skip to Main Content

باب چہارم: بچوں کے رسائل اورمعاشرے پر ان کے اثرات

باب چہارم
بچوں کے رسائل اورمعاشرے پر ان کے اثرات

ا۔ اخلاقی اثرات
۲۔ قومی اثرات
۳۔ مذہبی اثرات
۴۔ زبان پر اثرات
حوالہ حواشی

باب چہارم

بچوں کے رسائل اور معا شرے پر ان کے اثرات

معاشرے میں بچے ہوں یا بڑے کہانیوں کے اثر سے خالی نہیں ہوتے، کہانیاںزندگی کو ترتیب دینے میں معاون ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ کہانیاں ہی زندگی ہے، کسی کی زندگی خواہ وہ بچوں کی ہو یا بڑوں کی کہانیاں کیا اثرات مرتب کرتی ہیں یہ عمل خود ایک وسیع مطالعے کا متقاضی ہے۔ نظریاتی، فکری اور سماجی حوالوں سے اگر ہم بچوں کے رسائل کا کے معاشرے پر اثرات کا مطالعہ کریں تو اس کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، ان جہتوں کو چند بنیادی موضوعات کے حوالے سے تقسیم کرکے اس کے اثرات کو جانچا جاسکتا ہے۔
معاشرے اور اس میں بسنے والے افراد کی اخلاقی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روایات کو اُجاگر کرنے میں ادب کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں بچوں کے اَدب کو ترقی یافتہ ممالک نے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ درسی کتابوں سے لے کر فکشن کی کتابوں تک میں ہمیں سائنسی اُصول کا رفرما نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے جو کہانیاں لکھی جاتی ہیں وہ بچوں پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کے نظریاتی، ثقافتی اور ادبی پہلوئوں پر غور وفکر کیا جاتا ہے کہ معاشرہ ایک اچھے ادب کے ساتھ بچوں پر مثبت اثرات ڈال کر اُنھیں کار آمد انسان بنائے۔
وہ بچے جو کتابوں اور رسائل سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی یا ان کے عادت واطوار کیسے ہوتے ہیں۔کوئی بھی معاشرہ اچھے ادب کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا، اس لیے ضروری ہے کہ معاشرتی طور پر ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھایا جاسکے، جو بچوں میں اخلاقی،مذہبی، علمی اور عملی سرگرمیوں کو مہمیز دے اور انھیں کار آمد بنائے اور وہ بچے جو کسی وجہ سے رسائل وجرائد اور کتابوں سے فیض یاب نہیں ہوسکتے ان کی زندگی کس لحاظ سے گزرتی ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات فی زمانہ مختلف حوالوں سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مقالے میں ہم ان بچوں کو دیکھنے کی کوشش کریں گے جو مطالعے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ مطالعہ ان کی زندگی پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ان اثرات کے حوالے سے مختلف طویل المدتی منصوبوں، سروے اور تحقیقی کاموں کو بنیاد بنایا جاتا ہے، ایسی ہی محققانہ کاموں کی ضرورت اُردو زبان میں شائع ہونے والے رسائل کے حوالے سے بھی پائی جاتی ہے۔ تاکہ اس شعبے کے ثقافتی، نظریاتی اور اخلاقی ونفسیاتی پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا ادب تخلیق کیا جاسکے جو مواد کے لحاظ سے متنوع ہونے کے علاوہ اس کے تخلیقی جہت پر بھی پورا اُترتا ہو۔
بچوں کا ادب اتنا ہمہ گیر ہے کہ بچے کی شخصیت پر کئی طرح سے اس کے اثرات پڑتے ہیں ۔ اس ادب سے پیدا ہونے والے مختلف اثرات بچے کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اس حوالے سے میں نے اسے چار بنیادی نکات کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر اس کے علاوہ اور بھی پہلو ہوسکتے ہیں، جسے مقالہ ہذا میں مختلف جگہوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اخلاقی اثرات: بچوں کا اَدب بچے پر اخلاقی اثر ڈالتا ہے کہ وہ سچ بولے۔ امانت ودیانت کا مظاہرہ کرے۔ بُرے کاموں سے اجتناب برتے۔
قومی اثرات : قومی اثرات کے تحت بچوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ملک ،مذہب، معاشرے کے وفادار رہیں۔ ان کی فلاح وبہود کا خیال رکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کردیں جس سے ملک کو نقصان اور دشمن کو فائدہ ہو۔
مذہبی اثرات : مذہبی اثرات کے تحت بچوں میں انبیا علیہ السلام، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور دیگر معتبر اور قابل احترام شخصیتوں سے متعارف کر وایا جاتا ہے۔ ان کے قابل تقلید کاموں کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
زبان پر اثرات: زبان کے حوالے سے بھی بچے کی شخصیت پر اَثر پڑتا ہے۔ بچوں کا اَدب بچوں کی زبان نکھارتا ہے، محاورات پر دسترس، نئے الفاظ سے روشناس کروانا، جملوں کی تزئین وآرائش، ضرب الامثال، کہاوتیں، کہانی لکھنے اور کہنے کا سلیقہ، قوت تخلیہ کو لفظوں کے ذریعے پروان چڑھاناتاکہ وہ اپنا مافی الضمیر بہتر اور عمدہ طریقے سے بیان کرنے کے قابل ہوسکیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کا ادب کئی دیگر زاویوں سے بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھے۔ پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہواور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بچوں کے مطالعے میں جہاں کمی محسوس ہو۔ وہاں اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا کون سا پیرا میٹر ہے جس کے ذریعے ہم یہ پتا چلاسکیں کہ کسی تحریر،رسالے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ کیا اس حوالے سے سروے موجود ہیں؟ یا پھر حکومتی یا نجی سطح پر کسی ادارے نے اس چیز کا تحقیقی نوعیت سے جائزہ لیا ہے؟ باوجود تلاش وبسیار کے اس موضوع پر تاثراتی تحریریں اور ذاتی تجربات تو موجود ہیں لیکن سائنٹفک انداز میں اس کا جائزہ ندارد ہے۔ جب کہ انگریزی لٹریچر میں اس چیز کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا ہے کہ بچوں کے لیے جو بھی لکھا جارہا ہے ، اس کو تمام زاویوں سے دیکھنا اور پرکھنا کہ وہ معاشرے پر مجموعی طور پر کس قسم کا اثر ڈالتا ہے۔
بچوں کے اَدب پر تحقیق کے حوالے سے بین الاقوامی ادارہInternational Research in Children’s Literature میں ایشیا، افریقا، یورپ اور امریکا میں موجود بچوں کے ادب کا جائزہ سائنسی بنیادوں پر لینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۱۔ اسی طرح تعلیم، اخلاق پر اثر انداز ہونے والے بچوں کے ادب کو بھی وسیع پیمانے پر پرکھا گیا ہے۔

اخلاقی اثرات:

