ایک روشن دماغ تھا ،نہ رہا
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بیس جولائی ۲۰۱۵ کی رات میرے لیے قیامت کی رات تھی، مجھے نہیں معلوم تھا۔ وہ رات مجھ پر قیامت بن کر گزرنے والی ہے۔ نصف رات کے وقت اچانک آنکھ کھل گئی ، دل میں شدید درد کااحساس ہوا ۔فوراً ہی خوف زدہ بھی ہوگیا کہ ہو نہ ہو یہ ’’ہارٹ اٹیک‘‘ ہے۔ خیر بیٹے (نوید) کوجگایا اس نے فوراً دوا دی۔ کوئی آرام نہ آیا، دوسری دواکے بعد بھی درد میں اضافہ ہوتامحسوس ہورہا تھا۔ نوید نے تیسری دوا دی، تیسری دوا کے بعد آخر کوئی پون گھنٹے کی شدید تکلیف کے بعد درد غائب ہوا۔ باقی رات آنکھوں میں کٹی۔‘‘
جی ہاں! یہ ’’اشتیاق احمد مرحوم‘‘ کے الفاظ ہیں جو اُنھوں نے اپنی ناسازی طبیعت سے متعلق ۳۰؍ اگست ۲۰۱۵ء کی دوباتوں (بچوں کااسلام) میں تحریر کیے ۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ مذکورہ رات کے چار ماہ بعد ہی ایک قیامت کادن بھی ان کا منتظر تھا۔ کراچی ائیرپورٹ پہ ۱۷ نومبر ۲۰۱۵ء کادن اوریہ دن صرف ان ہی کے لیے نہیں ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی قیامت کا دن تھا۔ ائر پورٹ پہ اشتیاق صاحب کودل کادورہ پڑا جوجا ن لیوا ثابت ہوا، چاہنے والوں نے عالمِ تصور میں دیکھا کہ اشتیاق صاحب تکلیف سے کراہ رہے ہیں مگرافسوس کہ دوا دینے کے لیے بیٹا پاس نہیں، تنہا ہیں اور کوئی اپنا موجود نہیں۔
افسوس کے ان کی موت گھر اور گھروالوں سے دور لکھی تھی جس کا اہل خانہ کوہمیشہ قلق (رنج، غم)رہے گا۔
اشتیاق احمد مرحوم کی وفات ان کے پرستاروں کے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ تھا۔ یہ صدمہ اس وقت اذیت میں بدل گیا جب اشتیاق صاحب کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش شروع کردی گئی۔ دوقسم کی آرا ان کے متعلق اُبھرکرسامنے آئیں جوایک دوسرے سے بالکل متضاد تھیں۔ایک بہت بڑے طبقے کاخیال تھاکہ ’’اشتیاق احمد ایک مخلص انسان، سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی تھے۔ جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پاکستانی بچوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے صحیح اور غلط ،خیراورشر میں تمیز پیداکرنے کاکام ایک مشن کے طور پہ انجام دیا۔
لیکن۔۔۔! دوسری طرف ایک محدود طبقہ ایسا موجود ہے جس کاکہنا ہے کہ اشتیاق احمدایک انتہا پسند اور بنیاد پرست شخص تھے ۔اُنھوں نے مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانے کاکام کیا وہ تکفیری فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔اُنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف بچوں کے ذہن زہرآلود کرنے کی کوشش کی۔(معروف انگریزی اخبار میں اس طرح کے کئی مضامین شائع ہوئے )
جو لوگ ’’اشتیاق احمد‘‘ کوذاتی طور پہ جانتے تھے۔ وہ اس بات کی گواہی ضرور دیں گے کہ وہ بدنیت یامفاد پرست شخص ہرگز نہ تھے ۔اُنھوں نے جو لکھا وہ پوری نیک نیتی سے لکھا۔ کسی دوسرے کے کہنے یااپنے مفاد کی خاطر نہیں لکھا اور جوکیا وہ کسی سازش کے تحت نہیں تھا۔ ہرشخص کی اپنی ایک راے ہوتی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ،اشتیاق صاحب ،امربالمعروف و نہی عن المنکر، پہ یقین رکھتے تھے۔ یعنی نیکی کاحکم دینے اوربرائی سے روکنے کواپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ اس کام میں کوئی بدنیتی شامل نہ تھی وہ جوصحیح سمجھتے تھے وہی لکھتے تھے۔ اگروہ کسی کے ہاتھوں کھیل رہے ہوتے تواب تک ارب پتی ہوچکے ہوتے۔ ساری عمر جھنگ میں سفید پوشی کی زندگی نہ گزارتے۔ ۳۰؍اگست (تیس اگست )کے ’’بچوں کااسلام‘‘ کی دوباتوں میں اشتیاق صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب میری طبیعت خراب ہوئی تومیں نے سوچا کہ کس کس سے میں نے کام کے سلسلے میں پیسے لیے ہوئے ہیں۔ قرض دار مرناکتنا خوفناک ہے ۔
’’اشتیاق احمد‘‘ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’’اُنھوں نے اپنے دور مصنّفی میں کس کس طرح دھوکے کھائے۔ پبلشرحضرات نے کس طرح ان سے فیض اٹھایا۔ مگرانھیں جائز ثمرات سے بھی محروم رکھا۔ بعض دوستوں اور مداحوں نے بھی دھوکہ دیا۔ ’’اشتیاق احمد‘‘ کے پرستار اس بات پہ خوش ہیں کہ وہ دھوکہ کھانے والوں میں تھے دھوکہ دینے والوں میں سے نہیں ۔
کسی دانا کاقول ہے ۔۔۔
’’اس سے مت ڈرو جوتم سے بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہے بلکہ اس شخص سے ڈرو جس نے اپنامعاملہ اﷲپہ چھوڑ دیا‘‘۔
اشتیاق صاحب نے اپنے معاملات ہمیشہ اﷲ پہ چھوڑے لہٰذا ان شاء اﷲ اس کااجر اِنھیں اگلے جہاں میں ضرور ملے گا (آمین)
اشتیاق احمد سے ابن صفی کے کرداروں پہ ایک ناول لکھوایاگیاتھا جووہ لکھنا نہیں چاہتے تھے بقول ان کے جس کے کردار اُسی کوساجھے ۔سناہے کہ اب کچھ لوگ اشتیاق صاحب کے کرداروں ’’ انسپکٹر جمشید‘‘’’انسپکٹر کامران مرزا‘‘ وغیرہ پہ لکھنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ اس ضمن میں اشتیاق احمد کے صاحب زادے نوید احمد کہتے ہیں ۔
’’یہ تواب ہوگا ۔۔۔ہم کس کس کوروک سکتے ہیں ،ابو کی زندگی میں ہی کچھ لوگوں نے ان کے کرداروں پہ لکھنا شروع کردیاتھا۔‘‘
لوگ اپنی سی کوشش ضرور کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی اشتیاق صاحب ابن صفی کی جگہ لے سکتے تھے اور نہ اشتیاق صاحب کی جگہ کوئی نوآموز (نیا آنے والا) قلمکار لے سکتا ہے۔ اشتیاق احمد کاکام اور نام ہمیشہ ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ ان شاء اﷲ!