skip to Main Content

۸ ۔ کافروں کاانجام

نظرزیدی

۔۔۔۔۔

مکہ کے کافر لوٹ گئے تو رسول ﷺ نے ان یہودیو ں کو سزا دینے کا ارادہ کیا جنہوں نے جنگ کے دنوں میں دوستی کا معاہدہ توڑ کر مکہ کے کافروں کا ساتھ دیا تھا۔ان میں یہودیوں کا ایک بڑا قبیلہ بنو قریظہ بھی تھا۔رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کو سالار بنا کر ایک لشکر اس قبیلے کو سزا دینے کے لیے بھیجا ۔ان یہودیوں نے بہت غرور دکھایا ۔الٹی سیدھی باتیں کیں ‘لیکن جلد ہی ان کا غرور خاک میں ملا دیا گیا۔اور انہیں پوری پوری سزا دی گئی۔
یہی حا ل دوسرے قبیلوں کا ہوا ۔سب یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیااور کچھ ہی دن میں ہر طرف امن و امان ہو گیا ۔خاص مدینہ میں مسلمانوں کا ایسا ایک بھی دشمن نہ رہا جو کوئی بڑا نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو۔
صلح حدیبیہ
رسول ﷺ کو مکہ سے مدینہ آئے ہوئے چھ برس ہو چکے تھے اور ان چھ برسوں میں آپ ﷺ حج نہ کر سکے تھے ۔حضور ﷺ کی خواہش تھی کہ مکہ جا کر حج کا فرض ادا کریں ‘لیکن کافروں نے ایسے لڑائی جھگڑے شروع کر دیئے تھے کہ مکہ جانے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔
شوال سن ۶ ہجری میں ایک رات حضور ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ کعبہ شریف کا طواف کر رہے ہیں ۔یہ خواب دیکھا‘تو آپ ﷺ نے عمرہ ‘یعنی چھوٹا حج کرنے کا ارادہ کر لیا‘کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ تھا کہ آپ ﷺ حج کے لیے تشریف لے جائیں ۔
صحابہؓ کو جب رسول ﷺ کے ارادے کا حال معلوم ہوا ‘تو انہوں نے بھی ساتھ جانے کی تیاری شروع کر دی اور جب سفر کا سارا سامان ٹھیک ہو گیا ‘تو حضور ﷺ ذیقعدہ کے مہینے میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے ‘چودہ سو صحابہؓ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔
ادھر جب مکہ کے کافروں کو یہ بات معلوم ہوئی ‘تو وہ جنگ کی تیاریاں کرنے لگے۔حضور ﷺ کو بھی ان کے ارادے کا پتہ چل گیا۔سفر جاری رکھنے کے بجائے آپ حدیبیہ نامی مقام پر رک گئے اور حضرت عثمان ؓ کو یہ پیغام دے کر مکہ بھیجا کہ و ہ لڑنے کے لیے نہیں آئے ‘بلکہ عمرہ ادا کرنے کے لیے آرہے ہیں ۔
حدیبیہ اصل میں ایک کنویں کا نام تھا اور اسی وجہ سے اس جگہ کا نام حدیبیہ مشہور ہو گیا تھا ۔
حضرت عثمان ؓ مکہ پہنچے اور قریش کوآپ ﷺ کا پیغام پہنچایا ۔قریش نے ان سے کہا کہ تمہارا جی چا ہے تو تم کعبہ کا طواف کر لو۔ عثمانؓ نے کہا جب تک رسول ﷺ طواف نہ کریں میں بھی طواف نہیں کرتا ۔اسی پر قریش نے عثمانؓ کو روک لیا ۔رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو یہ خبر پہنچی کہ عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔یہ خبر سن کر رسول ﷺ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہؓ سے فرمایا :’’میرے ہاتھ پر اس بات کے لیے بیعت کرو کہ عثمانؓ کے خون کا بدلہ لو گے اور اس کوشش میں اپنی جانیں دے دو گے ۔‘‘
بیعت کرنا عربی میں اس پکے وعدے کو کہتے ہیں جو اللہ کو گواہ بنا کر کیاجائے ۔سب صحابہؓ نے وعدہ کیااور حضرت عثمانؓ کی طرف سے خود رسول ﷺ نے اپناایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت کی۔
صلح کی بات چیت
