skip to Main Content

باب سوم: حصہ دوم

ملی وقومی نظمیں : (کل 10 منظومات)
ایسی منظومات ملی کہلاتی ہیں جن میں :۔
1۔ وطن کا ذکر ہو
2 ۔ پرچم کا ذکر ہو
3 ۔افواج کا ذکر ہو
4 ۔ قومی رہنماؤں کا ذکر ہو
5 ۔ قومی بہادری کا گیت ہو وغیرہ۔جیسے ہمارے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال پہ لکھی گئی نظمیں یا پھر افواج پاکستان کی شان میں لکھے گئے ترانے یا پھر وطن سے محبت کا مرقع لیے ترانے۔ اسکولز میں روزانہ پڑھا جانا والا قومی ترانہ بھی اسی نوع میں شامل ہے۔ بچوں کے ادب میں ایسی منظومات کو بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ایسی نظمیں بچوں کے اندر وطن سے محبت کا جذبہ اجاگر کرتی ہیں۔ بچے ایسی نظموں کے شیدائی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی منظومات میں سے’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔اس کے علاوہ دیگر ملی نظموں میں’’یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ اور’’ جیوے، جیوے پاکستان‘‘ قابل ذکر ہیں۔
سرشار صدیقی کی ایک ملی نظم ملاحظہ فرمائیں :۔
نظم :اپنا وطن
شاعر :سرشار صدیقی
ساحل موج اُڑاتا ہے

گیت سمندر گاتا ہے
خوش حالی اس کی پہچان
یہ ہے اپنا پاکستان
کھیتوں میں ہریالی ہے
بھری ہوئی ہر بالی ہے
بھرے ہوئے کھلیان
یہ ہے اپنا پاکستان
الفت ہے ، یکجائی ہے
ہر اک بھائی بھائی ہے
اس میں بستے ہیں انسان
یہ ہے اپنا پاکستان
سبزہ ، میداں اور بازار
دریا ، نہریں اور کہسار
صحرا ، جنگل ، ریگستان
یہ ہے اپنا پاکستان

سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی بچوں کے لیے ایسی منظومات پیش کی گئی ہیں جن میں جوش و ولولے سے لبریز مترنم منظومات بچوں کے اندر وطن کی محبت کو اجاگر کرتی ہیں۔ان منظومات کی تفصیل درج ذیل ہے:۔
1) (پہلی ملی و قومی نظم شمارہ نمبر دو میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے ’’پاکستان ہمار ا ‘‘ اور شاعر کا نام ہے ڈاکٹر محمد ریاض شاہد۔ اس نظم میں چار بند ہیں اور ہر بند کے پانچ مصرعے ہیں، یوں یہ ایک مخمس نظم ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنے وطن کی منظر کشی کی ہے اور وطن کے کھیتوں، کھلیانوں، میدانوں اور پہاڑوں کا تذکرہ کیا ہے۔جیسا کہ اس بند میں دیکھ سکتے ہیں:۔

اس کے کھیتوں کھلیانوں کی خیر
پربت، صحرا، میدانوں کی خیر
جری بہادر پروانوں کی خیر
الفت، پیار محبت کا گہوارہ
یہ ہے بچو پاکستان ہمارا

اس کے علاوہ شاعر نے اپنے وطن پاکستان کی نظریاتی اساسوں کا ذکر کیا ہے کہ ہماری منزل قرآن پاک ہے اور ہم نے یہ ملک قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں حاصل کیا ہے۔ اور ہمارا یہ ملک سدا سلامت رہے، اس ملی نظم کے آخر میں وطن کے لیے دعا ہے:۔

اللہ رکھے یہ آباد ہمیشہ
رہتی دنیا تک آزاد ہمیشہ
لوگ رہیں اس کے دل شاد ہمیشہ
اس کو سمجھو اپنی آنکھ کا تارا
یہ ہے بچو پاکستان ہمارا

2) (دوسری نظم شمارہ نمبر تین میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے میجر عزیز بھٹی شہید اور اسے علی یاسر نے لکھا ہے۔ یہ چھوٹی بحر پہ مشتمل آسان سی نظم ہے جس کے دس اشعار ہیں۔ اس نظم میں چھ ستمبر کا واقعہ پیش کر کے میجر عزیز بھٹی شہید کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ شاعر کے مطابق جب ایک تاریک رات کو دشمن نے ہم پر قبضہ کرنے کی نیت سے حملہ کیا تھا تو ایک جری اور شیردل میجر نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے تھے اور اس کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے تھے۔اس پیاری سی نظم کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں:۔

اک فوج کا بہادر
تھا نوجوان میجر
دیوار بن گیا تھا
کہسار بن گیا تھا
اس نے وطن بچایا
دشمن پرے بھگایا
اس نے کٹا دیا سر
پایا نشان حیدر
وہ ہے عزیز بھٹی
میجر عزیز بھٹی

