بے نام
سید آصف جاوید نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ “Jeff Rennickeکے مضمون”Fire & Ice”کا اردو ترجمہ ہے۔
جسے اپنے انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاسکاکے ماہی گیر کافی پینے کا وقفہ(coffee break)کر رہے تھے جب قیامت خیز لمحات نے انہیں آگھیرا….
ایک ہولناک دیو قامت سمندری لہر گلیکسی(Glaxy)سے ٹکرائی اور پوری گلیکسی جھول گئی…. اور اس کا ڈیک30ڈگری تک پانی میں غوطہ لگاتا چلا گیا۔
”میں شرطیہ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کسی سے کچھ پلیٹس ضرور گری ہیں۔“
کیپٹن ڈیوشو میکر(Dave Showmaker)بڑ بڑایا…. تصورات میں اپنے عملہ (Crew)کو لنچ میں مصروف دیکھتے ہوئے اس نے جہاز کے کچن کی طرف قدم بڑھائے…. اور زیر لب مسکرایا…. وھیل ہاؤس میں تنہائی کی زندگی، اور ادھر چار بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی مہینوں تک اپنی فیملی سے دور رہنا یقینا کافی صبر آزما تھا۔ اور اب خراب موسم اور اس کی وجہ سے مچھلیاں پکڑے جانے کی سست رفتار نے ایک ایک پل صدیوں کی مانند طویل کردیا تھا…. کبھی نہ ختم ہونے والا….
گزشتہ تین دن سے موسم مزید خراب ہوگیا تھا۔ 50ناٹیکل میل کی رفتار سے شمال مشرق کی سمت سے چلنے والی تیز ہوائیں سمندر میں بہت بلند لہروں کے پیدا ہونے کا سبب بن رہی تھیں…. مکان جیسی بلند خطرناک بے رحم موجیں جو 180فٹ طویل جہاز کو بھی تنکے کی طرح اچھالنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ جہاز کے عملے کے 25افراد 20اکتوبر2002ءسے اپنی مہم میں مصروف تھے اور انہیں امید تھی کہ وہ1.3ملین پاؤنڈز مالیت کی مچھلی پانچ ہفتے سے پہلے پہلے پکڑ کر پورٹ پر واپس جانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ عملے کے افراد 11میل لمبی جال کی پٹی کھلے سمندر میں اسی مقصد کے حصول کے لیے بچھا چکے تھے جس میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے 20ہزار چارہ لگے ہوئے ہک لگائے گئے تھے۔ اور اب طفیانی سے مچلتے ہوئے سمندر میں انہیں اس جال کو دوسرے سرے تک کھینچنا تھا تاکہ مچھلیوں کو جال سے الگ کرسکیں۔ کیپٹن شو میکر نے جیسے ہی اپنے عملہ کو “Mugup”کہا…. اس کی نگاہ اٹھتے ہوئے دھویں پر پڑی!
این ویک بیک(Ann Weckback)جہاز کی نچلی منزل میں کچن میں بیٹھی کچھ دفتری کام میں مصروف تھی۔ وہ اس جہاز پر موجود واحد خاتون ملازم تھی۔ اور وہ بحیثیت نیشنل میرین فشریز سروس آبزور خدمات سر انکام دے رہی تھی جو کہ اس کی پہلی ملازمت تھی۔24سالہ این بڑی دلجمعی اور دلچسپی سے مچھلیاں پکڑنے کے عمل کا مشاہدہ کرتی۔ جہاز کی مشکل زندگی اور تنگ اور چھوٹے سے کمرے میں دو درجن اجنبی مردوں کے درمیان رہ کر کام کرنا کوئی بھی خاتون پسند نہیں کرتی لیکن الاسکا دیکھنا اس کی دیرینہ خواہش تھی اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ یہ سب بخوشی برداشت کررہی تھی۔
جہاز کے ڈیک سے قریب ہی رین ریڈ نیوہال(Rayn Red Newhall)اپنے ربر ساختہ جوتوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے بیٹھا۔ اپنی ملازمت کے چھ سالہ دور میں اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ لمحات کس قدر قیمتی ہوتے ہیں جو مچھلیاں پکڑنے کے مشکل ترین مرحلے اور سیزن کے دوران آرام کے لیے میسر آسکیں۔ ساڑھے سولہ گھنٹے کے پرمشقت کام کے دوران اسے آرام سے بیٹھ کر برگر کھانے کا موقع مل سکا تھا، برگر کا پہلا نوالہ(Bite)ابھی وہ لینے ہی والا تھا جب جہاز کے سائرن بج اٹھے….