صحابہؓ نے رسول ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے ۔اس بیعت کے بعد گویا یہ بات پکی ہو گئی تھی کہ اب کافروں سے جنگ ہو گی ‘لیکن حضرت عثمانؓ واپس آگئے اور یہ خبر غلط ثابت ہو گئی کہ کافروں نے انہیں شہید کر دیا ہے ۔
حضرت عثمان غنی ؓ کے ساتھ ہی مکہ کے کافروں نے اپنے ایک مشہور ہوشیار آدمی سہیل بن عمرو کو صلح کی بات چیت کرنے کے لیے بھیجا ۔رسول ﷺ تو لڑنے کے لیے آئے ہی نہ تھے ۔آپ ﷺ نے یہ بات مان لی کہ مکہ کے قریش اور مسلمان صلح صفائی سے رہیں ۔صلح کی یہ شرطیں مانی گئیں :
۱۔ مسلمان اس سال عمرہ کئے بغیر اسی جگہ سے واپس لوٹ جائیں گے ۔اگلے سال عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی ‘لیکن صرف تین دن مکہ میں رہ کرسکیں گے ۔
۲۔ مسلمان اپنے ساتھ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ لائیں گے اور وہ بھی نیاموں کے اندر رہیں گی۔
۳۔ جو مسلمان مکہ میں ہیں ‘ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ مدینہ نہ لے جائیں گے اور جومسلمان مکہ میں رہنا چاہے اسے واپس مدینہ لے جانے پر مجبور نہ کریں گے ۔
۴۔ اگر مکہ کا کوئی آدمی مدینہ چلا جائے گا ‘تو مسلمان اسے واپس مکہ بھیج دیں گے ‘لیکن اگر مدینہ سے کوئی مسلمان مکہ آجائے ‘تو اسے واپس نہ بھیجا جائے گا۔
۵۔ عرب کے سب قبیلوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ مکہ کے قریش یا مسلمانوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا سمجھوتہ کر لیں ۔
۶۔ دس برس جنگ نہیں کریں گے ‘جو فریق معاہدہ توڑے گا اسے معاہدہ توڑنے کا ذمہ دار سمجھا جائے گا۔
یہ معاہدہ ایسا تھا کہ اس میں کافر فائدے میں نظر آتے تھے ۔صحابہؓ نے اس طرح دب کر صلح کرنے کو پسند نہ کیا ‘لیکن رسول ﷺ نے اسے مان لیا اور پھر صحابہؓ نے بھی اس پر عمل کرنے کا وعدہ کر لیا ۔
مسلمان اب کافروں سے کمزور نہ تھے ۔جنگ خندق میں کافروں کی بہت بڑی فوج کو ہراچکے تھے ‘لڑائی ہوتی ‘تو اس بار بھی جیت جاتے ‘لیکن رسول ﷺ جنگ کو پسند نہ فرماتے تھے ۔اس لیے آپ ﷺ نے کافروں سے صلح کر لی تھی ۔بعد کے واقعات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت رسول ﷺ کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔صلح حدیبیہ سے اسلام کو بہت ترقی ہوئی ۔
سرداروں اور بادشاہوں کے نام خط
حدیبیہ سے لوٹ کر حضرت رسول اللہﷺ نے دوسرے ملکوں کے بادشاہوں اور سرداروں کے نام تبلیغی خط بھیجے ‘یعنی یہ لکھا کہ میں اللہ کا آخر ی رسول ﷺ ہوں ‘مجھے رسول ﷺ مان کر مسلمان ہو جاؤ اور اللہ کے احکامات کے مطابق نیکی کی زندگی گزارو۔
جن لوگوں کے نام ایسے خط بھیجے گئے‘ان کی تعداد ایک سو بتائی جاتی ہے۔ان میں ایران کا بادشاہ خسرو پرویز ‘روم کا قیصر ہرقل ‘حبشہ کا بادشاہ نجاشی اور مصر کا حاکم مقوقس شامل تھے ۔ان میں سے حبشہ ‘روم اور مصر کے عیسائی حاکموں نے تو ان صحابہؓ کی بہت عزت کی جو خط لے گئے تھے اور بہت شوق سے خط پڑھوائے ‘لیکن ایران کے آتش پرست (آگ کی پوجا کرنے والے )بادشاہ نے بہت غرور کیا اور حضور ﷺ کے خط کو پھاڑ کر پھینک دیا۔
جب حضور ﷺ کو یہ بات بتائی گئی ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا ۔اس بادشاہ کی سلطنت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی جس طرح اس نے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اور یہی ہوا ۔مسلمانوں نے ایران کو فتح کر لیا اور خسروپرویز کی اس بہت بڑی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جسے وہ مضبوط سمجھتا تھا ۔
