باب دوم: حصہ سوم، آنکھ مچولی:مختصر تاریخ
آنکھ مچولی:مختصر تاریخ
تاریخ، نمایاں موضوعات کا علمی وادبی تناظر
چیئرمین ضمیرالدین میموریل آرگنائزیشن، گرین گائیڈ اکیڈمی کے تحت جولائی ۱۹۸۶ء میں ماہنامہ آنکھ مچولی کا اِجرا کیا گیا۱۔ اپنے پہلے شمارے سے اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے آنکھ مچولی کے مدیر کا کہنا تھا کہ رسالہ شروع کرتے وقت یہ بات ہمارے ذہن میں تھی کہ رسالے کے معیار کو اتنا بلند نہ کیا جائے کہ بعد میں اُسے برقرار رکھنا ممکن نہ ہو مگر اس کے انفرادی پہلوؤں کو ضرور مد نظر رکھا جائے گا۲۔
بقول ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کہ یہ خیال درست ثابت ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں آنکھ مچولی نے بچوں میںغیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔ آنکھ مچولی کے مدیران نے اپنے اغراص ومقاصد کچھ یوں بیان کیے۔
٭…بچوں کے اندر دین وطن کی محبت کو ان کی سوچ اور عمل کا جزو بنانا۔
٭…صاف ستھرا اور پاکیزہ ادب بچوں تک پہنچانا۔
٭…بچوں کی سوچ، اندازِ فکر اور علمی سطح کو جانچنا پرکھنا۔
٭…بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا اور نئی تخلیقی راہیں دکھانا۔
٭…پہلے سے موجود رسائل کو تنقیدی نقطۂ نظر فراہم کرنا تاکہ وہ اپنا معیار بہتر کرسکیں۳۔
رسالے کے پہلے شمارے میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی بطور سر پرست، ظفر محمود شیخ (مدیر اعلیٰ) ،تجمل حسین چشتی (مدیر مسئول)، اور امجد اسلام امجد، سلیم مغل (مدیران اعزازی) تھے۴۔ اس ٹیم میں بتدریج اضافہ ہوتا چلاگیا، محمد اعظم منہاس بطور معاون مدیر رسالے کا حصہ بنے۵۔ٹیم میں تبدیلی مستقل ہوتی رہی۔ بعد میںمشفق خواجہ اور امجد اسلام امجد کو مشاورت میں شامل کر لیا گیا اور طاہر مسعود کو مدیر اعزازی بنایا گیا۔ جبکہ سلیم مغل کو مشیر ادارت کی ذمے داری سونپی گئی۶۔
کچھ عرصے بعد ہمیں اس ٹیم میں مزید نئے نام نظر آتے ہیں۔ منیر احمد راشد، محمد عمر احمد خان اور شاہنواز فاروقی بھی آنکھ مچولی کا حصہ بنے۷۔ آنکھ مچولی نے جہاں تجربہ کار صحافیوں کے تجربے سے فائدہ اُٹھایا، وہیں اپنی ٹیم میں شامل نئے نوجوانوں کی صلاحیتوں میںبھی اضافہ کیا۔
کسی بھی رسالے کے لیے اہم ترین چیز اس کا مواد (Content)ہوتا ہے۔ بچوں کے کسی ادبی پرچے کی ہم بات کریں تو مواد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مجلس ادارت خواہ کتنی ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو، رسائل میں تازہ دَم قلم کاروں کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے بصورت دیگر رسالہ تنوع کھو دیتا ہے۔ آنکھ مچولی کو ابتدا میں اگر چہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو ہر نئے میگزین کو درپیش ہوتی ہیں لیکن جلد ہی آنکھ مچولی کو اچھے اور قابل قلم کار میسر آئے۔ جنھوں نے اپنی اچھی تحریروں کے ذریعے رسالے کے معیار میں گراں قدر اضافہ کیا۔
ان نمایاں قلم کاروں میں:
احمد حاطب صدیقی، اعجاز احمد فاروقی، طاہر مسعود، کلیم چغتائی، اسلم شیخوپوری، فاروق عادل، فاروق حسن چانڈیو، سلیم مغل، شاہ نواز فاروقی، عشرت رضیہ، فہیم انور عباسی، لالہ رُخ شوکت، عبدالودود شاہ، اخلاق احمد، محمد عمر احمد خان، نعیم بلوچ، حمیرا لطیف، محمد اعظم منہاس، سید خورشید شاہ عالم، عقیل عباس جعفری، اسما ہارون، شاہد جمیل، عظیم سرور، وجیہ احمد صدیقی، علی انوری، فاطمہ ثریابجیا، بیگم ثاقبہ رحیم الدین، ملک سلیم، قرۃالعین حیدر، مشہود شہزاد، سیما صدیقی، حافظ حسن عامر، مسرت اکرم، سید کاشان جعفری، نسرین شاہین، جدون ادیب، ابوغازی محمد، محمد نصیر ہزاروی، آرایم راہی اور فرزانہ روحی شامل تھیں۸۔
اس طرح شعرا میں:
عنایت علی خان، سید نظر زیدی، ضیاء الحسن ضیا، عبد القادر، محمد شاہد فیروز، نفیس فریدی، محمد جاوید خالد، مصطفی چاند، احمد حاطب صدیقی، شفقت علی شفقت، ضیاء الحق قاسمی، شاہ نواز فاروقی، محمد علی انصاری، فاروق قیصر، نوید مرزا اور حفیظ الرحمن احسن نے اپنی دل چسپ نظموںسے بچوں کے ادب میں اچھا اضافہ کیا۹۔ ان ادیبوں اور شاعروں میںکچھ ایسے تھے جو نظم و نثر دونوں میں لکھتے تھے۔
مثلاً احمد حاطب صدیقیؔ، شاہ نواز فاروقیؔ، سید نظر زیدیؔ، عنایت علی خانؔ کے نام ان میں نمایاں ہیں۔
آنکھ مچولی کا سائز عام رسالوں کی طرح ۲۵.۸x۷.۵رہا ۱۰۔ جب کہ صفحات مختلف اوقات میں تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ خاص شماروں میں ۲۵۰صفحات سے ۳۰۰صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۱۱۔
آنکھ مچولی کا پہلا شمارہ ۱۱۲ صفحات کا شائع ہوا تھا۔ اس میں سرورق اورسرورق سے منسلک صفحات ملا کر ۱۱۶بنتے ہیں۔ پہلے رسالے کی قیمت پانچ روپے تھی۱۲۔
آنکھ مچولی نے اپنے پہلے ہی سال رنگین صفحات کا اضافہ کیا۱۳۔ ان صفحات میں عموماًکوئی دلچسپ لطیفے پر مشتمل اسکیچ شائع کیاجاتا تھا۔ یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلاگیا اور تحریروں کے رنگین اسکیچز بھی بننا شروع ہوئے۱۴۔
آنکھ مچولی کی خاص بات اس کے خاص شمارے تھے۔ یہ خاص شمارے عمومی نوعیت کے بھی تھے اور مختلف عنوانات اور موضوعات کے تحت بھی شائع کیے جاتے تھے۔ ان خاص شماروں میں نہ صرف صفحات کی تعداد دگنی ہوتی تھی بلکہ بچوں کو خاص انعامات بھی دیے جاتے تھے۔ یہ انعامات، اسٹیکر، پاکٹ کوئز، مختلف گیمز کی صورت میں ہوتے تھے۔عموماً عام شماروں میں بھی مختلف انعامات بچوں کو دیے جاتے تھے۔ آنکھ مچولی نے تقریباً ۲۴ کے قریب خاص شمارے شائع کیے جس میں تین ’’خاص شمارے‘‘ عنوانات کے تحت شائع ہوئے جبکہ باقی اکیس مختلف موضوعاتی نوعیت کے حامل تھے۱۵۔
ان تمام خاص نمبرز کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے۔
آنکھ مچولی کے موضوعاتی اور عمومی خاص نمبروں کی فہرست۱۶
شمار ۔ خاص نمبر کا عنوان ۔ ماہ وسال ۔ صفحات ۔ تحفہ
۱ ۔ کرکٹ اسپیشل نمبر ۔ اکتوبر ۱۹۸۶ء ۔ ۱۴۸ ۔ رنگین اسٹیکر کا تحفہ
۲ ۔ خاص نمبر ۔ جنوری ۱۹۸۷ء ۔ ۳۰۶ ۔ پزل بک کا تحفہ
۳ ۔ کرکٹ اسپیشل ۔ اکتوبر ۱۹۸۷ء ۔ ۲۹۸ ۔ کرکٹ کیپ کا تحفہ
۴ ۔ قہقہہ نمبر(۱) ۔ اپریل ۱۹۸۸ء ۔ ۲۴۰ ۔ چھہ کلر پنسل کے بکس کا تحفہ
۵ ۔ سالگرہ نمبر ۔ جولائی ۱۹۸۸ء ۔ ۲۵۶ ۔ چار تہنیتی کارڈز کا تحفہ
۶ ۔ خوف ناک نمبر ۔ جنوری ۱۹۸۹ء ۔ ۲۴۸ ۔ رنگین پنسل بکس کا تحفہ
۷ ۔ کہانی اسپیشل نمبر ۔ اپریل ۱۹۸۹ء ۔ ۲۵۲ ۔ کتاب’ کہنا بڑوں کا مانو‘ کا تحفہ
۸ ۔ قہقہہ نمبر (۲) ۔ جولائی ۱۹۸۹ء ۔ ۲۵۰ ۔ ۔۔۔
۹ ۔ خوف ناک نمبر ۔ جنوری ۱۹۹۰ء ۔ ۲۵۶ ۔ پاکٹ کوئز کا تحفہ
۱۰ ۔ دل دل پاکستان نمبر ۔ اگست ۱۹۹۰ء ۔ ۲۶۸ ۔ منزل پاکستان کھیل مع گوٹیاں
۱۱ ۔ اطفال نمبر ۔ جنوری ۱۹۹۱ء ۔ ۲۷۶ ۔ سالانہ منصوبہ بندی کا چارٹ اور اسٹیکر
۱۲ ۔ حیرت ناک نمبر ۔ جولائی ۱۹۹۱ء ۔ ۲۵۴ ۔ کتابِ حیرت کا تحفہ
۱۳ ۔ عالمی ادب نمبر ۔ جنوری ۱۹۹۲ء ۔ ۲۷۶ ۔ ۔۔۔
۱۴ ۔ کشمیر بنے گا پاکستان نمبر ۔ جولائی ۱۹۹۲ء ۔ ۲۰۸ ۔ ’کشمیر معمہ‘ کا تحفہ
۱۵ ۔ ایجادات نمبر ۔ جنوری ۱۹۹۳ء ۔ ۲۱۲ ۔ ۔۔۔
۱۶ ۔ حقوق اطفال نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۳ء ۔ ۱۶۸ ۔ کوئی نہیں
۱۷ ۔ شرارت نمبر ۔ فروری ۱۹۹۴ء ۔ ۲۵۴ ۔ جادوئی کھیل کی کتاب کا تحفہ
۱۸ ۔ خاص نمبر ۔ ستمبر ۱۹۹۴ء ۔ ۲۵۰ ۔ آٹو گراف بک کا تحفہ
۱۹ ۔ محنت کش بچے نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۵ء ۔ ۱۳۲ ۔ کوئی نہیں
۲۰ ۔ خاص نمبر ۔ مئی ۱۹۹۵ء ۔ ۲۴۸ ۔ ۔۔۔
۲۱ ۔ خوف ناک نمبر ۔ نومبر ۱۹۹۵ء ۔ ۲۵۲ ۔ ماسک کا تحفہ
۲۲ ۔ فروغ تعلیم نمبر ۔ اپریل ۱۹۹۶ء ۔ ۱۳۲ ۔ کوئی نہیں
۲۳ ۔ مظلوم بچے نمبر ۔ جون۱۹۹۶ء ۔ ۲۲۴ ۔ دعائوں کے اسٹیکر کا تحفہ
۲۴ ۔ مقابلہ نمبر ۔ جنوری ۱۹۹۷ء ۔ ۱۴۸ ۔ خصوصی تحفہ
۲۴ ۔ اطفالِ پاکستان نمبر ۔ مارچ ۱۹۹۷ء ۔ ۱۵۶ ۔ کوئی نہیں
ان خاص شماروں میں ایک خاص بات تو یہ ہے کہ جہاں دو قہقہہ نمبر شائع کیے گئے، وہیں تین خوف ناک نمبر بھی شائع ہوئے۔ تین خوف ناک نمبرز کی اشاعت بتاتی ہے کہ بچوں کو ڈرائونا ادب بھی بہت پسند آتا ہے۔ بچے ڈرتے ہیں لیکن وہ کہانی سے محظوظ ہونا بھی چاہتے ہیں لیکن ان خوف ناک نمبر میں ایسی کہانیاں اور مضامین شائع کیے گئے جو بچوں کو ڈرانے کے بجاے اُنھیں بہادری کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں۔۱۷
اسی طرح کہانی کے ساتھ تحفہ دینے کا رجحان آنکھ مچولی نے کچھ ایسا پیدا کیا کہ ہمیں اس وقت شائع ہونے والے دیگر رسائل میں بھی یہ رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔طرح طرح کے تحفے دینا آنکھ مچولی ہی کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ آنکھ مچولی کے ہر خاص شمارے کے ساتھ کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور ہوتا تھا۔
۱۹۹۰ء کے ایک سروے ۱۸کے دوران جب بچوں سے آنکھ مچولی کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی گئی تو بچوں نے بتایا:
٭… آنکھ مچولی تحائف دیتا ہے اور مختلف قسم کے خاص نمبرز نکالتا ہے۔ کہانیاں معیاری ہوتی ہیں اور انعامی سلسلے بھی موجود ہیں۔
٭…معیاری اَدب، معلوماتی مضامین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
٭… عنوان کے تحت لطیفے، ذہنی آزمائش کے مقابلے اور خوب صورت سرورق کی وجہ سے پسند ہے۔
٭…قومی سوچ کا اظہار اور پاکستانیت کا درس ہوتا ہے۔
جبکہ اس سروے میں کچھ بچوں نے ناپسندیدگی کی وجوہات بھی بتائیں:
٭… قیمت بہت زیادہ ہے۔
٭…اس میں زیادہ تر تحریریں مجلس ادارات میں شامل افراد کی ہوتی ہیں۔
٭…بچوں کی تحریروں کو اہمیت نہیں دی جاتی۱۹۔
جہاں بہت ساری چیزیں آنکھ مچولی کی خوبیاں تھیں وہیں چند چیزیں بچوں نے محسوس بھی کیں۔
پسندیدگی کی وجوہ بہت ساری تھیں جب کہ ناپسندیدگی کی وجوہ کم تھیں۔ اَدب اطفال میں آنکھ مچولی نے کم وبیش ۱۲ برس کا عرصہ گزارا۔اس عرصے کے دوران آنکھ مچولی بدلتا گیااور اس کا شمار بچوںکے بہترین رسائل میں ہونے لگا۔ بالا ٓخر بچوں کے اَدب پر اپنے گہرے نقوش چھوڑتا آنکھ مچولی مارچ ۱۹۹۷ء کو بند کردیا گیا۲۰۔
