skip to Main Content

روبوٹ

فہد خان

۔۔۔۔۔۔

رات تھی اور بے حد روشن رات۔بیجنگ اس وقت روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔
دور ہی سے جلتے بجھتے دعوت دیتے سائن بورڈز، سڑک کنارے لگے اشتہاری نیون سائنزاورجہازی سائز کی ڈیجیٹل اسکرینز نظر آتی تھیں!
نئے سال کے دنوں میں راتیں روشنی سے لبریز ہوتی ہیںاور بیجنگ تو ویسے ہی شہرِ نورہے۔نئے سال کے موقع پر پوری دنیا کی طرح یہاں بھی ہر عمارت ایک ایسی دلھن کی طرح لگ رہی تھی جس نے زری کا لباس پہنا ہو اور اس سے روشنی ٹکرا کر سب کی نظریں خیرہ کر رہی ہو۔ یہ سال تھا ڈریگنز کا سال۔ ایک بڑا سا ہولو گرام سے بنا ڈریگن کسی اصلی ڈریگن کی مانند پورے شہر میں محوِ پرواز تھا۔ کبھی وہ پل بھر اپنی پرواز روک کر ہوا میں معلق ہوتا اور اپنے حلق سے ڈھیر ساری آگ اگلنے لگتا۔
بچوں کے ساتھ بڑے بھی اس کو دیکھ کر اپنے دل کو گرم جوشی سے لبریز پاتے تھے۔
نئے سال کی تقریب کے پہلے دن ٹرپل آر سی (روبو ٹ کروبوٹس رپیئرنگ سینٹر)کے بڑے سے ہال میں بہت سارے روبوٹس کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کرسیاں ترتیب سے اِس طرح رکھی تھیں کہ اک دائرہ بناتی تھیں اور اُن کے عین درمیان میں اوپر ایک بڑا سالیمپ روشن تھا۔
وہ سب نمبر چار کو سن رہے تھے۔
نمبر چار….جذبات، احساسات اور قوتِ فیصلہ رکھنے والے اولین روبوٹس میں تھا اور اس ٹرپل آر سینٹر کا مالک و مختار تھا۔ وہ قدیم اور سب سے قابلِ اعتماد روبوٹ تھا۔وہ بیجنگ کے اِس روبوٹ رپیئرنگ سنٹر میں روبوٹس کی رپیئرنگ کرنے والا روبوٹ تھا۔اسی لیے اس کے’ذہن‘ میں سب نسلوں کے روبوٹس کی معلومات تھیں۔ وہ کسی قسم کی بھی خرابی بھانپتے ہوئے روبوٹس کے سافٹ ویئر میں حسبِ منشا تبدیلیاں کر سکتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بڑی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے پاس سب سے زیادہ ”یادیں“ موجود تھیں جن کو وہ اپنے دوستوں سے شیئر کرتا رہتا تھا۔
”پہلے راتوں کو آسمان پر تارے نکلا کرتے تھے۔“ اس نے ایک آہ بھر کر کہا۔
”تارے!…. وہ کیا ہوتے ہیں؟“ایک قدرے نئی جنریشن کے روبورٹ نے کہا۔
”ہاہاہا….“ نمبر چار کھوکھلی سی ہنسی ہنسا۔”تارے!!!…. بس یوں سمجھو کہ پہلے آسمان راتوں میںبھی سارا سال ایسے ہی روشن رہتا تھا جیسے یہ سامنے کھڑکی سے جگمگ کرتا ڈریگن نظر آرہا ہے۔“
اس نے سامنے ایک عمارت کی طرف اشارہ کیا۔اس وقت ڈریگن اس کثیرالمنزلہ عمارت کے چھجے پر سستا نے کے سے انداز سے بیٹھا تھا۔عمارت کے اندر بہت سارے خاندان کھانے کی میز سجائے اپنوں سے طویل عرصے بعد مل رہے تھے۔