انفرادی واجتماعی سطح پر حکومتیں، ادارے، انجمنیں اور افراد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں اخلاقی قدروں کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اخلاقیات کا سبق سب سے اچھا بچپن میں ازبر ہوتا ہے، اس لیے بچوں کی کتابوں اور رسائل وجرائد میں مختلف النوع چیزیں شائع ہوتی ہیں۔ کہانیاں ، مضامین نظمیں اور ذہنی سرگرمیاں تو قریب قریب تمام رسائل میں ملتی ہیں۔ اسی طرح کہانیوں اور نظموں میں متفرق موضوعات پر بچوں کے لیے دلچسپ تحریر یں اور نظمیں تخلیق کی جاتی ہیں۔ان کہانیوں اور نظموں میں کئی پہلو ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کی اخلاقی نشودنما میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
بچہ نظم یا کہانی پڑھ کر یہ تاثر لیتا ہے کہ اسے کون سا کام نہیں کرنا چاہیے۔… کیوں کہ اس طرح کا کام کرنے سے وہ کہانی کے کردار جیسا ہو جائے گا، جوکہ ایک منفی کر دار ہے ۔حتیٰ کہ اگر کسی بچے کو کسی کہانی کے منفی کر دار سے جوڑا جائے تو وہ اپنی ہتک محسوس کر تا ہے۔ یہ ہتک محسوس کرنا دراصل بچے پر اس تحریر کے اخلاقی ونفسیاتی اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔
بچوں کی کتابیں اور رسائل بچوں کے مقامی اور عالمی خیالات کو متاثر کرتے ہیں اور ان بچوں کی تعلیمی، سماجی، ذاتی اور باہمی مہارتوں پر بھی اَثر ڈالتے ہیں۔
مثال کے طور پر کہانی کا مثبت کردار ادا کرنے والا ہیرو اپنے اچھے اخلاق، بہادری، سچائی سے قاری کے دماغ میں ایک ایسی تصویر بنالیتا ہے جس طرح بننا فرد کی خواہش بن جاتی ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ہر کہانی کا کردار بہادری کے ریکارڈ قائم نہیں کرتا اور ضروری نہیں کہ وہ مارشل آرٹس کا پیدائشی ماہر ہو اور مشکل حالات میں دشمن کو مار مار کر ان کا بھر کس نکال دے۔ بلکہ بچوں کی کہانیوں میںہیرو بالکل اس بچے جیساہی ہوتا ہے اس میں ضروری نہیں کہ وہ کوئی مافوق الفطرت عنصر ہو۔ اس کا ہیرو بننے کے لیے صرف سچ بولنا ہی کافی ہوتا ہے۔ سچ بولنے کی وجہ سے ملنے والی اخلاقی فتح بچے کو ہمیشہ سچ بولنے پر اُکساتی ہے۔
آنکھ مچولی کے نومبر ۱۹۸۶ء کے شمارے میں شائع ہونے والی کہانی سچ کا انعام پڑھتے ہوئے نعیم پر غصہ بھی آتا ہے کہ یہ کیا بے وقوفی کی حرکت ہے لیکن یہی بے وقوفی آخر میں قاری کو سب سے اچھا کام لگتا ہے۔
نعیم ایک غریب باپ کا غریب لڑکا ہوتا ہے۔ اس کی ماں مرچکی ہوتی ہے اور ایک دن اس کا باپ اپنے سیٹھ سے اس کی مزدوری نہ دینے پر لڑ پڑتا ہے اور اس میں سیٹھ کو اینٹ دے مارتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سیٹھ کا انتقال ہوجاتاہے۔ اس وقت نعیم اور اس کا باپ ایک ویرانے میں ہوتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہوتا ہے۔ کسی کو پتا نہیں چلتا لیکن پولیس آئے روز آکر لوگوں سے تفتیش کرکے تنگ کرتی ہے۔ نعیم اسکول میں پڑھ کر اپنی اچھی عادتوں کی وجہ سے ایک بااخلاق لڑکا بن چکا تھا۔ اس کے دل میں یہ کسک موجود تھی کہ اس کے باپ سے ایک گناہ سرزد ہوا ہے اور ہم نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہے اور سچ بولنے سے اجتناب کیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے باپ کی اجازت سے سیٹھ کی بیوی کے پاس جاکر سب کچھ سچ سچ بتا دیتا ہے۔ سیٹھ کی بیوی اس اعتراف کوسن کر حیران اور پریشان ہوجاتی ہے وہ سوچتی ہے اور بالا ٓخر وہ ان دونوں کو معاف کر دیتی ہے۔ نعیم کواپنا بیٹا بنا لیتی ہے۲۔
بظاہر یہ ایک روایتی سی کہانی ہے اور اس کا عنوان بھی بالکل عام سا ہے لیکن کہانی کا اسلوب قاری کو متاثر کرتا ہے۔ اس طرح کی کہانی پڑھ کر لمحہ بھر کے لیے قاری یہ ضرور سوچتا ہے کہ بظاہر سچ بولنے سے نقصان ہوتا نظر آتا ہے لیکن سچ بولنے میں ہی نجات و عافیت ہے۔ جھوٹ بول کر دنیا میں توبچ جائیں گے لیکن ہمیشہ رہنے والی جگہ آخر ت میں نا مراد ٹھہریں گے۔
تعلیم وتربیتمیں شائع ہونے والی کہانی دو سوال میں عاصمہ اور حمیرا نامی دو بچیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو مختلف وجوہ کے باعث حساب کے دو سوال حل نہیں کر پاتیں تو مس سے جھوٹ بولنے کے بجائے سچ سچ ساری بات بتادیتی ہیں۔ ان کی سچائی کے جواب میں مس کا رویہ اچھا ہوجاتا ہے مس پوری جماعت کے سامنے ان کی سچائی کی تعریف کرتی ہے۳۔
یہ بھی ایک روایتی کہانی ہے جس میں چھوٹے چھوٹے معاملات پر جھوٹ بولنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ بظاہر تو یہ معاملات بہت معمولی سے ہیں لیکن بچپن ہی سے ان چھوٹے چھوٹے معاملات میں جھوٹ سے اجتناب کر تے ہوئے سچ بولنے کی ترغیب بڑے ہوکر بچوں کو سچائی کی جانب مائل رکھتی ہے۔
کہانیاں بچپن اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کی گہرائی کے ساتھ کیوں مرتسم ہوتی ہیں؟ بعض اوقات بچے کسی کردار میں تاحیات ڈھل جاتے ہیں۔اخلاقی عمل کا سنہرا اُصول زندگی میں رچ بس جاتا ہے۔ اخلاق سے وابستگی میں یہ کہانیاں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟اخلاق کو پروان چڑھانے کے لیے کہانیوں کا ہی سہارا کیوں لیا جاتا ہے؟ کوئی بھی معاشرہ خواہ روایتی ہو یا جدید بچوں کی تربیت کے لیے کہانیوں پر انحصار کیوں کرتا ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی کردار کو اپنے لیے آئیڈیالائز کرتا ہے۔وہ کسی سپاہی، اُستاد، کھلاڑی یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو جانے یا انجانے میں اپنا آئیڈیل بناتا ہے، وہ اپنے اس ہیرو کی عادات کی نقل کرتا ہے اور اس کی طرح کوئی کارنامہ انجام دینے کی خواہش اس کے دل میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے۔
کہانیاں اِنھیں ہیروز کے حوالے سے ایک ایسا جذبہ محبت پیدا کرتی ہے جو بچے کے اخلاق وکردار پر اثر انداز ہوتا ہے اور پھر یہ ان کہانیوں ہی کا اخلاقی اثر ہے جو ہمیں بچوں میں مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ یہ ایک احساس پیدا کرتا ہے۔ احساس کا یہ عمل مضامین کے ذریعے منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ کہانیاںہی بچوں کو اچھے اخلاقیات سے متصف کرتی ہیں۔ ان کہانیوں کے ہیروز کے ذریعے اخلاقی قدروں کو بچوں میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ وہ معاشرے کے مہذب انسان بن کر کوئی کارنامہ انجام دے سکیں۔ بڑے ہو کر وہ نجی یاسرکاری یا پھر اپنے ذاتی کاموں میں مشغول ہوکر ان اخلاقیات کو بھول نہ جائیں۔ کہیں نہ کہیں ان کا ہیرو ضمیر کی صورت اِنھیں اس بات پر ٹوکتا رہے اور انھیں ملامت کرے جب وہ دیانت کے بجاے کسی بد دیانتی کی طرف مائل ہونے لگیں یا پھر جھوٹ بول کر انھیں کوئی فائدہ ملنے کی توقع ہو۔
ضمیر کا اس طرح ٹوکنا صرف اس وقت ممکن ہے جب انسان میں احساس پایا جائے اور یہ احساس بچپن میں پیدا کرنے کے لیے پہلے پہل قصے، کہانیوں ہی کو حکمت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ نئے زمانے کے نئے تقاضوں میں اب بھی احساس پیدا کرنی والی چیزوں میں کہانی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔
جلد بازی نام کی اس کہانی کو دیکھیے کہ کس خوب صورتی کے ساتھ ’جلد بازی‘ کی بُری عادت کو مطعون کیا گیا ہے۔ جلد بازی ہماری وہ فطرت ہے جس کی وجہ سے حضرت انسان نے کئی بار گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ بچے فطرتاً جلد باز ہوتے ہیں اور عموماً بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس عادت کی وجہ سے ویسے تو عموماً مشرق ہو یا مغرب …والد اور بزرگ بچوںکو غور وفکر کی دعوت اس لیے دیتے ہیں کہ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوئوں کو پرکھنے کے بعد زبان کھولی جائے تاکہ کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچا جاسکے۔
اس کے مقابلے میں صبر کی اخلاقی صفت بچوں میں پیدا کرنے کے لیے اس تحریر میں ایک ایسے جلد باز لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے اپنی بے صبری کی وجہ سے شرمندگی اُٹھانی پڑی۔
جذبات سے بھر پور ایسی کہانیاں بچوں کے اخلاق پر بہت اچھا اَثر ڈالتی ہیں۔ اس کہانی میں مصنف اپنی کہانی خود سناتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب وہ لوگ نئے محلے میں شفٹ ہوتے ہیں تو وہاں موجود واحد دُکان دار کا رویہ عجیب سا ہوتا تھا۔ وہ کبھی کوئی چیز خود اُٹھا کر نہیں دیتا بلکہ دُکان میں آئے لوگوں سے مختلف چیزیں ریکوں سے نکلواتا، ایک دن ایک بزرگ گرتے گرتے بھی بچے لیکن وہ دُکان دار اپنی جگہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ جس پر مصنف نے دُکان دار کو خوب بُرا بھلا کہا لیکن لوگ دکان دار کو کچھ کہنے کے بجاے اسے ہی منع کرتے رہے کہ وہ خاموش ہوجائے۔
مصنف کے مطابق اس کی کہانی کا کردار اگلے دن پھر دُکان اس ارادے سے پہنچتا ہے کہ اب وہ چیز خود نہیں اُٹھائے گا۔ وہ دُکان میں پہنچا۔ چیز طلب کی اور جب وہ دُکان دار اس کے درشت رویے کو دیکھتے ہوئے کائونٹر کے پیچھے سے نکل کر مطلوبہ چیز لینے کے لیے آگے بڑھا تو اسے شرمندگی نے آلیا۔ وہ شخص دونوں ٹانگوں سے معذور تھا اور بیساکھیوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ مصنف نے کہا کہ اس دن اسے احساس ہوا کہ جلد بازی کتنی بُری عادت ہے اور صبر اللہ کو کیوں پسند ہے۴۔
بچے جب ایسی کہانیوں کو ایک جذباتی پس منظر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو تحریر کا اثر گہرا ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں کئی موڑ ایسے آ تے ہیں جہاں وہ جلد بازی کر تا ہے لیکن ایسی کہانیاں پڑھنے والے بچے بہر حال کہیں نہ کہیں رُک کر سوچتے ضرور ہیں کہ اس کی جلد بازی اُسے شرمندگی یا کسی بڑے نقصان سے دو چار نہ کردے۔
اسی طرح ہم اخلاقی طور پر بچوں میں اس رویے کو کئی دیگر روپ میں دیکھتے ہیں۔ عموماًبچے گھر والوں کی معمولی ڈانٹ ڈپٹ سے دل برداشتہ ہوکر گھر چھوڑ دیتے ہیں یا چھوڑنے کا سوچنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے بچوں کو سمجھانے کے لیے ’اسماعیل احمد صدیقی‘ کی ترجمہ کردہ کہانی معافی کو پڑھنا چاہیے۔ یہ کہانی اپنے تاثر کی بنا پر بچوں کو اس بات کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ گھر چھوڑنے سے قبل اس کے بھیانک نتائج سے بھی آگاہ رہیں۔
معافی میں کہانی کا مرکزی کردار بچپن میں کسی وجہ سے گھرچھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ جب کئی برسوں بعد وہ گھر لوٹتا ہے تو سوچتا ہے کہ اس کے گھر والے اسے معاف کریں گے بھی یا نہیں۔ وہ گھر والوں کو خط لکھتا ہے کہ اگر اُنھوں نے اسے معاف کر دیا ہے تو اسٹیشن پر موجود قدیم برگد کے درخت پر سفید جھنڈا نصب کر دیا جائے۔ اگر جھنڈا نظر نہ آیا تو وہ سمجھ جائے گا کہ اسے معاف نہیں کیا گیا ہے اور وہ اسٹیشن ہی سے واپس لوٹ جائے گا۔
وہ راستے بھر اپنے خراب رویے کو یاد کرتا ہے اور اسے لگتا تھا کہ اس کے گھر والے اسے معاف نہیں کریں گے اور جب وہ بالا ٓخر اپنے گھر کے قریب والے اسٹیشن پر پہنچتا ہے تو اسے برگد کا پورا درخت سفید رنگ کے جھنڈوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ اتنے ڈھیر سارے جھنڈے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چمکنے لگتے ہیں۵۔
یہ کہانی اگر چہ انگریزی سے اُردو میں کچھ اس انداز سے ڈھالی گئی ہے کہ اس میں مقامیت کا رنگ زیادہ نظرآتا ہے۔ ترجمہ نگار کا یہ خوب صورت ترجمہ اپنا پیغام بہت اچھے انداز سے بچوں میں اس احساس کے ساتھ منتقل کرتا ہے کہ گھر تو آخر اپنا ہے۔ ان مختلف کہانیوں میں موجود اخلاقی اسباق بچوں کی شخصیت کو مکمل کرنے میں اساتذہ اور والدین کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ اور والدین اخلاقی تربیت کے فقدان کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں، والدین کی اکثریت تمام اخلاقی سرگرمیوں کو اسکول کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ اسکول بچوں میں نصاب کی تیاریوں سمیت ان میں عمدہ اخلاق بھی پیدا کریں گے۔
جب کہ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ والدین کو تربیت کے معاملے میں اپنا معاون بناتے ہوئے ایسا نصاب تشکیل دیں جو بچوں کی اخلاقی تربیت کر سکیں۔ بہت سارے اسکول اور والدین یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اچھی کہانیوں کے ذریعے بچوں میں اخلاقی قدریں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس تناظر میں اوپر دی گئی مثالوں کو دیکھیے جو بچوں کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہوئے اِنھیں بااخلاق بناتی ہیں۔ اچھے اخلاق کے حامل ایک طالب علم یا نوجوان میں کس قسم کی خوبیاں ہونی چاہیے۔ وہ خوبیاں ان کہانیوں کے ذریعے بچوں میں پیدا کی جاسکتی ہیں۔