نیو ہال جو کہ جہاز پر موجود آگ بجھانے کے لیے مخصوص عملے کا سربراہ تھا، سائرن کی آواز سنتے ہی برگر پھینکتے ہوئے اس سمت لپکا جہاں سے خطرے کا سگنل مل رہا تھا۔ ڈیک اس کے عین پیچھے تھا اور باورچی بھی….
دھویں کا سیاہ غبار چھت کو چھو رہا تھا…. اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کوئی گڑ بڑ ہے…. آزمائش کی گھڑیاں آنے کو ہیں۔
ویک بیک جسے جہاز میں آئے محض ایک ہی ہفتہ ہوا تھا۔ لیکن وہ حفاظتی اقدامات کے متعلق کافی کچھ جانتی تھی…. وہ تیزی سے وھیل ہاؤس پہنچی کہ ممکن ہے وہ بھی کسی کام آسکے۔
نیوہال اس نتیجے پر پہنچا کہ دھواں فرشی دروازے سے نکل رہا ہے….
”آگ ضرور انجن روم میں لگی ہے“ وہ چلاتے ہوئے بولا۔ اسے ایسے محسوس ہوا جیسے سمندر آگ اگل رہا ہو۔
شومیکر نے کچھ آوازیں سنیں جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ جہاز کے کچن میں آگ بھڑک اٹھی ہے، پھر کسی کے چلانے کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
”لوگو…. جو بھی جہاز پر سوار ہے…. جلدی آؤ…. جلدی کرو….“53سالہ ویت نامی بوڑھا سلوتری (جانوروں کا ڈاکٹر) ترجیحی بنیادوں پر پکار رہا تھا۔
کیپٹن شومیکر حالات سے باخبر ہوچکا تھا اور اس نے حکم دیا…. پانی میں موجود لوگ پہلے آئیں، لائف بوٹس، جنگلے، لائف رنگز…. اور ہر وہ چیز جو پانی پر تیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے…. لائی جائے…. پر وہ جہاز کے کنٹرول روم(Pilot House)کی طرف لپکا اور جہاز کی رفتار کم کرنے کی غرض سے اسے گئیر سے نکالا۔
سمندر میں زندگی اور موت کے خطرے سے دو چار لوگوں کی جان بچانے کے لیے اس کی اگلی ترجیح مدد کے لیے سگنل دینا تھا چنانچہ وہ اپنے منہ کو ڈھانپتے ہوئے سیاہ دھویں کی لہروں کے غبار میں گھس گیا…. وھیل ہاؤس میں گہرا سیاہ دھواں پھیل چکا تھا اور غیر معمولی سناٹا چھا چکا تھا…. نہ تو الارم بج رہا تھا اور نہ ہی فون کام کے قابل تھا…. یہ بات یقینی تھی کہ آگ کی تپش سے برقیاتی وائرنگ پگھل چکی تھی۔ اسے دیواروں سے شدید تپش نکلتی محسوص ہوئی اور پھر بھڑکتے ہوئے شعلے اس کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ پلاسٹک جلنے سے پیدا ہونے والی تیز بو اس کے پھیپھڑوں میں جا گھسی جبکہ چارٹ ٹیبل کے پیچھے بلک ہیڈ جلنے سے سرخی مائل چمک رہا تھا۔
شومیکر راستے کی الماریوں کی سمت بڑھا اور ریڈیو تلاش کر کے چلایا!
