skip to Main Content

انوکھا خط

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہد قمر کو ملنے والا خط اس کے لیے ایک انوکھا خط تھا۔
وہ خط اسے گھر کے دروازے کے اندر کی طرف چوکھٹ پر پڑا ملا تھا۔ گویا کوئی اس خط کو نیچے سے سرکا گیا تھا۔ خط پر ڈاک خانے کی مہر نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ خط لکھنے والے نے یہ خط خود یہاں ڈالا تھا یا کسی کے ذریعے سے بھیجا تھا۔ صبح کا گیا جب وہ شام کو تھکا ہارا لوٹا اور گھر کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو اس کی نظر خط پر پڑی۔ ا س نے ایک حیرت بھری نظر اس پر ڈالی اور اسے اٹھا لیا۔ بے چینی کے عالم میں لفافہ چاک کیا تو اندر سے ایک سفید کاغذ نکلا۔ اس پر یہ الفاظ درج تھے:
”مجھے معلوم ہے آج کل آپ بالکل بے کار ہیں۔ آپ کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ آپ تمام دن ملازمت تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ میں بھی اس دنیا میں اکیلا ہوں اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے کام آنا چاہتا ہوں۔ آپ کل شام ٹھیک سات بجے مجھ سے اس پتے پر مل لیں۔ میرا نام سرفراز غالب ہے۔ پتا تلاش کرنے میں آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اپنا موبائل نمبر بھی لکھ رہا ہوں۔ اگر آپ نہ آنا چاہیں تو اس نمبر پر فون کر کے بتا دیجیے گا۔“ آپ کا مخلص۔ سرفراز غالب۔
اس نے خط کو تین چار بار پڑھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ اس طرح کسی کو بلانا عجیب سی بات تھی۔ شاید وہ شخص کوئی غیر قانونی کاروبار کرتا ہے، تبھی تو اس نے یہ پراسرار انداز اختیار کیا ہے، ورنہ آج کے دور میں ملازمتوں کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے جاتے ہیں اور ملازمت کے خواہش مند لوگوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ اگر وہ کوئی غیر قانونی کاروبار کرتا ہے تو کیا میں اس کے پاس ملازمت کر سکتا ہوں؟ جواب میں ا س کا سر خودبخود نہیں میں ہل گیا۔ اس کی والدہ نے اسے ایک ہی بات سکھائی تھی:
”حرام روزی نہ کمانا، صرف حلال کھانا۔ حلال کھانا بے شمار مصیبتوں سے بچاتا ہے اور آخرت میں حلال روزی کھانا کام آتا ہے۔ اس کے برعکس حرام روزی کھانے والا ہمیشہ پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے۔ ان کی کمائی یا تو ڈاکٹروں کی جیبوں میں جاتی ہے یا پھر فضولیات میں خرچ ہوتی رہتی ہے۔ برکت ان کے گھروں سے گویا پر لگا کر اڑ جاتی ہے، لہٰذا حالات کچھ بھی ہوں میرے بیٹے! تمہارا رزق حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ بس میں تو تمہیں یہی نصیحت کرتی ہوں۔“
والدین کی وفات کے بعد وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ غربت کی وجہ سے وہ میٹرک سے آگے پڑھ بھی نہیں سکا۔ ان کی وفات سے پہلے بھی وہ ملازمت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا تھا، لیکن آج کے دور میں میٹرک پاس لوگوں کو ملازمت آسانی سے نہیں ملتی۔ ماں ہمیشہ دلاسا دیا کرتی: ”کوئی بات نہیں بیٹا، مل جائے گی ملازمت۔ تم خود کو ہلکان نہ کرو۔“ والدین ایک حادثے میں ختم ہوگئے تو اس پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ پہلے تو باپ کی مزدوری سے گھر کا خرچ چلا رہا تھا۔ اب یہ ذریعہ بھی بند ہوگیا۔ اس نے مزدوری شروع کر دی، لیکن ساتھ ہی وہ ملازمت حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ جس دن اسے مزدوری نہ ملتی، اس دن وہ ملازمت کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرتا۔ آج کا دن بھی اس نے ملازمت کی تلاش میں گزارا تھا۔
