں باپ کی موجودگی میں بڑی معصوم صورت بنائے بیٹھا تھا۔ اچانک اْٹھا اور ٹوکری میں لیٹے بھائی کو ایک چپت لگا کر کھلونوں والے ریک کی جانب بھاگ گیا۔ چھوٹے نے کسمساکر کمزور سا احتجاج کیا اور دوبارہ سوگیا۔ بڑے نے دیکھا کہ کھلونے اْس کی پہنچ سے دور ہیں تو اس نے لات مار کر ریک گرادیا۔ شکر ہے وہ اس کے سرپر نہیں گرا ورنہ تین سو دو کا کیس ہوجاتا۔ کھلونوں میں اس نے ایک ریل گاڑی منتخب کی اور اسلم سے بولا: ’’انتل تابی دو …. تابی!‘‘
اسلم نے بوکھلا کر احسن کو دیکھا تو اس نے کہا: ’’ارے چابی کہہ رہا ہے چابی!‘‘
اسلم نے بچے سے ٹرین لی۔ چابی بھری اور نیچے چھوڑ دی۔ جو تین منٹ چل کر رْک گئی۔ بچے نے زور زور سے تالی بجائی اور پھر ٹرین اْٹھا کر بولا: ’’انتل تابی!‘‘
اسلم نہایت متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل چابی دیتا رہا مگر جب دسویں بار بچے نے گاڑی اْٹھائی اور ٹھنک کر بولا: ’’ انتل دلدی دلدی تابی دونا!‘‘
تو اسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا بچے کو ایک چپت مار کر بولا: ’’تم خود کیوں نہیں دیتے تابی…. میں تمھارا نوکر لگا ہوا ہوں، بوریت کے پٹارے! دس دفعہ ٹرین چلواکر بھی تمھاری طبیعت نہیں بھری؟‘‘
بچے نے ناراضی سے پہلے ہونٹ پچکائے، پھر آنکھیں مچمچا ئیں۔ گویا یہ رودینے کا اشارہ تھا۔ احسن نے دوڑ کر اْسے گود میں اْٹھالیا۔ بچے نے انتقامی جذبے کی جھونک میں یہ بھی نہ سوچا کہ چپت اسلم نے لگائی تھی، اْس نے احسن کے بال دونوں مٹھیوں میں جکڑ لیے اور اتنی زور سے نوچے کہ وہ بے بس ہوکر چیخ پڑا۔’’ ارے ارے! چھوڑ جنگلی کہیں کے!‘‘
اسلم نے مداخلت کرتے ہوئے بچے کو پیچھے سے کھینچا اور نیچے دھکیل دیا۔ اس کا انتقام ادھورا تھا لہٰذا وہ رونے لگا۔ حالانکہ رونا احسن کو چاہیے تھا جو اپنی شرٹ کے کالر سے نوچے ہوئے بال چن رہا تھا۔
بچہ مسلسل رونے کا عالمی ریکارڈ قائم کررہا تھا۔ تنگ آکر اسلم اس کے پاس فرش پر بیٹھ گیا اور سر جھکا کر بولا: ’’لے میرے بھائی میرے بال نوچ لے… !‘‘
بچے نے تیزی سے انکار میں سرہلایا جیسے کہہ رہا ہوکہ جب میرا موڈ تھا تب کیوں نہیں نچوائے؟ ۹۲
اختر عباس:
اختر عباس۲۳نومبر ۱۹۶۸ء کوپیدا ہوئے۔ اختر عباس نے پنجاب یونیورسٹی سے MPA کیا پھر NUST سے HR میں اسپیشلائزیشن کی۔ ۱۳ سال پاکستان میں بچوں کے مقبول رسالے پھول کے بانی مدیر رہے۔ ہمقدم، قومی ڈائجسٹ اور اُردو ڈائجسٹ کے کئی سال ایڈیٹر رہے۔ وہ ایچ آر ٹرینر اور کنسلٹنٹ ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے ایڈوائزر اور لاہور ایچ آر فورم کے سینئر ممبر ہیں۔ اختر عباس نے ۳۷ کتابیں تحریر کی ہیں۔ جن میں ۱۵ نئی نسل کے لیے ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں لکھیں۹۳۔
بعد ازاں یہ کہانیاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں جن میں تھینک یو اللہ میاں، عقل کہاں سے آئی، بہانے باز، آٹو گراف، تین گول، ہرنوٹا، کمسن مجاہد، سرو کی نیکی، نامکمل دعا، فوکسی پہلی بات ہی بھول گئی، دو آنسو، نامکمل دعا، حکمت بھری کہانیاں، ڈریگن کی واپسی، مٹھو،غلطی کے بعد،کانوں کو لگے ہاتھ،آسمان سے گرا، بے آواز لاٹھیاور ہمت والا کمانڈو شامل ہیں۹۴۔
وہ روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ پاکستان اور روزنامہ جسارت میں کالم لکھتے رہے ہیں۔ اِنھیں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ یو بی ایل لٹریری ایکسی لینسی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کی ایک نمایاں کتاب آداب زندگی کے اب تک سیکڑوں بار شائع ہوچکی ہے، بچوں کے لیے لکھی گئی اُردو زبان میں ایسی کتابوں کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی ہیں جو ایک لاکھ سے زائد چھپ چکی ہو۹۵۔ بڑوں کے لیے لکھے گئے ان کے افسانوں کے تین مجموعے پھٹا ہوا دودھ،مارشااور خاموشی پیچھے شور،قارئین سے داد پا چکے ہیں۹۶۔
اختر عباس کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں بھی افسانوی رنگ جھلکتا نظرآتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں میں ایک احساس بھرتے ہیں اور اس احساس کو کہانی کے ذریعے بچے میں منتقل کرتے ہیں۔ یہاں ان کے پڑھنے والے قاری اس کردار سے ہمدردی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ماہنامہ پھول میں شائع شدہ احساس کے جذبے میں گندھی ہوئی ان کی تحریر ہرنوٹا شہر میں کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
گھر کا لان جتنا بڑا ہے اللہ کا شکر ہے گھر والوں کا دل بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ مسلم ٹاؤن میں واقع یہ خوب صورت کوٹھی کئی کنال میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ کوٹھی پرویز صاحب نے کب بنائی اور کیسے بنائی نہ تو میں نے کبھی پرویز صاحب سے پوچھا اور نہ اْنھوں نے کبھی بتایا۔ بھلا وہ بتاتے بھی کیسے؟ ایسے لوگ تو اپنے دوستوں عزیزوں کو کچھ نہیں بتاتے۔ میں تو پھر ان کا پالتو ’’ہرن‘‘ ہوں۔
میں اپنے آپ کو ہرن کہہ کر اتنا خوش ہوتا ہوں جتنا کسی بچے کو جوان کہہ کر بلایا جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اصولاً آپ مجھے ہر نوٹا کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہرن کے بچے کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ہے نا آپ کے لیے نیا لفظ۔
میری عمر کتنی ہے یہ تو مجھے بھی علم نہیں اصل میں دوسروں کی عمر کا حساب کتاب یا عورتیں رکھتی ہیں یا پرانے بڑے بوڑھے۔ اب ان دونوں کو بھلا میری عمر کے کم زیادہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن مجھے بہت فرق پڑا ہے۔ جب میں اس کوٹھی میں آیا تو ایسے تھا جیسے ان دھلا کپڑا۔ چند ماہ پہلے تک مجھے صرف دو چیزوں کا علم تھا۔ روشنی اور بھوک…میں اپنی امی کے ساتھ چولستان میں گھوما کرتا تھا۔ بھوک لگتی تو دودھ پی لیتا یا پھر کوئی نرم کو نپل ہوتی تو میری امی مجھے بلالیتی۔ جوں جوں بھوک ختم ہوتی تو ں توں روشنی بھی ختم ہونے لگتی۔ میں سمجھ جاتا کہ اب آرام کا وقت آگیا ہے۔امی کوئی گھنی جھاڑی ڈھونڈ لیتی اور ہم اس کے پاس ٹھنڈی ریت پہ آرام سے سوجاتے۔
وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی میں اپنی ماں کے پیٹ پر سر رکھے سورہا تھا جب اچانک شور سے میری آنکھ کھلی۔ ہمارے چاروں طرف روشنی تھی۔ مگر یہ روشنی وہ والی نہیں تھی جس میں سارا صحرا نظر آتا تھا بلکہ وہ تو صرف ہم ماں بیٹا تھے اور روشنی کا گول ہالہ جو ہمیں گھیرے ہوئے تھا، اللہ جانے میری امی کو کیا سوجھی کہ انھوں نے مجھے اس قدر زور سے دھکا دیا کہ میں کتنے ہی قدم دور جاگرا اگلے ہی لمحے وہ خود بھی میرے پیچھے کھڑی تھیں مجھ سے بولیں بیٹے ہماری زندگی خطرے میں ہے بھاگو… اس وقت تو میں بلا سوچے سمجھے بھاگ پڑا مگر آج سوچتا ہوں اگر میں نہ بھاگتا اور اپنی امی سے سوال وجواب شروع کر دیتا دلائل مانگتا وجہ پوچھتا جیسے آج کل بچے پوچھتے ہیں کہ کیوں بھاگوں…کدھر کو بھاگوں کتنی دور اور کتنی دیر بھاگوں تو یہ باتیں سنانے کو زندہ نہ بچتا۹۷۔