”مئی ڈے…. مئی ڈے…. مئی ڈے(May day! May day! May day)“پھر اس نے اپنی قوت جس کی جوڑ سے ایمرجنسی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی۔ اپنے آپ کو پرسکون کرتے ہوئے اس نے دوبارہ کوشش کی اور ساتھ ہی سوچا کہ ہوسکتا ہے مجھے پیغام دینے کا ایک ہی موقع مل سکے ۔لہٰذا پیغام نہایت واضح ہونا چاہئے:
”یہ ماہی گیروں کا جہاز گلیکسی ہے…. آگ بھڑک اٹھنے سے ہمیں خطرے کا سامنا ہے اور میرے لوگ پانی میںہیں اور وہ….“
کیپٹن شو میکر کی نگاہ ریڈیو کے تار پر پڑی جو ناکارہ ہوکر ہوامیں لہرا رہا تھا۔ لٹکتی ہوئی تارمیں آگ لگی ہوئی تھی…. شاید اس کا ایک لفظ بھی کوئی نہ سن سکا ہے۔ وھیل ہاؤس میں لگی آگ سے اٹھنے والا دھواں شدید ہوتا جارہا تھا اورسانس لینا بھی دشوار تھا…. شو میکر گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور ہوگیا اور الٹیاں کرنے لگا…. پھر اس نے قوت مجتمع کرتے ہوئے کھڑکی کی طرف قدم بڑھائے کہ اسے ایک ساتھی پانی میں تیرتا دکھائی دیا جو یقینی طور پر زخمی تھا جس کی وجہ سے تیرنے میں دقت پیش آرہی تھی…. کیپٹن شو میکر کو اندازہ ہوگیا کہ وہ زخمی حالت میں یخ ٹھنڈے پانی میں سمندر کی تندو تیز موجوں کا مقابلہ زیادہ دیر نہ کرسکے گا….
پھر اچانک اسے اس VHFریڈیو کا خیال آیا جو اس کے ذاتی استعمال کے کمرے میں دوبارہ چارج(Re-Charge)کے لیے لگائے گئے تھے…. یہ خیال آتے ہی وہ ایک بار پھر دھویں کی طرف مڑا…. تمام سطح شدید گرم ہوچکی تھی…. اس نے دھکے سے دروازہ کھولا…. دروازہ کھلتے ہی آگ کا ایک شدید گرم جھونکا جلتے ہوئے کمرے سے نکلا اور سامنے دیوار کے ساتھ جاٹکرایا…. شو میکر کی پینٹ اور شرٹ میں بھی آگ لگ گئی، اس نے جیسے ہی لباس کواتار پھینکا ساتھ ہی اس کی جلد کے ٹکڑے بھی کیبن کی دیوار کے ساتھ چیک کر رہ گئے…. گوشت جلنے کی بو اس نے خود بھی محسوس کی….
ان حالات میں آخری امید دستی ریڈیوز کا وہ جوڑا تھا جو کہ فرشی دروازے کے ساتھ لٹک رہا تھا جو کہ کسی بھی مشکل ترین اور ناخوشگوار واقعے کے رونما ہونے پر کام میں لانے کی غرض سے رکھے گئے تھے…. اور وہ لمحات پہنچ چکے تھے۔ شو میکر نے اپنی (ہاتھ کی) انگلیاں جلتے ہوئے بلک ہیڈ میں ڈالیں اور خوش قسمتی سے ریڈیوز کو درست حالت میں پایا۔ خود کو کھڑکی سے باہر کی طرف نکالتے ہوئے اس نے بولنے کے قابل ہوا لی اور ریڈیو کی فریکوئنسی ایڈجسٹ کرنے کے لیے سوئی مائک پر گھمائی….
