ایک دوسرے کے ساتھ سلوک
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نہ بنو کہ کہنے لگو، اگر دوسرے لوگ ہم سے اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے اچھا سلوک کریں گے اور اگر دوسرے لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں گے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے، بلکہ اپنے دلوں کو اس بات پر پکا کرو کہ اگر دوسرے لوگ احسان کریں تب تم بھی احسان کرو اور اگر لوگ برا سلوک کریں، تب بھی تم ظلم نہ کرو۔“(ترمذی)
پیارے ساتھیو! آپ نے اکثر لوگوں سے سنا ہو گا کہ جب کوئی دوسرا ہمارے ساتھ نیکی نہیں کرتا تو ہم اس کے ساتھ کیوں نیکی کریں، یا یہ کہ، جب کسی نے ہمارے ساتھ زیادتی یا ظلم کیا ہے تو ہم اس سے بدلہ کیوں نہ لیں۔۔۔ لیکن ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ ہم دوسروں کے اچھے اعمال کے انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ یہ نیک کام کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور اگر یہ ہمارے ساتھ بُرا سلوک کریں گے تو ہم بھی بُرا سلوک کریں گے۔ اس کی بجائے ہمیں ہر حال میں، لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور اگر کوئی ہمارے ساتھ بدسلوکی کرے، ظلم کرے تو جواب میں ہمیں بھی اس کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی ہے کہ اگر کسی کے ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی کوشش کریں گے تو ہماری طرف سے زیادتی ہو جانے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ آپؐ نے ایک اور طویل حدیث میں ان نو باتوں کا ذکر فرمایا ہے، جن کا علم اللہ نے آپؐ کو دیا ہے۔ پیارے نبیؐ فرماتے ہیں، کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان رشتہ داروں سے بھی رشتہ جوڑوں اور ان کے حقوق اچھی طرح ادا کروں جو مجھ سے رشتہ توڑیں اور میرے ساتھ بدسلوکی کریں، ان لوگوں کو بھی دوں جنھوں نے مجھے محروم رکھا ہو، ان لوگوں کو معاف کر دوں، جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے فرمایا: یہ شخص اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔ پھر آپؐ نے کہا، اس کو آنے کی اجازت دے دو۔ جب وہ آیا تو آپؐ نے اس کے ساتھ گفتگو بہت نرمی کے ساتھ فرمائی اور آپؐ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ آپؐ نے تو اس شخص کے ساتھ بڑی نرمی سے بات کی اور پہلے آپؐ نے اس کے بارے میں وہ بات فرمائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ کے نزدیک بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہوگا جس کی بد زبانی اور سخت کلامی سے ڈر کر (دنیا میں) لوگ اس کو چھوڑ دیں۔“ (بخاری، مسلم)
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ اگر کوئی شخص بُرا ہے ار دوسروں کو اس کی برائی سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو اس فرد کی غیر موجودگی میں، دوسروں کو اس کی برائی سے آگاہ کرنے کی اجازت ہے اور ایسا عمل غیبت نہیں کہلائے گا۔ آپ کو معلوم ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنا، غیبت ہے جو بہت بڑا گناہ ہے، لیکن دوسروں کو کسی کی برائی سے اگر اس نیت کے ساتھ آگاہ کیا جا رہا ہے کہ لوگ اس فرد کی برائی سے محفوظ رہیں اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس فرد پر اعتماد کر کے کوئی نقصان نہ اٹھا لیں، تو دوسروں کو آگاہ کرنے کا یہ عمل آپ کی سنت کے مطابق ہے اور اچھی نیت کے ساتھ کیے گئے عمل کا ان شاء اللہ ثواب ملے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی فرد کتنا ہی بُرا ہو، اس سے اگر بات کرنی پڑ جائے تو بھی نرمی اور اخلاق سے بات کرنی چاہیے۔ بُرائی کے بدلے بھلائی کرنا مومن کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہی ہدایت کی ہے کہ بُرائی کو بھلائی کے ذریعے سے دور کرو، تم دیکھو گے کہ جس سے تمہاری دشمنی ہے، وہ تمہاراجگری دوست بن گیا ہے۔ (حم السجدہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں بُرائی کے بدلے بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین