skip to Main Content

انوکھی سزا

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

بڑھیا کا باغ اچھا خاصا بڑا تھا، دور تک پھیلے ہوئے اس باغ میں بہت سے کیلے کے درخت تھے۔ ہر سال ان درختوں میں کیلے کے بڑے بڑے گچھے لگتے، کوئی اور ہوتا توان کیلوں کو فروخت کر کے اچھی رقم کما سکتا تھا، لیکن اتنے سارے کیلوں کو توڑنا اور پھرانہیں صحیح طرح گاڑی میں لاد کر شہر لے جانا اور وہاں منڈی کے تاجروں سے بھاؤ تاؤ کرنا، ظاہر ہے اکیلی بڑھیا کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ بے چاری تو اپنے با غ میں بسنے والی بندروں کی فوج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی تھی۔
بندربڑھیا کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ دن بھر وہ باغ میں اودھم مچا تے رہتے اور بڑھیا جب لاٹھی لے کر بھگانے کے لیے آتی تو وہ اسے خوب پریشان کرتے۔آئے دن کی اس کش مکش سے تنگ آکر بڑھیا نے بندروں سے دوستی کی سوچی، اس نے بندروں کے سردار کو بلایا اور اس سے سودا کیا کہ اگر وہ سارے کیلے توڑ کر بڑھیا کو دے دے تو اس میں سے آدھے کیلے اسے دے دے گی۔سودا طے ہو گیا۔
فصل پکی تو بندروں کی فوج کی فوج کیلے توڑنے میں لگ گئی،اور کیلے توڑتے ہوئے آدھے سے زیادہ کیلے تو بندر ویسے ہی ہڑپ کر گئے۔ بہت سے خراب کر کے نیچے پھینک دیے۔ جو بچے انہیں لے کر بندروں کا سردار بڑھیا کے پاس آیا۔ اس میں سے اچھے اچھے پکے ہوئے کیلے خودرکھ کر بقیہ بچے ہوئے خراب خراب کیلے بڑھیا کو تھما دیے۔
بڑھیا کو بندروں کے اس نا مناسب سلوک سے بڑا رنج ہوا۔ وہ بندروں کے سردار کو سزاد دینے کی کوئی ترکیب سوچنے لگی۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آہی گئی۔
دوسرے دن بڑھیا بازار گئی اور وہاں سے اس نے بہت سارا موم خریدا۔ گھر آ کر اس نے موم کا ایک بڑا سا پتلابنا یا اور اس کے سر پر ایک ٹوکری جمادی۔ اس چھا بڑی نما ٹوکری میں اس نے اپنے پاس سے بہتر سے بہتر کیلے نکال کررکھ دیے۔ اب اس نے یہ کیا کہ اس پتلے کو بندروں کے سردار کی رہائش گاہ کے پاس کھڑا کر دیا۔
بندروں کا سردار گھر سے نکلا تو اس کی نگاہ موم کے پتلے پر اور اس کے سر پر رکھی چھابڑی میں کیلوں پر پڑی۔ وہ یہی سمجھا کہ یہ کوئی پھیری والا لڑکا ہے، اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے اس پھیری والے کو ڈرا دھمکا کر کیلے چھین لینے کی ٹھانی لیکن اس نے سوچا پہلے نرمی سے کام لینا درست ہوگا۔ چنانچہ وہ پھیری والے کے پاس گیا اور بڑے نرم لہجے میں بولا:
”پھیری والے، اوپھیری والے،مجھے ایک کیلا دے دو۔“
پھیری والا خاموش کھڑا رہا۔
بندر پھر بولا۔”پھیری والے سنتے نہیں تم؟ میں کیا کہہ رہا ہوں؟مجھے ایک کیلا چا ہیے، میٹھا سا۔“
پھیری والا اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔
بندروں کا سردار سمجھا پھیری والا بہرا ہے۔
اس نے چیخ کر کہا:
”پھیری والے!میں تم سے ایک کیلا مانگ رہا ہوں۔ اگر تم مجھے کیلا نہیں دوگے تومیں تمہیں ایسا دھکا دوں گا کہ تم نیچے جا پڑوگے اور تمہارے سارے کیلے ادھرادھر بکھر جائیں گے۔“
پھیر ی والا ٹس سے مس نہ ہوا۔بندروں کے سردار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر پھیری والے کو زور سے دھکا دیا۔ مگریہ کیا! اس کا ہاتھ پھیری والے کی کمر میں جا کے دھنس گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگروہ مضبوطی سے چپک گیا تھا جیسے پھیری والے نے اپنی کمرسے گوند لگار کھی ہے۔