16:40pmوقت تھا جب سینٹ پال جزیرے پر موجود کوسٹ گارڈ اسٹیشن نے اس کی کال موصول کی۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ایکHH-60 Jayhawkہیلی کاپٹر ان کی طرف مدد کے لیے روانہ ہوا، جبکہ17:30بجے ایکHC-130سرح طیارہ Kodiakکوڈیک نے بھی پرواز کی۔ سمندر میں موجود تین فشنگ بوٹس نے بھی ایمرجنسی کال سن کر اس سمت بڑھنا شروع کیا…. لیکن اس بات کی قطعی امید نہ تھی کہ کوئی بروقت مدد کیلئے پہنچ سکے۔
گہرے سمندر میں کام کرنے والا دیگرریفریجریٹر جہازوں کی طرح گلیکسی کا وھیل ہاؤس بھی بلندی پر واقع تھا اور خاصا مضبوط تھا۔ ورک اسٹیشن اور عملے کے کمرے اوپری منزل پر جبکہ انجن روم نچلی منزل پر تھا۔ جب آگ بھڑکی تو عملہ وہاں سے اوپری منزل کی طرف بھاگا، لیکن آگ کی وجہ سے ان کا رابطہ منقطع ہوگیا اور جہاز کے اگلے سرے تک رسائی ممکن نہ رہی۔
آگ کی تپش اس قدر شدیدتھی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ ہوا بھر کے استعمال میں لائی جانے والی لائف بوٹ جہاز کی دہکتی ہوئی سطح سے پگھل نہ جائے…. لہٰذا اسے کاٹ کر رنگ کردیا گیا۔ اس پر صرف15افراد کے سوار ہونے کی گنجائش تھی جبکہ دیگر لوگوں کے لیے جان بچانے کی آخری امید وہ سوٹ تھے جو گہرے اورنج رنگ کے ربر چڑھے ہوئے کوٹ نام لباس(cover alls)_تھے جنہیں عام طور پر گمبیGumbiesکہا جاتا ہے۔
”ہمیں مزید سوٹ درکار ہیں“
کیپٹن شو میکر نے جہاز کے ڈیک پر موجود لوگوں کو پکارتے ہوئے کہا…. انہوں نے مزید سوٹ ایک رسی کے سرے سے باندھ کر اچھالے…. جیسے ہی رسی کو اوپر کھنچنے کی کوشش کی گئی، اس میں آگ لگ گئی اور وہ جلنے لگی۔ شو میکر نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور راستہ بناتا ہوا وھیل ہاؤس کی چھت کی طرف بڑھا۔ ڈیک سے25فٹ کی بلندی پر وہ کمال مہارت سے اپنے چہرے کو بازوﺅں کی مدد سے بچاتے ہوئے باڑ (جہاز کے کہڑے) تک جاپہنچا۔ لیکن دھات سے بنی باڑ جو کہ شدید گرم ہوچکی تھی…. اس کی پہلے سے جھلسی ہوئی انگلیاں جل گئیں اور وہ چیختا ہوا بلندی سے نیچے کی طرف گرا…. اس کے سینے سے ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز بہت واضح تھی….
جہاز کے sternپر ابھی تک نیو ہال اور این ویک بیک کہڑے کی باڑ کو تھامے ہوئے تھے، ایک طرف آگ تھی اور دوسری طرف برف کی طرح یخ ٹھنڈا پانی۔ انہوں نے لمحہ بہ لمحہ لائف بوٹ کو دور جاتے دیکھا…. اب انہیں کوئی ایک خطرہ مول لینا تھا…. آگیابرف کاسامنا۔ آگ سے ڈیک پگھلنا شروع ہوچکا تھا اور ان کے نیچے گڑھے نمودار ہونا شروع ہوچکے تھے…. ویک بیک نے محض فلالین کی پتلون اور شرٹ پہن رکھی تھی لیکن اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا کہ وہ سمندر کے یخ ٹھنڈے پانی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
آؤ Red!ہم جمپ کریں۔ ایک…. تین! ویک بیک نے تین کہنے سے پہلے دو پر ہی چھلانگ لگا دی تھی۔نیو ہال خیالوں میں اپنے گھر کا تصور کررہا تھا جو کہ Texasمیں تھا۔ پھر اس نے لائف رنگ لی اور باڑ پر پہنچا…. اس کے ڈیک سے چھلانگ لگانے کے بعد کیپٹن شو میکر جہاز کے اگلے حصہ کی طرف بڑھا…. اس طرح کہ اس کی نگاہیں مسلسل سمندر میں موجود عملے کی طرف تھیں…. نیو ہال اور سویک بیک لائف بوٹ کی سمت تیرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
