سنہری ناشپاتیاں
برطانیہ کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
کسی گاؤں میں ایک بوڑھے کسان نے اپنے گھر کے صحن میں ناشپاتی کا درخت لگا رکھا تھا۔ جس پہ اتنی میٹھی اور رسیلی ناشپاتیاں لگتی تھیں کہ جوکھا تا بس ہونٹ چاٹتارہ جاتا اور رنگ تو ان کا ایسا سنہرا تھا جیسے سونا۔کسان کو یقین تھا کہ اتنی عمد ہ ناشپاتیاں اور کہیں نہ لگتی ہوں گی۔ کسان کے تین بیٹے بھی تھے۔ ایک روز وہ سب اپنے صحن میں بیٹھے ناشپاتیاں کھارہے تھے تو بڑا بیٹا ایک دم کہہ اٹھا کہ ”ایسی ناشپاتیاں تو بادشاہ کو بھی نصیب نہ ہوں گی۔“
اسکی بات سن کر کسان کو خیال آیا کہ یہ ناشپاتیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنی چاہئیں۔ اس نے یہ بات لڑکوں سے کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ بڑالڑ کا کہنے لگا کہ”میں یہ تحفہ لے کر در بار میں جاؤں گا۔ کیونکہ یہ تجویز میری ہے۔“
”ہاں بھئی تم ہی جانا۔“ باپ نے کہا۔
اگلے دن بڑے لڑکے نے اچھے اچھے کپڑے پہنے۔ اسکی ماں نے ایک بڑی سی ٹوکری میں ناشپاتیاں رکھیں اور ایک خوبصورت سر پوش سے ڈھک کر بیٹے کے حوالے کر دیا۔ لڑ کا خوش خوش محل کی طرف جارہا تھا۔ راستے میں ایک کھیت آیا۔ کھیت میں ایک بہت بوڑھی عورت کا م کر رہی تھی۔ لڑکے کو دیکھ کر اس نے بمشکل اپنی جھکی کمر سیدھی کی۔ بغوراسکی طرف دیکھا اور تیز آواز میں کہنے لگی۔
”لڑ کے کہاں جارہے ہو اور تمہاری ٹوکری میں کیا ہے؟“
لڑکے کو بڑھیا سے خوف معلوم ہوا اور اسے یہ بھی لگا کہ میں نے اگر اسے بتادیا کہ میری ٹوکری میں کیا ہے تو کہیں مانگنے ہی نہ لگے۔لہٰذاوہ جلدی سے بولا۔ ”کچھ بھی تو نہیں۔“
”اچھاد یکھنے میں تو بہت بھاری معلوم ہورہی ہے۔“ بڑھیا نے کہا۔
”دیکھو بڑی بی! اس میں خاک دھول ہو یامٹی۔ تم سے مطلب؟“
لڑ کے کا تیکھالہجہ دیکھ کر بوڑھی عورت کچھ دیرا سے گھورتی رہی اور پھر یہ کہہ کراپنے کام میں مصروف ہوگئی کہ ”ٹھیک ہے۔ دھول مٹی ہو یا خاک۔ مجھے کیا؟“
لڑ کا اپنے راستے چل دیا۔ جب وہ بادشاہ کے محل کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ محل کے باہر پہریدار پہرہ دے رہے ہیں۔ ان کی خوبصورت وردی اور محل کی شان و شوکت دیکھ کرلڑ کا حیران رہ گیا۔ ایک پہر یدار نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ لڑکے نے بتایا کہ وہ بہت دور سے بادشاہ سلامت کے لئے تحفہ لے کر آیا ہے۔ یہ اطلاع بادشاہ کو پہنچائی گئی تو بادشاہ نے اسے اندر بلالیا۔ محل کو اندر سے دیکھ کرتولڑ کے کے ہوش جاتے رہے۔ بہر حال اس نے خود کو سنبھالا۔ جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور پھر ٹوکری اس کے سامنے رکھ کر ادب سے بولا۔
”بادشاہ سلامت! میں بہت دور سے آیا ہوں۔ ہمارے آنگن میں ناشپاتی کا ایک درخت ہے۔ میرے بابا نے بہت محنت سے اسے پروان چڑ ھایا ہے۔ اس پہ ایسی عمد ہ او رنفیس ناشپاتیاں لگتی ہیں جو شاید روئے زمین پہ اور کہیں نہ ہوں۔ میرے بابا نے یہ پھل آپ کے لئے بہت محبت سے بھجوایا ہے۔“
”بہت خوب!“بادشاہ نے مسکرا کر کہا۔”یہ پھل تو ویسے بھی ہمیں بہت پسند ہے۔“
پھر بادشاہ نے ایک خادم کو اشارہ کیا تو اس نے آگے بڑھ کر ٹوکری سے سر پوش ہٹا دیا۔ہیں یہ کیا؟ بادشاہ کا منہ غصے سے سرخ ہو گیا کیونکہ ٹوکری میں تو مٹی پڑی تھی۔
”اس بدتمیز لڑ کے کو کال کوٹھری میں پھینک دیا جائے۔ اسے ہم سے مذاق کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟“بادشاہ غصے سے چلایا۔