جنگ خیبر
دوستی کے سمجھوتے توڑ دینے والے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہنے والے یہودی خیبر میں اکٹھے ہو گئے تھے ۔یہ بہت محفوظ مقام تھا ۔یہودیوں نے یہاں کئی مضبوط قلعے بنا لیے تھے جن کے اندر وہ نہایت اطمینان اور شان و شوکت سے رہتے تھے ۔
اگر وہ خیبر میں امن چین سے رہتے تومسلمان انہیں کبھی کچھ نہ کہتے ‘لیکن اپنی بری فطرت کی وجہ سے انہوں نے یہ اچھا طریقہ اختیار نہ کیا‘پہلے کی طرح شرارتوں میں لگے رہے ۔انہوں نے سب سے بڑی شرارت یہ کی کہ ایک بار پھر مکہ کے کافروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا اور انہیں اس بات پر اکساتے رہے کہ وہ مدینہ پر حملہ کریں ۔
حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو یہ پیغام دے کرخیبر بھیجاکہ اگر تم لوگ صلح صفائی اور امن سے رہو تو ہم تمہارے کسی کام میں دخل نہ دیں گے ‘اپنے کھیتوں ‘باغوں اور قلعوں کے تم ہی مالک رہو گے ‘لیکن یہودیوں کے تو برے دن آگئے تھے ۔انہوں نے جنگ نہ کرنے اور دوست بن کر رہنے کا معاہدہ کرنے کے بجائے غرور بھری باتیں کیں اور جنگ کی تیاریوں میں لگ گئے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا تھا ۔خیبر ایک ہرا بھرا اور محفوظ مقام تھا یہ مدینہ منورہ سے ۱۸۴کیلومیٹر کے فاصلے پر تھا ۔یہودیوں کے کھیتوں اور باغوں میں بہت اچھی فصلیں پیدا ہوتی تھیں ۔وہ بہت خوشحال تھے اور انہوں نے بہت سے مضبوط قلعے بنا لیے تھے ۔ان قلعوں کے اندر وہ بہت اطمینان سے رہتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ان قلعوں کے اندر کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔خیبر کا مطلب ہی قلعہ ہے ۔یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔یہودیوں کے بزرگ یہی زبان بولتے تھے ۔قموص‘حصن الشق‘حصن نطاۃ‘حصن نطاۃ‘حصن الوطیہ اور حصن الکتیبہ یہودیوں کے مشہور قلعے تھے ۔
رسول ﷺ نے اپنی فوج سمیت مدینہ سے خیبر تک کا فاصلہ اس طرح طے کیا کہ یہودیوں کو اس وقت آپ ﷺ کے آنے کا حال معلوم ہوا جب آپ ﷺ ان کے قلعوں کے بالکل پاس پہنچ گئے ۔
بیان کیا جاتا ہے اسلامی لشکر رات کے وقت خیبر پہنچا۔ یہودی اپنے گھروں میں غفلت کی نیند سو رہے تھے ۔صحابہؓ نے مشورہ دیاکہ اسی وقت دشمن پر حملہ کر دیا جائے ‘لیکن حضور ﷺ نے یہ بات پسند نہ کی ۔دوسرے دن اس وقت لڑائی شروع ہوئی جب یہودی بھی لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔
یہودیوں نے بڑی ہمت اور بہادری سے مقابلہ کیا ‘لیکن مسلمان مجاہدوں نے ایک ایک کر کے ان کے قلعے فتح کر لیے ‘بس قلعہ قموص فتح کرنے میں کچھ مشکل پیش آئی ۔یہ قلعہ یہودی سردار مر حب کا تھا۔اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ اکیلا ہزار سواروں کے برابر طاقت رکھتا ہے ۔اس کی مدد کے لیے یہودیوں کی بہت بڑی فوج قلعے کے اندر مو جود تھی۔
یہ قلعہ فتح کرنے کے لیے کئی عظیم صحابہؓ نے کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔جب یہ صورت پیدا ہوئی‘تو رسول ﷺ نے فرمایا:
’’کل اسلامی فوج کا جھنڈا اسے دیا جائے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو محبت ہے اور جس کے ذریعے یہ قلعہ فتح ہوگا ۔‘‘
بیان کیا جاتا ہے ہر ایک صحابی کے دل میں یہ خواہش تھی کہ جھنڈا اسے دیا جائے ‘لیکن صبح ہوئی تو حضورﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جھنڈا دیا اور ان کے لیے دعا فرمائی ۔