اس نظم میں بچوں کے لیے وطن کی حفاظت کرنے کا سبق موجود ہے اور یہ بہت اچھی نظم ہے۔
3) (تیسری نظم شمارہ نمبر تین میں موجود ہے۔ یہ نظم ہماری ملی شخصیت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان سے معنون ہے۔اس نظم کے شاعر محمد نوید مرزا ہیں اور اس نظم کے پانچ اشعار ہیں۔ شاعر نے علامہ اقبال کی تعریف پہ مشتمل اشعار پیش کیے ہیں۔ شاعر کے مطابق علامہ اقبال نے آزادی کا حسین خواب دیکھا اور اسے شرمندہ تعبیر بھی کیا۔ علامہ اقبال نے اپنی منظومات سے نوجوانوں کو شاہین صفت بنادیا جنہوں نے اپنا مقام حاصل کیا۔ اس نظم کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:۔

پاک گلشن جن کا سچا خواب تھا
وہ صدائے آگہی اقبال تھے
جن کی آنکھوں میں تھا آزادی کا نور
وہ انوکھی چاندنی اقبال تھے

4) (چوتھی نظم شمارہ نمبر چار میں موجود ہے۔ یہ نظم وطن کے بارے میں ہے اور اس کا عنوان بھی’’ وطن‘‘ ہے۔ شاعر کا نام انور ندیم علوی ہے۔ اس نظم کے پانچ اشعار ہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے دیکھیں تو شاعر نے اپنے وطن کے حوالے سے درج ذیل باتیں پیش کی ہیں:۔
٭ وطن سے بے وفائی نہیں کرنی۔
٭یہ وطن قائد اعظم کی کوششوں سے بنا۔
٭وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔
٭ہمارا وطن ہماری جنت ہے۔
یہ تمام اسباق بچوں کے لیے نہایت مفید ہیں۔اس نظم کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں:۔

اسے شاداب رکھیں گے، اسے آباد رکھیں گے
یہی جنت ہماری ہے اسے آزاد رکھنا ہے
وطن سے بیوفائی کا تصور بھی نہیں کرتا
یہی پیغام آزادی یہی پیغام میرا ہے
یہ دھرتی قائد اعظم کا اک احسان ہے بھاری
جو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے اسے بے نور کرنا ہے

5) (پانچویں نظم شمارہ نمبر پانچ کا حصہ ہے۔ اس نظم کا عنوان ’’یہ دیس ہمارا ہے ‘‘ ہے۔ یہ مسدس طرز کی نظم ہے اور اس کے کل تین بند ہیں۔شاعر نے درج ذیل پیغامات پیش کیے ہیں:۔
1۔ ہم اس وطن میں آزاد ہیں اور یہ وطن ہمہ قسمی دولت سے مالا مال ہے، جیسا کہ یہ بند دیکھیں:

یاں چشمے بہتے ہیں
سب چین سے رہتے ہیں
اور مل کر کہتے ہیں
ہر گام نیارا ہے
یہ دیس ہمارا ہے
آنکھوں کا تارا ہے

2۔ شاعر نے وطن کی سلامتی اور شان و شوکت پہ فخر کیا ہے اور اس کی سلامتی کے لیے دعا کی ہے :

دل جان سلامت ہے
یہ شان سلامت ہے
ہر آن سلامت ہے
کیا جھنگ کیا ہزارا ہے
یہ دیس ہمارا ہے
آنکھوں کا تارا ہے

(6)چھٹی ملی نظم بھی شمارہ پانچ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’وطن کا گیت ‘‘اور شاعر کا نام ہے محمد نوید مرزا۔ اس نظم کے سات اشعار ہیںہشاعر نے درج ذیل موضوعات پیش کیے ہیں:۔
٭ وطن اللہ کی رحمت ہے۔
٭قائد کے نقش قدم پر چلو۔
٭ ایک قوم بن کر رہو۔
٭ وطن کے مناظر دل آویز ہیں۔
٭ اخوت کا پیغام عام کرو۔
اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں :۔

وطن کا گلستاں ہے رحمت خدا کی
وطن کی بہاریں ہیں نگہت خدا کی
اسی خاک سے تم خزانے اگاؤ
محبت سے اس کو حسیں تر بناؤ
یہ پنجابی، سندھی، پٹھان اور بلوچی
انھی سے ہے تابندہ الفت کی بستی

(7)ساتویں نظم شمارہ نمبر چھے میں ہے۔ ’’اے پاک سرزمیں ‘‘کے عنوان سے لکھی گئی اس نظم کے شاعر ناصر زیدی ہیں۔ شاعر نے وطن کے صوبوں کا ذکر کیا ہے جیسا کہ یہ اشعار دیکھیے:۔

پنجاب ایک خطہ ہے سرسبز و شادماں
داتا نگر ہے خطہ لاہور کا نشاں
خیبر کی عظمتوں سے بھی واقف ہے اک جہاں
بلوچ سب سے بڑھ کے محافظ ہیں بے گماں