رات اسے دیر تک نیند نہ آئی۔ بار بار اس خط کا خیال آتا رہا۔ نہ جانے خط لکھنے والا کون ہے؟ اسے کیسے جانتا ہے؟ وہ ضرور کوئی جرائم پیشہ ہوگا۔ آج سونے سے پہلے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس شخص سے کم ازکم ملاقات تو ضرور کرے گا۔
دوسرے دن وہ ٹھیک سات بجے شام خط میں لکھے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک بالکل نئی بنائی ہوئی کوٹھی تھی اور بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ گھنٹی کا بٹن دباتے ہوئے اس کا دل زور سے دھڑکا۔ جلد ہی ایک ملازم باہر نکلا۔ اس نے پہلے تو اس کا سر سے لے کر پیر تک جائزہ لیا، پھر بولا:”جی فرمائیے؟“
”مجھے سر فراز غالب صاحب سے ملنا ہے۔ میرا نام شاہد قمر ہے۔ مجھے ان کا پیغام ملا ہے۔“
”اوہ اچھا، آپ میرے ساتھ آئیں۔“
ملازم اسے دروازے کے اندر لے آیا۔ دروازے کے دونوں طرف خوب صورت باغیچے لگائے گئے تھے۔ گھاس پر کرسیاں موجود تھیں۔
”آپ بیٹھیں، میں صاحب کو بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ملازم چلا گیا۔ جلد ہی ملازم واپس آتا نظر آیا۔
”آئیے۔“ اس نے کہا۔
ملازم کے ساتھ چلتا ہوا وہ ایک کمرے میں داخل ہوا۔ اندر ایک خوب صورت سا آدمی بستر پر نیم دراز تھا۔ وہ اسے دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
”آئیے ، تشریف رکھیے۔“ پھر بشیر سے کہا:” بشیر تم جاﺅ اور خانساماں سے چائے کا کہہ دو۔“
”جی اچھا!“ ملازم یہ کہہ کر چلا گیا۔
”آپ شاہد قمر ہیں۔ میرا خط آپ کو ملا ہوگا اور آپ وہ پڑھ کر آئے ہیں۔ یہی بات ہے نا؟“
شاہد قمر نے پوچھا:”جی ہاں، لل… لیکن… آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟“
”بتاتا ہوں۔ آپ کے گھر کے میں نے دو تین چکر لگائے، لیکن ہر بار دروازے پر تالا لگا نظر آیا۔ آخر میں نے خط لکھ کر اندر ڈال دیا۔“
”وہ تو ٹھیک ہے… لیکن۔“
”آپ ضرور یہ خیال کرتے رہے ہوں گے کہ میں نے جو یہ پراسرار طریقہ اختیار کیا ہے، اس لیے میں ضرور کوئی جرائم پیشہ آدمی ہوں، ورنہ اس طرح کیوں خط لکھتا۔ یہی سوچتے رہے ہیں نا آپ؟“
”جی ہاں، اس میں شک نہیں کہ مجھے ایسے ہی خیالات آتے رہے، لیکن میں نے ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچا کہ میں کوئی غیر قانونی یا غلط کام قبول کروں گا۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا ہوں۔ میں مزدوری کر کے روکھی سوکھی تو کھا لوں گا۔ ناجائز کام ہرگز نہیں کروں گا۔ میری والدہ کی مجھے یہ نصیحت ہے۔“
”کیا نصیحت ہے بھلا آپ کی والدہ کی۔“ سرفراز غالب مسکرایا۔
”انھوں نے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ بیٹا! حلال روزی کھانا۔ حرام سے خود کو ہمیشہ بچانا۔ حرام روزی طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کرتی ہے۔ جب کہ حلال کھانے والے ہمیشہ مطمئن اور خوش رہتے ہیں، لہٰذا میں حرام روزی کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔“
”حیرت ہے۔ کمال ہے۔“سرفراز غالب کے منہ سے نکلا۔
”جی، کیا مطلب؟ آپ کو کس بات پر حیرت ہے؟“ شاہد قمر کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ایک خاتون نے مجھے بھی اتفاق سے بالکل یہی نصیحت کی تھی۔“
”آپ کا مطلب ہے آپ کی والدہ نے؟“