مرحب بہت شان سے لڑائی کے میدان میں اترا ۔اس کے مقابلے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نکلے۔مرحب کو یقین تھا جو بھی اس سے لڑنے کے لیے آئے گا ‘وہ اس کا خاتمہ کر دے گا۔میدان میں آکر اس نے غرور بھرے نعرے مارے‘لیکن جب لڑائی شروع ہوئی ‘تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کے سر کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔مرحب کے علاوہ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک اور مشہور یہودی سردار حارث کو بھی قتل کیااور اپنے سرداروں کا یہ حال دیکھ کر یہودی لڑائی کے میدان سے بھاگنے لگے ۔
اس لڑائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بہادری کا ایک اور خاص کام یہ کیا کہ قلعے کا بہت بھاری دروازہ ایک ہاتھ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔یہ دروازہ اتنا بھاری تھا کہ کئی آدمی مل کر مشکل سے اٹھا سکتے تھے ۔اس شاندار کامیابی کی وجہ ہی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فاتح خیبر کہا جاتا ہے ۔
یہ لڑائی بیس دن جاری رہی اوراس میں ترانوے یہودی مارے گئے ۔مسلمان صرف پندرہ شہید ہوئے ۔
لڑائی میں ہار گئے ‘تو یہودیوں نے درخواست کی کہ ان کی زمینیں اور باغ انہی کے پا س رہنے دےئے جائیں ۔وہ آدھی پیداوار مدینہ بھیج دیا کریں گے ۔حضور ﷺ نے یہ بات منظور فر ما لی ۔
عمرہ
خیبر سے لوٹنے کے بعد حضور ﷺ نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا۔۲ذیقعدہ سن ۷ ہجری کو مدینہ سے روانہ ہو ئے ۔دو ہزار سے زیادہ صحابہؓ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ۔اس سفر میں حضور ﷺ نے صلح نامہ حدیبیہ پر پوری طرح عمل کیا ۔مسلمانوں کے پاس تلواروں کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ تھا اور وہ بھی نیاموں کے اندر تھیں ۔
اس کے علاوہ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی معاہدے کے مطابق صرف تین دن مکہ میں رہے اور اس کے بعد مدینہ لوٹ آئے۔
مکہ وہ شہر تھا جس میں حضور ﷺ پیدا ہوئے تھے ۔یہ آپ ﷺ کے باپ دادا کا وطن تھا اور اب خدا کے فضل سے آپ ﷺ کے پاس اتنی فوجی طاقت تھی کہ شہرپر آسانی سے قبضہ کر سکتے تھے ‘لیکن آپ ﷺنے وعدے کی پابندی کی اور دنیا کو یہ سبق دیا کہ جو وعدہ کیا ہو،ا سے ہر حالت میں پورا کرنا چاہیے۔
سن ۷ ہجری ہی میں حضور ﷺ کو ایک اور بہت بڑی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ حضرت خالدؓ بن ولید ‘حضرت عمر و ابن العاص اور حضرت عثمانؓ بن طلحہ اپنی خوشی سے مسلمان ہو گئے ۔یہ تینوں عرب کے مانے ہوئے بہادر تھے۔خاص طور پر خالدؓ بن ولید تو ایسے بہادر اور لڑاکا تھے ‘کہ نوجوانوں میں انہیں سب سے بڑھ کر مانا جاتا تھا۔جنگ احد میں انہی نے پہاڑ کا چکر کاٹ کر اور درے سے گزر کر مسلمانوں پر حملہ کیاتھا اور سخت نقصان پہنچایا تھا۔
ان کے مسلمان ہونے سے سب کو دلی خوشی ہوئی اور انہوں نے آگے چل کر اسلام کی ترقی کے لیے شاندار کارنامے انجام دےئے ۔ رسول ﷺ نے انہیں سیف اللہ ‘یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔
جنگ موتہ