محمد ادریس قریشی:
محمد ادریس قریشی ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو ساہیوال (منٹگمری) میں پیدا ہوئے۔ اس وقت آپ منڈی بہاء الد ین میں رہائش پذیر ہیں۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کی ہے۔مختلف رسائل وجرائد میں آپ نے بچوں اور بڑوں کے لیے بے شمار کہانیاں اور ناول لکھے ہیں۔ اُن میں کئی کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ آپ شاعر بھی ہیں۔ ہر صنف میں شاعری کرتے ہیں، لیکن ظریف الطبع ہونے کی وجہ سے آپ کی نمکین نظمیں زیادہ مشہور ہوئیں ۹۸۔۱۹۹۳ء میں آپ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے بہترین ادیب کا ایوارڈ دیا۔ آپ نے بچوں کا معروف مزاحیہ کردار ’’چچا حیرت‘‘ تخلیق کیا، جو بچوں میںبے حد مقبول ہوا۔یہ سلسلہ تعلیم وتربیت میں شائع ہوتا رہا۹۹۔بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی کتابیں چچا حیرت، چکی والا فوارہ، من چلی کہانیاں، چوروں کا بادشاہ، خونی خزانہ کے کئی ایڈیشن شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔
ادریس قریشی نے زیادہ تر کہانیاں نو عمر بچوں کے لیے لکھی ہیں، آپ اس عمر کے بچوں کو چونکانا جانتے ہیں، آپ کی تحریروں میں جگہ جگہ قاری متجسس ہوتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔اسی طرح ماہنامہتعلیم وتربیت میں شائع ہونے والی آپ کی کہانی بن بلائے مہمان میں بھی قاری کو چونکا کر ان کی دل چسپی کا سامان پیدا کیا جارہا ہے۔
کو ٹھی کے اندر داخل ہونے کے بعد اُنھو ں نے مہمانوں سے کہا: ’’حضرات ! یہ صاحب ابھی ابھی ایک تحفہ میرے بیٹے کو دے کر گئے تھے۔ آپ نے ان کو پہچانا؟ یہ مشہور معروف جیرا ڈاکو ہے!‘‘
’’کیا؟‘‘ سب مہمان چلا اُٹھے۔
’’ہاں ، وہی جیرا ڈاکو جس کو آج سے سات سال پہلے میںنے زبردست مقابلے کے بعد گرفتار کیا تھا اور عدالت نے اسے دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مگر اس کے اچھے چال چلن کی وجہ سے اسے سات سال بعد رہا کردیا گیا تھا۔اخباروں میں اس بارے میں خبریں شائع ہوئی تھیں۔ یہ جیل سے باہر آیا تو اس نے سوچا کہ مجھ سے انتقام لے!‘‘
’’اوہ!کہیں اس کے پیکٹ میں بم نہ ہو!‘‘ ایک دو مہمان خوف زدہ انداز میں چلا اُٹھے۔
’’ہوسکتا ہے۔ بیگم اس کا تحفہ لائو۔‘‘انسپکٹر نے کہا۔
بیگم شیر بازنے ڈرتے ڈرتے تحفہ اٹھایا اور ان کے پاس لے آئیں۔
جیرے نے بڑی افسردہ آواز میں کہا:’’افسوس! آپ نے مجھے غلط سمجھا۔‘‘
’’تت۔۔۔تو کیا تم جیرا ڈاکو نہیں ہو؟‘‘بیگم شیرباز خان نے کہا۔
’’میں جیرا ڈاکو ہی ہوں لیکن آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ اس پیکٹ میں بم نہیں ہے۔ بے شک کھول کر دیکھ لیں۔‘‘
’’کہیں پیکٹ کھولنے سے بم پھٹ نہ جائے۔‘‘ایک مہمان چلا اُٹھا۔
’’ہاں، آپ کا خیال درست ہے۔‘‘انسپکٹر شیرباز خان بولے:’’اچھا، اگر اس میں بم نہیں ہے تو تم اسے خود ہی کھولو۔‘‘ اُنھوں نے پیکٹ جیرے کے پاس رکھ دیا۔
اس نے پیکٹ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ ایک مہمان نے چیخ کر کہا:’’انسپکٹر صاحب!کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے ساتھ ہم سب کو بھی لے مرے۔‘‘
’’ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے۔پھر کیا کریں؟‘‘کئی آوازیں سنائی دیں۔
’’میں اسے چیک کرالیتا ہوں۔‘‘انسپکٹر شیرباز خان نے کہا اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کو فون کرنے لگے۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ آپہنچا۔ اُنھوں نے پیکٹ چیک کر کے اعلان کیا کہ اس پیکٹ میں بم یا کوئی اور خطرناک چیز نہیں ہے۔
یہ اعلان سب کی اْمیدوں کے خلاف تھا۔ سب حیران رہ گئے۔
’’حیرت ہے!اس پیکٹ میں بم نہیں ہے تو تمھارا یہاں آنے کا مقصد کیا تھا؟‘‘انسپکٹر بولے۔
’’مقصد آپ کو پتا چل جائے گا، انسپکٹر صاحب پہلے آپ پیکٹ دیکھیں۔ آپ کے مہمانوں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔‘‘جیرا بولا۔
انسپکٹر نے پیکٹ دیکھا تو اس میں سے خوب صورت کہانیوں کی کتابیں نکلیں، کتابوں کے اوپر ایک خط رکھا ہوا تھا۔۱۰۰
٭…٭
اپنی انھیں چونکادینے والی کہانیوں اور چچاحیرت جیسے کردار کی بدولت محمد ادریس قریشی نے ادب اطفال میں اچھا اضافہ کیا، اُنھوں نے زیادہ تر تحریریں نوعمر بچوں کے لیے لکھیں۔ تعلیم وتربیت میں زیادہ کہانیاں اسی عمر کے بچوں کے لیے شائع کی جاتی ہیں، اس لیے تقریباً تمام ادیبوں کی تحریروں میں بڑی عمر کے بچوں کے مزاج کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
حصہ نظم
صوفی غلام مصطفی تبسمؔ:
بچوںکے مقبول ترین شاعر اور معلم، نقاد، مترجم اور براڈ کاسٹر صوفی غلام تبسم ۴؍اگست۱۸۹۹ء کو امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول میں بچوں کو پڑھایا پھر سنٹرل ٹریننگ کالج میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں اُردو اور فارسی شعبے کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہیں آپ ماہانہ لیل و نہار کے مدیر رہے اور براڈ کاسٹر بھی رہے۔ ریڈیو سے آپ کا پروگرام’’اقبال کا ایک شعر‘‘ ایک طویل عرصے تک نشر ہو کر مقبولیت حاصل کرچکا تھا۔ آپ الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے چیئر مین، خانہ فرہنگ ایران کے پہلے ڈائریکٹر، کرکٹ کنٹرول بورڈ کے پہلے چیئر مین اور ریڈیو پاکستان کے مشیر اعلیٰ بھی رہے۱۰۱۔
آپ ہر میدان کے شہسوار تھے۔ نظم ہو یا نثر، غزل ہو یا ملی نغمے ہوں یا بچوں کی نظمیں، ہرصنف میں اَدب تخلیق کیا۔ خاص طور پر بچوں کے لیے بے شمار نظمیں اور کہانیاں لکھیں، جن میں شہرہ آفاق جھولنے، ٹوٹ بٹوٹ، کہاوتیں اور پہیلیاںاور سنو گپ شپ شامل ہیں۔ آپ نے بچوں کی نظموں کے لیے ٹوٹ بٹوٹ کے نام سے ایک لڑکے کا کردار تخلیق کیا، جس پر لکھی نظم آج بھی پرائمری کے نصاب کا حصہ ہے۔ اسی طرح آپ کی دیگر مشہور نظموں میں پانچ چوہے،گنتی،ثریا کی گڑیا، ٹمک ٹالا،شریر لڑکا،کیا چیز لوگے،رات آئی اور جاگے تارے شامل ہے۱۰۲۔
صوفی غلام تبسم کی پہیلیاں بھی زبان زد عام ہوئیں اور یہ پہیلیاں آج بھی بچوں کو محظوظ کررہی ہیں۔
مثلاً:
دیکھا ایک نیا حیوان
دبلا پتلا اور بے جان
پیٹھ کے اندر اْس کی دم
دو پاؤں ہیں اور چھہ سُم
یوں ہی اس کا نام نہ بول
پہلے میری بات کو تول۱۰۳
آپ ۷فروری۱۹۷۸ء کو ۷۸سال کی عمر میں اِس جہان فانی سے رخصت ہوگئے، مگر آپ کی لکھی کہانیاں اور نظمیں آج بھی زندہ ہیں اور گھر گھر بچوں کے چہروں پر ہنسی بکھیر رہی ہیں۔ نمونے کے طور پر یہ نظم دیکھیے:
کیا چیز لو گے؟
چمچہ کہ تھالی؟
تھالی بھری ہے چمچہ ہے خالی!
میں لوں گا تھالی
کیا چیز لو گے؟
روٹی کہ کیلا؟
روٹی ہے سب کی، میں ہوں اکیلا!
میں لوں گا کیلا
کیا چیز لو گے؟
کیلا کہ بستہ؟
بستہ ہے میرا پھولوں کا دستہ!
