بچوں سے پیار کرنے والے رسولﷺ
چودھری عبد الغفور
۔۔۔۔۔۔۔
پہلے اسے پڑھیے!
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ مکہ معظمہ وہ متبرک شہر ہے جہاں بیت اللہ یعنی حرم شریف میں اللہ کا گھر ہے۔مکہ میں ہر سال مسلمان حج کرنے کے لیے جاتے ہیں۔حاجی خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔خانہ کعبہ مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ پاک مقام ہے۔عرب کے لوگ اسلام سے پہلے بھی خانہ کعبہ کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ہمارے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نام قریش تھا۔خاندان قریش کو کعبہ کی خدمت کا کام سپرد تھا۔اس لیے ان کو سارے عرب میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ان کے پیدا ہونے سے پہلے وفات پا گئے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب آپ کی کفالت کرتے رہے۔حضرت ابوطالب حضرت علی کے والد تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب خوبیاں عطا کی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول بننے سے پہلے بھی لوگوں میں صادق اور امین کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں رحمت اللعالمین کے نام سے یاد کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے۔رسول بننے سے پہلے بھی آپﷺ لوگوں کو امن اور محبت کا پیغام دیتے تھے۔ایک بار خانہ کعبہ کی دیواروں کو نئے سرے سے بنایا گیا۔اس کام میں عرب کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے مل جل کر حصہ لیا۔خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں حجراسود نام کا ایک پتھر لگا ہوا ہے۔یہ پتھر بہت مبارک ہے۔ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ ان کا سردار ہی رکھے۔اس بات پر کہ کونسا قبیلہ یہ کام سرانجام دے،آپس میں جھگڑا بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ تلواریں نکل آئیں۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سرداروں نے منتخب کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت اللعالمین کا کام کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک چادر زمین پر بچھا کر حجر اسود کو اس کے درمیان میں رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر تمام سرداروں نے چادر کو کناروں سے پکڑ کر اٹھا کر اس جگہ کے قریب کردیا جہاں حجراسود کو لگانا تھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح سب مطمئن ہوگئے۔
جب آپ ﷺچالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو پیغمبری عطا کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اسلام کا پیغام پھیلانا شروع کیا۔آپ تیرہ سال تک مکہ میں تبلیغ کا کام کرتے رہے، لیکن مکہ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت مخالفت کی،آخرکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرگئے۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک دس سال قیام فرمایا۔اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر عرب کے تمام لوگ اسلام لے آئے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بلا لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں ماں باپ کی محبت نہ مل سکی تھی،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور یتیموں پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر مہربانی فرماتے تھے۔اس کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے کیسی اچھی محبت کرتے تھے اور ہر بات میں ان کا خیال رکھتے تھے۔
1۔بچوں کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے۔وہ بڑوں کے لیے بھی رحمت تھے اور بچوں کے لئے بھی۔وہ جس طرح بڑوں پر شفقت کرتے تھے اسی طرح چھوٹوں پر بھی مہربان تھے۔تم نے بڑوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی کہانیاں تو بہت سنی ہوں گی۔آج ہم تمہیں یہ بتائیں گے کہ وہ بچوں پر بڑوں سے بھی زیادہ مہربان تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے ایسا پیار کرتے تھے کہ شاید ہی کسی نے کیا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو گود میں لیتے اور انہیں خوب پیار کرتے۔کبھی سینے پر لٹاتے کبھی کاندھے پر بٹھاتے۔کبھی زبان مبارک نکال کر بچے کو دکھاتے۔بچے خوشی سے کلکاریاں مارتے تھے۔ کبھی بچوں کو زانو پر بٹھا کر کھلاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کو ایک ران پر اور اپنے غلام کے بیٹے حضرت اسامہ کو دوسری ران پر بٹھا کر دونوں کو گداتے۔کبھی بچے کو اوپر اچھالتے اور ساتھ ساتھ یہ الفاظ ادا کرتے جاتے:
خرقہ خرقہ خرقہ فی عین کل بقہ
بچے جب لوری کے ان الفاظ کو سنتے تو مارے خوشی کے کلکاریاں مارنے لگتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت ابی سلمہ کو کھلاتے تو کھیل کھیل میں کہتے”یا زونیب یا زونیب“اگر لیٹے ہوتے تو بچے کو اپنے پاؤں کے تلوؤں میں بٹھا لیتے۔کبھی اپنے مبارک سینے پر لٹا لیتے۔بچے آپﷺ کی پشت مبارک پر چڑھ جاتے اور خاتم نبوت سے کھیلنے لگتے۔ آپﷺ کی پشت پریہ ایک نشان تھا۔کبھی کبھی بچے کو اٹھا کر اپنے روئے مبارک کے پاس لاتے،اسے بوسہ دیتے،اسے ایسے سونگھنے جیسے وہ کوئی پھول ہو اور کہتے تم تو اللہ کے باغوں کے بہت پیارے پھول ہو۔
تم جانتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت کا کتنا شوق و ذوق تھا۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺساری ساری رات اللہ کی یاد میں گزار دیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا تھا تو آپﷺ کا عجیب حال ہوجاتا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپﷺ کسی کو جانتے ہی نہیں۔اس وقت آپﷺ اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو بھول جاتے تھے۔مگر اس حالت میں بھی آپﷺ بچوں کو نہیں بھولتے تھے۔آپ ﷺکو اپنی نواسی امامہ سے بہت محبت تھی۔نماز کا وقت آجاتا اور امامہ گود میں ہوتی تو اس کو کندھے پر بٹھا لیتے۔ جب رکوع کرنے لگتے تو اتار کر زمین پر بٹھا دیتے اور سجدے سے سر اٹھاتے تو دوبارہ کندھے پر سوار کر لیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد نبوی میں جماعت کراتے تو اس میں عورتیں بھی ہوتی تھیں۔وہ آخری صفوں میں کھڑی ہوتی تھیں۔ بعض عورتیں اپنے بچے بھی ساتھ لے آتی تھیں۔بچے کبھی کبھی رونے لگ جاتے۔ایک دفعہ آپﷺ نے اپنے خادم حضرت انس سے فرمایا، جب میں نماز شروع کرتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ اس نماز میں کافی وقت لگاؤں گا، لیکن جب کسی صف میں سے بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہوگی۔
2۔بچوں کے ساتھ کھیل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی لگ جاتے تھے۔کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قطار میں کھڑا کر دیتے تھے اور خود ان سے کچھ دور دونوں ہاتھ پھیلا کر بیٹھ جاتے اور انہیں کہتے، تم سب دوڑ کر ہمارے پاس آؤ۔جو بچہ ہمیں سب سے پہلے چھوئے گا ،ہم اسے انعام دیں گے۔بچے پورے زور سے دوڑ کر آتے تورک نہ سکتے، کوئی آپ ﷺکے سینہ مبارک پر گرتا تو کوئی آپ ﷺکے پیٹ پر۔ آپﷺ ان کو سینے سے لگا لیتے اور خوب پیار کرتے۔
ایک دن حضرت جابر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آئے تو دیکھا کہ آپﷺ زمین پر ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں اور آپﷺ کی پیٹھ پر آپﷺ کے دونوں نواسے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سوار ہیں۔اس وقت آپﷺ فرما رہے تھے۔ تم دونوں کا اونٹ بہت اچھا ہے اور تم دونوں بہت اچھے سوار ہو۔اس طرح دونوں بہت خوش ہوتے۔
عمیر ؓحضرت انسؓ کے سوتیلے بھائی تھے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر انس کے گھر جاتے تھے اور کھیل سے عمیر کا دل بہلاتے تھے۔عمیر نے ایک بلبل پال رکھی تھی۔اتفاق سے وہ مر گئی۔عمیر کو اس کا بہت رنج ہوا۔عمیرجب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا، آپ اس سے بہت پیار سے فرماتے تھے، یا عمیر کیا ہوا تمہارا نفیر،یعنی تمہارے بلبل کو کیا ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ایک ابھرا ہوا نشان تھا۔اس نشان کو خاتم نبوت کہا جاتا ہے۔چونکہ آپ ﷺ بہت حیادار تھے۔اس لیے صحابہ کو اس نشان کو دیکھنے کاکم موقع ملتا تھا۔لیکن بچے محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر چمٹ جاتے تھے اور اس نشان سے کھیلنے لگتے۔