بعد میں اس رسالے کو نعیم احمد بلوچ نے تقریباً چار سال تک (۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۲ئ) شائع کیا ۲۱۔ اس کے بعد لاہور کے رضوان ثاقب نے آنکھ مچولی چھاپنے کے حقوق حاصل کیے ۲۲ لیکن کچھ عرصہ چلا کر اُنھیں بھی یہ رسالہ بند کر نا پڑا اور یوں بچوں کے ادب کا اہم باب بند ہوگیا۔
موضوعات:
بچوں کے رسائل میں آنکھ مچولی کی خاص بات یہ ہے کہ اسے بہت جلد ہی تجربہ کار ٹیم اور اچھے لکھاریوں کی کھیپ میسر آئی۔ آنکھ مچولی کا پہلا شمارہ جولائی ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا ۲۳اور پہلاہی شمارہ بچوں کے ادب میں ایک خوشگوار اضافے کے طور پر دیکھا گیا۔ آنکھ مچولی کی خاص بات یہ رہی کہ اس نے ابتدا ہی سے زندگی سے قریب موضوعات کو کہانیوں میں ڈھالا۔ ایک بچے کو روزانہ کن مراحل یا مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، اس سب کو رسالے کا جز بنایا گیا۔ بچوں کی نفسیات سے واقف قلمکاروں نے قلم کے ایسے جوہر دکھائے کہ آنکھ مچولی آج بھی بچوں کے ادب میں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔
آنکھ مچولی میں شائع ہونے والے مواد کو اگر موضوعات کی ترتیب سے دیکھیں تو ہمیں اس بارہ سالہ دور میں دینی، اسلامی تاریخی، اخلاقی، معاشرتی، مہماتی، جذبہ حب الوطنی، سائنس فکشن، مزاحیہ موضوعات پر کہانیاں ملیں گی۲۴ جب کہ مختلف شخصیات کو کہانی کے پیرائے میں پیش کیا گیا، معلوماتی مضامین کا اسلوب دل چسپ ہونے کے باعث بچوں میں علم کے اضافے کا سبب بنا۔
آنکھ مچولی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس نے بچوں کے ادب میں موجود تمام اصناف پر محنت کرکے اسے بچوں کے لیے دل چسپ بنایا ہے۔اس رسالے کا حصہ نظم اور حصہ نثر اس کی منھ بولتی تصویر ہے۔
آنکھ مچولی کے پہلے شمارے کا جائزہ لیتے ہوئے جب ہم مانو بلی سے بامحاورہ باتیں پر پہنچتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی کہانی پڑھنے کو ملتی ہے جو منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ بلی سے متعلق تقریباً تمام محاورات یاد کرواتی نظر آتی ہے، نہ صرف یاد بلکہ ان محاورات کا پس منظر بھی بتایا جاتا ہے۲۵۔
ایک بچے کے لیے ایک مضمون کو پڑھنا یا پھر اس میں موجود کام کی باتوں کو یاد رکھنا ذرا مشکل ہوتا ہے، لیکن یہی چیز اگر اسے کہانی کی صورت میں بتائی جائے تو اسے سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
حق اسکواڈ، آنکھ مچولی کا مقبول سلسلہ تھا اور یہ سلسلہ پہلے شمارے ہی سے آنکھ مچولی کا حصہ رہا ہے۔ حق اسکواڈ کا موضوع معاشرے میں موجود برائیوں کے خاتمے کے حوالے سے تھا۔ حق اسکواڈ کے ممبران معاشرے میں موجود چھوٹے موٹے مسائل کو مختلف ترکیبوں سے حل کرتے نظرآتے ہیں ۲۶۔
اسی طرح مضامین کے سلسلے پر ہونے والی محنت نظر آتی ہے، اچھی تصویروں کے ساتھ مضمون کو دلکش بنایا جاتا ہے۔ مضامین میں سائنس کے موضوع پر بچوں کو نئی نئی سائنسی معلومات فراہم کی جارہی ہوتی ہے۔ مثلاً:
٭…برف سفید کیوں ہوتی ہے؟
٭…مچھلی پانی نہیں پیتی!
٭…چیونٹے لڑائی میں تیزاب استعمال کرتے ہیں۔
٭…شہد کی مکھیاں جرمانہ دیتی ہیں …وغیرہ۲۷
آنکھ مچولی صرف کہانیوں اور مضامین کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ اس رسالے میں متنوع قسم کے موضوعات پر مختلف قسم کے سلسلے شامل کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک صفحہ امی ابو کے نام سے مختص کیا گیا ہے، جس میں کسی خاص علمی شخص سے والدین کے حوالے سے ایک صفحہ لکھوایا جاتا تھا۔۲۸
دعوۃ اکیڈمی کے تحت شعبہ بچوں کا اَدب نے بچوں کے رسالوں کا جائزہ لیا، اس جائزے میں دیکھا گیا کہ کن موضوعات کا خاص طور پر احاطہ کیا گیا ہے اور کس رسالے نے کن کن موضوعات کو اپنے رسالے کا حصہ بنایا۔ اس جائزے میں ہم سال ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء کا تقابل کرکے دیکھیں گے کہ دونوں برسوں میں آنکھ مچولی نے ان موضوعات کو رسالے میں کتنا حصہ دیا ہے۔
آنکھ مچولی ۱۹۸۹ء ۲۹اور ۱۹۹۰ئ۳۰ کے شماروں کا جائزہ
شمار | عنوانات | ۱۹۸۹ء | ۱۹۹۰ء |
۱ | دینی تحریریں | ۵ | ۴ |
۲ | اسلامی تاریخی تحریریں | ۱ | ۸ |
۳ | اخلاقی کہانیاں | ۴۰ | ۲۶ |
۴ | معاشرتی تحریریں | ۱۳ | ۳۵ |
۵ | مہماتی کہانیاں | ۱۲ | ۱۸ |
۶ | جذبہ حب الوطنی پر مبنی کہانیاں | ۶ | – |
۷ | سائنس فکشن | ۲ | ۷ |
۸ | سلسلہ وار ناول | ۵ | ۲ |
۹ | مزاحیہ تحریریں | ۴۱ | ۱۲ |
۱۰ | غیر ملکی ادب سے تراجم | ۲۸ | ۱۵ |
۱۱ | سفر نامے | ۱ | – |
۱۲ | تصویری کہانیاں | ۳۰ | ۲۸ |
۱۳ | شخصیات | ۸ | ۱۰ |
۱۴ | ڈراما | ۱ | – |
۱۵ | معلوماتی مضامین | ۳۷ | ۵۰ |
۱۶ | مافوق الفطرت کہانیاں | ۰۰ | ۰۰ |
۱۷ | نظمیں | ۴۶ | ۴۴ |
۱۸ | حمد و نعت | ۲ | ۸ |
۱۹ | مستقل سلسلے | ۹ | ۹ |
۲۰ | متفرقات | ۳۳ | ۴۴ |
اس تناظر میں دیکھا جائے تو آنکھ مچولینے بچوں کے حوالے سے جتنے اہم موضوعات ہوسکتے تھے ان کا احاطہ کیا ہے۔ ان موضوعات میں سفرنامہ بھی خصوصی مطالعے کا مستحق ہے کیوں کہ سفرنامے کی صنف کی تعداد ہمیں متاثر کن نظر آتی ہے۔ یقینا اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک بچوں کے لیے صرف چند ہی سفرنامے لکھے گئے تھے اور یہ صنف بچوں کے ادب میں نئی تھی۳۱۔ حالاں کہ سفرنامے کے ذریعے بچے ناصرف دور دیسوں کے بارے میں جان سکتے ہیں بلکہ لوگوں کے رہن سہن کا طریقۂ کار کا بھی پتا چل جاتا ہے۔بچے ایک نئی تہذیب اور ثقافت سے آشنا ہوپاتے ہیں۔ اس لیے سفرناموں کو بچوں سے ضرور متعارف کروانا چاہیے۔
۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء کے دونوں برسوں میں مافوق الفطرت کہانیوں سے مکمل اجتناب برتا گیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مافوق الفطرت کہانیوں کے حوالے سے ایک راے قائم کی گئی تھی کہ اس سے بچے حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں اور خیالی دنیا بسالیتے ہیں، جب کہ بچوں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔
یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ مافوق الفطرت کہانیوں کی کثرت بچے کو تخیلاتی دنیا کا اَسیر بنالیتی ہیں لیکن اس قسم کی کہانیوں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بچوں کی قوت متخیلہ بہت بڑھ جاتی ہے، وہ اپنے ذہن میں پریوں اور دیو۔۔۔ وغیرہ کے تصورات قائم کرلیتے ہیں۔ یہ تصورات اسے ایک نئی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں ، اس دنیا میں ہر ناممکن کام ان کے لیے ممکن ہوجاتا ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر صدیوں پہلے کی کہانیوں میں ہمیں ایسا جادوئی آئینہ نہ ملتا ، جس میں جادوگر دور بیٹھے تمام مناظر دیکھ لیتا تھاتو کیا آج اس دور میں ہم کچھ نیا ایجاد کر پاتے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی مدد سے کمپیوٹر ہمیں دیس دیس کے حالات براہِ راست(Live )کسی جادوگر کے آئینے کی طرح دکھا رہا ہوتا ہے اور الہٰ دین کے اُڑنے والے قالین کی کہانی نجانے کتنی پرانی ہے، ان کہانیوں کو پڑھ کر ہم حیرت زدہ رہ جاتے تھے لیکن آج ہم آسمان میں اُڑتے ہوئے طیاروں کو دیکھتے ہیں تو ذرا برابر حیران نہیں ہوتے۔
سچ تو یہ ہے کہ چیزیں پہلے تخیل میں آتی ہیں، یہ تخیل پھر حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ اس لیے بچوں کے تخیل کو بلند پروازی کی طرف لے جانے والی کہانیوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔اس میں یہ بات بہرحال یاد رکھنے کی ہے کہ کثرت کسی بھی چیز کی نقصان دہ ہے۔ اگر کہانیوں میں نصیحت زیادہ ڈال دیں گے تو وہ وعظ ہوجائے گا، کہانی اس میں دب جائے گی۔اسی طرح بہت زیادہ تخیلاتی چیزیں بچے کو پڑھنے دے دیں تو یقینا اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اس معاملے میں مدیر کو اعتدال کا دامن تھامنا چاہیے۔
غیر ملکی ادب سے تراجم کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ ہمیں اس عرصے کے دوران ملتا ہے۔۱۹۸۹ء میں تقریباً ۲۸ کہانیاں۳۲ جبکہ ۱۹۹۰ء میں ۱۵ تراجم شائع ہوئے ۳۳۔ غیر ملکی ادب سے جہاں بچے کی سوچ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور وہ ایک منفرد اور معیاری ادب سے روشناس ہوتے ہیں،وہیں ہمارے مقامی قلم کاروں کو بھی کہانی میں نئے خیالات کو برتنے کے حوالے سے مختلف اظہا رکا پتا چلتا ہے۔
بحیثیت مجموعی ایک دو حصوں کو چھوڑ کرآنکھ مچولی نے قارئین کے ذوق کے مطابق مختلف موضوعات پر اچھا مواد دینے کی کوشش کی۔
تصاویر:
آنکھ مچولی میں جن چیزوں کا بھرپور استعمال کیا گیا، وہ تصاویر ہیں۔ اس سے قبل بچوں کے جو رسائل شائع ہورہے تھے ، ان میں بھی بہت اچھے اسکیچز(Sketches) کا استعمال ہورہا تھا۔ اس سلسلے کو آنکھ مچولی نے آگے بڑھایا اور بچوں کے لیے ان کے سِن کے حساب سے تصویریں شائع کرنا شروع کیں۔ بچوں کا کوئی بھی رسالہ بغیر تصویر کے مکمل نہیں کہلایا جاسکتا۔ بچوں کی نفسیات ہے کہ وہ تصویروں کو پسند کرتے ہیں، متحرک تصویریں اُنھیں یاد رہتی ہیں۔
آنکھ مچولی میں مومن رحیم ۳۴، فرقان وہاب اور وارث وہاب ۳۵کے اسکیچز رسالے کی زینت بنتے رہے۔ اس کے سرورق سے لے کر اس کے آخری صفحے تک تصویر کا استعمال کثرت سے نظرآتا ہے۔
ابتدا میں آنکھ مچولی کے اندرونی صفحات کے خاکے ایک رنگ میں چھپتے رہے یاپھر اس میں ہرا اور لال رنگ شامل کرکے اسے خوش رنگ بنانے کی کوشش کی گئی۳۶۔ رسالے کا سرورق اور اس سے جڑے بقیہ تین صفحات رنگین اشتہارات سے سجے ہوتے تھے۔ ستمبر ۱۹۸۶ء میں باقاعدہ اندرونی صفحات پر رنگین خاکوں کا کام شروع کیا گیا۔ یہ خاکے کسی لطیفے یا مزاحیہ فقرے پر مشتمل ہوتے تھے۳۷۔
اس عرصے کے درمیان مزید رنگین صفحات بھی شائع کیے جاتے رہے، لیکن ان صفحات میں صرف اشتہارات ہی جگہ بنا پاتے تھے۔ جنوری ۱۹۸۹ء سے رنگین صفحات میں کہانیوں اور مضامین کو زیادہ جگہ ملنے لگی ۳۸۔ ابتدا میں رنگین صفحات کے لیے الگ سے کاغذ کا استعمال کیا جاتا رہا کہ پرنٹنگ میں رنگین صفحہ کِھل کر آئے اور پھر آہستہ آہستہ عام صفحات میں بھی رنگین صفحات شامل کیے گئے۔ کہانیوں کے رنگین خاکے بننا شروع ہوئے اور بچوں میں آنکھ مچولی مقبول ہوتا گیا۔