میں لوں گا بستہ
تب تم کو مانوں، مل جائے سب کچھ
کہتے تھے تب کچھ، دیتے ہو اب کچھ
میں لوں گا سب کچھ۱۰۴
قیوم نظرؔ:
قیوم نظر کا اصل نام عبد القیوم تھا۔ وہ۸مارچ ۱۹۱۳ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر کے علاوہ نقاد، ڈراما نویس اور مترجم تھے۔ وہ اُردو کے ان لکھنے والوں میں شامل ہیں جنھوں نے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھنے میں اہم حصہ لیا۔ وہ ۱۹۴۴ء سے۱۹۵۵ء تک حلقہِ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبۂ اُردو اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ پنجابی میں تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۱۰۵۔
قیوم نظر کی شاعری میں اُردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر ہے۔۱۹۳۳ء میں ان کی پہلی غزل چھپی تھی۔ اُنھوں نے اُردو غزل کو نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی کی غزلیہ روایت سے متاثر رہے۔ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے نوعیت کے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی اُردو غزلوں اور نعتوں کو پنجابی میں منتقل کیا۱۰۶۔
آپ نے بچوں کے لیے بہت سی مزے دار اور دل چسپ نظمیں لکھیں۔ آپ کی نظم بلبل کا بچہ تو کئی نسلوں سے بچوں کی زبان پر ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی دو کتابیں گلگلے۱۹۷۷ء کواور بلبلے ۱۹۷۸ء کو آپ کی زندگی ہی میں شائع ہوگئی تھیں۱۰۷۔
طاہر مسعود کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کی بابت بتاتے ہیں:
میری شروع سے خواہش تھی کہ میں بچوں کے لیے نظمیں لکھوں۔ میں نے بچوں کے لیے نظمیں لکھتے وقت ان کی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے۔ ایک پرائمری اسکول ٹیچر میری ایک نظم ٹین کا بندر پڑھ کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ بتایئے یہ نظم آپ نے کسے دیکھ کر لکھی ہے۔ میں نے کہا بھئی میں نے لکھ دی ہے کسی کو دیکھ کر کیا مطلب؟ بگڑ کر بولے کہ ضرور یہ نظم ٹین کا بندرآپ نے مجھے دیکھ کر لکھی ہے کیوں کہ اسکول کے سارے بچے مجھے ’ٹین کا بندر‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح دس پندرہ سال پہلے میں نے ایک نظم لکھی تھی چڑیا گھراس کی پہلی لائن تھی ہم نے چڑیا گھر دیکھا۔
نظم کہنے کے کافی عرصے بعد میں ایک اسکول گیا‘ وہاں کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے نہایت پرتپاک استقبال کیا اور اسکول کے بچوں سے بھی ملایا اور بتایا کہ بچو! یہ ہیں پروفیسر قیوم نظر جنھوں نے تمھارے لیے نظم چڑیا گھر لکھی ہے۔ چلو جلدی سے کھڑے ہو جائو‘ انھیں سلام کرو۔ بچوں نے کھڑے ہو مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد بچے جب بھی مجھے سڑک پر یا کسی گلی میں گزرتے ہوئے دیکھتے تھے باقاعدہ کورس کے اندازمیں چیختے تھیہم نے چڑیا گھر دیکھا۔
میں نے تنگ آکر ایک دن بچوں کو بلایا اور پیار سے سمجھایا :
’’بچو! میں چڑیا گھر نہیں ہوں‘ میں تو پروفیسر قیوم نظر ہوں‘ سمجھے۔‘‘۱۰۸
آپ نے۱۹۸۹ء کو وفات پائی۱۰۹۔
قیوم نظر کی نظموں کی خاص بات اس کا اختصار ہے، دو یا تین جملوں پر ان کا مصرع مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ مصرع قطعی نامکمل نہیں ہوتا، اس میں پوری بات موجود ہوتی ہے۔ اُن کی مشہور زمانہ یہ نظم دیکھیں جس نے کئی نسلوں کو محظوظ کیا ہے۔
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
بلبل کا بچہ
گاتا تھا گانے
میرے سرہانے
بلبل کا بچہ
اِک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
بلبل کا بچہ
میں نے اڑایا
واپس نہ آیا
بلبل کا بچہ۱۱۰
ا بن انشاؔ:
معروف مزاح نگار اور اردو شاعرکا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ ۱۵جون ۱۹۲۷ء کو جالندھرمیں پیدا ہوئے۔ ابن انشا کی ہمہ گیر شخصیت میں ایک شاعر ،مزاح نگار ، بچوں کا اَدیب اور سفرنامہ نگار سبھی تھے۔ طبیعت کے انتہائی نفیس ، قابل ترین آدمی تھے۔ آپ نے اُردو ادب کو بہترین سفرنامے، نظمیں اور انشائیے دیے۔ سفرنامہ چلتے ہو تو چین کو چلییپڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۱۱۱۔
شاعری میں ابن انشا کا ایک الگ ہی رنگ اور منفرد اُسلوب ہے۔ اُن کی معروف نظم انشا جی اٹھو، اب کوچ کرو اِس شہر میں جی کو لگانا کیا کس نے نہ پڑھی ہوگی۔طنز و مزاح میں خمارِ گندماور اُردو کی آخری کتاب اُردو مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۱۱۲۔
ہندی ادب کا اُنھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ۱۹۶۵ء میں روزنامہ انجام میں باتیں انشا جی کے عنوان سے لکھتے رہے۔مطالعاتی مواد کے امور میں ابن انشا پاکستان میں یونیسکو کے نمائندے تھے۔سفرناموں، ترجموں اور شاعری پر مبنی تصنیفات اور تالیفات کا ایک وسیع ذخیرہ ابن انشا نے ہمارے ادب میں چھوڑا ہے۱۱۳۔ آپ نے بچوں کے لیے بھی شاندار نظمیں کہیں۔ آپ کی چھوٹی بہن کا نام بلقیس بانو تھا۔ اُنھیں پیار سے ’’بلو‘‘ کہتے تھے۔ آپ روزانہ بلو کے لیے ایک نظم کہا کرتے، جو بعد ازاں یکجا ہو کر بلو کا بستہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ ابن انشا کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں میلے کی سیر ، بلو کی گڑیا، بلو کا بھالو، نسیانات، لندھور ہاتھی، مانجی کی بلی، منی تیرے دانت کہاں ہیں، احمد میاں گوشت لائے، گڈے کے براتی اور پاپا کا وہ بیٹا شامل ہے۱۱۴۔
۱۱جنوری ۱۹۷۸ء کو پچاس برس کی عمر میں لندن میں انتقال ہوا۱۱۵۔
ابن انشا کی نظموں کا ذخیرہ بالکل چھوٹے بچوں کے لیے ہے۔جیسے ہم انگریزی میں نرسری رائمز سنتے ہیں، یہ ویسی ہی نظمیں ہیں۔جن میں کوئی سبق پوشیدہ نہیں ہے لیکن اس میں موجود تک بندی بچے کو مسرت عطا کرتی ہے۔ ان کی یہ نظم دیکھیے:
چھوٹی سی بلو
چھوٹا سا بستہ
ٹھونسا ہے جس میں
کاغذ کا دستہ
لکڑی کا گھوڑا
روئی کا بھالو
چورن کی شیشی
آلو کچالو
بلو کا بستہ
جن کی پٹاری
جب اُس کو دیکھو
پہلے سے بھاری
لٹو بھی اِس میں
رسی بھی اِس میں
ڈنڈا بھی اِس میں
گلّی بھی اِس میں
اے پیاری بلو!
یہ تو بتاؤ
کیا کام کرنے
اسکول جاؤ
اردو نہ جانو
انگلش نہ جانو
کہتی ہو خود کو
بلقیس بانو
عمر کی اتنی
کچی نہیں ہو
چھہ سال کی ہو
بچی نہیں ہو
باہر نکالو
لکڑی کا گھوڑا
یہ لٹو، رسی
یہ گلیّ ڈنڈا
گڑیا کے جوتے
جمپر، جرابیں
بستے میں رکھو
اپنی کتابیں
منھ نہ بناؤ
اسکول جاؤ
اے پیاری بلو!
اے پیاری بلو!۱۱۶
ابن انشا کی یہ نظمیں اسماعیل میرٹھی کی خوب صورت نظموں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ حد درجہ بے مایہ ہیں، یہ محض تک بندی ہے، بلکہ لفظ اور بیان کے اعتبار سے بھی ان میں ذرا متانت نہیں، انھیں نظمیں کہنا بھی ایک تکلف ہے لیکن یہ مترنم تک بندیاں بچوں کے مزاج اور شوق کی چیزیں ہیں، ان میں وہی باتیں اور وہی بول ہیں جو بچوں کو بھاتے ہیں، جنھیں سن کر اور پڑھ کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا، کیوں کہ ان تک بندیوں کے لفظ اور جملے تک بچوں کی اپنی بول چال کے ہیں۱۱۷۔
عنایتؔ علی خان:
مزاح نگار شاعر و ادیب اور ماہر تعلیم پروفیسر عنایت علی خان ۱۰ مئی ۱۹۳۵ء میں ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ نومبر ۱۹۴۸ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور حیدرآباد ، سندھ میں مقیم ہوئے۔ گورنمنٹ اسکول، حیدرآباد سے میٹرک اور سٹی کالج حیدرآباد سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد بی ٹی کیا۔ ۱۹۶۲ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان دیا اور تمام یونیورسٹی میں اوّل آئے۱۱۸۔اُردو کی درسی کتب برائے مدارس صوبہ سندھ مقابلے کی بنیاد پر لکھیں اور چھہ کتابوں پر انعام ملا۔
تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ عنایت صاحب نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیر انتظام کئی درسی کتابیں بھی تحریر کیں مگر ان کی اصل وجہ شہرت ان کی لافانی شاعری ہے جس کی بنا پر وہ ہمیشہ اپنے بے شمار چاہنے والوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہیں گے۔ بنیادی طور پر وہ طنزومزاح کے شاعر تھے، اس اسلوب کی وجہ سے ان کو اکبر ثانی بھی کہا جاتا تھا، ان کا انداز اکبر الہ آبادی سے ملتا تھا، پروفیسر عنایت علی خان نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۱۱۹۔ اُنھیں ۲۰۰۳ء میں ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے بچوں کا بہترین ادیب قرار دیا گیا اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ازراہ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا، نہایت (انتخاب کلام)، رقعات عنایت علی ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی آپ کی کتابوں کے نام یہ ہیں چنو منو اور شیطان،پیاری کہانیاں،بولتے پھل، چڑیا کے بچے،کچھوا اور خرگوش،ہانڈی مل گئی،پیاری نظمیں،،قلم گما دیا،شیطان کو مارو کوڑا شامل ہیں۔ اُنھوں نے بچوں کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۱۲۰۔
جولائی ۲۰۲۰ء کو کراچی میں دل کے عارضے کے باعث وفات پاگئے۱۲۱۔
بچوں کے لیے آپ کی بیشتر نظموں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ درسی کتابوں میں شامل ہو کر مقبول ہوئیں، اسی طرح ان کی یہ نظم دیکھیے جو کئی عرصے تک سندھ کی ٹیکسٹ بک میں شامل رہی۔
ایک کہانی سنو رے بھیا
میز پہ میری چڑھ گئی چوہیا
میز پہ اِک پنسل جو دیکھی
دوڑ کے اْس کی جانب لپکی
پنسل نے گھبرا کر دیکھا
پاس ہی اِک کاغذ رکھا تھا
پنسل بولی کاغذ بھائی
دیکھو میری شامت آئی
جلد کوئی ترکیب بتاؤ
اس آفت سے جان چھڑاؤ
کاغذ بولا نزدیک آؤ
مجھ پر اِک تصویر بناؤ
پینسل اُس کے نزدیک آئی
اُس پر اِک تصویر بنائی
چوہیا نے تصویر جو دیکھی
اُلٹے پاؤں ڈر کر بھاگی
ایک کہانی سُنو رے بھیا
اْلٹے پاؤں بھاگی چوہیا۱۲۲
اس میں کہیں یہ بات شامل نہیں ہے کہ اس کاغذ پر پنسل نے کون سی تصویر بنائی۔ نظم کے ساتھ جو تصویر دی گئی ہے ، اس میں پنسل بلی کی تصویر بناتی ہے جسے دیکھ کر چوہیا بھاگ جاتی ہے۔اس طرح اسکیچ اور نظم کا خوب صورت ملاپ چھوٹے بچوں کے لیے مسرت کا باعث بنتا ہے۔
عبدالقادرعارفؔ:
بچوں کے معروف شاعر عبدالقادر دس جون ۱۹۳۹ء کو امراؤتی میںپیدا ہوئے۔ وہ عارفؔ تخلص کا استعمال کرتے تھے۔ میٹرک امراؤتی سے کیا۔۱۹۵۷ء میں بذریعہ بحری جہاز کراچی آئے۔ کراچی آکر مدرس مقرر ہوئے اور۱۹۸۹ء سے لیکر ۱۹۹۹ء تک یعنی چالیس سال تک پڑھاتے رہے۱۲۳۔
بچوں کے لیے لکھنے کے حوالے سے ماہنامہ ساتھی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں:
میں نے ایک نظم لکھی لیکن دل میں اتنی جھجک تھی کہ اسے روانہ نہیں کیا۔ عبدالغفور صاحب خود اسے لے کر ماہ نامہ آنکھ مچولیکے دفتر میں گئے۔ اس نظم کی اشاعت پر میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میری جھجک دور ہوگئی اور میں خود اپنی لکھی ہوئی نظم آنکھ مچولیکو روانہ کرنے لگا۔ میں ہفتے میں دوبار (پیر اور جمعرات کو) آنکھ مچولی کے دفتر (پیر کالونی) میں جانے لگا اور رضاکارانہ طور پر مدیر کے فرائض بھی ادا کرتا رہا۔ افسوس کہ ۱۹۹۷ء میں آنکھ مچولی کی اشاعت بند ہو گئی۔ ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۷ء تک میری ۴۲ نظمیں آنکھ مچولی میں شائع ہوئیں۔‘‘ ۱۲۴
بعد میں اْنھوں نے بچوں کے رسالے ماہنامہ ساتھی میں بھی لکھنا شروع کیا اور ۱۹۹۲ء سے لے کر اپنی وفات تک وہ ماہنامہ ساتھی ہی میں لکھتے رہے۱۲۵۔بچوں کے لیے ان کی متعدد نظموں میں معروف نظمیں یہ ہیں:
مونچھوں کی نمائش، بستہ ہے ایک من کا ،شانِ خدائی،بگلا،کنجوس کی فریاد،شرارت کرنے والوں کا برا انجام ہوتا ہے، گھر کی جھلک، شرارت سے شرافت تک، بلے میاں کی شادی، ماتھے کا جھومر، بلیوں کا ہسپتال، پھول کی فریاد، ایک بکرا لائیے، گلفام نامہ، زمین گول ہے، بچپن کا زمانہ اور بلڈاگ کا پہرہ شامل ہے۱۲۶۔
جب کہ اُنھوں نے بچوں کے لیے ڈرامائی مشاعرے بھی لکھے۔ یہ اسٹیج پر پوری ڈرامائی تشکیل کے ساتھ کھیلے جاسکتے ہیں۔ ان مشاعروں میں نعتیہ مشاعرہ، گلدستہ، سیاروں کی محفل، تحریک پاکستان مشاعرہاور پاگلوں کا مشاعرہ قابل ذکر ہیں۔
دعوۃاکیڈمی، اسلام آباد کے زیر انتظام شائع شدہ نظموں کے مقابلے میں تین بار آپ اوّل آئے۔
۵ ستمبر ۲۰۱۵ء کو آپ کا کراچی میں انتقال ہوا اور یہیں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۱۲۷۔
آپ کی نظمیں نوعمر بچوں کی دل چسپیوں کا احاطہ کرتی ہیں ۔ طویل مصرعوں اور قافیے کی ہم آہنگی اس میں موسیقیت پیدا کرتی ہیں۔ عبدالقادر کی نظموں کی خاص بات اس کا منظوم ہونا ہے، وہ اپنی نظموں میں کوئی کہانی بیان کرتے ہیں، یہ کہانی بچوں کی دل چسپی کو مہمیز بخشتی ہے اور قاری اس وقت تک چین نہیں پاتا جب تک وہ نظم کا آخری مصرع تک نہ پڑھ لے۔
مثال کے طور پر:
یہ قصہ ہے افیمی کا، جو اک گاؤں میں رہتا تھا!!