اس کے علاوہ شاعر نے وطن کے پرچم کی سلامتی کے لیے دعا کی ہے کہ یہ پرچم سدا لہراتا رہے :

پرچم کبھی نہ خم ہو کسی طور بھی ترا
قد کاٹھ ہو نمایاں اور بھی ترا

8) (آٹھویں ملی نظم سہ ماہی ادبیات اطفال کے شمارہ نمبر سات میں ہے۔ یہ نظم شاعر نے قائد اعظم کے نام کی ہے۔ اس کا عنوان ہے’’ نذر قائد‘‘ اور شاعر کا نام ہے ناصر کاظمی۔ اس نظم میں چھے اشعار ہیں۔ شاعر نے قائد کی کمی کو محسوس کیا ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں:

کارگاہ شوق میں خالی ہے تیری جا ابھی
قائد اعظم تجھے بھولی نہیں دنیا ابھی
تو بھی سچ کہتا ہے ناصر سرد ہے محفل مگر
سچ تو یہ بھی ہے کہ تیرا دل نہیں جاگا ابھی

اس نظم کے مطالعہ سے قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے عبقری پہلو سامنے آتے ہیں اور بچوں کے ذہنوں میں ان کی تقلید کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
9) (شمارہ نمبر آٹھ اور نو ایک جلد میں چھپے ہیں۔ ہماری نویں ملی نظم اسی شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ یہ نظم وادی کشمیر کے حوالے سے ہے۔ اسے ناصر زیدی نے لکھا ہے۔ اس نظم میں تین بند ہیں۔ اس نظم کی بحر چھوٹی اور مترنم ہے۔ شاعر وادی کشمیر کے حوالے سے اپنے احساسات پیش کر رہا ہے۔ کشمیر پہ شاعری میں کئی پہلو ہوتے ہیں مثلاً اس کا حسن، اس پہ ہونے والے مظالم، اس کی خاطر جہاد کرنے والوں کی قربانیاں وغیرہ لیکن اس نظم میںصرف کشمیر کے مناظر دکھائے گئے ہیں، دیکھیے اس بند میں:۔

جنت کے برابر
تیرا ہر اک منظر
تو دل کے قریں ہے
کس درجہ حسیں ہے
کیوں ہو کوئی دل گیر
اے وادی ء کشمیر

اسی طرح یہ بند بھی اپنی مثال آپ ہے :۔

دلکش ہیں نظارے
کرتے ہیں اشارے
یہ سبزہ و کہسار
یہ پیڑ ثمر دار
اے حسن جہان گیر
اے وادی ء کشمیر

10) (دسویں نظم بھی شمارہ نمبر آٹھ اور نو میں شامل ہے اور یہ نظم بھی کشمیر کے حوالے سے ہے ۔اسے علی یاسر نے لکھا ہے۔ اس نظم کا عنوان ’’کشمیری نوجوان کا گیت ‘‘ ہے۔ شاعر نے ایک کشمیری نوجوان کے احساسات کی ترجمانی کی ہے کہ کشمیر کا باسی اپنے وطن سے کس قدر محبت کرتا ہے اور اس کو آزاد دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ اور یہی وہ محبت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جان اپنے وطن کی حفاظت کے لیے قربان کر دیتا ہے۔ شاعر نے نہایت ہی عمدہ اسلوب میں یہ نظم لکھی ہے۔ اس کے کچھ بند ملاحظہ ہوں:۔

ساتھ تیرے مجھے عشق بے حد ہوا
تو ہو آزاد یہ میرا مقصد ہوا
میرے کشمیر تو آسماں کا نگیں
اے مری سرزمیں!
یہ دعا ہے سدا تو سلامت رہے
تیرا دشمن سدا پر ندامت رہے
تیرا حاسد رہے نامراد و حزیں
اے مری سرزمیں!

اصلاحی واسلامی نظمیں : (کل 22 منظومات)
ایسی نظم جس میں بچوں کے لیے کوئی نصیحت ہو یا انہیں اچھی صفات اپنانے کی ترغیب دی جائے، یا ان کے لیے کوئی اصلاحی سبق پیش کیا جائے، اسے اصلاحی نظم کہہ سکتے ہیں۔ادب اطفال میں اصلاحی منظومات میں عموماً محنت، باہمی پیار، اتحاد، سچائی، دیانت، دروغ گوئی سے اجتناب، لالچ سے پہلو تہی اور اخوت کے درس کو نظمی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی ایسی بیسیوں منظومات ہیں۔ اگر ان نظموں میں ارکان اسلام میں سے کسی رکن کے بارے میں لکھا گیا ہو اور قرآن و حدیث کے حوالے بھی ہوں تو ایسی منظومات خالصۃ اسلامی شمار ہوتی ہیں۔ اگر اصلاحی پہلوؤں پر بات قرآن و حدیث کے حوالے کے بغیر ہو تو اسے اصلاحی نظم کہا جا سکتا ہے۔مثلاً نماز کی ترغیب پہ مشتمل نظم اسلامی اور محنت کے موضوع پر لکھی گئی نظم اصلاحی کہلائی جا سکتی ہے۔کراچی کے شاعر شاہین اقبال اثر المعروف اثر جون پوری کی اسلامی منظومات بچوں میں مقبول ہیں مثلاً ایک نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔
نظم: مری امی