ایک بار اُمّ خالد کے والد ان کو گود میں اٹھائے آپ ﷺکی خدمت میں لائے۔ام خالد کو آپ ﷺبہت پیار کرتے تھے۔وہ آپ ﷺ سے چمٹ گئیں۔اس پر ان کے والد نے ان کو جھڑک دیا اور آپ ﷺسے علیحدہ کرنا چاہا، لیکن آپﷺ نے ان کو روک دیا اور ام خالد نشان نبوت سے کھیلتی رہیں۔
جابر بن سمرہ بھی اس زمانے میں بچے ہی تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کے کندھوں کے درمیان اس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ چھوٹی چڑیا کے انڈے کے برابر تھا۔
بعض بچے آپﷺ کے ساتھ چھپنے چھپانے کا کھیل بھی کھیلتے تھے۔حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ تھا اور مدینے کی گلیوں میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ ایک روز آپﷺ میرے پیچھے سے آئے تو میں جلدی سے آپﷺ کے گھر کے دروازے میں چھپ گیا۔ لیکن آپﷺ نے مجھے آکر پکڑ ہی لیا۔میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، جاؤ جاؤ حضرت معاویہ کو بلا لاؤ۔
کبھی کبھی آپﷺ خطبہ دیتے تو بچے اس وقت بھی آپ ﷺکے پاس پہنچ جاتے اور آپ ﷺکے پاؤں کو چھو چھو کر شرارتیں کیا کرتے تھے۔
آپ ﷺنے آخری حج کا جو خطبہ دیا،اس میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے۔رافع بن عمرو اس زمانے میں بہت کم عمر تھے اور اپنے باپ کی انگلی تھامے ہوئے کھڑے تھے ۔وہ کہتے ہیں کہ جب سورج اونچا ہوا تو میں نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور لوگوں میں سے ہوتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں اور جوتی کے درمیان رکھ دیا۔ آپ ﷺنے مجھے دیکھ کر کہا رافع! تم ہو؟رافع کہا کرتے تھے کہ آپﷺ کے پاؤں میں ایسی خوشگوار ٹھنڈک تھی کہ مجھے اب تک اپنے ہاتھ میں آپ ﷺکے پاؤں کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی پر شہر مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو آپ ﷺکے خاندان کے علاوہ اور دوسرے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو سواری پر اپنے آگے بٹھا لیتے تھے اور کسی کو پیچھے۔اس طرح یہ بچے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر خوش خوش شہر میں داخل ہوتے تھے۔
فتح مکہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو بنی ہاشم کے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے۔آخری حج کے موقعے پر جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اونٹنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے۔ان کو آپﷺ کے ساتھ سوار ہونے کا اتنا شوق تھا کہ ان کا نام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤف یعنی”پیچھے بیٹھنے والے“ گیا تھا۔
عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مدینہ سے باہر نکل آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو آگے بٹھا لیا۔اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک بیٹے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پیچھے بٹھالیا۔ہم تینوں ایک ہی سواری پر بیٹھے ہوئے شہر میں داخل ہوئے۔
3۔حضرت امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں سے بہت محبت تھی۔ان کے لیے آپ نماز کے سجدے کو لمبا کر دیتے تھے۔ایک دن حضرت امام حسین مسجد میں تھے۔نماز کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے لگے۔جب آپﷺ سجدے میں گئے تو امام حسین آپ ﷺکی گردن پر چڑھ گئے۔آپﷺ نے سجدے میں بہت دیر لگائی۔یہاں تک کہ نماز پڑھنے والوں نے سمجھا کہ کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ان کا خیال تھا کہ شاید خدا کا حکم آیا ہے کہ سجدے کو لمبا کیا کرو۔جب نماز ختم ہوئی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپﷺ نے اتنا لمبا سجدہ کیوں کیا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے میرا بیٹا میری گردن پر چڑھ گیا تھا۔میرے دل نے چاہا کہ میرا بیٹا اپنی خوشی پوری کر لے۔میں نے سجدے سے سر اس وقت اٹھایا جب اس کا جی بھر گیا۔
4۔امام حسینؓ:
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کے ہاں کھانے پر جا رہے تھے کہ اتنے میں راستے میں امام حسین ملے جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیز تیز قدم اٹھا کر اپنے ساتھیوں سے آگے بڑھ گئے اور لپک کر حضرت امام حسین کو پکڑنا چاہا۔مگر امام حسین ایک چنچل بچے کی طرح کبھی ادھر نکل جاتے کبھی ادھر۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نہیں آتے تھے۔آپ ﷺبرابر ہنس رہے تھے۔یہاں تک کہ آپﷺ نے امام حسین کو پکڑ ہی لیا۔آپﷺ نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا ہاتھ سر اور کانوں کے درمیان رکھا۔اس کے بعد ان کو اپنے گلے سے لگا لیا اور ان کا بوسہ لیا۔پھر فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔جو اسے دوست رکھے گا،اللہ اسے دوست رکھے گا۔
5۔کیسی اچھی سواری۔کیسا اچھا سوار:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو کندھوں پر سوار کر لیتے تھے۔ایسے موقع پر اگر کوئی بچے سے کہتا تھا ،کیسی اچھی سواری ہے تو آپﷺ کہتے سوار کو تو دیکھو کتنا اچھا سوار ہے۔
حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپﷺ کی خادمہ حضرت ام ایمن آئیں اور کہنے لگیںیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن اور امام حسین گم ہوگئے ہیں۔حضرت سلمان کہتے ہیں کہ اس وقت سورج کافی چڑھ چکا تھا۔آپﷺ نے فرمایا چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو۔ہم میں سے ہر شخص اپنے ناک کی سیدھ پر چل دیا اور میں اس رخ پر ہولیا جس پر آپ تشریف لے جارہے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر بڑھتے چلے گئے۔یہاں تک کہ ایک پہاڑ کی چٹان پر پہنچے۔کیا دیکھتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے بیٹھے ہیں۔آپﷺ نے ان کے چہروں کو کپڑے سے صاف کیا اور کہا۔میرے ماں باپ تم دونوں پر قربان ہوں، تم دونوں اللہ کے نزدیک کتنے عزیز ہو۔پھر ان میں سے ایک کو دائیں کندھے پر بٹھایا اور دوسرے کو بائیں پر۔اس پر میں نے بچوں سے کہا،اب خوش ہو جاؤ۔تم دونوں کی سواری بہترین ہے۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔دونوں سوار بھی تو بہترین ہیں۔
ہمیں آپﷺ سے دین کا علم اس طرح پہنچا کہ آپﷺ کے صحابہ نے آپﷺ کی پیاری پیاری باتیں دوسروں کو بتائیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتائیں ۔آپ ﷺکی مبارک باتوں کو حدیث کہتے ہیں ۔آپﷺ نے اپنی مبارک زبان سے جو کہا یا جو کام کیا،آپ ﷺکے ساتھیوں نے اس کو بالکل اسی طرح دوسروں سے بیان کر دیا۔اگر یہ لوگ ایسا نہ کرتے تو دین کا علم بعد میں آنے والے لوگوں تک نہ پہنچتا۔اس لیے جن لوگوں نے آپ ﷺکی حدیثیں بیان کی ہیں۔انہوں نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔آپﷺ کی پیاری باتیں یاد رکھنے کا بچوں کو بھی اتنا ہی شوق تھا جتنا بڑوں کو۔اس لیے ہمیں آپﷺ کی بہت سی حدیثیں ایسے کم عمر لڑکوں اور بچوں سے بھی ملی ہیں جن کو آپﷺ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔
آپﷺ کی وفات کے وقت امام حسین کی عمر سات سال کی تھی اور امام حسین تو ان سے بھی ایک سال چھوٹے تھے۔ان دونوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث لوگوں تک پہنچائی ہیں۔حضرت امام حسن سے اٹھارہ احادیث نقل کی گئی ہیں اور امام حسین سے آٹھ۔
اسامہؓ آپ کے غلام زید بن حارث کے بیٹے تھے ۔ان کو بھی آپﷺ کے خاندان والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسامہؓ سے بہت محبت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو صاف ستھرا رکھنے کا کام،گھر میں کسی دوسرے پر نہیں چھوڑتے تھے۔آپ ﷺخود اسامہ کا منہ اور ناک صاف کرتے،انہیں کپڑے پہناتے،کبھی کبھی خوشی میں آکر کہتے کہ اگر اسامہ لڑکی ہوتی تو میں اسے زیوروں سے ایسا سجاتا کہ اس کی خوبصورتی کی دھوم سارے عرب میں مچ جاتی۔جب کوئی اچھا کپڑا تحفے میں آتا تو امام حسن اور حسین کے ساتھ اسامہ کو بھی پہناتے۔