رسول ﷺ نے بادشاہوں اور سرداروں کے نام جب تبلیغی خط بھیجے تھے ‘تو حضرت حارث بن عمیر ازدیؓ کے ہاتھ ایک خط بصریٰ کے حاکم شر حبیل بن عمرو الفسانی کے نام بھی بھیجا تھا ۔چاہیے تو یہ تھا شرحبیل خط میں لکھی ہوئی بھلائی کی باتوں پر غور کرتا اور مسلمان ہو جاتا ‘لیکن اس نے یہ گناہ کیا کہ حضرت حارثؓ کو شہید کر دیا۔
عمرہ کرنے کے بعد رسول ﷺ نے ظالم شرحبیل کو سزا دینے کا ارادہ فرمایااور اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدبن حارثہؓ کو سردار بنا کر تین ہزار مجاہدوں کا لشکر روانہ کیا ۔یہ لشکر جمادی الاول سن ۸ ہجری کو مدینہ سے روانہ ہوا۔
اس موقع پر یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ زید بن حارثہؓ وہی ہیں جنہیں عکاظ کے میلے میں غلام بنا کرفروخت کیا گیا تھا اور ہمارے حضور ﷺ نے انہیں آزاد کر کے اپنا منہ بیٹا بنا لیا تھا۔اس زمانے میں غلاموں کو بھیڑ بکریوں جیسا سمجھا جاتا ۔آزاد ہونے کے بعد بھی ان کی عزت نہ کی جاتی تھی ۔ان مظلوموں کو یہ عزت رسول ﷺ کے صدقے اوراسلام کی برکت سے ملی کہ فوجوں کا سالار بنایا گیا‘بلکہ بہت سے تو ملکوں کے بادشاہ بنے۔
شرحبیل کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمان اپنے قتل کا بدلہ لینے کے لیے آرہے ہیں ‘تو اس نے رومی شہنشاہ ہرقل سے مدد مانگی ۔خود بھی دوڑ دھوپ کی اور اس طرح تقریباََایک لاکھ سپاہی اکٹھے کر لیے ۔
یہ جنگ، موتہ نامی مقام پر ہوئی جو مدینہ سے گیارہ سو کلو میٹر دور‘اردن کے شہر کرک کے جنوب میں ہے ۔اس لیے تاریخ میں اسے جنگ موتہ کہا جاتا ہے۔تین ہزار اور ایک لاکھ میں کتنا فرق ہے اس کا اندازہ ننھے منے بچے بھی کر سکتے ہیں ‘لیکن مسلمان ذرا نہ گھبرائے اور بہت بہادری سے کا فروں کے اس بہت بڑے لشکر کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔
لشکر کی روانگی کے وقت رسول ﷺ نے فرمایاتھا:اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو ان کی جگہ جعفرؓ بن ابی طالب سردار ہوں گے اور اگر وہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ ؓ بن رواحہ سرداری کریں گے ۔اور وہ بھی شہادت کا درجہ پالیں تو پھر آپس میں مشورہ کر کے کسی کو فوج کا سالار بنا لیا جائے ۔
حضرت رسول پاک ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پہلے ہی یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ یہ تینوں شہید ہو جائیں گے ‘چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔حضرت زیدؓ ،حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں بہت بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔اور ان تینوں کے شہید ہو جانے کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید کو لشکر کا سالار بنایا گیا ۔
مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔مسلمان انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے ‘لیکن وہ کم نہ ہوتے تھے ۔پھر بھی خالدؓ بن ولید نے ایسی تدبیر کی کہ کافر بے حوصلہ ہو گئے ۔حضرت خالدؓنے اپنے لشکر کے کچھ مجاہدوں کو رات کے وقت لشکر سے دور بھیج دیا ۔صبح کے وقت یہ مجاہد لشکر میں شامل ہوئے تو کافر سمجھے کہ مدینہ سے نئی فوج آگئی اور وہ ڈر گئے ۔اور اسلامی لشکر کو ئی بڑا نقصان اٹھائے بغیر مدینہ لوٹ آیا ۔حضرت خالدؓ بن ولید کے اسی کارنامے پر رسول ﷺ نے انہیں سیف اللہ کا خطاب دیا ۔کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں لڑتے ہوئے ان کے ہاتھ سے آٹھ تلواریں ٹوٹیں ۔
مکہ فتح ہو گیا
