skip to Main Content

بابِ اوّل: بچوں کا ادب: نوعیت و ارتقا

بچوں کا ادب: نوعیت و ارتقا
ابتدا سے ۱۹۷۱ء تک

تعارف :
بچہ جیسے جیسے بڑا ہو کر شیر خوارگی اور لڑکپن سے نوجوانی کی دہلیز پر پہنچتا ہے ویسے ہی اس کی شخصیت کا خاکہ کئی حوالوں سے مکمل ہو جاتا ہے۔ بچے جو کچھ اپنی ابتدائی عمر میں سیکھتے ہیں، عمر بھر اسی کا عکس بنتے ہیں۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، وہ صرف روتا ہے، ماں کا دودھ پیتا ہے، دھیرے دھیرے آس پاس کے ماحول سے آشنا ہوتا ہے۔ ایک سال سے تین سال کی عمر تک وہ آس پاس کی چیزوں کو پہچاننے لگتا ہے۔ تین سے چھہ سال کی عمر کے دوران وہ پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے اور چھہ سے دس برس کی عمر میں اس کی دل چسپی متعدد نوع کی چیزوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔وہ بے چین اور بے قرار رہتا ہے اور نئی نئی چیزوں کی کھوج میں لگا رہتا ہے۱۔ اگر ابتدا ئی عمر ہی سے اس کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشو و نما بہتر ہو تو وہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنتا ہے لیکن ان معاملات میں کوتاہی برتی گئی ہو تو انسان نہ صرف اپنی زندگی کو مشکلات و مصائب سے دوچار کرتا ہے بلکہ دوسروں کا بھی جینا دوبھر کردیتا ہے۔
بچے ابتدائی عمر ہی سے اپنے مستقبل کے منصوبے ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُنھوں نے آگے جا کر کیا کرنا ہے۔ اگر ان کی نگہداشت اور تربیت میں کسی قسم کا خلا رہ جائے تو وہ یہ بھی طے کرتے ہیں کہ اُنھیں کس قدر بُرا بننا ہے۔ وہ اچھائی اور برائی کے الگ سے معیارات قائم کرلیتے ہیں اور ان معیارات کو برقرار رکھنے کے لیے دلیل تلاش کرتے ہیں۔مفروضات کی بنا پر دلیلیں گھڑتے ہیں، جو دل چاہتا ہے دماغ وہی سوچنے لگتا ہے۔
بچے اچھا سوچیں، ان کے خیالات عمدہ اور پاکیزہ ہوں، وہ برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی مانیں اور نہ صرف مانیں بلکہ ان پر ان کا اطلاق عملی طور پر بھی ہو، تاکہ وہ ان کے پھیلانے کا ذریعہ بنیں، اس کے لیے معاشرے کو ان کے مزاج کے مطابق مختلف تربیتی پروگرام متعارف کروانے پڑیں گے۔ حکومتی سطح پر عموماً نصاب کے ذریعے ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر(جنھیں ہم؍ ہم نصابی یا غیر نصابی سرگرمیوں سے موسوم کرتے ہیں) مختلف اخلاقی و تربیتی پروگرامات کا اجرا ہوتا ہے۔
بچوں کو مستقبل میں کارآمد بنانے کے لیے دنیا بھر میں ان کے مزاج اور معاشرت کے لحاظ سے ان کے لیے ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔ یہ ادب بچوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بچوں کا ادب ہمت و جرأت، عزم و حوصلہ، سچ سے محبت، جھوٹ سے نفرت، حاضر دماغی، نظم و ضبط، تہذیب یافتہ، قومی و ملی جذبہ، سماجی شعور، بھائی چارگی، رحم دلی، اُخوت، حیا، انکساری، کسرِ نفسی، عزت و احترام جیسی متعدد صفات کا حامل بناتاہے۔
بچوں کے ذہن میں بہت سارے سوالات ہوتے ہیں اور ان سوالات کی تشفی بچوں کا ادب ہی کرواتا ہے۔ یہ بچوں کا ادب ہی ہے جو بچوں میں لطیف جذبات پروان چڑھاتا ہے۔ اس کے ذوقِ جمال کو بڑھاوا دیتا ہے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی معاشرہ جب اپنے بچوں میں کسی اچھی صفت کو ناپید پائیں تو وہ اسے بچوں کے ادب میں شامل کر دیں۔ چند ہی برسوں میں نئی نسل ان خصوصیات سے مُتّصف ہوگی جو ہم اُن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
آزادی کے کئی برس بعد بچوں کے اُردو ادب میں منفی اثرات مرتب ہوئے، رسالے بند ہوگئے، ناشرین منتشر ہوئے اور آبادی میں اضافہ ہونے کے باوجود رسائل کی اشاعتیں کم ہوتی چلی گئیں اور اس پر مستزاد یہ کہ مصنّفین، شعرا نے توجہ اور دلچسپی لینا چھوڑ دی جو اس سے پہلے کی نسلیں دیا کرتی تھیں۲۔
سوال یہ ہے کہ اُردو میں بچوں کا ادب کیا ہے؟ اور اسے اب تک کیسے برتا گیا ہے۔
ہمارے اکثر و بیشتر اُدبا و شعرا اب تک اسی مخمصے میں ہیں کہ بچوں کا ادب کسے کہتے ہیں؟
ابتدا میں بچوں کو بہلانے کے لیے جو لوریاں اور لوک گیت وجود میں آئے اسے ہم بچوں کا ادب کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خوش حال زیدی کہتے ہیں کہ بچوں کی ابتدا دراصل ماں کی لوریوں سے ہی ہوتی ہے۔ ان لوریوں کو بچہ اس وقت سنتا ہے جب وہ پہلی بار دنیا میں آکر ماں کی گود میں آنکھیں کھولتا ہے۔ یہ گیت اور لوریاں صدیوں سے رائج ہیں۳۔
ہمارے زمانہ حال کے ادیب اپنی تحریروں میں بچوں کے کردار شامل کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادب بچوں کا ہے۔ حالاںکہ کسی تحریر میں بچوں کے کردار اور مکالموں سے ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ بچوں کی ہیں۔ بچے تو تحیر، تجسس کے دلدادہ ہیں، وہ تو اپنے مزاج کے مطابق ادبی تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔
یہ بات ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ماضی میں بچوں کے لیے باقاعدہ ادب نہیں لکھا گیا تھا بلکہ لکھنے والوں نے لکھا تو بڑوں کے لیے تھا لیکن بچوں نے ان کتابوںکو پڑھنے کے بعد اُسے اپنی ملکیت سمجھا۔ ڈاکٹر محمود الرحمن نے اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ’تھیکرے‘ (Thackeray) کی کتاب Henry Esmond جو صرف بڑوں کے لیے لکھی گئی تھی، بچوں میں بے حد مقبول ہوئی، اس طرح مشہور شاعر اورادیب ’جان بینن‘(John Bunyan) نے زنداں کی دیواروں میں مقید ہو کر Pilgrim’s Progrssجیسی مذہبی کتاب لکھی اور اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ اس کی تخلیق پر بچے اپنی ملکیت کا دعویٰ کر بیٹھیں گے۴۔
بچہ فطرتاً حرکت و عمل پسند کرتا ہے، جس کہانی یا نظم میں حرکت ہو، صرف مکالمے کے ذریعے نہیں عمل کے ذریعے کہانی آگے بڑھ رہی ہو، ایسی کہانیوں میں بچوں کی دلچسپی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حرکتِ عمل تحریروں میں جان ڈال دیتا ہے۔ ایسی تحریر بچے اور اس کی شخصیت پر دیرپا اثرات چھوڑتی ہے، ایسی کہانیاں انسانی شعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور زندگی کے کئی مواقعوں پر یہ کہانیاں راہ نمائی کرتی نظر آتی ہیں۔
غلام حیدر کا اصرار ہے کہ بچوں کا ادب خالص تفریحی، وقت گزاری، مشغلے یا صرف اخلاقی قدروں کو پہچاننے کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے زیادہ افادی بنانے کے لیے اسے تعلیمی زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ادب کو فرحت ومسرت کے ساتھ تعلیمی اور تربیتی شعور بھی مہیا کرنا چاہیے تاکہ ان بچوں کو آنے والی زندگی کے شعور کے ساتھ آنے والے حالات کے لیے بھی تیار کیا جائے۔۵
اینیڈ بلیٹن(Enid Blyton) کی کہانی ’برائی کا سفر‘ دیکھ لیجیے کہ کیسے ایک لڑکا ’ہمت ‘کے لفظ کا غلط استعمال کرتا ہے اور اس کا نتیجہ بھگتتا ہے۔ اپنی غلط حرکت سے لے کر نتیجہ بھگتنے تک کا سفر اتنا متحرک ہے کہ بچہ کسی صورت وقفہ برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ ہر لحظہ وہ کہانی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ آگے کیا ہوا؟۶
بچوں کا ادب اسی کا متقاضی ہے کہ بچہ کتاب ہاتھ میں اٹھائے تو بوریت سے اسے واپس رکھنے کا خیال تک اپنے ذہن میں نہ لائے۔اسی طرح نظموں میں بچے نغمگی بھرے اشعار کو پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اُنھیں اکثر و بیشتر اس کے معنی تک معلوم نہیں ہوتے۔ شعری محاسن ان کی سوچ سے اُوپر کی چیز ہے۔ اس کے باوجود وہ اشعار کو یاد کرتے ہیں، اسے گنگناتے ہیں۔ یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ نظم جس میں موسیقیت ، دلچسپی ہو اور متنوع موضوع ہو، دس بارہ سال تک کے بچوں کے لیے خوب دلچسپی کا سامان پیدا کرتی ہے، چھوٹی عمر ہی میں بچے تک بندی شروع کردیتے ہیں، جبکہ دس سے بارہ سال کے بعد بچوں میں سنجیدگی بڑھ جاتی ہے اور وہ اچھی کہانی، مضمون یا ناول پسند کرنے لگتے ہیں، ہلکی پھلکی نظموں کو وہ اپنی عمر اور معیار سے نیچے سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ۷
بچپن میں سنی گئی نظمیں تاعمر یاد رہتی ہیں، اس کے اثرات دوررس اور مختلف ہوتے ہیں، جنگی ترانے ان میں جوش پیداکرتے ہیں، رزمیہ شاعری کو وہ جوش وجذبوں کے موقعوں پر یاد رکھتے ہیں، وہیں شعر کی غنائیت ان کے کانوں کو موسیقی سے آشنا کرتی ہے، نظم میں کہانی کا تاثر بچے کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتی ہے۸، نظموں میں شامل وہ چیزیں جو بچے جانتے ہیں اور ان کا مطلب سمجھتے ہیں اُنھیں سن کر وہ خوش ہوتے ہیں اور سمجھنے کے بعد وہ روحانی سرشاری اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔
جدید نظام تعلیم میں ابتدائی جماعتوں میں ان نظموں کے ذریعے ہی بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوب لہک لہک کر نظمیں گنگناتے ہیں جن میں کہیں خدا کی وحدانیت ہے تو کہیں اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔کہانی اور نظم دو ایسی چیزیں ہیں جو بچے کی تعلیم وتربیت کا بنیادی وسیلہ ہے۔۹
احمد حاطب صدیقی کے ان اشعار کو دیکھ لیجیے :

گر بلّی شیر کی خالہ ہے
پھر ہم نے اُسے کیوں پالا ہے؟
کیا شیر بہت نالائق ہے؟
خالہ کو مار نکالا ہے؟
یا جنگل کے راجا کے یہاں
کیا ملتی دودھ ملائی نہیں؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں۱۰

’’یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘‘ یہ جملہ تو گویا زبانِ زد عام ہوگیا ہے۔ جب انسان کسی کا دوہرا رویہ یا کسی واقعے کا غیر معمولی رُخ دیکھتا ہے تو خود بخود یہ الفاظ منھ سے مصرعے کی صورت میں نکلتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آئی نہیں۔
بچے فطرتاً حساس ہوتے ہیں۔بچوں کے لیے نظموں میں تجسس اور نئی دنیا کی طرف پرواز کرنے کا پیغام موجود ہوتا ہے۔ نفسیاتی مطالعات بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے ذوقِ تجسس کو پروان چڑھانے کے لیے ان نظموں کا پڑھایا جانا کافی سودمند ہے تاکہ وہ غم اور خوشی کے جذبات کو اچھی طرح پہچان سکے اور نظم میں موجود جذبہ واحساس سے ہم آہنگ ہوسکے۱۱۔
اگر ہم اس نفسیاتی عمل کو بچوں کے ادب کے پیرائے میں جانچنے یا سمجھنے کے لیے دیکھیں تو وہ گھر والوں کے درمیان بیٹھ کر خوف ناک اور ڈرائونی باتیں یا واقعات سن کر خوف زدہ ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابتدائی عمر میں جنوں بھوتوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں، ڈر محسوس کرتے ہیں لیکن فطری تجسس اسے اُکساتا ہے اور جنوں بھوتوں، دیو، پریوں کی ان کہانیوں کے ذریعے سے مجبور ہو کراپنی تخیلات کی دنیا وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے ذہن ان چیزوں کی تصویر خود بناتے ہیں۔ یہ کردار اس کے اپنے ڈیزائن کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹی وی یا فلموں کے ذریعے جب سے ان کرداروں کو بچے دیکھنے لگے ہیں، اس کے تخیل کا محل لَرزہ براَندام ہوچکا ہے۔ اب وہ دماغ پر زیادہ زور نہیں دیتے کیوں کہ ہو بہو ایک شکل ان کے سامنے آچکی ہے۔ جب کبھی کسی دیو یا پری کا ذکر آئے گا ان کے ذہن میں وہی کردار آموجود ہوں گے جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔
بچوں کے ناقدین کے نزدیک صرف سادہ بیانی بچوں کا ادب نہیں ہے، اس میں ہمیں بہت ساری چیزوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔کچھ ادیب یہ سمجھتے ہیں کہ تحریر مشکل الفاظ سے پاک ہو اور سیدھی سادھی ہو تو وہ بچوں کے لیے شمار ہوگی۔ حالاں کہ اس طرح کی تحریریں سپاٹ ہوتی ہیں جو بچوں کی دل چسپی حاصل نہیں کرپاتیں، اس کے برعکس وہ بات جس میں صوتی آہنگ ہو بچوں کو پسند ہے اور اب یہ تو ادیبوں کا کمال ہے کہ وہ کتنے فیصد سادگی کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں۔
رئیس فروغ کی صرف دو لفظوں پر مشتمل اس نظم کو دیکھیے جو سادہ وپرکار ہے:

چڑیا آ
پانی پی
دانہ کھا
چوں چوں چوں
تیرے گھر
منا سا
بچہ ہے
اس کو لا
چوں چوں چوں
میں تو اب
آپا سے
پڑھنے کو

جاتا ہوں
تو بھی جا
چوں چوں چوں ۱۲

اسی طرح کچھ چیزیں ایسی ہیں جو سادہ تو نہیں ہیں لیکن ان کا صوتی آہنگ ایسا ہے کہ بچہ خوب لہک لہک کر پڑھتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے :

مرا گھر سمندر کی گہرائیوں میں
میں رہتا تھا لہروں کی پرچھائیوں میں
کبھی سیپیوں میں کبھی کائیوں میں

مزید کہتے ہیں

میں لپکا تو پربت نے مجھ کو دھکیلا
وہ اکڑا، میں گرجا، وہ بھپرا میں کھیلا
پر افسوس فانی ہے کھیلوں کا میلا۱۳

یہاں اَکڑا، گرجا، بھپرا، کھیلا، میلا کے الفاظ بچوں کو خوب مزہ دے رہے ہیں۔ وہ ان لفظوں پر جھوم جاتے ہیں۔
اس لیے شعر کا محض سیدھا سادہ ہونا ہی سب کچھ نہیں، اس کے اندر الفاظ کا مناسب انتخاب، ان کی ترتیب اور ان کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اس میں ایسے مناظر ہوں جو بچوں کو مسحور کریں۔ شعر میں شدت تاثر کو اس طرح پیش کریں تو ان میں نئے پن کا احساس خود بخود شامل ہوجاتا ہے۔
بچوں کے ادب میں ہر وہ چیز شامل ہے جو بچے پڑھتے اور سمجھتے ہیں، چاہے وہ نظمیں، کہانیاںیا مضامین ہوں، سبھی میں بچوں کے لیے دلچسپی کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ بچوں کے اَدب میں پہلی اور آخری چیز یہ ہے کہ وہ دل چسپ ہو۔ باقی تمام باتیں ثانوی ہیں کہ آپ بچوں کو حب الوطنی کا سبق دیں گے یا اُنھیں جھوٹ سے نفرت اور سچائی سے محبت کا درس دینا چاہتے ہیں۔ لازمی اور اہم کام اس میں دل چسپی پیدا کرنا ہے۔ بڑے اس چیز کا تعین کرتے رہ جائیں گے اور بچے ان چیزوں کو منتخب کریں گے جو ان کی دلچسپی کی ہوں گی، چاہے وہ بچوں کے لیے نہ بھی لکھی ہوں، وہ ان کی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ہنری اسٹیل کومیگر (Henry Steel Comagar) انگریزی کے معروف نقاد ہیں وہ بچوں کے ادب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہم بچوں کے ادب سے کیا سمجھتے ہیں۔ کیا یہ وہی ادب ہے جو خاص بچوں کے لیے لکھا گیا ہو، جیسے پریوں کی عجیب و غریب کہانیاں، ننھی منی نظمیں، پندو نصائح اور آداب و اخلاق کی خشک کتابیں یا اسکول اور کھیل کے میدان سے متعلق قصے اور دور دراز ملکوں کی داستانیں! یہ سب یقینا یہی ہیں لیکن یہ ادب اس سے بھی وسیع ہے۔
بچوںکا یہ ادب بڑوں کا وہ سرمایہ ہے جسے اُنھوں نے مقبول کرلیا ہے اور بلاشرکت غیرے اس پر قابض ہوگئے ہیں اور فی الحقیقت یہی ان کا اپنا ادب ہے کیوں کہ نہ والدین، نہ معلم، نہ مبلغ، نہ مصنف بلکہ خود بچے یہ تعین کرتے ہیں کہ ان کا ادب کیا ہے؟۱۴

خصوصیات:

ہرادبی فن پارے کا اپنا ایک معیار ہے جسے اس کے اصول وضوابط کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ لہٰذا بچوں کے اَدب کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس کی جملہ خصوصیات اور قدر کا علم ہواور ہمیں یہ بھی علم ہو کہ کون سی چیز بچوں کا اَدب نہیں کہلاسکتی اور کون سی چیز بچوں کا اَدب کہلاتی ہے۔
بچوں کے اَدب کی خصوصیات کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک ادیب اس سلسلے میںکسی ایک پہلو کولے کر بچوں کا اَدب تخلیق کرتا ہے اور کسی رسالے کے مدیر کے نزدیک کوئی اور پہلو زیادہ اہم ہوتاہے۔ مدیر اور ادیب کی ذہنی ہم آہنگی بچوں کے لیے ایک ایسے ادب کو تخلیق کرواتا ہے جو اُس دور کے بچوں کے ادب کی ضرورت ہے۔
بچوں کے ادیب احمد حاطب صدیقی کہتے ہیں:

کسی قوم کے بچوں کے ادب میں وہ تمام خصوصیات ہونی چاہیے جو وہ قوم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتی ہے۔۱۵

مانچسٹر میں موجود بچوں کی ادیبہ ساجدہ غلام محمد مزید وضاحت کے ساتھ یہ راے دیتی ہیں:

بچوں کے ادب میں نصیحت واشگاف الفاظ میں نہ ہو اور نہ ہی لمبے چوڑے لیکچر کی صورت میں۔ بچوں کا اَدب متحرک ہونا چاہیے۔ ایک ہی منظر کے بجاے کردار متحرک ہوں، بالکل ایسے ہی جیسے حقیقی زندگی میں بچے ہوتے ہیں۔ شرارت کرتے معصومانہ سوال کرتے ہوئے بچے۔۱۶

اب بچوں میں اچھی عادات وخصائل کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں اُن خامیوں کو دور کریں جو اُنھیں بوجھل بنادیتی ہیں۔ پُر اثر اور مزے دار کہانیوں میں عموماً نصیحتیں بین السطور انداز میں ہوتی ہیں۔ کردار بھی تحرک آمیز ہوں گے اور اس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی جو ایک اچھی تحریر کا خاصہ ہے۔ ذیل میں ہم ان نکات کا جائزہ لیںگے جو بچوں کے اَدب کو اچھا ، عمدہ اور دلچسپ بناتی ہے۔

بچوں کا اَدب منطقی نہیں ہوتا:

بچوں کا ذہن منطقی نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں دو جمع دو…چار کے بجاے پانچ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس چیز پر آپ چونک جاتے ہوں کہ مصنف نے اس جگہ غیر منطقی بات کہہ دی ہے، وہ بات شاید بچوں کے لیے معمول کی بات ہو۔ جب بچوں کے لیے لکھا جاتا ہے تو آپ جانور کے منھ سے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ برتنوں اور کھلونوں سے گفتگوکرواتے ہیں لیکن بچے اس میں منطقی غلطیاں تلاش کرنے کے بجاے اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس لیے ’بچوں کے ادب‘ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں منطق نہیں چلتی۔
یہاں احمد حاطب صدیقی کی اس نظم کو بطور نمونہ دیکھیے کہ کیسے شمامہ بلی سے مکالمہ کررہی ہے اور بلی بھی شمامہ کو جواب دے کر لاجواب کردیتی ہے، بچوں کو الم غلم کھانے سے روکنے کے لیے اس نظم میں بلی کو جس طرح بولتے ہوئے دکھایا ہے، اس پر بچوں کو ذرا حیرت نہیں ہوتی اور وہ محویت اور دلچسپی سے اس نظم کو سنتے ہیں اور لطف اٹھا کر اس سے سبق حاصل کرتے ہیں:

یہ بڑے مزے کا قصہ ہے
جو گھر کا پچھلا حصہ ہے
اُس حصہ کے ایک کونے میں
کپڑوں کے نرم بچھونے میں
اک بھوری بلی رہتی ہے
بلی سے شمامہ کہتی ہے
اے مانو میری بات سنو
پر سوچ سمجھ کے ساتھ سنو
میں روز تمھیں نہلاتی ہوں
یہ سُرخ ربن پہناتی ہوں
پھر پیالہ دھو کر لاتی ہوں
پیالے میں دودھ پلاتی ہوں
یا تازہ چھیچھڑے منگوا کر
خوب اچھی طرح سے دُھلوا کر
دیتی ہوں تُم کو کھانے کو
کھا پی کر بھوک مٹانے کو
میں جب بھی مچھلی کھاتی ہوں
چُپکے سے تمھیں دے جاتی ہوں
کس پیار سے میں سمجھاتی ہوں
یہ سَو سَو بار بتاتی ہوں
مت گندی چیزیں کھاؤ تم
مت خود کو روگ لگاؤ تم
پر کیا تم عقل کی کچی ہو؟
ناں! تم تو اچھی بچی ہو!
پھر چوہے تم کیوں کھاتی ہو؟
کیوں منھ کو خون لگاتی ہو؟
سب چوہے گندے ہوتے ہیں
گندی نالی میں سوتے ہیں
تم گھنٹوں بیٹھی تکتی ہو
چوہوں کی تاک میں رہتی ہو
کب چوہا باہر آئے گا
کچھ چپکے چپکے کھائے گا
تُم کود کے آن دبوچو گی
پھر اُس کی گردن نوچو گی
پھر ہبڑ ہبڑ کھا جاؤ گی
یوں اپنی حرص مٹاؤ گی
بے کار ہے تُم کو سمجھانا
کچھ ڈھنگ سلیقہ سکھلانا
یہ بات شمامہ کی سُن کر
مانو نے کہا: باجی بہتر
میں آپ کا کہنا مانوں گی
سب بُرا بھلا پہچانوں گی
پَر آپ مجھے سمجھاتی ہیں
خود الّم غلّم کھاتی ہیں
’’چنگم‘‘ دِن رات چباتی ہیں
یا لالی پاپ اُڑاتی ہیں
قُلفی فالودہ دہی بڑے
بازار کے چھولے گلے سڑے
بس کھانے پر جب آتی ہیں
سب اَلا بَلا کھا جاتی ہیں
پھر پیٹ پکڑ کر روتی ہیں
اور درد سے بے کَل ہوتی ہیں
تب کڑوی گولی ملتی ہے
انجیکشن سوئی لگتی ہے
اب اور بھلا کیا بتلاؤں
بس میاؤں میاؤں می آؤں۱۷

ہمارے اکثر شعرا نے اس قسم کی نظمیں کہی ہیں، جس میں جانور وں، حشرات الارض پر اور نظام شمسی جیسے متعدد غیر جاندار چیزوں کو بھی باتیں کرتے ہوئے دکھایا ہے۔
بچوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا کہ چاند کیسے باتیں کرتا ہے،
یا سورج دادا غصے میں بادلوں کو کیوں ڈانٹتا ہے؟
بھلا کدال، یا کاریں بھی باتیں کرتی ہیں؟
یہ ساری منطقی باتیں بڑوں کے لیے ہیں، بچے ان چیزوں سے ماورا ہیں۔

متحرک بچے متحرک ادب :

آپ ایک سال سے لے کر دس سال تک کے بچے کا بغور مشاہدہ کریں۔ وہ آپ کو مستقل حرکت کرتا ہوا نظر آئے گا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ کسی دَم اُسے چین نہیں آئے گا۔ اسی طرح بچوں کو بھی ایسی چیزیں پسند آتی ہیں، جس میں حرکت ہو اور جو تیز تر ہو۔ زیادہ دیر تک ایک منظر سے بچے اُکتا جاتے ہیں۔ کہانی میں ٹھہراؤ بچوں کو ناپسند ہے۔
متحرک کہانی کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
شیر کا گوشت توتے کو دینے کے بعد مسٹر جونز بری طرح تھک چکے تھے۔ وہ ابھی آرام کے لیے بیٹھے ہی تھے کہ اسے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ پانی کے تالاب کی جانب سے بھی پینگوئن کے شور مچانے کی آواز آنے لگی۔ ابھی یہ شور تھما نہیں تھا کہ ہاتھی کے زوردار چنگھاڑنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ سب جانور اپنی پوری آواز میں چیخیں مار رہے تھے۔
’’میں آرہا ہوں۔‘‘
مسٹر جونز نے کہا اور بھاگتا ہوا شیر کے پنجرے کے پاس آیا۔
’’اس مچھلی سے عجیب سی بو آرہی ہے۔‘‘ شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
’’اسے دور پھینک دو اور مجھے میرا گوشت دو۔‘‘مسٹر جونز نے شیر سے مچھلی پکڑ کر بھاگتے ہوئے پانی کے تالاب میں ڈال دی۔
’’میں کب سے گھاس کو کھانے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘ پینگوئن نے بے بسی سے کہا: ’’جیسے ہی میں اسے کھانے لگتا ہوں یہ اُڑنے لگتی ہے۔‘‘ مسٹر جونز نے جلدی سے گھاس لے جا کر ہاتھی کو پکڑا دی۔ ہاتھی تو جیسے تیار بیٹھا تھا۔
’’ان بیج کو لے جاؤ یہاں سے… ان سے میرا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تم نے میری گھاس مجھے لوٹا دی۔‘‘
اب مسٹر جونز کھانے کے بیج لے کر توتے کے پاس گیا۔’’اس قدر سخت گوشت بھلا کون کھا سکتا ہے۔‘‘ توتے نے مسٹر جونز کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر کہا۔ ’’ میں اپنے بیج کھاؤں گا۔‘‘ ۱۸
اس میں کردار مستقل حرکت میں ہیں، وہ یہاں اور وہاں بھاگ رہے ہیں۔ بچے اس کیفیت کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ مسٹر جونز کی پریشانی پر پریشان ہو کر جانوروں پر غصہ ہونے لگتے ہیں، یہی متحرک انداز بچوں کو کہانی سے جوڑے رکھتا ہے۔ بچے کہانی کو آگے سننا چاہتے ہیں کہ کیا جانور اپنی احمقانہ روش سے باز آجاتے ہیں؟
کہانی میں صرف مکالمہ ہو، یا مکالمہ زیادہ ہو تو یہ صورت حال پیش آتی ہے کہ بچہ بور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مکالمہ اور منظر نگاری میں معتدل مزاجی بچے کو ایک اچھا اَدب فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ بہت چھوٹے بچوں کے لیے کہانی لکھتے ہوئے مکالموں سے حتیٰ الامکان پرہیز کرنا چاہیے اور بیانیہ انداز رکھنا چاہیے۔چھوٹے بچوں کو عموماً کہانی سنائی جاتی ہے یا پھر جب وہ خود پڑھتے ہیں تو مکالموں کے بجاے بیانیہ انداز کو وہ زیادہ بہتر انداز سے سمجھتے ہیں۔

آسان زبان کا استعمال:

کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ بچوں کے لیے آسان زبان میں لکھنا چاہیے۔ آسان زبان سے وہ کچھ اور ہی مراد لیتے ہیں۔ آسان سے مراد اُنھوں نے آسان زبان سمجھ لیا ۔
الیاس مجیبی اس غلط فہمی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

خبر نہیں کہاں سے یہ بات نکلی اور چل پڑی کہ بچوں کے لیے آسان زبان برتنی چاہیے۔ یہ بات بجا اور درست ہونے کے باوجود ایسی پھیلی جس سے کچھ غلط فہمیاں بھی ہوئی ہیں، کسی نے اگر اس کا یہ مطلب سمجھا ہے کہ آسان الفاظ کا انبار لگادیا جائے تو وہ خاک نہیں سمجھا، بچوں کو نہ بچوں کے ادب کو۔۱۹

اب ہمیں آسان انداز کو سمجھنا ہوگا کہ جب ہم چھوٹے بچوں کے لیے کچھ لکھتے ہیں تو …
۱۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے کردار کو دو چار سے زیادہ نہ بڑھائیں ورنہ چھوٹا بچہ کرداروں میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے۔
۲۔ اسی طرح کہانی میں مکالموں کی تعداد کم رکھی جائے۔ انداز بیانیہ زیادہ ہو تو بچہ پڑھنے اور سننے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ کرداروں کو بڑھایا اور مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
۳۔ کہانی کا انداز یوں نہ ہو کہ آپ بچے سے بڑے بن کر ’’میر ے بچو! سنو بچو!‘‘ کہہ کر ان سے فاصلہ پیدا کریں بلکہ بچوں کو کہانی میں اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ یہ کہانی سنانے والا اُن کے تمام احساسات اور محسوسات کو سمجھتا ہے۔
۴۔ کہانی کے آغاز ہی میں قاری کو اپنی گرفت میں یوں لے لینا چاہیے کہ وہ خود کو ان کرداروں کے ساتھ چلتا پھرتا محسوس کرے۔ابتدا ہی میں بچوں کو کہانی کے مندرجات بتاکر آگے تجسس اور دیگر چیزیں شامل کرلیں، کچھ ادیب ایسا بھی کرتے ہیں کہ وہ ابتدا ہی سے قاری کو چونکاتے ہیں، یہ طریقہ نو عمر بچوں کے لیے تو ٹھیک ہے، لیکن چھوٹے بچے اس انداز سے بوکھلا جاتے ہیں اور اچانک ڈھیر سارے سوالات اس کے دماغ میں پیدا ہوجاتے ہیں۔
بچوں کے لکھاری جاوید بسام اپنی کہانیوں میں اس چیز کا التزام رکھتے ہیں کہ وہ اپنے قاری کو ابتدا ہی میں کہانی کا پلاٹ سمجھا دیتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے کہانی میں مشکلات اور آخر میں ان کا حل پیش کرتے ہیں اور اس معاملے میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، اُن کی اس کہانی کا ابتدائی پیرا دیکھیے:
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب لوگ بگھیوں میں سفر کرتے تھے۔ امریکا کے ایک دور دراز قصبے میں بلاقی نام کا ایک کوچوان اپنی دو گھوڑوں والی بگھی میں سامان پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ وہ ایک بہادر اور ایمان دار آدمی تھا، دوسروںکے کام آتا اور مطالعے کا بھی شوقین تھا۔ وہ رات کو ضرور کوئی کتاب پڑھ کر سوتا تھا،گھنٹہ گھر کے قریب ایک پرانی لائبریری تھی۔ اس کا مالک ہیری ،بلاقی کا دوست بن گیا تھا۔ بلاقی ایک دو دن بعد وہاں جاتا اور اپنی پسند کی کچھ کتابیں کراے پر لے آتا تھا۔
موسم بہار کے شروع میں ایک خوش گوار دن جب چیری کے درختوں پر پھول کھل رہے تھے، بلاقی گھنٹہ گھر کے پاس کسی کا سامان پہنچانے گیا ہو اتھا۔ واپس آتے ہوئے وہ ہیری کے پاس رک گیا۔ باتوں کے دوران اس نے محسوس کیا کہ ہیری کچھ پریشان ہے۔۲۰
اس میں قاری کو ابتدا ہی میں وہ ساری معلومات مل رہی ہیں، جس کی بنیاد پر اسے کہانی کو سمجھنا اب زیادہ مشکل نہیں لگ رہا ہے۔میاں بلاقی کون ہے؟ اس کے مشاغل اور اس کے کام کی تفصیلات کے ساتھ ہی ایک پریشانی کا ذکر…جس سے قاری کہانی کی گرفت میں آجاتا ہے، یہاں مصنف کو آسانی ہوجاتی ہے اور وہ اپنے قاری کو ہاتھ سے پکڑ کر اختتام تک لے جاتا ہے اور یہی ایک اچھی کہانی کی پہچان ہے۔

مشکل الفاظ :

بچوں کے اَدب کی یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ اُس میں آسان الفاظ یا مشکل الفاظ کی بھر مارنہ ہو کبھی آسان الفاظ کے ساتھ کچھ مقامات ایسے ضرور آنے چاہیے کہ جس میںبچے کو نئے الفاظ سیکھنے کو ملیں۔
ہمارے ہاں ادیبوں نے باقاعدہ یہ مہم چلا رکھی ہے کہ وہ بچوں کو کسی نئے لفظ سے آشنا نہیں کروائیں گے اور اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ناشرین اور مدیران بھی اُن مشکل الفاظ کے معانی دینے میں کنجوسی کرتے ہیں جس کے باعث وہ لفظ بچہ پڑھ تو لیتا ہے لیکن اُن کے مطلب سے آشنا نہیں ہوپاتا۔ اسی لیے سبھی کی یہ ذمہ داری ہے کہ مشکل الفاظ بہت زیادہ نہ ہوں لیکن بالکل بھی نہ ہوں، ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ہمارے ہاں اچھے ادیب اور مدیران اب بھی ان چیزوں کا خیال رکھتے ہیں کہ مشکل الفاظ کا استعمال بھی بچوں کو سکھائیں۔کچھ ادیب بھی اپنی دلچسپ کہانی میں باتوں ہی باتوں میں مشکل الفاظ سکھادیتے ہیں، کہانی کے اندر سکھایا گیا لفظ قاری کو تادیر یاد رہتا ہے۔مائل خیر آبادی کی یہ تحریر دیکھیے کہ وہ کیسے کہانی ہی کہانی میں بچوں کو نئے الفاظ سکھارہے ہیں۔

اور سنو سعیدہ بی؟ تم نے جو کہا کہ وہ بھوت بن کر رہ گیا۔ تو وہ لفظ بھوت نہیں ہے۔ تم نے جس سے یہ کہانی سنی اس نے کہا ہوگا کہ نمرود بادشاہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ تم مبہوت کو بھوت سمجھیں۔‘‘
’’امی جان! مبہوت کے معنی کیا ہیں۔‘‘ ہم سب نے پوچھا۔
’’مبہوت کے معنی ہیں ہکا بکا ہو کر رہ جانا۔ اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اس کی سمجھ بے کار سی ہوگئی۔ سمجھے تم سب۔‘‘۲۱

بچوں کی ذہنی نشوونما کے مطابق ادب کی تفہیم :

بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما بہت تیزی کے ساتھ ہوتی ہے ۔ان کے بڑھنے کی اور سیکھنے کی رفتار ایسی ہوتی ہے کہ ہر سال اُن کے اندر آپ تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ اُن کی زبان ستھری ہوئی جاتی ہے ۔اسی طرح کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ ابتدامیں اگر وہ کسی نظم کو لہک لہک کر پڑھتا تھا اور نظمیں اُسے اچھی لگتی تھیں تو ایک یا دو برس بعد وہی بچہ ان نظموں میں دلچسپی لینے کے بجائے کہانیوں کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔ اُسے کوہ قاف کی طلسم ہوشربا والی کہانیاں پسند آتی ہیں۔اسی طرح جنوں بھوتوں سے مقابلہ کرتے شہزادے کی بہادری میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔
’عمر و عیار کی چالاکی‘، ’ہر کولیس کی بہادری‘ اُسے خوب بھاتی ہے۔ اب یہی بچہ ایک دوبرس بعد کچھ اور قسم کی کہانیاں پسند کرتا ہے۔اُسے مہم جوئی، جاسوسی کہانیوں سے لگاؤ ہوجاتا ہے۔غرض یہ کہ اچھی تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بچے کی ذہنی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے محظوظ کرسکے۔ اس کے سَن کے مطابق ادب میں اس کی دلچسپی کا تمام سامان بدرجۂ اتم موجود ہو۔ یہی ایک اچھے ادب کی خصوصیت ہے۔
جن بڑوں نے اپنے بچپن میں ایسی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ آج بھی اُس سحر سے نہیں نکل سکے۔ کردار آج بھی اُن کے حواسوں پر چھائے ہوئے ہیں۔صوفی غلام تبسم کی ٹوٹ بٹوٹ اور دیگر نظمیں، اسماعیل میرٹھی اور نظیر اکبر آبادی کی نظمیں تو صبح و شام گنگنائی جاتی ہیں۔
فیروزسنز کے شاہکار ناول ایک بوند شہد، ایک ٹانگ کا آدمی، ایک سپاہی کی کہانی، ایک عدنان دوسرا فیروز، ایک بادشاہ اور ایک درویش، ایک وحشی لڑکے کی آپ بیتی، ایک گونگا تین بہرے، ایک تھا لڑکا ،ایک چہرہ دو روپ کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ یہ کتابیں آج بھی شائع ہورہی ہیں۔آج بھی سمجھ دار والدین اپنے بچوں کو ایسی کہانیاں پڑھنے کو دیتے ہیں۔ جن میں اُن کے ادبی وذہنی ذوق کی تسکین ہوسکے۔
بچوں کے اَدب میں عموماًایک خاص کلاسک اَدب پیدا ہوتا رہا ہے کہ جسے آپ سدا بہار کہہ سکتے ہیں۔بچوں کا یہ اَدب جتنا پچاس برس قبل بچوں کا پسندیدہ تھا، آج بھی وہ ادب بچوں کا پسندیدہ ادب ہے۔ یقینابہت ساری کہانیاں وقت کے ساتھ ساتھ مرجاتی ہیں لیکن ایسی کہانیوں کی کمی نہیں،جو زندہ ہیں، پائندہ ہیں۔

منفرد عنوان:

کسی بھی ادبی شہ پارے کی خاص چیز اُس کا انوکھا عنوان ہوتا ہے،یقینا تحریر کا بھی جاندار اور شان دارہونا ضروری ہے لیکن اچھا عنوان قاری کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔آپ جس چیز کو بچوں کے سامنے پیش کررہے ہیں نہ صرف اُس کی تصویر، عنوان کی خطاطی اور خود عنوان ایسا پُر کشش انوکھا چلبلا ہوکہ نظر ٹھہر جائے۔
مثلاً’مہ جبیںتاج ارزانی‘ کی ماہنامہ ساتھی میں شائع اس کہانی کے عنوان کو دیکھیے: سبز ستان میں ہنگامہ، سبزستان ایک فرضی نام ہے لیکن وہاں بھلا ہنگامہ کیوں ہوا؟ سبزیوں کی بھی کوئی کالونی، کوئی سلطنت ہوتی ہے ؟بچے یہ سوچتے ہوئے کہانی پر لپک پڑتے ہیں، وہ متجسس ہوتے ہیں کہ جان سکیں کہ یہ نئی چیز ہے کیا؟۲۲
بڑوں کے اَدب کے مقابلے میں بچوں کے ادب میں عنوان کا شوخ اور چلبلا ہونا ضروری ہے۔
کراچی میں ہر سال کتابوں کی عالمی نمائش کاانعقاد کیا جاتا ہے۔ وہاں یہ مشاہدہ رہا ہے کہ والدین عموماً بچوں کو اُن کی پسند کی کتابیں دلواتے ہیں۔ بچے کسی بھی کتاب کو تولنے کے لیے اُس کا سرورق اور عنوان دیکھتے ہیں۔ اگر اس میں اُنھیں کشش محسوس ہوتی ہے تو فوراً وہ کتاب خریدنے کے لیے اپنی باسکٹ میں ڈال دیتے ہیں۔

تحریر کی خوبیاں:

’’بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں‘‘ ۲۳اگر الیاس مجیبی کی اس با ت کو مان لیا جائے تو ہمیں بچوں کے لیے لکھی گئی تحریر کے لیے کچھ خصوصیات اور اُصول بنانے ہوں گے کہ اگر بچہ یا بڑا جو بھی کہانی لکھے، اس کی کہانی اگر ان اُصولوں پر پوری اُترے تو اسے ہم اچھی کہانی کے ذیل میں لاسکتے ہیں۔ یہ اُصول بڑوں کے ادب میں بھی شامل ہیں لیکن بچوں کے اَدب میںاس کی باریکیوں کا خیال رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ بچے کسی چیز سے اُکتا جائیں تو پھر دوبارہ پلٹ کر اس طرف نہیں آتے۔
عموماً بچوں کے ادب میں کہانی کچھ یوںچلتی ہے کہ اس کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ کہانی آگے بڑھتے ہوئے نقطۂ عروج کی جانب بڑھتی ہے اور پھر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ اگر اسے ہم گراف کی مدد سے سمجھیں تو تصویر کچھ یوں بنے گی۔

ہمارے ہاں عموماً ادیب کہانی کو کچھ یوں لکھتے ہیں جیسا کہ گراف میں نظر آرہا ہے۔

پہلا گراف:

پہلے گراف کے مطابق کہانی نقطۂ عروج میں خوب تجسس پیدا کرتی ہے اور اپنے اختتام کی جانب بڑھتی ہے، یہاں مصنف بہت تیزی کے ساتھ تو نہیں لیکن کچھ یوں کہانی کی پرتیں کھولتا ہے کہ کہانی کے اختتام سے قبل ہی قاری اس کے اختتام کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں روایتی قسم کی کہانیاں کہلاتی ہیں، اگر مصنف کا اسلوب اچھا ہو تو کہانی میں دل چسپی کا عنصر برقرار رہتا ہے لیکن پھر بھی ایسی کہانیوں کو ہم بہت اچھی کہانیوں میں شمار نہیں کرتے۔

دوسرا گراف:

دوسرے گراف میں قلمکار کہانی کو تجسس کی انتہا پر پہنچا کر اچانک کردار کی آنکھ کھلوا دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جو ہورہا ہے وہ درحقیقت ایک خواب تھا۔ خواب پر کہانی کا اختتام کہانی کو نقطۂ عروج سے اُٹھا کر فوراًنیچے لے آتا ہے۔
اس طریقے کو عموماًچھوٹے بچے تو پسند کرلیتے ہیں لیکن تھوڑے سے بھی بڑے بچے اس صورت حال پر کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں۔ کہانی کا اثر بھی قاری پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا اور ہر چیز مصنوعی اور خوابیدہ سی لگتی ہے۔ یہ روایتی انداز کہلاتا ہے۔جس میں مصنف اپنے ہیرو کو خواب ہی میں سزا دے کر اس سے توبہ کروالیتا ہے۔