6۔بچوں کے کان میں اذان:
مدینے میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاتے تھے۔آپﷺ اس کے کان میں اذان دیتے اور اس کا اچھا سا نام رکھتے تھے۔
انسؓ بن مالک آپﷺ کے گھر میں کام کرتے تھے۔ایک بار وہ آپﷺ کی خدمت میں اپنے بھائی کو لے کر آئے جو اسی دن پیدا ہوا تھا۔آپﷺ اس وقت ایک باغ میں اونٹوں کو داغ رہے تھے۔یہ اونٹ بیت المال یعنی مسلمانوں کے خزانے کے تھے۔آپﷺ مسلمانوں کے مال کی بہت حفاظت کرتے تھے۔ان کے جسم پر لوہے کو گرم کرکے خود نشان لگاتے تھے تاکہ یہ کھو نہ جائیں۔
انسؓ کہتے ہیں کہ جب میں آپﷺ کی خدمت میں آیا تو آپﷺ نے داغ لگانے والا آلہ ایک طرف رکھ دیا اور بچے کو گود میں لے لیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک کھجور منگوائی جس کا نام عجوہ تھا۔یہ کھجور آج بھی مدینہ میں بہت پیدا ہوتی ہے۔آپﷺ نے پہلے تو اس کھجور کو اپنے منہ میں چبا کر نرم کیا۔جب وہ خوب گھل گئی تو اسے بچے کے منہ میں رکھ دیا۔بچہ کھجور کو مزے مزے سے چوسنے لگا۔آپ ﷺفرمانے لگے۔دیکھو تو کس مزے سے کھا رہا ہے۔انصار خاندان کو کھجور کا بڑا چسکا ہے۔اس کے بعد آپﷺ نے بچے کے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔
آپ ﷺخود بھی بچوں کو پیار کرتے تھے اور دوسروں کو بھی پیار کرنا سکھاتے تھے۔اس زمانے میں عرب کے بدو لوگ طبیعت کے بہت سخت ہوتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ انسان جتنا سخت دل ہو گا،اتنا ہی اس کے قبیلے کے لوگ اس کی عزت کریں گے۔اس لیے وہ اپنے بچوں تک کو پیار نہیں کرتے تھے۔ان کو بچوں سے پیار کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا۔اقرع بن حابس اپنے قبیلے کے سردار تھے،ایک دن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منہ چوم رہے ہیں۔ کہنے لگے میرے تو دس لڑکے ہیں لیکن میں نے تو ان میں سے کسی کا منہ نہیں چوما۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو رحم اور شفقت نہیں کرتا،اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔ایک دن ایک بدو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کا منہ چومتے ہیں لیکن ہم تو کبھی نہیں چومتے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر اللہ تمہارے دل سے رحمت اور شفقت نکال دے تو میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔
7۔بچے بھی آپﷺ سے محبت کرتے تھے۔
جو کوئی بچوں سے محبت کرتا ہے،بچے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور وہ بچوں کو بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کرتے تھے۔جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کم عمر تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس بلایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار سے ان کے سر اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے آپ ﷺکے جسم سے خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جیسے کسی عطر بیچنے والے نے عطر کا صندوقچہ کھول دیا ہو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا۔میں نے پیچھے بیٹھے بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو ہاتھ میں لے لیا ۔اس وقت مجھے اس میں سے ایسی خوشبو آئی جیسے کستوری یا مشک نافہ ہو۔انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عطر سونگھا ہے لیکن میں نے کوئی خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے زیادہ اچھی نہیں سونگھی۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بچے کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے تھے تو اس کے بالوں میں خوشبو بس جاتی تھی اور لوگ اس خوشبو سے پہچان لیتے تھے کہ اس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا ہے۔چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بڑے خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
ایک دفعہ کسی نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح چمکتا تھا۔ کہنے لگے نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تو چاند، سورج کی طرح چمکتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ گول تھا۔
آپ ﷺجب بچوں سے باتیں کرتے تو بہت نرمی سے بات کرتے اور جب ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے تو بہت پیار اور نرمی سے ہاتھ پھیرتے۔اس لیے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بھی بہت نرم معلوم ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھے خادم انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا یعنی ہاتھ ملایا تو میں نے ریشم کے کپڑے میں بھی وہ نرمی نہیں پائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں تھی۔
8۔آپ ﷺ بچوں کو سلام کرتے تھے:
جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو سلام کہنے میں خود پہل کرتے تھے۔اس سے بچوں میں بھی پہلے سلام کرنے کی عادت پڑتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھی خادم انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا ۔راستے میں مجھے کچھ لڑکے ملے تو میں وہیں بیٹھ گیا۔اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری تلاش میں باہر نکلے تو مجھے دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھا پایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بچوں کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عادت کا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اتنا اثر ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام عمر بچوں کو سلام کہنے میں پہل کرتے رہے۔حالانکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلام کرنے کے آداب یہ ہیں۔سوار پیدل کو،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے بہتوں کو سلام کریں اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر پہلے سلام کرنے کی عادت رکھتے تھے ،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت شفقت اور رحمت اور تواضع کی وجہ تھی۔
9۔نئے پھل پر پہلا حق:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ جو نعمتیں عطا کرتا ہے۔اس پر سب سے پہلا حق بچوں کا ہے،اسی لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موسم کا نیا پھل پیش کیا جاتا تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پھل کو آنکھوں سے لگاتے اور پھر یہ دعا پڑھتے:
یا اللہ! ہمیں اس پھل کا شروع اور اس کا آخر دکھا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں جو موجود ہوتے تھے ،نیا پھل اس بچے کو پہلے دیتے جو عمر میں سب سے چھوٹا ہوتا۔
10۔بچوں کے حقوق:
تم نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اکثر بڑوں کو پہلے جگہ دی جاتی ہے اور بچوں کو بعد میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اور بڑوں سب کا خیال رکھتے اور ہر ایک کو اس کا حق دیتے تھے۔اگر کوئی بڑا یہ سمجھتا تھا کہ بڑا ہونے کی وجہ سے اس کا حق بچے سے زیادہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تحفے لاتے۔جن میں اکثر کھانے پینے کی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے تھوڑا سا لے کر باقی اس شخص کو دے دیتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دا ہنی طرف بیٹھا ہوتا۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دا ہنی طرف حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔اس زمانے میں ان کی عمر بہت کم تھی۔ بائیں جانب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بڑی عمر کی دوسرے لوگ بیٹھے تھے۔اس وقت کوئی چیز آئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس سے پوچھا اگر تم اجازت دو تو میں اس کو ان لوگوں کو پہلے دے دوں جو تم سے عمر میں بڑے ہیں۔اس پر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہرگز نہیں۔خدا کی قسم میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے کو،کسی کو بھی دینے کو تیار نہیں۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چیز انہی کو دے دی۔