آنکھ مچولی کے مختلف ادوار میں درج ذیل قسم کے خاکے شامل رہے ہیں:
نومبر ۱۹۸۶ء میں احمد حاطب صدیقی کی کہانی میں گندی بچی نہیں بنوں گی کا خاکہ۳۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست۱۹۹۰ء میں طاہر مسعود کی کہانی ٹوٹا ہوا پل کا خاکہ۴۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایت علی خان کی تحریر بولتی میت کا جولائی۱۹۹۳ء میں بنایا گیا خاکہ۴۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نذیر انبالوی کی کہانی آزادی جندہ باد کا مارچ ۱۹۹۷ء میں بنایا گیا اسکیچ۴۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ مچولی کے مدیران نے ابتدا ہی میں اسکیچز کا اعلا معیار قائم رکھا۔ ابتدا میں اگرچہ رنگین اسکیچز کا استعمال ہمیں نظر نہیں آتا لیکن ایک رنگ پر مشتملآنکھ مچولی کے خاکوں میں نہایت باریک بینی اور محنت نظر آتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی اسکیچز ہیں جیسے ہم کئی برس قبل بھارت سے شائع ہونے والے کھلونا میں دیکھ چکے تھے۔
سرگرمیاں:
آنکھ مچولیکی سب سے اہم اور خاص بات اس کی سرگرمیاں رہی ہیں۔ سرگرمیاںنا صرف بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ کرتی ہیں وہیں رسالے کا اپنا معیار بھی اچھی سرگرمیوں کی وجہ سے معیاری رہتا ہے، جہاں ہمیں اس وقت کے دیگر معاصر رسائل میں سرگرمیوں کی تعداد کم نظر آتی ہے، وہیںآنکھ مچولی اپنی پوری تندہی کے ساتھ نت نئی سرگرمیوں سے بچوں کی دل چسپی کا سامان پیدا کرتا نظر آتا ہے۔یہ سرگرمیاں دو طرح کی ہیں:
٭…مستقل سلسلے
٭…انعامی سلسلے
مستقل سلسلے:
آنکھ مچولینے اپنے ابتدائی شماروں ہی سے منفرد قسم کے مستقل سلسلوں کا آغازکردیا تھا۔ جس میں بتدریج ہر ماہ اضافہ بھی کیا گیا اور بہت سارے سلسلوں کو تبدیل بھی کیا گیا۔ جب ہم آنکھ مچولی کے تمام شماروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ سلسلے نام بدل بدل کر نظر آتے ہیں۴۳۔
مستقل سلسلوں میں یہ سلسلے شامل تھے:
۱۔ اچھی بات
۲۔ بات چیت، ماہِ رواں کی پہلی بات
۳۔ بڑے لوگ بڑی باتیں
۴۔ ڈاک ڈاک کس کی ڈاک، بہ خدمت جناب، بنام آنکھ مچولی
۵۔ اس مہینے کا نام کیسے پڑا؟
۶۔ آئیے بنیں آرٹسٹ
۷۔ لذیدار مطیفے، کھٹ میٹھے، گلگلے، لطیفے شطیفے
۸۔ سائنس کی دنیا، سائنس انکوائری، درِ حیرت، سوال یہ ہے
۹۔ ننھے ہاتھ نئی تحریریں، نئی تحریریں، قلم دوست
۱۰۔ قلمی دوستی(آؤ ملائیں ہاتھ)
۱۱۔ ایک صفحہ امی ابو کے لیے
۱۲۔ نشانِ عظمت، سنہرے حروف
۱۳۔ گنی چنی معلومات
اچھی بات، آنکھ مچولی میں شائع ہونے والی سب سے پہلی تحریر ہوتی تھی ۴۴۔ اس سلسلے میں کسی ایک حکایت کو بیان کیا جاتا ہے، عموماً حکایت سعدی اس سلسلے کا حصہ بنتی تھی۔بچوں کے رسائل میں عموماً پورے صفحے کو تصویر یا مواد سے بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً آدھے صفحے پر تصویر اور مواد بڑی خوب صورتی کے ساتھ جمایا جاتا ہے، جو دیکھنے میں آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ آنکھ مچولی نے اپنے پہلے شمارے میں سعدی کی اس حکایت کو رسالے کی زینت بنایا:
اندھیری رات میں ایک نابینا کے ہاتھ میں چراغ دیکھ کر ایک راہ گیر نے حیرت سے پوچھا کہ ’’اے بھائی تمھیں تو نظر نہیں آتا پھر یہ چراغ کس لیے؟‘‘
نابینا نے جواب دیا:’’ہاں بھائی مجھے تو نظر نہیں آتا مگر میں اندھیری رات میں اپنے چراغ سے تمھیں تو راستہ دکھاسکتا ہوں۔‘‘۴۵
یہ چھوٹی چھوٹی حکایات عموماً بڑی بڑی کہانیوں سے زیادہ دلچسپ اور اثر انداز ہونے والی ہوتی ہیں۔ اُردو کے بیشتر رسائل اس طرح کی حکایات سے بچوں اور بڑوں کی تربیت کا سامان کرتے ہیں۔
بات چیت دراصل رسالے کا اداریہ ہوتا تھا جس میں مدیر اپنی بات قارئین سے کرتے ہیں۴۶۔ اداریہ عموماً مدیر تحریر کرتا ہے لیکن آنکھ مچولی میں اس روایت کو مدیر اعلیٰ ظفر محمود شیخ آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں، وہ اپنے اداریے میںکبھی رسالے میں موجود کہانیوں اور مضامین کی افادیت اور اہمیت بتارہے ہوتے ہیں تو کبھی بچوں کو اس خاص مہینے کی مناسبت سے معلومات فراہم کرتے ہیں اور کبھی بچوں کو نصیحتیں بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
جون ۱۹۹۳ء میں اپنے ایک اداریے میں مدیر اعلیٰ بتاتے ہیں:
بیماری کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ بیماریاں تو انسان کے جسم کو لاحق ہوتی ہیں۔ ان کا علاج ڈاکٹر اور حکیم کردیتے ہیں لیکن بعض بیماریاں انسان کی طبیعت اور مزاج میں پیدائشی ہوتی ہیں۔ ان کا پتا کردار اور رویوں سے چل جاتا ہے لیکن ان کا علاج کسی مطب میں نہیں ہوسکتا۔
خودغرضی بھی ایک خطرناک قسم کی بیماری ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے یہ بیماری اکثر ان کی شخصیت کو تباہ کردیتی ہے اور وہ دوسروں کی نظروں میں اپنی عزت اور احترام کھو بیٹھتے ہیں۴۷۔
عموماً اداریہ رسالے کا ضروری جز سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھار تو اداریہ بہت دلچسپ ہوتا ہے، جسے پڑھتے ہی طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات اداریہ اتنا خشک اور ناصحانہ ہوجاتا ہے کہ بچوں کے لیے اسے سمجھنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔
بڑے لوگ بڑی باتیں میں مختلف بڑے لوگوں کے اقوال شائع کیے جاتے تھے ۴۸۔ یہ باقاعدہ مستقل سلسلہ نہیں تھا۔ کبھی کبھار شائع کیے جاتے تھے۔ یہ اقوال زرّیں کے نام سے بھی مختلف فلرز کی صورت میں شائع کیے گئے۔
ملک طارق محمود اعوان کا مراسلہ دیکھیے جس میں وہ اقوال زرّیں پیش کررہے ہیں
٭…اندھا وہ ہے جو دل کا اندھا ہو۔
٭…انسان حسن سلوک کا غلام ہے۔
٭…تجربہ بہترین اُستاد ہے۔
٭…تمام چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔
٭…ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو کچھ اس میں ہوتا ہے۔۴۹
ڈاک ڈاک کس کی ڈاک بچوں کے رسالے پر کیے گئے تبصروں پر مشتمل سلسلہ تھا۵۰۔ یہ سلسلہ دوسرے شمارے سے مستقل رسالے کا حصہ رہا ہے۔ بچے براہ راست کہانیوں اور مضامین کی پسندوناپسند سے متعلق اپنی راے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ بچوں کے بھیجے گئے خطوط واحد ذریعے ہوتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کو کیا چیز پسند ہے اور کس چیز کو وہ رسالے میں نہیں دیکھنا، یا پڑھنا چاہتے ہیں۔اس لیے ہر اچھا رسالہ قارئین کے خطوط کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور ان خطوط کی روشنی میں رسالے کو بہتر سے بہتر بناتا ہے۔
یہ صرف خطوط شائع کرنے کی حد تک محدود سلسلہ نہیں تھا۔ اس میں ہر قاری کو جواب دیا جاتا اور جواب اس سلیقے سے دیا جاتا کہ بچوں نے اس سے بہت کچھ ضرور سیکھا ہوگا۔
ذرا ایک دلچسپ خط اور اس کا جواب ملاحظہ کیجیے:
پیارے بھیا! کیا آپ ہم سے ناراض ہیں۔ ہم نے ایک خط اور کہانی بھیجی تھی، مگر آپ تو ڑکار مارے بغیر ہضم کرگئے۔ رسالہ بہت اچھا تھا مگر جس بات کی شدت سے محسوس ہوئی، وہ جاسوسی کہانیوں کی کمی ہے۔ جاسوسی کہانیاں ضرور دیا کریں۔ آپ جنوں والی کہانیاں کم شائع کریں۔ یہ ہمیں گمراہی میں ڈال دیتی ہیں۔
(محمد طارق شاد۔فیصل آباد)
اچھے بھائی طارق شاد! ہم آپ سے بالکل ناراض نہیں۔آپ کا پہلا خط ہمیں نہیں ملا،ورنہ کم از کم خط لکھنے والے بچوں کی فہرست میں آپ کا نام ضرور ہوتا۔ آپ کو آنکھ مچولی میں جاسوسی کہانیوں کی شدت سے کمی محسوس ہوئی مگر ہم آپ سے متفق نہیں۔ حق اسکواڈ اور رومی بھیس بدلتا ہے اسی نوعیت کی کہانیاں ہیں۔ہاں! اگر آپ کی مراد ٹھائیں ٹھوں والی خون بہاتی لاشیں گراتی جاسوسی کہانیاں ہیں تو بھیا ہم انھیں ’’جنوں والی‘‘ کہانیوں سے زیادہ تباہ کن سمجھتے ہیں۔ ویسے کان اِدھر لائیے ایک بات چپکے سے بتادیں کہ ’’ڈکار‘‘ …’’ڑ‘‘ سے نہیں لکھا جاتا۵۱۔
خطوط کا یہ سلسلہ نام بدل بدل کر شامل کیا جاتا رہا ہے۔ بہ خدمت جناب۵۲، بنام آنکھ مچولی۵۳ اور ڈاکیا ڈاک لایا۵۴ اس سلسلے کے دیگر نام ہیں۔
اس مہینے کا نام کیسے پڑا؟ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس سلسلے میںمہینوں کے ناموں کی توجیہہ پیش کی جاتی تھی ۵۵۔ عموماً ہم جانے انجانے میں بہت ساری چیزوں کے نام لیتے ہیں لیکن اس کی وجہ تسمیہ نہیں جانتے۔ اسی طرح مہینوں کے نام ہیں۔ قارئین کے لیے یہ معلومات انتہائی دلچسپی کا مؤجب رہی ہوگی۔ اگست کے نام کی وجہ تسمیہ مضمون نگار ’حمیرا لطیف‘ یوں بیان کرتی ہیں:
قدیم روم کے لوگ اگست کو سیکڈ لکس کہا کرتے تھے، یعنی چھٹا مہینہ لیکن جب جولیس سیزر کے کلینڈر کو درست کرنے کے لیے مہینوں کی ترتیب بدلی تو سیکڈ لکس کا نام مناسب نہیں رہا، اس لیے یہ مہینہ آٹھواں ہوگا۔ روم کے عوام نے اس کا نام بدل دیا اور سیزر کے پڑپوتے اور روم کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اسی کے نام پر اس مہینے کا نام اگست رکھا گیا۵۶۔
اسی طرح اسلم شیخوپوری نے اسلامی مہینوں کے ناموں کی وجۂ تسمیہ اس سلسلے کے تحت بیان کی ہیں۔
آئیے بنیں آرٹسٹ اس سلسلے میں ایک تصویر اور اس کا ادھوراخاکہ قارئین کو مکمل کرنے کا ہدف دیا جاتا ہے۵۷۔ یہ سلسلہ ان بچوں کے لیے کارآمد ہے جو مصور بننا چاہتے ہیں یا اِنھیں مصوری کا شوق ہے۔اس طرح کے سلسلوں سے بچوں کے مشاغل ایک صحیح سمت کی طرف سفر کرتے ہیں۔البتہ اس طرح کے سلسلوں میں ایک خامی یہ ضرور ہے کہ جن بچوں کو مصوری سے دلچسپی نہیں، اُن کے لیے یہ سلسلہ کارآمد نہیں لیکن ان دیگر بچوں کے لیے اور بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔
عموماً اس طرح کی خامی کا ذکر اکثر لوگ کرتے ہیں لیکن اس اعتراض کا جواب وہی ہے جو اوپر دیا جاچکا ہے کہ ہر سلسلے سے ہر بچہ لُطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ رسالے میں مختلف سلسلے رکھے ہی اس لیے جاتے ہیں تاکہ ہر مزاج کا بچہ اپنے مزاج کی چیز کا انتخاب کرکے اس سے محظوظ ہوسکے۔