اب جہاز پر صرف کیپٹن شو میکر اور عملے کے دو افراد رہ گئے تھے۔ کیپٹن شو میکر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”ہم اس وقت تک جہاز پر ٹھہریں گے جب تک ممکن ہوا“
پھر اس نے کہا کہ ہمیں تیرنے والے ساتھیوں پر نگاہیں رکھنا ہوں گی…. دیکھو کہیں وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں وگر نہ ان کی زندگی شدید خطرے سے دو چار ہوسکتی ہے…. لیکن بہت دیر تک ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ لمحہ بہ لمحہ دن کی روشنی مدھم پڑتی جارہی تھی…. کیپٹن شو میکر اور اس کے دونوں ساتھی کھڑے ہوکر دعا کرنے لگے۔
پھر جہازوں کی سرچ لائٹس نے تاریکی کو چیرا۔ تین جہازThe Blue Pacific،The cliper expressاورThe Glacier Bayجو کہ مچھلیاں پکڑ رہے تھے “May day”کی پکار سننے کے بعد طوفانی موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سمت لپکے تھے جس سمت سے مدد کے لیے پکارا گیا تھا۔جیسے ہی امدادی جہاز قریب پہنچے، کیپٹن شو میکر باڑ کی بلندی پر چڑھتے ہوئے دونوں ہاتھ ہوا میں مخصوص انداز میں لہرا کر جہازوں کو سگنل دینے لگا کہ پہلے ان لوگوں کی جان بچائیں جو برف جیسے سرد پانی میں موت کی آغوش میںہیں…. گو کہ آگ کے شعلے اس کے سرپر پہنچ چکے تھے۔
جب کیپٹن شو میکر نے محسوص کیا کہ آگ کی تپش ناقابل برداشت ہوگئی ہے تو اس نے اپنے دو ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”ہمیں ایک وقت میں ایک ہی آدمی کو جہاز کے اگلے سرے پر جانا چاہئے، جب ایک آدمی کو امدادی ٹیم اٹھالے تب دوسر آدمی جمپ کرے…. اس سے پہلے ہرگز نہیں۔اگر ایک ساتھ زیادہ لوگ پانی میں ہوں گے تو ان میں سے کوئی نظروں سے اوجھل ہوسکتا ہے۔ہمیں جہاز کے اس رخ پر جانا ہے جہاں سے لہریں ہمیں ہوا کے رخ پر بہا کر لے جائیں۔ اس طرح تیرتا ہوا آدمی قدرے آسانی کے ساتھ بچایا جاسکتا ہے۔“
اس کے دونوں ساتھیوں نے سر ہلاتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس کی بات سمجھ گئے ہیں۔ انہیں علم تھا کہ کھلے سفاک سمندر میں تیرتی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کا آسان طریقہ کیا ہے۔
سمندر کے برفانی پانی کا مقابلہ ویک بیک زیادہ دیر نہ کرسکی اور اسے اپنا تمام بدن برف کی طرف ٹھنڈا محسوص ہونے لگا…. اس کا رنگ لمحہ بہ لمحہ نیلا پڑتا جارہا تھا۔ نیو ہال نے لائف رنگ ویک بیک کے گرد لپیٹی اور اسے گرمائش پہنچانے کی غرض سے اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا۔ لیکن سردی اس کے جسم میں سرایت کرتی جارہی تھی…. 20فٹ بلند لہریں انہیں بار بار اچھال رہی تھیں ۔وہ کبھی ڈوبتے تو کبھی پھر تیر جاتے۔ اسی اثناءمیں انہوں نے ایک جہاز کی پہلی سوڈیم لائٹس دیکھیں جو اسی سمت بڑھتا چلا آرہا تھا جس سمت وہ موت سے جنگ لڑ رہے تھے۔نیو ہال نے لائٹس دیکھیں تو ویک بیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”دس منٹ بعد ہم اس جہاز پر ہوں گے…. پھر تم میرے لیے کافی کا کپ لانا…. نیو ہال ہنسنے لگا….“