11۔نوجوانوں میں اعتماد:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں پر بہت بھروسہ کرتے تھے اور اکثر انہیں بڑے بڑے کام سفر کر دیتے تھے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں میں شمار کرتے تھے۔اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام زید بن حارث کے بیٹے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ کھلاتے تھے۔آپ ﷺ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک زانو پر بٹھا لیتے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو دوسرے پر۔
جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ ﷺنے شام کی سرحد کی طرف ایک لشکر بھیجنے کا حکم دیا اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا امیر مقرر کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے اسامہ کے والد حضرت زید کو بھی ایک لشکر کا امیر مقرر کیاتھا۔اس لشکر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بڑ ے بڑے صحابی شامل تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نوعمر تھے،اس لئے بعض لوگوں نے ان کو امیر بنانے پر اعتراض کیا۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری پر اعتراض کرتے ہو۔تم نے اس کے باپ کی سرداری پر بھی اعتراض کیا۔خدا کی قسم زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرداری کا لائق تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں اور زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں سے ہے جو مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔
12۔ننھا پہرے دار:
جنگ احد کے موقع پر مکہ کے کافروں نے لڑائی کیلئے زبردست تیاری کی تھی اور ان کا لشکر مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔جس دن جنگ ہوئی،اس سے پہلی رات حملے کا بڑا خطرہ تھا۔اس رات آپ ﷺکے خیمے پر جو کم عمر لڑکا پہرا دے رہا تھا ۔اس کا نام ذکوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔
رات کا اندھیرا چھا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے پوچھا کی آج رات میرے خیمے پر کون پہرا دے گا؟تو اندھیرے میں ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پہرا دوں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ۔اچھا، تمہارا نام کیا ہے۔وہ بولا”ذکوان“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تم بیٹھ جاؤ۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آواز دی اور کہا کہ اس کام کے لیے اور کون اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔اس بار آواز آئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ چونکہ اندھیرا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تم کون ہو؟جواب ملا۔”ابو سبا۔“اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم بھی بیٹھ جاؤ۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی۔میرے خیمے پر آج تیسرا پہرادار کون ہوگا؟مجمع میں سے آواز آئی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پہرےداری کروں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔تمہارا نام کیا ہے؟اس پر آواز آئی ”ابی عبدالقیس۔“آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: اچھا تم بھی اس جگہ پر بیٹھ جاؤ۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تینوں آدمی آگے آئیں۔تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ہی مجاہد کھڑا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہارے دوسرے ساتھی کہاں ہیں؟وہ کہنے لگا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تین بار آواز دی تھی۔ہر بار میں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر’ لبیک‘ یا’ حاضر جناب‘ کہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا دی اور اس رات ذکوان کوہی پہرے دار مقرر کیا۔اس اندھیری رات میں جب دشمن کی طرف سے ہر قسم کا خطرہ تھا۔یہ نوعمر مجاہد ساری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے گرد پہرا دیتا رہا۔
13۔بے جھجک اور دلیر بچے:
بعض بچوں میں شروع سے ہی جھجک نہیں ہوتی۔وہ ہر کسی کے سامنے بے دھڑک چلے جاتے ہیں ۔بعض لوگ ایسے بچوں کو جھڑک دیتے ہیں۔ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ بعض بچوں کو یہ بات قدرت کی طرف سے ملتی ہے۔اگر انہیں بے سوچے سمجھے جھڑکا جائے تو وہ بد دل ہو جاتے ہیں۔اس لیے اگر کوئی بچہ آپ کے سامنے بغیر جھجک کے بات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں ٹوکتے تھے بلکہ اس کی دلیری کو پسند فرماتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس وقت ان کی عمر سات سال کی تھی۔ان کے ساتھ دو اور بچے بھی بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔وہ دونوں بچے آگے بڑھنے سے جھجک رہے تھے۔لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغیر کسی جھجک کے آگے بڑھ آئے۔آپ ﷺان کی اس تیزی کو دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا، آخر اپنے باپ کا ہی بیٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ جیسے ان کے باپ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دلیر تھے، ویسے ہی یہ بھی نڈر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ جرأت اور دلیری تمام عمر قائم رہی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بات کرنے سے اکثر لوگ گھبراتے تھے۔مگر ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سچی بات کہنے میں کسی سے بھی نہیں گھبراتے تھے۔ایک باروہ دوسرے بچوں کے ساتھ بازار میں کھیل رہے تھے کہ ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ہوا۔انہیں دیکھ کر بچے بھاگے اور ادھر ادھر چھپ گئے لیکن ابن زبیر رضی اللہ تعالی اپنی جگہ کھڑے رہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں بھاگے۔یہ بولے میں نے کوئی جرم تھوڑا کیا تھا کہ بھاگ جاتا اور راستہ بھی اتنا تنگ نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گزرنے کے لیے جگہ چھوڑنے کی ضرورت پڑتی۔
14۔پیار کی کمی پوری کرنا:
تم نے دیکھا ہوگا کہ کبھی کبھی ماں باپ اپنے کسی بچے کو بہت چاہتے ہیں اور دوسرے بچوں کو اتنا پیار نہیں ملتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بچوں کاجنہیں ماں باپ کا پورا پیار نہیں ملتا تھا ،بڑا خیال رکھتے تھے اور اس پیار کی کمی کو اپنی طرف سے پورا کر دیتے تھے۔
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ان کے نام عبداللہ اور قشم رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ کو قشم کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتے تھے۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جعفر کو اٹھا کر میرے پاس لاؤ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سواری پر اپنے آگے بٹھا لیا ۔اس کے بعد قشم کو آواز دی۔ان کو اپنے پیچھے بٹھالیا۔اس طرح آپ ﷺ نے قشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتا دیا کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
15۔بچوں کی تربیت:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔بچے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے۔نماز کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ حلقے میں بیٹھ جاتے تو وہاں بچے بھی موجود ہوتے تھے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے میں بھی شریک ہوتے تھے۔بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میں آتے جاتے لوگوں سے ملتے ملاتے،اٹھتے بیٹھتے،وضو کرتے،نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ دیکھ کر بہت سی باتیں سیکھ جاتے تھے۔
بعض بچے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔اگر کوئی بچہ گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نرمی سے کہتے تھے کہ تم دوبارہ گھر سے باہر جاکر اجازت لو، پھر اندر آؤ۔اگر کوئی بچہ بسم اللہ کے بغیر کھانا شروع کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور کہتے: بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو۔