جنگ خندق اور جنگ خیبر کے بعد مسلمانوں کے دونوں بڑے دشمنوں ‘مکہ کے کافر قریش اور یہودیوں کا زور ٹوٹ گیا ۔ان میں سے کسی میں بھی ہمت نہ رہی کہ مسلمانوں کو ختم کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی بات زبان پر لائے ‘البتہ چپکے چپکے شرارتیں کرنے سے دونوں باز نہ آئے۔یہودیوں نے ایک دو بار سامنے آکر بھی شرارت کی اور انہیں فوراًہی سزا دے دی گئی ۔یہی حال مکہ کے کافروں کا ہوا ۔ ان کے ساتھ حدیبیہ میں سمجھوتہ ہو گیا تھا اور اس میں ایک یہ شرط بھی تھی کہ نہ قریش مسلمانوں پر حملہ کریں گے اور نہ قریش کو مسلمان کچھ کہیں گے ‘لیکن قریش کے دلوں میں جو خرابیاں چھپی ہو ئی تھیں ان کی وجہ سے انہوں نے اس معاہدے پر پوری طرح عمل نہ کیا اور یہ بات ضروری ہو گئی کہ مکہ پر حملہ کر کے کافروں کا زور ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جائے ۔
یہ پوری بات اس طرح ہے کہ عرب کے دو قبیلوں بنی بکر اور بنی خزاعہ میں پرانے زمانے سے دشمنی چلی آرہی تھی ۔صلح حدیبیہ کے بعد بنی خزاعہ نے مسلمانوں سے دوستی کا معاہدہ کر لیا اور بنی بکر قریش کے ساتھی بن گئے ۔
صلح حدیبیہ کی شر طوں میں سے ایک خاص شرط یہ بھی تھی کہ ان قبیلوں سے بھی صلح صفائی رکھی جائے گی جو دونوں فریقوں میں سے کسی کے ساتھی ہوں گے ۔اب ہوا یہ کہ ایک دن بنی بکر نے بنی خزاعہ پر حملہ کر کے ان کے کئی آدمیوں کو قتل کر دیا ۔مکہ کے کافروں نے اس حملہ میں بنی بکر کا ساتھ دیا ۔وہ کعبہ شریف میں داخل ہوگئے تو وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا ۔
بنی خزاعہ نے مدینہ جا کر رسول ﷺ کو بنوبکر اور مکہ کے قریش کی زیادتی کا حال بتایااور مدد کی درخواست کی ۔مسلمانوں کے دوست قبیلے ‘بنو خزاعہ کو اس طرح نقصان پہنچا نا حدیبیہ کے سمجھوتے کو توڑ دینا تھا ‘چنانچہ رسول ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت ضمرہؓ کو قریشِ مکہ کے پا س بھیجا اور ان سے کہا ‘ان تین باتوں میں سے ایک بات مان لو :
۱۔ بنو خزاعہ کے جو آدمی قتل کئے گئے ہیں ان کا خون بہا ادا کرو۔
۲۔ بنو بکر سے اپنی دوستی ختم کر دو ۔
۳۔ اعلان کر دو کہ حدیبیہ کا سمجھوتہ ختم ہو گیا ۔
مکہ کے کافروں کے برے دن آگئے تھے۔انہوں نے شیخی میں آکر جواب دیا ۔’’ہمیں تیسری بات منظور ہے ۔‘‘انہوں نے یہ بات کہہ تو دی ‘لیکن انہیں فوراََ ہی اندازہ ہو گیا کہ ہم نے بہت بڑی غلطی کی ہے ‘چنانچہ ابوسفیان کو مدینہ بھیجا اور بہت کوشش کی کہ حدیبیہ کا سمجھوتہ باقی رہے ‘لیکن حضور ﷺ نے دوبارہ سمجھوتہ نہ کیا۔
حدیبیہ کا معاہدہ خود مکہ کے کافروں، قریش نے ختم کیاتھا اور اس کے بعد ضروری ہو گیا تھا کہ انہیں ان کے گناہوں کی سزا دی جائے ‘چنانچہ رسول ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کر نے کی تیاری شروع کر دی اور یہ تیاری کچھ اس طرح کی کہ کافروں کو اس وقت تک کچھ معلوم نہ ہوا جب تک اسلامی لشکر مکہ کے قریب نہ پہنچ گیا۔
۱۰ رمضان ۸ ہجری کو رسول ﷺ دس ہزار صحابہ کا لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔راستے میں د وہزار مجاہد اس لشکر میں اور شامل ہوگئے اور یوں مجاہدوں کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی ۔
مکہ کے قریب پہنچ کر رسول ﷺ نے مرا ظہران نامی مقام پر رکنے کا حکم دیا اور صحابہؓ سے کہا سب اپنے اپنے خیموں کے سامنے آگ کے الاؤ جلائیں ۔