قومی اثرات:

تاریخ میں قوموں اور ملکوں نے ہمیشہ حب الوطنی اور جذبہ محبت کو عہد طفلی میں مرتسم کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ اس وقت بچوں کا ذہن محبت کے جذبات اور نغمات کو جلد قبول کرتا ہے۔ عہد طفلی کی محبت کو قبولیت کا عہد کہہ سکتے ہیں، اس وقت بچے کا ذہن چیزوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ وبے تاب رہتا ہے۔
اسکولوں میں جہاں نصاب سازی کے ذریعے اس جذبے کو پروان چڑھایا جاتا ہے وہیں بچوں کے رسائل وجرائد میں حب الوطنی کے جذبے کو خصوصی جگہ دی جاتی ہے۔نصاب کے علاوہ یہ ایک اضافی مواد ہے جو رسائل وجرائد کے ذریعے ممکن ہوپاتا ہے۔ یوں اس قومی سلسلے میں کتابیں اور رسائل بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ مختلف رسالوں نے نظم ونثر میں کئی اہم چیزیں پیش کی ہیں۔
ان رسائل میں مختلف قومی ہیروز کے حوالے سے نظمیں اور مضامین شائع کرکے نا صرف ان سے ایک تعلق کی فضا قائم کی جاتی ہے وہیں ان کے حوالے سے معلومات کی فراہمی انھیں یاد رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
جنگی مہمات کے حوالے سے ان ہیروز کی بہادری اور دلیری کو یاد کیا جاتا ہے۔ان کی یہ دلیری بچوں میں جذبہ جہاد کو اُبھارتی ہے، ان بہادر جنگجوؤں کو بچے تا عمر یاد رکھتے ہیں۔
اسی طرح ہر ملک کے مختلف قومی دن ہوتے ہیں۔ یہ قومی دن بچوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ان قومی دنوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دن ہوتے ہیں جن میں جذبہ حب الوطنی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔
بچوں کو قومی جذبے سے سرشار رکھنا ریاست کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ذمے داری میں تساہل دراصل ملکیسالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہمارے قومی نصاب کے توسط سے نوجوانوں اور بچوں کے لیے مختلف پروگرامات کے ذریعے وطن سے محبت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کے رسائل خصوصی طور پر اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے ملی جذبے کو فروغ دیں اور بچوں کے لیے ادب کی تمام اصناف میں اس جذبے کو پیش کیا جائے۔ نظم ونثر کی تمام اہم اصناف میں جذبہ حب الوطنی کو شامل کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جاسوسی کہانیوں میں اس جذبے نے جو عروج پایا ہے وہ شاید نظم میں صرف ملی نغموں کو حاصل ہے۔
رسائل میں شامل کہانیوں، نظموں اور مضامین میں ملی جذبے کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ عموماً وطن سے محبت کے لیے شاعر مختلف نظمیں تحریر کرتے ہیں۔ بچوں کے رسائل میں کثرت کے ساتھ ایسی نظمیں شائع ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر تعلیم وتربیت میں شائع شدہ ’قتیل شفائی‘ کی نظم پرچم اُٹھاؤ میں بچوں کو وطن سے محبت کا درس دیا جارہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

سونے سے بڑھ کر
مٹی ہے اس کی
جنت سی ہر ایک
وادی ہے اس کی۶

وطن سے محبت کے لیے اس کے مختلف علاقوں کا ذکر بڑے دلنشین انداز میں کیا جاتا ہے۔ کہیں جھنڈے کے رنگوںمیں تو کہیں اس میں موجود چاند تاروں پر گیت گنگنائے جاتے ہیں۔ وطن کے لیے جنگ میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کے تذکرے سمیت اُن سیاسی شخصیات کا احوال بیان کیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کے حوالے سے کام کیا ہو۔اسی طرح وطن سے جڑے تمام کرداروںکا ذکر ہمیشہ بڑے عزت واحترام کے ساتھ کر کے اُنھیں نشان سپاس پیش کیا جاتا ہے۔
وطن سے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان میں شائع ہونے والے اُردو رسائل ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے خصوصی شماروں کا اِجر ابھی کرتے ہیں۔ یہ خصوصی شمارے پاکستان یا اس سے متعلق اہم شخصیات مثلاً، علامہ اقبال، قائد اعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح یا پھر مختلف اہم واقعات کے حوالے سے شائع کیے جاتے ہیں۔ ان خاص شماروں میں نظم ہو یا نثر…تمام سلسلوں کو حب الوطنی سے جوڑا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر وطن کے جذبے سے سرشار تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والی ضیاء الحسن ضیا کی نظم کے اشعار دیکھے۔

کام کرتے رہیں گے وطن کے لیے
ہنس کے ہر دکھ سہیں گے وطن کے لیے
اس کی سب بستیوں کو سجائیں گے ہم
اب جئیں اور مریں گے وطن کے لیے۷

اگست ۱۹۹۷ء میں تعلیم وتربیت نے آزادی نمبر شائع کیا ۔ اس خاص نمبر میں تمام کہانیاں نظمیں، مضامین پاکستان سے متعلق ہیں۔ بچوں کے بڑے اور نامور ادیبوں نے پاکستان کی آزادی کے حوالے سے تحریروں قلم بند کی ہیں۔
سید نظر زیدی نے پیارا پاکستان کے نام سے کہانی لکھی جس میں ہندوئوں کے بدلتے رویوں کوپیش کیا گیا ہے۔
نجمہ خان نے ظالم انگریز افسروں کو ایک بچے کے ہاتھوں ختم کرتے ہوئے دکھایا ہے۔
ایک جیتی جاگتی کہانی، ایک بہادر عورت، پاکستان گولڈن جوبلی، نہ بلخ نہ بخارے، تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار، اُمید کے چراغ، مشن گولڈن جوبلی، بلندیوں کے مسافر، خپلومچلو، سب سے اُونچا پرچم، زمین سے رشتہ،پھولوں کے حقدار جیسی تحریروں کے ذریعے بچوں میں ملّی جذبے کو فروغ دینے کی کوششیں کی گئی ہیں۸۔ تعلیم وتربیت نے قائد اعظم کلاسک کے نام سے ایک منفرد سلسلے کا آغاز بھی کیا۔ اس سلسلے میں قائداعظم کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بڑے دل چسپ انداز سے باتصویر شائع کیا جاتا تھا۔ تصویروں سے اس مضمون کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا اور مدیران تعلیم وتربیت اسی افادیت کے پیش نظر اس سلسلے کو ایک لمبے عرصے تک پیش کر تے رہے۔ ان تحریروں میں فنی طور پر کمزوریوں کے علاوہ نظموں اور مضامین میں روایتی چیزیں بھی ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب بھی کوئی بچہ ان تحریروں کو پڑھتا ہے، وہ ایک نئے جذبے سے سرشار ہوجاتا ہے۔ وطن کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ جاسوسی کہانیاں پڑھ کر جاسوس بن کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔
بچپن کا وقت عمر کا وہ مقام ہوتا ہے جہاں وطن کے خلاف ایک لفظ سننا گوارا نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر معاشرہ بھی ملّی جذبے کو سراہتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی وطن سے محبت کی ترویج کرتے ہیں۔ بچوں کو بہترین پیشہ فوج اور پولیس کا لگتا ہے جسے اپنا کر وہ وطن دشمنوں اور لٹیروں کو سبق سکھاناچاہتے ہیں۔
اگر چہ یہ بچے بڑے ہو کر عملی طور پر جن تلخ تجربات سے گزرتے ہیں،اس کے نتیجے میں ان کے جذبات ضروری نہیں کہ ویسے ہی ہوں جیسے بچپن میں پائے جاتے ہیں لیکن وطن کو امن وآشنی کا گہوارا بنانا ان کی اولین خواہش ہوتی ہے۔
اسی طرح اگست ۱۹۹۰ء میں آنکھ مچولی نے دل دل پاکستان نمبر شائع کیا تھا،اس خاص نمبر میں پاکستان، آزادی اور اس سے متعلقہ شخصیات اور چیزوں کو نظم ونثر کے ذریعے مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا تھا۔
لہو کے چراغ، میں نے پاکستان بنتے دیکھا، کتے میرے وطن کے، گمنام ہیرو، گیسو دراز پاکستانی بچی، ہمارے قائد اعظم، کیا آپ سچے پاکستانی ہیں، نغمہ اور نغمہ گر، ببلو پٹاخہ عرف پاکستانیاور قائد اعظم سے ایک ملاقات اس شمارے کی خاص خاص تحریر یں تھیں جن میں کہانیوں کے ذریعے احساس کی منتقلی جب کہ مضامین کے ذریعے معلومات کی فراہمی ممکن العمل بنائی گئی۹۔
آنکھ مچولی نے اس موقع پر نظموں کا بھی عمدہ انتخاب شائع کیا۔ جن میں خادم ہوںوطن کا، میرا وطن ، شعلۂ آزادی، میں تو ماتا بھاگ آیا، وطن عظیم ہیاور نذرِ اہل وطن جیسی پیاری نظمیں شامل تھیں۱۰۔
یہ نظمیں،کہانیاں اور مضامین بچوں کے جذبات کو مہمیز بخشتے ہیں۔ ان جذبوں کو لے کر وہ جوان ہوتے ہیں اور مرتے دَم تک وطن سے وفاداری کا دَم بھرتے ہیں۔ نصابی سر گرمیاں اور درسی کتابیں بھی یہ کام کرتی ہیں لیکن اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ رسائل اور کہانیاں پڑھنے والا بچہ صرف وطن سے محبت کا دَم نہیں بھرتا بلکہ وہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے بھی پر عزم ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان تحریروں میں کوئی ادبی چاشنی موجود نہیں ہے اور صرف مقصدیت گھول کر تحریر تخلیق کی گئی ہے۔ ان تحریروں میں اَدبی پہلوئوں اور بچوں کے ذوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ تحریروں میں دل چسپی کو فوقیت دی گئی ہے۔ اسی شمارے میں شائع ہونے والی اس نظم کو دیکھیے جس میں شاعر نے کس عمدگی کے ساتھ ایک دوسرا زاویہ پیش کیا ہے۔
’مسعود انور شفقی‘ اپنی نظم میں تو ماتا بھاگ آیا میں کہتے ہیں:

کیا بتائوں تجھ کو حالت جنگ کے میدان کی
فکر ہر ایک کو لگی تھی اپنی جان کی
میرا پیچھا کر رہی تھی فوج پاکستان کی

میں تھا کب واقف لڑائی کے انوکھے ڈھنگ سے
اس لیے میں بھاگ آیا ہوں محاذ جنگ سے

ان کا لشکر تھا کہ کوئی لشکر جرار تھا
مورچہ ہر ایک ان کا چین کی دیوار تھا
ہر سپاہی لڑنے مرنے کے لیے تیار تھا

ان سے لڑنا اصل میں سر پھوڑنا تھا سنگ سے
میں تو ماتا بھاگ آیا ہوں محاذ جنگ سے

پھر نہ لوں گا بھول کر بھی جنگ پر جانے کا نام
یہ کسی صورت نہیں ہے اب ہمارے بس کا کام
بیٹھ کر آرام سے گھر میں کروں گا رام رام

ایشور محفوظ رکھے دشمنوں کے ہنگ سے
اس لیے میں بھاگ آیا ہوں محاذ جنگ سے۱۱

اس نظم میں ادبی چاشنی موجودہے، طنز ہے، دشمن کی بزدلی کا تمسخر اُڑایا گیا ہے۔ویسے تو تمسخر اُڑانا ایک بُری بات سمجھی جاتی ہے لیکن ملک کے دشمن کے حوصلے پست رکھنے کے لیے ان پر نفسیاتی دباؤ اسی طرح سے ڈالا جاتا ہے۔
اسی طرح شاہنواز فاروقی کی کہانی ببلو پٹاخہ عرف پاکستانی اپنے اسلوب ، اپنی دل چسپی اور اپنے منفرد خیال کی وجہ سے اس خاص نمبر کی بہترین کہانیوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ اس میں ببلو نامی ایک ایسے لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو پاکستان سے اتنی شدت سے محبت کرتا ہے کہ ملک میں ہونے والے ہنگاموں، بدامنی کے باعث اس کا دماغ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوجاتاہے جو کہ دماغ پر غیر معمولی دبائو ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ قومیت کے نام پر ہونے والے دنگوں سے ببلو بہت پریشان ہوتا ہے اور یہ پریشانی اس وقت سامنے آتی ہے جب اسکول میں کوئی استاد ببلو سے کسی قسم کا سوال پوچھ لے۔ اس لیے اساتذہ اس کے سامنے کسی قسم کا سوال پوچھنے سے گریز کرتے تھے۔ ایک دن نئے نئے آئے ایک استاد نے پڑوس کے حقوق کے حوالے سے گفتگو کرنے کے بعد بچوں سے کچھ اس قسم کا سوال پوچھا:’’ہاں تو بچوں ہمیں اپنے پڑوس کا کیوں خیال رکھنا چاہیے؟‘‘
بچوں نے بڑے اچھے جوابات دیے، استاد نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے، ببلو سے بھی پوچھ لیا۔ ببلو کا جواب کچھ یوں تھا: ’’ہمیں اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کرنی چاہیے۔‘‘ پوری کلاس اس بات پر حیران تھی کہ ببلو نے اتنا مثبت تبصرہ کیسے کر لیا لیکن اگلے ہی لمحے ببلو کی آواز گونجی۔
’’ہمیں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہاجر ہیں یا سندھی، پنجابی ہیں یا پٹھان تاکہ اگر فساد ہو تو ہم بروقت ان کو ہلاک کرسکیں۔‘‘ اس بات پر نئے ماسٹر صاحب حیرت سے منھ کھولے ببلو کو دیکھ رہے تھے۱۲۔
وطن سے محبت کا حقیقی جذبہ اس کہانی میں ہمیں ملتا ہے۔ آنکھ مچولی کے اس پورے شمارے میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشارکہانیاں ،نظمیں ملتی ہیں۔
اگست ۱۹۹۳ء میں بھی آنکھ مچولی نے یومِ آزادی پر خصوصی شمارہ شائع کیا۔اس شمارے کے مشمولات پر مدیران کی محنت نظر آتی ہے۔
اس خاص نمبر میں شائع شدہ مضمون کیا بات ہے اپنے قائد کی میں ’پروفیسر زکریا ساجد‘ نے قائد کے حوالے سے بہت اچھی یادوں کا تبادلہ کیا۔ اس مضمون کے ذریعے بچوں کو بانی پاکستان کی ہمت وجرأت سے آگاہ کیا گیا۱۴۔
’نائلہ صدیقی‘ نے ہم ایک ہیں میں ایک قوم ہونے کا تاثر دیا۱۵۔
’عبد القادر ‘نے ایک پرندے تو تے کی مدد سے آزادی کا پیغام دیا کہ توتے کو طرح طرح کی چیزیں بے شک کھلائو لیکن آزادی ایک ایسی چیز ہے جس پر جانور بھی اپنی آسائش قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۱۶۔
’طلعت سیما صدیقی‘ بھی لوٹ کے بدھو گھر کو آئے میں ایک ایسے خاندان کا ذکر کرتی ہیں جو بمشکل پاکستان میں رہ رہے تھے اور پھر جیسے ہی موقع ملا وہ دوبارہ باہر چلے گئے۔ پاکستان کی کوئی بات اُنھیں پسند نہ تھی۔لیکن مشرقی وسطیٰ میں چھڑی گئی جنگ کے بعد جب اِنھیں اچانک واپس آناپڑا تو پاکستان کو اپنا گھر قراد دے دیا کہ مشکل وقت میں بندہ اپنے گھر ہی آتا ہے۱۷۔
اس پورے شمارے کے علاوہ سال بھر شائع ہونے والے تمام شماروں میں ہمیں وطن سے متعلق تمام قسم کی تحریریں ملتی ہیں۔ خصوصاً مارچ، اگست، نومبر، دسمبر کے مہینوں میں بالترتیب قرار داد پاکستان، تحریک پاکستان ،علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒسے متعلق مضامین، کہانیاں شائع کی جاتی ہیں۔ شعرا خصوصی نظمیںاورگیت لکھتے ہیں۔
۱۴ ؍اگست کو پاکستان کی آزادی کا جشن منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پورے اگست میں اخبارات، رسائل خصوصی ضمیمیے شائع کرتے ہیں۔ تحریک پاکستان کا رقت آمیز تذکرہ کیا جاتا ہے۔ داستانیں سنائی جاتی ہیں، انھیں سینہ در سینہ منتقل کیا جاتا ہے اور جب یہ کہانیاں ایک دوسرے کو سنائی جاتی ہیں تو بچے ان واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان واقعات کو سنتے سنتے وہ بڑے ہوتے ہیں۔ وہ گزرے ہوئے حالات کو بھول نہیں پاتے اور اسی درد کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے رسائل یہ کام بخوبی کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ناشران پاکستان سے محبت والفت پیدا کرنے کے لیے مختلف ناولز اور کتابیں بھی شائع کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ ساری چیزیں مل کر آنے والی نسلوں کو پاکستان سے نظریاتی اور جذباتی انداز سے جوڑے رکھتی ہیں اور ان سب میں مذہب وہ طاقت ور قوت ہے جو فرد کو وطن کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ہم آنے والی سطور میں اسی مذہبی فیکٹر کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

مذہبی اثرات:

بچہ اس دنیا میں آنے کے ساتھ ہی مذہب سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ خصوصا ًمسلمانوں میں بچے کی پیدائش کے موقع پر اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اسی طرح عیسائیوں میں بچوں کو پادری کے ذریعے پانی میں غوطہ لگوایا جاتا ہے۔ جب کہ ہندومذہب کے مطابق بچے کے کان میں گرو، گائتری منتر پڑھتے ہیں۱۸۔
اس طرح مختلف مذاہب میں ابتدا ہی میں بچے کو مذہب سے جوڑ نے کی ابتدا کی جاتی ہے اور اسے مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔
مسلمانوں میں پہلے پہل قاعدہ اور پھر قرآن کریم کی تعلیم بچے کو مذہب سے قریب کرتی ہے۔
مذہب سے بچے کی قربت بچے کو بااخلاق بنانے، سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے برائیوں سے نفرت اور اچھے کاموں کو کارِ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ بچپن میں اچھائی کا جذبہ بچوں میں غالب رہتا ہے۔ بچوں کے رسائل بھی اپنے رسائل میں ایسی اسلامی کہانیاں، مضامین یا پھرحمد ونعت شائع کرتے ہیں جس سے بچہ مذہب کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسلامی کہانیوں میں عموماً قصص الانبیا، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اور بزرگان دین کے واقعات بچوں کے لیے مفید سمجھ کر اُنھیں مختلف انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
انبیا سے متعلق واقعات قرآن مجید میں ہمیں جابجا نظر آتے ہیں۔ ان واقعات کو اُردو زبان میں ہمارے ادبابچوں کے لیے دلچسپ بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ نئی نسل ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔ ایک خدا کی عبادت کریں اور راستی پر قائم رہیں۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کو بڑی تفصیل کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے لوگوں نے مختلف انداز سے عمدہ طریقوں سے بیان کیا ہے۔ سیرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو بھی ہمہ گیر ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بچوں کے لیے ان واقعات کو منتخب کرنا جو انھیں احساس کے جذبے سے مالا مال کریں۔ اُنھیں ادب واحترام، اطاعت، جرأت وبہادری، مقصد کے لیے یکسوئی جیسے معاملات سے آراستہ کریں۔
صحابہ کرام رضی الہ عنہما اور بزرگانِ دین کے علم اور حلم کو یوں بیان کرنا کہ بچے ان واقعات سے اخلاق کی تعلیم حاصل کریں۔ ہمارے ادیبوں نے بچوں کے اس شعبے میں بے شمار تحریریں لکھیں۔
اسی طرح بچوں میں توحید اور حب الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُجاگر کرنے کے لیے حمد اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعرا نے لکھیں۔ ان حمدیہ اشعار اور نعتوں کو بچے پڑھتے ہیں، عقیدت محسوس کرتے ہیں، خوش ہوتے ہیں، لُطف اُٹھاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ لیکن بچے توحید کا سبق بچپن ہی سے یاد کر لیتے ہیں اور ایسا یاد رہتا ہے کہ زندگی بھر ایک واحد رب غفار کی حمد گنگناتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مذہبی تحریریں سپاٹ اور خشک قسم کی ہوتی ہیں بلکہ یہ ادیب پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ بچے کو تحریر سے جوڑنے کے لیے کیسا اُسلوب اختیار کرتا ہے۔ ایک منجھا ہوا اَدیب عموماً اپنے اُسلوب بیان کی وجہ سے خشک سے خشک موضوع کو بھی دل چسپ بنانے کا گر جانتا ہے لیکن مذہب سے جڑی روایات، حکایات اتنی دل چسپ ہوتی ہیں کہ وہ کسی بھی قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر جنت سے دنیا میں بھیجے جانے تک، دنیا میں پہلے انسان کے قتل سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بنانے کے عمل تک کون سا ایسا لمحہ ہوگا جب کوئی ان واقعات کو سنتے یا پڑھتے ہوئے پلک بھی جھپکنے کا روادار ہو۱۹۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے جنوں اور ملکہ سبا کے قصے میں کیسی ہیبت ہے کہ بچے اسے سن کر مسحور نہ ہو۲۰۔
حضرت یونس علیہ السلام اور مچھلی کا واقعہ بچوں کو حیرت میں مبتلا کرتا ہے۲۱۔ وہیں یہ واقعات بچوں اور بڑوں کو خدا سے جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اُنھیںخداکی ذات پر یقین آجاتا ہے۔ اس یقین کو پختہ کرنے کے لیے اس قسم کے واقعات کو بچپن ہی سے بچوں کو سنانے یا بتانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بچوں کے رسائل نے کم وبیش اپنے تمام شماروں میں اسلامی واقعات کو کہانیوں، مضامین اور نظموں کی صورت میں پیش کیا ہے، ۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء تک شائع ہونے والے بچوں کے تقریباً تمام رسائل ابتدا میں حمد، نعت یاپھر کوئی اسلامی حکایت شائع کرتے تھے۔
اس وقت کے رسائل کا مطالعے کریں تو پتا چلتا ہے کہ اچھی بات، آنکھ مچولی میں شائع ہونے والی سب سے پہلی تحریر ہوتی تھی۲۲۔ اس سلسلے میں کسی ایک حکایت کو بیان کیا جاتا ہے، عموماً حکایت سعدی اس سلسلے کا حصہ بنتی تھی۔ یہ چھوٹی چھوٹی حکایات عموماً بڑی بڑی کہانیوں سے زیادہ دلچسپ اور اثر انداز ہونے والی ہوتی ہیں۔ اُردو کے بیشتر رسائل اس طرح کی حکایات سے بچوں اور بڑوں کی تربیت کا سامان کرتے ہیں۔
اسی طرح آنکھ مچولی ہی کا ایک دوسرا سلسلہ نشان عظمت ، رسالے کا ابتدائی حصے میں شائع ہوتا تھا۔ حکایت والے سلسلے کے بعد اس نام سے سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس میں کسی واقعے یا پُر اثر قسم کی بات ہوتی۔ بعد میں اس سلسلے کو سنہرے حروف ، تاریخ کے دریچوں سے بھی شائع کیا جاتا رہا ہے۔عموماً رسائل ابتدا میں حمدونعت یا قرآن وحدیث شائع کرتے ہیں۔ آنکھ مچولی نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کی غرض سے سلسلے کا آغاز کیا تھا۲۳۔
ماہنامہ ساتھی، القرآن کے نام سے ابتدا میں اس مہینے کی مناسبت سے یا پھر کوئی عمومی آیت شائع کرتا تھا۲۴۔ یہ رسالے کا دوسرا صفحہ ہوتا تھا۔ بعد میں القرآن کے علاوہ، سرچشمۂ ہدایت۲۵، خوشبو۲۶، اچھی باتیںسچی باتیں۲۷، باتوں سے خوشبو آئے۲۸، مشعل ِراہ۲۹ کے سلسلے شروع کیے گئے۔
سرچشمۂ ہدایت میں کوئی حدیث بیان کرنے کے ساتھ بچوں کو سمجھانے کے لیے اس کی تشریح کردی جاتی تھی۔اسی طرح خوشبو، اچھی باتیں سچی باتیںاور مشعل ِ راہ میں کوئی حدیث یا قرآن کی آیت اور اس کی تشریح بیان کی جاتی تھی جب کہ باتوں سے خوشبو آئے میں کوئی حدیث بیان کی جاتی تھی اور ان احادیث پر اشعار شائع کیے جاتے تھے۔
تعلیم وتربیت بچوں میں اسلامی جذبے کو فروغ دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سے رسالے کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا۳۰۔ اس میں قرآن کی مختلف آیتوں کا ترجمہ دیا جاتا جب کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مختلف مختصر احادیث پیش کی جاتی تھیں۳۱۔ یہ سلسلے احکام الٰہی کے نام سے مقبول انور داؤدی بھی تحریر کیا کرتے تھے۳۲۔ حمد اور نعت کو بھی تعلیم وتربیت کا مستقل سلسلہ قرار دیا جاسکتا ہے۳۳۔ ابتدائی قرآن وحدیث کے بعد حمد یا پھر نعت رسالے کی زینت بنتی تھی۔
روشنی کا سلسلہ بھی رسالے کے ابتدا میں جولائی ۱۹۸۴ء کے شمارے میں شائع ہوا۳۴۔ یہ اور اوپر بیان کیے گئے سلسلے مختلف اوقات میں تعلیم وتربیت کا حصہ رہے۔ روشنی میں تربیت کی غرض سے اسلامی واقعات کو بیان کیا جاتا تھا، تاکہ بچوں میں بھی وہ اوصاف پیدا ہوسکیں جو ہمارے اسلاف میں پائی جاتی تھیں۔
اسی طرح ہم کسی ایک رسالے کے سال بھر کا جائزہ لیں تو کم وبیش ہر ماہ مذہبی تعلیمات کا کوئی نا کوئی حصہ موجود ضرور ہوگا۔ آنکھ مچولی کے سال ۱۹۹۰ء کے تمام شماروں کے جائزے میںہر ماہ ہمیں بچوں میں مذہبی اقدار کے فروغ کے لیے مختلف چیزیں شامل اشاعت ملتی ہیں۔ جنوری ۱۹۹۰ء کے شمارے میں خوف ناک نمبر شائع ہوا، اس نمبر کی مناسبت سے روز قیامت کے نام سے نور احمد شیخ کی نظم شائع کی گئی تھی۳۵۔
فروری ۱۹۹۰ء میں شاہ نواز فاروقی کی نعت شائع کی گئی ہے۔ مختصر مصرعوں پر مشتمل اس نعت میں بچوں کو سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے۳۶۔
مارچ ۱۹۹۰ ء میں تاریخ کے دریچے سے کے نام فضیل بن عیاض کا ذکر موجود ہے جب وہ عرفات کے میدان میں لوگوں کے ہجوم کو توبہ واستغفار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اللہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
’’اے اللہ اگر اتنا بڑا ہجوم کسی بخیل کے دَر پر کھڑے ہوکر اسی عجز اور درد وسوز سے گڑ گڑائے تو وہ بھی انھیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا اور تو جو الرحیم والرحمان اور رحمت مجسم ہے، انھیں کس طرح اپنی عنایتوں اور اپنے کرم سے محروم رکھے گا۳۷۔
بچوں کو یہ بتانا کہ مانگنے کا سلیقہ کیا ہے؟ بہت ضروری ہے اور یہ کام بچوں کو ابتدا ہی میں سکھایا جانا چاہیے اور سکھایا جاتا بھی ہے۔ بچپن میں اللہ سے مانگنے کے سکھائے گئے ان دعاؤوں کے اثرات بچوں میں بڑے نظرآتے ہیںکہ ان کے مانگنے میں ایک سلیقہ آجاتا ہے اور ادب وآداب سے نا آشنا جنھیں مانگنے کا سلیقہ بھی نہ آئے تو وہ اس معاملے میں بھی لطیفے کر جاتے ہیں۔
اپریل ۱۹۹۰ء میں محمد جاوید خالد کی نعت وہ ہادی وہ رہبر شائع کی گئی تھی۳۸۔ اسی طرح تاریخ کے دریچے سے والے سلسلے میں ’بو علی سینا‘ کاواقعہ درج کیا گیا ہے۳۹۔
ساجد سعید کا مضمون روزہ بچوں میں اس مذہبی تہوار سے متعلق معلومات فراہم کررہا تھا۴۰۔
مئی ۱۹۹۰ء کے آنکھ مچولی میں مسلمانوں کے سب سے بڑے تہوار عیدالفطر کو ’شبیر بیگ ناز‘ نے نظم کی صورت بیان کر کے اس دن کی منظر کشی کی ہے۴۱۔
جون ۱۹۹۰ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے نام سے معروف ادیب وشاعر سید نظر زیدی کی نعت شامل اشاعت ہے۴۲۔ اسی طرح عنایت علی خان نے گواہی کے نام سے بڑھیاوالے مشہور واقعے کو بیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفوودرگزر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک بڑھیا آپ کو ستاتی تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے ان سے شفقت کا برتائو کیا۴۳۔
جولائی ۱۹۹۰ء میں عبیداللہ اظہر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ اس مضمون میں ان کے ڈھائی سالہ دور کی خصوصیات کو بیان کیا گیا۔ عمر بن عبد العزیزؒ اُمت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کی کہانی اتنی ڈرامائی ہے کہ بچوں کا عزم وحوصلہ اس کہانی کو پڑھ کر بڑھتا ہے۔ اصلاح احوال کی خواہش بچوں میں سراُٹھانے لگتی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکی زندگی کے ہمہ گیر اثرات کہانیوں اور واقعات کے ذریعے بچوں میں ہمارے ادیب منتقل کرتے رہتے ہیں۴۴۔
اگست ۱۹۹۰ء میں تاریخ کے دریچے سے حضرت ابراہیم ادھم کا واقعہ بچوں کے جذبہ اسلامی کو مہمیز بخشتا ہے۴۵۔ اسی شمارے میں درویش گورنر کے نام سے ڈاکٹر عبدالرحمن پاشاکی تحریر شائع ہوئی۔ جسے عربی سے زبیر طارق نے منتقل کیا تھا۔ حضرت خبیب ؓ بن عدی کا واقعہ جس دلسوزی سے بیان کیا گیاہے۔ وہ برسوں تک بھولنے والا نہیں۔ یہ تاثر جب بچوں میں منتقل ہوتا ہے وہ اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے۴۶۔
اکتوبر ۱۹۹۰ء میں شاہ نواز فاروقی نے نعت لکھی۴۷۔
جب کہ عاصم سفیر نے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مضمون تحریر کیا۴۸۔
نومبر ۱۹۹۰ء میں حافظ بشیر آزاد کی حمد بچوں کو توحید کا پیغام دے رہی ہے۴۹۔
دسمبر ۱۹۹۰ء میں حافظ بشیر آزاد کی نعت شائع ہوئی۵۰ جب کہ اس شمارے میں عبیداللہ اظہر نے جب پہاڑلرز اٹھے کے نام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ بیان کیا۵۱۔جس میں وہ رعایا کی خبر گیری کرتے ہیں اور ایک بڑھیا کی مدد کرتے ہیں۔وہ بڑھیااپنے بچوں کے لیے کنکریاں پکاکر اُنھیں دلاسہ دیتی ہے کہ ان کے لیے کھانا پک رہا ہے۔ یہ واقعہ مصنف نے کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے قاری کے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسے پڑھ کر جہاں اسلاف سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے وہیں رعایا کی خبر گیری سے متعلق حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہوتا ہے اور جب یہ بچے بڑے ہو کر کسی عہدے پر پہنچتے ہیں تو یہ واقعات انھیں دیانت دار رکھنے میں معائون ثابت ہوتے ہیں۔

زبان پر اثرات:

بچہ ڈیڑھ یا دو سال میں جب بولنا شروع کرتا ہے تو روز وہ نئے الفاظ سیکھتا ہے۔ گھر میں ہونے والی گفتگو اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مطالعہ کی کمی کو بہت شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔ مطالعے کی اس کمی کی وجہ سے گھروں میں بولی جانے والی اُردو بہت محدود ہوگئی ہے۔ اس کا اثر بچے پر بھی پڑا ہے اور وہ ایک بہترین زبان کے مختصر سے حصے پر ہی اپنی زندگی گزارتا ہے۔ بہ نسبت ان لوگوں کے جو مطالعہ کر تے ہیں اور وسیع الفاظ کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔
بچوں کی درسی کتابوں کی زبان بھی بہت محدود ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جب بچے مختلف رسائل اور کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
رسائل میں شائع ہونے والی متنوع کہانیاں، مضامین اور خصوصاً نظمیں جہاں اُنھیں نئے نئے الفاظ سے روشناس کرواتے ہیں وہیں ان کا تلفظ بھی ٹھیک ہوتا رہتا ہے۔بہت سارے رسائل یہ کام بھی کرتے ہیں کہ وہ رسائل میں مشکل الفاظ کے معنی بھی دیتے ہیں اور مشکل الفاظ پر اَعراب لگانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے، جس سے بچے نئے لفظوں سے مانوس ہوجاتے ہیں۔
فی زمانہ ہم ذخیرہ الفاظ کی کمی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اپنا مدعا یا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے عموماً مناسب اور معقول الفاظ نہیں ملتے۔ ان سب چیزوں کی اہم وجہ مطالعے کی کمی ہے ۔یہ مطالعہ جہاں ایک عام فرد کا مسئلہ ہے وہیں صاحب کتاب اصحاب بھی مطالعے کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں جس کے باعث ان کی تحریروں میں ہمیں محدود الفاظ کا اعادہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان بچوں میں مطالعے کی ویسی کمی نہیں تھی جیسے آج کے دور میں نظر آتی ہے ۔ اس وقت بچوں کے رسائل بڑی تعداد میں شائع ہوتے تھے۔ رسائل میں شائع ہونے والی زبان آج کے دور کے حساب سے مشکل ہونے کے باوجود سمجھ آتی تھی۔اس دور میں شائع ہونے والی کہانیوں کا مطالعہ کرکے اس کی زبان وبیان کا جائزہ لیتے ہیں کہ آج سے بیس برس قبل زبان میں کس قدر فرق آیا ہے۔
آج کے دور میں ٹیلی وژن ایک عام سی چیز بن گئی ہے لیکن ۱۹۸۸ء میں یہ ٹیلی وژن ایک انوکھی چیز تھی۔ جسے صرف بچے ہی کیا، بڑے بھی حیرت سے دیکھا کرتے تھے کہ اس ڈبے میں متحرک تصاویر کیسے نظر آرہی ہیں۔ اس موضوع پر سعید لخت کا مضمون دیکھیے:

یہ عجیب اور مفید آلہ سکاٹ لینڈ کے ایک شخص ’جان لوگی بیئرڈ‘ نے آج سے تقریباً ۶۰ سال پہلے ایجاد کیا تھا۔ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں زیادہ ٹھنڈ نہ ہو۔ چناںچہ وہ سکاٹ لینڈ سے انگلینڈ آگیا اور ایک ساحلی شہر ہیٹنگز میں رہنے لگا۔ اسے فوٹو گرافی اور ٹیلی فون کا بہت شوق تھا اور ان پر طرح طرح کا تجربے کرتا رہتا تھا۔ایک دن بیئرڈ سمندر کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ اس کے کانوں میں گانے کی آواز آئی۔ اُس نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا تو پتا چلا کے پاس ہی ایک ہوٹل میں ریڈیو بج رہا ہے۔ اُس نے سوچا کہ ہوا کی لہروں پر آواز کتنی دُور چلی جاتی ہے! کیا اِن لہروں پر تصویر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتی؟
اُس نے ایک صندوق، کپڑا سینے کی چند سُوئیاں، بسکٹوں کے خالی ڈبے، سائیکل کے لیمپ کا شیشہ، کچھ بیٹریاں، بجلی کی تار اور بہت سا موم اِکھٹا کیا۔ اس کے بعد بجلی سے چلنے والی ایک موٹر خریدی اور اِس سامان کو لے کر ایک کمرے میں بند ہوگیا۔
ایک عرصے تک وہ دن رات، اسی کمر ے میں بند تجربے کرتا رہا۔ اس نے دوسرے کمرے میں ایک پردہ لگا رکھا تھا، وہ اس پردے پر تصویر لانا چاہتا تھا۔ آخر کار پردے پر تصویر آگئی لیکن وہ کچھ زیادہ صاف نہ تھی۔ اس پر بیئرڈ نے زیادہ روشنی استعمال کر نے کی سوچی اور اس نے ایک ہزار بیٹریاں خرید لیں لیکن اسی دوران میں اسے مالک مکان نے نکال دیا اور وہ ہیٹنگز سے بددل ہو کر لندن آگیا۔ یہاں اس نے بڑا سا مکان کرائے پر لیا۔ ایک کمرے میں اس نے اسٹوڈیو بنایا اور دوسرے کمرے میں ٹی وی سیٹ رکھا، جو بہت بے ڈھنگا اور بھدّا تھا۔ اس کے آگے پردہ لگا ہوا تھا جب اُس نے اسٹوڈیو میں ٹی وی مشین کے آگے گڑیا رکھ کر مشین چلائی تو گڑیا کا عکس دوسرے کمرے میں لگے پردے پر آگیا۔ یہ عکس بہت صاف اور واضح تھا۔ بیئرڈ خوشی سے ناچ اُٹھا۔ اب اُس نے ایک لڑکے کو مشین کے سامنے کھڑا کیا اور اُس پر تیز روشنی ڈالی۔ لڑکے کی تصویر بھی پردے پر آگئی! یہ ۱۹۲۶ء کی بات ہے۵۲۔