لذیدار مطیفے ، مزیدار لطیفوں کے لفظ کو بگاڑ کر اس میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۵۸۔ آنکھ مچولی میں لطیفوں کے اس سلسلے کا نام بدلتا رہا اور ہر بار ایک دل چسپ نام لطیفوں پر چسپاں نظر آتا تھا۔ آنکھ مچولی کو پسند کرنے والے قارئین نے ایک سروے میں بتایا کہ اُنھیں مزے دار لطائف کی اشاعت کی وجہ سے آنکھ مچولی پسند ہے۔ لطیفوں کا انتخاب عمومی طور پر یوں کیا جاتا تھا کہ قارئین اپنی پسند کے لطائف ارسال کیا کرتے تھے، جن میں دل چسپ لطائف کو رسالے کا حصہ بنایا جاتا تھا اور سب سے اچھے لطیفے کو انعامی لطیفہ قرار دے کر اُسے اہتمام سے شائع کیا جاتا اور انعام جیتنے والے کو تین ماہ تک آنکھ مچولی کا شمارہ مفت بھیجا جاتا تھا۔ خاص نمبرز میں لطیفوں کی تعداد دُگنی کردی جاتی تھی۔
جنوری ۱۹۸۹ء میں شائع ہونے والا محمود محمد اشرف کا انعامی لطیفہ ملاحظہ کیجیے:
میاں بیوی شام ڈھلے شاپنگ کرکے گھر لوٹ رہے تھے۔ آسمان پر چاند ابھی نکلا ہی تھا۔ چلتے چلتے بیوی نے آسمان کی جانب دیکھا اور شوہر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی:’’ہاے! دیکھیے کتنا اچھا چاند ہے۔‘‘
شوہر جو دل ہی دل میں شاپنگ کا حساب کتاب کرنے میں مصروف تھا، بڑبڑا کر بولا:
’’بیگم اِسے اگلی تنخواہ میں خرید لیں گے۔‘‘ ۵۹
یہی لطیفے کھٹ میٹھے، گلگلے، لطیفے شطیفے وغیرہ کے عنوان سے ایک عرصے تک شائع ہوتے رہے۔ لطائف نہ صرف بڑوں کو محظوظ کرتے ہیں بلکہ اس سے بچوں میں اچھا حِس مزاح پیدا کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں عامیانہ اور فحش مزاح سے بچوں کو بچاتے ہوئے اُنھیں اچھے اور ادبی مزاح سے روشناس کرانا ضروری ہے۔
سائنس کی ترقی سے بچوں کو روشناس کراناوقت کی اہم ضرورت ہے اور بچوں کے رسائل اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کے ممدومعاون ہیں کہ وہ ہر لمحہ بدلتی اس دنیا کا احوال بچوں کے سامنے پیش کریں۔ آنکھ مچولی نے ایک سلسلہ مستقل سائنس سے متعلق رکھا، جس میں سائنسی مفروضات اور سوالات کے جوابات دیے جاتے تھے۔یہ سلسلہ بچوں میں مقبول رہا اور مستقل بنیادوں پر بغیر کسی تعطل کے مختلف بدلتے عنوانات کے تحت شائع ہوتا رہا۔اس میں جہاں بچوں کے لیے انوکھی سائنسی معلومات ہوتی تھی، وہیں مختلف تجربات کرنا بھی سکھائے جاتے تھے۔
سائنس انکوائری میں کچھ ایسی چیزیں شامل ہوتی تھیں:
٭…حیاتین یا وٹامنز
٭…پنیر کیسے بنتا ہے؟
٭…زہر کیا ہے؟
٭…اسٹیم انجن کس نے بنایا؟ وغیرہ۶۰
جب کہ اسی شمارے میں بوتل کا فواراہ بنانے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے، یہ ایسا ہی ایک فورا ہ ہے جو ہم عموماً کہیں پارک یا چورنگی پر لگا ہوا دیکھتے ہیں۔ سائنس کا یہ سلسلہ ہر چند عرصے بعد ایک نئے عنوان سے موجود ہوتا تھا۔ ان عنوانات میں سائنس انکوائری، سائنس کی دنیا اور درِ حیرت، سوال یہ ہے شامل ہے۔ اس میں تحریر کا انداز تھوڑا سا بدل دیا جاتا تھا لیکن اس کی مرکزی تھیم بچوں کو سائنسی معلومات کی فراہمی تھی۔
ننھے ہاتھ نئی تحریریں کے سلسلے میں نئے ادیب شرکت کیا کرتے تھے۶۱۔ بچوں کے کم وبیش تمام رسائل نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یہی وہ نرسری ہے جہاں نئے قلم کار مسلسل مشق کرکے تیار ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے بڑے ادیبوں کی ایک فہرست بنائیں اور دیکھیں تو غالب گمان ہے کہ ان میں اکثریت ان ادیبوں کی ہوگی جنھوں نے اپنے بچپن میں بچوں کے رسائل سے لکھنے کا آغاز کیا تھا چوں کہ اس سلسلے میں تمام نوآموز قلم کار ہوتے ہیں اس لیے اس سلسلے میں مدیران کو خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔ مضمون یا کہانی کی نوک پلک درست کرکے اسے اشاعت کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہاں نئے ادیب اپنی تحریر میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہیں اور اس سے اُنھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔جب ان نئے قلم کاروں کی تحریر میں پختگی پیدا ہوجائے تو وہ بڑے ادیبوں کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
آنکھ مچولیمیں یہ سلسلہ مستقل شائع ہوتا رہا۔ البتہ اس سلسلے کے نام تبدیل ہوتے رہے، اس لیے ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۷ء کے عرصے میں یہ سلسلہ آپ کو ننھے ہاتھ نئی تحریریں،ننھی نگارشات، قلم دوست اور نئی تحریریں کے نام سے نظر آئے گا۔
قلمی دوستی کا سلسلہآنکھ مچولی میں آؤ ملائیں ہاتھ کے نام سے شروع ہوا۶۲۔ یہ اس وقت کا مشہور سلسلہ تھا۔ رابطوں کے تیز ترین ذرائع میسر نہیں تھے۔ لوگوں کو اپنے ہم مزاج لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے قلمی دوستی کا سہارا لینا پڑتا تھا اور اس سلسلے میں بچوں کی دل چسپی بہت زیادہ تھی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ اس میں بچوں کا نام اور ان کی تصویر شائع ہوتی تھی، اس لیے وہ اس میں زیادہ دل چسپی لیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے کی اہمیت بالکل ہی ختم ہوگئی اور سوشل میڈیا کے آنے پر تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ اب دوستیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ہوتا ہے اور رسائل پڑھنے والے بچے بھی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
اس سلسلے میں بچے اپنا نام، عمر، جماعت، مشاغل، اسکول میں پسندیدہ مضمون اور اپنی خواہش بتاتے تھے کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے اور کیوں بنیں گے؟بچے اپنا پتا بھی تحریر کرتے تھے تاکہ کوئی ان سے رابطہ کرنا چاہے تو باآسانی کرلے لیکن اب یہ سلسلہ تقریباً متروک ہوچکا ہے اور بچوں کا کوئی بھی رسالہ اس طرح کا کوئی سلسلہ شائع نہیں کررہا۔
ایک صفحہ امّی ابّو کے لیے یہ بھی آنکھ مچولی کا مشہور سلسلہ تھا۶۳ لیکن یہ بچوں کے لیے نہیں بلکہ بڑوں کے لیے تھا۔یہ ایک منفرد سلسلہ تھا۔ جس میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے والدین کو مشورے دیے جاتے تھے ۔یہ سلسلہ ہمیشہ آخر میں شائع کیا جاتا تھا۔ نومبر ۱۹۸۷ء کے شمارے میں امی ابو کا صفحہ ملاحظہ کیجیے ۔اس میں لکھنے والے کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
اکثر لوگ مہمانوں کی آمد سے خوف ذدہ رہتے ہیں۔ عام مہمانوں سے نہیں صرف اُن مہمانوں سے جن کے ہمراہ بچے بھی ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہ بچے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک طوفان بدتمیزی مچانا شروع کردیتے ہیں۔ کوئی میز پر چڑھ جاتا ہے، کوئی کارنس پر رکھی فریم شدہ تصویر سے کھیلتے کھیلتے اُسے توڑ دیتا ہے۔
کوئی کتابوں اور رسائل کے ورق پھاڑ کر اس سے جہاز یا کشتی بنانے لگتا ہے اور گھر میں اس نوع کی چیزیں موجود نہ ہوں تو یہ بچے مار دھاڑ سے بھرپور پروگرام پیش کرتے ہیںجس کا اختتام حلق پھاڑ پھاڑ کر رونے اور چلّانے پر ہوتا ہے…۶۴
اس سلسلے میں بڑے بڑے ادیبوں نے بھی لکھا اور والدین کو مختلف مشوروں سے نوازا۔
نشان عظمت ، رسالے کے ابتدائی حصے میں شائع ہوتا تھا۶۵۔ حکایت والے سلسلے کے بعد اس نام سے سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس میں کسی واقعے یا پُر اثر قسم کی بات ہوتی۔ بعد میں اس سلسلے کو سنہرے حروف ، تاریخ کے دریچوں سے بھی شائع کیا جاتا رہا ہے۔عموماً رسائل ابتدا میں حمدونعت یا قرآن وحدیث شائع کرتے ہیں۔ آنکھ مچولی نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کی غرض سے سلسلے کا آغاز کیا۔
عالمی ادب نمبر میں موجود تاریخ کے دریچوں سے ملاحظہ کیجیے:
ایک شخص سر پر پٹی باندھے ہوئے رابعہ بصری کے پاس آیا۔ رابعہ نے اس سے پوچھا: ’’یہ پٹی کس لیے باندھی ہے؟‘‘
نووارد:’’کل رات سے میرے سر میں درد ہے۔‘‘
رابعہ:’’تمھاری عمر کیا ہے۔‘‘
نووارد:’’ تیس برس۔‘‘
رابعہ:’’کیا عمر کا زیادہ حصہ تم نے ایسی ہی تکلیف میں بسر کیا ہے؟‘‘
نووارد:’’نہیں۔‘‘
رابعہ:’’تمھیں اللہ تعالیٰ نے تیس برس تک تندرست اور چاق چوبند رکھا تو تم نے ایک دن بھی شکرانے کی پٹی نہ باندھی اور اب صرف ایک رات تمھارے سر میں درد ہوا تو شکایت کی پٹی باندھے پھرتے ہو۔‘‘۶۶
گنی چنی معلومات کا سلسلہ عقیل عباس جعفری نے آنکھ مچولی میں شروع کیا تھا ۶۷۔ اس سلسلے میں وہ اعداد کو لے کر دنیا کی اہم شخصیات، واقعات کو بیان کرتے۔ یہ بڑا منفرد سلسلہ تھا اور ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ خوف ناک نمبر میں شائع ہونے والی اس گنی چنی معلومات کو دیکھیے جس میں ۴۰، ۴۱،۴۲،۴۳،۴۴ اور ۴۵ کے اعداد پر معلومات کو جمع کیا گیا تھا۔
مثلاً ۴۰کے عدد کو دیکھیے:
٭…بعثت کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۴۰ برس تھی۔
٭…عیسائی مذہب میں چالیس دن کے جو روزے رکھے جاتے ہیں انھیںLentکہتے ہیں۔
٭…گھوڑے کے منھ میں چالیس دانت ہوتے ہیں۔
٭…ایک عام آدمی رات بھر میں اوسطاً ۴۰ مرتبہ کروٹ لیتا ہے۔۶۸
اسی طرح تمام ہندسوں سے متعلق معلومات کو مرتب کرکے قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا اور بہرحال اعداد کی نسبت سے یہ عام سی معلومات خاص ہوگئی تھیں۔
انعامی سلسلے:
آنکھ مچولی کا باقاعدہ انعامی سلسلہ تو کوئز کا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی مختلف سلسلوں میں انعامات کا وقتاً فوقتاً اعلان کیا جاتا تھا۔ مثلاً بہترین لطیفہ منتخب ہونے پر تین ماہ کے آنکھ مچولی فری بھیجے جاتے تھے۔ اسی طرح کوئز کہانی ۶۹ پر بھی انعام دیا جاتا تھا۔خاص نمبرز میں مختلف انعامی مقابلے دیے جاتے تھے۔
کوئز کا سلسلہ دائرہ معلومات، سوال در سوال،سوال آدھاجواب آدھا۷۰، امتحان ہے آپ کی ذہانت کا، قصہ کوئز ۷۱ کے مختلف ناموں سے جاری رہا۔ اس سلسلے میں قارئین سے مختلف سوال پوچھے جاتے تھے۔ہر سلسلے میں سوال پوچھنے کا انداز ذرا مختلف ہوتا۔
مثا ل کے طور پر:
دائرہ معلومات۷۲ میں ایک دائرہ بنا ہوا ہوتا تھا، اس دائرے میں مختلف اعداد ہوتے تھے۔ سوالات کے جوابات ان دائروں میں تحریر کرنے ہوتے تھے۔ اس میں پہلے سوال کا جواب جس حرف پر ختم ہوتا تھا، دوسرے سوال کا جواب اس کے آخری حرف سے شروع ہوتا تھا، مثلاً ایک لفظ ’’بادشاہی مسجد‘‘ ہے، اس کا آخری حرف ’’د‘‘ ہے تو اگلے سوال کا جواب ’’د‘‘ سے شروع ہوگا۔
اس کوئز میں جہاں معلومات کا مقابلہ تھا وہیں دماغی مشق بھی ہوتی تھی۔یوں ایک عام معلوماتی سلسلہ تھوڑے سے گھمائو پھیر سے ایک دلچسپ سلسلے میں تبدیل ہوگیا۔ اسی طرح آنکھ مچولی نے جب بھی نیاانعامی سلسلہ شروع کیا، اس میں سیدھے سیدھے سوال کے بجاے بچوں کی دماغی مشق کروانے کا انتظام کیا ۔
انعامی سلسلے صرف یہ نہیں تھے، بلکہ کسی شمارے میں کسی خاص مقابلے کے حوالے سے بھی انعام کا اعلان کیا جاتا تھا ۷۳۔
نومبر ۱۹۸۶ء کے شمارے میں مقابلہ کہانی نویسی کا بھی اعلان کیا گیا تھا، جس میں ۱۰ ہزار روپے کے انعامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ پہلے انعام کو چار ہزار روپے ، دوسرے انعام کو ڈھائی ہزار روپے،تیسرے انعام کو ایک ہزار جب کہ دیگر اچھی کہانیوں کے لیے کئی قسم کے اعلانات بھی شامل تھے۷۴۔ یہ ۱۹۸۶ء کی بات ہے اور اس وقت کے حساب سے یہ ایک بہت اچھی رقم کے انعامات تھے۔
بھاری بھرکم انعامات رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد ان مقابلوںمیں حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح نا صرف رسالے کو اچھی کہانیاں میسر آجاتی ہیں، بلکہ بہت سارے نئے ادیب بھی سامنے آجاتے ہیں۔
حصہ نثر:
آنکھ مچولیکی انتظامیہ نے اپنے پہلے ہی شمارے سے یہ باور کروایا کہ وہ بچوں کے ادب میں غیر معمولی پیش رفت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے پہلے ہی شمارے میں ہمیں خوب صورت تزئین کاری، دلچسپ کہانیوں کی اشاعت اور معیاری نظموں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ مزے دار قسم کے سلسلے بھی نظرآتے ہیں۔
آنکھ مچولی کے پہلے شمارے نے قارئین کو اس کا گرویدہ بنالیا تھا۔ بچے تو ایک طرف ، بچوں کے ادیب فوراً اس پہلے شمارے کی طرف متوجہ ہوئے اور ہر قلم کار کی خواہش تھی کہ وہ اس رسالے کا حصہ بنے۔
آنکھ مچولی تقریباً ۱۲ برس تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اس دوران اس رسالے نے دینی، اسلامی، تاریخی، اخلاقی، معاشرتی، مہماتی، جذبہ حب الوطنی، سائنس، سائنس فکشن، مزاحیہ، غیر ملکی ادب سے تراجم، شخصیات کا تعارف، ڈرامے، معلوماتی مضامین سمیت متعدد ناول شائع کیے۷۵۔
کہانیوں اور مضامین میں ’’مومن رحیم‘‘ کے خوب صورت خاکے ۷۶ ، تحریروں کے دلکش عنوانات ’’عارف سعید‘‘ ۷۷ کی خوب صورت خطاطی کی صورت میں رسالے کی خوب صورتی کو بڑھاتی تھی۔
آنکھ مچولیکے ابتدائی چند برسوں کے رسالے باقاعدہ کاتب حضرات لکھا کرتے تھے۔ اس وقت تک کمپیوٹر سے کمپوزنگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ ہاتھ سے تحریر کردہ یہ خطاطی نظروں کو بھلی لگتی تھی۔ بعد میں کمپیوٹر کے آجانے کے بعد دھیرے دھیرے تحریریں کمپوز ہونا شروع ہوئیں۔
آنکھ مچولی نے بچوں کے ادب میں کہانیوں کی صورت ایک اچھا ذخیرہ فراہم کیا، جس سے برسوں تک اُردو بولنے والے بچے محظوظ ہوسکتے ہیں،بہ شرط یہ کہ ان کہانیوں کو کتابی صورت میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
اگر ہم ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۷ء تک کے شماروں کا جائزہ لے کر اس کی منتخب کہانیوں کی فہرست مرتب کریں تو وہ کچھ یوں بنے گی۔
آنکھ مچولی کی منتخب کہانیوں کا انتخاب۷۸
شمار ۔ کہانی کا نام ۔ مصنف کا نام ۔ ماہ وسال
۱ ۔ مانو بلی سے با محاورہ باتیں ۔ احمد حاطب صدیقی ۔ جولائی ۱۹۸۶ء
۲ ۔ بل بنام ۔ کلیم چغتائی ۔ اگست ۱۹۸۶ء
۳ ۔ بینگن کو پولیس لے گئی ۔ احمد حاطب صدیقی ۔ اگست ۱۹۸۶ء
۴ ۔ جن دادا آپ؟ ۔ سلیم الطبع ۔ ستمبر ۱۹۸۶ء
۵ ۔ سکون ۔ مصطفی چاند ۔ جنوری ۱۹۸۷ء
۶ ۔ حق اسکواڈ ۔ اخلاق احمد ۔ جنوری ۱۹۸۷ء
۷ ۔ رومی بھیس بدلتا ہے ۔ عظیم سرور ۔ جنوری ۱۹۸۷ء
۸ ۔ ٹوٹی ہوئی بیساکھی ۔ سید خورشید عالم ۔ اگست ۱۹۸۷ء
۹ ۔ فاسٹ بالر ۔ سید کاشان جعفری ۔ دسمبر ۱۹۸۷ء
۱۰ ۔ گمشدہ جنت ۔ ابن شہباز خان ۔ جنوری ۱۹۸۸ء
۱۱ ۔ نپولین اور درزی ۔ ذیشان بن صفدر ۔ مارچ ۱۹۸۸ء
۱۲ ۔ چھپا ہوا خزانہ ۔ سعیدہ نازش ۔ نومبر ۱۹۸۸ء
۱۳ ۔ وہ ایک رات ۔ سید عبدالودود شاہ ۔ جنوری ۱۹۸۹ء
۱۴ ۔ نیک جن ۔ کلیم چغتائی ۔ جنوری ۱۹۸۹ء
۱۵ ۔ نادیہ کی کہانی ۔ طاہر مسعود ۔ اپریل ۱۹۸۹ء
۱۶ ۔ واپسی ۔ شاہ نواز فاروقی ۔ ستمبر ۱۹۸۹ء
۱۷ ۔ پراسرار قلعہ ۔ محمد ادریس قریشی ۔ جنوری ۱۹۹۰ء
۱۸ ۔ بخیل کہیں کا ۔ سلیم مغل ۔ جون ۱۹۹۰ء
۱۹ ۔ دوسرا رُخ ۔ منیر احمد راشد ۔ اکتوبر ۱۹۹۰ء
۲۰ ۔ لہو کے چراغ ۔ ناصر محمد ۔ اگست ۱۹۹۰ء
۲۱ ۔ ہدایت ۔ محمدین ماک محمدی ۔ جنوری ۱۹۹۱ء
۲۲ ۔ موت کے روشن گولے ۔ فاروق عادل ۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۲۳ ۔ پیٹو ۔ عادل منہاج ۔ نومبر۱۹۹۱ء
۲۴ ۔ وفادار دوست ۔ تحریر: آسکر وائلڈ، ترجمہ:امتیاز جلیل ۔ جنوری ۱۹۹۲ء
۲۵ ۔ نیکی کی سزا ۔ تحریر: پوچائو چنگ، ترجمہ: آفتاب احمد ۔ جنوری ۱۹۹۲ء
۲۶ ۔ عظیم گنج ۔ اشتیاق احمد ۔ جنوری ۱۹۹۳ء
۲۷ ۔ مجھے چاند دے دو ۔ وسیم بن اشرف ۔ فروری ۱۹۹۳ء
۲۸ ۔ مینا بازار ۔ نذیر انبالوی ۔ فروری ۱۹۹۴ء
۲۹ ۔ مہمان ۔ نائلہ صدیقی ۔ مئی ۱۹۹۵ء
۳۰ ۔ خوف ناک بونا ۔ سلمان غزالی ۔ نومبر ۱۹۹۵ء
یہ تیس اچھی کہانیاں ہیں اورایسا بھی ہر گز نہیں ہے کہ صرف یہی کہانیاں عمدہ، معیاری اور منفرد ہیں، بلکہ ان شماروں میں اس کے سوا بھی ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق فہرست مرتب کرسکتا ہے۔
ان تحریروں کو اچھا کہنے کی کیا وجہ ہے، آئیے ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں۔
احمد حاطب صدیقی کی تحریر مانو بلی سے با محاورہ باتیں کو ہم ایک کلاسک کہانی کا درجہ دے سکتے ہیں۷۹۔ اس تحریر میں دل چسپی کے عنصر کے ساتھ ساتھ بلی سے متعلق تقریباً تمام محاوروں کا بڑی خوبی کے ساتھ پس منظر بتایا گیا ہے۔ ایک اسکول میں پڑھنے والے بچے اور بلی کا مکالمہ اتنا متاثر کن ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کہانی کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ تحریر اگر چہ تھوڑی سی طویل ہے لیکن یہ آپ کو قطعاً بور نہیں کرتی، بلکہ آپ کو احساس ہی نہیں ہوپاتا اور تحریر ختم ہوجاتی ہے۔ کچھ تحریریں تشنگی کا احساس دلا تی ہیں، یہ بھی ایک ایسی ہی تحریر ہے۔ اس تحریر کا ابتدائی حصہ دیکھیے کہ کیسے وہ آپ کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔
’’میں آؤں؟ … میں آؤں؟ … میں آؤں؟‘‘
مانو بلی نے منو میاں کو مصروف دیکھا تو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اخلاقاً پوچھ لیا:
’’میں آؤں؟‘‘
منومیاں نے کچھ لکھتے لکھتے اپنی کاپی سے سر اُٹھایا اورمانو کی طرف دیکھ کر بولے:
’’ضرور … ضرور … بڑی خوشی سے!‘‘
مگربی مانو کوشاید اب بھی کچھ جھجک سی محسوس ہو رہی تھی۔ سو،اُنہوں نے ایک بار پھر اپنی سُریلی آواز میں سوال کیا:’’میں آؤں؟‘‘
منو میاںنے بھی ایک بار پھر بڑے مہذب انداز میں جواب دیا:
’’جی ہاں! میں نے عرض کیانا کہ آپ تشریف لا سکتی ہیں‘‘۔
لیکن بی مانو کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ منو میاں اپنی پڑھائی میں خلل پڑنے سے خفا نہیں ہوں گے۔ احتیاطاً انہوں نے پھر پوچھا:’’میں آؤں؟‘‘
اب منو میاں بھی کچھ جھنجھلا گئے۔ جھنجھلا کر کہنے لگے:’’ارے بھئی! آپ کب تک کھڑکی میں اٹکی ہوئی ’میں آؤں… میں آؤں‘ کی رٹ لگاتی رہیں گی؟ اب آ بھی چکیے‘‘۔
مگر اتنی کھلی اجازت مل جانے کے باوجود مانو نہ مانی۔ پھر پوچھ بیٹھی:’’میں آؤں؟‘‘
اب تو منومیاں کا پارہ چڑھ گیا۔غصے سے بولے:
’’ارے بی مانو! آپ کو ہمیں چڑانے میں کیا مزہ آرہا ہے؟ کہہ تو دیا کہ آجائیے‘‘۔
منو کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر مانونے معذرت بھرے لہجے میں کہا:’’میں بار بار صرف اس لیے پوچھ رہی تھی کہ اگر آپ کسی ضروری کام میں مصروف نہ ہوں تو… میں آؤں؟‘‘
منو میاںاب تک اچھے خاصے چڑ چکے تھے۔ناک چڑھا کر چیخے:
’’محترمہ! آپ دیکھ چکی کہ میں اپنا ’ہوم ورک‘ کرنے میں مصروف تھا۔مگر جب آپ سر پر سوار ہو ہی گئی ہیں تو میں بھلا آپ کو کیسے بھگا سکتا ہوں؟آئیے!‘‘
مانو کو شاید یہ بات بُری لگ گئی۔ جھٹ بولیں:
’’نہیں، نہیں! اگر آپ اس وقت بہت مصروف ہیں تو … میں جاؤں؟‘‘۸۰
کلیم چغتائی کی بل بنام دیکھیے ۸۱، اگرچہ یہ کہانی انگریزی ادب سے ماخوذ ہے لیکن اسے مصنف نے اتنا زیادہ مقامی رنگ دیا ہے کہ شاید ہی کوئی یہ ماننے پر تیار ہو کہ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی کہانی نہیں ہے۔ ایک جذباتی تحریر۔۔۔ جس میں مصنف ماں کی محبت، شفقت کو اتنے ڈرامائی انداز میں اُجاگر کرتا ہے کہ قاری اس تحریر کے اختتام پر اپنی آنکھیں بھگوئے نہیں رہ پاتا ۔ اس کہانی کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے لیے شہر میں رہنے والے بچوں کے رہن سہن کو سمجھنا ضروری ہے، دوسرا یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری ماں ہم سے کتنی محبت کرتی ہے؟
دنیا کا ہر بڑا آدمی ایک وقت میں چھوٹا ہوتا ہے اور اس چھوٹے زمانے میں ہمیں ماں کی محبت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات بچپن میں ماں ہمیں مختلف کاموں سے روکتی ہے جوکہ یقینا ہمارے لیے اچھے نہیں ہوتے ، کچھ بچے تو ان کاموں سے رُک جاتے ہیں لیکن بہت سارے وہی کام کر گزرتے ہیں اور جس کا خمیازہ بعد میں اُن کو تو بھگتنا ہوتا ہی ہے لیکن ماں باپ اور بہن بھائی بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کام بچوں کو ٹھیک لگتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ کتنا بے وقوف تھا جو یہ کام کربیٹھا۔ یہ ایک ایسے ہی بچے کی کہانی ہے جو ایک معاملے میں خود کو صحیح سمجھتا رہا لیکن بعد میں اُسے کیا پتا چلا۔
