skip to Main Content

۶ ۔ آزمائش کی بھٹّی

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔

وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
یہ صفت نصیب نہیں ہوتی، مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا، مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔
(حٰم السجدہ:۳۵)

نورِ ایمان
’’ابوعما۱؂رہؓ کچھ سُنا آپ نے‘‘
حمزہ بن عبدالمطلب تیر کمان اُٹھائے شکار سے واپس آ رہے ہیں کہ عبداللہ بن جدعان کی لونڈی رستہ روک کر کہتی ہے۔
حمزہؓ رک جاتے ہیں اور سوالیہ نظروں سے لونڈی کی جانب یوں دیکھتے ہیں، جیسے پوچھ رہے ہوں:
’’کیا ہے وہ انوکھی خبر جو تم مجھے سنانا چاہتی ہو؟‘‘
’’آج آپ کا بھتیجا محمدؐ کوہ صفا کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ابوالحکم۲؂ نے پہلے تو بے تحاشہ فحش گالیاں دیں اور پھر ایک پتھر اُٹھا کر اُن کے سرپر دے مارا، جس سے سر زخمی ہوگیا اور خون بہہ نکلا۔ ہائے! اگر آپ خود دیکھ سکتے کہ آپ کے بھتیجے پر کیا بیتی؟‘‘
لونڈی افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے یہ کہتی ہے۔ تو حمزہؓ کی رگِ حمیت جاگ اُٹھتی ہے۔ آنکھیں انگارہ اور چہرہ غصے سے گلنار ہوجاتا ہے۔ سیدھے حرم پہنچتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ابوجہل دوسرے سردارانِ قریش کے ہمراہ بیٹھا ہے۔ قریب پہنچ کر پورے زور سے کمان اُس کے سر پر دے مارتے ہیں۔ سر پھٹ جاتا ہے اور خون کا فوراہ بہ نکلتا ہے۔ حمزہؓ پھر شدّتِ جذبات سے پکار اُٹھتے ہیں:
’’ابوالحکم تو محمدؐ کو گالیاں دیتا ہے تو سن لے میں بھی اُسی کے دین پر ہوں۔ مجھے بھی وہی گالی دے کے دیکھ۔‘‘
ابوجہل کو پٹتے دیکھ کر اُس کی حمایت میں بنی مخزوم کے کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں مگر ابوجہل اُنھیں روک کر کہتا ہے:
’’ابوعمارہؓ کو چھوڑ دو۔ میں نے اس کے بھتیجے کو بہت بُری گالیاں دی تھیں۔‘‘
حمزہؓ حرم سے نکل کر گھر پہنچتے ہیں تو درِ ذہن پر شیطانی وسوسے دستک دینا شروع کر دیتے ہیں:
’’تو قریش کا سردار ہے۔ تو نے حمیت میں آکر یہ کیا کہہ دیا ہے۔ تو نے اُس شخص کی پیروی کی جو آبائی دین کو چھوڑ چکا ہے۔ تو نے جو کام کیا ہے اُس سے کہیں بہتر تھا کہ تجھے موت آ جاتی۔‘‘
حمزہؓ پریشان ہوجاتے ہیں۔ کوئی تدبیر ذہن میں نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ خود بخود ہاتھ اُٹھ جاتے ہیں اور یہ دُعا لبوں پر مچلنے لگتی ہے:
’’اے خدا! اگر یہ صراط مستقیم ہے تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے ورنہ میرے لیے اس سے فرار کی کوئی راہ پیدا فرما۔‘‘
ساری رات تڑپ تڑپ کر گزارتے ہیں۔ کبھی اپنی سرداری اور اُس کے خاک میں ملنے کا خیال آتا ہے۔ تو کبھی اپنی اُس للکار اور عہد کا پاس جو انھوں نے حرم میں بھری بزم میں کیا تھا۔ جیسے تیسے رات کٹتی ہے تو دربارِ محمدؐ میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں:
’’بھتیجے! میں عجب اُلجھن میں پھنس گیا ہوں۔ میں ایک ایسے معاملے میں پڑ گیا ہوں، جس سے نکلنے کی کوئی صورت مجھے نظر نہیں آتی۔ میرے جیسے آدمی کا ایسی چیز پر قائم رہنا۔ جس کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ وہ حق ہے یا باطل۔ ایک شدید بات ہے۔‘‘
محمدؐ یہ سن کر چچا کو نصیحت کرتے ہیں۔ خوفِ خدا یاد دلاتے ہیں۔ دین حق کھول کر سامنے رکھتے ہیں اور ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو نورِ ایمان سے منوّر کر دیتا ہے۔
ظالمانہ دستاویز
ابھی تین ہی روز گزرے ہیں۔ اس واقعہ کو:
کہ عمرؓ بن۳؂ خطاب بھی دعوتِ حق پر لبیک کہنے دارِ ارقم آ پہنچتے ہیں۔ عمرؓ کے قبولِ اسلام کے بعد مسلمان اپنے اندر بے پناہ توانائی محسوس کرنے لگتے ہیں، مکہ کے باسی اَب ذرا کھل کر دعوتِ حق کی جانب آنے لگے ہیں۔ اطراف مکّہ سے بھی لوگ آ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ ادھر بادشاہ حبش نجاشی نے آپؐ کی کھلم کھلا حمایت شروع کر دی ہے۔ حبش سے قافلے مکہ آنے لگے ہیں تاکہ دعوتِ حق سے روشناس ہوا جاسکے!