اسلام کے احکام بتائیں مری امی
اغیار کے فیشن سے بچائیں مری امی
ہرگز نہ قضا فجر کی مجھ سے ہو جماعت
یوں مجھ کو علیٰ الصبح جگائیں مری امی
افسانہ و قصہ نہ کہانی نہ ہی لوری
قرآن و احادیث سنائیں مری امی

اسلامی و اصلاحی نظمیں موضوع کے اعتبار سے قریب قریب ہوتی ہیں اس لیے انہیں ایک زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
ایک اصلاحی نظم کے اشعار دیکھیے :۔
نظم: لالچ

استاد نے کہا ہے
لالچ بری بلا ہے
کرتا نہیں ترقی
لالچ میں جو پھنسا ہے
کیوں دیکھتے ہو ٹک ٹک
کیا لالچی پنا ہے
جس نے بھی کی ہے لالچ
کھڈے میں وہ گرا ہے
کرتے ہیں لوگ نفرت
لالچ کی یہ سزا ہے
محنت کرو اثرؔ تم
لالچ میں کیا رکھا ہے
(شاہین اقبال اثر)

اب ہم سہ ماہی ادبیات اطفال کی ایسی منظومات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1) (پہلی نظم کا عنوان ’’محنت کرو ‘‘ ہے اور اس کے شاعر بچوں کے معروف شاعر اسماعیل میرٹھی ہیں۔ یہ نظم بھی بچوں میں بہت مقبول ہے۔ اس نظم میں مکڑی کی مثال پیش کر کے شاعر نے محنت کا درس دیا ہے، اس نظم کے اشعار زبان زد عام کا درجہ رکھتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:۔

مکڑی نے کیا جالا تانا
کیسا اچھا تانا بانا
آخر اس نے کیوں کر جانا
اس سے ملے گا مجھ کو کھانا
جس نے مکڑی پیدا کی ہے
اس نے اتنی عقل بھی دی ہے
روزی کا کیوں تجھ کو غم ہے
کیا تو مکڑی سے بھی کم ہے
جب تک تیرے دم میں دم ہے
ہاتھ میں کاغذ اور قلم ہے
سیکھ لے بابا علم و ہنر تو
محنت کر تو محنت کر تو

2) (دوسری نظم بھی شمارہ نمبر ایک میں ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’پیارا بچہ ‘‘ اور شاعر کا نام ہے محمد مشتاق حسین قادری۔ یہ نظم پانچ اشعار پہ مشتمل ہے۔اس میں شاعر نے بچوں کو نصیحت کی ہے اور انہیں اچھا بننے کی تلقین کی ہے۔ یہ ایک عام فہم اور مفید نظم ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں:۔

جو رب کا ہے بندہ، وہ ہے نیک خو
اسے نیکی کرنے کی ہے جستجو
وہ کانٹوں میں ہے اک مہکتا گلاب
نہیں اس کا ہرگز کہیں بھی جواب
نصیحت ہے مشتاق کی دوستو
یتیموں، غریبوں کی خدمت کرو

3) (تیسری نظم شمارہ نمبر دو میں ہے۔یہ الطاف حسین حالی کا کلام ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’کہنا بڑوں کا مانو ‘‘۔اس میں جو مرکزی خیال پیش کیا گیا ہے وہ اس کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔اس نظم کے اہم نکات درج ذیل ہیں:۔
٭ والدین اور اساتذہ کی بات مانی جائے۔
٭نصیحت کڑوی ضرور ہوتی ہے مگر وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔
٭ بڑوں کی بات ہمیں بڑا بناتی ہے۔
اس نظم کے کچھ شعر یوں ہیں:۔

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
تم کو خبر نہیں کچھ اپنے بھلے برے کی
جتنی ہے عمر چھوٹی، اتنی ہے عقل چھوٹی

اس نظم میں ایک ٹیپ کا مصرع بھی ہے جو کہ یہ ہے:

’’چاہو اگر بڑائی تو کہنا بڑوں کا مانو‘‘
اور یہی اس نظم کا مرکزی پیغام ہے۔

4) (چوتھی اصلاحی نظم کام چور لڑکے ہے۔ یہ شمارہ نمبر دو میں ہے۔ اس کے شاعر ضیاء الحسن ضیاء ہیں۔ اس میں شاعر نے ایک بری صفات کے لڑکے کو مخاطب کیا ہے اور اسے اچھا بننے کی تلقین کی ہے۔نظم کے تین بند ہیں اور ہر بند میں چھے مصرعے ہیں۔ اس نظم میں بچوں کو محنت کی نصیحت کی گئی ہے:۔