16۔نماز کی تعلیم:
تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ اگر امام کے پیچھے ایک ہی آدمی نماز پڑھ رہا ہو تو وہ امام کے بالکل پیچھے کھڑا نہیں ہوتا۔بلکہ امام کے برابر دائیں طرف کھڑا ہوتا ہے۔
ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پاک بی بی کا نام حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا۔یہ حضرت عبداللہ ابن عباس کی خالہ تھیں۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر رات کو ان کے گھر پر سو جاتے تھے۔ایک روز سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ضو کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور پیچھے نماز شروع کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھتے پڑھتے ہاتھ سے پکڑ کرآگے کھینچا اور اپنے دائیں جانب برابر کھڑا کر لیا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس بات سے اتنا حیران ہوا کہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا اور مجھ سے سوال کیا”تم کھڑے کے کھڑے کیوں رہ گئے؟نماز کیوں نہیں پڑھی؟“میں نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،آپ اللہ کے رسول ہیں کیا کسی میں یہ جرأت پیدا ہوسکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھے“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دعا کی۔لیکن یہ سمجھا دیا کہ اگر امام کے ساتھ نماز پڑھنے والا ایک ہی مقتدی ہو تو اسے کہاں کھڑا ہونا چاہیے۔
اس طرح ایک رات حضرت عبداللہ ابن عباس اپنی خالہ کے ہاں سوئے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے، ابھی کچھ رات باقی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹی مشک سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز شروع کردی۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کر لیا۔اس طرح سے آپ ﷺچھوٹے بچوں کو نماز پڑھنے کے طریقے خود بتاتے تھے۔
17۔ایک چھوٹا مؤذن:
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو نماز ادا کرنا بتاتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان دینی بھی سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مخدورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ شریف کا مؤذن مقرر کیا۔ان کو اذان خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی۔
وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر گئے۔ابھی کچھ راستہ طے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان دینی شروع کی۔ابن مخدورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی بچے تھے اور ابھی نئے نئے مسلمانوں ہوئے تھے۔انہوں نے اذان پہلی مرتبہ سنی تھی۔ان کے ساتھ کچھ اور بچے بھی تھے،ان سب نے مل کر اذان کی نقل اتارنی شروع کر دی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے کسی کو ہمیں بلانے کیلئے بھیجا۔ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فر مانے لگے۔تم میں سے مؤذن کی اذان کی نقلیں کون اتار رہا تھا۔ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اور مجھے آگے کرکے خود میرے گرد گھیرا باندھ کر بیٹھ گئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب اٹھ کر اذان دو۔اس پر مجھ کو اپنی بات پر بہت ہی شرم آئی ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بہت پیار سے اذان سکھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک لفظ کہتے جاتے تھے۔میں ان الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دہراتا جاتا تھا۔پھر فرمایا کہ تم اس طرح اذان دیا کرو۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دی جو چاندی سے بھری ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے سر پر پیار دیا اور اسے میرے سینے پر ناف تک پھیرا۔چونکہ ہمارا قبیلہ ابھی نیا نیا مسلمان ہوا تھا،اس لیے اس وقت تک میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برائی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے سے میرے دل سے برائی دور ہو گئی۔
18۔سات سال کا امام:
تم نے کبھی کوئی ایسا بچہ دیکھا ہے جو سات برس کی عمر میں امام بناہو اور لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو۔حضرت عمروؓبن مسلم ایسے ہی صحابی تھے۔بات یہ تھی کہ حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گاؤں اس راستے پر تھا جو مدینہ منورہ کو جاتا تھا۔حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تھا کہ مدینہ میں اللہ کے ایسے رسول ہیں جنہیں خدا کی طرف سے وحی آتی ہے۔جب مدینہ سے آنے والے ان کے گاؤں کے پاس سے گزرتے تو عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق باتیں پوچھا کرتے تھے اور ان سے قرآن کی سورتیں سن کریاد بھی کر لیا کرتے۔ابھی تک ان کا قبیلہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔جب مکہ فتح ہوا تو ان کے قبیلے والوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے والوں کو نماز سکھائی۔عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسلم کہتے ہیں کے ان کو امام کی ضرورت ہوئی تو سارے قبیلے میں کسی اور کو قرآن کی سورتیں یاد نہ تھیں، اس پر مجھے امام بنایا گیا۔اس وقت میری عمرسات سال کی تھی۔میں لوگوں کو پانچ وقت کی نماز اور نماز جنازہ پڑھایا کرتا تھا۔
19۔بچوں کو نصیحت:
بچے اگر کوئی غلطی کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہ تو سختی سے ڈانٹتے تھے اور نہ ہی سزا دیتے تھے بلکہ پیار سے سمجھاتے تھے اور ان کے حق میں دعا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہ بچے تھے۔ ان دنوں قبیلہ انصار کے باغ میں جایا کرتے تھے اور کھجوروں کے درختوں پر پتھر پھینک پھینک کر کھجوریں گرا یاکر کھاتے تھے۔ایک دن باغ کا مالک مجھے پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تم درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟میں نے کہا۔کھجوریں کھانے کے لئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا پتھر مت مارا کرو، البتہ جوکھجوریں نیچے گری ہوتی ہیں، ان کو کھا لیا کرو۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں دعا کی کہ خدایا اس کا پیٹ بھر دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بچے کے حق میں کیسی پیاری دعا کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے ہنسی کی باتیں بھی کرتے تھے۔ اس دعا میں کچھ ہنسی کی بات بھی تھی کہ اللہ میاں اس کا پیٹ بھرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔اس کو تو تو ہی بھر سکتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کو بہت پیار سے نصیحت بھی کردی۔
20۔تربیت:
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی کسی بات کو ناپسند فرماتے تو اسے بڑی محبت اور پیارسے ٹوکتے تھے۔عبداللہ بن بشر کہتے ہیں کہ ایک بار میری ماں نے مجھے انگوروں کا ایک گچھا دیا اور کہا کہ اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ۔وہ کہتے ہیں کہ میں لے کر چلا تو راستے میں میری نیت بگڑ گئی اور میں نے انگور کھا لئے۔جب میری والدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انگوروں کا گچھا پہنچ گیا تھا؟آپ نے فرمایا نہیں۔اس پر میری والدہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سمجھ گئے کہ میں گچھے کو راستے میں کھا گیا ہوں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جب بھی رستے میں ملتے تو میرا کان پکڑ کر کہتے یا غدر یعنی اے دھوکے باز۔
21۔ننھے انس کی شرارت:
تمہارے ابا کبھی تمہیں کسی کام کے لئے کہتے ہیں تو تم کبھی کبھی یوں ہی شرارت سے سے انکار کر دیتے ہو۔ویسے تمہارے دل میں یہی ہوتا ہے کہ تم ابا کا کام ضرور کرو گے لیکن انہیں بتاؤ گے نہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس بن مالک بھی بچپن میں آپ ﷺکے ساتھ ایسی ہی شرارتیں کیا کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا۔میں نے آپ سے کہا خدا کی قسم۔میں نہیں جاؤں گا۔ویسے میرے دل میں یہی تھا کہ میں اس کام کے لیے جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ضرور جاؤں گا ، لیکن میں نے صرف شرارت کے طور پر انکار کر دیا ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں اس کام کے لیے روانہ ہو گیا اور راستے میں چند بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں میں کھیل رہے تھے۔میں انہیں دیکھنے کے لئے کھڑا ہو گیا۔اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر مجھے گردن سے پکڑ لیا ۔میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ ﷺہنس رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
انیس! جہاں میں نے تمہیں جانے کو کہا تھا، کیا وہاں گئے تھے؟میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تو جا رہا ہوں۔ ہمارے نبی ﷺ حضرت انس کو پیار سے انیس کہا کرتے تھے ،یعنی ”ننھا منا انس۔“
22۔علم کا شوق پیدا کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے بچوں میں علم کا شوق پیدا ہو گیا۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی تعلیم میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔جب آپﷺ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے تو آپ ﷺکے صحابہ یا ساتھی آپﷺ کے گرد حلقہ یا گھیرا بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔اس موقع پر بچے بھی موجود ہوتے تھے۔ان موقعوں پر آپﷺ کبھی کبھی سوالات بھی پوچھتے تھے۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپﷺ ایسا سوال کرتے تھے جس کا جواب بڑوں سے بھی نہ بن پڑتا لیکن بچے اس کے جواب کو سمجھ لیتے تھے۔اس طرح آپﷺ کی صحبت میں بچوں کو بھی علم کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ان بچوں میں سے بعد میں بعض لوگ بڑے بڑے عالم ہوئے۔ان میں سے ایک حضرت عبداللہ ابن عباس ہیں۔
23۔احادیث کا جمع کرنا:
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں آپﷺ کی حدیثیں جمع کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں پر جایا کرتا تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں جب پہنچتا تو وہ شخص دوپہر کا کھانا کھا کر سو جاتا۔اگر میں چاہتا تو اس کے گھر کے لوگ اسے جگا دیتے مگر میں اس کے دروازے پر چادر بچھا کر بیٹھ جاتا۔دوپہر کے وقت سخت آندھیاں چلتیں اور مجھ پر گرد پڑتی رہتی۔لیکن میں وہاں سے جانے کا نام نہ لیتا تھا۔جب وہ شخص باہر نکلتا تو مجھے دیکھ کر کہتا تھا، اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی جو آپ ایسے وقت پر تشریف لائے۔آپ مجھے بلا لیتے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔اس پر حضرت ابن عباس کہتے۔یہ تو میرا فرض تھا کہ میں تمہارے پاس آتا۔اس کے بعد آپ اس سے حدیث دریافت کرتے۔اس زمانے میں کاغذ آسانی سے نہیں ملتا تھا۔اس لیے ابن عباس احادیث کو تختیوں پر لکھا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ ایک شخص نے دیکھا کہ آپ ابو رافع سے حدیث پوچھ پوچھ کر تختیوں پر لکھ رہے ہیں۔
اس طرح ابن عباس نے احادیث کا اتنا علم حاصل کرلیا کہ انہیں لوگ علم کا دریا کہنے لگے۔رسول کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اسی وجہ سے آپ کی بڑی عزت کرتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب کوئی بڑا کام کرنا ہوتا تھا تو آپ سے مشورہ کرتے تھے۔بڑے کاموں میں یہ خلیفہ سب سے پہلے ان لوگوں سے مشورہ کرلیتے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں حصہ لیا تھا۔یہ لوگ صحابہ میں بڑی عمر کے تھے لیکن ان کے ساتھ وہ ابن عباس کو بھی ضرور بلاتے تھے،وہ کم عمر تھے، ان کو یہ درجہ ان کے علم کی وجہ سے حاصل ہوا۔
حضرت ابن عباس نے تو احادیث کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جمع کیا تھا لیکن آپ کے ایک کم عمر صحابی ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ کام آپﷺ کی زندگی میں ہی شروع کر دیا تھا، ان کا نام عبداللہ بن عمر تھا۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپﷺ اجازت دیں تو میں آپﷺ کی باتیں لکھتا جاؤں۔اس طرح وہ آپﷺ کی باتیں دوسروں سے نہیں بلکہ خود آپﷺ کی مبارک زبان سے سن سن کر لکھتے رہے۔اس طرح سے احادیث یا آپﷺ کی باتوں کی ایک کتاب بن گئی۔اس کا نام انہوں نے صادقہ رکھا۔اس کے معنی ہیں سچی باتیں۔اس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی پہلی کتاب بھی ایک ایسے صحابی نے لکھی جو دوسروں سے عمر میں کم تھے۔
24۔غیر زبانیں سیکھنا:
بعض بچے انگریزی پڑھنے لگتے ہیں تو انہیں یہ زبان بہت مشکل لگتی ہے۔عربی تو اور بھی مشکل معلوم ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل میں ان کے ماں باپ یا ان کے استاد زبان سیکھنے کا شوق پیدا نہیں کرتے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور اس محبت کی وجہ سے آپﷺ بچوں سے جو کچھ کہتے تھے وہ اس پر جان و دل سے عمل کرتے تھے۔آپ ﷺکے ایک صحابی زید بن ثابت کم عمر تھے۔جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت ان کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔بعد میں آپﷺ اپنے خط اکثر زید بن ثابت سے لکھوانے لگے۔اس زمانے میں عرب میں یہودیوں کے قبیلے بھی رہتے تھے۔آپﷺ انہیں کبھی کبھی خط بھیجتے تھے۔زید بن ثابت کو یہودیوں کی زبان نہیں آتی تھی۔اس زبان کا نام عبرانی ہے۔اگر یہودیوں کے کسی قبیلے کو خط لکھنا ہوتا تھا تو آپﷺ کسی یہودی سے لکھواتے تھے۔لیکن آپ ﷺکو اس انتظام سے تسلی نہیں تھی۔اس لیے آپﷺ نے زید بن ثابت سے کہا کہ وہ عبرانی زبان سیکھ لیں۔ انہوں نے اس زبان کو پندرہ دن میں سیکھ لیا۔شام اور عراق کے ملکوں کی زبان سریانی تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سریانی زبان بھی سیکھنے کے لیے کہا۔زید بن ثابت نے اس زبان کو بھی کوئی سترہ دن میں سیکھ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوں کو ان زبانوں میں لکھنے لگے۔
زید بن ثابت میں علم کا شوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے ہی پیدا کر دیا تھا۔وہ چھ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو لوگوں نے زید بن ثابت کو آپﷺ کی خدمت میں حاضر کیا اور کہا کہ اس بچے نے سترہ سورتیں حفظ کر لی ہیں۔آپﷺ نے ان کا امتحان لیا اور سورہ ق پڑھنے کو کہا۔انہوں نے اس سورہ کو اتنی اچھی طرح پڑھا کہ آپﷺ خوش ہو گئے اور آپﷺ نے ان کے حق میں دعا کی۔
25۔بنی نجیب کا ایک لڑکا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اچھی اچھی باتیں ہی نہیں سکھاتے تھے بلکہ جو بچہ مدینہ سے باہر چلا جاتا تھا،اس کے بارے میں برابر لوگوں سے پوچھتے رہتے تھے کہ وہ آپﷺ کی باتوں پر کس طرح عمل کر رہا ہے۔جب مکہ کی فتح کے بعد عرب کے قبیلے ایک ایک کر کے مسلمان ہونے لگے تو ان کے وفد یا بڑے لوگوں کے گروہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت محبت سے ملتے تھے۔ان کو اسلام کی باتیں سکھاتے اور جاتے وقت تحفہ بھی دیتے تھے۔اگر ان کے ساتھ کوئی بچہ ہوتا تھا تو اس پر خاص مہربانی فرماتے تھے۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ نجیب کا وفد آیا تو آپﷺ نے ان کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اور بھی اچھے تحفے دیے۔ان لوگوں کے ساتھ ایک لڑکا تھا۔اس کو یہ لوگ اپنے سامان کے پاس چھوڑ آئے تھے۔جب وفد کے لوگ جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔انہوں نے کہا۔جی ہاں ایک لڑکا رہ گیا ہے۔چونکہ وہ کم عمر تھا اس لئے ساتھ نہیں لائے۔