تیسرا گراف:

جب کہ تیسرے گراف کے مطابق آغاز کے بعد نقطۂ عروج فوراًختم نہیں ہوتا۔ مصنف دھیرے دھیرے اس میں ایسے مقامات لے کر آتا ہے جو قاری کو کہانی کے ساتھ آگے بڑھنے پر مجبور کردیتا ہے اور نہایت آہستگی کے ساتھ وہ دھیرے دھیرے نیچے لاکر اُس کا اختتام کردیتا ہے لیکن اختتام بھی ایسا جو قاری کی توقع کے مطابق نہ ہو۔ قاری کی توقع کا اختتام کہانی کو کمزور کردیتا ہے اور کہانی جلد قاری کے دماغ سے محو ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اس میں یہ تکنیک استعمال کرنا ضروری ہے کہ قاری مدتوں کہانی کے سحر میں رہے۔
باقی کہانی کی دیگر خوبیاں وہی ہیں جو بڑوں کے ادب میں پائی جاتی ہیں۔ ’محمد مرزا‘ اپنے ایک مضمون میں کتاب کی خوبیوں سے متعلق پلاٹ، موضوع، کردار نگاری، زبان و بیان، اسلوب نگارش پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے ایک اہم بات یہ بتاتے ہیں کہ کتاب معلومات کی بھرمار سے نہ بھری ہو اور نہ ہی ایسی ہو کہ اس میں سبھی کچھ بتادیا جائے اور بچوں کے تخیل پر کچھ نہ چھوڑا جائے۔ ۲۴
یاد رہے کہ بچے کا تخیل بہت اہم ہے ۔اُس کی آبیاری اسی طرح ممکن ہے کہ بچے کو سوچنے کے لیے کچھ دیا جائے۔
اسی طرح تحریر کی دیگر خوبیوں میں تصویروں کا استعمال ہے۔ بچے تصویروں میں دلچسپی لیتے ہیں، رنگین اور اچھی تصاویر سے اُن کی مصورا نہ حِس کو جلا ملتی ہے، تصویر میں موجود اشیا کا عمیق نگا ہوں سے مشاہدہ ان بچوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ بچوں کے اَدب میں ان تصویروں کی اہمیت اب یہ ہوگئی ہے کہ آپ اگر کسی بغیر تصویر کے تحریر یا نظم کو دیکھیں تو آپ کو وہ بچوں کی نہیں لگے گی۔ بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیوں او رنظموں میں تصاویر ناگزیر ہیں۔

خط(فونٹ):

بچوں کے لیے کسی تحریر یا نظم کی اشاعت کی صورت میں اس کا خط اہمیت رکھتا ہے۔ صاف ستھرا اور سیدھا فونٹ جو بچوں کی سمجھ میں باآسانی آسکے، بچوں کے لیے مناسب سمجھا جاتا ہے ۔اسی طرح اس خط کا سائز بھی بچے کی عمر سے مطابقت رکھتا ہو۔کمپیوٹر میں کتابت کے ذریعے اب باآسانی آپ خط کو اپنی مرضی سے چھوٹا بڑا کرسکتے ہیں۔
Mc Mahon Edel اپنے ایک بلاگ میں لکھتی ہیں کہ عمر کے مطابق بچوں کے لیے خط کا سائز چھوٹا بڑا ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وہ Cyril Birt’s کا ایک چارٹ پیش کرتی ہیں اور اس چارٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس عمر کے بچے کے لیے کس سائز کا فونٹ ٹھیک رہے گا۔۲۵

عمر خط کا سائز ایک لائن میں لفظوں کی تعداد
۷ سال سے کم عمر بچے کے لیے ۲۴ ۳۰
۷سے ۸سال ۱۸ ۳۸
۸سے ۹سال ۱۶ ۴۵
۹ سے ۱۰ سال ۱۴ ۵۲
۱۰ سے ۱۲ سال ۱۲ ۵۸
۱۲ سال سے زائد ۱۱ ۶۰

                                                                                     

یہ چارٹ Cyril Birt’s نے ۱۹۵۶ء میں بنایا تھا۔ یہ تحقیق بچوں کے لیے انگریزی خط کے حوالے سے ہوئی ہے، اُردو میں اس کا اطلاق مکمل طور پر تو درست نہ ہوگا، البتہ خط کے سائز میں جو ترتیب بتائی گئی ہے، عموماًہمارے ہاں اُردو زبان میں بچوں کی کتابوں اور رسائل میں اسی طریقے کو جان بوجھ کریا انجانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خط کے سائز کا تعلق بچے کے پڑھنے کی صلاحیت سے ہے۔
چھوٹے بچوں کے لیے جو تحریریں شائع کی جاتی ہیں، اُن میں اعراب کا استعمال ہوتا ہے۔ تاکہ بچے اُس لفظ کا تلفظ اچھی طرح ادا کرسکیں۔ ورنہ عموماً بچے اعراب نہ ہونے کی وجہ سے لفظ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

حوالہ وحواشی:

۱۔ خوش حال زیدی، ڈاکٹر، مارچ، ۱۹۸۹ئ، اردو میں بچوں کا ادب، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص۲۵
۲۔ حیدر،غلام ، ۲۰۱۲ء ، بچوں کے ادب کا سیمپل سروے، بچوں کا ادبی ٹرسٹ، نئی دہلی، ص۱۰
۳۔ خوش حال زیدی، ڈاکٹر، ص۲۷
۴۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص ۸
۵۔ غلام حیدر، ص۱۲
۶۔ بلیٹن، اینیڈ، نومبر ۲۰۱۲ئ، برائی کا سفر، مترم: گل رعنا صدیقی، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘، کراچی، ص ۷۲
۷۔ غلام حیدر، ص ۱۹
۸۔ فاطمہ،مشیر ،۱۹۶۲ئ، بچوں کے ادب کی خصوصیات،انجمن ترقی اُردو(ہند)،علی گڑھ، ص۵۷
۹۔ خوشحال زیدی، ص ۱۱۹۔
۱۰۔ صدیقی، احمد حاطب، دسمبر۲۰۱۷ئ، یہ بات سمجھ میں آئی نہیں،ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی،ص ۲۲
۱۱۔ محمود الرحمن، ص۱۱
۱۲۔ فروغ، رئیس، جنوری تا جون ۲۰۱۲ئ، مشمولہ :سہہ ماہی ادبیات، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ص۲۲۱
۱۳۔ قاسمی،احمد ندیم، جنوری تا جون ۲۰۱۲ئ، مشمولہ :سہہ ماہی ادبیات، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ص۲۰۲
۱۴۔ محمود الرحمن، ص۶
۱۵۔ احمد حاطب صدیقی، جون ۲۰۲۰ئ، بچوں کی تحریر کی خصوصیات، غیر مطبوعہ انٹرویو، مملوکہ:اعظم طارق کوہستانی، ص۳
۱۶۔ ساجدہ غلام محمد، ایضاً، ص۳
۱۷۔ صدیقی، احمد حاطب،ص ۱۶
۱۸۔ کوہستانی، اعظم طارق، ۲۰۱۷ئ، پھول کا راز، ادارہ مطبوعات طلبہ، کراچی، ص۹۹
۱۹۔ مجیبی، الیا س، ۱۹۵۵ئ، مدیر: شاہد احمد دہلوی، بچوں کے ادب کے پچیس سال، ساقی جوبلی نمبر ، ص ۱۶۱
۲۰۔ بسام، جاوید، ۲۰۱۹ء ، میاں بلاقی کے کارنامے، آشیانہ پبلی کیشنز، کراچی، ص۱۳
۲۱۔ خیر آبادی، مائل، ۲۰۲۱ئ، امرود بادشاہ،مشمولہ: ’بچوں کا آشیانہ‘، کراچی،ص۸
۲۲۔ ارزانی، مہ جبیں تاج، مئی ۲۰۱۸ئ، سبزستان میں ہنگامہ، مشمولہ:’ماہنامہ ساتھی‘، کراچی، ص۵۲
۲۳۔ مجیبی، الیا س، ص۱۶۱
۲۴۔ مجید، شیما، ۱۹۸۵ئ، بچے اور ادب، مشمولہ: ’بچوں میں مطالعہ کی عادات‘ ، گلوب پبلشرز، لاہور، ص ۱۳۹
۲۵۔ دیکھیے ویب گاہ: https://edelmcmahon.wordpres.com/2016/02/08/
font-size-categories-in-childrens-books

اُردو زبان وادب میں بچوں کے اَدب کی تاریخ:

مختلف زبانوں میں بچوں کی ادبی تاریخ کا ایک خاص پس منظر ہے۔ جیسے جیسے زبانیں ترقی کرتی گئیں، اُس کے ادب کا کینوس بھی وسیع ہوتا گیا،ویسے ہی اس کا اثر بچوں کے ادب پر بھی پڑا۔بچوں کی تعلیم وتربیت بھلا کس قوم کے پیش نظر نہ رہا ہوگا۔ ہر قوم اپنے آنے والے مستقبل کو محفوظ،بہتر اور ترقی کرتا ہوا دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے اور انسان سے تقاضا ہوتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت کرے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ ان طریقوں میں لکھنا اور پڑھنا آج بھی سب سے مؤثر ذریعہ تعلیم سمجھا جاتا ہے۔بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ایسے طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو ان کی دلچسپی کا محور ہو۔ ابتدا میں ہونے والی کوششیں یقینا ناقص رہتی ہیں لیکن جیسے جیسے انسان غوروفکر اور تعلیم سے پیدا ہونے والے عملی نتائج کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے تجربات میں تبدیلی پیدا کرکے اُسے مزید کارآمد بناتا ہے۔مثال کے طور پر ہم تجربے سے یہ بات جانتے ہیں کہ بچہ نغمگی پسند کرتا ہے۔ نغمگی سے اُس کا دل بہلتا ہے، جب ماں ایک خاص دُھن کے ساتھ کچھ گنگناتی ہے تو بچہ ہمکتا ہے، خوش ہوتا ہے، خوش ہو کر تالیاں پیٹتا ہے۔یہ کیفیت لوری کے علاوہ کچھ اور گنگناتے وقت ہوتی ہے۔ بچہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان الفاظ کو دہراتا ہے۔ ہاں جب ماں بچے کو لوری سناتی ہے تو بچہ میٹھی سی نیند سوجاتا ہے۔ بچوں کو سنائی جانے والی ان لوریوں کی ایک مکمل تاریخ ہے۔ تقریباً دنیا کی ہر زبان میں آپ کو لوری ملے گی۔ان لوریوں کو آپ مختصر سی نظمیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم یہ لوریاں ابتدا میں بچوں کو سلانے ہی کے لیے گائی گئی تھیں۔
دنیا بھر کی مائوں کی لوری گنگنانے کا انداز قریب قریب ایک جیسا ہے۔ذوئی پامیر ایک موسیقار ہیں اور وہ لندن ہسپتال میں لوریوں پر کچھ اس طرح کام کررہے ہیں کہ مائوں کو اسپتال میں لوریاں سکھارہے ہیں۔ذوئی پامیر کا کہنا ہے کہ دنیا میں آپ جہاں چلے جائیں، مائیں ایک ہی دُھن استعمال کرتی ہے اور ایک ہی طریقے سے اپنے بچوں کے لیے گاتی ہیں، بہت سی لوریاں چند ہی الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں جنھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۱۔ جنوبی ایشیا میں لوریوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ان لوریوں میں ’’چندا ماموں‘‘کا تذکرہ بہت کیا گیا ہے۔سوشل میڈیا کے توسط سے اب لوریوں میں خوب تنوع آگیا ہے، لیکن اس میں بھی ’’چندا ماموں‘‘ کی اہمیت اسی طرح قائم ہے۔
لوریوں سے نکل کر جب ان بچوں کی عملی تعلیم وتربیت کامرحلہ شروع ہوتا ہے تو وہاں مذہبی تعلیم ابتدا میں اِنھیں دی جاتی ہے۔ مذہبی تعلیم بچے کو زبان، ادب، روایت اور خدا سے جوڑتی ہے۔بچہ ابتدا میں مذہب سے زبان کے گُر سیکھتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ زبانیں مذہب کے ذریعے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، اس لیے اُردو میں صوفیاے کرام کی لکھی گئیں کتابوں کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صوفیاے کرام نے اپنے کتابچوں کو جان بوجھ کر آسان زبان میں تحریر کیا تاکہ اُن کی تعلیمات عام لوگوں میں تیزی سے پھیل سکیں۔ یہ کتابیں بڑوں کے علاوہ بچوں کے لیے بھی دل چسپی کا باعث تھیں۔ ان کتابوں کو بعد میں ادب اطفال ہی میں شمار کیا گیا۲۔ خود ڈاکٹر محمود الرحمن کا بھی یہی خیال ہے کہ صوفیاے کرام کے مختصر رسائل اور ان کی مذہبی نظمیں اور دوسرے شعرا کی مثنویاں تقریباً سبھی بچوں کے لیے ہی تھیں، ہاں عام لوگوں نے بھی اس سے استفادہ کیا، یہ الگ بات ہے۔ ڈاکٹر محمود الرحمن نے حامد اللہ افسر کے ایک خط کا بھی ذکر کیا جس میں اُنھوں نے لکھا کہ بچوں کے لیے نظمیں اُردو کے بالکل ابتدائی دکنی دور میں بھی لکھی گئی تھیں اور ان نظموں میں مذہبی رنگ نمایاں تھا۳۔
بچوں کے ادب کی ابتدا انفرادی طور پر لکھی گئی کتابوں سے ہوئی۔ شروع میں مختصر کتاب چے اور کتابیں شائع ہوتی رہیں۔یہ تعلیمی نصاب کہلاتا تھا اور دسویں ہجری سے اس کا آغاز ہوا ہے۴۔
بچوں کے ادب کی با قاعدہ بنیاد کب اور کہاں پڑی،اس حوالے سے حافظ محمود شیرانی ہمیں اپنی تحقیق بتاتے ہیں کہ اُردو میں بچوں کے ادب کی بنیاد عالمگیر کے عہد میں ہوگئی تھی اور اس وقت بچوں کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھی جانے لگیں۵۔
ڈاکٹر اسد اریب بچوں کے ادب پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں، اُنھوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کتابوں کا تعارف دیا ہے جو درحقیقت ابتدا میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے لکھی گئی تھیں۔ان کتابوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کتابیں منظوم تھیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ابتدائی عمر کے بچے نثر کے مقابلے میں نظم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیںاور یہ یاد بھی باآسانی ہوجاتی ہے، مثال کے طور پر اگر ہم بچوں کے لیے بطور نصاب جو پہلی کتاب مرتب کی گئی اس کا ذکر کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خالق باری کے اشعار آج بھی با آسانی یاد کیے جاسکتے ہیں۔ خالق باری امیر خسرو کی تصنیف ہے یا نہیں اس بات سے قطع نظر اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی تقلید میں بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔جن میں رازق باری، حامد باری، ایزد باری، واحد باری، صمد باری، بالک باری اور قادر نامہ جیسی نصابی کتابیں شامل ہیں۶۔
خالق باری کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ اس وقت بچوں کی ذہنی استطاعت کو سامنے رکھتے ہوئے کتنی خوب صورتی کے ساتھ اُنھیں سبق ذہن نشین کرایا گیا ہے :

خالق باری سرجن ھار
واحد ایک بدا کردار
رسول پیغمبر جان بشٹ
یار دوست بولی جا اشٹ
اسم اللہ خدا کا ناؤن
گرما دھوپ سایہ ہے چھاؤں
راہ طریق سبیل پہچان
ارتھ شہو کا مارگ جان۷

واہ کنیزک کہیے چیری
دام جال جولان ہے بیری
شرم وحیا در ہندوی لاج
حاصل کہیے باج خراج
طالع بخت جو گہے بھاگ
لحن سرود ترنم راگ۸

جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے نظم کے مقابلے میں نثرپڑھنا زیادہ اچھا لگتا ہے جبکہ نظم بچگانہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے بچوں کی ابتدائی دور کی کتابیںخالق باری سے لے کر غالب کی قادر نامہ تک کئی کتابیں تقریباً منظوم نظر آتی ہیں۔
صوفیا کا کلام بھی ہمیں منظوم شکل میں نظر آتا ہے، صرف یہی دیکھیے کہ سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی نظم ونثر کے نمونے موجود ہیں جن میں وہ انتہائی صاف اور سیدھے انداز میں ناصرف مذہب کی مشکل گتھیاں سلجھا رہے ہیں بلکہ اس میں سیکھنے کا لطف بھی پیدا ہورہا ہے۔ اس زمانے کے لحاظ سے جب ایسا لطف کا سامان مہیا ہورہا ہو تو بھلا بچے کیوں نہ خوش ہوں ۔ خواجہ صاحب کی تصانیف میں معراج العاشقین، ہدایت نامہ ، چکی نامہ، راگ راگنیاں اور سہہ بارہ ہمیں میسر ہیں۹۔ ان کتابوں میں سہہ بارہ سوال وجواب کی صورت میں ہے اور یہ سوال وجواب بھی منظوم صورت میں لکھے گئے ہیں:
سوال:

ایمان کی جھاڑاں اور ایمان کی ڈالیاں کیا
اور ایمان کے پات کیا اور ایمان کا وطن کیا
اور ایمان کا بیج کیا اور ایمان کا پوست کیا
ایمان کا سر کیا، ایمان کا جیو کیا

جواب:

ایمان کا جیو قرآن
ایمان کی جڑ توبہ
ایمان کی ڈالیاں سو بندگی
ایمان کے پات پرہیز گاری
ایمان کا تخم سو علم
ایمان کا پوست سو شرم
ایمان کا وطن سو مومن کا دل ہے۱۰