کئی دن تک جب بڑالڑ کا گھر واپس نہ پہنچا تو کسان نے ایک دوسری ناشپاتیوں کی ٹوکری تیار کی اور منجھلے لڑکے کومحل کی طرف بھیج دیا تا کہ بادشاہ کو یہ بھی مل جائے اور بڑے بیٹے کا بھی کچھ اتہ پتہ چلے۔ اب منجھلے کوبھی راستے میں وہی بڑھیا ملی اور اسکی پوچھ پڑتال پہ ا سے اتنا غصہ آیا کہ وہ چلا کر کہنے لگا۔
”پڑی بی!ٹوکری میں بکریوں کا چارہ ہے۔ کھاؤ گی کیا؟“
بڑھیا قدرے مسکرائی اور اپنے کام میں لگ گئی۔ دوسرے لڑکے کو دیکھ کر پہر یدار کچھ پریشان تو ہوئے پر اند را اطلاع کر دی گئی۔ بادشاہ نے یہ سوچ کر لڑ کے کواندر بلا لیا کہ ہر کوئی تو بادشاہ سے مذاق کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔ دوسرے لڑکے نے بھی اپنی ناشپاتیوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ پر جب نوکری سے سر پوش ہٹایا گیا تو وہاں بکریوں کا چار رکھا تھا۔ بادشاہ جھلا گیا اور اس نے لڑ کے کی صفائیاں سنیں نہ چیخ و پکار اورا سے کال کوٹھری میں پھنکوادیا۔
دونوں بھائی گھر نہ لوٹے تو سب سے چھوٹے بیٹے نے محل جانے کی ضد کی۔ ماں باپ کا دل تو نہیں مانتا تھا پر بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر اسے بھیج دیا گیا۔ راستے میں اسکی ملاقات اسی بڑھیا سے ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی بڑھیا مسکرائی اور بولی۔”آئیے آئیے۔ یقینا آپ کی ٹوکری میں مٹی ہے یا چارہ۔“
لڑکے نے بڑی بی کو ادب سے سلام کیا اور پھر کہا۔ ”نہیں بڑی اماں! اس ٹوکری میں ناشپاتیاں ہیں جو میرے بابا نے بادشاہ سلامت کے لئے بطور تحفہ بھیجی ہیں اور ساتھ ہی مجھے اپنے بھائیوں کا بھی پتہ چلانا ہے جو کئی دن پہلے محل کی طرف گئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔“
”اچھا!تو تمہاری ٹوکری میں ناشپاتیاں ہیں؟“
”ہاں ماں جی! اور یہ اتنی رسیلی ہیں کہ کھاؤ تو بس کھاتے چلے جاؤ اور رنگ تو ایسا سنہرا ہے جیسے سونے کی بنی ہوں۔ یہ سچ مچ بادشاہوں کے کھانے کے لائق ہیں۔ ٹھہریئے! میں دو چارآ پ کے لئے بھی نکال دیتا ہوں۔“
”نہیں نہیں بیٹا!تمہارا بہت شکر یہ۔تم ایسی انمول سونے جیسی ناشپاتیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کرو۔ مجھے یقین ہے کہ بادشاہ کو یہ تحفہ بہت پسند آئے گا۔“ بڑھیا نے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
چھوٹالڑ کا بھی محل تک پہنچ گیا۔ ابھی وہ محل کی شان و شوکت دیکھ ہی رہا تھا کہ پہر ے داروں میں کھلبلی مچ گئی۔
”ارے دوڑو بھاگو۔ بیچ کے جانے نہ پائے۔ پھر کوئی گنوارٹوکری اٹھائے چلا آرہا ہے۔ بس بادشاہ سلامت کو اطلاع کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ پکڑوا سے کال کوٹھری کی طرف لے چلو۔“ اب لڑ کا چیخ رہا ہے۔”میں بادشاہ سلامت کے لئے تحفہ لایا ہوں۔ ایسی شاندار اور رسیلی ناشپا……“اور پہرے دار چلارہے ہیں۔ ٹھہرو تمہیں مزہ چکھاتے ہیں۔ کوئی مٹی لئے چلا آ رہا ہے، کوئی چارہ اور کہتے ہیں کہ……“
ادھر یہ ہنگامہ مچاتھا۔ اتفاق سے شہزادی کا گزر ہو گیا۔ اسے اپنے پہر یداروں کی بدتمیزی پر سخت غصہ آیا کہ کسی سیدھے سادے دیہاتی سے ایسے سلوک کا کیا مطلب؟ اس نے لڑکے کاہاتھ پکڑا اور خودا سے دربار میں لے گئی۔
ناشپاتیوں کا ذکر سن کر بادشاہ کا چہرہ تن گیا۔ آنکھیں سرخ ہوگئیں مگرشہزادی کی وجہ سے وہ خاموش رہا۔ شہزادی نے لڑکے کے ہاتھ سے ٹوکری لے کر بادشاہ کے سامنے رکھی اور سر پوش اٹھادیا۔ سب اہل در بار دنگ رہ گئے۔ ٹوکری میں سنہرے رنگ کی جھلملاتی نا شپاتیاں سچ مچ سونے کی تھیں۔ اتناعمد ہ تحفہ پا کر بادشاہ سلامت بے حد خوش ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف لڑ کے کو خلعت اور انعام واکرام سے نوازا بلکہ اس کے بھائیوں کو بھی رہا کر دیا۔