skip to Main Content
اعزاز

اعزاز

محمد الیاس نواز

کردار:
سلطان صلاح الدین ایوبی،

سلطان نورالدین زنگی،
سلطان محمد خان فاتح،

شرکاءِ محفل

منظر

شیش محل کے دیوان خانے میں محفل جمی ہوئی ہے۔ خوبصورتی ہی خوبصورتی ہے۔عالی شان قالینوں پر دھیمی آواز میں باتیں کرتے لوگوں کا مجمع ہے۔جن کے لہجے گنگناہٹ کی طرح ہیں،بے حد سلیقے سے بیٹھے ہیں۔اچانک بہت ساری روشنی کی قندیلیں جلنے بجھنے لگتی ہیں۔پس پردہ کسی عجیب سے ساز کی آواز آنے لگتی ہے۔ساری محفل کھڑی ہو جاتی ہے۔ ناظرین کی تالیوں کی گونج….. ایک سنہرا تخت اوپر سے نیچے اترنے لگتا ہے جو آہستہ آہستہ مجمع کے درمیان میں اترآتا ہے۔سارا مجمع تخت کے گرد بیٹھ جاتا ہے۔
جبکہ تخت پرعالیشان پگڑیوں والے تین سلاطین زر ق برق لباس پہنے، گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ،جو اپنی ہر بات،ہرچیز میں باقی سارے مجمع سے بڑھ کرممتازتو ہیں مگر ان کے چہروں کی رونق دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔پھر ایسا لگتاہے کہ ان تخت نشینوں میں سے ایک سلطان کچھ کہنے لگتاہے ۔یہ محسوس کرتے ہی سارا مجمع خاموش ہو جاتاہے،روشنی اور ساز کی آوازرُک جاتی ہے ۔

 
سلطان نور الدین:( با رعب آواز میں)’’سلطان محمد!……آپ کے درجات بلند ہوں….. آپ کے خیال میں صلاح الدین(صلاح الدین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے)نے ہمارا سر فخر سے بلند نہیں کر دیا…؟‘‘

 
سلطان محمد:(ایک لمحے کی خاموشی کے بعد…پر وقار آواز میں)’’ سلطان نورالدین!……آپ کے بھی درجات بلند ہوں،آپ نے بجا فرمایا…یہ کارنامہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑا اعزازہے۔بیت المقدس کی آزادی کے لئے کوششوں کی بنیاد آپ کے والد ماجد سلطان عماد الدین زنگیؒ نے رکھی، پھرآپ نے اس عظیم مقصد کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو آگے بڑھایا۔اسی لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صلاح الدین کا یہ اعزاز آپ سے ہوتا ہوا آپ کے والد ماجد تک پہنچتا ہے۔‘‘
ناظرین انتہائی محو ہو کر ان کی گفتگو سن رہے ہیں۔

 
سلطان صلاح الدین:(خاموشی کے ساتھ سرجھکائے بیٹھے ہیں،جب سر اٹھاتے ہیں توچہرے سے سنجیدگی ظاہر ہورہی ہے….باادب اور دھیمے لہجے میں )’’سلطان محمد!اللہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے… آپ نے بالکل بجا فرمایا،بلکہ آپ نے ہماری ترجمانی فرمائی ہے ۔یہ سلطان نورالدین اور ان کے والد محترم شہید سلطان عماد الدین ہی کا اعزاز ہے کہ جنہوں نے اس نیک کام کا ارادہ کیا اوراگر ان کے بعد اللہ نے ہم سے کوئی کام لیا ہے تو یہ ان ہی کی شفقت اورتربیت کی برکت ہے ورنہ ہم تو کچھ بھی نہیں تھے۔ہمارے تو والد بھی ان کے ماتحت تھے اور ہم پر بھی اللہ کے بعد انہی کا کرم رہا ہے کہ انہوں نے اعتماد کرتے ہوئے ذمہ داریوں کا بوجھ ہم پر ڈالا اور محسوس کیا کہ ہم نبھا سکتے ہیں۔‘‘

 
صلاح الدین،نورالدین کا ہاتھ چوم لیتا ہے….تالیوں کا شور…..صلاح الدین کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں….مجمع.ان کی گفتگو میں اتنا محو ہے کہ سب کی آنکھوں میں صلاح الدین کی آنکھوں کا پانی اتر آتا ہے۔منظر دھندلانے لگتا ہیتوناظرین بھی آنکھیں پونچھنے لگتے ہیں۔تھوڑی دیر کوخاموشی چھا جاتی ہے اور کسی ساز کی ہلکی سی آواز آنے لگتی ہے۔ساتھ ہی ہلکی ہلکی خوشبو مہکنے لگتی ہے۔ایسا لگتا ہے ہوا چلنے لگی ہو۔ محرابی دروازوں میں لٹکے شیشے جیسے شفاف اور نفیس پردے عجب ترنگ میں جھولنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی دیوان خانے کے درودیوار کے رنگ اور انداز تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ناظرین پھٹی پھٹی آنکھوں سے منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ پھر اچانک ہر چیز رک جاتی ہے ۔

 
سلطان نورالدین:’’سلطان محمد!…. یقیناًیہ صلاح الدین کی بڑائی ہے کہ یہ بڑوں کے سامنے اپنے آپکو چھوٹا ظاہر کر رہاہے۔ ضرور اس کے درجات بلند ہوں گے۔واللہ !ہم نے صلاح الدین کے والد کو کبھی اپنا ماتحت نہیں سمجھا ،بلکہ وہ ہمارا مشیر اور مددگار تھا۔اور کیوں نہ ہوتاکہ وہ خداداد صلاحیتوں کا مالک تھا۔ صلاح الدین کے والد نجم الدین ایوب اور چاچا اسد الدین شیر کوہ نے یقیناًہماری بہت مددکی ۔یہ نیک لوگوں کی اولاد ہے۔‘‘

 
سلطان محمد:( تائید میں سر ہلاتے ہوئے)’’جی، بجا فرمایاسلطان!…. جبھی تو ان کی اولاد کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اگر کسی کو مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا اعزاز ملا تو وہ پوری امت کا یہ بیٹا صلاح الدین ہے اور اس لحاظ سے یہ عمر ثانی (دوسرا عمر) ہوا‘‘۔

 
سلطان نورالدین :’’آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا، سلطان محمد…یاد رکھیئے!… کہ قدرت کسی اعزاز کے لئے ایسے ہی توکسی کو منتخب نہیں کرلیتی۔قدرت کے کچھ اصول ہیں ،ہر اعزاز ہر کسی کیلئے نہیں ہوتا،آپ اصحاب رسول ﷺ کو ہی دیکھ لیجئے….‘‘

 
اور پھر سلطان نورالدین گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے مسکرانے لگتا ہے جبکہ باقی دونوں سلاطین اس کے چہرے کو تکنے لگتے ہیں۔

 
سلطان محمد:( حیرانی سے)’’ہم آپ کی بات سمجھے نہیں اے عظیم سلطان!….. آپ اپنی بات کی وضاحت فرماکے ہمارے سمجھنے کے لئے آسانی مہیا فرمائیے….‘‘
سلطان صلاح الدین بھی تائید میں سرہلاتا ہے۔

 
سلطان نور الدین:(تکئے کی ٹیک چھوڑ کر سیدھا بیٹھتے ہوئے انتہائی سنجیدہ لہجے میں)’’قدرت جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتی ہے تواسے صلاحیت عطا کرتی ہے،پھر اس کی تربیت کا انتظام فرماتی ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو درست استعمال کرنے کے قابل ہو سکے،اور پھر اس سے قربانی مانگتی ہے تاکہ اسے کوئی اعزاز دے۔بغیر قربانی کے کوئی اعزاز نہیں ملتا….‘‘

 
سلطان محمد:’’یعنی آپ یہ فرما رہے ہیں کہ صحابہؓ کو قدرت نے صلاحیت دی پھرایک استاد(ﷺ)کے ذریعے ان کی تربیت فرمائی اور پھر انہوں نے قربانیاں دیں تو اعزاز والے بنے…یعنی آپ اس نتیجے پر لانا چاہتے ہیں کہ صلاح الدین کے اعزاز میں اس کی اپنی قربانی مرکزی حیثیت رکھتی ہے؟‘‘

 
سلطان نور الدین :’’آپ کے درجات بلند ہوں……ہماری بات کا مطلب عین یہی ہے کہ صلاحیت نہ ہو تو تربیت فائدہ نہیں دیتی اور صلاحیت اور تربیت دونوں بھی ہوں مگر انسان کسی عظیم مقصد کیلئے قربانی دینے پر آمادہ اور تیار نہ ہو توقدرت اسے کسی اعزاز سے نہیں نوازتی۔سلطان! …آپ جانتے ہیں آج کی دنیا میں با صلاحیت اور تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں مگر وہ کسی عظیم مقصد کے حصول کے لئے قربانی دینے پر آمادہ نہیں ،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اعزاز سے محروم ہیں…اسی بات کو دیکھ لیجئے کہ صلاحیت، قابلیت اور وسائل کے ہوتے ہوئے بھی صلاح الدین کے بعد کسی کو بیت المقدس کو آزاد کرانے کا اعزاز نصیب نہیں ہوا،کیونکہ جس پیمانے کی قربانی درکار ہے ،وہ دینے کو کوئی تیار نہیں،خاص کر حکم ران طبقہ…صلاح الدین کو قدرت نے صلاحیت دی پھر جیسا کہ آپ دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم سے جیسی تیسی اور جتنی ہو سکی اس کی تربیت کی مگر اصل چیز اس کی اپنی قربانی تھی جو حکمران بننے کے بعد اس نے دی ،یعنی ایک تو یہ کہ آرام کی زندگی کو چھوڑ کر میدان کی زندگی اختیار کی اور دوسرایہ کہ حکمران بننے کے بعد وہ ساری عادتیں چھوڑدیں جو ایک حکمران میں نہیں ہونی چاہئیں ‘‘۔

 
ناظرین کی تالیوں کی گونج….. سلطان صلاح الدین کا چہرہ تمتما نے لگتا ہیجس کا اثر پوری محفل کے چہروں پر دیکھا جا سکتا ہے۔محفل پھر خاموش ہوجاتی ہے اچانک راہداریوں سے دو خادم آتے دکھائی دیتے ہیں جو محفل کے پاس آکر رکتے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں طشت(تھال)ہیں جن میں انوکھی شکل کی صراحیاں اور گلاس ہیں۔ناظرین کی سانسیں رک جاتی ہیں جب وہ دونوں طشت ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔یکدم دل دھڑکتے ہیں کہ یہ گرے ے ے…..مگر وہ ہوامیں تھوڑے اوپر اٹھتے ہیں اور پھرحاضرین کے سروں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھنے لگتے ہیں۔ان کے ساتھ موتیوں کی لٹکتی لڑیوں کے ٹکرانے کی جھنکار سے ایک سماں سابندھ جاتا ہے۔ایک طشت تخت پر بیٹھے سلاطین کے درمیان اترجاتا ہے جبکہ دوسرا محفل کے درمیان۔ صراحیاں خود بخود گلاسوں میں مشروب انڈیلنے لگتی ہیں جس کی خوشبو محفل میں پھیل جاتی ہے۔

 
ایک شریک محفل:( دوسرے کے کان میں سرگوشی ) ’’شاید طلب ہوئی ہوگی‘‘

 
دوسراشریک محفل:( مسکراتے ہوئے)’طلب نہیں خوا ہش‘‘یہاں پیاس تھوڑی لگتی ہے جو طلب ہو۔یہاں صرف خواہش ہوتی ہے۔اتنے میں پھر آواز ابھرتی ہے…

 
سلطان محمد:(سلطان نورالدین سے)’’اے سلطان !ہم ایک نرالے اعزاز کی بات کرنا چاہتے ہیں۔اگر صلاح الدین کی تربیت کا ذکر نہ بھی کیا جائے توآپ کا اپنا اعزاز بھی بھلا کون سا کم ہے۔‘‘

 
سلطان صلاح الدین:(انتہائی جذباتی لہجے میں،جلدی سے)’’سلطان محمد!واللہ…آپ نے ہمارے منہ کی بات چھین لی….یقیناًآپ کی مراد زیارت رسول ﷺ والے واقعے سے ہے…‘‘

 
سلطان محمد:’’آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا صلاح الدین!. . ..اُس ہستی کا خواب میں آنا اور ایک بار نہیں بار بار آنا کہ جس پر کائنات کی ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے،اور پھرآپ پر اعتماد کرکے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں خبردار کرنا کہ جو آپ ﷺ کے روضے کو سرنگ کے ذیعے کھودنا چاہتے تھے۔اور پھر آپ کا وہاں جا کر ان دشمنوں کو انجام تک پہنچانا بھلا کوئی کم اعزاز ہے…. ‘‘