یہ طریقۂ کار صوفیا نے اپنا یا ، صوفیا نے جہاں اسلام کی تبلیغ کی وہیں زبان کو بھی فائدہ ہوا۔ ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کی زبان میں بات کرے اور یہی طریقہ درحقیقت معروف ہے۔ پندو نصائح کی یہ کتابیں بڑوں سے زیادہ بچوں میں مقبول ہوئیں جس کی وجہ سے آج ان کتابوں پر ادب اطفال کا گمان ہوتا ہے۔
اُردو زبان کے ارتقائی سفر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں تعلیم وتربیت کے لیے باقاعدہ لکھی گئی کتابوں سے لے کر ٹھگوں کے قصوں تک میں بچوں کی من پسند چیزیں موجود ہوتی تھیں۔ یہ قصے اور کہانیاںبچوں کے لیے اگرچہ نہ بھی لکھی گئی ہوں لیکن بچوں نے ان کتابوں میں دلچسپی لی اور ان کتابوں کو اپنا مانا۔اُردو زبان میں قصوں اور داستانوں کی ایک مکمل تاریخ ہے ، آپ ان قصے اور داستانوں میںکچھ بھی اُٹھا کر دیکھ لیجیے اور بتائیے کیا اپنے دور میںان قصوں نے بچوں کو محظوظ نہیں کیا ہوگا؟اگرچہ ان قصوں میں بڑوں کے ذوق کا خیال رکھا گیا تھا لیکن کیا بچے چھپ چھپ کر ان قصوں کو نہ سنتے ہوں گے۔ پچھلے زمانے میں ان قصوں اورکہانیوں کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے؟
یقینا ہمیں کوئی ایسے آثار تو نہیں ملتے لیکن ہر شخص سلسلۂ ہاے مضامین کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان قصوں نے بچوں میں کیسا نفوذ کیا ہوگا۔ داستان امیر حمزہ، توتا کہانی، قصہ بہروز سوداگر ،قصہ پوسی وبھنگی تو اُنیسویں صدی کے دکنی قصے ہیں، ان قصوں کے عنوانات ہی سے اندازہ لگائیے کہ یہ بچوں کو کتنا خوش کرنے کا سبب بنے ہوں گے۔پھر جب ہم فورٹ ولیم کالج کی جانب دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں ابتدا ہی سے ایسی داستانوں کا سراغ ملتا ہے ،جو آج بھی بچوں کی دلچسپی کا موضوع ہے۔آسان اُردو میں ان قصوں کو ڈھالا گیا، جن میں داستان امیر حمزہ، قصہ چہار درویش، باغ وبہار فورٹ ولیم کا لج کا ایسا کارنامہ ہے، جس پر آج بھی ناز کیا جاسکتا ہے۔ ان قصوں کو بچوں میںجتنی پذیرائی ملی ہوگی وہ یقینا بڑوں نے بھی نہ کی ہوگی۔اسی اٹھارویں صدی میں ہمیں کُلَیلہ ودِمنہ، نو طرزِ مرصّع ، فسانۂ عجائب، طلسم حیرت، الف لیلیٰ کی کہانیاں راج کرتی نظر آتی ہیں۱۱۔ رستم وسہراب تو آج بھی کسی بچے کو سنادیجیے، بہادری، اُصول، رشتوں سے محبت کا جذبہ اس میں منتقل ہوجائے گا۔
دوسری جانب مغل دور میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے کئی کتابیں لکھی گئیں۔مغل دور میں جو کتابیں بچوں کے لیے لکھی گئیںان میںخاص خاص کتابیں یہ ہیں۔
قصیدہ در لغات ہندی، مقبول الصبیان، حفظ اللسان المعروف بہ خالق باری۱۲ ،اللہ خدائی، فرح الصبیان، نصاب مصطفیٰ، حمد باری ، ذوق الصبیان، آمدن نامہ ، قادر نامہ۱۳ ۔ یہ نصاب ایک طویل عرصے تک بچوں کی تعلیم وتربیت میں معاون رہے لیکن برصغیر میںدیگر قوموں کی آمد کے ساتھ ساتھ یہاں کا تعلیمی نظام بھی تبدیل ہوتا رہا اور پھر انگریزوں کی آمد ،ایسٹ انڈیا کمپنی کے استحکام کے بعد اس خطے میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔
انگریزوں کے قائم کیے ہوئے فورٹ ولیم کالج نے بھی غیر شعوری طور پر بچوں کے ادب کو فروغ دیا، اِسے غیر شعوری قرار دینے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریزوں نے تجارتی اور حکمرانی کی غرض سے کیا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے نگراںو افسر اعلیٰ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے اُردو زبان کو خاص وعام کی زبان بنانے اور اسے اپنے مقاصدکے حصول کے لیے آسان بنا کر پیش کیا۔ اسی مقصد کے تحت فورٹ ولیم کالج میں منشی بھرتی کیے گئے اور ان سے تصنیف وتالیف کا کام لیا گیا۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت جو ریڈریں تیار کی گئیں، وہ مقامی سطح پر اسکولز میں پڑھائی جانے لگیں۔ ان ریڈروں میں ماں بیٹے کی مراسلت کے حوالے سے ایک طویل نظم بھی پڑھائی جاتی رہی۱۴۔
اسکول کی سطح پر جب کام ہوا تو اُردو زبان میں سادگی آگئی۔ وہ کہانیاں اور نظمیں جو صرف بڑوں کے لیے ہوتی تھیں وہ بچوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئیں۔ فورٹ ولیم کالج سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ موضوعات کا تنوع، محاورات و تشبیہات سمیت تمام جملہ لوازمات کا اہتمام ہونے لگا۔ شاعری کے پرانے رنگ کی جگہ نئے رنگ وانداز کی وجہ سے تمام چیزیں بدل کر نکھرگئیں ۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدیم کتابوں کا مطالعہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ صوفیا اور دیگر مصنّفین نے بچوں اور بڑوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جو بھی لکھا ، وہ اپنے دور کی کفالت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ایک پوری نسل کا روایتی اور فکری ڈھانچا تبدیل ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں زبان وبیان پر نو آبادیاتی اثرات مرتب ہوئے، جس کی وجہ سے بچوں کی نظم ونثر کا اسلوب تبدیل ہوکر رہ گیا اور اس دور کے شاعروں اور ادیبوں نے بچوں کی ذہنی تربیت وکفالت کے لیے ایسی کتابیں لکھیں جو اس دور کے لحاظ سے بہتر تھیں۔
آج ان تحریروں کو پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کے حوالے سے منظوم وعظ نظر آتے ہیں لیکن اس دور کے حساب سے جب جماعتوں میں وقیع فارسی وعربی میں دروس دیے جاتے تھے تو اُن کے مقابلے میں یہ منظوم کتابیں بچوں کی دل چسپی اور تربیت کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔
اگر کسی بچے کے پاس اچھے اور نفاست سے بنے ہوئے کھلونے نہ ہوں تو مٹی سے بنے کھلونے ہی اس کی تمام خوشیوں کا مؤجب بنتے ہیں،اب آپ خود ہی سوچیے کہ یہ کتابیں اس وقت بچوں کو کتنا عیش ونشاط میں مبتلا کرتی ہوں گی۔ان منظوم کہانیوں کو بچے زیر لب گنگناتے ہوں گے، ایک دوسرے کو سنا کر تسکین پاتے ہوں گے اور یہ کہانیاں اور نظمیں جہاں ان کے دلوں میں لطافت پیدا کرتی تھی وہیں ان کی تعلیم کا ذریعہ بھی تھیں۔
بچوں کے ادب کا جائزہ لینے کے دوران جب ہم نظیر اکبرآبادی کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں توایک خوشگوار حیرت کا سامنا رہتا ہے ۱۵۔ اس حیر ت کی وجہ جدید نظم ہے۔ جدید اُردو نظم کے حوالے سے ہمیں محمد حسین آزادکا نام نمایاں نظر آتا ہے لیکن محمدحسین آزاد سے تقریباً ایک صدی پہلے پیدا ہونے والے نظیر اکبر آبادی جدید نظم کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ نظیر اکبر آبادی نے پتنگ بازی، ریچھ کا بچہ، چڑیوں کی تسبیح، کَلْجُگ، بنجارہ نامہ، آدمی نامہ، دیوالی، شب برأت، عید، ہولی، کبوتر بازی، اِسرارِ قدرت، حلوہ، برسات، پنکھا، کورا برتن، روٹیاں، تندرستی، آٹا دال، جاڑے کی بہاریں، تل کا لڈو، گلہری کا بچہ، طفلی، نارنگی وغیرہ جیسی شاہکار اور متنوع موضوعات پر نظمیں لکھیں۱۶۔ اس طرح کی موضوعاتی نظموں کے حوالے سے یقینا مولانا آزاد اور الطاف حسین کا نام نمایاں ہے لیکن اس سلسلے میں نظیر کی خدمات بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔
اُردو اِملا میں تبدیلیوں کے باعث نظیر کی نظمیں پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر زبان اَٹکتی ہے لیکن اس کے باوجود ان نظموں کی نغمگی آج بھی بچوں کو مسحور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ریچھ کے بچے کے حوالے سے نظیر کی نظم دیکھیے۔
ریچھ کا بچہ:

مدت میںاب اس بچے کو ہم نے ہے سدھایا
لڑنے کے سوا ناچ بھی اس کو ہے سکھایا
یہ کہہ کے جوڈھپلی کے تیئں گت پہ بجایا
اس ڈھب سے اسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا
جو سب کی نگاہوں میں کُھپا ریچھ کا بچا۱۷

اُنیسویں صدی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے جہاں ہندوستان کے معاشرتی، معاشی، سیاسی حالات بدلے وہیں ادب بھی اس سے متاثر ہوا۔ ان حالات میں بچوں کا ادب کیوں کر متاثر نہ ہوتا۔۱۰ جون ۱۸۳۰ء کو دہلی ۱۸میں پیدا ہونے والے محمد حسین آزاد نے منظم انداز سے اُردو ادب میں جدید نظم کو فروغ دیا ۔جیسا کہ ہم پچھلے سطور میں بتا چکے ہیں کہ نظیر اکبر آبادی ایک صدی بیشترہی جدید نظم کی داغ بیل ڈال چکے تھے لیکن نظیراکبر آبادی کے مقابلے میں آزاد نے نا صرف خود بلکہ دیگر معاصر شعرا سے جدید نظمیں لکھوائیں۔ ان ہی موضوعاتی نظموں کی بدولت بچوں کے ادب میں نظموں کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ محمد حسین آزاد نے نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے تدریسی کتابیں بھی تیار کیں۔ جن میں اُردو کی پہلی، دوسری ، تیسری اور چوتھی کتابیں آزاد کی لکھی گئی وہ کتابیں ہیں جو ایک عرصے تک اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ موجودہ دور کی نصابی کتابوں سے اگر ان کتابوںکا موازنہ کیا جائے تو آزاد کی کتابیں اپنے اسلوب سے انگریزی، اُردو، فارسی کی شیرینی اور حلاوت کا مرقع نظر آتی ہیں۔ خصوصاً ہمارے آج کے دور کی نصابی کتابوں میں آسان جملوں کے استعمال کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مضمون یا کہانی بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن آپ دیکھیے کہ برسوں گزرجانے کے باوجودبھی آزاد کی سادہ لیکن ادبی چاشنی سے مزیّن تحریروںکا انداز ہی نرالا ہے۔
ان کتابوں میں جہاں آ پ کو جانوروں کی فہرست میں مور، کوا، بھینس، گھوڑا، اُونٹ، ہاتھی، کتا، نیولا، چیونٹی اور مکڑی کا بیان ملے گا ،وہیں درختوں کی فہرست میں بڑ، پیپل، نیم، روئی اور گنے کا ذکر ہے۔ ان کتابوں میں ایک طرف موسموں کا بیان ہے تو دوسری جانب نظموں کے ذریعے بچوں کو گالیوں سے بچنے، صاف ستھرا رہنے اور صحت مندرہنے کے راز بتائے جارہے ہیں۱۹۔ ان کتابوں کو تیار کرتے وقت مولانا آزاد کے بقو ل یہ کتابیں اگرچہ ابتدائی ہیں لیکن ان کتابوں نے انتہا کی محنت لی ہے۔بچوں کے لیے لکھنے کے لیے ایک ایک لفظ کو باربارلکھنا اور مٹانا پڑتا رہا اور بچہ بن کر سوچنا پڑا۲۰۔ ان کتابوں اور نظموں میں مولانا آزاد کی محنت نظر بھی آتی ہے۔ بچوں کی ذہنی و نفسیاتی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اُونٹ کے نام سے شامل سبق میں لکھتے ہیں:
ــــــاونٹ کی صورت دیکھی؟ کیسی نرالی وضع کی ہے۔ چھوٹا سا سر، ٹانگیں اور گردن لمبی پتلی، بیچ میں سے پیٹھ اُونچی۔ ہاں یہ سچ ہے۔ جبھی یہ مثل مشہور ہے۔ اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی ۔۲۱

ان چند مختصر سے جملوں میں اُونٹ کا پورا سراپا نکھر کر سامنے آگیا۔ اب بتائیے جو بچہ اپنی ابتدائی جماعت میں یہ پڑھ لے تو وہ اسے بھول پائے گا۔جب کہ رنگین تصاویر سے مزین یہ کتابیں کتنی دلکش نظر آسکتی ہیں لیکن اب کتابیں تو خوب رنگین ہوگئی ہیں مگر سپاٹ اور بور قسم کی تحریروں نے نصابی کتابوں کو خشک بنادیا ہے۔آزاد کی یہ کتابیں آج بھی چھوٹے بچوں کے لیے تروتازہ ہیں، اُونٹ ہو یا کوا، ہاتھی ہو یا کتا…
بھلا بتائیے ان میں سے کوئی بدلا ہے ؟
یا کسی کی فطرت تبدیل ہوئی ہو؟
اس طرح ان کی نظمیں بھی بچوں کو مختلف نصیحتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ ان نظموں میں اگرچہ نٹ کھٹ پن نہیں ہے جو ہمیں نظیر اکبر آبادی اسماعیل میرٹھی یا موجودہ دور کے احمد حاطب صدیقی، عبدالقادر کی نظموں میں نظر آتا ہے مگر اس کے باوجود اپنی سادگی کے باعث یہ نظمیں طلبہ کی دلچسپی کا باعث بن جاتی ہیں۔ ان نظموں میں بڈھا باپ، صفائی، گالیوں کی برائی۲۲، محنت کرو، چور، طالب علم۲۳ جیسی نظمیں ملتی ہیں۔
نظم صفائی میں وہ دو بھائیوں کی داستان سنا کر کہتے ہیں :

مدرسے سے جب یہ دونوں آئے گھر
باپ نے دیکھا اُنھیں بھر کر نظر
ایک کا دل ہے خوشی سے باغ باغ
دوسرے کا جی ہے غم سے داغ داغ۲۴

دوسرے کا جی غم سے کیوں ہے داغ داغ۔ آزاد یہاں پڑھنے والے کو اُکساتے ہیں کہ وہ جانیں کہ ایک بھائی اُداس کیوں تھا؟
آزاد اور شبلی کے ہم عصر مولوی اسماعیل میرٹھی کو بچوں کا باضابطہ شاعر کہا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے آپ نے کثیر تعداد میں نظمیں لکھیں اور اس کے علاوہ قاعدہ اور درسی کتابیں بھی تیار کیں۲۵۔
ان درسی کتابوں میں:
۱۔ اُردو زبان کا قاعدہ،
۲۔ اُردو کی پہلی کتاب،
۳۔ اُردو کی دوسری کتاب،
۴۔ اُردو کی تیسری کتاب،
۵۔ اُردو کی چوتھی کتاب،
۶۔ اُردو کی پانچویں کتاب شامل ہے۲۶۔
ان کتابوں میں نظم ونثر کے ذریعے اسماعیل میرٹھی نے بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیا۔اسماعیل میرٹھی نے مختلف موضوعات پر اتنی عمدہ نظمیں لکھیں کہ وہ آج بھی اُن شاعروں کے لیے قابل تقلید ہیں جو بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔ اسماعیل میرٹھی کی نظموں کا جادو کچھ ایسا سر چڑھ کر بولا کہ بعد میں متعدد شعرا نے اسی کے تتبع میں نظمیں تحریر کیں۔ان نظموں میں ہر نظم بچوں کے مزاج کے بہت زیادہ قریب ہے، یہ کہنا یقینا مبالغہ نہ ہوگا کہ بچوں کے لیے حصہ نظم میں مولوی اسماعیل کا کردار سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ان نظموں میں نمایاں نظمیں یہ ہیں۔تھوڑا تھوڑا بہت ہوتا ہے، بارش کا پہلا قطرہ، برسات، اسلم کی بلی، ہمارا کتا، ہماری گاے، عجیب چڑیا، ایک پودا اور گھاس، پن چکی، شب برأت، چڑیا کے بچے، جاڑا اور گرمی اورتاروں بھری رات۲۷۔
اس کے علاوہ اسماعیل میرٹھی نے نظم کی ہیئت میں تبدیلی کے تجربے بھی کیے، نہ صرف بے قافیہ نظمیں تحریر کیں بلکہ مروجہ بحروں کے ٹکڑے کرکے نظم کے لیے ہیئت کا نیا تجربہ کیا۔ملاحظہ کیجیے :

ارے چھوٹے چھوٹے تارو
کہ چمک دمک رہے ہو
تمھیں دیکھ کر نہ ہووے
مجھے کس طرح تحیُّر

اسی طرح یہ نظم دیکھیے:

وہ غریب کھیت والے
وہ امیدوار دہقاں
کہ کھڑکی ہے جن کی کھیتی
کہیں کھیت کٹ رہا ہے۲۸

بلاشبہ بچوں کے اُردو ادب میں مولوی اسماعیل میرٹھی ہمیں ایک اُستاد کی طرح نظر آتے ہیں جو آنے والے دور کے شعرا کی بھی راہ متعین کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بچوں کی نبض کن موضوعات پر پکڑی جاتی ہے۔ یہ بھی وہ ہمیں بتاتے ہیںکہ نظموں کے اندر سادگی لیکن دلکشی لفظوں کے ذریعے کیسے پیدا کی جاتی ہے۔
یقیناموجودہ دور کے شعرا ان ہی راہوں پر چل کر کچھ نیا تخلیق کرسکتے ہیں جس کی راہ مولوی اسماعیل میرٹھی دکھاچکے ہیں۔
اس لیے اس شعبے پر باقاعدہ شعور کے ساتھ بڑے ادیبوں نے کام کیا اور برسوں تک بچوں کے لیے لکھنے والوں نے ایک خاص انداز ہی سے بچوں کے لیے لکھا۔ اُس وقت محمد حسین آزادؔ، مولوی اسماعیل میرٹھیؔ اور الطاف حسین حالی ؔنے اپنی دلچسپ نظموں اور قصّوں کے ذریعے بچوں کو ہمت ، بہادری، سچ، اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دینے کی کوشش کی۔ اس میں بہت ساری ایسی کتابیں بھی ہیں جو لکھی تو بڑوں کے لیے تھی لیکن اس پر بچوں نے اپنی پسند کے مطابق قبضہ جما لیا۔ میرا مّن کی باغ وبہار (۸۰۴ائ) ۲۹ اور رجب علی بیگ کی فسانہ عجائب (۱۸۲۴ء )۳۰بچوں کے لیے نہ بھی لکھی گئی ہوں لیکن اسے بچوںنے اپنی ملکیت سمجھا۔ اس لیے بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے ہم انیسویں صدی میں لکھے گئے کام کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اس سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ جہاں مرد حضرات نے ادبِ اطفال میں اپنا حصہ ڈالا ہے، وہیں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس صنف کو سنوارا ہے۔خواجہ حسن نظامی کی زوجہ لیلیٰ خواجہ بانو، امتیاز علی تاج کی اہلیہ حجاب امتیاز علی کو اردو کے اوّلین بچوں کے ادیبوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جن لوگوں نے ادبِ اطفال کے گیسو سنوارے ہیں، ان میں صالحہ عابد حسین، قدسیہ زیدی، مشیر فاطمہ، آصفہ مجیب اور سیدہ فرحت کے نام نمایاں ہیں۔
بڑوں کے لیے لکھنے والوں میں بہت سے ادیب ایسے بھی ہیں جنھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور خوب لکھا۔ آج بھی آپ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، رضیہ سجاد ظہیر، اے آر خاتون، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، کشور ناہید کی کہانیاں پڑھیں تو اس میںتروتازگی محسوس ہوگی۔ زندگی سے قریب اور بچوں کی دلچسپی کا تمام سامان لیے ہوئے ان کہانیوں کو سدا بہار کہانیاں قرار دیا جاسکتا ہے۔خصوصاً عصمت چغتائی کی کہانیاں تو اتنی دلچسپ ہیں کہ آج بھی بیشتر بچوں کے رسائل کلاسک ادب کے نام سے اسے پیش کرتے ہیںاور ذرا برابر گمان نہیں ہوتا کہ یہ برسوں پہلے لکھی گئی کہانیاں ہیں۔بچوں کے ادب میں خواتین ادیبوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے دامے درمے سخنے اس صنف کی آبیاری کی ۔ آج بھی بچوں کے ادب میں خواتین ادیبوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ سیما صدیقی، فوزیہ خلیل، ساجدہ غلام محمد، نائلہ صدیقی، بینا صدیقی، ڈاکٹر الماس روحی، گل رعنا صدیقی، ڈاکٹر سارہ الیاس، سمیرا انور، راحت عائشہ سمیت متعدد خواتین دورِ حاضر میں ادبِ اطفال کی نمائندگی کررہی ہیں۳۱۔
بیسویں صدی میں آکر بچوں کے ادب نے حقیقی کروٹ لی اور اس کا سہرا بلاشبہ منشی محبوب عالم کوجاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں بچوں کا ادب شعور اور ترتیب کے ساتھ پیش کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر افتخار کھو کھر نے بچوں کے ادب کو دوا دوا رمیں تقسیم کیا ہے لیکن ہم اس میں ایک دورکا مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔
٭…بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر قیام پاکستان تک
٭…قیام پاکستان سے لے کر ۲۰۰۰ء تک ۳۲
٭…اور ۲۰۰۰ء سے لیکر ۲۰۲۰ء تک
یہاں ہم بچوں کے ادب میں باقاعدہ کیے جانے والے کام کا مطالعہ کریں گے تاکہ پچھلے ادوار میں کیے گئے کام کا خاکہ سامنے آسکے۔اس میں صرف رسائل کا تذکرہ ہے اور رسائل میں بھی نمایاں رسائل کو شامل کیا گیا ہے، اس دورانیے میں جتنے رسائل شائع ہوئے ہیں ان کی حتی الامکان کوشش کرکے مکمل فہرست آخر میں شائع کردی گئی ہے۔اس فہرست میں رسالے کا نام، اس کی کیفیت، مدیران،شہر اور سنِ آغاز شامل ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر قیام پاکستان تک :
اُردو میں بچوں کے ادب کا دستیاب معلومات کی روشنی میں جائزہ لینے پر پتا چلتا ہے کہ منشی محبوب عالم کے بچوں کا اخبار سے پہلے بچوں کے لیے درسی کتب تو لکھی گئی تھیں لیکن باقاعدہ بچوں کے کسی رسالے کا اجرا نہیں ہوا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر قیام پاکستان تک بچوں کے بے شمار رسائل نکلے۔ اس باب کے آخر میں ان تمام رسائل کی فہرست شائع کی گئی ہے۔ سرِ دست یہاں چند رسائل کے مشمولات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
بچوں کا اخبار
بچوں کے لیے سب سے پہلا باقاعدہ رسالہ مئی ۱۹۰۲ء میں منشی محبوب عالم نے لاہور سے جاری کیا۔ منشی محبوب عالم پیسہ اخبار نکال کر جنوبی ایشیا میں اُردو اخبار کا ایک سنہری دور شروع کر چکے تھے۔ کلید امتحان، ہمت، پیسہ اخبار، زمیندارو باغبان وبیطار ، اخبار عام، شریف بی بیاں، انتخاب لاجواب، دی سن ( The Sun) جیسے مختلف النوع اور ہمہ جہت قسم کے اخبارات ورسائل کانکالنا منشی محبوب عالم ہی کا کمال تھا۔۳۳
بچوں کے لیے نکالاجانے والا رسالہ بچوں کا اخبار ایک نئی جدت تھی۔ کہانیوں، مضامین کے انتخاب کے علاوہ عمدہ اور دلکش خاکوں کے حسین امتزاج نے اس کا معیار بڑھا دیا تھا۔ اس کے شمارے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل بچوں کے لیے نکالے جانے والے کئی رسالوں سے موضوعات ،مضامین اور تصویری خاکوں کے اعتبار سے بہتر تھا۔ ۳۴
اتنا عمدہ رسالہ نکالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منشی محبوب عالم تصنیف وتالیف کے اعتبار سے ایک تجربہ کار شخص تھے۔ اُنھوں نے مئی ۱۹۰۰ء میں یورپ کا دورہ کیا۔تقریباً ۵ ماہ کا عرصہ گزار کر وہ ستمبر ۱۹۰۰ء میں واپس آئے۔ اس دوران جہاں اُنھوں نے مغرب کا مشاہدہ کیا وہیں اخبار کی صنعت کی ترقی سے بھی متاثر ہوئے۔ ۳۵
بچوں کا اخبار میںشامل خاکوں کا مقابلہ آج کل کے بچوں کے رسائل بھی شاید نہ کرسکیں۔ بچوں کا اخبار کا سائز ۸؍۲۳؍۱۸ تھا، صفحات ۴۸ اور قیمت تین آنے (بیس پیسے) تھی۔ ۳۶
اس رسالے میں مستقل عنوانات کے تحت مختلف مضامین اور کہانیاں شائع کی جاتی تھیں۔
٭…جس میںچرند پرند کے حالات (حیوانات کے رہن سہن، شکل وصورت اور نفسیات کے بارے میں)
٭…ورزش اور کھیل (ورزش اور حفظان صحت کے بارے میں)۳۷ شامل تھے۔ اس رسالے کو بچوں کے ادب کا سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔
منشی محبوب عالم کے تجربات میں سے اس ایک اہم تجربے نے بچوں کی صحافت کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد آنے والے زیادہ تر رسالے بچوں کا اخبار کے طرز ہی پر نکلے، وہ یقینا اس رسالے سے متاثر ہوئے اور لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ بھی بچوں کے رسائل جاری کریں۔ بچوں کے اس رسالے میں عام طلبہ کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ مختلف مدارس کے طلبہ کی تحاریر کے لیے صفحات مختص تھے۔ جہاں بچوں کی کہانیاں، نظمیں، مراسلے وغیرہ شائع ہوتے تھے۔ وہیں ذہنی آزمائش کے لیے معمے موجود تھے۔ آج کل پیش تر رسائل میں ہمیں معمے کے سلسلے نظر نہیں آتے یا پھر بہت کم، اس کے مقابلے میں ایک صدی قبل بچوں کا اخبار مختلف معمے دیا کرتا تھا۔ محمد الدین فوق نے اس رسالے کی سرکولیشن ایک ہزار بار بتائی ہے۔ دس سال تک بچوں کو محظوظ کرنے والا یہ رجحان ساز رسالہ ۱۹۱۲ء میں بند ہوگیاتھا۔ ۳۸