اب اس تحریر کا اختتام دیکھیے کہ کیسے وہ قاری کو جذبات کے بہائو میں بہا لے جاتا ہے۔
اس کے بستر کے قریب کہانیوں کی وہ کتاب پڑی تھی جو وہ رات کو پڑھ رہا تھا اور کتاب میں سے کوئی گلابی گلابی کاغذ جھانک رہا تھا۔ اس نے بے اختیار کاغذ کتاب میں سے کھینچ لیا۔ یہ اسی طرح کا بل تھا جیسا اس نے امی کے نام بنایا تھا۔ مگر اب تحریر اس کے ہاتھ کی نہیں بلکہ امی کی تھی۔ وہ حیرت اور قدرے خوف کے ساتھ بل کو پڑھنے لگا۔
خالد کنسٹرکشن کمپنی |
بنام خالد بیٹا | تاریخ: ۶ فروری۲۰۲۰ء |
تعداد | تفصیل | نرخ روپے | رقم روپے |
کئی بار | تم بیمار پڑے، میں نے رات بھر جاگ کرتمھاری تیمارداری کی | کچھ نہیں | کچھ نہیں |
بلاناغہ | تمھارے لیے کھانا پکایا | کچھ نہیں | کچھ نہیں |
کئی بار | تمھارے کپڑے سیے | کچھ نہیں | کچھ نہیں |
بے شمار بار | تمھارے کپڑے دھوئے | کچھ نہیں | کچھ نہیں |
بے شمار بار | تمھارے کپڑے استری کیے | کچھ نہیں | کچھ نہیں |
نوٹ: کسی شکایت کی صورت میں منیجر سے رجوع کریں | کل میزان | کچھ نہیں |
بل کو ہاتھ میں لیے خالد بڑی دیر بیٹھا رہا۔ دو الفاظ اس کی نظروں کے سامنے ناچ رہے تھے ۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
پھر ان دو الفاظ کی جگہ دوسرے دو الفاظ نے لے لی… ’’ساٹھ روپے‘‘…پھر اسے یوں لگا جیسے بل پر اس کی امی کی تصویر اُبھر آئی ہو، اسے محسوس ہوا امی بہت روئی ہیں۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور چہرے سے ناراضی ظاہر ہو رہی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے امی کے ہونٹ ہل رہے ہوں اور وہ کہہ رہی ہوں۔
’’ بیٹے تمھیں دو سوپندرہ روپے چاہییں؟ لے لو!‘‘
خالد تڑپ کر بستر سے اُٹھا اور تقریباً دوڑتا ہوا دوسرے کمرے میں پہنچا۔ امی اس کے چھوٹے بھائی کو سلانے کی کوشش کررہی تھیں۔ وہ دروازے پر ہی ٹھٹھک گیا۔
’’امی!‘‘
خالد کے ہونٹوں سے صرف یہی ایک لفظ مشکل سے نکل سکا۔ اس ایک لفظ میں بڑی بے چارگی تھی، ندامت کا احساس تھا۔ امی نے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا پھر مُنّے کو تھپکنے میں مصروف ہو گئیں۔
’’امی!‘‘ خالد پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’امی مجھے معاف کر دیجیے، میں اب کبھی اس طرح نہیں کروں گا۔ مجھے اسکول میں دوستوں نے بہکایا تھا۔ امی مجھ سے بڑی غلطی ہوئی… امی!‘‘ خالد ہچکیاں لینے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔
اسی وقت کسی کا ہاتھ اسے اپنے سر پر محسوس ہوا۔ یہ امی تھیں …پھر امی نے اسے کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ امی بھی رو رہی تھیں اور گھٹی گھٹی آواز میں کہہ رہی تھیں۔
’’ میرے بچے اﷲ تجھے ہر شر سے محفوظ رکھے، ہر شر سے… ہر شر سے۔‘‘۸۲
اب آپ ایک ایک کہانی کو دیکھ لیجیے، وہ اپنی انفرادیت کے ساتھ آپ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آنکھ مچولی نے ایک کام یہ بھی کیا کہ دیگر زبانوں میں شائع ہونے والی بہت ساری اچھی کہانیوں کے تراجم بھی شائع کیے۔ ان کہانیوں سے جہاں آپ اس زبان کے اظہار کا سلیقہ جان سکتے ہیں وہیں یہ کہانیاں قاری اور مقامی ادیبوں کے لیے سوچنے سمجھنے کے لیے نئے دروازے بھی کھولتی ہے۔
وفادار دوست آسکر وائلڈ کی کہانی ہے۸۳۔ جس میں ایک خودغرض دوست کا ذکر ہے جو اپنی چرب زبانی کے باعث اپنے دوست کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے کہ بالآخر وہ بے چارہ مرجاتا ہے۔یہ ایسا کردار ہے جو ہمیشہ آپ کے آس پاس ،کہیں نا کہیں موجود ہوتا ہے۔ مصنف دراصل ایسے کرداروں کے حوالے سے چوکنا رہنے کا کہتا ہے کہ کہیں اس کا قاری کسی ایسے ہی ’’وفادار دوست ‘‘ کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔
آنکھ مچولی کے مضامین جہاں بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق مرتب کیے گئے وہیں اس کے عنوانات اور تصاویر کا حصہ خوب صورت اور دلکش بنایا گیا۔ حصہ مضامین میں ہمیں آنکھ مچولی کی ادارت کا بہت بڑا حصہ نظرآتا ہے۔ زیادہ تر مضامین کے مصنف ادارتی افراد سر انجام دیا کرتے تھے، اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ بچوں کی دل چسپی کا صحیح اندازہ لگا کر قارئین کی پسند کا مواد فراہم کیا جاتا تھا۔ ویسے تو آنکھ مچولی میں بے شمار اور منفرد موضوعات پر مضامین شائع ہوتے رہے ہیں، ان میں نمایاں مضامین کی فہرست یہ ہے۔
آنکھ مچولی کے منتخب مضامین کا انتخاب۸۴
شمار ۔ مضمون کا نام ۔ مضمون نگار ۔ ماہ وسال
۱ ۔ مشاغل کی کہانی ۔ عقیل عباس جعفری ۔ اکتوبر۱۹۸۶ء
۲ ۔ آئیے مقرر بنیں ۔ محمد سلیم مغل ۔ نومبر ۱۹۸۶ء
۳ ۔ رابرٹ رپلے ۔ عقیل عباس جعفری ۔ جولائی ۱۹۸۸ء
۴ ۔ بچوں کے کارنامے ۔ محمد عمران قادر ۔ جنوری ۱۹۹۱ء
۵ ۔ انسانی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ۔ سلیم مغل ۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۶ ۔ پرانے زمانے کے کپڑے ۔ آصف فرخی ۔ نومبر ۱۹۹۱ء
۷ ۔ تاریخی عمارتیں بیچنے والا ۔ سلیمان احمد ۔ مارچ ۱۹۹۲ء
۸ ۔ ایجادوں کا قلمی مؤجد ۔ محمد شہزاد خان کستوری ۔ جنوری ۱۹۹۳ء
۹ ۔ ٹک ٹک پنڈولم ۔ افتخار محبوب چودھری ۔ جنوری ۱۹۹۳ء
۱۰ ۔ مولی کھائیے…صحت بنائیے ۔ نثار احمد ہاشمی ۔ فروری ۱۹۹۳ء
۱۱ ۔ ایک حیرت انگیز طیارہ ۔ احرار فاروقی ۔ نومبر ۱۹۹۳ء
۱۲ ۔ مزے دار گھونسلے ۔ تصدق حسین کوثر ۔ جولائی ۱۹۹۶ء
۱۳ ۔ فضائیہ کا شاہین ۔ ظہور الدین بٹ ۔ ستمبر ۱۹۹۶ء
۱۴ ۔ ۹ کا ہندسہ ۔ منیر احمد فردوس ۔ ستمبر ۱۹۹۶ء
۱۵ ۔ گھڑی نے ایک بجایا ۔ نگہت آرا چوہان ۔ مارچ۱۹۹۵ء
۱۶ ۔ خوف ناک علاج کیسے ختم ہوا؟ ۔ محمد طاہر ناز انصاری ۔ نومبر ۱۹۹۵ء
۱۷ ۔ جنت ماؤں کے قدموں تلے کیوں ہے ۔ شمع انعام ۔ اپریل ۱۹۹۶ء
۱۸ ۔ پانی کا سفر ۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب ۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۹ ۔ محنتی قائد ۔ خواجہ رضی حیدر ۔ دسمبر ۱۹۹۶ء
۲۰ ۔ کرکٹ کا پہلا مقابلہ ۔ محمد صابر ۔ جنوری ۱۹۹۷ء
مضامین میں اگر آپ کے پسندیدہ موضوع سے ہٹ کر مضمون شائع ہوتا ہے تو وہ مخصوص بچوں کو پسند نہیں آتا اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہر بچے کا اپنا شوق اور ذوق ہوتا ہے۔ اگر ایک بچے کو میڈیکل کا موضوع پسند نہیں تو دل کے حوالے سے معلومات کو شاید وہ پڑھے ہی نہیں یا شاید سرسری سا پڑھ لے۔اس لیے خطوط میں بھی اس حوالے سے ملا جلا ردعمل نظرآتا ہے۔ اہم چیز یہ ہے کہ مضمون کو مضمون نگار نے برتا کیسا ہے؟
بچوں کے لیے لکھے گئے مضامین میں اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ سپاٹ نہ ہو بلکہ اسے کسی کہانی کی طرح بیان کیا جانا چاہیے، چوں کہ بچہ کہانی سے مانوس ہوتا ہے اس لیے کہانی نما مضمون میں ثقیل معلومات بھی اس کے سمجھنے کے لیے سہل ہوجاتی ہے۔
آپ مارچ ۱۹۹۲ء کو شائع ہونے والے مضمون تاریخی عمارتیں بیچنے والا کا صرف عنوان ملاحظہ کیجیے کہ یہ کتنا دلچسپ موضوع ہے ۸۵۔صاحب مضمون نے بالکل سیدھے سادھے انداز میں اس مضمون کا آغاز کیا اور آرتھر نامی شخص کی چالاکیوں کی کہانی سنانی شروع کردی۔ تین صفحات پر مشتمل یہ مضمون ایسا ہے کہ جو برسوں تک قاری کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہوگا۔
مضمون کی طوالت بھی عموماً مضمون کی افادیت کم کردیتی ہے۔ اس لیے ہمیں آنکھ مچولی میں شائع اکثر مضامین تین صفحات کے دکھائی دیتے ہیں۔مختصر اور پُر اثر مضامین قارئین کو یاد رہتے ہیں۔ آنکھ مچولی میں مضامین کے طویل سلسلے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو کبھی کبھار بوریت کا سبب بھی بنتے ہیں لیکن اس کا اطلاق مجموعی طور پر تمام مضامین پر نہیں کیا جاسکتا۔
بحیثیت مجموعی حصہ نثر پر آنکھ مچولی کے مدیران کی گرفت نظر آتی ہے۔ تحریر کے مجموعی مرکزی خیال سے لے کر اس کی حروف خوانی تک کے تمام مراحل میں ادارت کا حصہ نظر آتا ہے۔ ادارتی ٹیم کی اتنی زیادہ شمولیت کے باعث ہی آنکھ مچولی کو بچوں کے بہترین رسائل میں شمار کیا جاتا تھا۔اگرچہ بچوں سے کیے گئے ایک سروے میں بچوں نے آنکھ مچولی پر یہ اعتراض بھی کیا کہ اس میں صرف اپنی ٹیم کی کہانیاں اور مضامین زیادہ تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور نئے لکھنے والوں کو اس میں حصہ نہیں ملتا، اس لیے انھیں آنکھ مچولی پسند نہیں۔
یہ اعتراض نئے لکھنے والوں کا تو ہوسکتا ہے لیکن ایک عام قاری کا نہیں۔ ایک قاری کو اچھی کہانی اور ایک اچھے مضمون سے سروکار ہے، چاہے اُسے جو بھی لکھے۔
حصہ نثر میں ہمیں عبیداللہ کیہر کا سفرنامہ آؤ گھومیں دنیا پہلے قس طن طن یہ بھی نظر آتا ہے ۸۶۔ حالاں کہ بچوں کے لیے سفرنامے لکھنے کی روایت زیادہ مستحکم نہیں تھی ۸۷ لیکن اب تک جو لکھا گیا تھا اسی کے تتبع میں ہمیں عبیداللہ کیہر بچوں کے ادب میں ایک نئے سفرنامے کے ساتھ نظرآتے ہیں۔
حصہ نظم:
عموماً بچوں کے رسائل میں نظموں کے حصے میں پرانی نظموں کا انتخاب ہوتا ہے یا پھر نئی نظمیں شامل تو ہوتی ہیں، لیکن ان میں اوزان اور بحروں کے بڑے مسائل ہوتے ہیں۔
مدیر اگر شاعر ہو اور عروض جانتا ہو تو وہ نظموں کا اچھا انتخاب رسالے میں شائع کرسکتا ہے لیکن مدیر یا اس کی ٹیم کا کوئی فرد عروض نہ جانتا ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قسم کی نظموں کی اشاعت متوقع ہوسکتی ہے۔مگر چند رسائل ایسے بھی ہیں جو نظموں کی باقاعدہ کسی شاعر سے اصلاح کرواکر اُنھیں شائع کرتے ہیں۔
آنکھ مچولی میں نہ صرف عروض جاننے والے افراد شامل تھے بلکہ خود شاہ نواز فاروقی بچوں کے لیے بہت عمدہ نظمیں کہا کرتے تھے۔بچوں کے کچھ اچھے شاعر بھی آنکھ مچولی میں لکھا کرتے تھے، اس لیے لامحالہ نظموں کی اشاعت میں ان کی راے بھی اہمیت رکھتی تھی۔
بچوں کے لیے دلچسپ نظموں کی تخلیق ہمیں آنکھ مچولی کے ہر شمارے میں نظرآتی ہے۔ یوں تو پورے شمارے میں ، تین چار ہی نظمیں شائع ہوتی تھیں اور ساری نظموں کو بہترین یا عمدہ کے لقب سے بھی نوازا نہیں جاسکتا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے ادب میں اتنی متنوع نظمیں شاید ہی کسی رسالے کی زینت بنتی رہی ہوں۔