نشہ کرنے کی عادت تھی، بہت ہی بھولا بھالا تھا
لڑکپن گاؤں میں گزرا، جوانی بھی وہیں گزری
سیاحت کی تمنا تھی تو اس نے کرلی تیاری
سویرے ایک دن گھر سے روانہ ہو گیا پیدل
تھا کچا راستہ اور ہر طرف پھیلا ہوا جنگل
سفر مغرب کی جانب تھا، وہ چلتا ہی رہا سیدھا
ہوئی جب دوپہر تو ایک برگد کا شجر دیکھا
اُسی برگد کے سائے میں افیمی سو گیا تھک کر
مزے سے نیند لی ٹھنڈی ہوا میں اُس نے گھنٹہ بھر
ہوا بیدار تو مشرق کی جانب راہ لی اپنی
خبر اس کو نہیں تھی سمت اس کی ہو گئی الٹی
وہ چلتا ہی رہا اپنی ترنگ میں اور کوشش تھی
پہنچ جاؤں کسی بستی میں رات آنے سے پہلے ہی
غروب ہونے لگا سورج تو اپنے گاؤں میں پہنچا
مگر سمجھا افیمی نے میں اگلے گاؤں میں پہنچا
جب اُس نے گاؤں کو دیکھا، بہت یکسانیت پائی
کہا یہ گاؤں لگتا ہے مرے دیہات کا بھائی
دکانیں اور گلی کوچے، مجھے ویسے ہی لگتے ہیں
وہی شکل و شباہت کے یہاں انسان بستے ہیں
میں جس بستی میں رہتا ہوں، اُسی کا سارا نقشہ ہے
مجھے پورا یقین ہے یہ مرے گاؤں کا چربہ ہے
ہے میرا گھر بھی ایسا ہی جو میرے سامنے گھر ہے
یہ گاؤں تو مرے دیہات کا جڑواں برادر ہے
قدم گھر میں رکھا تو ایک محترمہ نظر آئی
افیمی نے وہ صورت اپنی بیگم کی طرح پائی
کہا آواز بھی اس کی مری بیگم کی جیسی ہے
جو عورت اس مکاں میں ہے، مری بیگم کی کاپی ہے
ہوئی جب بات عورت سے تو یہ عقدہ کھلا اس پر
یہی ہے میرا گاؤں، میری بیگم اور میرا گھر
تعجب تھا افیمی کو، سفر میں پورا دن گزرا
میں چلتا ہی رہا سیدھا تو کیسے اس جگہ پہنچا؟
افیمی نے جب اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑایا
سمجھ دانی سے فوراً حل معمے کا نکل آیا
زمیں کا پورا چکر میں نے اک دن میں لگایا ہے
عظیم الشان کرتب مابدولت نے دکھایا ہے
’’زمیں ہے گول‘‘ اس دعوے کو ثابت کر دیا میں نے
ثبوت اپنے سفر سے آج حاصل کر لیا میں نے۱۲۸
ابصارؔ عبدالعلی:
معروف براڈ کاسٹر، شاعر، ادیب اور حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر ابصار عبد العلی لکھنو میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کر کے لکھنو میں قومی آواز سے وابستہ ہو کر صحافت کے میدانِ خارزار میں قدم جمائے اور بچوں کے بعض رسائل میں ادارتی معاونت کا تجربہ حاصل کیا۱۲۹۔
۱۹۵۹ء میں پاکستان لاہور منتقل ہوگئے۔ آپ پی ٹی وی کے پہلے نیوز کاسٹر تھے۔ ٹی وی کے علاوہ ریڈیو پربھی مسلسل ۲۲ برس بطور نیوز کاسٹر کام کرتے رہے۱۳۰۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ اُنھوں نے سوشل ویلفیئر کے محکمے میں ملازمت کی اور وہاں ایک جریدے بہبودکی بنیاد بھی ڈالی۔ ان کا اپنا ایک ذاتی رسالہ سرشار بھی شائع ہوتا تھا۔ آپ ہمدرد کی مجلس شوریٰ لاہور کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ بچوں کے لیے ان کی لکھی گئی متعدد تصانیف میں خالی ہاتھ اور سارا جہاں ہمارا نمایاں ہیں۔ سارا جہاں ہمارا اور خالی ہاتھ کو پاکستان رائٹرز گلڈ کے توسط سے یونائیٹڈ بینک ادبی انعام سے بھی نوازا گیا۔
چینی نانی کی میٹھی کہانیاں، بنگلہ دیش کی کہانیاں اور گانے والا گدھا بھی ان کی بچوں کی نثری کاوش کا شاہکار ہے۱۳۱۔ نرسری کے بچوں کے لیے نظموں کی کتاب جو فیروز سنز لاہور سے شائع ہوئی وہ بتاشے کے عنوان سے ابصار عبدالعلی کی مقبول کاوش ہے۔جو بھارت سے بھی شائع ہوئی۔
آپ۲۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو رحلت فرما گئے۱۳۲۔
ابصار عبدالعلی نے بچوں کے لیے صوتی نظمیں کہیں۔ ان نظموں سے بچے مختلف آوازوں کو پہچان لیتے ہیں۔اردو میں بچوں کے ادب میں ایسے تجربے ہمیں بہت کم ملتے ہیں۔ابصار عبدالعلی نے اس طرح کی نظموں سے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔اُنھوں نے بچوں کے لیے نظموں کے علاوہ نثر بھی لکھی ،بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کو فیروز سنز نے خوب صورت اسکیچز کے ساتھ دلکش انداز میں شائع کیا۔
صوتی نظم کے حوالے سے ان کی نظمیں خصوصی توجہ کی مستحق ہیں، یہ نظمیں بچوں کی درسی کتابوں کا بھی حصہ بنیں۔ ان کی ذیل میںدی گئی یہ نظم ملاحظہ کیجیے:
بادل گرجے
گڑ گڑ گڑ گڑ
بجلی کڑکے
کڑ کڑ کڑ کڑ
پتے ہلتے
سر سر سر سر
مینڈک بولے
ٹر ٹر ٹر ٹر
بچے بھاگے
دھم دھم دھم دھم
پانی برسے
چھم چھم چھم چھم۱۳۳
ان کی ایک اور نظم دیکھیے جو بہت مشہور ہوئی:
بازار سے آئے ہیں
چینی سے بنائے ہیں
میٹھے ہیں ، کرارے ہیں
لے لو ، یہ بتاشے ہیں
گنبد سے یہ لگتے ہیں
ابلے ہوئے انڈے ہیں
جو بیچ سے کاٹے ہیں
لے لو، یہ بتاشے ہیں
رنگ ، روئی سا ان کا ہے
حلوائی نے دھنکا ہے
اسکول میں بانٹے ہیں
لے لو ، یہ بتاشے ہیں
منھ میں انہیں رکھو تو
ان کا مزہ چکھو تو
یہ کھیل تماشے ہیں
لے لو ، یہ بتاشے ہیں۱۳۴
تنویر پھولؔ:
بچوں بڑوں کے مشہور شاعر تنویر پھول کا پورا نام تنویر الدین احمد صدیقی ہے۔ آپ کی پیدائش۱۲؍اگست ۱۹۴۸ء کو مظفر پور (انڈیا) میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی تشریف لائے۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ ۱۹۷۱ء میں گریجویشن اور۱۹۷۳ء میں اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل امریکا میں مقیم ہیں۱۳۵۔
زمانہ طالب علمی ہی سے شاعری کا آغاز کیا اور دوران تعلیم ہی۱۹۷۰ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہوئے اور ۱۹۹۷ء میں ریٹائر ہوئے۔ آپ نے غزل، رباعی، دوہا اور ہائیکو پر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ آپ کا خاص طور پر نعتیہ کلام بہت مشہور ہوا۔ بچوں کے لیے بھی آپ نے بہت پیاری نظمیں کہیں۔ حکومت پاکستان نے تنویر پھول کو ان کی اعلیٰ خدمات پر ’’صدارتی ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ یہ ایوارڈ ان کی بچوں کے ادب کے سلسلے میں کی جانے والی خدمات کے سلسلے میں تھا۔ تنویر پھول نے بچوں کے لیے بھی بہترین ادب تخلیق کیا اور پاکستان میں نونہال، ساتھی ، ذوق وشوق ، تعلیم وتربیت جیسے بچوں کے رسائل میں آپ کی بے شمار نظمیں شائع ہوئیں۔بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی تصانیف میں خوشبو بھینی بھینی، چڑیا تتلی پھول ، نغمات پاکستان شامل ہیں۱۳۶۔
بچوں کے لیے دلچسپ نظمیں تحریر کرنے پر آپ کو ماہنامہ ساتھی کی طرف سے بہترین شاعر کا ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۱۳۷۔
بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے جو ماہنامہ ساتھی کے سو سالہ انتخاب میں شامل کی گئی۔
دیکھو موسم گرمی آیا
فطرت نے سردی کو بھگایا
دھوپ نے یہ ہم کو ہے بتایا
پھر گرمی کا موسم آیا
کیسی فضاؤں میں ہے حدت
توبہ ، یہ گرمی کی شدت
گلشن میں ہر گل کملایا
پھر گرمی کا موسم آیا
آم لگے ہیں پیلے پیلے
کتنے میٹھے اور رسیلے
اس پھل نے ہے دل کو لبھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
بھاپ سے اب بنتے ہیں بادل
کر دیں گے برسات میں جل تھل
قدرت نے کیا کھیل دکھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے کرتی ہیں اب نفرت
چھاؤں سے ہے سب کو الفت
موسم کی پلٹی ہے کایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے اب تپتا ہے میداں
گرمی سے ہے پھول پریشاں
ملتا نہیں میداں میں سایا
پھر گرمی کا موسم آیا۱۳۸
احمد حاطبؔ صدیقی:
احمد حاطب صدیقی ۳ فروری ۱۹۵۶ء کو پیدا ہوئے۔ اکتوبر ۱۹۷۸ء سے فروری ۲۰۱۶ء تک پی آئی اے میں ملازمت کی اور اس عرصے میںلکھنے لکھانے کا مشغلہ بھی جاری رکھا۱۳۹۔اپنے دورِ طالب علمی میں بہت سے تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں اوّل انعامات حاصل کیے۔ ابونثر کے نام سے آپ نے روزنامہ جسارت میں ایک طویل عرصے تک کالم نگاری کی جب کہ ان اخبارات میں بھی آپ نے کالم لکھے۔ روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، ہفت روزہ زندگی، ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، روزنامہ نئی بات ، ہفت روزہ ایشیا۱۴۰۔