پھول
بچوں کا پھول ایک ہفتہ وار اخبار تھا جس میں علمی وادبی مضامین، کہانیاں، نظمیں، ڈرامے، لطائف وغیرہ شائع ہوتے تھے۔ رسالہ پھول پورے اَڑتالیس برس یعنی ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۵۷ء تک جاری رہا۔
اَنارکلی جیسے ڈرامے کے تخلیق کا ر ’سید امتیاز علی تاج ‘کے والد محترم ’سید ممتاز علی‘ نے ۳ ۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء کو پھول کا اجرا کیا۔ اس کی پہلی مدیرہ بنت نذرالبا قر تھیں۔ ۳۹ پھول کی مختصر تاریخ بیان کر تے ہوئے غلام عباس اپنی مرتب کردہ کتاب پھول میں رقم طراز ہیں :
سید امتیاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم نے بچوں کے لیے اخبار نکالنے کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کی وجہ یہ تھی کہ امتیاز علی تاج جب آٹھ برس کے تھے تو اُنھیں کہانیاں سننے کا بے حد شوق تھا۔ محمدی بیگم نے سوچا کہ ان کہانیوں کو اگر چھاپا جائے تو بہت سارے بچوں اور ان کی امّائوں کے دل خوش ہوجائیں گے لیکن اس اخبار کو نکالنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا، تہذیب نسواں ۴۰ کی ایک قابل نامہ نگار بنت نذرالباقر نے مرحومہ کی دلی خواہش کو پورا کرنے کا عزم کیا اور ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء کو ہفت روزہ پھول کا پہلا شمارہ نکالا۔ سال بھر نکلنے کے بعد سید ممتاز علی نے خود پھول کی ادارات سنبھال لی۔۴۱
پھر جیسے جیسے سید امتیاز علی تاج بڑے ہوئے وہ بھی اس میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ۱۹۳۵ء میں جب مولوی امتیاز علی کا انتقال ہوا تو ان کے ہونہار فرزند سید امتیاز علی تاج نے پھول کی ادارات سنبھال لی۔ ۴۲
اس رسالے کی مجلس ادارت سے جو لوگ وابستہ رہے بعد میں اُنھوں نے بہت شہرت پائی۔ اس کی ادارت میں مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، پطرس بخاری، اسماعیل پانی پتی، غلام عباس،بشیر جالندھری، صوفی تبسم، احمد ندیم قاسمی، حفیظ ہوشیار پوری، ہری چند اختر، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج اور حجاب امتیاز علی شامل رہے۔ جبکہ مشہور لکھنے والوں میں خواجہ حسن نظامی، اختر شیرانی، حامد حسن قادری راجندرسنگھ بیدی، مجید لاہوری، قراۃالعین حیدر، حامد اللہ افسر، قیوم نظر اور سراج نظامی جیسے لوگ شامل تھے۔ ۴۳پھول ایک اخبار نہیں بلکہ ادارے کی طرح وطن کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے برسرپیکار رہا، ان کے اخلاق سنوارنے اور اَدب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے اس نے نمایاں کارنامے سر انجام دیے۔ خصوصاً زبان وبیان، تحریروں میں لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کیا جاتا تھا، خود سید ممتاز علی نے اس کے مضمون نگاروں کو ہدایات جاری کی تھیں جوکہ پھول ہی میں شائع ہوئیں تھیں۔ ان ہدایات میں اُنھوںنے لکھنے والوں سے مشکل الفاظ اور خیالات اور مبالغے کے ساتھ لکھنے سے منع کیا اور اس طرح کی زبان سے بیزاری ظا ہر کی جس میں خواہ مخواہ مشکل الفاظ کو استعمال کر کے رعب جمایا جاتا تھا۔ ۴۴
۴۸سال تک مسلسل نکلنے کے بعد ۱۹۵۷ء میں نا مساعد حالات کے سبب یہ رسالہ بند ہوگیا۔ تقریباً ۲۳ برس بعد نوائے وقت نے ستمبر ۱۹۹۰ء میں پھول کا دوبارہ آغاز کیا۔ چیف ایڈیٹر مجید نظامی اور وحید قیصر کی زیر نگرانی میں ایڈ یٹر اختر عباس اور اسسٹنٹ ایڈیٹر نعیم احمد بلوچ نے اس رسالے کو ایک نئی روح بخشی اور بہت جلد اس کا شمار بڑے پرچوں میں ہونے لگا۔۴۵ ۱۳؍ سال اس رسالے سے وابستہ ہونے کے بعد اختر عباس بلاآخر پھول کو چھوڑ گئے۔ یہ رسالہ اگرچہ اب بھی شعیب مرزا کی ادارت میں نوائے وقت کے تحت نکل رہا ہے لیکن اس کے موضوعات سے لے کر مواد کے تنوع پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ۴۶
سعید
اُردو کے محقق اور نقاد حامد حسن قادری نے نہ صرف خود بچوں کے لیے لکھا بلکہ بہت سارے ادیبوں اور شاعروں سے بچوں کے لیے بہترین اور عمدہ مضامین، کہانیاں اور نظمیں لکھوائیں۔ حامد حسن قادری نے ۱۵ مارچ ۱۹۱۸ء کو سعید نام کا منفرد قسم کا پندرہ روزہ رسالہ جاری کیا۔ ۴۷ اس وقت پورے ہندوستان میں بچوں کے لیے اُردو میں رسالہ پھول ہی تھا جوان کی جملہ ضروریات پوری کررہا تھا۔ حامد حسن قادری بچوں کی نفسیات مزاج سے بخوبی واقف تھے۔ اُنھوں نے بچوں کے لیے مختلف کتابیں بھی لکھیں۔ جس میں پھولوں کی ڈالی، ترانہ ہند، گم شدہ طالب علم، ستارہ جنوب، حسن پچیسی، جادوگرنی، ہمت کا پھل، گدڑی کا لال، کاغذ کے کھلونے شامل ہیں۔ ۴۸
اس پندرہ روزہ رسالے کی خاص بات اس کا مزاج تھا، جو بچوں کی نفسیات سے ہم آہنگ تھا، اور یہی وجہ تھی کہ بچوں کے مزاج سے واقفیت کے باعث یہ رسالہ بہت مقبول ہوا۔ تقریباً چھہ برس جاری رہنے کے بعد ۱۵ ستمبر ۱۹۶۴ء کو پندرہ روزہ سعید بند ہوگیا۴۹۔
غنچہ
ابوالکلام آزادؔ کے ایما پرنکلنے والے رسالے مدینہ کا اجرا بجنور یوپی سے ہوا تھا۔ یہ ایک سہہ روزہ نیم ادبی اورنیم سیاسی اخبار تھا۔ پھر اسی دفتر سے غنچہ کا اِجرا کیا گیا۔ غنچہ کا شماربچوں کے قدیم ترین رسالوں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۲۲ء میں ہفت روزہ غنچہ ہر ماہ کی مخصوص تاریخوں ۸، ۱۴، ۲۴ ،اور ۳۰ تاریخ کو نکلا کرتا تھا۔ ۵۰
قیام پاکستان کے بعد ۱۹۶۰ء میں غنچہ بجنور سے متاثرہو کر رشید طرازی نے کراچی میں اسی نام سے رسالہ شائع کیا۔ ۵۱
غنچہ رسالے کی خاص بات اس کا سپاٹ پن تھا۔ وہ ایک ہی انداز میں بغیر تصاویر کے شائع ہوتا تھا۔ سر ورق پر البتہ ایک ہی قسم کی تصویر کئی ہفتے چلا کر تی تھی۔ بچیوں کے لیے کشیدہ کاری سکھانے کا سلسلہ بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا منظوم ترجمہ، معلومات عامہ اور سائنسی تحریر یں بھی شامل کی جاتی تھیں۔ بچوں کی دلچسپی کے لیے انعامی مقابلوں کا انعقاد بھی کروایا جاتا تھا۔ غنچہ کی مجلس ادارت میں تاجور نجیب آبادی، بزمی انصاری، ماہر القادری، محمد وارث کا مل اور سعید اختر کے نام شامل تھے۔ ۵۲
اس رسالے میں لکھنے والے متعدد ادیب بعد میں بڑے قلم کار بنے جبکہ اس وقت کے مشہور قلم کاروں نے بھی غنچہ میں لکھا۔ غنچہ کو اپنی تحریروں سے جنھوں نے بام عروج پر پہنچایا ان میں حامد حسن قادری، ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مولانا حسین احمد مدنی، صباح الدین عبدالرحمن، شفیع الدین نیر، راجہ مہدی علی خان، عابد نظامی، آفاق احمد بھوپالی، ظفر علی سید، سیدہ اختر حیدر آبادی، شبنم کمالی، زکی انور، پرویز کاکوی شامل تھے۔۵۳
پیام تعلیم
ماہنامہ پیام تعلیم پہلے پندرہ روزہ نکلتا تھا۔ اس کی ابتدائی شکل اپریل ۱۹۲۶ء کو سامنے آئی۔ اس میں جامعہ کے حالات، تعلیمی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ۵۴
پہلے کے تین پرچوں میں بچوں سے متعلق کوئی چیز شامل نہیں تھی۔ سب سے پہلے حافظ فیاض احمد کی کہانی شائع ہوئی اورپھر آہستہ آہستہ بچوں کی دلچسپی سے متعلق کہانیاں، تراجم، لطائف وغیرہ شائع ہونا شروع ہوئے ۔۵۵
ڈاکٹر عابد حسین پیام تعلیم کے نگران تھے۔ اس کے بعد سعید انصاری کی ادارت میں بچوں کا مخصوص گوشہ اسی طرح شائع ہونا شروع ہوا۔ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو پیام تعلیم کو صرف بچوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور اس کے مدیر حسین حسان مقرر ہوئے۔۵۶ سعید انصاری کے دورِ ادارت میں پیام تعلیم بچوں کے لیے مخصوص ہوگیا تھا۔ پیام تعلیم بچوں کے سِن اور مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا تھا۔ اس کے ہرصفحے پر تحریروں کے ساتھ باقاعدہ اسکیچز کا التزام کیا جاتا تھا۔ لطائف کے لیے کئی صفحات مختص ہوتے اور کئی چوکھٹوں میں بھی لطائف لگا کر رسالے میں دلچسپی بڑھائی جاتی تھی۔ پیام تعلیم کے سابق مدیر ’حسین حسان ‘نے اپنے ایک مضمون میں ان ادیبوں، شعرا کا تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے پیام تعلیم نے خوب ترقی کی۔ ۵۷
ان ناموں میں سید ابو طاہر، مولانا محمد حسین محوی صدیقی لکھنوئی، محمد شفیع الدین نیر، محمد احمد سبزواری بھوپالی، ڈاکٹر ذاکر حسین خان، ڈاکٹر سید عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب، حضرت مولانا محمد شرف الدین، محمود علی خان، حامد علی خان، سید صباح الدین، حفیظ جالندھری، رشید احمد صدیقی، مس فلپس لورن (آپا جان)۵۸، محترم ہاجرہ بیگم، صالحہ عابد حسین، درۃالبیضا بیگم، الیاس مجیبی، حسین حسان، عبدالغفار مدھولی، سراج انور، محمود پرویز کاکوی ،برکت علی فراق، سید نورالحسن ہاشمی،نیر صدیقی شامل ہیں۔۵۹
پیام تعلیم میں ایک دلچسپ چیز یہ نظر آتی ہے کہ بڑے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بطور خاص الگ سے صفحات مخصوص ہیں، جہاں ان کے مزاج اور پسند کے مضامین کہانیاں اور نظمیں دی جاتی ہیں۔ نظموں کو اسکیچز کے ساتھ دلکش اندازمیں پیش کیا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ رسالہ اطہر پرویز کی ادارت میں نکلتا رہا۔ دسمبر ۲۰۱۴ء کے شمارے میں ’محمد محفوظ عالم‘ کی ادارت میں کئی نظمیں اور کہانیاں سلیقے کے ساتھ شائع کی گئی ہیں۔۶۰
دوسرا دور ۱۹۴۷ ء تا۲۰۰۰ئ:
دوسرے دور میں پاکستان سے شائع ہونے والے رسائل کا جائزہ شامل ہے۔ اس میں ہندوستان سے شائع ہونے والے رسائل شامل نہیں ہیں۔ ہندوستان میں بھی اُردو زبان میں بچوں کے لیے نہ صرف رسائل نکلے بلکہ وہاں مجموعی طور پر بچوں کے ادب نے ترقی کی۔بھارت سے شائع ہونے والے رسائل اور ان میں موجود متن کے حوالے سے وہاں شائع ہونے والے مقالہ جات سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ اُردو میں بچوں کے ادب پر تنقیدی کام خاص اہمیت لیے ہوئے ہے، اگر ہم اس کا موازنہ پاکستان سے کریں تو کئی مواقعوں پر اس حوالے سے بھارت میں تنقیدی کام ہمیں آگے نظر آتا ہے۔
بھائی جان
میر خلیل الرحمن کے کہنے پر شفیع عقیل نے جون ۱۹۵۱ء میں بھائی جان کا پہلا شمارہ نکالا۔ یہ شمارہ جنگ اخبار کے زیر اہتمام نکالا تھا۔ اس سے قبل شفیع عقیل نو نہال لیگ کے نام سے جنگ میں بچوں کے لیے صفحہ مرتب کیا کرتے تھے۔ شفیع عقیل نے بچوں کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے ’’بزم نو آموز مصنّفین‘‘ قائم کی۔ اس تنظیم کے تحت ہر اتوار کو پاکستان چوک میں واقع ’’انجمن ترقی اُردو لائبریری‘‘ میں اجلاس ہوتے تھے۔ جہاں بچے اپنے مضامین، کہانیاں اور نظمیں پڑھتے تھے اور ان پر بحث وتنقیدہوتی تھی۔ ان اجلاسوں میں بچوں کے لیے لکھنے والے معروف ادیب بھی شریک ہوئے جن میں حفیظ جالندھری، زیڈ اے بخاری، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ماہر القادری، سراج الدین ظفر، ابن انشا، محشر بدایونی، ادیب جو نپوری، تابش دہلوی، اظہر نفیس، صہبا اختر اکبر آبادی اور دیگر کئی نام شامل تھے۔ ان اجلاسوں کی کارروائی باقاعدہ شائع بھی ہوتی تھی۔ ۶۱
شفیع عقیل بتاتے ہیں کہ بھائی جان کو روایتی ڈگر سے ہٹانے کے لیے پرچے میں نئے لکھنے والوں کے لیے ننھے ادیب کے نام سے سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس سلسلے کی وجہ بچوں کی حوصلہ افزائی مقصود تھی۔ ۶۲
بھائی جان میگزین کی خاص بات یہ تھی کہ ہر سال ماہ جنوری میں سالِ نونمبر اور اگست میں سالنامہ شائع کیا جاتا تھا۔ بھائی جان کے خاص موضوعاتی نمبروں نے خوب دھوم مچائی جن میں ۱۹۵۲ء میں بچپن نمبر، اپریل ۱۹۵۴ء میں شرارت نمبر، اگست ۱۹۵۸ء میں جھوٹ نمبر، دسمبر۱۹۶۰ء میںلطیفہ نمبر، اگست ۱۹۶۱ء میں انتخاب نمبرشائع کیا گیا۔ ۶۳
بھائی جان ایک بڑے اخبار سے وابستہ تھا، اس لیے اس کو لکھنے کے حوالے سے اچھے ادیب میسر آئے۔ جنھوں نے خوب جم کر لکھا۔ ان میں ابن انشا، حفیظ جالندھری، محشر بدایونی، صوفی تبسم، راجہ سید مہدی علی خاں ۶۴ ،حسینہ معین، محسن بھوپالی، مستنصر حسین تارڑ، نسیم درانی، غازی صلاح الدین، انورشعور ۶۵، قمر علی عباسی ۶۶، رضاعلی عابدی، عفت گل اعزاز، سحر رومانی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بچوں کا یہ خوب صورت رسالہ بلاآخر نومبر ۱۹۶۲ء کو بند کر دیا گیا۔ ۶۷
ماہنامہ ساتھی
ماہنامہ ساتھی کا پہلا شمارہ اگست ۱۹۷۷ء کو شائع ہوا۔ ماہنامہ ساتھی نے بہت جلد سالانہ سے ماہنامہ کی طرف چھلانگ لگائی اور تسلسل کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوا۔ ۶۸ ماہنامہ ساتھی کی خاص بات یہ ہے کہ اسے طالب علم شائع کرتے ہیں اور طالب علم ہی اس کے مدیر اور مجلس ادارت کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ یہ طلبہ رضا کارانہ طور پر یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں اور رسالے کی مَد میں کوئی تنخواہ نہیں لیتے ۔ ماہنامہ ساتھی کی ٹیم ہر چند برس بعد تبدیل ہوجاتی ہے اور نئے طلبہ اس رسالے کو تیار کرتے ہیں۔ اس رسالے سے وابستہ افراد ہی اس کے مدیر مقرر ہوتے ہیں۔ ادارے کا ذہین اور سینئر طالب علم مدیر کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ ۶۹
۱۹۷۷ء سے شائع ہونے والا ماہنامہ ساتھی۷۰ مستقل مزاجی کے ساتھ ہر ماہ شائع ہورہا ہے۔ ماہنامہ ساتھی کے اب تک انیس (۱۹) مدیران اپنی خدمات سر انجام دے کر اب زندگی کے مختلف شعبوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت کا کام انجام دے رہے ہیں، جب کہ اس وقت اکیسویں مدیر ’’عاقب جاوید‘‘ جامعہ کراچی میں شعبۂ اُردو کے طالب علم ہیں۔
ماہنامہ ساتھی دراصل ادارہ ساتھی میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس ادارے کے تحت اب تک بیس کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ سالناموں کو نکال کر اب تک ۴۰ خاص نمبر شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ۱۵؍رائٹرز ایوارڈ منعقد ہو ئے ہیں۔ اسی طرح دو رائٹرز ایوارڈ کے ساتھ مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ ۷۱
ماہنامہ ساتھی ہمارے ان منتخب رسالوں میں شامل ہے جس کی بابت ہم تفصیل سے آگے چل کر بات کریں گے۔