آنکھ مچولی میں شائع ہونے والی نظموں کے لیے باقاعدہ خاکے بنا کرتے تھے۔ ان خاکوں کی وجہ سے نظم کی پیشکش بھی عمدہ ہوجاتی تھی۔آسان بحروں کا استعمال کرکے سیکڑوں نظموں کی اشاعت آنکھ مچولی کے بارہ سالہ دور میں ہوئی۔ان میں چند اچھی، دل چسپ اور مزے دار قسم کی نظموں کا انتخاب یہاں دیا جارہا ہے۔
آنکھ مچولی کی منتخب نظموں کا انتخاب۸۸
شمار ۔ نظم کا نام ۔ شاعر ۔ ماہ وسال
۱ ۔ آلو کو آیا تاؤ ۔ احمد حاطب صدیقی ۔ نومبر ۱۹۸۶ء
۲ ۔ طارق میاں ۔ شاہ نواز فاروقی ۔ جولائی ۱۹۸۸ء
۳ ۔ اُداس بچی ۔ محمد سلیم مغل ۔ جنوری ۱۹۹۲ء
۴ ۔ چوہے ہمارے دور کے چالاک ہوگئے ۔ شاہ نواز فاروقی ۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۵ ۔ کولمبس ثانی ۔ عبدالقادر ۔ جنوری ۱۹۹۲ء
۶ ۔ بارے کچھ کان کا بیان ہوجائے ۔ عامر خورشید ۔ مارچ ۱۹۹۲ء
۷ ۔ لذت کا راز ۔ محمد خالد ۔ فروری ۱۹۹۳ء
۸ ۔ شرارتوں کے شہر میں ۔ ضیاء الحسن ضیا ۔ فروری ۱۹۹۴ء
۹ ۔ نغمۂ شرارت ۔ تنویر پھول ۔ فروری ۱۹۹۴ء
۱۰ ۔ بستہ ہے میرا وزنی ۔ عبدالقادر ۔ جولائی ۱۹۹۴ء
۱۱ ۔ مانیں یا مت مانیں چچی ۔ احمد حاطب صدیقی ۔ ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۲ ۔ گھر یا چڑیا گھر ۔ عنایت علی خان ۔ ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۳ ۔ مکھی ۔ عباس عالم ۔ مارچ ۱۹۹۵ء
۱۴ ۔ سرکٹا ۔ فیروز خسرو ۔ نومبر ۱۹۹۵ء
۱۵ ۔ بول میری مچھلی کتنا پانی ۔ عنایت علی خان ۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۶ ۔ کاش کہ ہم سب بھالو ہوتے ۔ محسن علی ۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۷ ۔ خدا ہی کی قدرت یہ سارا جہاں ہے ۔ عابد انور ۔ دسمبر ۱۹۹۶ء
۱۸ ۔ سردی کا سبق ۔ محمد رافع ۔ دسمبر ۱۹۹۶ء
۱۹ ۔ یہی تو ہے مقابلہ ۔ خالد بن محمود احمد ۔ جنوری ۱۹۹۷ء
۲۰ ۔ یہ تجدید عہد کا دن ہے ۔ حفیظ الرحمن احسن ۔ مارچ ۱۹۹۷ء
ان نظموں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ اس میں موجود دل چسپی ہے۔ نظموں میں بڑے دلچسپ تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ تجربے موضوعات کے اعتبار سے ہیں۔ بڑے دلچسپ موضوعات کو نظموں کی صورت دی گئی، مثال کے طور پر محسن علی کی نظم کاش کہ ہم سب بھالو ہوتیدیکھیے ۸۹، شاعر بچہ بنتے ہوئے بھالو بننے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور یہ اظہار وہ نظم کے عنوان سے شروع کرتا ہے۔ اگر آپ نظم کو پہلے مصرعے سے پڑھیں اور عنوان کو نظر انداز کریں تو نظم وہ تاثر ہرگز پیدا نہیں کرتی جو عنوان کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد پہلا مصرع پڑھنے پر پیدا ہوتا ہے،نظم دیکھیے:
وادی وادی گھومنے جاتے
مٹک مٹک کر قدم اٹھاتے
جنگل جنگل ناچتے گاتے
جی بھر کر ہم شور مچاتے
منھ میں ہمارے آلو ہوتے
کاش! کہ ہم سب بھالو ہوتے
گھاس پہ اپنے بستر ہوتے
دیر سے اُٹھتے، جلدی سوتے
سونے میں وقت اپنا کھوتے
اُٹھتے بھی تو منھ نہ دھوتے
بھالوؤں جیسے تالو ہوتے
کاش! کہ ہم سب بھالو ہوتے
آخر اک دن ایسا آتا
ہم کو مداری اک لے جاتا
کرتب خوب ہمیں سکھلاتا
بازاروں میں ہمیں نچاتا
ہم شیطان کے خالو ہوتے
کاش! کہ ہم سب بھالو ہوتے۹۰
جس طرح بہت ساری کہانیاں مکمل ہونے کے باوجود تشنگی کا احساس دلاتی ہیں، یہ احساس چاہے صرف قاری کا ہو، مصنف کا نہیں۔ اسی طرح یہ نظم بھی مکمل ہونے کے باوجود تشنگی کا احساس دلاتی ہے کہ اس میں چند اور شرارتوں کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اس نظم میں خوب صورتی ہے، نغمگی ہے۔ بغیر گنگنائے آپ رہ ہی نہیں سکتے۔
نظموں میں موجود نغمگی بہت ضروری ہے۔ عموماً ہمارے ہاں بچوں کے شعرا ، شعر میں وزن توپورا کردیتے ہیں، لیکن نظم نغمگی سے مفقود ہوجاتی ہے۔ بچوں کے لیے لکھی جانے والی کئی نظموں میں چند ایک نظمیں ایسی ہوتی ہیں جن میں منفرد خیالات یا کسی خاص نکتے پر مرکوز خیالات کو نغمگی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
عموماً نظم میں منفرد خیالات عنقا ہوتے ہیں۔ شاعر عموماً روایتی موضوعات ہی کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو سچ، ایمان داری، بہادری، ہمت کا درس دیتا ہے اور اسے اتنے سپاٹ انداز سے کہتا ہے کہ قاری دو مصرعوں ہی کے بعد اگلا صفحہ کھول لیتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسے شاعروں کی بھی کمی نہیں جو اپنے منفرد خیالات کو، یا پھر عام خیالات ہی کو اتنے منفرد انداز اور سادگی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ داد دیے بنا رہ نہ پائیں۔ عنایت علی خان کی نظم گھر یا چڑیا گھر کو دیکھیے جو ایک روز مرّہ کے لطیفے پر مشتمل ہے ۹۱ لیکن شاعر نے کتنی خوش اسلوبی کے ساتھ اسے اپنے خیالات میں برتا ہے۔
بچہ اک چڑیا گھر آیا
سارے چڑیا گھر میں گھوما
گھوم کے اک اک جنگلا دیکھا
پھر آکر اک لان میں بیٹھا
پھر اپنے ابو سے بولا
ابو تِیا یہ تِلیا دھل اے؟
باول اَدل یہ تِلیا دَھل اے
تِلیا پھل بتلائیں تدھل اے
باپ نے دور اک چڑیا دیکھی
جو اک جنگلے پر بیٹھی تھی
بولا دیکھو وہ ہے چڑیا
بچے نے چڑیا کو دیکھا
دیکھا پھر کچھ سوچ کے بولا
ایچھی تو اپنے بی دھل اے
پھِل تِیا وہ بھی تِلیا دَھل ہے؟۹۲
یہ ایک خوب صورت نظم ہے۔ اس نظم میں ایک چھوٹے سے بچے کے معصومانہ خیالات کو اسی کی توتلی زبان میں پیش کیا گیا ہے اپنی تمام خوبصورتی اور دلکشی کے باوجود اس نظم میں ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی ہے،مسئلہ یہ ہے کہ اس نظم سے بڑے خوب محظوظ ہوئے ہوں گے، لیکن کیا بچہ بھی اسی طرح محظوظ ہوا ہوگا۔ یہ سوال اہم ہے۔ بچے کے منھ سے ایسا سوال نکالنا یقینا بڑے کو محظوظ کرسکتا ہے لیکن ایک چھوٹے بچے کے لیے تو یہ اب بھی ایک سوال ہی ہے۔
سرِ دست یہ دیکھیے کہ آنکھ مچولی نے بچوں کے ادب کو بہت عمدہ نظمیں دی ہیں۔خصوصاً وہ شاعر حضرات جو دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں یعنی نظم ونثر۔ ان شعراکے ہاں نظموں کو بہت دل چسپ انداز میں برتا گیا ہے۔ مثلاً احمد حاطب صدیقی، عنایت علی خان اور شاہنواز فاروقی کی لکھی گئی نظموں میں آپ کو موضوعات کے حوالے سے بھی بڑا تنوع نظرآئے گا۔
وہیں آنکھ مچولی میں شائع ہونے والے بچوں کے معروف شاعر عبدالقادر کی منظوم کہانیوں نے بچوں کو خوب محظوظ کیا۔ وہ بڑے برجستہ قسم کی نظموں کے ساتھ نظر آتے ہیں جس میں عموماً واقعاتی ظرافت پائی جاتی ہے۔ ان کی زمین گول ہے کو دیکھیے۹۳ جس میں اُنھوں نے بچوں کو اپنی نظم سے مسکرانے پر مجبور کردیا ہے۔ اسی طرح وہ منظوم کہانی بیان کرتے ہوئے بچوں کو سبق بھی دیتے، ان سبق آموز اور دل چسپ نظموں سے بچے کے لاشعور میں اخلاقی برائیوں کے خلاف نفرت پروان چڑھتی ہے، جیسے ان کی نذرانہ نظم دیکھیے۹۴:
نذرانہ۹۴
جنگل کے راستے سے اک شخص جا رہا تھا
مستی بھری فضا میں وہ گیت گا رہا تھا
املی کا پیڑ دیکھا، جو تھا بڑا تناور
بھر آیا منھ میں پانی، قابو رہا نہ دل پر
وہ چڑھ گیا شجر پر ، بڑھتا رہا وہ اوپر
املی کو توڑنے کی دھن تھی سوار اس پر
ٹہنی تھی سب سے اونچی، اس پر پہنچ گیا وہ
جب اس نے نیچے دیکھا، اک دم لرز گیا وہ
گہرائی دیکھتے ہی، لرزہ ہوا تھا طاری
گم ہو گئی تھی سٹی، کلمہ تھا لب پہ جاری
وعدہ کیا خدا سے، ’’زندہ اگر رہوں گا
اک اونٹ کو الٰہی ، قربان میں کروں گا‘‘
حرکت ہوئی بدن میں، جب مانی اس نے منت
نیچے لگا کھسکنے ، پیدا ہوئی تھی ہمت
کم فاصلہ ہوا تو دل میں فتور آیا
کہنے لگا کہ ’’یارب مجھ پر ہے تیرا سایا
نایاب اونٹ ہو تو گاے ضرور دوں گا
تجھ سے کیا ہے وعدہ، اس کو وفا کروں گا‘‘
ہونے لگی تسلی، جب گھٹ رہی تھی دوری
کہنے لگا کہ ’’یارب ، اک بات ہے ضروری
گاے نہ مل سکے تو بکری ضرور دوں گا
پکا ہے میرا وعدہ، اس کو وفا کروں گا‘‘
پھر فاصلہ ہوا کم، اس نے کہا کہ ’’مولا
بکری نہیں ملی تو مرغی ذبح کروں گا‘‘
کچھ اور نیچے آکر، زیادہ سکون پایا
مرغی کو کاٹنے کا دل میں خیال آیا
کہنے لگا کہ ’’یارب، میری ہے یہ گزارش
اس کو قبول کرلے، ہوگی بڑی نوازش
وعدہ کیا ہے میں نے، پورا اسے کروں گا
مرغی نہ مل سکے تو انڈے کا صدقہ دوں گا‘‘
اب فاصلہ تھا تھوڑا، اور صاف پورا منظر
ماری چھلانگ اس نے اور آگیا زمیں پر
دیکھا فلک کی جانب اور عرض کی ’’خدایا
مشکل میں اور الم میں تو میرے کام آیا
عرش عظیم والے ، تیرے ہیں سب کواکب
اک انڈا نذر کرنا ہر گز نہیں مناسب
تیرے ہیں سب خزانے، مالک ہے دوجہاں کا
انڈا حقیر شے ہے، تو اس کا کیا کرے گا؟‘‘
یہ بات کہہ کے اس نے، اپنا قدم بڑھایا
گھٹیا مذاق اپنے رب سے بھی کر دکھایا
دنیا میں کم نہیں ہیں ایسے خبیث انساں
ڈرتے نہیں جو رب سے، دل میں نہیں ہے ایماں
آنکھ مچولی کے ہر شمارے میں ایک نظم تو ایسی ضرور پائی جاتی تھی جسے رسالے کی جان قرار دیا جاسکتا تھا۔ان نظموں میں اب بھی اتنی تازگی ہے کہ آج بھی ان نظموں سے ویسے ہی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے جیسے ۳۰ یا ۴۰ برس پہلے ہوا جاتا تھا۔
مجموعی طور پر آآنکھ مچولی کی جہاں نثر کا حصہ ہمیں مضبوط نظر آتا ہے وہیں حصہ نظم نے بھی بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔اسی طرح آنکھ مچولی میں شائع ہونے والے مختلف پزل، دماغی مشقیں، اور دلچسپ سرگرمیاں بچوں کو محظوظ کرتی تھیں۔ بچوں کو ماحولیات سے آگاہی دینے کے لیے، ان کے سرپرستوں کی جانب سے سگریٹ پینے کے خلاف باقاعدہ مہمات چلائی گئیں۔ جہاںبہت ہی اچھے جملوں پر مشتمل اشتہارات شائع کرکے ماحول کو صاف رکھنے کی ترغیب دی جارہی ہوتی تھی وہیں بڑوں کو بھی منع کیا جاتا تھا کہ وہ سگریٹ کے دھویں سے بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
بچوں کے رسالے کو رنگین ہونا چاہیے، لیکن آنکھ مچولی میں ہمیں رنگین صفحات کی کمی نظرآتی ہے۔ اس وقت رنگین صفحات کا رجحان اگرچہ کم تھا لیکن رنگین صفحہ بچوں کوبڑا پُرکشش محسوس ہوتا تھا۔رنگین صفحات میں اضافہ اخرجات پر بھی اثر ڈالتا تھا اور رسائل کی مالی حالت بہرحال ایسی نہ تھی کہ وہ مکمل یا بہت زیادہ رنگین صفحات کا خرچہ برداشت کرپاتا۔