سردار کوغصہ آگیا تھا۔ اس نے غصہ میں اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:
”سنو،احمق لڑکے!میرا ہاتھ چھوڑ دو ورنہ میں اپنے دوسرے ہاتھ سے ایسا گھونسا ماروں گا کہ یاد کرو گے۔“
کوئی جواب نہ ملا۔
سردار نے دوسرے ہاتھ سے زور دار گھونسا پھیری والے کے کندھے پر مارا مگر سردار کا ہاتھ پھیری والے کے کندھے میں دھنس گیا۔
ٍ اب تو سردار بڑا پریشان ہوا کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا آفت آئی۔اس نے پھیری والے کو خبردار کیا:
”دیکھو میں تم سے پھر کہہ رہا ہوں۔ میرے دونوں ہاتھ چھوڑ د واور مجھے ایک کیلا دے دو،ور نہ میں تمہیں ایسی لگاؤں گا کہ کئی ہفتوں تک اپنی مانگ سہلاتے رہو گے۔“
پھیری والا خاموش کھڑا رہا۔
سردار نے جوش میں اپنی دائیں ٹانگ سے پھیری والے کی ٹانگ پر ٹھوکر لگائی، مگر سر دار کاپیر پھیری والے کی ٹانگ سے چپک کر رہ گیا۔بندروں کا سردار سٹپٹا گیا۔ اس نے آخری کوشش کی، اور بائیں ٹانگ سے پھیری والے کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری، مگر بائیں ٹانگ بھی وہیں مضبوطی سے چمٹ گئی۔ اب سردار کے دونوں ہاتھ پاؤں پھیری والے سے چمٹے ہوئے تھے۔ سردار اتنا بد حواس ہوا کہ اس نے شور مچانا شروع کر دیا،وہ اتنی اونچی آواز میں چلایا کہ باغ میں رہنے والے بندربھاگے چلے آئے کہ سردار پر پتا نہیں کیا آفت آگئی ہے، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے سردار کو ایک پھیری والے نے دبوچ ر کھا ہے۔
بندروں کے چھوٹے پھوٹے بچے خوب زور زور سے ہنسنے لگے، ان کی ماؤں نے انہیں ڈانٹ کر خاموش کر ایا، بڑے بوڑھے، بندروں کی میٹنگ ہوئی،اور طے یہ پا یا کہ بڑھیا سے چل کر معانی مانگی جائے،سردار کو اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا تو وہ چلا کر بولا:
”اب تک کیا مکھیاں مار رہے تھے، میں تو سمجھ رہا تھا تم جا کر بڑ ھیا سے معافی مانگ چکے ہو گے اور مجھے اس مصیبت سے نجات ملنے والی ہے، مگر تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو!“
چنانچہ بندروں میں سے بزرگ قسم کے بندروں پرمشتمل ایک وفد بڑھیا کے پاس بھیجا گیا۔ انھوں نے جا کر بڑھیا سے معافی مانگی اور سردار کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی گزارش کی۔
بڑھا دل میں بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا:
”ٹھیک ہے میں تمہارے سردار کو پھیری والے سے نجات دلائے دیتی ہوں لیکن آئندہ تمہاری جانب سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔“
سارے بندروں نے متفقہ طور پر بڑھیا کی بات مان لی۔ بڑھیا نے جا کر موم کے پتلے کے پیچھے تھوڑی سی آگ جلائی، موم پگھل گیا اور سردار کا ایک ہاتھ آزاد ہو گیا لیکن سردار کے ہاتھوں کے کچھ بال جل گئے، اس طرح بڑھیا نے اس کے باقی ہاتھ پاؤں آزا دکر دیے۔ آزادی ملتے ہی سردار نے بندروں کو بلایا، بچے ہوئے جتنے کیلے تھے، اکٹھے کر کے بڑھیا کی خدمت میں پیش کر دیے۔ اگلے دن بندروں کی مددسے بڑھیا کیلے گاڑی میں لدوا کر فروخت کرنے کے لیے شہر جار ہی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top