ماہنامہ ہمدرد نو نہال
دسمبر ۱۹۴۵ء میں مطبع یونائیٹڈ پبلی کیشنز سے ماہنامہ ہمدرد نو نہال کی اشاعت کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس کے مدیر کا نام درج نہیں جبکہ یہ ۶۰۰ کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔۷۲علاوہ ازیں یہاں یہ بات تحقیق کے حوالے سے کرتا چلوں کہ حکیم محمد سعید کا رسالہ ماہنامہ ہمدرد نو نہال اور ماہنامہ نونہال دو الگ رسالے ہیں۔
حکیم سعید کو بچوں سے خصوصی لگائو تھا اور اس لگائو کی عملی شکل ہمدرد نو نہال میں نظر آتی ہے۔ ماہنامہ نو نہال کاآغاز ہمدرد فائونڈیشن کے بانی حکیم سعید نے ۱۹۵۳ء میں کیا اور اس کے پہلے مدیر ان میں فریدہ ہمدرد، ثریا ہمدرد اور مسعود احمد برکاتی کا نام شمار ہوتا ہے۔
’مسعو احمد برکاتی‘ تاحیات مدیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۷۳۔ مسعود احمد برکاتی کو دو اعزازحاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ وہ کسی بھی رسالے کے سب سے زیادہ عرصہ رہنے والے مدیر ہیں۔ دوم یہ کہ نومبر ۱۹۸۲ء میں اُنھوں نے ماہنامہ ہمدرد نو نہال ہی میں بچوں کے لیے پہلاسفر نامہ دو مسافر دو ملک کے نام سے لکھا جو قسط وار شائع ہوا۔ ۷۴ تعلیم وتربیت کے جائزے میں دیکھا گیا کہ خالد بزمی کا سفرنامہ لاہور سے کاغان تک ستمبر ۱۹۷۷ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ جب کہ مسعود احمد برکاتی کا سفرنامہ دو ملک دو مسافر نومبر ۱۹۸۲ء کو نونہال میں شائع ہوا۔اس طرح تاریخی اعتبار سے خالد بزمی کا سفرنامہ پہلے شائع ہوا، یہ سفرنامہ بچوں کے لیے لکھا گیا تھا جو تعلیم وتربیتمیں شائع ہوا تھا، مزید تفصیلات اگلے صفحات میں تعلیم وتربیت کے جائزے میں ملاحظہ کیجیے۔
ہمدرد نو نہال کا سائز وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا اور اب ایک طویل عرصے سے وہ ۸/ا۳۰×۲۰ کے سائز میں شائع ہورہا ہے۔ رسالے کا ابتدا میں نام صرف نو نہال تھا جو اپریل ۱۹۵۶ء میں معمولی اضافے کے ساتھ ماہنامہ ہمدرد نونہال ہوگیا۔۷۵
آج کل ہمدرد نو نہال ایک طویل عرصے سے خاص نمبر کے عنوان سے صرف سالنامے شائع کر رہا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب نونہال نے بھی موضوعاتی خاص نمبرز شائع کیے۔ ان خاص نمبرز میں آزادی کے علم بردار نمبر، افریشا کی کہانیاں نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، پاکیزہ نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ نونہال نے کئی نسلوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کر دار ادا کیا ہے اور بہت سارے ادیب وشاعر ہمدرد نو نہال ہی کے ذریعے بڑے قلمکار بنے ہیں۔ ابتدا میں بڑے ادیبوں نے ہمدرد نو نہال کو اپنی تحریروں اور نظموں سے سجایا۔ ان بڑے ناموں میں مسعود احمد برکاتی کے علاوہ رئیس امروہوی، آغا اشرف، ملاواحدی، قمر ہاشمی، محشر بدایونی، رشید احمد بٹ، محمد انور بھوپالی، کشور ناہید، رئیس فاطمہ، معراج، ڈاکٹر رئوف پاریکھ وغیرہ کے نام نظرآتے ہیں۔ ۷۶
تعلیم وتربیت
تعلیم وتربیت کا شمار بچوں کے نمایاں رسائل میں ہوتا ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والا یہ رسالہ ابتدا میں اسکولوں کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے جنوری ۱۹۲۸ء کو مولوی فیروزالدین نے نکالا۔ دس سے بارہ سال بعد مولوی فیروزالدین نے محسوس کیا کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے رسالہ نکالنا از حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ۱۹۴۱ء میں تعلیم وتربیت کو بچوں کے لیے مختص کر دیا۔ ۷۷ رسالے کو چلانے والے لوگ شعوری طور پر یہ بات سمجھتے تھے کہ بچوں کے لیے کس قسم کی کہانیا ں اور مضامین ہونے چاہیے۔ اس لیے ہمیں اس رسالے میں ایک معتدل اور حقیقت پسندانہ انداز نظر آتا ہے۔ ’مقبول انور دائودی‘ اس کے مدیر تھے جب کہ ان کے معاونین میں صائب ہاشمی اور سعید لخت شامل تھے۔ اپنی بامقصد تحریروں کی وجہ سے تعلیم وتربیت بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ تعلیم وتربیتنے ابتدا میں اپنی ظاہری حالت کتابت وطباعت کے معیار کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔۷۸
قیام پاکستان کے بعد بھی تعلیم وتربیت نے اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ تعلیم وتربیت کا سائز بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اب اس کا سائز ۸/۲۶×۲۳ ہے۔ مقبول انور دائودی جب تک زندہ رہے ۱۹۹۱ء تک، تعلیم وتربیت کی مجلس ادارت سے وابستہ رہے۔ تعلیم وتربیتکے لکھنے والوں میں سعید لخت، یونس حسرت، اے حمید، کلیم چغتائی، حسن ذکی کاظمی، سید مقبول حسین شاہ، عبدالحمید عابد،خواجہ عابد نظامی، نذیر انبالوی، وغیر ہم شامل ہیں۷۹۔ تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے ناول بچوں میں بے حد مقبول ہوئے اسی طرح چچا حیرت کا کردار بھی امتیاز علی تاج کے کردار چچا چھکن کی طرح مقبول ہوا۔ تعلیم وتربیت کا ایک خاصا یہ رہا ہے کہ اس نے مافوق الفطرت اور اساطیری داستانوں سے جان بوجھ کر احتراز برتا ہے۔ البتہ تمثیلی کہانیوں کے ذریعے طلبہ کی تعلیم وتربیت کا سامان کیا جاتا رہاہے۔ ۸۰
آنکھ مچولی
قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بچوں کے متعدد رسائل شائع ہوئے اور ہورہے ہیں لیکن جو شہرت آنکھ مچولی کو ملی، اس کی بہت ساری وجوہ ہیں۔ احمد فوڈ انڈسٹریز نے گرین گائیڈ اکیڈمی کے تحت بچوں کے لیے جولائی ۱۹۸۶ء میں یہ رسالہ نکالا۔ ۸۱
آنکھ مچولی میں ابتدا ہی سے ہمیں بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں جنھوں نے آنکھ مچولی کو بین الاقوامی معیار کا رسالہ بنانے کی کوشش کی۔ آنکھ مچولی کے ابتدائی مدیران میں مدیر اعلا: ظفر محمود شیخ، مدیر مسئول:تجمل حسین چشتی تھے، جب کہ امجد اسلام امجد اور سلیم مغل اعزازی مدیران تھے۸۲۔ کچھ عرصے بعد ادارتی ٹیم میں نئے لوگ شامل ہوئے جس کے مدیر ان میں سلیم مغل، طاہر مسعود جبکہ معاون مدیر ان میں منیر احمد راشد اور محمد عمر احمد خان کے نام شامل ہوئے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت میں تفریح کے عنصر کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا جاتاتھا ۔ سماجی برائیوں کو دل چسپ اشتہار ات کے ذریعے اُجاگر کیا جاتا۔ اسکیچز میں آنکھ مچولی بڑی عمدہ تصاویر کے ساتھ کہانیاں پیش کرتا رہا، سال میں دو خاص نمبر شائع کرنے والا آنکھ مچولی متعدد منفرد خاص نمبرز نکالنے کی روایت کو آگے بڑھاتا رہا۔ ان خاص نمبرز میںکرکٹ اسپیشل نمبر، خوفناک نمبر، حیرت انگیز نمبر، عالمی ادب اطفال نمبر شامل تھے۔ ان خاص نمبرز کے ساتھ عموماً کوئی تحفہ بھی ہوتا تھا۔ یہ بچوں کے رسائل میں ایک اچھی روایت تھی۔
آنکھ مچولی میں لکھنے والے متعدد قلم کاروں نے بڑا نام کمایا۔ آنکھ مچولی میں لکھنے والوں میں فاطمہ ثریا بجیا، اخلاق احمد، احمد حاطب صدیقی، سیما صدیقی، نعیم احمد بلوچ، عبدالقادر، بن یامین، منیر احمد راشد، سلیم مغل وغیرہ شامل تھے۸۳۔ مارچ ۱۹۹۷ء کے بعد آنکھ مچھولی کو بند کر دیا گیا۔۸۴
تعبیر پبلشرز نے اکتوبر ۱۹۹۹ء میں لاہور سے دوبارہ آنکھ مچولی جاری کیا۔ اس میں احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، اشتیاق احمد، احمد حاطب صدیقی، شاہ نواز فاروقی، سید قاسم محمود، جاوید احمد غامدی، عطاء الحق قاسمی وغیرہ نے لکھا۔ اس کے مدیر نعیم احمد بلوچ تھے۔ بالآخر یہ بھی بند ہوا اور پھر ۲۰۰۲ء میں پیغام ڈائجسٹ کے سابق مدیر ڈاکٹر رضوان ثاقب نے اس رسالے کو خریدا اور چند برس چلا کر اُنھوں نے بھی آنکھ مچولیبند کردیا۔۸۵
پیغام ڈائجسٹ
پیغام ڈائجسٹ کا آغاز جنوری ۱۹۷۶ء میں ہوا اور اس کی جاے پیدائش ضلع سیالکوٹ کا ایک دورافتادہ قصبہ ،’کلاس والا‘ تھا۔ پیغام ڈائجسٹ کے بانی مدیر ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر ہیں۸۶۔
پیغام کی خاص بات یہ ہے کہ طلبہ تنظیم کا پرچہ ہونے کی وجہ سے طالب علم ہی اس کی انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں اور ہرچند برس بعد پیغام کی ٹیم تبدیل ہوتی ہے۔ اب تک پیغامکے پچیس مدیران پیغام کو سنوارتے نکھارتے ہوئے عملی زندگیوں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ان مدیران میں ڈاکٹر افتخارکھوکھر، محمد عملش، حامد ریاض ڈوگر، نجم الحسن عارف، زبیر خان بابر، ڈاکٹر رضوان ثاقب، اشفاق احمد خان، ناصر محمود اعوان، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اور طلحہ ادریس کے نام نمایاں ہیں۸۷۔
پیغام ڈائجسٹ کا اجرا کیسے ہوا؟ اس کی تفصیل ڈاکٹر افتخار کھوکھر بتاتے ہیں کہ ایک طلبہ تنظیم کا صدر منتخب ہونے کے بعد ہم نے معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچا، اس مقصد کے لیے ’کلاس والا‘ کے صاحب حیثیت حضرات سے ماہانہ بنیاد پر وسائل جمع کرنے کا پروگرام بنایا اور یہ سلسلہ اسی وقت مؤثر ہوسکتا تھا جب ہمارے معاونین کو ہر ماہ ہماری سرگرمیوں اور کام کی وسعت سے باخبر رکھا جاتا۔ اسی مقصد کے لیے سوچا گیا کہ ماہانہ خبر نامے یا بلیٹن کا آغاز کیا جائے۔ ایک دعوتی پمفلٹ، ہمارا پیغام سے لفظ پیغام کو لے کر پیغام ڈائجسٹکا اجرا کیا گیا۔ جون ۱۹۷۵ء سے پیغام ڈائجسٹ کاآغاز ہوا لیکن یہ خبرناموں پر مشتمل تھا۔ بچوں کی دلچسپی کا سامان پیداکر کے پہلا باقاعدہ رسالہ جنوری ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا۔۸۸
۲۰۱۵ء میں پنجاب شمالی اور پنجاب جنوبی کے پیغام الگ الگ کر دیے گئے۔ پنجاب شمالی سے پیغام اقبال نکلنے لگا۔ جب کہ جنوبی سے پیغام ڈائجسٹ تسلسل کے ساتھ آج بھی شائع ہورہا ہے۔ ۸۹

بچوں کے لیے نکلنے والے پہلے رسالے بچوں کا اخبار
سے لے کر موجودہ عہد تک نکلنے والے رسائل کی فہرست۹۰:

اس فہرست سے قبل ڈاکٹر افتخاز کھو کھر پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال میں کئی رسائل کی تفصیلات بیان کرچکے ہیں۹۱، اسی طرح اپنی کتاب روشنی کی کرن میں بھی اُنھوں نے اضافے کے ساتھ کئی رسائل کا مختصراً تذکرہ کیا ہے۹۲۔ایک غیر مطبوعہ فہرست بھی اُنھوں نے مرتب کی ہے جس میں ابتدا سے لے کر اب تک کے کم وبیش تمام رسائل کے نام شامل ہیں، اس فہرست کو چند نئے ناموں کے اضافے کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
اس فہرست کی ترتیب الف بائی رکھی گئی ہے تاکہ رسالے کو نام کے ذریعے باآسانی ڈھونڈا جاسکے۔اس میں تقریباً ۳۸۳ رسائل کے نام شامل ہیں۔ کچھ رسالے ایسے بھی ہیں جو ایک ہی نام سے مختلف اوقات میں نکلتے رہے ہیں، اس میں صرف چند ہی رسائل ایسے بچے ہیں جو آج بھی شائع ہورہے ہیں۔
اس فہرست میں پاکستان وبھارت میں شائع ہونے والے بچوں کے رسائل کے نام شامل کیے گئے لیکن اسے ہم مکمل اور حتمی فہرست نہیں کہہ سکتے۔ حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ کوئی رسالہ اس میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے لیکن پھر بھی اس میں اضافے اور تصحیح کی گنجائش موجود ہے۔