احمد حاطب صدیقی کا کمال یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے ادیب ہیں اتنے ہی اچھے شاعر بھی ہیں۔ ان کی نظم اور نثر میں ان کا ایک جداگانہ انداز ملتا ہے۔ وہ روایتی شاعروں کی طرح نہیں ہیں کہ بچوں کو اپنی نظموں میں نصیحتیں کرتے پھریں، وہ نصیحت بھی اتنے مزے دار انداز میں کرتے ہیں کہ بچے ان نصیحتوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے قبول کرلیتے ہیں۔چوں کہ ان کی شاعری کا قد ان کی نثر پر بھاری ہے، اس لیے اُنھیں شاعروں کے حصے میں رکھا ہے۔یہاں ہم ان کی نظموں کے تذکرے کے ساتھ کہانیوں کا تذکرہ بھی کریں گے۔
آپ نے سب سے پہلے مزاحیہ کہانی سراغ رساں کے نام سے لکھی تھی۔ یہ کہانی ۱۹۶۸ء میں روزنامہ جنگ کراچی کے بچوں کے صفحے پر شایع ہوئی تھی۔ اس کہانی میں ایک بچہ سراغ رساں بن کر گھریلو جرائم کی تفتیش کرتاتھا۔شمی کی ٹافیوں کی پْراسرار چوری اور سیما کی گڑیا کا لرزہ خیز قتل اس سلسلے کی کہانیاں ہیں۱۴۱۔
احمد حاطب کی کہانی کلاس رومکوپاکستان ٹیلی وژن ،کراچی مرکز کی پروڈیوسر محترمہ فہمیدہ نسرین نے بچوں کے ایک پروگرام میں ڈرامائی صورت میں بھی پیش کیا۔
آپ نے آنکھ مچولی کے پہلے شمارے سے لکھنا شروع کیا اور اپنی بہترین کہانیوں اور نظموں سے اسے بامِ عروج تک پہنچانے میں اہم کردار اداکیا۱۴۲۔
بچوں کے لیے آپ کی لکھی گئی سات کہانیوں کو اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے کتابی صورت میں شائع کیا۔ جن میں وہ لڑکا کہاں گیا؟ٹنکو میاں کی نیکیاں، بے چارے فکری ماموں، کلاس روم، مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے!، تم تو لڑکی ہو!، مس مانو کی مزے دار میاؤں میاؤں شامل ہیں۱۴۳۔
احمد حاطب صدیقی نے زیادہ تر کہانیاں بڑے بچوں یعنی نوعمر بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ یہ کہانیاں ان کے ذوق کی تسکین کرتی ہیں۔اُنھوں نے بچیوں کے لیے علاحدہ کہانیاں لکھیں، اسی طرح اُنھوں نے لڑکیوں کے لیے خصوصی طور پر ان کی دل چسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نظمیں کہیں۔
لڑکیوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانی تم تو لڑکی ہو !کا یہ ٹکڑا دیکھیے:
پھر ہوا یوں کہ شمامہ بھی بڑی ہوگئی۔ عمار اور نبیل اوربھی بڑے ہوچکے تھے۔ دونوں اِسکول جانے لگے تھے۔ کچھ عرصے بعد شمامہ کا داخلہ بھی اِسکول میں ہوگیا۔اب تو حالات بہت بدل چکے تھے مگر کبھی کبھی عماراور نبیل کی شمامہ سے ’’پرانی دشمنی‘‘ نئے رنگ میں اْبھر آتی:
’’لڑکیاں تو بالکل بے کار ہوتی ہیں۔ کسی کام کی بھی نہیں۔تْم بھی بالکل بے کارہو۔ تْم تولڑکی ہو!‘‘
عمار صاحب اظہارِ راے کرتے تو شمامہ جواب میں اپنا مخصوص تکیہ کلام دوہراتی:’’جی نہیں!‘‘
پھر لڑکیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کرتی:’’لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ کام کرتی ہیں، جناب صاحب!… سارے گھر کاکام کرتی ہیں‘‘۔
’’بس گھر کے کام کرتی ہیںنا؟‘‘اب نبیل صاحب بھی اْسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہتے:’’لڑکے تو باہر کے بہت سارے کام کرتے ہیں۔ دفترکے کام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے افسر بنتے ہیں۔ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، فوجی…‘‘
’’لڑکیاں بھی یہ سب بنتی ہیں…‘‘شمامہ بات کاٹ کر کہتی:’’… اورلڑکیاں تو لیڈی ڈاکٹر اور اِسکول کی مس بھی بنتی ہیں جولڑکے کبھی بن ہی نہیںسکتے… اب بولو بچْو!‘‘
’’بس بس… رہنے دو…اللہ میاں نے لڑکوں ہی کو بڑے بڑے کاموںکے لیے بنایا ہے۔ لڑکیوں کوتو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بنایا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی آ علیہ وسلم بھی تو لڑکے ہی تھے جو بڑے ہوکر نبی ہوئے۔بھلا کوئی لڑکی بھی بڑی ہوکر نبی بنی؟‘‘
عمار صاحب ایک نئی دلیل لاتے اور شمامہ لاجواب ہوکر روہانسی ہوجاتی۔اب نبیل صاحب بھی فرماتے:
’’اِسی لیے تو لڑکوں کے پیدا ہونے پر لوگ زیادہ خوشیاں مناتے ہیں۔لڈو بانٹتے ہیں۔ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر تو جلیبیاں بانٹی جاتی ہیں‘‘۔
’’ایسے کام جاہل لوگ کرتے ہیں‘‘۔
شمامہ غصے میں جواب دیتی تو عمار صاحب کہتے:’’بھئی لڑکے تو بڑے ہوکر امی ابو کے کام آتے ہیں۔ اْنھیںکماکر کھلاتے ہیں۔لڑکیاں کس کام آتی ہیں؟ وہ تو اُلٹاشادی کے وقت جہیز لے کر چلی جاتی ہیں‘‘۔
اب تو شمامہ رو ہی پڑتی۔وہ سوچنے لگتی… کیا سچ مْچ اللہ میاں نے لڑکیوں کو ’’بے کار‘‘ بنایا ہے؟کیا لڑکیاں اِس قابل نہیں تھیں اللہ میاں ان کو نبی بناتے؟ آخر اُسے کیوں بات بات پر اپنے بھائیوں سے یہ طعنے سننے پڑتے ہیں کہ:
’’تْم تو ہو ہی بے کار… تْم تو لڑکی ہو!‘‘۱۴۴
اسی طرح ان کی نظموں کا مجموعہ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں کے نام سے کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔ اس مجموعے میںان کی بچوں کے لیے لکھی گئی ۲۴ نظمیں شامل ہیں۱۴۵۔
احمد حاطب صدیقی کی نظموں میں بھی کئی نظمیں مقبول ہوئیں مگر اس میں بھی سر فہرست یہ بات سمجھ میں آئی نہیںہے۱۴۶۔
نظم اُستادِ محترم کو میرا سلام کہنا،بدھو سی ایک بچی،تانگے کا ایک گھوڑا،شمامہ کی بلّی بھی ان کی مقبول نظموں میں شامل ہے۔ ان نظموں کی مقبولیت کا سبب یہ ہے کہ ان میں مزاح کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی ہے۔
بچوں کے لیے اگر نظم میں کوئی نصیحت کریں گے تو وہ بھی اتنے دل چسپ انداز سے کہ بچے ناصرف اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ وہ ان نصیحتوں کو مان بھی لیتے ہیں اور اپنی ان خامیوں کو قبول بھی کرلیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر یہ نظم دیکھیے جس میں بچوں کی خوش خوراکی اور نہ کھانے کی کی عادت، دونوں پر گرفت کررہے ہیں۔ اس موازنے سے نصیحت کارگر ہوگئی ہے۔
یہ بھی غلط ہے…
کل بازار میں بھیا شافی
پینے آئے ٹھنڈی کافی
اک دو پیکٹ بسکٹ کھائے
ٹھونس گئے دو درجن ٹافی
آلو چھولے کھا کر بولے
برفی ایک کلو ہے کافی
امی جی کی بات نہ مانی
ابو سے کی وعدہ خلافی
پیٹ ہوا آپے سے باہر
سہہ سہہ کر سب نا انصافی
ایسا کھٹکا پیٹ کا مٹکا
اللہ معافی… اللہ معافی
… وہ بھی غلط ہے
گڈو کا بھی حال سُنائیں
دودھ پیئیں نہ انڈے کھائیں
پھل ترکاری ایک نہ بھائے
غصے میں بس ہونٹ چبائیں
دیکھ کے دسترخوان پہ مچھلی
پاؤں پٹختے بھاگے جائیں
چاول روٹی گوشت کی بوٹی
دیکھیں تو نخرے دکھلائیں
دِن کا ہو یا رات کا کھانا
روئیں پیٹیں شور مچائیں
دبلے پتلے روکھے سوکھے
بات کرو تو لڑنے آئیں
اتنے ہلکے پھُلکے سے ہیں
فین چلے تو اُڑ ہی جائیں۱۴۷
شاہ نوازؔ فاروقی:
شاہ نواز فاروقی پاکستان کے معروف دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔ ۱۹۶۴ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۸۶ء میں جامعہ کراچی سے صحافت میں گریجویشن کیا اور وہیں سے ۱۹۸۸ء میں ماسٹرز کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ اُنھوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کراچی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ماہنامہ آنکھ مچولی سے کیا جس سے وہ ساڑھے تین سال تک وابستہ رہے۱۴۸۔آنکھ مچولی سے وابستگی کے دوران آپ نے بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں، نظمیں اور منفرد موضوعات پر دل چسپ مضامین تحریر کیے۔بعد ازاں ان تحریروں کے مختلف مجموعے منشورات لاہور نے شائع کیے۔ ان میں ایک گھر نہیں بناسکے،احسان فراموش آدمی،بے چارے بچے،بادشاہ کا نیا لباس،غیر مطمئن گاؤں،رائی کا پہاڑ،سچا پاکستانی،شیر کو زندہ کرنے والے اور وہ رات اور کالا باغ شامل ہے۱۴۹۔ جب کہ منشورات ہی نے ایک نظموں کا مجموعہ آبشار کے نام سے بھی شائع کیا ہے۔ آپ نے شین فاروقی کے قلمی نام سے بھی بچوں کے لیے کئی کہانیاں، مضامین لکھے۔ اسی طرح بڑوں کے لیے کالموں کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