ابو سفیان کو مسلمانوں کے آنے کی خبر ملی ‘تو وہ جاسوسی کے ارادے سے مسلمانوں کی لشکر گاہ کی طرف آیا۔رسول ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے انہیں دیکھ لیا اور سمجھا یا کہ مسلمان ہو جائیں ۔یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور وہ مسلمان ہوگئے ۔
رسول ﷺ رمضان سن ۸ ہجری کی ۲۱تاریخ کو مکہ شہر میں داخل ہوئے ۔آپ ﷺ نے حکم دیا کوئی شخص مکہ کے کسی آدمی پر ہاتھ نہ اٹھائے ۔جو شخص کعبہ شریف میں داخل ہو جائے ‘اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے یا ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے وہ امان میں ہے ۔سزا صرف اسے دی جائے جو ہتھیار لے کر لڑنے کے ارادے سے سامنے آئے ۔
رسول ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی سواری پر حضرت زید بن حارثہؓ کے صاحبزادے حضرت اسامہؓ بیٹھے ہوئے تھے ۔حضور ﷺ نے بہت عاجزی سے اپنا سر جھکا لیا تھا۔اور آپ ﷺ کی زبان پرقرآن مجید کی یہ آیت تھی :
’’حق آیا ‘باطل مٹ گیا اور باطل (جھوٹ )تو مٹنے کے لیے ہی تھا۔‘‘
ایک اور روایت یہ ہے کہ آپ ﷺ سورہ فتح کی تلاوت کر رہے تھے ۔آپ ﷺ نے کعبہ شریف کے قریب پہنچ کر اپنی سواری روکی ۔اتر کر کعبہ کے اندر شریف لے گئے اور وہ بت توڑنے کا حکم دیا جو کعبہ میں رکھ دئیے گئے تھے ۔یہ کام حضرت علیؓ نے کیا ۔بتوں کی تعداد ۳۶۰بتائی جاتی ہے۔کافروں نے کعبہ شریف میں تصویریں بھی بنا دی تھیں ۔آپ ﷺ نے انہیں بھی مٹانے کا حکم دیا ۔
اللہ کا گھر بتوں سے پاک ہو گیا تو آپﷺ باہر آگئے اور دروازے کے پاس رک کر تقریر فرمائی جس میں لوگوں کو یہ بتا یا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔اسی نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام گروہوں کو شکست دی ۔پھر فرمایا جہالت کے زمانے کی رسموں میں سے صرف کعبہ کی حفاظت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کے عہدے باقی رہیں گے ۔آپﷺ نے باپ دادا پر فخر کرنے اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عزت والا سمجھنے سے منع کیا اور قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی ‘۔تمام انسان ایک مرد (حضرت آدمؑ )اور ایک عورت (حضرت حواؑ )سے پیدا ہوئے ہیں ۔اللہ کے نزدیک اس کی عزت زیادہ ہے جو نیکی کے کام زیادہ کرتا ہے‘‘
مکہ کے سارے ہی سردار کعبہ شریف کے سامنے اکھٹے ہو گئے تھے اورڈر رہے تھے کہ نہ جانے اب ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ۔
تقریر ختم کرنے کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا :’’تم لوگ کیا خیال کرتے ہو‘میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا ؟‘‘یہ سوال ان لوگوں سے کیا گیا تھا جنہوں نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھی مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا تھا ۔شرم سے ان سب کے سر جھکے ہوئے تھے ۔انہوں نے جواب دیا :’’اے سچے ‘اے امانتیں لوٹادینے والے بھائی !ہم نے آپ کو ہمیشہ رحم دل اور مہربانی کرنے والا پایا ہے ۔آج بھی ہم یہی امید رکھتے ہیں ۔‘‘
آپ نے فرمایا :’’آج تم پر کوئی الزام نہیں تم سب آزاد ہو ۔میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا ۔‘‘
جنگ حنین