شمار پرچے کا نام مقام مدیر آغازِ اشاعت
۱ آنکھ مچولی کراچی محمد سلیم مغل جولائی ۱۹۸۶ء
۲ آنکھ مچولی لاہور نعیم احمد بلوچ اکتوبر۱۹۹۹ء
۳ آنکھ مچولی لاہور رضوان ثاقب اگست ۲۰۰۳ء
۴ آموزش کوئٹہ سرورایوبی اکتوبر ۱۹۸۵ء
۵ آغوش میر پور خاص شاہد جمیل اگست ۲۰۰۲ء
۶ اطفال لاہور طفیل مرزا جنوری ۱۹۴۷ء
۷ اطفال ملکوت پشاور دسمبر ۱۹۹۳ء
۸ ا طفالِ پاکستان کراچی ابو غازی محمد مارچ ۲۰۰۰ء
۹ اطفالِ اسلام لاہور حافظ سعد محمود نومبر ۲۰۰۱ء
۱۰ اچھا ساتھی کراچی رشید ارشد جنوری ۱۹۶۰ء
۱۱ اچھا ساتھی بجنور سراج ندوی نومبر ۱۹۹۳ء
۱۲ اتفاق لاہور مصطفیٰ صادق جنوری ۱۹۷۸ء
۱۳ اُمید ِبہار علی پور ذوالفقار علی اکتوبر ۱۹۹۰ء
۱۴ اُجالا اسلام آباد عبدالرحمن ستمبر ۲۰۰۱ء
۱۵ الف اُجالا کراچی محمد سلیم مغل جنوری۱۹۹۰ء
۱۶ اُمنگ لاہور ناصر زیدی جنوری ۱۹۶۰ء
۱۷ امن نئی دہلی اشتیاق عابدی دسمبر ۱۹۸۷ء
۱۸ انکل سر گم لاہور مناظر حسن نظر ستمبر ۱۹۸۹ء
۱۹ اَتالیق دکن عبدالرب کوکب ۱۹۱۷ء
۲۰ الحسنات رامپور ابو سلیم محمد عبدالحئی جولائی ۱۹۴۵ء
۲۱ اختر لائل پور سلطان عارف علی جنوری۱۹۵۱ء
۲۲ اُردو کامک کراچی اے یو قیصر مارچ ۱۹۷۹ء
۲۳ اُردو کامک مالیگاؤں حفیظ انصاری جنوری ۱۹۶۶ء
۲۴ اَنمول بچے راولپنڈی محمد عا مر دسمبر ۲۰۰۸ء
۲۵ اخبارِ بزم گل کراچی سعد حمنہ ۱۹۹۲ء
۲۶ اَلماس ٹنڈو آدم غلام مصطفی تبسم فروری ۲۰۰۷ء
۲۷ اُسوہ میگزین فیصل آباد ڈاکٹر زاہد اشرف ۲۰۰۰ء
۲۸ اذانِ سحر ڈائجسٹ لاہور عباس اختر اعوان جولائی ۲۰۰۶ء
۲۹ اکیڈمی۔ بچوں کے لیے لاہور محمد اکمل عزیز دسمبر ۱۹۹۰ء
۳۰ اقرا لاہور محمد فہیم عالم دسمبر۲۰۱۵ء
۳۱ ارقم لاہور شاہد نعیم رندؔ
۳۲ انو کھی کہانیاں کراچی محبوب الٰہی مخمور اگست ۱۹۹۱ء
۳۳ ایجو کیشن ٹائمز لاہور مقصود احمد میاں جنوری ۱۹۸۹ء
۳۴ الف نگر لاہور ضیاء اللہ محسن مئی ۲۰۱۸ء
۳۵ بنات کرا چی رازق الخیری …۱۹۲۷ء
۳۶ بچہ کراچی محمد خلیق شاہ پوری جنوری ۱۹۵۲ء
۳۷ بچوں کی کہانیاں کراچی مختار بھٹی جنوری ۱۹۹۵ء
۳۸ بچوں کا چڑیا گھر لاہور شہزادہ عالمگیر اگست ۲۰۰۵ء
۳۹ بچوں کا دوست بھکر روبی نیازی فروری ۱۹۹۰ء
۳۹ بچوں کا دوست جلال پور چٹان محمد رفیق غوری مارچ ۱۹۹۶ء
۴۰ بچوں کا دوست حیدر آباد ادیب سمیع چمن اکتوبر۲۰۰۴ء
۴۱ بچوں کا ڈائجسٹ لاہور حامد اللہ خان جنوری ۱۹۶۲ء
۴۲ بچوں کا ڈائجسٹ لاہور اختر عباس نومبر ۱۹۸۹ء
۴۳ بچوں کا باغ دہلی رضیہ سلطانہ جولائی ۱۹۳۹ء
۴۴ بچوں کا باغ لاہور ایم ۔یوسف اپریل ۱۹۵۷ء
۴۵ بچوں کا باغ لاہور رفیق قریشی، محمد فہیم عالم مئی ۱۹۹۴ء
۴۶ بچوں کا گوگو کراچی ایم ۔ مجاہد
۴۷ بچوں کی محفل لاہور ذوالفقار علی جنوری ۱۹۸۳ء
۴۸ بچوں کا مون لاہور فاروق امین مئی ۱۹۹۰ء
۴۹ بچوں کا گلشن لاہور امان اللہ نیئر شوکت مئی ۱۹۷۶ء
۵۰ بچوں کا گلشن لاہور شاہد محمود اپریل ۱۹۸۹ء
۵۱ بچوں کا محور لاہور آر، اے حسن مارچ ۱۹۹۶ء
۵۲ بچوں کا بھوت لاہور شہزادہ عالمگیر
۵۳ بچوں کا زمانہ کراچی سید فصیح اقبال ۱۹۶۴ء
۵۴ بچوں کی باجی لاہور۔ فیصل آباد شیخ حمید تبسم اگست ۱۹۷۵ء
۵۵ بچوں کا اسلام کراچی اشتیاق احمد، محمد فیصل شہزاد جولائی ۲۰۰۲ء
۵۶ بچوں کا پھول لاہور حامد ملک نومبر ۱۹۷۸ء
۵۷ بچوں کا نیا پھول کنگن پور محمد اسحاق انجم جنوری ۱۹۷۹ء
۵۸ بچوں کا پرستان لاہور امان اللہ نیئر شوکت مئی ۲۰۰۹ء
۵۹ بچپن اسلام آباد وسیم طاہر دسمبر ۱۹۸۹ء
۶۰ بچپن لاہور اظہر ریاض ستمبر ۱۹۸۹ء
۶۱ بچپن کراچی امیر شہانی اگست ۱۹۶۲ء
۶۲ بچپن کراچی گل میر مغل فروری ۱۹۹۰ء
۶۳ بچپن کراچی حبیب صدیقی اکتوبر ۱۹۴۸ء
۶۴ بھائی بہن لاہور فاضل آدم پوری اپریل ۱۹۵۲ء
۶۵ بچوں کا رسالہ کراچی طارق عزیز جنوری ۱۹۸۳ء
۶۶ بچوں کی آواز کراچی وزیر علی قادری مئی ۱۹۹۱ء
۶۷ بچوں کااخبار لاہور منشی محبوب عالم مئی ۱۹۰۲ء
۶۸ بچوں کا اخبار لاہور سلطان احمد وجودی جنوری ۱۹۴۸ء
۶۹ بچوں کا اخبار کراچی کامل قریشی
۷۰ بچوں کا اخبار کوئٹہ سید صفدر حسین جنوری ۱۹۷۲ء
۷۱ بچوں کا اخبار پشاور ناصر لطیف مغل اکتوبر ۱۹۹۲ء
۷۲ بچوں کا اخبار مردان شاہد انور شیرازی اکتوبر ۱۹۹۹ء
۷۳ بچوں کی دنیا لاہور خورشید انبالوی، محمد فہیم عالم
۷۴ بچوں کی دنیا گوا۔ انڈیا نوشابہ قلیم نومبر ۱۹۹۳ء
۷۵ بچوں کی دنیا لکھنؤ محمد خلیق شاہ پوری ستمبر ۱۹۹۵ء
۷۶ بچوں کا میگزین حیدر آباد محمد فاروق دانش
۷۷ بچوں کا پرستان لاہور امان اللہ نیئر شوکت مئی ۲۰۰۹ء
۷۸ بچوں کا ادب لیہ ندیم اختر ۲۰۱۷ء
۷۹ بچوں کا نشیمن لاہور الیاس صدیقی اپریل ۱۹۹۰ء
۸۰ بھائی جان کراچی شفیع عقیل دسمبر ۱۹۵۰ء
۸۱ بھائی جان حیدرآباد محمد فاروق دانش اگست ۱۹۴۸ء
۸۲ بھائی میاں کراچی اپریل ۱۹۶۰ء
۸۳ بہار ہند لاہور ملک محمد صادق جون ۱۹۳۹ء
۸۴ بہار چمن لاہور رستم علی سہیل جون ۱۹۸۹ء
۸۵ بہارِ گلستان کراچی شان احمد مئی۱۹۵۰ء
۸۶ باغ وبہار لاہور مقبول جہانگیر اکتو بر ۱۹۵۹ء
۸۷ بزم قرآن لاہور محمدیحییٰ جولائی ۱۹۹۲ء
۸۸ بزم قرآن کراچی ساجد احمد صادق نومبر ۱۹۹۳
۸۹ بزم قرآن پشاور حافظ حمید اللہ اپریل۱۹۹۵ء
۹۰ بزم قرآن مظفر آباد ماجدمعظم ناز فروری۲۰۰۴ء
۹۱ بزم گل کراچی روبینہ سلطانہ اکتوبر ۱۹۹۰ء
۹۲ بزم گل ولالہ لاہور ستمبر ۲۰۰۸ء
۹۳ بلندی مظفرآباد شبیر احمد دسمبر ۱۹۹۱ء
۹۴ بلو کراچی مسعود احمد جولائی ۱۹۶۰ء
۹۵ بزم منزل کراچی سعید سعیدی اپریل ۲۰۰۹ء
۹۶ بدلتی دنیا لاہور حمزہ بھائی حسنی فروری ۱۹۵۶ء
۹۷ بقعہ ٔ نور لاہور بنت مجتبیٰ مینا ستمبر ۲۰۰۴ء
۹۸ ببلو بلی لاہور بشیر احمد اکتوبر ۱۹۹۶ء
۹۹ بے بی ٹائمز کراچی سید عا صم محمود مئی ۱۹۸۹ء
۱۰۰ بچوں کا آشیانہ کراچی اعظم طارق کوہستانی جنوری ۲۰۲۱ء
۱۰۱ بچے من کے سچے خان پور محمد یوسف وحید ۲۰۰۷ء
۱۰۲ بہت خوب ٹنڈو جام محسن اسرار ۲۰۰۳ء
۱۰۳ پھول لاہور بنت نذرالباقر ۱۳ ؍اکتوبر ۱۹۰۹ء
۱۰۴ پھول لاہور حجاب امتیاز علی اکتوبر ۱۹۷۰ء
۱۰۵ پھول کراچی نفیسہ باجی ‘سر فراز حسن ممتاز جنوری ۱۹۶۳ء
۱۰۶ پھول ملتان مقبول احمد قریشی مارچ ۱۹۵۳ء
۱۰۷ پھول دہلی عارف دہلوی جنوری ۱۹۵۳ء
۱۰۸ پھول بھٹکل کرناٹک عبداللہ غازی ؔندوی ۲۰۱۶ء
۱۰۹ پھول لاہور اختر عباس، شعیب مرزا ستمبر ۱۹۹۰ء
۱۱۰ پھول ہی پھول لاہور محمد حسن جولائی ۱۹۷۹ء
۱۱۱ پھول اور چہرے لاہور شمس الرحمن آسی فروری ۲۰۰۱ء
۱۱۲ پھول رنگ لاہور ملک محمد سلمان ستمبر ۲۰۰۸ء
۱۱۳ پھول اور تارے کوئٹہ شیخ فرید نومبر ۲۰۰۴ء
۱۱۴ پھلوں کی مہک حیدر آباد انوار احمد انجم اگست ۱۹۹۲ء
۱۱۵ پھلواری دہلی کامل اختر جنوری ۱۹۵۰ء
۱۱۶ پھلواری لاہور شیخ نیاز احمد مارچ ۱۹۶۰ء
۱۱۷ پنکھڑی لاہور غلام محمد گلشن جولائی ۱۹۹۶ء
۱۱۸ پریم لاہور تا جو ر نجیب آبادی اپریل ۱۹۲۶ء
۱۱۹ پیامِ تعلیم دہلی شاہد علی خان اپریل ۱۹۲۶ء
۱۲۰ پیغام کلاس وال محمد افتخار کھو کھر جون ۱۹۷۵ء
۱۲۱ پیغام لاہور محمد افتخار کھو کھر مارچ ۱۹۷۸ء
۱۲۲ پیغام ڈائجسٹ لاہور ثاقب ریاض جنوری ۱۹۸۹ء
۱۲۳ پیغام اقبال ڈائجسٹ راولپنڈی کے۔ مشتاق احمد جون۲۰۰۰ء
۱۲۴ پیامی کراچی مارچ ۱۹۶۴ء
۱۲۵ پیامی کراچی کلیم چغتائی اگست ۱۹۷۷ء
۱۲۶ پلے ٹائم لاہور خالد شریف جون ۱۹۹۴ء
۱۲۷ پٹاخہ کوئٹہ رُقیہ آرزو ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۲۸ تعلیم و تر بیت لاہور ظہیر سلام مارچ ۱۹۴۱ء
۱۲۹ تعلیم ِنو حیدر آباد نعیم احمد آکاش اکتوبر ۲۰۰۰ء
۱۳۰ تعلیم و تعلم لاہور میاں طاہر محمود جون ۱۹۹۷ء
۱۳۱ تعلیمی ڈائجسٹ لاہور یونس عزیز ملک اگست ۱۹۹۱ء
۱۳۲ تبسم کراچی محمد ہارون مئی ۱۹۵۳ء
۱۳۳ تشہیذالا ذہان(قادیانی) ربوہ فخرالحق شمس جنوری ۱۹۵۶ء
۱۳۴ تحسین کڈز لاہور محمد اجمل تحسین اکتوبر ۲۰۰۱ء
۱۳۵ تصویری دنیا لاہور شیخ حمید تبسم ستمبر ۱۹۷۶ء
۱۳۶ تصور نو نہال قصور راشد منہاس ثاقب جنوری۱۹۹۷ء
۱۳۷ تاروں کی دنیا ملتا ن محمد رضا حسین مارچ ۱۹۸۹ء
۱۳۸ تحفہ لاہور عبدالباسط نعیم اگست ۱۹۴۸ء
۱۳۹ تہذیب الاطفال لاہور فوزیہ عباس جنوری۲۰۰۴ء
۱۴۰ ٹوٹ بٹوٹ کراچی محمود شام جنوری ۱۹۷۸ء
۱۴۱ ٹپ ٹاپ جھنگ عابد حسین عابد جون ۱۹۹۲ء
۱۴۲ جنگل منگل کراچی عصمت آراء جنوری ۲۰۰۶ء
۱۴۳ جنگل منگل کراچی علی حسن ساجد جنوری۲۰۰۶ء
۱۴۴ جگنو سیا لکوٹ گلزار حیدری جنوری ۱۹۵۰ء
۱۴۵ جگنو لاہور ارشد نیاز اکتوبر ۱۹۷۴ء
۱۴۶ جگنو لاہور عنایت اللہ محمود، محمدفہیم عالم اکتوبر ۱۹۸۸ء
۱۴۷ جگنو کراچی خان ظفر افغانی جنوری ۱۹۹۵ء
۱۴۸ جاسوس بھوت لاہور شہزادہ عالمگیر جنوری ۲۰۰۴ء
۱۴۹ جگمگ تارے کراچی شمعون قیصر، فصیح اللہ حسینی اگست ۲۰۱۳ء
۱۵۰ جان عالم کراچی انور بہزاد جنوری ۱۹۹۱ء
۱۵۱ جہانِ ادب مستونگ احسان اللہ شاہ اکتوبر ۱۹۸۹ء
۱۵۲ چاند لاہور خلیق احمد جون۱۹۲۵ء
۱۵۳ چاند لاہور بھائی جان جنوری ۱۹۵۳ء
۱۵۴ چاند ستارے لاہور اشتیاق احمد نومبر ۱۹۸۹ء
۱۵۵ چاند ستارے جھنگ اشتیاق احمد جنوری ۲۰۰۲ء
۱۵۶ چاند اور ستارے اسلام آباد ملک ابرار حسین اپریل ۲۰۰۶ء
۱۵۷ چاند نگر فیصل آباد سہیل اسلم اکتوبر ۱۹۹۱ء
۱۵۸ چندا کراچی مسز شاگرہ نومبر ۱۹۹۵ء
۱۵۹ چند تارے خان پور محمد شاہد دھریجہ اکتوبر ۲۰۰۱ء
۱۶۰ چندا ماموں لاہور مقبول احمد اکتوبر ۱۹۷۲ء
۱۶۱ چندا ماموں لاہور مشتاق کا شمیری مارچ ۱۹۵۶ء
۱۶۲ چیمپئن کراچی علی جعفری مارچ ۱۹۹۵ء
۱۶۳ چمن کی گلیاں پشاور زبیر انجم جنوری۱۹۹۵ء
۱۶۴ چمن میگزین چمن طررے باز گل جنوری ۲۰۰۰ء
۱۶۵ چہکار لاہور علی رضا جنوری ۱۹۸۸ء
۱۶۶ چہکار لاہور علی رضا فروری ۱۹۷۹ء
۱۶۷ چاند گاڑی کراچی آغا مسعود حسین اپریل ۱۹۸۹ء
۱۶۸ چنبیلی کا مو نکی محمد ارباب بزمی جون ۱۹۹۴ء
۱۶۹ چٹاخ پٹاخ کراچی غٖلام رضا جعفری جون ۱۹۹۱ء
۱۷۰ چائلڈ اسٹار کراچی حنیف سحر فروری ۱۹۸۹ء
۱۷۱ چائلڈ اسٹار کراچی مظہر یو سفزئی نومبر ۲۰۰۱ء
۱۷۲ چائلڈ ایجو کیشن کراچی محمد اسلم قریشی دسمبر ۱۹۹۸ء
۱۷۳ چلڈرن سپورٹس لاہور مصلح الدین اگست ۱۹۹۷ء
۱۷۴ چلڈرن ورلڈ شیخو پورہ فیصل شہزاد ۲۰۰۰ء
۱۷۵ چلڈرن ورلڈ لاہور منصور بخاری نومبر ۱۹۹۵ء
۱۷۶ چلڈرن نیوز لاہور قمر الزمان عباسی فروری ۱۹۸۹ء
۱۷۷ چلڈرن ٹائمز کراچی مظہر یوسفزئی مئی ۲۰۰۱ء
۱۷۸ چلڈرن ٹائمز حیدر آباد مہر النساء دسمبر ۲۰۰۳ء
۱۷۹ چلڈرن ڈائجسٹ کراچی قمر نقوی جنوری ۱۹۸۹ء
۱۸۰ چھوٹی دنیا لاہور قیصر فر زانہ نومبر ۱۹۹۱ء
۱۸۱ چھوٹو کراچی سلیم ناز جنوری ۱۹۹۳ء
۱۸۲ چشم و چراغ لاہور سلیم ناز مارچ ۱۹۵۹ء
۱۸۳ چمن کے پھول ملتان محمد رفیق شہزاد اکتوبر ۲۰۰۱ء
۱۸۴ چھوٹے بچے لاہور عاطر ہا شمی اکتوبر ۱۹۵۱ء
۱۸۵ حباب کراچی محمد کامل قریشی نومبر ۱۹۵۵ء
۱۸۶ خزانہ کراچی نیلو فر عباسی اگست ۱۹۸۹ء
۱۸۷ خزانہ کراچی مرزا مظفر بیگ اگست ۱۹۹۶ء
۱۸۸ خوشبو ڈیرہ اسماعیل خان نسیم اختر مارچ ۲۰۰۱ء
۱۸۹ خوشبو پورہ معروف مئو ابو ہریرہ یوسفی ۲۰۱۲ء
۱۹۰ خالد حیدر آباد جے۔ کے قدوائی مارچ ۱۹۵۲ء
۱۹۱ دُعا اسلام آباد دانش جمال اپریل ۲۰۰۱ء
۱۹۲ خزینہ کراچی حفیظ الرحمن جون ۱۹۹۱ء
۱۹۳ دُعا حیدر آباد آفتاب گل رند
۱۹۴ دوست کراچی محمد کامل نومبر ۱۹۵۱ء
۱۹۵ دوست اسلام آباد آصف محمود اگست ۱۹۹۲ء
۱۹۶ درخشاں میگزین کراچی ایم اسلم صدیقی دسمبر ۱۹۸۹ء
۱۹۷ دبستان لیاقت پور سر فراز علی مرزا جولائی ۱۹۹۸ء
۱۹۸ دَھنک سکھر محمد خرم معراج اپریل ۱۹۹۴ء
۱۹۹ دل بہلا وہ راولپنڈی سر فراز شاہد اپریل ۱۹۵۱ء
۲۰۰ دلچسپ کراچی وحید رضا جنوری ۱۹۵۱ء
۲۰۱ دلچسپ گوجر انوالہ محمد اقبال نجمی نومبر ۱۹۹۱ء
۲۰۲ ذہانت لاہور خالد بن حامد جولائی ۱۹۸۲ء
۲۰۳ ذہین لاہور ظہورالدین بٹ اپریل ۱۹۸۵ء
۲۰۴ ذوق وشوق کراچی محمد عارف قریشی، عبدالعزیز ۲۰۰۶ء
۲۰۵ روشن چراغ کزئی عبدالرشید اعوان ستمبر ۱۹۸۸ء
۲۰۶ رانگ نمبر لاہور منصور احمد بٹ جون ۱۹۸۹ء
۲۰۷ رنگ برنگ لاہور عباس کا ظم دسمبر ۱۹۸۵ٍء
۲۰۸ رنگارنگ لاہور محمد شعیب مرزا جون ۲۰۰۰ء
۲۰۹ روشنی مظفر آباد سید ابرار گردیزی مئی ۲۰۰۳ء
۲۱۰ روشنی کوئٹہ ثا قبہ رحیم الدین ستمبر ۱۹۹۲ء
۲۱۱ روضتہ الا طفال لاہور علی عمران شاہین
۲۱۲ رَتن جموں کندن لال جنوری ۱۹۳۲ء
۲۱۳ راجارانی کراچی راشد عزیز اپریل ۱۹۹۰ء
۲۱۴ راہِ علم وادب بہاولپور محمد طلحہ ارشاد ۲۰۱۷ء
۲۱۵ روشن تارے لاہور محمد خالد جون ۱۹۸۸ء
۲۱۶ زکوٹا لاہور فیصل انور جنوری ۱۹۹۸ء
۲۱۷ ساتھی کراچی محمد عزیز الرحمن جون ۱۹۵۰ء
۲۱۸ ساتھی کرا چی ضمیر احمد اگست ۱۹۵۲ء
۲۱۹ ساتھی حیدر آباد سمیع چمن اکبر آبادی جون ۱۹۸۴ء
۲۲۰ ساتھی کراچی آفتاب الدین، عبدالرحمن مومن مئی۱۹۷۸ء
۲۲۱ سم سم کراچی گلزار احمد مئی ۲۰۰۴ء
۲۲۲ سیارہ کراچی بسم اللہ نیاز احمد جنوری ۱۹۵۹ء
۲۲۳ ستارہ کراچی عبدالو احد سندھی جولائی ۱۹۶۷ء
۲۲۴ ستارہ کراچی مسعود اخترجامعی جنوری ۱۹۵۴ء
۲۲۵ ستارہ لاہور صادق قریشی فروری ۱۹۵۰ء
۲۲۶ سہیلی میگزین فیصل آباد راشد سہیل ستمبر ۱۹۹۶ء
۲۲۷ سکول میگزین اسلام آباد اسحاق الدین مارچ ۱۹۹۴ء
۲۲۸ سکول ٹائمز لاہور رانا نوید احمد اگست ۱۹۸۹ء
۲۲۹ سکول دوست اسلام آباد عارف حسین اپریل ۲۰۰۰ء
۲۳۰ سکول لائف لاہور مبارک علی دسمبر ۱۹۹۶ء
۲۳۱ سکول میگزین کراچی فر خندہ ہاشمی جون ۱۹۸۶ء
۲۳۲ سکول میگزین کراچی ڈاکٹر مبین اختر جنوری ۱۹۷۸ء
۲۳۳ سکول لائف کراچی فضیلہ قاضی فروری ۱۹۹۹ٍء
۲۳۴ سکول ٹائمز کراچی اختر شیخ ۱۹۹۰ء
۲۳۵ سکول ٹائمز حیدر آباد شبنم سعید دسمبر ۱۹۹۹ء
۲۳۶ سکول ڈائجسٹ کراچی مجیب الرحمن صدیقی جنوری ۱۹۹۰ء
۲۳۷ سکول ستارہ گوجر انوالہ فروری ۱۹۹۶ء
۲۳۸ سٹوڈنٹ کلب گجرات ارشد محمود رضا ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۳۹ سحر لاہور الطاف پرواز جون ۱۹۵۲ء
۲۴۰ سحر نواب شاہ شاہد اقبال اپریل ۱۹۹۴ء
۲۴۱ سا ئنس بچوں کے لیے کراچی ڈاکٹر منظور احمد جنوری ۱۹۷۰ء
۲۴۲ سند باد کراچی وفا ن نمازی نومبر ۱۹۷۰ء
۲۴۳ سنترہ کراچی ریحان سعید مارچ ۲۰۰۷ء
۲۴۴ شاہین ڈائجسٹ پشاور رشید احمد جون ۱۹۹۳ء
۲۴۵ شاہین اقبال ڈائجسٹ پشاور امیر زیب شباب مارچ ۱۹۹۵ء
۲۴۶ شاہین عالم لاہور مقصود ایوب نومبر ۱۹۹۳ء
۲۴۷ شرارت لاہور صدیق جاوید جنوری ۱۹۶۴ء
۲۴۸ شاہین لاہور افضل جہانگیر جنوری ۱۹۹۶ء
۲۴۹ شاہین محراب منور حسن منور جنوری ۲۰۰۵
۲۵۰ شاہین میر پور خاص رئیس احمد شاہین فروری ۱۹۸۷ء
۲۵۱ شاہین نامہ گوجر انوالہ فاروق اگست ۱۹۹۳ء
۲۵۲ شاباش بھلوال فیض لدھیانوی فروری ۱۹۵۲ء
۲۵۳ شاباش کراچی جولائی ۲۰۰۵ء
۲۵۴ شہباز کوئٹہ جاوید اپریل ۱۹۹۶ء
۲۵۵ شہباز کوئٹہ فیض محمد بلوچ جولائی ۱۹۹۹ء
۲۵۶ شہباز کوئٹہ محمد دائود صابر اگست ۲۰۰۰ء
۲۵۷ شوق کراچی نور صدیقی جنوری ۱۹۵۵ء
۲۵۸ شاہ رخ لاہور اسد بخاری فروری ۱۹۹۶ء
۲۵۹ شگوفہ گوجر انوالہ عزیز لد ھیانوی اپریل ۱۹۵۶ء
۲۶۰ صفہ کوئٹہ غلام ربانی شاہ نومبر ۱۹۹۵ء
۲۶۱ صدائے معصوم لاہور ثاقب اکبر جون ۱۹۹۵ء
۲۶۲ طفیل کوکب ملتان کمال ایوب صدیقی اکتوبر ۱۹۹۶ء
۲۶۳ عزیز گورگھپور بدیع الزماں جنوری ۱۹۳۰ء
۲۶۴ عظیم پاکستان ملتان مر تضیٰ اشعر جون ۱۹۹۳ء
۲۶۵ علم و ادب سیالکوٹ اسلم ملک اپریل ۱۹۵۰ء
۲۶۶ علمی روشنی کراچی ابرار حسین جنوری ۱۹۹۸ء
۲۶۷ علم دوست کراچی شکیل احمد رضا جنوری ۱۹۹۶ء
۲۶۸ عروج بھاگ پیرل ہا نبھی اپریل ۲۰۰۰ء
۲۶۹ علمی آبشار گوجر انوالہ محمد یوسف الزمان مئی ۲۰۰۰ء
۲۷۰ غنچے اور کلیاں لاہور جی ۔ایم گلشن مارچ ۱۹۹۰ء
۲۷۱ غنچہ کراچی رشید طرازی مارچ ۱۹۰۶ء
۲۷۲ غنچہ بجنور محمد وارث کامل ۱۹۲۲ء
۲۷۳ فنکار کراچی نومبر ۱۹۵۲ء
۲۷۴ فاختہ اسلام آباد اظہر نیاز مارچ ۱۹۹۰ء
۲۷۵ فانوس اطفال لاہور حامد علی نقوی اکتوبر ۲۰۰۰ء
۲۷۶ فکشن میگزین کراچی آصف حسن ستمبر ۲۰۰۲ء
۲۷۷ فرینڈز میگزین لاہور نعیم بلوچ اگست ۲۰۰۵ء
۲۷۸ قومی بچے خانیوال محمد طارق سمرا جنوری ۱۹۹۸ء
۲۷۹ کردار لاہور سہیل احمد مئی ۱۹۸۹ء
۲۸۰ کونپل
۲۸۱ کلیاں اِنک اویس یوسفزئی اگست ۱۹۹۶ء
۲۸۲ کلیاں کراچی عائشہ اسرار جنوری ۱۹۴۹ء
۲۸۳ کلیاں کراچی صفیہ ملک اگست ۱۹۹۵ء
۲۸۴ کلیاں لکھنو نسیم انہو نوی نومبر ۱۹۵۴ء
۲۸۵ کوثر لاہور ڈاکٹر نسیم خواجہ مارچ ۱۹۸۴ء
۲۸۶ کھلتی کلیاں کراچی فوزیہ خلیل ۲۰۱۵ء
۲۸۷ کھیل کھیل میں کراچی محمد اکرام صدیقی ستمبر ۱۹۹۷ء
۲۸۸ کلیم کراچی امتیاز دہلوی جولائی ۱۹۵۲ء
۲۸۹ کہانی خیر پور میرس یکتا امر و ہوی مارچ ۱۹۵۱ء
۲۹۰ کارٹون کراچی محمد اکرام صدیقی جنوری ۱۹۵۲ء
۲۹۱ کارٹون بمبئی کرم ادیب فروری ۱۹۵۴ء
۲۹۲ کھلونا لاہور جاویدقریشی جنوری ۱۹۵۲ء
۲۹۳ کھلونا کراچی شان امر و ہوی اکتوبر ۱۹۵۲ء
۲۹۴ کھلونا کراچی تنویر خضر جنوری ۱۹۶۶ء
۲۹۵ کھلونا دہلی یونس دہلوی اپریل ۹۴۸ ۱ء
۲۹۶ کہانی نگر حافظ آباد غضنفر علی ناز اکتوبر ۱۹۹۶ء
۲۹۷ کہانی نگر ڈائجسٹ حافظ آباد رائے محمد کمال مئی ۱۹۹۸ء
۲۹۸ کہانی نگر جھنگ محمد عرفان رامے مارچ ۲۰۰۲ء
۲۹۹ کزی میگزین کزی سندھ گلزار عثمانی اگست ۱۹۹۷ء
۳۰۰ کایا پلٹ حیدر آباد خلیل جبار جون ۱۹۸۵ء
۳۰۱ کرن کرن روشنی ملتان علی عمران ممتاز اکتوبر ۲۰۰۵ء
۳۰۲ کہکشاں کراچی فرحت حسین
۳۰۳ کہکشاں کوئٹہ سہیل فاروق ۱۹۹۱ء
۳۰۴ کہکشاں منڈی بہاء الدین محمدادریس قریشی جون۱۹۹۰ء
۳۰۵ کھلاڑی کراچی حامد کانپوری نومبر۱۹۶۲ء
۳۰۶ کرنیں ناگپور شفیقہ فرحت جولائی ۱۹۵۴ء
۳۰۷ گل لاہور مریم جمیلہ جنوری۲۰۰۷ء
۳۰۸ گل افشاں لیہ محمد ندیم اختر دسمبر۱۹۹۸ء
۳۰۹ گلد ستہ لاہور لالہ رگھوناتو سہائے اپریل۱۹۲۳ء
۳۱۰ گلدستہ کراچی زین العابدین جنوری۱۹۵۱ء
۳۱۱ گلدستہ اوکا ڑہ بشیر جنجوعہ مارچ۱۹۷۷ء
۳۱۲ گلدستہ دیپا لپور منیر جنجوعہ اگست۱۹۸۹ء
۳۱۴ گلدستہ دینہ تبسم رسول قریشی مارچ۱۹۹۶ء
۳۱۵ گلستان کراچی انجم اکتوبر۱۹۵۰ء
۳۱۶ گہوارہ لاہور ماسٹرکنہیا لال جون۱۹۳۷ء
۳۱۷ گلنار کراچی اختر جمال مارچ۱۹۵۱ء
۳۱۸ گلدستہ اطفال لاہور نوح ناروی اگست۱۹۲۲ء
۳۱۹ گلستان لاہور ایم۔جاوید جولائی۱۹۷۶ء
۳۲۰ لوٹ پوٹ کراچی جاویدالرحمن خاں جنوری۱۹۹۰ء
۳۲۱ مجاہد پشاور فضل واحد جنوری۱۹۸۹ء
۳۲۲ مجاہد مظفرآباد سید ابرارگر دیزی ستمبر ۱۹۹۲ء
۳۲۳ مستقبل لاہور ثمینہ راجہ اپریل۱۹۹۱ء
۳۲۴ معمار جعفر آباد محمد دائود صابر مئی ۲۰۰۵ء
۳۲۵ معمار کرا چی صدیق حبیب نومبر ۱۹۹۴ء
۳۲۶ معمارِ جہاں کرا چی جدون ادیب جنوری۱۹۹۷ء
۳۲۷ میرا رسالہ کراچی شمس زبیری دسمبر۱۹۵۸ء
۳۲۸ معصوم ا سلام آباد سیدغلام حسن نقوی جون ۱۹۹۴ء
۳۲۹ محبوب کراچی ممتاز طلعت جون۱۹۵۶ء
۳۳۰ ممی ڈیڈی لاہور ایم عزیز خاں جون۱۹۹۵ء
۳۳۱ معصوم لائل پور شریف انور اکتوبر۱۹۵۲ء
۳۳۲ ماموں کمانڈو محمود خاور
۳۳۳ منزل کراچی تاج عالم جنوری۱۹۸۹ء
۳۳۴ ننھے شاہین لاہور محمد اعوان جون۱۹۸۶ء
۳۳۵ ننھی دنیا سا ہیوال رضا مارچ۱۹۸۷ء
۳۳۶ ننھا مسافر لاہور امتیاز علی نومبر۱۹۷۸ء
۳۳۷ ننھے ادیب کزی عظیم عادل جون۱۹۸۶ء
۳۳۸ ننھے مجا ہد لاہور عبدالوارث ساجد اکتوبر۲۰۰۴ء
۳۳۹ ننھے تارے گوجرا نوالہ محمد ابراہیم مئی۱۹۸۸ء
۳۴۰ ننھا اخبار دیر میر متاع الدین فروری۲۰۰۴ء
۳۴۱ ننھے منوں کی دنیا لاہور صوفی عبدالعزیز فروری۱۹۶۰ء
۳۴۲ ننھا منا لاہور ایم۔عنایت نومبر۱۹۵۰ء
۳۴۳ ننھا مناڈائجسٹ لاہور ایس ایم پاشا مئی۱۹۸۲ء
۳۴۴ نوائے اطفال راولپنڈی ایس اے حمید اکتوبر۱۹۷۹ء
۳۴۵ نو عمر کراچی کاوش صدیقی جولائی۱۹۹۰ء
۳۴۶ نو عمر کراچی کاوش صدیقی ستمبر۲۰۰۰ء
۳۴۷ نو عمر لاہور کاوش صدیقی جنوری ۲۰۲۱ء
۳۴۸ نونہال لاہور حکیم احمد شجاع جولائی۱۹۲۲ء
 ۳۴۹ نونہال پاکستان کراچی واحد کانپوری فروری۱۹۴۹ء
۳۵۰ نونہال اخبار کراچی حکیم محمد سعید جنوری۱۹۹۱ء
۳۵۱ نونہال دنیا کراچی رقیہ بٹ۔ایم خالد مارچ۱۹۴۸ء
۳۵۲ نٹ کھٹ حیدرآباد محمدوسیم خاں ستمبر۱۹۹۰ء
۳۵۳ نو نو کراچی دائود احمد مئی۲۰۰۴ء
۳۵۴ نئے چراغ ا سلام آباد الطاف پرواز ستمبر۱۹۸۹ء
۳۵۵ نشان منزل کراچی ساجدکاظمی فروری۱۹۹۳ء
۳۵۶ نور رام پور ابو سلیم محمد عبدالحئی جنوری ۱۹۵۲ء
۳۵۷ نور حیدرآباد شیخ محمد مبین اگست ۱۹۵۳ء
۳۵۸ نور لاہور بنت مجتبیٰ مینا جنوری ۱۹۶۳ء
۳۵۹ نکھار گوجرانوالہ محمد ابراہیم تبسم اپریل ۱۹۸۹ء
۳۶۰ نین تارا لاہور عبیداللہ ڈار نومبر ۲۰۰۰ء
۳۶۱ نوائے سحر ملتان محمد عزیز سلیم جولائی ۲۰۰۶ء
۳۶۲ نوبہار لاہور سکندر اقبال اگست ۱۹۷۹ء
۳۶۳ نوبہار لاہور ندیم صہبائی فروری ۱۹۷۱ء
۳۶۴ نقاب پوش کراچی مئی ۱۹۵۳ء
۳۶۵ ون۔ ٹو حیدرآباد ر۔م رازی جولائی ۱۹۹۶ء
۳۶۶ ہمدرد نونہال کراچی مسعود احمد برکاتی، اسلم فرخی جنوری ۱۹۵۳ء
۳۶۷ ہونہار دہلی ظفر ادیب اگست ۱۹۵۲ء
۳۶۸ ہونہار لاہور میاں عبدالمجید بھٹی جنوری ۱۹۳۶ء
۳۶۹ ہونہار لاہور ابوالحسن نغمی مئی ۱۹۶۵ء
۳۷۰ ہونہار پاکستان کراچی انیس الرحمن جنوری ۱۹۷۰ء
۳۷۱ ہونہار ڈائجسٹ لیہ محمد ندیم اختر فروری ۲۰۰۰ء
۳۷۲ ہدایت کراچی ارشد صابری نومبر ۱۹۵۸ء
۳۷۳ ہدایت لاہور ناجو۔ نظر زیدی جنوری ۱۹۳۸ء
۳۷۴ ہماری دنیا لاہور طاہر رسول جنوری ۱۹۵۵ء
۳۷۵ ہماری دنیا کراچی مصطفی ہاشمی اکتوبر ۲۰۰۲ء
۳۷۶ ہمجولی کراچی خالد رشید مئی ۱۹۵۶ء
۳۷۷ ہمجولی لاہور یعقوب داس جنوری ۱۹۹۱ء
۳۷۸ ہمجولی شیخوپورہ فیصل شہزاد ستمبر ۲۰۰۰ء
۳۷۹ ہمدم کراچی سفیر احمد ہلال نومبر ۱۹۵۶ء
۳۸۰ ہیرا کراچی ضیاء الحسن ضیا
۳۸۱ ہلال کراچی محمد ہلال امین جنوری ۱۹۹۸ء
۳۸۲ ہلال رام پور عبدالمالک سلیم جنوری ۱۹۷۳ء
۳۸۳ ہیلو چلڈرن لاہور محمد غیاث بلبن مارچ ۱۹۹۷ء