احمد حاطب صدیقی کی طرح آپ کی بھی خوبی یہ ہے کہ جہاں آپ نے بچوں کے لیے نثری ادب تخلیق کیا، وہیں شعری ادب میں بھی آپ کا نام نمایاں ہے،بچوں کے لیے لکھی گئی آپ کی نظمیں مقبول ہوئیں۔ اس لیے جب بھی بچوں کے ادب میں شاہ نواز فاروقی کا ذکرآتا ہے تو پہلے ایک شاعر کا خیال آتا ہے پھر نثر نگار کا۔
آپ نے بچوں کے لیے شعر کہتے ہوئے اس میں مختلف تجربات کیے اور یہ نظمیں بچوں کے لیے آج بھی ویسی ہی تروتازہ ہیں۔ آپ کی زیادہ تر نظمیںآنکھ مچولی ہی میں شائع ہوئیں۔ آنکھ مچولی میں شائع ہونے والی اس نظم کو دیکھیے:
چاند
شاید خود کو سمجھ رہا ہو
آسمان کا ہیرو چاند
لیکن مجھ کو تو لگتا ہے
ایک بڑا سازیرو چاند
پیڑ
کھڑے کھڑے کیوں پھانک رہے ہو
بھیا پیڑ سڑک پر دھول
کمرے میں آجائو ورنہ
ہوجائیں گے میلے پھول
ہوا
بند کر دیا دروازہ تو
کھڑکی سے آگئی ہوا
پانی مانگا، ٹائم پوچھا
پتا لکھا تب گئی ہوا۱۵۰
بچوں کے رسائل میں اسکیچز بھی شائع ہوتے ہیں، اس لیے ایسی نظمیں بغیر تصاویر کے شائع ہوں تو بچوں کے لیے بوریت کا باعث بنیں لیکن ان چھوٹے چھوٹے مصرعوں کے ساتھ دلکش اسکیچز نظم کی خوب صورتی کو بڑھارہے ہیں۔
اسی طرح شاہ نواز فاروقی کی کہانیاں بھی آنکھ مچولی کے قارئین میں بہت مقبول تھیں۔ بچے ان کی تحریر کا انتظار کرتے۔ رسالے میں شائع ہونے والے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچے مستقل لکھنے والے ادیبوں سے ایک خاص انسیت رکھنے لگتے ہیں جس کا اظہار خطوط میں ہوتا ہے۔
آنکھ مچولی میں شائع شدہ ان کی تحریرساحلی جھیل کا بھوت کا یہ اقتباس دیکھیے، جس میں وہ قاری کی توجہ کو چند سطر ہی میں کھینچ لیتے ہیں۔اس کہانی میں ایک ایسے بہادر لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے جس نے اپنے بھالے سے بھوت کو ہلاک کر دیا تھا۔
بورا نام کا جزیرہ ماکو کا وطن ہے۔ یہ جزیرہ ہمارے ملک سے بہت دور بحرالکاہل میں واقع ہے۔ رقبہ کے اعتبار سے یہ کوئی جزیرہ نہیں ہے، آپ کشتی کے ذریعہ ایک دن میں آسانی کے ساتھ اس کا چکر لگا سکتے ہیں۔ جزیرے کا درمیانی اور اہم ترین حصہ سطح سمندر سے خاصا بلند ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ حصہ ایک قلعے کی مانند نظر آتا ہے۔ اس حصے کی ڈھلوان چٹانوں پر آبشار سفید سفید پگڈنڈیاں سی بناتے ہوئے گرتے ہیں۔ اگر آپ نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو بہت سی پہاڑی بکریاں اِدھر اُدھر قلانچیں مارتی نظرآئیں گی۔
ماکو اس جزیرہ کے اس حصے میں پیدا ہوا تھا۔ جو سمندر سے بہت قریب ہے۔ ماکو کے دن کا بیشتر وقت ساحلی جھیل کے آس پاس گزرتا۔ اس جھیل کو جزیرے کے دوکٹے ہوئے بازو نما حصوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ماکو کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ نے بڑا ہنر رکھا تھا۔اس نے وہیل وغیرہ کے شکار کے لیے پانچ نوکیلے برچھوں والا ہتھیار بنایا ہوا تھا۔ ماکو کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی بھی تھی ، یہ کشتی بھی ماکو نے ایک درخت کے تنے کو درمیان سے ہلکا سا کھود کر خود ہی تیار کی تھی۔کشتی کے توازن کو بر قرار رکھنے کے لیے ماکو نے کشتی کے ایک طرف بانس نما ایک چیزباند ھ رکھی تھی۔ماکو کی یہ کشتی بس اتنی بڑی تھی کہ وہ خود اور اس کا پیارا کتا ا س میں آسانی کے ساتھ بیٹھ سکتا تھا۔
پورا جزیرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔اچانک سمندر میں جوار بھاٹا آگیا اور سمندر کی موجیں جزیرے کی چٹانوں سے سر ٹکرانے لگیں۔ ماکو اس وقت چٹائی پر لیٹا ہوا اپنے دادا کی باتیں سن رہا تھا۔
ماکو کے دادا اس وقت ساحلی بھوت ٹوپا کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ماکو نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، وہ اس خطرناک بھوت کے بارے میں طرح طرح کے قصے سن رہا تھا۔ جزیرے کے مچھیر ے ایک ساتھ بیٹھتے تو اسی بھوت کے بارے میں باتیں کرتے۔بستی کے بڑے بوڑھے سرد راتوں میں جب الائو کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ تاپتے تو وہ بھی اس بھوت کے کبھی نہ ختم ہونے والے قصوں کو دہراتے۔
ٹوپا کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ساحلی جھیل کو اپنا گھر سمجھتا ہے۔ جزیرے کے باشندے ٹوپا کو خوش کرنے کے لیے اکثر راتوں کو جھیل کے کنارے بکرے، بھیڑ، یا کھانے پینے کو کوئی اور چیز رکھ دیتے۔ لوگ صبح اْٹھ کر دیکھتے تو کھانے کی یہ چیزیں پر اسرار طور پر غائب ہوجاتیں۔ یہ دیکھ کر لوگ مطمئن ہوجاتے اور سوچتے کہ یقیناً ٹوپا ہی نے انھیں کھالیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی جزیرے کے مچھیروں کے جال اکثر کٹے پھٹے پائے جاتے اور ان کی مچھلیاں غائب ہوجاتیں۔ ’’لگتا ہے ٹوپا بہت ہی بھوکا ہے؟‘‘ جزیرے کے لوگ اس پر تبصرہ کرتے۔
جزیرے کے بہت کم لوگوں نے ٹوپا کو دیکھا تھا۔ ماکو کے دادا ان لوگوں میں سے ایک تھے۔
’’آخر وہ ہے کیسا؟‘‘ماکو نے اپنے دادا سے شاید سوویں مر تبہ پوچھا۱۵۱۔
ہم پیچھے تبصرہ کرچکے ہیں کہ شاہ نواز فاروقی ، شین فاروقی کے نام سے بھی لکھتے تھے، یہ تحریر بھی اُنھوں نے اسی قلمی نام سے لکھی ہے۔آنکھ مچولی کے علاوہ اُنھوں نے ماہنامہ ساتھی میں بھی لکھا۔
شاہین اقبال اثرؔ:
بچوں کے مشہور شاعر محترم شاہین اقبال کا تعلق کراچی سے ہے۔ آپ یکم اپریل ۱۹۷۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۵ برس کی عمر سے بامقصد شاعری کا آغاز کیا۔ بہت جلد آپ کی نظمیں ہفت روزہ ختمِ نبوت، الاشرف،سلوک و احسان اور دوسرے رسائل کی زینت بننے لگی۔آپ ۱۹۹۶ء سے بچوں کے لیے پراثر نظمیں تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں۱۵۲۔
بچوں کے لیے آپ نے سب سے زیادہ بچوں کا اسلام اور ذوق وشوق میں نظمیں لکھیں۔ آپ نے ہر طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے، ان میں خاص طور پر دینی و اصلاحی موضوعات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جانوروں پر آپ کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں، اسی طرح آم سے آپ کے لگاؤ نے اُردو شاعری میں ’’آم‘‘ کے حوالے سے بہترین مزاحیہ شاعری کا اضافہ کیا ہے۔ بچوں کے لیے اب تک آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔جن میں محبت کی کلیاں، نصیحت کے پھول اور روشنی کی کرن ہیں۱۵۳۔
محبت کی کلیاں، نصیحت کے پھولمیں شائع ہونے والی اس نظم سے ان کے انداز بیاں کو سمجھا جاسکتا ہے۔
پیش جب منے میاں نے گھر میں اپنی رائے کی
ابو ابو ہم بھی قربانی کریں گے گائے کی
جونہی ابو نے سنی یہ رائے فورا ہائے کی
اس قدر مہنگائی میں قربانی وہ بھی گائے کی
اس کی خاطر تو ہمیں گھر بیچنا پڑ جائے گا
گھر کرائے کا ہمیں پھر دیکھنا پڑ جائے گا
پھر کہا منے نے ابو دل بڑا کر لیجیے
آپ قربانی کا پہلے حوصلہ کر لیجیے
اس عبادت کو نہیں ہرگز قضا کر لیجیے
سور بقرا کو پڑھ کر ہی دعا کر لیجیے
حق تعالی آپ کو بھی دیں گے وسعت گائے کی
جمع ہو جائے گی آسانی سے قیمت گائے کی
گائے کے آنے سے گھر بھر میں خوشی آ جائے گی
غم کی تاریکی چھٹے گی روشنی آ جائے گی
بند ہو گا رونا، ہونٹوں پر ہنسی آ جائے گی
سچ بتاؤں زندگی میں زندگی آ جائے گی
دوستوں کے ساتھ مل کر گائے کو ٹہلائیں گے
باوجودِ موسمِ سرما اسے نہلائیں گے
وقف ہو جائیں گے ہم گائے کی خدمت کے لیے
رات بھر جاگیں گے ہم اس کی حفاظت کے لیے
سہرا پہنائیں گے اس کے رخ پہ زینت کے لیے
آئیں گے احباب گائے کی زیارت کے لیے
گائے کی تعریف میں مل کر قصیدے گائیں گے
عید کے دن کر کے قربانی اسی کو کھائیں گے