منزل اگر ہے پانا
محنت سے دل لگانا
دنیا کہے گی اچھا
چمکے گا چاند بن کے
سن! کام چور لڑکے

5) (پانچویں نظم بھی دوسرے شمارے میں شامل ہے۔ اس نظم کو جان کاشمیری نے لکھا ہے اور اس کا عنوان ہے ’’امن کا گہنا‘‘۔ یہ مسدس طرز پر ہے اور کل چار بند ہیں۔اس نظم میں شاعر نے امن کا اصلاحی پیغام پیش کیا ہے اور صلح صفائی سے رہنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ایک مترنم نظم ہے ۔دیکھیے اس کا ایک بند:۔

امن کا یہ مضبوط حوالہ
دم دم جپنا اس کی مالا
سرحد سرحد نور اجالا
جلنے والے کا منہ کالا
دھڑکن دھڑکن پیار کا گہنا
امن ہے کل سنسار کا گہنا

7) (’’محنت سے تم جی نہ چرانا‘‘ سہ ماہی ادبیات اطفال کی ساتویں اصلاحی نظم ہے اور اس کے شاعر الطاف حسین ہیں۔یہ نظم مخمس ہیئت میں ہے اور اس کے تین بند ہیں۔یہ نظم بھی محنت کی ضرورت اور محنت کے فوائد پر روشنی ڈالتی ہے۔ مثلاً:۔

محنت والا، عزت والا
عزت والا، شہرت والا
سب کو تم یہ راز بتانا
اچھے اچھے کام کرانا
محنت سے تم جی نہ چرانا

8) (آٹھویں نظم ’’ارادے ‘‘کے عنوان سے ہے اور اس کے شاعر اختر شیرانی ہیں۔یہ شمارہ نمبر چھے میں شامل ہے۔اس نظم میں گیارہ مختلف بچوں کے ارادے اور عزائم بیان کیے گئے ہیں۔یوں یہ نظم گیارہ مختلف پیشوں کا تعارف کرادیتی ہے۔ نظم کو مکالماتی انداز میں لکھا گیا ہے۔ پہلے ’’ایک بچہ‘‘ سامنے آتا ہے اور وہ اپنا ارادہ ظاہرکرتا ہے، پھر دوسرا، تیسرا، چوتھا ۔یہ نظم درج ذیل پیشوں کا تعارف پیش کرتی ہے:
تجارت، طبابت(ڈاکٹری)، انجینئرنگ، وکالت، عالم دین، پائلٹ، جج، سرمایہ کار، زراعت، گورنری، رضاکارانہ خدمت۔
اس کے کچھ اشعار بطور نمونہ درج ہیں:۔

برائی کو دنیا سے رخصت کروں گا
میں منصف بنوں گا، عدالت کروں گا
ہوائی جہازوں کی خدمت کروں گا
زمانے کی سیر و سیاحت کروں گا
میں قانون پڑھنے میں محنت کروں گا
عدالت میں جا کر وکالت کروں گا

(9)’’اسکول ‘‘ ضیاء الحسن ضیاء کی پیاری سی نظم ہے اور یہ نظم شمارہ نمبر چھے کا حصہ ہے۔اس نظم میں شاعر نے اسکول سے بچوں کی محبت جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اسکول کی اس طرح تعریف کی گئی ہے کہ بچے اس سے مانوس ہوں۔اس نظم کے اس شعر سے شاعر کے بنیادی پیغام کو سمجھا جا سکتا ہے۔

علم ضیاء ہے علم سے جگمگ جگمگ سارا ہے اسکول
گھور اندھیروں میں اک تارا پیارا پیارا ہے اسکول

(10)الطاف حسین کی لکھی گئی نظم ’’پیارے بچے ‘‘ شمارہ نمبر چھے میں شامل ہے۔ اس میں شاعر نے اچھے بچوں کی تعریف کرکے انہیں نیکی پر مائل کیا ہے۔ نفسیات کے اصولوں کو دیکھا جائے تو بچے ہمیشہ نرمی اور پیار سے سیکھتے ہیں، شاعر کا بھی یہی اسلوب ہے۔ بظاہر کوئی بوجھ یا ذمہ داری نہیں ڈالی، صرف ان کی تعریف کی ہے، جیسا کہ ان اشعار میں دیکھیے:۔

ہر گھر میں ہے رونق ان سے
ماں کے راج دلارے بچے
اک دن شیر جوان بنیں گے
میرے وطن کے سارے بچے

اس نظم کے آخری شعر میں والدین کے لیے بھی ایک نصیحت موجود ہے :

اس کا کل بھی روشن ہو گا
جس نے آج سنوارے بچے

(11)’’قرآن پاک ‘‘کے عنوان سے محمد نوید مرزا نے نظم لکھی ہے۔یہ چھٹے شمارے میں شامل ہے۔ اس میں چھے اشعار پیش کیے گئے ہیں اور ان اشعار میں قرآن پاک کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن پاک چونکہ مسلمانوں کی ہدایت کا خزینہ اور منبع ہے اس لیے یہ نظم بچوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ شاعر کا بنیادی مقصد قرآن پاک کا تعارف کرانا ہے تاکہ بچے اس کے قریب ہوں:۔