آپ ﷺنے فرمایا کہ اس کو بھی میرے پاس بھیجو۔جب وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کہنے لگا۔اے اللہ کے رسولﷺ میں اسی وفد میں سے ہوں جو ابھی ابھی آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔وہ لوگ آپﷺ سے برکت حاصل کرکے گئے ہیں۔اے اللہ کے رسول ﷺمیری ضرورت ان لوگوں کی سی نہیں۔وہ لوگ اسلام کی محبت لے کر حاضر ہوئے تھے۔انہوں نے آپ ﷺکی خدمت میں جو صدقہ پیش کیا، اسے بھی وہ بہت خلوص کے ساتھ لے کر آئے تھے مگر اللہ کے رسول ﷺمیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ﷺمیرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر دے اور اس کے ساتھ میرے دل کو غنی کردے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے دل میں دولت کی ہوس نہ رہے۔آپ ﷺنے اس کے لئے دعا کی اور جیسے تحفے اس کے ساتھیوں کو عطا کیے تھے، اس کو بھی عطا کیے۔آپ ﷺنے ہجرت کے دسویں سال حج کیا تھا، وہ آپﷺ کا آخری حج تھا۔ اس موقع پر لوگ دور دور سے آ کر مکہ میں جمع ہوئے۔اس لڑکے کے قبیلے کے کچھ آدمی بھی آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ ﷺ نے ان سے اس لڑکے کا حال دریافت کیا۔اور انہوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ہم نے اس سے بہتر آدمی نہیں دیکھا۔اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے وہ اس پر خوش ہے۔اگر لوگ دنیا کی دولت بھی لٹاتے ہیں تو وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا اور نہ ہی کوئی توجہ کرتا ہے۔آپﷺ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے، مجھے امید ہے کہ وہ دنیا سے اسی حال میں رخصت ہوگا۔
اس کے قبیلے کے لوگ کہتے ہیں کہ جب تک وہ زندہ رہا ،بہت عبادت کرتا رہا اور اس کی وفات بھی نیکی کی حالت میں ہوئی۔خدا نے اسے جو رزق دیا تھا وہ اسی میں خوش رہتا تھا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور اس علاقے کے بعض قبیلے اسلام سے پھر گئے تو وہ اپنی قوم میں کھڑا ہوا اور ان کو اسلام اور اللہ کی یاد دلائی۔چنانچہ اس کی قوم میں سے ایک شخص نے بھی اسلام نہیں چھوڑا۔
وہ لڑکا بڑا ہو کر اپنی نیکیوں کی وجہ سے سارے عرب میں مشہور ہو گیا ۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو وہ بھی اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے رہتے تھے ۔انہوں نے اس علاقے کے گورنر کو بھی ہدایت کی تھی کہ اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا رہے۔
26۔بچوں میں جہاد کا شوق:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ بیدار کر دیا تھا اور بچوں کے دلوں میں تو اس جذبے نے بے پناہ تڑپ پیدا کر دی تھی۔
جب دشمن مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے لشکر لے کر آتے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کا لشکر تیار کرتے تھے۔ شہر سے باہر آپ ﷺکا جھنڈا لگا دیا جاتا تھا اور مجاہدین خود بخود جھنڈے کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔آپ جہاد میں حصہ لینے والوں کا خود معائنہ کرتے تھے۔اس موقع پر کم عمر لڑکے بھی اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کرتے تھے ۔آپﷺ عام طور پر ان کو جہاد کی اجازت نہیں دیتے تھے۔عبداللہ بن عمرؓ اور براءبن عازبؓ نے جنگ بدر اور جنگ احد دونوں موقعوں پر اپنے آپ کو جہاد کے لئے پیش کیا مگر دونوں مرتبہ ان کو اجازت نہ ملی۔جنگ احد کے موقع پر جن کم عمر لڑکوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا ۔ان کے نام یہ ہیں۔ عبداللہ بن عمر،زید بن ثابت،اسامہ بن زید،زید بن ارقم،براءبن عازب،عمرو بن خرم،اسید بن ظہیر،عروبہ بن اوس،ابو سعید خدری،سمرہ بن جندب اور رافع بن خدیج۔ان کو اجازت نہ ملی۔
رافع کے باپ خدیج نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس کے بیٹے کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے۔آپ ﷺنے نگاہ اٹھا کر رافع کو دیکھا تو انہوں نے اپنے آپ کو پاؤں کے انگوٹھوں پر کھڑا کرکے اپنے قد کو اونچا کر لیا۔آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔جب ایک اور لڑکے سمرہ بن جندب کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے اپنے باپ سے کہا کہ حضورﷺ نے رافع کو اجازت دے دی ہے۔مجھے بھی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ میں تو اسے کشتی میں نیچے گرا سکتا ہوں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دونوں میں کشتی ہوئی اور سمرہ نے رافع کو گرا دیا۔اس پر آپﷺ نے سمرہ کو بھی جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔جنگ احد میں رافع کے سینے میں ایک ایسا تیر لگا جو ہڈیوں کو توڑ کر اندر گھس گیا۔تیر کو کھینچا گیا تو اس کی نوک اندر رہ گئی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمہاری بہادری کی گواہی دوں گا۔بہادر رافع نے شہادت حاصل کی۔
اکثر لڑکے اس موقع پر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور پوری کوشش کرتے کہ آپﷺ انہیں جہاد کی اجازت دے دیں۔بعض لڑکوں کا قد چھوٹا ہوتا تھا تو وہ لوگوں کے پیچھے اپنے پاؤں کے انگوٹھوں پر کھڑے ہوجاتے تھے اور اس طرح اپنے قد کو بڑا کر کے دکھاتے تھے۔اگر ایک بچے کو جہاد کی اجازت مل جاتی تھی اور اس کے ساتھی کو نہیں ملتی تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا کہ آپﷺ میری اس کے ساتھ کشتی کرا لیجئے۔اگر میں اس کو کشتی میں نیچے گرا دوں تو مجھے بھی اجازت دے دی جائے۔یہ تھا شوق جہاد نوجوان لڑکوں میں۔جب آپﷺ جنگ بدر کے لئے لشکر جمع کر رہے تھے تو اس وقت ابی وقاص کے بیٹے عمیر پریشانی میں ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ان کے بھائی سعد بن ابی وقاص نے پوچھا۔بھائی جان کیا بات ہے؟وہ بولے میں بھی جہاد میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔شاید خدا مجھے شہادت کی نعمت نصیب کرے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا تو وہ چھوٹا سمجھ کر جہاد کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لئے ان کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
جہاد میں حصہ لینے والے ایک ایک کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے۔جب عمیر سامنے آئے تو آپ ﷺنے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کو اجازت نہ دی۔اس پر عمیر زار و قطار رونے لگے۔ان کے جوش اور شوق شہادت کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت اثر ہوا۔آپ ﷺنے ان کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کی کمر میں تلوار باندھی۔حضرت عمیر کی عمر اس وقت سولہ سال کی تھی۔وہ اچھی طرح ہتھیار باندھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ہتھیار باندھنے میں ان کے بھائی نے امداد دی۔اس جنگ میں عمیر نے مکہ کے ایک مشہور بہادر عمرو بن عبدود سے جنگ کی اور شہادت کا درجہ حاصل کیا۔
جہاد کرنے والے لڑکوں میں شوق کا یہ عالم تھا کہ بعض ایسے بھی ہوتے تھے کہ وہ مشکل سے تلوار کو لٹکا سکتے تھے۔چونکہ ان کا قد چھوٹا ہوتا تھا اس لئے ان کی تلوار اکثر ان کے پیچھے زمین پر گھسٹتی جاتی تھی۔
27۔ناموس پیغمبر:
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں رحمت العالمین کے نام سے یاد کیا ہے۔آپﷺ سب لوگوں کے لیے ابر رحمت بن کر آئے تھے اور سب کی بھلائی چاہتے تھے لیکن جب آپ ﷺکے دشمن آپﷺ کی برائی کرتے تھے تو صحابہ کو بہت دکھ پہنچتا تھا اور نوجوانوں کو تو اور بھی زیادہ غصہ آتا تھا۔مکہ میں آپ ﷺکا سب سے بڑا دشمن ابوجہل تھا۔وہ ہمیشہ آپﷺ کی برائیاں کرتا رہتا تھا۔اس کو دو لڑکوں نے جنگ میں اس لیے قتل کیا کہ وہ آپﷺ کی برائی سے باز نہیں آتا تھا۔ان کے نام معاذ بن عمرو اور معوذ بن عنصرا ہیں۔انہوں نے ابو جہل کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔
آپﷺ کے ایک صحابی جو عمر میں بڑے تھے،کہتے ہیں کہ جب ہم مجاہد جنگ کے لیے صفوں میں کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا۔میرے پہلو میں یہ لڑکے کھڑے ہیں۔میرے جی میں خیال آیا کہ اگر میرے ساتھ بڑی عمر کے لوگ ہوتے تو وقت پڑنے پر میری مدد کرتے ۔ان لڑکوں سے کیا ہوگا۔اتنے میں ان میں سے ایک لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا چچا! کیا تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا ہاں جانتا ہوں۔مگر تمہیں اس سے کیا کام ہے۔وہ بولا۔میں نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کرتا ہے۔اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر وہ مجھے آج مل گیا تو جب تک اسے موت کے گھاٹ نہ اتار دوں اس وقت تک چین نہیں لوں گا۔یا پھر اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔میں اس کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔دوسرے لڑکے نے بھی کچھ اسی قسم کی بات کی۔ اتنے میں ابو جہل گھوڑے پر سوار نظر آیا۔میں نے کہا ابو جہل یہی ہے۔اس پر دونوں لڑکے بجلی کی طرح اس کی طرف لپکے اور اس پر اتنے وار کیے کہ وہ گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ان کا نام معاذ بن عمر و اومعوذ بن عنصرا تھے۔شاباش ہے ایسے بہادر جانثار نوجوانوں پر۔