 
ناظرین کی تالیوں کا ایک طویل سلسلہ…….سلطان نور الدین کاچہرہ چمکنے لگتاہے ۔اسکی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور لبوں پر مسکراہٹ ۔ساری محفل پَر نور الدین کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

 
ایک شریک محفل:(دوسرے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے)’’یہاں انسان غمگین بھی ہوتے ہیں؟‘‘

 
دوسرا شریک محفل:’’یہاں غم کا کیا کام؟‘‘

 
پہلا شریک:’’تو یہ روتے کیوں ہیں اور ہمیں بھی رُلاتے ہیں‘‘

 
دوسراشریک محفل:(مسکراتے ہوئے) ’’بھائی یہ کوئی غم کے آنسو تو نہیں…جو اِن آنسوؤں کی لذت جانتے ہیں وہ دعاء کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اپنی بارگاہ میں ایسے آنسو عطا فرما دے..یہ توشکر اور خوشی کے منہ مانگے آنسو ہیں۔‘‘

 
خاموشی چھاجاتی ہے،ساز کی آواز پھر آنے لگتی ہے۔شیش محل کے آئینوں میں قندیلوں کی روشنی کا عکس جگمگانے لگتا ہے، اچا نک فانوس روشن ہو جاتا ہے ۔ہر شخص اوپر دیکھتا ہے ….سبحان اللہ …حیرانی سے آنکھوں کے ڈھیلے باہر آنے لگتے ہیں…عجیب ہیئت کا خوبصورت فانوس جھول رہا ہے کہ جس کے بارے میں خوبصورتی جیسے لفظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔اس کی قندیلوں میں شمعیں کیا ہیں بس نور ہے نور… جبکہ محسوس یہ ہوتا تھا کہ چھت کے بجائے یہ آسمان سے محل میں لٹک رہا ہے۔ نیچے بیٹھے لوگوں کے چہرے اس سے زیادہ روشن نہ ہوں تو نظر فانوس سے کبھی واپس نہ آئے۔

 
سلطان نورالدین: ( سلطان محمد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مجمع کی طرف مسکراکر دیکھتاہے) ’’ہمیں ہمارے اعزازات بتا بتا کر ہنسا بھی رہے ہیں اور رُلا بھی رہے ہیں اور خود اپنا اعزاز چھپائے بیٹھے ہیں۔ فاتح قسطنطنیہ ہونا بھلا کوئی کم اعزازہے ؟‘‘

 
اب کی بار سلطان محمد کا چہرہ ایسا جگمگایا کہ… اللہ اکبر… اور اس کے ساتھ ہی ساری محفل انہیں رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگتی ہے۔اتنے میں باغ سے ہوا کا ایک انتہائی خوشگوار جھونکا دیوان خانے میں داخل ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی مسحور کر دینے والی خوشبو سانسوں میں اترنے لگتی ہے،یہ خوشبو ہی ابھی دماغ پر حاوی ہوتی ہے کہ ایک خوبصورت نغمہ بجنے لگتااورپس پردہ ’’رضی اللہ عنہ ،رضی اللہ عنہ‘‘ کی آوازیں سماں باندھ دیتی ہیں۔محفل میں ہلچل مچ جاتی ہے۔تخت والے تخت سے اتر آتے ہیں۔ساری محفل باادب کھڑی ہو جاتی ہے۔دیوان خانے کی محرابوں سے دور باغ کے داخلی راستے پر ایک چمک نظر آنے لگتی ہے ۔

 
شریک محفل:(دوسرے سے سرگوشی کے انداز میں) ’’کیا ماجرا ہے؟‘‘

 
دوسراشریک:’’شاید کسی صحابی رسول ﷺ کی محفل میں آمد ہے۔‘‘

 
ناظرین کی آنکھیں تو پہلے ہی اس منظر کو دیکھ کر پھٹی جا رہی ہیں ….اب صحابی رسول ﷺ کی آمد….پتھرائی ہوئی آنکھوں میں اتنا نور دیکھنے کی سکت نہیں…..آنکھیں چندھیا جاتیہیں
نظروں میں تاب نظارہ نہیں …ایسا نہ ہو دل ہی پھٹ جائیں……

پردہ گرتا ہے..

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top