مکہ کے سردار جو یوں حالات کا پانسہ پلٹتے دیکھتے ہیں تو تلملا کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی حربہ بھی تو کامیاب نہیں ہورہا۔ ایک مرتبہ پھر سرجوڑ کو بیٹھ جاتے ہیں، تاکہ دعوتِ حق کو ’’بریک‘‘ لگائی جا سکے! فیصلہ ہوجاتا ہے تو ایک خوفناک اور ظالمانہ دستا۴؂ویز لکھی جاتی ہے۔
’’ہم اللہ کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ جب تک بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب محمدؐ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں۔ اُس وقت تک ان سے میل جول، شادی بیاہ اور خریدوفروخت کا کوئی تعلّق نہ رکھیں گے۔‘‘
اس دستاویز کی قریش کے تمام خاندان تائید کرتے ہیں اور پھر اسے خانہ کعبہ میں لٹکا دیتے ہیں۔
ظلم کی سانس اُکھڑتی ہے
’’یہ صریحاً ظالمانہ مقاطعہ ہے۔‘‘
ہشام بن عمرو۵؂العامری، شعب ابی طالب کی جانب سے آنے والی بچوں کی رونے اور بلکنے کی آوازوں کو سنتا ہے تو اُس کا دل و دماغ اور ضمیر یہ متفقہ فیصلہ دے دیتا ہے! پھر وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے۔
’’آپؐ کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطلب کو شعب ابی طالب میں محصور ہوئے۔ آج تین سال ہونے کو ہیں۔ نہ اُن سے کوئی غمی خوشی اور شادی بیاہ کا رشتہ رکھ سکتا ہے نہ خریدو فروخت کا تعلق، کھانے پینے کی اشیا ان تک پہنچانے کے سارے راستے مسدود۔۔۔۔۔۔‘‘
بھوک سے بلکنے والے بچوں کی صدائیں ایک مرتبہ پھر ہشام کے کانوں سے ٹکراتی ہیں، تو وہ تڑپ اُٹھتا ہے، بے چین ہو جاتا ہے اور شدید اضطراب کے عالم میں گھر کی دہلیز کو عبور کرکے دوڑتے دوڑتے زہیر۶؂بن ابی اُمیّہ کے پاس پہنچتا ہے۔ زہیر سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
’’اے زہیر! کیا تم اس سے خوش ہوکہ کھاؤ پیؤ شادی بیاہ کرو اور تمھارے ننہال کے لوگ بھوکے مریں۔ اُن سے خرید و فروخت کا مقاطعہ کیا جائے اور اُن سے شادی بیاہ کے رشتے توڑ لیے جائیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ معاملہ ابوالحکم۷؂ ابن ہشام کے ماموؤں اور ننہال کا ہوتا اور تم نے اُسے ایسے معاہدے کی دعوت دی ہوتی تو وہ کبھی اس کی پرواہ نہ کرتا۔‘‘
یہ سن کر زہیر کہتا ہے:
’’ہشام میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں! اگر کوئی دوسرا میرا ساتھی بنتا تو میں اِس معاہدے کو ختم کیے بنا سکون سے نہ بیٹھتا!‘‘
ہشام بولا:
’’دوسرا ساتھی تو تمھیں مل گیا!‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘
زہیر استفسار کرتا ہے تو ہشام جواب دیتا ہے:
’’میں۔۔۔!‘‘
زہیر کو اس مقصد کے لیے تیار کرنے کے بعد ہشام مطعم ۸؂بن عدی، ابوالنجتری۹؂ عاص بن ہاشم اور ذمعہ ۱۰؂بن الاسود سے ملتا ہے۔ اور اُنھیں بھی اپنا ہمنوا بناتا ہے۔ پھر مل بیٹھتے ہیں اور اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ
’’بات کا آغاز ہشام کی جانب سے ہوگا!‘‘
اگلے روز جب سردارانِ قریش حرم میں جمع ہوتے ہیں تو پہلے ہشام سات مرتبہ طواف کرتا ہے۔ اور پھر لوگوں کے قریب آکر ایک عزم سے کہتا ہے:
’’اے مکّہ کے باسیو! کیا یہ بات زیبا ہے کہ ہم کھائیں پئیں پہنیں، اس حال میں کہ بنی ہاشم ہلاک ہو رہے ہوں؟ نہ اُن سے کچھ خریدا جاتا ہے اور نہ اُن کے ہاتھ کچھ فروخت کیا جاتا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اُس وقت تک آرام سے نہ بیٹھوں گا جب تک اس ظالمانہ مقاطعہ کی تحریر چاک نہ کردوں!‘‘
ابوجہل تلملا اُٹھتا ہے اور چیخ چیخ کر کہنے لگتا ہے:
’’تم جھوٹے ہو! تم اُسے ہرگز نہیں پھاڑ سکتے۔‘‘
ذمعہ کہتا ہے:
’’واللہ! تم سب سے بڑھ کر جھوٹے ہو، ہم تو اُس وقت بھی اِس دستاویز پر راضی نہ تھے، جب یہ لکھی گئی تھی۔‘‘
ابوالنجتری تائیداً کہتا ہے:
’’ذمعہ نے سچ کہا، اس دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے۔ اُس پر ہم ہرگز راضی نہیں اور نہ اس کا اقرار کرتے ہیں!‘‘
مطعم بن عدی کہتا ہے:
’’تم دونوں سچے ہو اور جھوٹا وہ ہے جو اس کے سوا کچھ کہتا ہے۔‘‘
ہشام اس کی ایک مرتبہ پھر تائید کرتا ہے تو ابوجہل بدحواس ہو کر چلانے لگتا ہے:
’’محسوس ہوتا ہے یہ ایک سازش ہے جو رات کی تاریکی میں تیار کی گئی ہے۔‘‘