حوالہ وحواشی:

۱۔ بی بی سی اُردو، لوری کی آفاقی زبان
(https://www.bbc.com/urdu/science/2013/01/130123_lullabies_history_zs)
۲۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص ۱۰۹
۳۔ ایضاً، ص ۱۰۸
۴۔ اریب، اسد، ڈاکٹر، ۱۹۸۲ئ، بچوں کا ادب، کاروانِ ادب ملتان، لاہور،ص۸۔ڈاکٹر محمود الرحمن نے اپنی کتاب’بچوں ادب‘ میں نویں ہجری
سے بچوں کے ادب کی ابتدا کا ذکر کیا ہے۔ دیکھیے: محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص ۱۰۴
۵۔ شیرانی، محمود، ۱۹۶۰ئ، پنجاب میں اُردو، مکتبہ کلیاں، لکھنو، ص ۲۵
۶۔ محمود الرحمن، ص ۱۲۰
۷۔ خسرو، امیر، ۱۹۵۲ئ، خالق باری، راجہ رام کمار نول کشور پریس، لکھنو، ص۰۲
۸۔ ایضاً، ص ۱۶
۹۔ زور، قادری، محی الدین، ڈاکٹر،دسمبر ۱۹۵۸ئ، دکنی ادب کی تاریخ، بک امپوریم اردو بازار،دہلی، ص ۱۱
۱۰۔ محمود الرحمن، ص ۱۱۳
۱۱۔ جین،گیان چند،۲۰۱۴ئ، اُردو کی نثری داستانیں، انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی، ص۲۴۵
۱۲۔ ایک طویل عرصے تک خالق باری کو امیر خسرو کی تصنیف سمجھا جاتا رہا لیکن محمود شیرانی نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا کہ یہ کتاب امیر خسرو کی تصنیف
نہیں ہوسکتی۔اس کتاب میں اُنھوں نے بے شمار فنی اور علمی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے، تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے :شیرانی، محمود، حافظ،دسمبر،
۱۹۶۰ئ، پنجاب میں اُردو، مکتبہ کلیاں، لکھنو،ص۱۵۷
۱۳۔ اریب، اسد، ص ۸،۹،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵
۱۴۔ جامعی، اجمل، سید محمد، ۱۹۹۳ئ، بچوں کے شاعر، گڈول پبلی کیشن، پٹنہ، ص ۴
۱۵۔ نظیر اکبر آبادی ۱۷۳۵ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے بعض روایات کے مطابق ان کا دہلی میں جنم ہوا۔ ان کا اصل نام ولی محمد تھا ۔
دیکھیے: نظیر اکبر آبادی، جون ۱۹۵۱ئ، کلیات نظیر، مرتب: مولاناعبدالباری صاحب، آسی مطبع پنج کماروارث نول کشور پریس، لکھنو، ص۳۳
۱۶۔ حسن خان، رشید، اگست۱۹۹۲ئ، انتخاب نظیر اکبر آبادی، مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ، نئی دہلی،ص۹، ۰۱، ۱۱، ۲۱
۱۷۔ ایضاً ، ص۴۷۵
۱۸۔ عتیق اللہ، ۲۰۰۸ئ، محمد حسین آزاد، اُردو اکادمی، دہلی، ص ۱۳
۱۹۔ حسین آزاد، محمد، جون ۱۹۶۳ئ، اُردو کی پہلی کتاب ، مرتب: اسلم فرخی، ترقی اُردو بورڈ، کراچی، ص۴،۳
۲۰۔ عتیق اللہ، ص ۱۱۲
۲۱۔ حسین آزاد، محمد، ص۲۳
۲۲۔ ایضاً، ص۴
۲۳۔ جامعی، اجمل، سید محمد، ص۲۶
۲۴۔ حسین آزاد، ، ص۸۰
۲۵۔ پریمی، سیفی، ۱۹۷۶ئ، اسماعیل میرٹھی حیات اورخدمات، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی،ص ۱۵
۲۶۔ ایضاً، ص ۲۰۹
۲۷۔ زبیری، نعیم الدین، ۲۰۱۳ئ، بچوں کے اسماعیل میرٹھی، مکتبہ جامعہ ملیہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ص ۸؛ جہاں سنگ میل پبلی کیشنز نے مولوی
اسماعیل میرٹھی کی نظموں کو باتصویر بڑے اہتمام سے شائع کیا اور ان نظموں کے ایڈیشن پر ایڈیشن شائع ہوتے رہے۔
۲۸۔ اسر، عادل دہلوی،۲۰۰۸ئ، ہندوستانی ادب کے معمار اسماعیل میرٹھی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، ص ۸۱
۲۹۔ امن،میر، ۱۸۰۴ء ، باغ وبہار، ہندوستانی پریس، کلکتہ،ص ۳
۳۰۔ سرور، رجب علی، بیگ،۱۹۴۰ئ، فسانۂ عجائب ، جید برفی پریس، دہلی ص۳
۳۱۔ زیدی، خوشحال خان،دسمبر ۲۰۰۳ئ،اردو ادبِ اطفال میں خواتین کا حصہ،ادارہ خضرِ راہ،نئی دہلی،ص۱۲ تا ۲۰
۳۲۔ کھوکھر، افتخار،محمد، ڈاکٹر،۱۹۹۷ئ، بچوں کے رسائل کا تجزیاتی مطالعہ، مشمولہ: ’پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس
سال‘،شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۳
۳۳۔ فوق، محمد الدین،۲۰۱۸ئ، اخبار نویسوں کے حالات، مرتب: ڈاکٹر طاہر مسعود،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی، ص ۵۸
۳۴۔ عالم،منشی محبوب، جون تا دسمبر ۱۹۰۲ئ، بچوں کا اخبار، خادم التعلیم پنجاب، لاہور، ص ۳،۴
۳۵۔ فوق، محمد الدین، ص۵۹
۳۶۔ کھوکھر،محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال،ص۱۳
۳۷۔ اریب، اسد، ص:۱۰۴
۳۸۔ فوق، محمد الدین، ص ۵۸
۳۹۔ ایضاً، ص۶۶
۴۰۔ تہذیب نسواں،جنوری ۱۹۴۳ئ،جلد ۴۶،دفتر پھول، ریلوے روڈ لاہور، ص ۱
۴۱۔ کھوکھر،محمد افتخار، ص ۱۳
۴۲۔ عباس، غلام،اگست ۲۰۱۸ئ، پھول، فضلی سنز، کراچی، ص۱۲
۴۳۔ محمود الرحمن، ص ۴۵۷
۴۴۔ کھوکھر،محمد افتخار، ص ۱۳،۱۴
۴۵۔ عباس، غلام،اگست ۲۰۱۸ئ، پھول، فضلی سنز،کراچی۔ ص:۱۳۔
۴۶۔ کھوکھر،محمد افتخار، ص ۳۲
۴۷۔ پھول، جولائی ۲۰۱۹ئ، ادارہ نوائے وقت، لاہور
۴۸۔ محمود الرحمن، ص ۴۵۹
۴۹۔ http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/professor-hamid-hasan-qadri
۵۰۔ کھوکھر،محمد افتخار، ص۱۴
۵۱۔ محمود الرحمن ، ص ۴۶۰
۵۲۔ کھوکھر، محمد افتخار، ص۱۴
۵۳۔ ماہنامہغنچہ، دسمبر ۱۹۴۲ئ، محمد مجید حسن،انڈیا،بجنور، یوپی، ص ۱
۵۴۔ محمود الرحمن، ص ۴۶۰
۵۵۔ ایضاً، ص: ۴۶۰۔
۵۶۔ حسان، محمد حسین ، نومبرو دسمبر ۱۹۴۶ئ، جوبلی نمبر، مشمولہ: پیامِ تعلیم،’پیامِ تعلیم کی کہانی‘، ادارہ ادبیات اُردو، حیدرآباد، ص ۱۹۵
۵۷۔ محمود الرحمن، ص ۴۶۱
۵۸۔ پیام تعلیم، ص ۱۹۵
۵۹۔ مس فلپس لورن، آیا جان کے نام سے مشہور تھیں، اُنھوں نے پیام تعلیم کے لیے نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ کام کیا۔ ایک انجمن قائم کی۔ یہ انجمن
لڑکوں اور لڑکیوں کی الگ الگ ہندوستان کے کئی شہروں میں قائم ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی سے تعلق ہونے کی وجہ سے اُنھیں نظر
بند کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ عرصے بعد نگرانی کی قید سے آزاد کر دیا لیکن ان کی صحت گرتی رہی آخری وقت میں اُنھوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: حسان، محمد حسین ، نومبرو دسمبر ۱۹۴۶ئ، جوبلی نمبر، مشمولہ: پیامِ تعلیم،’پیامِ تعلیم کی کہانی‘، ادارہ ادبیات اُردو،
حیدرآباد، ص ۲۰۰
۶۰۔ پیام تعلیم، ص: ۱۹۴ تا ۲۰۳
۶۱۔ پیام تعلیم، دسمبر ۲۰۱۴ئ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی،ص ۱
۶۲۔ ساتھی، نومبر ۲۰۱۲ئ، سالنامہ، مشمولہ:ایک ملاقات ان کے ساتھ، ادارہ ساتھی، کراچی، ص ۵۳، ۵۴
۶۳۔ کھوکھر، محمدافتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص:۱۷
۶۴۔ ایضاً، ص ۱۸،۱۹
۶۵۔ محمود الرحمن، ص ۴۶۹
۶۶۔ انور شعور اس وقت انور افسری کے نام سے لکھتے تھے، دیکھیے:کھوکھر، محمدافتخار،۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، ص۱۷
۶۷۔ قمر علی عباسی بھی اس وقت قمر امروہوی کے قلمی نام سے لکھتے تھے،دیکھیے:کھوکھر، محمد افتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر،ص۱۷
۶۸۔ کھوکھر، محمدافتخار، روشنی کا سفر، ص ۱۹
۶۹۔ ساتھی، نومبر۲۰۱۳ئ، پینتیس سالہ نمبر، مشمولہ: ساتھی کی آپ بیتی، ادارہ ساتھی، کراچی، ص ۱۱۹
۷۰۔ کھوکھر،محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، ص ۲۶
۷۱۔ ڈاکٹر محمود الرحمن نے اپنی کتاب بچوں کا ادب میں ماہنامہ ساتھی نام کے ایک رسالے کا تذکرہ کیا ہے جو ۱۹۵۶ء میں کراچی سے شائع ہوتا
تھا۔اس میں لکھنے والے اسکول اور کالج کے طلبہ ہوا کرتے تھے، اور انعامات کے سلسلے بھی شامل تھے۔ دیکھیے:محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا
ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص: ۴۷۱۔ اس بات کی تائید اپنے ایک مضمون سنہ ۵۰ء کی دہائی میں بچوں کا ادب
میں ڈاکٹر رفیع مصطفی بھی کررہے ہیں، رفیع مصطفی سنہ ۵۰ء کے اوائل میں ساتھی کاتذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساتھی کے انعامی
معمے میں وہ لازمی شرکت کیا کرتے تھے اور اس وقت چار آنے ڈاک خرچ کے ساتھ معما بھیجا جاتا تھا،
دیکھیے: https://www.humsub.com.pk/238110/dr-rafi-mustafa-5
۷۲۔ قریشی، سلیم الدین، ۲۰۰۹ئ، دہلی کے اخبارات ورسائل، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ص۱۱۱
۷۳۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: ماہنامہ_ساتھیhttps://ur.wikipedia.org/wiki/
۷۴۔ جعفری، عقیل عباس، اپریل، ۲۰۱۰ئ، پاکستان کرونیکل، فضلی سنز، کراچی،ص ۸۲
۷۵۔ نگہت، یٰسین، ۱۹۹۸ء ،بچوں کے ادب کی ترقی وترویج میں ہمدرد نونہال کا کردار،شعبہ اردو ،
جامعہ کراچی، کراچی، ص۱۳۹
۷۶۔ نونہال،اپریل ۱۹۵۶ئ، ادارہ مطبوعات ہمدرد، کراچی،ص ۳
۷۷۔ نگہت، یٰسین،ص۱۳۵
۷۸۔ کھوکھر،محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، ص ۱۵
۷۹۔ محمود الرحمن، ۱۹۷۰ئ، بچوں کا ادب، نیشنل پبلشنگ ہائوس لمیٹڈ، کراچی، ص ۴۶۴
۸۰۔ صدیقی، ماجد حسین، ۲۰۰۸ئ، بچوں کا صحافتی ادب، شعبہ اُردو جامعہ کراچی، کراچی،ص،۵
۸۱۔ تعلیم وتربیت، جون ۲۰۰۹ئ، فیروز سنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور،ص ۳
۸۲۔ کھوکھر،محمد افتخار، ص۱۵
۸۳۔ جعفری، عقیل عباس، ص ۵۹۹
۸۴۔ آنکھ مچولی، ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۶ئ، احمد فوڈز، کراچی
۸۵۔ کھوکھر،محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، ص ۱۵
۸۶۔ شنید ہے، اس حوالے سے تفصیلات کسی رسالے یا اخبار میں نہیں ملی۔ مدیران نعیم احمد بلوچ اور رضوان ثاقب کی زبانی معلوم ہوا ہے
۸۷۔ کھوکھر،محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، ص ۲۰
۸۸۔ پیغام، ماہنامہ، جون، ۲۰۱۵ئ، بزم پیغام، لاہور،ص۳
۸۹۔ کھوکھر،محمد افتخار، جون، ۲۰۱۵ئ، مشمولہ: پیغام ڈائجسٹ، ’میری زندگی کا مقصد‘،لاہور،ص ۷۔۱۳
۹۰۔ ،پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، ص ۱۵
۹۱۔ ایضاً، ص۱۳
۹۲۔ کھوکھر، محمدافتخار، ۲۰۱۳ئ، روشنی کا سفر، شعبہ بچوں کا ادب، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص:۲۰

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top