ننھا چڑا
غلام عباس
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جھٹ کہہ دو گے: ’’بادشاہ !‘‘
جی نہیں یہ کہانی بادشاہ کی نہیں۔چڑے کی ہے۔
ایک تھا چڑا۔تھا تو ننھا سا،پر بہت شریر تھا۔جب اس کے پر نکل آئے تو وہ پُھدک کرگھونسلے کے کنارے پرجا بیٹھا،اور اپنے ننھے ننھے پر پھیلا کر کہنے لگا:
’’ابا جان!ہم سیر کرنے کے لیے جاتے ہیں۔‘‘
اماں جان بولیں:
’’جلدی ہی گھر لوٹ آنا،نہیں تو کھانے کو چاول نہ ملے گا۔‘‘
ننھے چڑے نے اپنی چونچ سے دُم کو کھجاتے ہوئے جواب دیا:
’’ابا!کچھ پرواہ نہیں۔چاول نہیں ملے گا تو نہیں سہی۔اب ہمیں چاول واول کی کیا پرواہ ہے۔ہم خود بہت سے چاول لے کر آئیں گے۔ایک آپ کے لیے لائیں گے،ایک اماں جان کے لیے،ایک بڑی آپا کے لیے بھی لائیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پُھر سے اُڑ گیا۔پہلے پہل اس کا ننھا سا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔یوں معلوم ہوتا تھا ،اب گرا کہ اب گرا۔اور جو اتنی بلندی سے گر پڑا ،تو ہڈی پسلی کی خیر نہیں۔لیکن ننھا سا ہونے کے باوجود وہ بڑا ہوشیار تھا،جلدی ہی سنبھال گیا۔پھر تو اس کا حوصلہ اوربھی بڑھ گیا۔اور وہ ہوامیں اُونچا ہی اُنچا اُڑنے لگا۔اُونچے اُونچے مکانوں اور درختوں سے بھی اُونچا۔
اپنے دل سے کہنے لگا:
’’واہ جی واہ!یہ تو بڑے مزے کی سیر ہے۔اب تو بس ہم یوں ہی اُڑاکریں گے۔‘‘
لیکن تھوڑی ہی دیر میں ننھا چڑا تھک گیا اور ڈولنے لگا۔اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گر پڑتا،اُسے دور سے وہ مور نظر آیا،جو اسکول کی چوٹی پر لگا ہوا تھا،اور جس سے ہوا کا رخ معلوم کرتے ہیں۔ننھا چڑا جوں توں کر کے اس کے پاس پہنچا اور ذرا سستانے کے لیے اُس کی دُم پر جا بیٹھا اور اپنی دُم کو کُھجانے لگا۔
مور نے جب یہ دیکھا تو سخت ڈانٹ بتائی:
’’او پاجی!اتنی بے ادبی !چل اُتر میری دُم پر سے۔‘‘
ننھے چڑے نے جواب دیا:
’’صاحب ،خفا نہ ہو جئے!آپ کی دُم خراب نہیں ہونے کی۔بھلا لکڑی بھی کبھی خراب ہوئی ہے؟‘‘
مور نے سخت غصے سے لال پیلے ہو کر کہا:
’’کیا کہا،لکڑی کی اور میری دُم ؟ابے بدتمیز چڑے! یہ کیا کہہ رہا ہے تو۔ابے میری دُم تو سونے کی ہے سونے کی۔سُنا تم نے بے ادب پاجی۔‘‘
اب تو چڑے سے ضبط نہ ہوسکا،جھٹ جواب میں کہا:
’’ابے جابڑا وہ بن کر آیاہے۔جیسے ہم کچھ جانتے ہی نہیں کہ لکڑی پر سنہری رنگ پھرا ہوا ہے اور تو اپنے دل میں سمجھتا ہوگا کہ ہم بھی جانور ہیں،مگر تم اس وہم میں نہ رہیو۔تُو توبس ایک کھلونا ہے کھلونا!‘‘
یہ کہہ کر ہنسی کے مارے ننھے سے چڑے کے پیٹ میں بل پڑپڑ گئے۔اور وہ اُچھلنے لگا۔
مور نے غصے میں چیخ کر کہا:
’’ابے او چڑے کے بچے!ابے کھلونا کوئی اور ہوگا۔میں تو کئی کئی میل تک مشہور ہوں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب کم از کم نو سو ننانوے لوگ میری نرالی سج دھج کو نہ دیکھتے ہوں۔پُوچھ کیوں؟یہ اس لیے کہ میں بہت خوب صورت ہوں۔‘‘
ننھے چڑے نے مسکین صورت بنا کرکہا:
’’ہاں جی،بجا فرمایا ہے حضور نے،لیکن ذرا یہ تو فرمائیں کہ کیااُڑ بھی سکتے ہیں جناب؟‘‘
