آدم خور
ستار طاہر
۔۔۔۔۔
اس سنسان جزیرے پر آئے مجھے پندرہ برس ہوگئے۔ایک دن جب میں صبح کے وقت کیبن سے کشتی کی طرف حسب معمول اس طرح جارہا تھا کہ بندوق میری بغل میں تھی ،طوطا کندھے پر بیٹھا تھا ،کھلی چھتری میرے سر پر تھی، دوربین گلے میں لٹکی تھی، داڑھی اور سرکے سیاہ و سفید بال ہوا میں لہرارہے تھے کہ اچانک میں حیران ہوگیا۔
ریت پر کسی انسان کے ننگے پاو¿ں کے نشان پڑے تھے۔ میں غور سے انہیں دیکھنے لگا ۔سب سے پہلے مجھے ایک ہی انسان کے پیروں کے نشان دکھائی دیئے۔اس کے بعد آگے بڑھا تو کم ازکم تین چار انسانوں کے پیروں کے نشان موجود تھے۔ میں پیروں کے ان نشانوں کو دیکھ کر خوش بھی تھا اور حیران بھی۔ میری حیرانی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ پیروں کے یہ نشان تازہ تھے۔جیسے وہ لوگ جن کے پیروں کے یہ نشان تھے، تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزرے تھے۔ میں ان نشانوں کو غور سے دیکھتا ہو اان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا ۔لگ بھگ ایک فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد پیروں کے یہ نشان ایک چھوٹے ٹیلے سے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نیچے کی طرف جارہے تھے ۔ میں ٹیلے کے اوپر جھاڑیوں میں چھپ گیا۔
سمندر کے ساحل کے نزدیک مجھے کچھ لوگ دکھائی دیئے۔ میرا دل تیزی ست دھڑکنے لگا۔ میں سوچنے لگا ،یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں۔ اور پھر ساحل سمندر کے قریب کھڑی مجھے ایک کشتی بھی دکھائی دی۔ میں نے دوربین لگائی اور دیکھنے لگا۔جو منظر مجھے نظر آیا وہ بہت خوفناک تھا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر۔
وہ چھ سات نیم عریاں وحشی آدم خور تھے۔ انہوں نے چودہ پندرہ برس کے ایک لڑکے کو پکڑرکھا تھا۔ وہ اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
دو وحشی آدم خور وہاں آگ جلا رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس لڑکے کو پکڑ کر اسے کھانا چاہتے ہیں۔ ایک آدم خور ایک چھرالیے قریب کھڑا تھا۔ میری حیرت کم ہونے لگی تھی۔ اتنی مدت کے بعد ان انسانوں کو دیکھ کر جو اگرچہ آدم خور تھے مجھے ایک عجیب طرح کی خوشی ہوئی تھی لیکن میں یہ بھی سوچنے لگا کہ وہ تو اس لڑکے کو کھا جائیں گے۔
کیا مجھے انہیں روکنا نہیں چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے کے بعد انسانوں کودیکھ کر بھونچکا ہوگیا تھا۔ اسی لیے میرے لیے فوری طور پر فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا۔
میں دیکھ رہا تھا کہ وہ لڑکا ان آدم خوروں کی گرفت سے نکلنے کے لیے پوری کوشش کررہا ہے۔لیکن وہ اکیلا تھا اور مقابلہ چھ سات آدم خوروں سے تھا۔ یہ آدم خور وحشی جن کی شکلیں انسانوں جیسی تھیں، مجھے انسانیت کے دشمن محسوس ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کرتا ، میں نے دوربین سے دیکھا۔ وہ لڑکا ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ان آدم خوروں کے شکنجے سے آزاد ہوا اور جس ٹیلے کے پاس میں کھڑا تھا ،اس طرف تیزی سے بھاگنے لگا۔وہ میرے قریب آرہا تھا اور آدم خور پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
وہ لڑکا دبلا پتلا تھا۔ وہ بھاگ رہا تھا، بہت تیزی سے اور آدم خور اس کے پیچھے آرہے تھے۔ وہ اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے۔
تیز رفتار لڑکا ایک بار ٹھوکر کھا کر گراتو میرے دل کو دھچکا لگا لیکن اس سے پہلے کہ وہ آدم خور اسے پکڑتے ، وہ تیزی سے بھاگنے لگا۔ اب وہ میرے بہت قریب آرہا تھا۔ دوربین سے میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا چہرہ پسینے میں شرابور ہے اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔اس کا سارا جسم ننگا تھا۔ اس نے ایک لنگوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔ آدم خور وحشی موت کی طرح اس کا تعاقب کررہے تھے اور وہ لڑکا موت سے بچنے کے لیے دوڑرہا تھا۔ اور پھر میں اسی لمحے ہوش میں آگیا۔
میں نے فیصلہ کرنے میں دیرنہ کی۔میں نے بندوق اٹھائی اور لڑکے کے تعاقب میں آنے والے آدم خوروں کے سینے کا نشانہ باندھ کر گولی چلا دی۔ گولی چلنے سے دھائیں کی زبردست آواز سے جزیرہ گونج اٹھا۔ پرندے شور مچاتے اڑگئے اور میں نے ایک آدم خور کی خون میں لت پت لاش کو دیکھا۔
اپنے ایک ساتھی کو زمین پر مردہ دیکھ کر آدم خوررک گئے۔ اس دوران میں لڑکا بھاگ کر مجھ سے ذراہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ کبھی تو وہ مجھے حیرانی سے دیکھتا ۔کبھی لاش کو۔ اتنے میں ایک دوسرا آدم خور لڑکے کی طرف بڑھنے لگا۔میں نے پستول نکالا اور اس پر فائر کردیا۔ میں خود بھی خاصا حیران ہوا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی مشق کے بغیر میر انشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس آدم خور کے ماتھے پر پستول کی گولی لگی اور وہ بھی اپنے خون میں لت پت ہو کر ریت پر گرگیا۔
اپنے دوسرے ساتھی کویوں مرتے دیکھ کرباقی آدم خور اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ مڑکر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے۔ اب وہ موت سے بچنے کے لیے بھاگتے چلے جارہے تھے۔ وہ مڑ کے پیچھے دیکھے بغیر کشتی تک پہنچے۔ اس میں سوار ہوئے اور کھلے سمندر میں چلے گئے۔