بھول بیٹھا ہے جو قرآن خدا
خود سے وہ بھٹکا ہوا انسان ہے
اس سے بڑھ کر کوئی سرمایہ نہیں
مال ہے، دولت ہے، میری جان ہے

14) (شمارہ نمبر سات میں ارسلان اللہ خان کی نظم’’ دوستی‘‘ سہ ماہی ادبیات اطفال کی تیرہویں اصلاحی نظم ہے۔ یہ سات اشعار ہیں جن میں شاعر نے دوست اور اچھی دوستی کی خوبیاں بیان کی ہیں۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے جس میں بچوں کو اچھا دوست بننے کی طرف مائل کیا گیا ہے :

دوست بے شک ہیں وہی ذی احترام
جو کہ آتے ہیں برے وقتوں میں کام

اسی طرح اس نظم میں بچوں کے لیے یہ پیغام بھی موجود ہے کہ ہمیں کیسے دوست بنانے چاہئیں۔ مثلاً:۔

جو برے بچے ہیں ان کو چھوڑ دو
ان سے اپنا ہر تعلق توڑ دو
اچھے بچوں سے کرو تم دوستی
آئے گی اخلاق میں بھی بہتری

15) (’’رضیہ خاتون‘‘ ایک اصلاحی نظم ہے جو کہ شمارہ نمبر 9-8 میں شامل ہے۔ شاعر مجید لاہوری نے بچوں کے سامنے ایک مثالی کردار’’رضیہ ‘‘ پیش کیا ہے تاکہ بچے اپنے آپ کو ویسے بنائیں۔ یہ مثالی کردار رضیہ ہے، شاعر کچھ یوں کہتا ہے:۔

رضیہ اک اچھی لڑکی ہے
صبح کو بستر سے اٹھتی ہے
کپڑے پہن کر اور منھ دھو کر
ناشتے سے پھر فارغ ہو کر
ہاتھ میں لے کر اپنا بستہ
لیتی ہے اسکول کا رستہ
شوق سے پھر لکھتی پڑھتی ہے
رضیہ اک اچھی لڑکی ہے

(17) ’’آؤ سب کو خبر سنائیں‘‘شمارہ نمبر آٹھ اور نو میں شامل ہے۔یہ بھی ایک اصلاحی نظم ہے جسے امجد شریف نے لکھا ہے۔اس نظم میں بھی شاعر نے نیکی کی ترغیب دی ہے تاکہ بچے نیکی کی راہ پر آئیں۔جیسا کہ ان اشعار سے واضح ہے:۔

جو کردار میں بالا ہوگا
وہ ہی عزت والا ہوگا

آؤ سب کو خبر سنائیں
آؤ مل کر جشن منائیں

موضوع کے اعتبار سے درج ذیل اسباق موجود ہیں:۔
٭سچائی
٭امانت
٭ محنت
٭تعلیم
(19) شمارہ نمبر دس میں جان کاشمیری کی نظم ’’چل، چل، چل ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ بھی اصلاحی سبق کی حامل نظم ہے اور اس میں ایک مصرعہ بار بار دہرایا گیا ہے اور یہی اس نظم کا مرکزی خیال ہے:۔

’’وقت ہے تھوڑا کام ہزار‘‘

شاعر نے اس نظم میں الفاظ کے تکرار سے موسیقیت پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے یہ نظم بہت دلچسپ ہو گئی ہے، دیکھیے:۔

چھوڑ کے نخرے چلتا جا
چلتا جا تو چلتا جا
راہ طلب میں ڈھلتا جا
ڈھلتا جا تو ڈھلتا جا
چل چل چل چل میرے یار
وقت ہے تھوڑا کام ہزار

20) (اسی دسویں شمارے میں انور ندیم علوی کی نظم’’ کام کام اور کام‘‘ بھی جہد مسلسل کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ قائد اعظم کا فرمان بھی ہے اس لیے اس نظم میں بچوں کی دلچسپی زیادہ ہو گی۔دیکھیے:۔

وطن سے محبت تو ایمان ہے
یہی میرے قائد کا فرمان ہے
کریں کام اور کام اور کام بس
رکھیں یاد ہر پل یہ پیغام بس

مزاحیہ و دل چسپ نظمیں : ( کل10 منظومات)
ایسی نظمیں بچوں کو تفریح فراہم کرتی ہیں۔ بچے ایسی نظمیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ ایسی نظموں میں بچوں کے لیے اصلاح پیش نظر نہیں ہوتی بلکہ صرف انہیں تفریح فراہم کی جاتی ہے تاکہ بچے ہلکا پھلکا محسوس کریں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ بچے زبان وادب سے آشنا بھی ہو جاتے ہیں۔ مزاحیہ و دلچسپ نظمیں عموماً معاشرے کے کسی مزاحیہ کردار کو تخلیق کر کے پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کردار کوئی بچہ بھی ہو سکتا ہے یا کوئی بڑا فرد بھی ۔
جیسے یہ چند اشعار دیکھیے:۔