مور نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا:
’’ابے او پاجی!ابے تو کیا جانے!جو لُطف ہمیں حاصل ہیں،ان کے بارے میں تو نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا اور وہ تجھے خواب میں بھی حاصل نہ ہوئے ہوں گے۔تجھ میں بس یہی ایک بات ہے نا،کہ تم سُو کھے ہوئے پتے کی طرح کبھی اُوپر چلے گئے،کبھی نیچے آگئے اور کیا ہے؟
بس تم صرف ایک خوبی پر اتنا تکبر کرتے ہواور اس پر اتراتے پھرتے ہو۔کیوں بے چڑے کے بچے!بتا تجھ میں اور کیاخوبی ہے؟‘‘
یہ کہہ کر مور اس زور سے ہنسا کہ وہ زور زور سے ہلنے لگا۔ننھا چڑااُس کی دُم پر سے گرتے گرتے بچ گیا،مگر صاحب کیا مجا ل کہ اس نے بُرا منایا ہو، یا غصے کا اظہار کیا ہو ،بلکہ اس کی ننھی سی پیشانی پر بل تک نہیں آیا۔بولا:
’’میں تو اللہ میاں کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اُڑنے کی طاقت جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔کھانے پینے کے لیے ہزاروں چیزیں بخشی ہیں۔تم ان سب چیزوں سے محروم ہو، پھر بھی اکڑتے پھرتے ہو۔اگر ادھر کی دنیا اُدھر ہو جائے،تب بھی میں اس نعمت کو چھوڑ کر تیری طرح ہمیشہ ایک ہی جگہ پر کھڑا رہنا کبھی پسند نہ کروں اور تو اس بات پر اترایا ہواہے،اور بہت فخر کرتا ہے کہ ایک ہی جگہ جڑا ہوا ہوں۔کیا تو اس کو خوبی سمجھتا ہے؟کیوں بے بتا؟‘‘
اس دفعہ ننھا چڑا بہت زیادہ خوش تھا اور اس نے اس زورسے قہقہہ لگایا کہ اس کی ننھی سی دُم میں سے تین ننھے ننھے بال اُکھڑ کر باہر نکل آئے۔پھر بولا:
’’اور تو یہ بھی تو نہیں جانتا کہ اس شہر میں کیا کیا ہو رہا ہے؟بتا بے جانتا ہے؟‘‘
مور نے جواب دیا:
’’میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں۔‘‘
چڑے نے پوچھا:بھلا وہ کیا؟‘‘
مور نے بڑے فخر سے جواب دیا:
’’وہ یہ کے اب ہوا کا رُخ کس طرف ہے اور سب سے پہلے ہی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مینہ برسنے والا ہے۔اگرتو کچھ دیر تک اور یہاں بیٹھا رہے،تو تجھے بھی یہ باتیں سکھا دوں گا۔لے دیکھ اب پہلا قطرہ گرا ہے۔لو ابھی چند ہی لمحوں کے بعد مینہ برسے گا۔‘‘
جوں ہی مینہ کا پہلا قطرہ گرا،چڑے کے کان کھڑے ہوئے۔وہ خوب جانتا تھا کہ ان حضرت کا ارادہ کیا ہے۔یہ حضرت چاہتے ہیں کہ میں ان کی دم پر بیٹھا رہوں اور جب مینہ برسے تو میں بھیگ جاؤں۔‘‘
ننھا چڑا فوراً اس کی دُم پر سے اُڑ گیا۔وہ اپنے چھوٹے چھوٹے پروں کی مدد سے جلدی جلدی ہوا کو چیرتا ہوا چلا جا رہا تھا اور پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا،لیکن جب وہ اپنے گھر پہنچا تو چونچ سے لے کر دُم تک مینہ میں بھیگ چکا تھا۔
ننھے چڑے کی اماں بولیں:
’’ارے شریر! تجھ سے خدا سمجھے۔کہاں تھااب تک؟اگر بیمار ہوگیا تومیں کیا کروں گی؟‘‘
ابا جان نے گھرُک کر کہا:’’کہاں گیا تھا بے بدمعاش؟‘‘
اُس کی بڑی اور چھوٹی آپا بولیں:’’لاؤ بھیا،ہمارے چاول۔اُوئی تم تو برف کی طرح ٹھنڈے ہو رہے ہو۔‘‘
لیکن شریر چڑے نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔جھٹ سے اپنی بہنوں کے پاس گیا اور لیٹتے کے ساتھ ہی سو گیا۔