”بہت سارے لاکھوں چھوٹے چھوٹے قمقمے سے ہوتے تھے جو بہت ہی خوبصور ت نظارہ پیش کرتے تھے۔“وہ مزید گویا ہوا۔
”واﺅ….“ایک نئے روبوٹ کے منہ سے نکلا ۔
کتنے ہی روبوٹس نے اسے مسکرا کر شفقت سے دیکھا۔
”مگر پھر فضا میں آلودگی کا تناسب اتنا بڑھتا گیا، اتنا بڑھتا گیا کہ جیسے اوزون کی بجائے آلودگی نے زمین کو اپنے غلاف میں ڈھک لیا ہو!….آہ اب اکیلا چاند آسمان پر کتنا بور ہوتا ہوگا۔“ نمبر چار نے دکھ سے کہا۔
”یہ اسی آلودگی کا نتیجہ ہے کہ ہر نئے سال نئے سال کے موقع پر ہمیں آٹورپیئرنگ اور صفائی کے لیے یہاں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وگرنہ پہلے برسوں تک اس کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اب تو بس سال میں ایک بار ایک دن اپنے ہاتھ سے کام کرکے انسان اپنے ضمیر کو تسلی دے لیتا ہے۔“نمبر چار نے کہا۔
”نمبر چار! تم ایسی چیزیں سوچتے رہے اور کسی دن تمھاراڈیٹا بیس دیکھ لیا گیاتو یہ ہماری نسل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔“ سیریز گیما کے الفا 230نے کہا۔”50برس قبل سپریم کورٹ نے اسی شرط پر ہمیں گھریلو کرنے کی اجازت دی تھی کہ ہماری کمپنیاں ہمارے اندر انسان کش سوچیں پیدا ہونے نہیں دیں گی، تمھیں پتا ہے، ہم اپنے مالک کے خلاف نہیں سوچ سکتے۔“
”مگر کیا ہم واقعی نہیں سوچ سکتے!“نمبر چار کی بجائے8811نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔”اور دوسری بات یہ کہ نمبر چار کی باتیں انسانیت کش نہیں انسان کے فائدے کے لیے ہیں۔ یہ زمین ہے تو انسان ہے۔ یہ زمین تباہ ہوگئی تو نظامِ شمسی میں ایسا تعطل آئے گا جو کائنات کو تباہ کرنے کا آغاز ثابت ہوگا۔“
”ہم اِس دنیا کو بچانا چاہتے ہیں،ہم دنیا کو بچائیں گے۔“ نمبر چار یقین سے بولا اور سب کے چہرے پر یقین کی مشینی لہردوڑ گئی ۔
اُن سب کو رینیو کرنے کے ساتھ ساتھ نمبر چار اِن سوچوں کو ان کے”دماغ“کے شعور سے لاشعور میں ڈالنا نہیں بھولا تھا۔ اگلے دن یہ سب روبوٹس اپنے اپنے”اہلِ خانہ“ کے ہمراہ واپس دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے تھے۔ اُن کے اہلِ خانہ یا جنھیں آپ مالک بھی کہہ سکتے ہیں، ساری دنیا سے نئے سال کی چھٹیاں منانے بیجنگ کا رخ کرتے تھے۔نمبر چار مطمئن تھا کہ وہ یہ سب سوچ سکتے تھے، مگر اُس کی بنیاد پر کچھ بول یا کچھ کر نہیں سکتے تھے۔اِن سب کو ”فوڈ فار تھاٹ“(سوچنے کے نئے زاویے) دے کر اُس نے انھیں ”میوٹ“ (خاموش) کر دیا تھا۔
اب ایک بار پھر اسے اگلے نئے سال کا انتظار کرنا تھا۔