ابوجہل کو حملہ کرنے میں آسانی تھی کیونکہ وہ گھوڑے پر سوار تھا اور یہ دونوں لڑکے پیدل تھے مگر ان میں سے ایک نے پہلے وار میں اس کے گھوڑے کی ٹانگ اڑا دی اور دوسرے نے ابوجہل کا بازو زخمی کر دیا چنانچہ گھوڑا اور اس کا سوار دونوں زمین پر آ رہے ۔اس کے بعد ابو جہل اٹھ نہ سکا۔ان لڑکوں نے اس کو اسی حالت میں چھوڑ دیا۔اس کے بعد معاذ کے بھائی معوذ نے تلوار کا ایسا ہاتھ دیا کہ وہ بالکل ہلنے جلنے کے قابل نہ رہا۔اس موقع پر ابو جہل کے ساتھ اس کا بیٹاعکرمہ بھی تھا۔ عکرمہ بھی بہت بہادر تھے اور اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے تھے۔
معاذ بن عمرو کہتے ہیں کہ عکرمہ نے مجھ پر ایسا وار کیا کہ میرا بازو کٹ کر جسم کے ساتھ لٹک گیا ۔میں نے کٹے ہوئے بازو کو اپنے کندھے پر ڈال لیا اور جنگ جاری رکھی۔لیکن تلوار چلانے میں یہ بازو بار بار رکاوٹ پیدا کرتا تھا، اس لیے میں نے اسے پاؤں کے نیچے دبا کر اوپر کو جھٹکا دیا تو کھال ٹوٹ کر بازو الگ ہو گیا۔میں نے کٹے ہوئے بازو کو پھینک دیا اور جم کردشمنوں کا مقابلہ فتح تک کرتا رہا۔
28۔شہداءکے بچے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہداءکے بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔بعض مجاہدین کا جہاد میں حصہ لیتے وقت خیال ہوتا ہے کہ مال غنیمت میں حصہ ملے گا۔مال غنیمت وہ مال ہوتا ہے جو دشمن کی شکست کے بعد ہاتھ آتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے دل پر اس بات کا نقش بٹھاتے تھے کہ جہاد اللہ کی راہ میں ہے،اللہ کے واسطے کرنا چاہیے ،مال غنیمت کے لئے نہیں۔
جب احد کی لڑائی ہوئی، اس وقت ابو سعید خدری کی عمر صرف تیرہ سال کی تھی ۔آپﷺ جب لشکر تیار کر رہے تھے تو ابو سعید کے والد ان کو حضورﷺ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بیٹے کی عمر تو کم ہے لیکن اس کے ہاتھ پاؤں مضبوط ہیں اور ہڈیاں بھی خوب موٹی ہیں۔ابو سعید کہتے ہیں کہ آپﷺ میری طرف نگاہیں اٹھاتے تھے اور پھر نیچی کر لیتے تھے۔آخر میں آپ ﷺنے مجھے جہاد کی اجازت نہیں دی۔میرے والد اس جنگ میں شہید ہو گئے۔وہ اپنے پیچھے گزارے کے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے تھے،اس لیے میں امداد کے لیے آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ابھی میں نے بات شروع نہیں کی تھی کہ آپﷺ فرمانے لگے۔ابو سعید!جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر مانگتا ہے، اس کو صبر ملتا ہے اور جو پاکبازی مانگتا ہے، اسے پاکبازی ملتی ہے اور جو دولت چاہتا ہے اسے دولت بھی مل جاتی ہے۔ابو سعید کہتے ہیں کہ آپ ﷺکی یہ باتیں سن کر میں کچھ کہے بغیر واپس آ گیا۔ابوسعید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کم عمر صحابہ میں سے بڑے علم والے ہوئے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کے بچوں پر تو اور بھی شفقت اور مہربانی کرتے تھے۔بشیر بن عقربہ کے ماں باپ احد کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔جب دشمنوں کا لشکر واپس چلا گیا تو بشیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے میرے والد کیسے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان پر خدا کی رحمت ہو۔وہ تو شہید ہوگئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں زار و قطار رونے لگا۔ آپﷺ نے مجھے سینے سے لپٹا لیا۔میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا۔اس کے بعد فرمایا کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ ہو جاؤں اور عائشہ تمہاری ماں ہو جائے۔
احد کی جنگ میں مسلمانوں کا کافروں سے بہت سخت مقابلہ ہوا تھا۔اس جنگ میں حضرت جابر کے والد شہید ہوگئے تھے۔جب آپﷺ نے جنگ احد کے لیے لشکر تیار کیا تو خود جابر بھی جہاد میں شریک ہونا چاہتے تھے،لیکن ان کے والد نے اجازت نہ دی۔جابر کی سات بہنیں تھیں ان کے والد نے کہا کہ تم ان کی خبر گیری کرو۔
جنگ احد کے بعد مکہ کے لشکر کا سردار ابوسفیان واپس ہو گیا۔راستے میں جب وہ ایک منزل پر رکا تو اس نے سوچا کہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کیا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا جائے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے مسلمانوں کو دوبارہ تیار ہونے کا حکم دے دیا اور یہ بھی کہا کہ اس جہاد میں صرف وہ لوگ حصہ لیں گے جو جنگ احد میں آپﷺ کے ساتھ تھے۔اس موقع پر جابر نے حضورﷺ سے لشکر میں شریک ہونے کی اجازت لے لی۔عام طور پر آپﷺ لڑکوں کو جہاد کی اجازت نہیں دیتے تھے۔مگر جابر ایک شہید کے بیٹے تھے اس لئے آپ ﷺنے ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں اس لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔
ایک دن خالد بن سعید خدمت اقدس میں آئے،ان کی چھوٹی لڑکی بھی ساتھ تھی اور سرخ رنگ کا کرتا بدن میں تھا۔آپﷺ نے فرمایا سنہ سنہ،حبشی زبان میں حسنہ کو سنہ کہتے ہیں۔چونکہ ان کی پیدائش حبش میں ہوئی تھی ،اس لیے آپ نے اس مناسبت سے حبشی تلفظ میں حسنہ کی بجائے سنہ کہا۔
ماں بچے کی محبت کے واقعات سے آپ ﷺپر سخت اثر ہوتا تھا۔ایک دفعہ ایک نہایت عجیب عورت حضرت عائشہ کے پاس آئی،دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی ساتھ تھیں،اس وقت حضرت عائشہ کے پاس کچھ نہ تھا،ایک کھجور دے دی۔عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں میں برابر تقسیم کردیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے یہ واقعہ سنایا۔ارشاد فرمایا، خدا جس کو اولاد کی محبت میں ڈالے اور وہ ان کا حق بجا لائے وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔
یہ محبت اور شفقت مسلمان بچوں تک محدود نہ تھی،بلکہ مشرکین کے بچوں پر بھی اسی طرح لطف فرماتے تھے۔ایک دفعہ ایک غزوہ میں چند بچے جھپٹ میں آ کر مارے گئے،آپ ﷺکو خبر ہوئی تو نہایت آرزدہ ہوئے۔ایک صاحب نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مشرکین کے بچے تھے ۔آپ ﷺنے فرمایا مشرکین کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔خبردار بچوں کو قتل نہ کرو،ہر جان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔
جابر بن سمرہ صحابی تھے،وہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپﷺ اپنے گھر کی طرف چلے۔میں بھی ساتھ ہو لیا کہ ادھر سے چند اور لڑکے نکل آئے۔آپ ﷺنے سب کو پیار کیا ،مجھے بھی پیار کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غلاموں پر خصوصیت کے ساتھ شفقت فرماتے تھے۔فرمایا کرتے تھے کہ یہ تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں جو غلام آتے،ان کو آپﷺ ہمیشہ آزاد فرما دیتے تھے،لیکن وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان وکرم کی زنجیر سے آزاد نہیں ہو سکتے تھے ۔ماں،باپ،قبیلہ،رشتہ کو چھوڑ کر عمر بھر آپﷺ کی غلامی کو شرف جانتے تھے۔زید بن حارثہ غلام تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کردیا،ان کے باپ ان کو لینے آئے لیکن وہ آستانہ رحمت پر باپ کے ظل عاطفت کو ترجیح نہ دے سکے اور اپنے باپ کے ساتھ جانے سے قطعاً انکار کر دیا۔زید کے بیٹے اسامہ سے آپﷺ اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اسامہ بیٹی ہوتی تو میں اس کو زیور پہنا تا،خود اپنے دست مبارک سے اس کی ناک صاف کرتے تھے۔
غلاموں کو لفظ ”غلام“ کا سن کر اپنی نظر میں اپنے آپ ذلت محسوس ہوتی تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ تکلیف بھی گوارا نہ تھی۔فرمایا کوئی میرا غلام۔میری لونڈی نہ کہے ۔میرا بچہ، میری بچی کہے۔