جانبِ قربان گاہ لے جائیں گے اعزاز سے
سوئے مقتل وہ روانہ ہو گی اس انداز سے
خوفِ نیزہ کو گرا دے گی نگاہِ ناز سے
منھ کو آئیں گے کلیجے اس کے سوز و ساز سے
اپنے مالک کی رضا پر جان سے جائے گی وہ
یوں خدا پر جان دینا ہم کو سکھلائے گی وہ۱۵۴
چوں کہ آپ نے نوعمر بچوں کے رسائل میں لکھا ، اس لیے آپ کے موضوعات بھی نوعمر بچوں کے ذوق کا احاطہ کرتے ہیں۔آپ بچوں کے لیے اب بھی تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔
حوالہ وحواشی:
۱۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص ۴۶۴
۲۔ خوش حال زیدی، ڈاکٹر، مارچ، ۱۹۸۹ئ، اردو میں بچوں کا ادب، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ص۲۵
۳۔ حسین، شمائلہ، ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۷ئ، میرزا ادیب کے حالات زندگی اور شخصیت، روزنامہ دنیا، لاہور، ص۵
۴: دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/mirza-adeeb/profile?lang=ur
۵۔ وحید، تمثیلہ، ۱۹۹۱ئ، میرزا ادیب اور بچوں کا ادب،مشمولہ: ’میرزا ادیب، شخصیت فن‘، مقبول اکیڈمی، لاہور، ص ۵۸۴
۶۔ ایضاً
۷۔ ایضاً
۸۔ مسعود، طاہر، اگست ۱۹۹۳ئ، بچوں کے مرزا ادیب، مکتبہ پیام تعلیم جامعہ نگر، نئی دہلی، ص ۱۰
۹۔ دیکھیے ویب گاہ: چاچا-صدر-دینhttps://roshnai.com
۱۰۔ سعید، حکیم محمد، ۱۹۹۲ء ، بچوں کے حکیم محمد سعید، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص:۱۰
۱۱۔ دیکھیے ویب گاہ: حکیم-محمد-سعیدhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۲۔ یہ مقالہ شہید حکیم محمد سعید کی یاد میں منعقدہ سیمینار، لاہور میں پڑھا گیا تھا، جسے بعد ازاں روزنامہ پاکستان نے دوبارہ شائع کیا۔ دیکھیے:
برکاتی، مسعود احمد، جنوری ۲۰۲۱ئ، بچوں کے لیے حکیم محمد سعید کے کارنامے، روزنامہ ’پاکستان‘، لاہور،ص: ۴
۱۳۔ سعید، حکیم محمد، ۱۹۹۲ء ، بچوں کے حکیم محمد سعید، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص:۱۰
۱۴۔ دیکھیے ویب گاہ: کتابیات-حکیم -محمد-سعیدhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۵۔ سعید، حکیم محمد، ۱۹۹۵ء ، سعید سیاح جاپان میں، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۱۱۱
۱۶۔ دیکھیے ویب گاہ: مسعود-احمد-برکاتیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۷۔ عظیمی، وقار یوسف، اگست ۲۰۱۳ئ، بچوں کے ادب کا بڑا نام مسعود احمد برکاتی، ہفت روزہ اخبارِ جہاں، کراچی،ص ۳۰
۱۸۔ ایضاً
۱۹۔ عباس،قمر، ڈاکٹر، مئی ۲۰۱۹ء ، ہمدرد نونہال اور مسعود احمد برکاتی، سنڈے میگزین،روزنامہ ’جنگ‘، کراچی، ص ۱۰
۲۰۔ دیکھیے ویب گاہ: مسعود-احمد-برکاتیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۲۱۔ دیکھیے ویب گاہ:248950/gohar-taj-94/https://www.humsub.com.pk
۲۲۔ برکاتی، مسعود احمد، اکتوبر ۱۹۹۰ئ، سونے کی تین ڈلیاں، مشمولہ:’ماہنامہ ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۴۰
۲۳۔ ریحانہ پروین، ڈاکٹر، ۱۹۹۷ئ، ڈاکٹر شفیق الرحمن ایک مطالعہ، وجے پبلشر، نئی دہلی، ص ۳۰
۲۴۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/shafiqur-rahman/ebooks?lang=ur
۲۵۔ ورک، اشفاق احمد، ۱۰ نومبر۲۰۲۰ء ، شفیق الرحمن کے سوسال، روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز، لاہور، ص۴
۲۶۔ شفیق الرحمن، شکاری صاحب اور بھوت، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص۳
۲۷۔ شفیق -الرحمنhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۲۸۔ لودھی، اسلم، یکم مارچ ۲۰۲۱ئ، طالب الہاشمی، ’نوائے وقت‘،لاہور، ص۷
۲۹۔ دیکھیے ویب گاہ: http://irak.pk/the-death-of-allama-talib-hashmi/
۳۰۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/talib-al-hashmi/ebooks?lang=ur
۳۱۔ ہاشمی، طالب، جنوری ۲۰۰۶ئ، چاند کی ہتھکڑی اور دوسری کہانیاں، طہٰ پبلی کیشنز، لاہور، ص۵۸
۳۲۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/saeed-lakht/ebooks?lang=ur
۳۳۔ محمود الحسن، ۸ فروری ۲۰۱۵ئ، سعید لخت، روزنامہ ’ایکسپریس‘، سینچری پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۲
۳۴۔ احمد، اشتیاق، میری کہانی، اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۰۵
۳۵۔ محمود الحسن، ص۱۲
۳۶۔ لخت، سعید، جون ۱۹۸۹ء ، جگنو اور بندر، مشمولہ :ماہنامہ ’تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص۳
۳۷۔ دیکھیے ویب گاہ: اے_ حمید(مصنف)https://ur.wikipedia.org/wiki/
۳۸۔ ایضاً
۳۹۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2011/04/110429_a_hameed_dies_rwa
۴۰۔ حمید، اے، خلائی تختی کا راز، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور، ص ۸۴
۴۱۔ برکاتی، مسعود احمد، 19 فروری 2018، بچوں کے معراج صاحب،نونہال بلاگ اسپاٹ، کراچی، ص۱
۴۲۔ ایضاً
۴۳۔ معراج، جولائی ۱۹۸۷ئ، نارنجی بیل، مشمولہ :ماہنامہ ’ہمدرد نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص ۲۴
۴۴۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.hilal.gov.pk/urdu-article/detail/Mjg5Mw==.html
۴۵۔ سلہری، منزہ منور، ثاقبہ رحیم الدین۔ بچوں کے ادب کی مصنفہ، نورِ تحقیق، لاہور، ص۱۴۳
۴۶۔ ایضاً
۴۷۔ دیکھیے ویب گاہ: ثاقبہ-رحیم-الدینhttps://urdukahani.org\
۴۸۔ احمد، اشتیاق، میری کہانی، اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی، ص۸
۴۹۔ کوہستانی، اعظم طارق، جنوری۲۰۱۶ئ، بچوں کے ادب کا ستارہ ڈوب گیا، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۶۴
۵۰۔ ایضاً
۵۱۔ دیکھیے ویب گاہ: اشتیاق -احمدhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۵۲۔ دیکھیے ویب گاہ: /18-Nov-2015/430250 /www.nawaiwaqt.com.pk
۵۳۔ احمد، اشتیاق، نومبر ۲۰۱۳ء ، چاند کا نشان، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۱۵۲
۵۴: کھوکھر، محمد افتخار، جون ۲۰۱۵ئ، میری زندگی کا مقصد، مشمولہ: پیغام ڈائجسٹ، بزم پیغام، ص ۱۰
۵۵۔ دیکھیے ویب گاہ:http://www.bio-bibliography.com/authors/view/698
۵۶۔ کھوکھر، محمد افتخار، اکتوبر ۲۰۲۱ئ، تحفے کا کمال، مشمولہ: ’بچوں کا اسلام‘، اسلام پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۴۷
۵۷۔ دیکھیے ویب گاہ:http://alsharia.org/iftikhar-khokhar
۵۸۔ کھوکھر، محمد افتخار، صحرا کا جہاز، دارالسلام پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، لاہور، ص9
۵۹۔ چغتائی، کلیم، نومبر ۲۰۱۷ئ، فاتح قادسیہ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۲۰
۶۰۔ ،۲۰۱۴ئ، عظیم مسلم شخصیات، ٹائم مینجمنٹ کلب، کراچی، ص۶
۶۱۔ ایضاً
۶۲۔ چغتائی، کلیم، نومبر ۲۰۱۷ئ، ص ۲۳
۶۳۔ مغل، سلیم، ۱۰ جنوری ۲۰۲۲ئ، سلیم مغل سے بات چیت، غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ: اعظم طارق کوہستانی، ص ۷
۶۴۔ ، مئی ۲۰۱۵ء ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴۴
۶۵۔ ، ۱۰ جنوری ۲۰۲۲ئ، ص ۸
۶۶۔ ، جنوری ۱۹۸۷ء ، مواصلاتی سیارے، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۲۰۱
۶۷۔ پاریکھ، رؤف ،نومبر ۲۰۱۷ء ، ہمارے مشغلے، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، ص ۱۳
۶۸۔ سعیدی، اختر، ۱۱؍اپریل ۲۰۱۸ء ، انٹرویو :ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ’مڈویک میگزین‘، روزنامہ ’جنگ‘، کراچی، ص۴
۶۹۔ https://www.dawn.com/authors/418/rauf-parekh
۷۰۔ پاریکھ، رؤف، دسمبر ۲۰۱۷ء ، ہیرے والا شتر مرغ، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص۲
۷۱۔ سعیدی، اختر، ص۵
۷۲۔ پاریکھ، رؤف، ص۵
۷۳۔ کوہستانی، اعظم طارق، دسمبر ۲۰۱۶ئ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۶