”وہ میری والدہ نہیں تھیں، لیکن میں ان کا احترام اپنی والدہ کی طرح کرتا تھا۔ بچپن میں انھوں نے مجھے بہت سہارا دیا تھا۔ ان دنوں میں اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ گاﺅں میں رہتا تھا۔ گاﺅں کے سکول میں پڑھتا تھا۔ وہ خاتون ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ پھر میرے ماں باپ فوت ہوگئے۔ ہم بھائی بہن اکیلے رہ گئے۔ اس زمانے میں اس خاتون نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ میں زندگی میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ ا س نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔ وہ خود بے حد غریب تھی، لیکن شاید اس میں نیکی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہماری سبھی ضرورتیں پوری کرنا گویا اس نے اپنی ذمے داری خیال کر لیا تھا۔ پھر ہمارے ایک دور کے رشتے دار ہمیں تلاش کرتے وہاں آگئے۔ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ ہمارے بارے میں انہیں پتا چلا تھا، اس لیے وہ گاﺅں میں پہنچ گئے اور ہمیں شہر لے آئے۔ جب ہم اس خاتون سے رخصت ہورہے تھے تو میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ وہ آنسو مجھے آج تک یاد ہیں، لیکن ہم شہر جانے پر مجبور تھے۔ ہمارے دور کے ماموں بہت دولت مند تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں ہماری زندگی بن جائے گی۔ سو ہم شہر چلے آئے۔ اس کے بعد ہم زندگی کے جھمیلوں میں ایسے الجھے، ایسے الجھے کہ ہمیں اس خاتون کا خیال بھی نہ آیا۔ پھر ماموں اپنا سارا کاروبار ہمارے حوالے کر کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اب جب کہ ہم لوگ ہر چیز کے مالک بن گئے تو مجھے اس خاتون کی یاد آئی۔ میں گاﺅں گیا۔ پتا چلا کہ اس خاتون کا تو مدت ہوئی انتقال ہوگیا ہے۔ ا س کا بیٹا اب شہر میں فلاں جگہ رہتا ہے۔
میں شہر آیا۔ اس کے بیٹے کا مکان تلاش کیا۔ اس مکان پر تالا نظر آیا۔ میں نے آس پاس کے لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا۔اس کے حالات معلوم ہونے پر میں رو پڑا۔ جس خاتون نے ہمیں پالا پوسا تھا، ہمیں ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی، آج اس کی اپنی اولاد مزدوری کرتی پھر رہی تھی۔ میں بے چین ہوگیا۔ میں نے اس کے گھر کے کئی چکر کاٹے۔ شام کے بعد میری اپنی بہت مصروفیات ہوتی ہیں۔ میں آ نہ سکا۔ سو میں نے خط لکھ کر ڈال دیا اور آپ یہاں چلے آئے۔ خط ڈالنے کے بعد مجھے خیال آیا تھا کہ نہ جانے آپ میرے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے، لیکن میں نے سوچا تھا کہ اگر آپ نہ آئے تو میں پھر جا کر ملاقات کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ یہ میری کہانی تھی۔ آپ کی والدہ کے ہم پر بہت بہت احسانات ہیں۔ میری بہنیں بھی آپ سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔ لیجیے کہانی ختم ہونے پر وہ رہ نہیں سکیں، اندر آگئیں۔“
یہاں تک کہہ کر نوجوان خاموش ہوگیا، البتہ اس کی بہنوں نے کہا: ”بھائی جان! السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام!“ شاہد قمر کے منہ سے نکلا۔
وہ حیرت زدہ تھا۔ اسے اپنے کانوں پر، اپنی آنکھوں پر، اپنے تمام حواس پر یقین نہیں آرہا تھا اور سر فراز غالب کہہ رہا تھا:” یہ گھر آپ کا اپنا گھر ہے۔ اب میں ایک بڑے کارخانے کا مالک ہوں۔ وہ کارخانہ آپ کا ہے۔ اس میں جو کام بھی آپ کو پسند ہو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مجھے اتنی خوشی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔“
شاہد قمر کی نظریں ان لوگوں پر جم گئیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان آنسوﺅں میں بچپن کی صورتیں تیرنے لگیں۔ اسے سب یاد آتا جارہا تھا کہ بچپن میں وہ ان لوگوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top