کمرے سے باہر نکلنا آ گیا
جب سے عکاشہ کو چلنا آ گیا
چلتے چلتے دوڑنے بھی لگ گئے
گرتے گرتے اب سنبھلنا آ گیا
پہلے تو مشکل تھا بسکٹ توڑنا
اب تو روٹی بھی نگلنا آ گیا
گود میں آنے سے کترانے لگے
جب سے پاؤں پاؤں چلنا آ گیا
کودنا آیا انہیں قالین پر
سنگِ مرمر پر پھسلنا آ گیا

اسی طر ح صوفی غلام مصطفی تبسم کی ایک معروف نظم دیکھیں :۔

ٹوٹ بٹوٹ نے مرغا پالا
تین سروں، دو چونچوں والا
پاؤں کالے، سر بھی کالے
دم بھی کالی، پَر بھی کالے
اندر باہر سے ہے کالا
ٹوٹ بٹوٹ نے مرغا پالا

یہ وہ منظومات ہیں جس میں بچوں کو صرف تفریح پہنچانا مقصود ہو۔ ایسی منظومات یا تو مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہوتی ہیں یا پھر ان میں کوئی دلچسپ اور انوکھا موضوع ہوتا ہے۔سہ ماہی ادبیات اطفال کے دس شماروں میں ایسی کئی نظمیں شائع ہوئی ہیں اور اب ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:۔
(1)’’میری گڑیا کشور ‘‘ وحیدہ نسیم کی لکھی گئی ایک دلچسپ نظم ہے۔اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ اسے دائیں طرف سے پڑھیں یا بائیں طرف سے، یعنی انگریزی والی طرف سے تو اس کے اشعار کے معانی میں فرق نہیں پڑتا۔اب اشعار پیش کیے جاتے ہیں:۔

میری گڑیا کیسی پیاری
جس کی جھل مل جھل مل ساڑی

اب اس شعر کو انگریزی والی طرف سے پڑھیں تو یوں قرأت ہوگی:

پیاری کیسی گڑیا میری
ساڑی جھل مل جھل مل جس کی

اسی طرح پوری نظم کو سمجھ لیا جائے۔ ایسی نظمیں بچوں کے لیے کھیل بھی ہیں اور ان کے ذہن کو وسیع کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔
چند اشعار مزید درج کیے جاتے ہیں:۔
ایک شعر یہ ہے:

پہنے کپڑے پیارے پیارے
گہنے جگمگ جگمگ سارے

الٹی طرف سے یہ شعر یوں پڑھا جائے گا :

پیارے پیارے کپڑے پہنے
سارے جگمگ جگمگ گہنے

دوسرا شعر یہ ہے:

دیکھو وہ ہے گڑیا میری
جو ہے گھونگھٹ ڈالے بیٹھی
الٹی طرف سے قرأت یوں ہے:۔
میری گڑیا ہے وہ دیکھو
بیٹھی ڈالے گھونگھٹ ہے جو
یقیناً یہ ایک دل چسپ نظم ہے۔

2) (دوسری نظم افق دہلوی کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ نظم میر تقی میر کی غزل کی تحریف پہ مبنی ہے۔ تحریف یا پیروڈی ایسے اسلوب کو کہتے ہیں جس میں کسی شاعر کے اسلوب میں کچھ رد وبدل کیا جائے اور مزاحیہ و دلچسپ عنصر پیدا کیا جائے۔ شاعر نے میر تقی میر کی درج ذیل غزل میں تحریف کی ہے :

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے، آخر کام تمام کیا

شاعر نے اپنی نظم میں اسے یوں پیش کیا ہے:

سیدھی ہوگئیں سب تدبیریں جب بھی دعا نے کام کیا
دانستہ بیمار رہے کچھ دیر یونہی آرام کیا
اپنا بستہ ہم نے چھپا کر کون سا اچھا کام کیا
مار بھی امی جان سے کھائی خود کو عبث بدنام کیا

یہ پوری نظم بہت دلچسپ ہے۔
3) (سہ ماہی ادبیات اطفال کے شمارہ نمبر تین میں حفیظ جالندھری کی نظم ’’کوا ‘‘ شامل ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ اور مزاحیہ نظم ہے اس میں شاعر نے کوے کے بارے میں چند مزاحیہ باتیں لکھی ہیں کہ یہ ہر وقت کائیں کائیں کرتا ہے۔ یہ بہت پیٹو ہوتا ہے۔ اسے تنگ کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا۔اس پیاری سی نظم کے چند اشعار یہ ہیں:۔