اس مضمون میں اُردو زبان کے علاوہ انگریزی اصطلاحات کو ویسے ہی استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاًفوٹو گرافی، بیٹریاں، سائیکل، موٹر، اسٹوڈیو،ٹی وی سیٹ، مشین ۔ ان الفاظ کو آج بھی انھیں ناموں سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور یہ نام اُردوکا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ اب صرف انگریزی کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ اُردو کے بھی ذخیرہ الفاظ ہیں۔اس پوری عبارت میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو آج کے بچوں کو مشکل یا نامانوس لگے۔ اس مضمون کی ایک خوبی یہ ہے کہ دقیق معلوماتی مضامین کو بھی سلیس اُردو میں پیش کیا جاسکتا ہے۔بچوں کے بڑے ادیبوں نے بچوں کے لیے جو بھی مضامین تحریر کیے وہ آسان اور سادہ طریقے سے بیان کیے جس سے مضمون باآسانی سمجھ آجاتا تھا۔
سعید لخت ہی کی ایک کہانی منشی منقّٰی نے شیر مارا کا اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ یاد رہے کہ یہ کہانی اکتوبر ۱۹۷۴ء کے تعلیم وتربیت میں شائع ہوئی تھی۔

شیر چند سیکنڈ بکرے کو دیکھتا رہا۔ پھر بڑے مزے سے جمائیاں لیتا ہوا اس درخت کی طرف بڑھا جس پر منشی منقّٰی بیٹھے تھے۔ ابھی وہ درخت سے چند گز کے فاصلے پر تھا کہ دھم کی آواز آئی۔ منشی منقّٰی درخت سے لڑھک کر زمین پر گر پڑے تھے۔میں اس وقت کا منظر بیان نہیں کرسکتا۔ شیر غصے سے دُم ہلارہا تھا اور اس سے دس بارہ گز کے فاصلے پر منشی منقّٰی چھتری ہاتھ میں لیے مٹک مٹک کر اسے دھمکا رہے تھے۔’’دھت دھت۔ ابے دھت!‘‘ اُنھوں نے چھتری شیر کی طرف اس طرح تان رکھی تھی جیسے وہ کوئی بندوق ہو۔
منشی جی کبھی دایاں پیر زمین پر مارتے اور کبھی بایاں۔ کبھی کولھے مٹکاتے تو کبھی گردن۔ اس دوران میں ان کی چھتری کا رُخ شیر کی طرف رہا اور وہ منھ سے ’’دھت دھت‘‘ کی آوازیں بھی نکالتے رہے۔
شیر پندرہ بیس سیکنڈ خاموش کھڑا دُم ہلاتا رہا۔ وہ شاید یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ منشی منقّٰی کون سا رقص کررہے ہیں؟ بھنگڑا، لُڈّی یا خٹک؟ منشی جی اسی طرح دھت دھت کرتے اور پینترے بدلتے بکرے کے پاس پہنچ گئے۔ بکرے کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ اس نے گردن جھکا کر ٹکر جو ماری تو منشی جی پانچ فٹ اُوپر اچھل پڑے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کمر بند ٹوٹ گیا۔ اب وہ ایک ہاتھ سے پاجامہ پکڑے ہوئے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھتری۔ ساتھ ہی ’’دھت دھت ابے دھت‘‘ کیے جارہے تھے ۔ اگر چچا جان میری کوکھ میں کہنی نہ مارتے تو میری ہنسی نکل گئی ہوتی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیر اب منشی منقّٰی کے ناچ سے اُکتا گیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تو کھڑا دُم ہلاتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس کے منھ سے غوں غاں کی آواز بھی نکلی۔ پھر اُس نے اگلے پنجوں سے مٹی کریدی، پچھلی ٹانگیں سمیٹیں اور ایک خوف ناک چیخ مار کر منشی منقّٰی پر چھلانگ لگادی۔ منشی جی بھی غافل نہیں تھے۔ شیر ابھی آدھے ہی راستے میں تھا کہ اُنھوں نے کھٹاک سے چھتری کھولی اور اس کا رُخ شیر کی طرف کردیا۔
شیر نے ایسا خوف ناک ہتھیار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چھتری کے اچانک کھلنے اور اس کے کالے کپڑے سے وہ ایسا بوکھلایا کہ راستے ہی میں اُلٹی قلابازی لگائی اور دل ہلادینے والی چیخیں مارتا ہوا جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ اس کی پہلی دہاڑ ایک فرلانگ کے فاصلے پر سنائی دی، پھر دو فرلانگ پر اسی طرح دور ہوتے ہوتے بالکل غائب ہوگئی۵۳۔

اس کہانی میں ہمیں صرف چند الفاظ ایسے نظرآتے ہیں جو موجودہ قارئین کو مشکل لگ سکتے ہیں۔ مثلاً مٹک مٹک کر چلنا،بھنگڑا، لُڈّی یا خٹک،کمر بند،کوکھ، فرلانگ۔ یقینا اس وقت کے قارئین نے ان الفاظ کے ذریعے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کیا ہوگا۔
مٹک مٹک کر چلنا: یعنی ایک ناز سے اٹھلا کر چلنا۔
بھنگڑا، لُڈّی اور خٹک :پاکستان کے مقامی رقص کے نام ہیں۔
کمر بند: اسے ازار بند، ناڑا بھی کہتے ہیں جسے شلوار کے نیفے میں ڈال کر کمر کے گرد باندھا جاتا ہے۔
فرلانگ:۲۲۰ گز کے فاصلے کو ایک فرلانگ کہتے ہیں۔
یہ ایک تحریر کے مختصر سے حصے میں شامل ایسے الفاظ ہیں جسے پڑھ کر نا صرف بچے نئے الفاظ سے مانوس ہوتے ہیں وہیں ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس نسل نے ان کہانیوں سے استفادہ کیا ہوگا یقینا ان کی روز مرہ گفتگو پر اس کے اثرات پڑے ہوں گے۔
آج کے دور کے لحاظ سے یہ الفاظ اتنے مشکل نہیں ہیں لیکن چوں کہ مطالعے اور مشاہدے کی کمی اور انگریزی لفظوں کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ان معمولی اصطلاحات اور لفظوں سے نئے دور کے قارئین مشکل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے موجودہ دور کے ادبا بھی ان لفظوں کا استعمال قریب قریب ختم کرچکے اور کہانیوں میں ہمیں کم وبیش ۵۰۰ سے ۱۰۰۰؍ الفاظ کی تکرار نظرآتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے صحیح بھی ہے کہ بچوں کو آسان زبان میں پڑھنے کے لیے تحریریں دینی چاہیے تاکہ وہ باآسانی پڑھ سکیں لیکن اس کا دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں نئے لفظوں کا اضافہ ہونا بند ہوگیاحتیٰ کہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ بچے گنتی بھی اُردو میں پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ پہلے بچے اُنسٹھ، انہتر، اُناسی، نواسی میں اُلجھن محسوس کرتے تھے، اب حال یہ ہے کہ ۲۵ اور ۳۵ کو بھی انگریزی میںTwenty Five اور Thirty Five کہہ کر سمجھانا پڑتا ہے۔
ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی قاسم بن نظر کی کہانی جلی کٹی مرچیں کایہ حصہ دیکھیے:

اب خود ہی انصاف کیجیے، ہمارے جیسے اچھے بھلے تعلیم یافتہ انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کے وقت دو گلی پیچھے رہائش پذیر خالہ عشرت بذریعہ ٹیلی فون اپنے گھر میں مہمانوں کی ناگہانی آمد کی بروقت اطلاع دے کر فوری طور پر دو کلو مرغی، ڈھائی کلو چاول اور دو درجن کیلے اس کڑکتی دھوپ میں لانے کا آرڈر دیں۔
اب ہم نے خالہ عشرت کا حد درجہ لحاظ کرتے ہوئے ان کی فرمائش پوری کردی اور الٰہ دین کے جن کی طرح ان کے سامنے مطلوبہ سامان لے کر حاضر ہوگئے ۔ انہی نے ہم سے تھیلیاں لیں اور کیلے کی تھیلیاں کھولنے لگیں تو یہ جملہ ہمارے منھ سے پھسل پڑا: ’’ارے خالہ تکلف کی کیا ضرورت ہے، آپ کا حکم بجالانا تو ہمارا فرض ہے۔‘‘
خالہ عشرت ہمیں گھورتے ہوئے بولیں:
’’تو تکلف کون کررہا ہے، میں تو یہ دیکھ رہی تھی کہ تم راستے میں دو چار کیلے تو نہیں کھا گئے۔‘‘۵۴

ویسے تو اس تحریر میں کوئی مشکل لفظ نہیں ہے ، ناگہانی کا لفظ بھی عموماً بچوں کے علم میں نہیں ہوتا اور اس سے ایک نیا لفظ سیکھنے کو ملتا ہے۔بچوں کے تمام رسائل بچوں کی زبان وبیان بہتر بناتے تھے اور بڑے ادیب بچوں کو کئی نئے الفاظ سے ناصرف روشناس کراتے بلکہ ان لفظوں کے برتنے کا طریقہ بھی بتادیتے تھے۔
بچوں کے رسائل پڑھنے والے بچے اور نہ پڑھنے والے بچوں میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ جنھوں نے رسائل اور کتابیں پڑھیں اُن کی گفتگو میں اس کے اثرات نظر آتے ہیں ۔وہ نت نئے جملوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اپنا مدعا زیادہ اچھے انداز سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلاشبہ بچوں کے رسائل نے کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ رسائل پڑھنے والے وہ بچے جو اب بڑے ہوچکے ہیں، وہ اپنے ان بیتے دنوں کو یاد کرتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی بھی آئندہ آنے والی نسلیں ان چیزوں سے لطف اندوز ہو، ان کی تعلیم وتربیت ہوسکے۔ والدین اپنے بچوں کو کتاب اور رسائل سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں۔
اپنے بچپن کے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے راضیہ سید کہتی ہیں:

بچپن کی کئی یادیں باوجود کوشش کے انسان کے ذہن سے محو نہیں ہوتیں ان میںناخوشگوار اور اچھی دونوں طرح کی یادیں شامل ہوتی ہیں، تاہم خوشگوار یادیں مثبت رویوں کو جنم دیتی ہیں لہٰذا ان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں جب بھی اپنے ننھیال لاہور جایا کرتے تھے، ماموں اور خالہ سے بس یہی فرمائش ہوا کرتی تھی کہ ریلوے اسٹیشن پر لینے بھی آئیں تو کہانیوں کی کتابوں کے ساتھ۔
مزے کی بات یہ تھی کہ لاہور اسٹیشن اس وقت اتنا بارونق تو نہیں تھا لیکن کتابوں کے سٹالز کے حوالے سے ایک چلتا پھرتا کتب خانہ ہی معلوم ہوتا تھا۔ خیر ان رسالوں کی وجہ سے ہم تمام خالہ اور ماموں زاد بہن بھائیوں میں باقاعدہ جھگڑے ہوا کرتے تھے کہ پہلے مجھے ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ دو یا میں پہلے نونہال پڑھوں گی وغیرہ وغیرہ۔شاید اس لئے کہ ہم ان معصوم کہانیوں کے عادی ہو چلے تھے اور وہ دور ہی ایسا سادہ اور کھرا تھا۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈورا، جانی براوو اور پوگو کن بلا?ں کے نام ہیں؟ سیدھی سادی سی ایک تفریح اچھے اور معیاری رسالے پڑھ لینا یا سکول جانے سے قبل پی ٹی وی پر بچوں کے ہر دلعزیز میزبان جناب مستنصر حسین تارڑ کا وہی مخصوص انداز میں کہنا ٹون ٹون کارٹون اور وہی کارٹون ہم دیکھ لیا کرتے تھے واہ کیا مزے کی زندگی تھی ہماری ….۵۵
بچوں کے متعدد بڑے ادیبوں نے بھی بچپن میں پڑھے گئے رسائل کا ذکر کیا ہے کہ جنھوں نے ان کی زندگی پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ یہ اثرات ہمہ گیر ہیں۔ بچوں کے اخلاق، نظریات، تعلیم وتربیت، مذہب پر ان کے اثرات واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔

حوالہ وحواشی:

۱۔ دیکھیے ویب گاہ:https://www.euppublishing.com/toc/ircl/15/1
۲۔ بشیر احمد، سید، نومبر ۱۹۸۶ئ، سچ کا انعام، مشمولہ:’ آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۵
۳۔ سعید، حمیرا، فروری ۱۹۹۰ئ، دو سوال،مشمولہ: ’تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، ص ۴۰
۴۔ جعفری، سید کاشان، جنوری ۲۰۲۰ئ، جلد بازی، مشمولہ: ’جیتے گا بھئی جیتے گا‘، ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور، ص۲۸
۵۔ بن یامین، نومبر ۲۰۰۷ئ، معافی، مشمولہ:’ماہنامہ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۶۴
۶۔ شفائی،قتیل،اگست ۱۹۹۰ئ، پرچم اُٹھاؤ، مشمولہ: ’ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور،ص۱۳
۷۔ ضیا، ضیاء الحسن، اگست ۱۹۹۹ئ، وطن کے لیے، مشمولہ: ’تعلیم وتربیت‘ ، فیروز سنز،لاہور، ص ۲
۸۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، اگست ۱۹۹۷ئ،فیروز سنز، لاہور،ص ۸
۹۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ ، اگست ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۳
۱۰۔ ایضاً، ص۳۶
۱۱۔ شفقی، مسعود انور، اگست ۱۹۹۰ئ، میں تو ماتا بھاگ آیا، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘ ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی ،ص ۱۷۴
۱۲۔ فاروقی، شاہ نواز، اگست ۱۹۹۰ئ، ببلو پٹاخہ عرف پاکستانی، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، کراچی، ص۱۸۶
۱۳۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، اگست ۱۹۹۳ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص۱
۱۴۔ ساجد، زکریا، پروفیسر، اگست ۱۹۹۳ئ، کیا بات ہے اپنے قائد، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص۱۵
۱۵۔ صدیقی، نائلہ، اگست ۱۹۹۳ئ، ہم ایک ہیں، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص۲۰
۱۶۔ عبدالقادر، اگست ۱۹۹۳ئ، ہم ایک ہیں، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی،ص۲۰
۱۷۔ صدیقی، طلعت سیما، اگست ۱۹۹۳ئ، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۳۲
۱۸۔ کمار، رمیش، جنوری ۲۰۲۱ئ، ایک ملاقات ان کے ساتھ، مملوکہ، انٹرویو، اعظم طارق کوہستانی، کراچی، ص۱۲
۱۹۔ سورۃ البقرۃ،آیت ۳۱
۲۰۔ سورۃ ص، آیت ۳۰
۲۱۔ سورۃ یونس،آیت ۸
۲۲۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ ، جولائی۱۹۸۶ئ، اچھی بات، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۴
۲۳۔ ___________، اگست۱۹۸۸ئ،مشمولہ:نشان عظمت، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۶
۲۴۔ ساتھی، ماہنامہ، اپریل۱۹۹۰ء ، القرآن،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی ، ص۲
۲۵۔ ________،اپریل۱۹۹۴ء ، سرچشمۂ ہدایت،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲،
۲۶۔ ________،جنوری۱۹۹۹ء ، خوشبو،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۲۷۔ ________،اکتوبر۱۹۹۴ء ، اچھی باتیںسچی باتیں،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۱
۲۸۔ ________،دسمبر۱۹۹۴ء ، باتوں سے خوشبو آئے،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۴
۲۹۔ ________،دسمبر ۱۹۹۲ء ،مشمولہ: مشعل ِراہ،ساتھی پبلی کیشنز، کراچی، ص۲
۳۰۔ تعلیم وتربیت، ماہنامہ، ستمبر ۱۹۸۳ء ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، فیروز سنز ، لاہور، ص۴
۳۱۔ ___________، ستمبر ۱۹۸۳ء ،ہمارے نبیؐ نے فرمایا ، فیروز سنز، لاہور، ص۴
۳۲۔ دائودی ، مقبول، انور، جولائی۱۹۷۸ئ، احکام الٰہی،مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور، ص۳
۳۳۔ تعلیم وتربیت،ماہنامہ، ستمبر ۱۹۸۲ء ،’حمد، نعت‘ ، فیروز سنز ، لاہور، ص۵
۳۴۔ ___________،جولائی ۱۹۸۴ئ، ’روشنی‘،مشمولہ: ’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، فیروز سنز، لاہور، ص۴
۳۵۔ شیخ، نور احمد، جنوری۱۹۹۰ئ، روز قیامت ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۳۶۔ فاروقی، شاہ نواز، جنوری۱۹۹۰ئ، نعت ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۳۷۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، مارچ ۱۹۹۰ئ، ’تاریخ کے دریچے سے‘ ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۳۸۔ خالد، محمد جاوید، اپریل۱۹۹۰ئ، وہ ہادی وہ رہبر ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۳۹۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ،مارچ ۱۹۹۰ئ، ’تاریخ کے دریچے سے‘ ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۳
۴۰۔ سعید، ساجد، اپریل۱۹۹۰ئ، روزہ ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۷۱
۴۱۔ ناز، شبیر بیگ، مئی۱۹۹۰ئ، عیدالفطر ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۳۸
۴۲۔ زیدی، سیدنظر، جون۱۹۹۰ئ، نعت ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۴۳۔ خان، عنایت علی، جون۱۹۹۰ئ، گواہی ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، ص۱۶؛ یہ واقعہ ہمیں مختلف کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں
اس واقعے کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ اسے پچھلے ۱۰۰ برس کے دوران گھڑا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
کے بے شمار واقعات اور حالات ایسے ہیں جنھیں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بیان کیا جاسکتا ہے، اس طرح کے واقعات گھڑنے سے مستند واقعات
بھی مشتبہ ہونے لگتے ہیں: تفصیل کے لیے دیکھیے:شہزاد، محمد فیصل،۲۰۱۶ئ، دستک، مشمولہ: ’بچوں کا اسلام‘ (شمارہ ۷۵۶)، اسلام پبلی کیشنز، ص:۲
۴۴۔ اظہر ، عبیداللہ، جولائی۱۹۹۰ئ، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۳
۴۵۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، اگست ۱۹۹۰ئ، ’تاریخ کے دریچے سے‘ ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۴۶۔ پاشا، عبدالرحمن ، ڈاکٹر، اگست۱۹۹۰ئ، درویش گورنر، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۳
۴۷۔ فاروقی، شاہ نواز، اکتوبر۱۹۹۰ئ، نعت ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۳
۴۸۔ سفیر، عاصم،اکتوبر۱۹۹۰ئ،وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۴
۴۹۔ آزاد، حافظ بشیر،نومبر۱۹۹۰ئ، حمد ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۷
۵۰۔ _______،دسمبر۱۹۹۰ئ، نعت ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸
۵۱۔ اظہر ، عبیداللہ، دسمبر۱۹۹۰ئ، جب پہاڑلرز اٹھے ، مشمولہ: ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۵
۵۲۔ لخت، سعید، مئی ۱۹۸۸ئ، ٹیلی وژن، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص ۳۴
۵۳۔ لخت، سعید، اکتوبر۱۹۷۴ئ،منشی منقّٰی نے شیر مارا، مشمولہ:’ ماہنامہ تعلیم وتربیت‘، لاہور، ص ۱۵
۵۴۔ قاسم بن نظر،دسمبر ۱۹۹۹ئ، جلی کٹی مرچیں، مشمولہ: ’ماہنامہ ساتھی‘، ساتھی پبلی کیشنز، کراچی،ص۸
۵۵۔ سید، راضیہ،ستمبر ۲۰۱۶ئ، بچوں کا معیاری ادب کہاں ہے، ہم سب، ص۱

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top