skip to Main Content

چچا حیرت کا حلوا

محمد ادریس قریشی
۔۔۔۔۔

چچا حیرت چلتے چلتے اچانک رک گئے۔ عیدا اور شیدا ان کے ساتھ بری طرح ٹکرائے:”اے ہے، حیرت یار، ایک دم بریک لگا دیتے ہو، اشارہ بھی نہیں دیتے۔“ شیدا بولا۔
چچا حیرت فوراً بولے:”حیرت ہے کمال ہے، میں اچھا بھلا انسان ہوں، تقریباً کوئی موٹر سائیکل تھوڑی ہوں جو اشارہ دوں گا۔“
عیدے نے کہا:”اب چلو بھی رک کیوں گئے ہو؟“
”ارے بھئی!وہ دیکھو کتنے موٹے اور صحت مند انڈے پڑے ہوئے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں نصف درجن انڈے خرید لیے جائیں اور گھر جا کر ان کا حلوا بنا کر کھایا جائے۔ مزہ آ جائے گا مزہ۔“
”لیکن پہلے اپنی جیب میں ہاتھ مارو، کوئی پیسا بھی ہے یا نہیں؟“ شیدا طنزیہ انداز میں بولا۔
”اور ہاں، ہاتھ زیادہ زور سے نہ مارنا، کوئی نوٹ زخمی نہ ہو جائے۔“ عیدا ہنسا۔
چچا حیرت دکان کے قریب گئے اوردکان دارسے مخاطب ہوئے:”ارے بھئی! تم نے یہ انڈے کیسے دیے ہیں؟“
دکان دار بوکھلا کربولا:”آئے ہائے، میری مجال کہ میں انڈے دے سکوں۔ انڈے تو برائلر مرغیوں نے دیے ہیں، میں تو انھیں بیچ رہا ہوں۔ ایک سو پینتیس روپے درجن۔“
”اچھا اچھا، فلسفی مت بنو، یوں کرو نصف درجن انڈے دے دو۔کیا زمانہ آ گیا ہے، ہمارے بچپن میں خالص دیسی انڈے چار آنے کے درجن مل جاتے تھے۔“چچا حیرت زور زورسے بڑ بڑائے۔
”ارے بھئی!اگر ایک درجن انڈے ہوں ایک سو پینتیس روپے کے، تو نصف درجن کتنے کے ہوئے؟“ عیدا بولا۔
”سو روپے کے نصف ہوئے پچاس!“چچا نے حساب لگایا:”اور پینتیس کے نصف بنے ساڑھے سترہ۔ اس طرح کل رقم ہو گئی، نہ جانے کتنی، ارے کوئی بھاگ کر کیلکولیٹر لائیو۔“
”کیلکولیٹر سے زیادہ آسان ہے کہ یہ صاحب ایک درجن ایک سو تیس کے لگائیں، تاکہ اس کا نصف کرنے میں آسانی رہے۔“ چچا حیرت نے آنکھیں گھمائیں۔
”ارے بھئی!کاہے کو اتنے چکروں میں پڑے ہو۔ حساب ایک سو تیس روپیا، پینسٹھ روپے عنایت کر دیجیے“ دکاندار ہنسا۔
انڈے لے کر وہ آگے کی طرف چل پڑے۔ عیدے نے کہا:”حیرت یار! کیا حلوا بنانے کا باقی سامان گھر میں موجود ہے؟“
”ہاں ہاں۔۔۔ حیرت ہے کمال ہے، کیوں نہیں، تم بے فکر ہو جاؤ۔ گھر میں ماچس، پلیٹ، چمچ، کڑاہی سب کچھ موجود ہے۔“ وہ بولے۔
”جی ہاں، ماچس، پلیٹ اور چمچ سے حلوا کیا خوب مزے دار تیار ہوگا۔“ شیدا کھل کر ہنسا۔
گھر پہنچ کر عیدا اور شیدا بیٹھک میں بیٹھ گئے۔چچا حیرت اندر گئے اور فوراً ہی واپس آ گئے:”لو بھئی عیدے اور شیدے! بیگم کوتو اپنے کسی قریبی عزیز کے ہاں جانا پڑ گیا ہے اچانک، اب حلوا ہم تینوں کو ہی بنانا پڑے گا، مل جل کر۔“
”کیوں، تینوں کو کیوں؟ تم اکیلے ہی بناؤ، ہم تو بیٹھک میں بیٹھے رہیں گے۔ ہمیں حلوا بنانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ہاں کھانے کا پرانا تجربہ ہے۔“ عیدا زور سے بولا۔
”ہٹ، کام چور اور نکمے کہیں کے۔ چلو کوئی بات نہیں، میں خود ہی بنا کر لاتا ہوں اور ابھی۔“
چچا اندر جا گھسے اور انڈے ایک بڑے برتن میں پھینٹ کر رکھ دیے۔ اب انھوں نے کڑاہی میں تھوڑا سا گھی اورسوجی ڈال دی اور اسے بھوننے لگے۔”حیرت ہے،میں نے پچھلے سال تو حلوا ایسے ہی بنایا تھا، بیگم بھی ایسے ہی بناتی ہیں۔ پہلے سوجی کو بھوننا پڑتا ہے،جب گھی اوپر آ جائے تو چینی کا شیرا ڈال دو اور بعد میں پھینٹے ہوئے انڈے۔“
دوسرے چولھے پر انھوں نے کافی مقدار میں چینی پانی میں ڈال کر شیرا بننے کے لیے رکھ دی۔ اچانک باہر سے دروازے پر دستک ہوئی۔وہ باہر گئے تو دروازے پر دودھ والا کھڑا تھا:”بابو جی! آج تو پیسے لے کر ہی جاؤں گا، ورنہ دودھ نہیں دوں گا۔“
”ارے کم بخت! تمھاری بھابی کہیں گئی ہیں، پیسے ان کے پاس ہیں۔ لہٰذا کل لے لینا، دودھ نہیں دو گے تو ہم حلوے کے بعد چائے کیسے پئیں گے؟“چچا بولے۔
”جی ہاں، کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑا ہی رہتا ہے۔ چلیں دودھ لے لیں، کل سے آگے نہیں جانے دوں گا۔“ وہ بولا۔
دودھ لے کر چچا اندر آئے تو کچھ جلنے کی بو آئی”او میرے خدا، سوجی تو کافی جل چکی ہے۔“
انھوں نے جلدی جلدی جلی ہوئی سوجی میں شیرا ڈال دیا اور پانی خشک ہونے سے پہلے ہی انڈے بھی ڈال دیے۔ اب ایک عجیب سی چیز تیار ہو گئی۔ چچا نے ایک بڑی پلیٹ میں اسے نکالا۔ ایک چمچ سے چکھا تو ان کی آنکھیں باہر نکل آئیں ”ارے عیدا اور شیدا تو میرا مذاق اڑائیں گے۔“ وہ بڑبڑائے”لیکن ان کم بختوں کو، کون سا حلوا بنانا آتا ہے حیرت ہے جو میرا مذاق اڑائیں گے۔ یہ مفت خورے ہیں جیسا بھی ہے کھا لیں گے۔“
اُدھر ایک بچہ دروازے پر پلیٹ ہاتھوں میں پکڑے نمو دار ہوا۔پلیٹ میں ایک پھول دار کپڑا ڈالا ہوا تھا۔”یہ امی جان نے حلوا بھیجا ہے۔“
عیدے نے بھاگ کر پلیٹ پکڑ لی۔ اس پر سے کپڑا اٹھایا تو گرم گرم حلوے کو دیکھ کر وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ عیدا اور شیدا دونوں ہاتھوں سے حلوے پر ٹوٹ پڑے۔ اسی وقت اندر سے چچا حیرت سڑاہوا حلوا لے کر برآمد ہوئے۔ انھوں نے اپنا خود ساختہ حلوا ایک طرف رکھا اور جلدی جلدی مفت کا حلوا کھانے لگے۔ وہ مسلسل بڑ بڑا رہے تھے:”حیرت ہے، کمال ہے یہ تو بہت مزے کا ہے۔ یقینا ان کے ہاں گوالا سوجی بھوننے کے وقت میں نہیں آیا ہوگا۔“

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top