آنکھ مچولی میں خامیاں کم تھیں اور خوبیاں بہت زیادہ۔ اس وجہ سے اس رسالے نے بچوں کے ادب میں ایک شان دار اضافہ کیا۔سدا بہار نظمیں اور کہانیاں شائع کیں ، جس سے ۱۰۰ سال بعد بھی استفادہ کیا جاسکے گا۔
حوالہ وحواشی:
۱۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی ۱۹۸۶ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۵
۲۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۶۵
۳۔ ایضاً
۴۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی ۱۹۸۶ئ، ص۱
۵۔ _________، جون ۱۹۸۷ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۶۔ _________، دسمبر ۱۹۸۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۷۔ _________، جولائی ۱۹۹۲ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۸۔ _________، جولائی ۱۹۸۶ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲
۹۔ ایضاً
۱۰۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۱۹۸۹ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۶۶
۱۱۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جنوری ۱۹۸۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲
۱۲۔ _________،جولائی ۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۱۳۔ -_________، اکتوبر ۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۳
۱۴۔ _________،جون ۱۹۹۲ئ،ص۳۸،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۱
۱۵۔ _________، جولائی ۱۹۸۶ء تا مارچ ۱۹۹۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۲
۱۶۔ ایضاً
۱۷۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جنوری ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۱
۱۸۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۱۹۹۰ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۶۲
۱۹۔ ایضاً، ص۶۳
۲۰۔ کھوکھر، محمد افتخار، پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پچاس سال، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۱۵
۲۱۔ بلوچ، نعیم احمد، ستمبر۲۰۲۱ئ، آنکھ مچولی کی تاریخ، انٹرویو، مملوکہ،اعظم طارق کوہستانی،ص ۵
۲۲۔ ثاقب، رضوان ،اکتوبر۲۰۲۱ئ، آنکھ مچولی کی تاریخ، انٹرویو، مملوکہ،اعظم طارق کوہستانی،ص ۶
۲۳۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ،جولائی ۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲
۲۴۔ _________، جولائی ۱۹۸۶ء تا مارچ ۱۹۹۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۳
۲۵۔ ایضاً، ص۷۷
۲۶۔ ایضاً، ص۲۷
۲۷۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، اگست ۱۹۸۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۶۷
۲۸۔ _________،فروری ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۷
۲۹۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۱۹۹۰ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۶۵
۳۰۔ ایضاً، ص۶۳
۳۱۔ برکاتی، مسعود احمد ، نومبر ۱۹۸۲ئ، دو ملک دو مسافر، مشمولہ: ’ہمدردر نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۳
۳۲۔ کھوکھر، محمد افتخار، ۱۹۹۰ئ، بچوں کے رسائل کا جائزہ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد، ص۶۵
۳۳۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جون۱۹۹۵ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۶۳
۳۴۔ _________،جون۱۹۹۵ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۱
۳۵۔ _________،ستمبر۱۹۹۴ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۳۸
۳۶۔ _________،اکتوبر۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۶
۳۷۔ _________،ستمبر۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۷۰
۳۸۔ _________،جنوری۱۹۸۹ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۳
۳۹۔ _________،نومبر۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸۰
۴۰۔ _________،اگست ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۴۰
۴۱۔ _________،جولائی ۱۹۹۳ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۵۶
۴۲۔ _________،مارچ ۱۹۹۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۲۰
۴۳۔ _________، جولائی ۱۹۸۶ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ۲
۴۴۔ _________، جولائی۱۹۸۶ئ، اچھی بات،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۴
۴۵۔ ایضاً
۴۶۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۵
۴۷۔ _________،جون ۱۹۹۳ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۹
۴۸۔ _________،جنوری۱۹۸۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۶
۴۹۔ _________،جولائی ۱۹۹۳ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۲۱
۵۰۔ _________،نومبر۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۹
۵۱۔ _________،اکتوبر ۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۱
۵۲۔ _________، جنوری۱۹۹۲ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۷
۵۳ _________، نومبر۱۹۹۵ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۸۳
۵۴۔ _________، فروری ۱۹۹۰ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۱
۵۵۔ _________،اگست ۱۹۸۷ئ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۵
۵۶۔ ایضاً
۵۷۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، اپریل ۱۹۸۷ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۴۸
۵۸۔ _________،نومبر ۱۹۸۶ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۳۷
۵۹۔ _________،جنوری۱۹۸۹ئ،مشمولہ:کھٹ میٹھے،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۲۹
۶۰۔ ابدالی، نیر، دسمبر ۱۹۸۸ئ، سائنس انکوائری، مشمولہ:ماہنامہ ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۷۶
۶۱۔ _________،دسمبر۱۹۹۱ئ، قلم قتلے،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۲۳
۶۲۔ _________،جنوری۱۹۸۸ئ،آؤ ملائیں ہاتھ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۱۹
۶۳۔ _________،مئی۱۹۸۸ئ،امی ابو کا صفحہ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۱۸
۶۴ ۔ _________،نومبر ۱۹۸۷ء ، ایضاً، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۲۲
۶۵۔ _________،اگست۱۹۸۸ئ،نشان عظمت، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۶
۶۶۔ _________،جنوری ۱۹۹۲ئ،نشان عظمت، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۱۲
۶۷۔ جعفری، عقیل عباس ، دسمبر۱۹۸۸ئ، گنی چنی معلومات، مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸۵
۶۸۔ جعفری، عقیل عباس،جنوری ۱۹۸۹ئ، گنی چنی معلومات، مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۲۱۵
۶۹۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جنوری ۱۹۹۲ئ،مشمولہ: کوئز کہانی، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۷۱
۷۰۔ _________،مئی ۱۹۹۵ئ، مشمولہ: سوال آدھا جواب آدھا، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۷۲
۷۱۔ مغل، سلیم، اکتوبر ۱۹۹۶ئ، قصہ کوئز،مشمولہ:ماہنامہ ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۷۵
۷۲۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، نومبر ۱۹۶۸ئ،مشمولہ:دائرہ معلومات، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۱۱۶
۷۳۔ _________،نومبر ۱۹۶۸ئ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۱۱۶
۷۴۔ _________،نومبر ۱۹۸۶ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۱۳۵
۷۵۔ _________، جولائی ۱۹۸۶ء ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۷۶۔ _________،فروری۱۹۹۷ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص:۱
۷۷۔ ایضاً
۷۸۔ -_________، جولائی ۱۹۸۶ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۴
۷۹۔ صدیقی، احمد حاطب ،جولائی ۱۹۸۶ئ، مانو بلی سے بامحاورہ باتیں،مشمولہ:’ماہنامہ آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۷۷
۸۰ ۔ ایضاً
۸۱۔ چغتائی، کلیم، اگست ۱۹۸۶ئ،بل بنام، مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۴۰
۸۲۔ ایضاً، ص۴۸
۸۳۔ جلیل، امتیاز، جنوری ۱۹۹۲ئ، وفادار دوست، مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲۲
۸۴۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی ۱۹۸۶ء ، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱
۸۵۔ احمد، سلیمان، مارچ ۱۹۹۲ئ، تاریخی عمارتیں بیچنے والا، مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘ ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۷۲
۸۶۔ کیہر، عبیداللہ، جولائی۱۹۸۸ئ، آؤگھومیں دنیا پہلے قس طن طن یہ،مشمولہ:ماہنامہ ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۷۷
۸۷۔ برکاتی، مسعود احمد، نومبر ۱۹۸۲ئ، دو ملک دو مسافر،مشمولہ: ’ہمدردر نونہال‘، ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی، ص۳
۸۸۔ آنکھ مچولی، ماہنامہ، جولائی ۱۹۸۶ء ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۲
۸۹۔ علی، محسن، اکتوبر ۱۹۹۶ئ، کاش کہ ہم سب بھالو ہوتے،مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص ۶۷
۹۰۔ ایضاً
۹۱۔ خان، عنایت علی، ستمبر ۱۹۹۴ئ، گھر یا چڑیا گھر،مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘ ،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۸۳
۹۲۔ ایضاً
۹۳۔ عبدالقادر، جنوری ۱۹۹۲ئ، کولمبس ثانی،مشمولہ:ماہنامہ’ آنکھ مچولی‘،گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۱۴
۹۴۔ عبدالقادر، جولائی ۱۹۹۴ئ، نذرانہ، مشمولہ:ماہنامہ ’آنکھ مچولی‘، گرین گائیڈ اکیڈمی، کراچی، ص۳۳