آگے پیچھے دائیں بائیں
کائیں کائیں کائیں کائیں
توبہ توبہ ڈھیٹ ہیں کتنے
کوے ہیں یا کالے فتنے
ہردم ہے کھانے کی عادت
شور مچانے کی ہے عادت
بچوں سے بالکل نہیں ڈرتا
ان کی کچھ پروا نہیں کرتا

4) (چوتھی دلچسپ نظم بھی کوے سے متعلق ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے ’’کوے تیری کائیں کائیں‘‘ اور شاعر ہیں سلطان کھاروی۔ اس میں بھی کوے کی شرارتوں کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:۔

جنگل میں یہ کریں بسیرے
آبادی میں منہ اندھیرے
آئیں آکر لوٹ مچائیں
کوے تیری کائیں کائیں

5) (شمارہ نمبر چھے میں ایک نظم ’’گول مٹول‘‘ ہے جسے ابصار عبدالعلی نے لکھا ہے۔اس میں تربوز کو پیار سے گول مٹول کہا گیا ہے ۔شاعر نے نظم کا اسلوب ایک پہیلی کی مانند رکھا ہے۔ دیکھیے:

گول مٹول ہے پیارا ہے
جیسے یہ غب بارہ ہے
یا فٹ بال سا لگتا ہے
چلتا نہیں لڑھکتا ہے
کھیتوں میں یہ اگتا ہے
رستوں میں یہ بکتا ہے
بھاری موٹی اس کی کھال
باہر سبز ہے اندر لال

(5)شمارہ نمبر آٹھ، نو میں الطاف حسین نے بچوں کی غزل کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ اس میں متفرق پر مزاح پہلو ہیں جن کے ذریعے بچوں کو تفریح فراہم کی گئی ہے۔ گڑبڑ ردیف ہے اور اسی ردیف کی وجہ سے بھی مزاح پیدا کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:۔

پیٹ بھی کچھ خراب تھا اپنا
اور تھی کچھ کباب میں گڑبڑ
ہم نے رٹا بہت لگایا تھا
پھر ہوئی کیوں جواب میں گڑبڑ
کیوں ہے منشی پہ کپکپکی طاری
ہوگی کوئی حساب میں گڑبڑ

7) (شمارہ نمبر دس میں ایک نظم ’’ملا جی شادی میں‘‘ہے۔یہ لطیفے کی صورت میں ہے۔ یہ نظم ملا نصیرالدین پہ لکھی گئی ہے۔اس کے شاعر ہیں راکب راجہ۔ یہ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ملا نصیرالدین ایک شادی میں مدعو تھے کہ کیا دیکھتے ہیں ایک آدمی بادام اپنی جیب میں ڈال رہے ہیں اور ادھر ادھر بھی دیکھ رہے ہیں۔ملا جی کو شرارت سوجھی، انہوں نے پانی کا جگ اٹھایا اور سارا پانی اس پہ گرا دیا۔ وہ شخص چلایا کہ آپ نے میرا نقصان کردیا ہے۔ جواب میں ملا جی نے کہا کہ اگر تم اپنی بھوکی جیب کو بادام کھلا سکتے ہو تو میں اسے پانی کیوں نہیں پلا سکتا۔
اسی واقعہ کو شاعر نے لطیفے کی صورت میں لکھا ہے دیکھیے:۔

بھوکی تمھاری جیب نے بادام کھا لیے
سوچا کہ اس کو تھوڑا سا پانی پلائیے

8) (دسویں شمارے میں شان الحق حقی کی نظم’’ بھائی بھلکڑ‘‘ بھی انہی منظومات میں شامل ہے جن میں بچوں کو تفریح فراہم کی گئی ہے۔ اس کے کچھ اشعار دیکھیے:۔

دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ
پیالی میں ہے چمچا الٹا
باتیں ساری ان کی گڑبڑ
پھیر رہے ہیں کنگھا الٹا

اس نظم میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اشعار کا جوڑ بھی الٹ کر دیا گیا ہے تاکہ مزید دلچسپی پیدا ہو جائے۔
(9)’’بچو! میرا نام بتاؤ ‘‘ ایک پہیلی نما دل چسپ نظم ہے جسے ضیاء اللہ محسن نے لکھا ہے۔ اس نظم میں ایک جانور کا تعارف اشاروں میں پیش کیا گیا ہے تاکہ بچے ان اشاروں سے اسے بوجھیں۔یہ نظم بچوں کے لیے ایک دل چسپ کھیل کی مانند ہے۔ اس نظم کے اشعار دیکھیں:

چھوٹا سا میں بچہ ہوں
پیارا ہوں اچھا ہوں
لمبی دم اور ٹانگیں چار
سب کرتے ہیں مجھ سے پیار
دودھ پیئوں اور چارہ کھاؤں
بھاں بھاں کر کے شور مچاؤں
بڑے بڑے ہیں میرے کان
تھوڑا سا ہوں میں نادان
پیارے بچو آؤ تم
نام میرا بتلاؤ تم
دبلا ہوں پر تگڑا ہوں
میں گائے کا بچھڑا ہوں

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top