۷۴۔ ، ۱۰ جنوری ۲۰۲۲ء ، منیر احمد راشد کی خدمات، غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ: اعظم طارق کوہستانی، ص ۴
۷۵۔ راشد، منیر احمد، جون ۱۹۹۳ء ، کمانڈو فور، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی ص۲
۷۶۔ کوہستانی، اعظم طارق، دسمبر ۲۰۱۶ء ،ص۴۸
۷۷۔ ، ۱۰ جنوری۲۰۲۲ء ، ص ۱۰
۷۸۔ راشد، منیر احمد، مئی ۱۹۹۲ء ، سلو میرا دوست ہے، مشمولہ: آنکھ مچولی، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۴۹
۷۹۔ دیکھیے ویب گاہ: ابن-آس-محمدhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۸۰۔ دیکھیے ویب گاہ:https://www.youtube.com/watch?v=_43JPVvts54
۸۱۔ دیکھیے ویب گاہ: ابن-آس-محمدhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۸۲۔ محمد، ابن آس، نومبر ۲۰۲۱ء ، چوہے کا چاکلیٹ کیک، مشمولہ: ’بچوں کا آشیانہ‘ ،آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۲
۸۳۔ دیکھیے ویب گاہ: نعیم -احمد- بلوچhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۸۴۔ ماہنامہ ،آنکھ مچولی، مارچ ۱۹۹۷ء ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص ۳
۸۵۔ دیکھیے ویب گاہ: نعیم -احمد- بلوچhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۸۶۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/naeem-ahmad-baloch/ebooks?lang=ur
۸۷۔ بلوچ، نعیم احمد، جنوری ۲۰۰۱ئ، احساس کے آنسو، دارالسلام پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، لاہور، ص ۶-۱۲
۸۸۔ صدیقی، سیما، اکتوبر ۲۰۲۱ء ، ماروں گا تمانچا کھینچ کر،مشمولہ: ہفت روزہ ’بچوں کا اسلام‘،اسلام پبلی کیشنز، کراچی، ۲۶۶
۸۹۔ ،فروری ۲۰۱۵ئ، جن جنجال میں، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص ۲۰
۹۰۔ ایضاً
۹۱۔ ، دسمبر ۲۰۲۰ء ،گیدڑ بھبکی،بچوں کا کتاب گھر،لاہور، ص۱
۹۲۔ ،فروری ۲۰۱۵ئ، ڈے کیئر سینٹر، مشمولہ: ’جن جنجال میں‘، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص۹۴
۹۳۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.rekhta.org/authors/akhtar-abbas/ebooks?lang=ur
۹۴۔ دیکھیے ویب گاہ: https://akhterabas.com/introduction
۹۵۔ عباس، اختر، ۲۰۱۹ئ، آداب زندگی کے، ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور، ص۳
۹۶۔ ،۲۰۰۷ئ، بہانے باز، ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور، ص۵
۹۷۔ ،دسمبر ۱۹۹۲ء ، ہرنوٹا شہر میں،مشمولہ: ماہنامہ ’پھول‘، نوائے وقت پریس، لاہور، ص۶۴
۹۸۔ قریشی، محمد ادریس، اکتوبر۲۰۲۱ء ، چچا حیرت اور مہمان، مشمولہ : ہفت روزہ بچوں کا اسلام، اسلام پبلی کیشنز، کراچی ، ص ۴۲۴
۹۹۔ انبالوی، نذیر، جون ۲۰۱۹ء ، ایک ادیب ایک کتاب، جواں ادب ڈاٹ کام، لاہور، ص۱
۱۰۰۔ قریشی، محمد ادریس، اکتوبر ۱۹۹۱ء ، بن بلائے مہمان، مشمولہ: ماہنامہ تعلیم وتربیت، لاہور، ص۳۵
۱۰۱۔ تبسم، صوفی غلام، ۲۰۱۳ئ، جھولنے، کتاب(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی، ص۹۴
۱۰۲۔ قریشی،نثار،۱۹۹۱ء ،صوفی غلام مصطفیٰ تبسم،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد، ص۲
۱۰۳۔ تبسم، صوفی غلام، ۲۰۱۳ء ، جھولنے، کتاب(پرائیوٹ) لمیٹڈ، کراچی، ص۷۵
۱۰۴۔ تبسم، صوفی غلام، ص۵۶
۱۰۵۔ قیوم -نظرhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۰۶۔ ایضاً
۱۰۷۔ مسعود، طاہر، جنوری ۲۰۲۱ئ، انٹرویو:قیوم نظر، مشمولہ:’سنڈے میگزین‘، روزنامہ جسارت، کراچی، ص۱۱
۱۰۸۔ ،، جنوری ۲۰۲۱ئ، ص۱۲
۱۰۹۔ قیوم -نظرhttp://naatkainaat.org/index.php/
۱۱۰۔ نظر، قیوم، جون ۲۰۱۸ئ، بلبل کا بچہ، روشنائی ڈاٹ کام،ص ۳
۱۱۱۔ ریاض، احمد ریاض،۱۹۸۸ئ، ابن انشا احوال وآثار، انجمن اُردو پاکستان، کراچی، ص۲۳
۱۱۲۔ ابن انشا ، ۱۹۹۶ء ، بلو کا بستہ، فضلی سنز، کراچی، ص ۴۵۹
۱۱۳۔ ریاض، احمد ریاض،ص۱۹۱
۱۱۴۔ ابن انشا، ۱۹۹۶ئ،بلو کا بستہ، فضلی سنز، کراچی، ص۵
۱۱۵۔ ریاض، احمد ریاض،ص۱۰۰
۱۱۶۔ ابن انشا، ۱۹۹۶ئ، بلو کا بستہ، فضلی سنز، کراچی، ص۱۲
۱۱۷۔ ریاض، احمد ریاض،۱۹۸۸ئ، ابن انشا احوال وآثار، انجمن اُردو پاکستان، کراچی،ص۱۰۰
۱۱۸۔ کوہستانی، اعظم طارق، نومبر ۲۰۱۵ئ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص ۵۶
۱۱۹۔ دیکھیے ویب گاہ: عنایت-علی-خانhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۲۰۔ خان، عنایت علی، مئی ۱۹۹۳ء ، چنو منو اور شیطان، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۳
۱۲۱۔ دیکھیے ویب گاہ: https://urdu.geo.tv/latest/227503
۱۲۲۔ خان، عنایت علی،۲۰۱۵ء ، پیاری نظمیں، منشورات، لاہور، ص۲۷
۱۲۳۔ کوہستانی، اعظم طارق، مئی ۲۰۱۳ء ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۶
۱۲۴۔ ایضاً
۱۲۵۔ عبدالقادر، جون۲۰۱۶ئ، محمدؐ رسول داور، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۵۶
۱۲۶۔ ، جون۱۹۹۶ئ، پھول کی فریاد، مشمولہ: ماہنامہ ’آنکھ مچولی ‘،گریم گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۵۶
۱۲۷۔ خان، محمد طارق، اکتوبر ۲۰۱۵ئ، السلام علیکم، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۴
۱۲۸۔ عبدالقادر، ۲۰۱۲ئ، زمین گول ہے، مشمولہ: ماہنامہ’ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴۴
۱۲۹۔ دیکھیے ویب گاہ: https://dailypakistan.com.pk/07-Nov-2016/473531
۱۳۰۔ دیکھیے ویب گاہ:https://www.nawaiwaqt.com.pk/22-Dec-2018/958925
۱۳۱۔ عبدالعلی، ابصار، ۱۹۹۴ء ، بنگلہ دیش کی کہانیاں، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ص۲
۱۳۲۔ دیکھیے ویب گاہ: https://www.dawn.com/news/1452676
۱۳۳۔ عبدالعلی، ابصار، اکتوبر ۱۹۹۸ء ، بتاشے، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، ص۶
۱۳۴۔ ، ایضاً، ص۲۶
۱۳۵۔ تنویر-پھولhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۳۶۔ https://poetbiography.wordpress.com/2015/03/09/tanveer-phool
۱۳۷۔ ماہنامہ ساتھی، جنوری ۲۰۱۶ئ، ’رائٹرز ایوارڈکی روداد‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص ۴۸
۱۳۸۔ پھول، تنویر، ۲۰۰۹ء ،بچوں کی نظموں کا سوسالہ انتخاب، ساتھی پبلی کیشنز، ص۱۵
۱۳۹۔ کوہستانی، اعظم طارق، مارچ ۲۰۱۶ء ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ماہنامہ ’ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۴
۱۴۰۔ احمد -حاطب- صدیقیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۴۱۔ کوہستانی، اعظم طارق، مارچ ۲۰۱۶ء ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مشمولہ: ماہنامہ ‘ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲۸
۱۴۲۔ صدیقی، احمد حاطب، جولائی ۱۹۸۶ء ، مانو بلی سے بامحاورہ باتیں، مشمولہ: آنکھ مچولی ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی ،ص ۷۷
۱۴۳۔ ، ۲۰۱۷ئ، بے چارے فکری ماموں، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۲
۱۴۴۔ ، ۲۰۱۷ء ، تم تو لڑکی ہو، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۷
۱۴۵۔ ، دسمبر۲۰۱۷ئ، یہ بات سمجھ میں آئی نہیں، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص۲
۱۴۶۔ ایضاً، ص۱۸
۱۴۷۔ ایضاً، ص۱۵
۱۴۸۔ شاہنواز-فاروقیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۱۴۹۔ فاروقی، شاہ نواز، ۲۰۱۹ئ، ایک گھر نہیں بناسکے، منشورات، لاہور، ص۲
۱۵۰۔ ، جون ۱۹۸۸ئ، چاندپیڑ ہوا، مشمولہ: ماہنامہ ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۳۹
۱۵۱۔ فاروقی، شین، جنوری ۱۹۹۰ء ، ساحلی جھیل کا بھوت، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص ۵۹
۱۵۲۔ جونپوری، اثر، ۲۰۲۰ء ، روشنی کی کرن، آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی، ص۴
۱۵۳۔ جونپوری، اثر،۲۰۱۸ء ، محبت کی کلیاں، نصیحت کے پھول، اسلام پبلی کیشنز، کراچی، ص۵
۱۵۴۔ ایضاً، ص۵۷