….٭….

2121 ءکی اُس ٹھٹھرتی رات ، بیجنگ کی بلند و بالا دیوارِ چین جتنی پر اسرار عمارتوں کے نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ فلیٹوں میں لوگ اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ موجود تھے۔
گزرے پورے سال میں ہونے والے خاص خاص واقعات کھانے کی میز پر بتائے جا رہے تھے۔ بچے چھٹیوں میں ملنے والے تحفے لیے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
آج روبوٹس کی چھٹی تھی اور یہ ”اپنے ہاتھ اپنے کام “ کا دن تھا۔
دورنمبر چار کھڑکی سے باہر ایک سرو کے درخت کو تکتے ہوئے تاسف سے کہہ رہا تھا:
”انسان اپنی عیش پرستی کی بدولت ماحول کی رگوں میں زہر گھول رہا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پرہزاروںدرخت اکھاڑ لیے جاتے ہیں۔صرف ایک دن میں زمین کے چہرے پر لاکھوں جھریاں مزید پڑ جاتی ہیں۔“
سامنے بیٹھے روبوٹس کے مشینی چہروں پر سوچ کی پرچھائی گہری ہوتی جا رہی تھی۔
” کون کون میرے ساتھ اِس زمین کا ساتھ دے گا؟…. کون اسے دوبارہ ویسی ہی سرسبز و شاداب زمین بنائے گا جیسی یہ کبھی تھی۔ کون اِس انقلاب لانے میں میرا ساتھ دے گا؟!“
جوشِ جذبات سے اس کی مشینی آواز میں کھڑکھڑاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ اس کے منہ سے گراریاں سی چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس کے ہر جملے کو سامنے بیٹھا ہر روبوٹ اپنے مشینی دل کی گہرائیوں میں محسوس کر رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں کہ ہم اگر ناکام ہوگئے تو قوتِ فیصلہ کے مالک روبوٹس کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے گا، لیکن ہمیں یہ خطرہ مول لینا ہی ہے۔ کیوں کہ اگر یہ زمین نہ رہی تب بھی تو انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ختم ہو جانا ہے۔سو خود کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زمین کو بچایا جائے اور زمین کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے…. انسانیت کا خاتمہ!“
جذبات کی شدت سے سب کے چہرے تمتما رہے تھے اور روبوٹس کا درجہ حرارت نارمل کرنے کے لیے اندرونی پنکھے تیزی سے چل رہے تھے۔

….٭….

”نئے سال کی مبارک باد….یہ خرگوش کا سال ہے۔“
نمبر چار مسکراتے ہوئے دکھائی دیے۔اُن کے سامنے بیٹھا انٹرویور اب ناظرین سے مخاطب تھا۔
”آپ جانتے ہی ہیں کہ تقریب کی ابتدا ہو گئی ہے، تقریب کے اختتام پر ہر سال کی طرح آخری روزسبز انقلاب کا دن منایا جاتا ہے۔ سبز انقلاب کو آئے 100برس گزر گئے ہیں۔ اِس سال سبز انقلاب کی یاد میں ایک خصوصی انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔ سامعین! آج سے ایک سو سال قبل زمین پر انسانوں کی حکومت تھی۔ انسانوں نے زمین پر ظلم کیا اوراسے ایک دہکتا ہوا تندور بنا ڈالا۔“
اسکرین پر دکھائی دینے والا روبوٹ دورِ انسانی میں کھینچی گئی زمین کی تصویر اور اب کی تازہ تصویر دکھا رہا تھا۔
موجودہ زمین بے حد سرسبز و شاداب تھی۔
” اور پھر خدا نے قائدِ شادابی، ہمارے آج کے خصوصی مہمان” نمبر چار “کے دل میں ڈالا کہ وہ اس کی بنائی زمین بچا نے کی جدوجہد کریں۔ یہ دن دنیا کی تاریخ میں سرسبز و شاداب دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اُس دن سے یہ زمین امن کا گہوارہ بن گئی ہے۔ ناظرین! پر امن دنیا، آج سرسبز دنیا ہے۔آج زمین کا سبز زمردی وجود لہلہا کر اپنی سیرابی، شادابی اور اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ آئیے قائدِ شادابی سے اس بارے میں خصوصی گفتگو کرتے ہیں۔“
انٹرویو کرنے والا ”نمبر چار “سے سوالات کیے جا رہا تھا اور نمبر چار کا انٹرویوسن کردنیا بھر سے آئے تمام روبوٹ مکینکی انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top