جہاز آیا اور ان کے پاس سے گزر گیا…. پھر ایک اور پھر اس کے بعد ایک اور…. اورپھر کوسٹ گارڈ کا ایک چوپر آیا…. لیکن کسی نے انہیں نہیں دیکھا اورسب یکے بعد دیگرے ان کے پاس سے گزرتے چلے گئے…. اس وقت ویک بیک کو اپنے حواس پر قابو رکھنا بہت دشوار ہوگیا تھا۔
کوسٹ گارڈز کا ہلی کاپٹر وہاں پہنچ چکا تھا اور جہاز کے لوگوں کو اٹھانے کے لیے کوشش کررہا تھا جو سمندر کی بے رحم موجوں سے نبرد آزما تھے۔…. ہیلی کاپٹر سے ایک باسکٹ کے ذریعے انہیں اٹھانے کی بہترین کوشش تھی جب جہاز سے ایک خطرناک شعلہ بھڑکا چنانچہ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے ڈیک سے لوگوں کو نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور بلند ہوگیا۔ اب مزید وقت ڈیک پرموجود رہنا کیپٹن شومیکر اور اس کے دو ساتھی جو کہ اس کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے تھے۔ ان کے لیے بہت مشکل ہوگیا۔ لہٰذامجبوراً انہیں چھلانگ لگانا پڑی۔
پیٹی آفیسر جیسن کوئن(Jason Quin)جو ڈوبتے لوگوں کی زندگی بچانے کی جستجو میں تھا کسی مداری کی طرح تار کے ذریعے لٹکا ہوا جہاز کے اگلے سرے پر موجود لوگوں کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔
”جمپ کرو اور جہاز سے دور رہ کر تیرو۔“
لہٰذا کیپٹن شو میکر اور اس کے ساتھیوں نے ایک ایک کر کے چھلانگ لگائی اور مددگار تیراک جیسن کوئن نے انہیں باری باری پکڑا اور اوپر کھنچ کر ان کی جان بچائی۔ آگ سے شدید جھلس جانے اور تین پسلیاں ٹوٹ جانے کے باجود کیپٹن شو میکر جہاز سے کودنے والا آخری آدمی تھا جو تکلیف کی شدت سے کراہ رہا تھا۔
سمندر کے تیور مسلسل خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔ ویک بیک کو طوفانی سمندری لہروں کا مقابلہ کرتے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ برف جیسے سرد پانی نے اس کی ہڈیاں تک جمادی تھیں۔ شدید سردی کی وجہ سے وہHypothermic(سردی سے جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک کم ہوجانا) کا شکار ہوچکی تھی۔ جب معجزانہ طور پر clipper expressوالوں نے انہیں دیکھا اور انہیں سمندر سے نکالا۔
لائف رافٹ پر موجود 15ساتھی “Glacier Bay”پر جبکہ ایک ساتھی”Blue pacificپر محفوظ تھا۔ جبکہ عملے میں سے ایک ساتھی اور گلیکسی ہمیشہ کے لیے کھوگئے….
کیپٹن شومیکر، این ویک بیک اورنیو ہال زخموں اور hypothermic سے صحت یاب ہوگئے اور ان کا کامیابی سے ایک قریبی اسپتال میں علاج ہوا۔ ریڈنیو ہال واپس اپنے گھر ٹیکساس چلا گیا جبکہ این ویک بیک نے بحیثیت ابزرور ملازمت جاری رکھی اور الاسکا میں فرائض سر انجام دینے لگی…. کمال جرأت کا مظاہرہ کرنے والا کیپٹن شو میکرحوصلہ نہیں ہارا اور وہ صحت یاب ہونے کے بعد2004ءکے فشنگ سیزن میں شمالی سمندروں کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
٭….٭