شہر مکہ فتح کرنے کے بعد رسول ﷺ پندرہ دن وہاں رہے اور پھر مدینہ لوٹنے کا ارادہ فرمایا ‘لیکن خبر ملی کہ کافروں کے دو طاقتور قبیلے :ہوازن اور ثقیف مکہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں ۔یہ قبیلے اس علاقے میں رہتے تھے جو مکہ اور طائف کے درمیان تھا ۔رسول ﷺ نے مکہ فتح کیا تو انہوں نے خیال کیا کہ اب ہماری بھی خیر نہیں اور مالک بن عوف کو اپنا سردار بنا کر جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔
یہ خبر سن کر حضور ﷺ نے صحابہؓ کو جنگ کے لیے تیار ہونے کا حکم دیا اور تقریباًبارہ ہزار مجاہدوں کا لشکر لے کر حنین روانہ ہوگئے ۔ اب مسلمانوں کی طاقت کافروں سے زیادہ تھی ۔اور اسی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ ہوازن اور ثقیف کو با لکل آسانی سے ہرا دیں گے ۔یہ بات اسلام کی تعلیم کے خلاف تھی۔اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ اپنی طاقت پر کبھی غرور نہیں کرنا چاہیے ۔سچا مسلمان وہ ہے جویہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ مہربانی کرے تو فتح ہو تی ہے ۔انسان کا کام تو صر ف کوشش کر نا ہے ۔
مسلمانوں نے غرور کیا تو اس کی انہیں فوراََ سزا مل گئی۔کافروں کی فوج کے سردار مالک بن عوف نے یہ ترکیب کی کہ اپنے تیر اندازوں کو اس تنگ پہاڑی گھاٹی کے دونوں طرف چھپا کر بٹھا دیا جس سے اسلامی لشکر گزرنے والا تھا اور جب مسلمان اس گھاٹی سے گزرنے لگے ‘تو کافر تیر اندازوں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دےئے ۔اس اچانک حملے سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ۔گھبرا کر ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن حضور ﷺ کی بہادری کی وجہ سے مسلمان سنبھل گئے اور یہ جنگ بھی جیت لی۔ہوازن اور ثقیف کے بہت سے آدمی قیدی بنا لیے گئے اور بہت سا سامان ہاتھ آیا ۔شکست کھانے والے دشمن کا جو مال اسباب ہاتھ آتا ہے اسے مال غنیمت کہتے ہیں ۔
ہوازن اور ثقیف کے بچے کھچے آدمی بھاگ کر طائف پہنچ گئے اور وہاں کے قبیلوں کو ساتھ ملا کر لڑائی کی تیاری کر نے لگے ۔رسول ﷺ نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔دشمن کو چاروں طرف سے گھیر لینے کو محاصرہ کرنا کہتے ہیں ۔یہ محاصرہ بیس دن جاری رہا ۔اس کے بعد رسولﷺ مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے کچھ ہی دن بعد ہوازن ‘ثقیف اور طائف میں رہنے والے قبیلوں کے ہزار وں آدمی مسلمان ہو گئے ۔مکہ میں رہنے والے قبیلے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے۔اب تو وہ منظر دکھائی دینے لگا جس کی طرف سورہ النصر میں اشارہ کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آچکی اور (اے نبی ﷺ )آپ ﷺ نے لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے دیکھ لیا ‘پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے گناہ بخشوا ےئے ‘بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔‘‘
رسول ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کی یہ شاندار کامیابی اس بات کا پکا ثبوت ہے کہ برائی کے راستے پر چلنے والے لوگ کتنے بھی زیادہ اور کیسی بھی طاقت کیوں نہ رکھتے ہوں نیکی اور ایمانداری اپنانے والوں کو شکست نہیں دے سکتے ۔ایک زمانہ وہ تھا جب رسول ﷺ بالکل اکیلے تھے ۔لوگ آپ ﷺ کامذاق اڑاتے تھے اور آپﷺ کو (نعوذباللہ ) دیوانہ تک کہتے تھے ۔اور اب اللہ کے فضل سے آپ ﷺپورے عرب کے مالک تھے ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top