انوکھی گواہی
ابوطالب مع اپنے ساتھیوں کے حرم میں داخل ہوتے ہیں تو سردارانِ قریش میں ہونے والی گرما گرم بحث رُک جاتی ہے۔ سب کی نظریں آنے والوں کے چہروں پر جم جاتی ہیں۔ اہل محفل کے قریب پہنچتے ہی ابوطالب کہتے ہیں:
’’ہم تمھارے پاس ایک بات لائے ہیں،اِس بات کا وہ جواب دو، جو تمھارے نزدیک صحیح ہو۔‘‘
سردارانِ قریش کہتے ہیں:
’’ہاں کہو! وہ کیا بات ہے جو تم لائے ہو؟‘‘
ابوطالب سردارانِ قریش کو متوجہ پاکر کہتے ہیں:
’’میرے بھتیجے نے مجھے خبر دی ہے کہ تمھاری جانب سے لکھی جانے والی مقاطعہ کی دستاویز کی تحریر دیمک چاٹ گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرا بھتیجا جھوٹ نہیں بولتا۔ اب تم وہ دستاویز منگوا کر دیکھو، اگر میرے بھتیجے کی بات سچی ہے، تو قطع رحمی سے باز آ جاؤ اور جو کچھ تم نے اُس دستاویز میں لکھا ہے ختم کر ڈالو۔ لیکن اگر وہ جھوٹا ہے تو میں اُسے تمھارے حوالے کر دوں گا۔ پھر تمھیں اختیار ہے، چاہے قتل کر دو یا زندہ رہنے دو۔‘‘
سردارانِ قریش کے دلوں کو یہ بات لگتی ہے، کہنے لگتے ہیں:
’’ابوطالب آپ نے انصاف کی بات کی۔‘‘
کعبہ سے اُتار کر دستاویز کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ تو سب مبہوت رہ جاتے ہیں کہ
’’مقاطعہ کی ظالمانہ تحریر کو واقعی دیمک چاٹ گئی تھی۔‘‘
حزن کا سال
موت کا فرشتہ اب محمد (ﷺ) کے شفیق چچا اور واحد سہارے ابوطالب کے سرہانے آکھڑا ہوتا ہے۔
آہ! آج وہ بستر مرگ پر ہے کہ جس نے کفار کی دشمنیوں کے رُخ موڑ دیے تھے اور جس نے اپنے چہیتے اور لاڈلے بھتیجے محمد(ﷺ) کے ہر دُکھ اور غم میں ساتھ دیا تھا۔
سردارانِ قریش ابوطالب کی زندگی کی گھڑیاں قریب الاختتام دیکھتے ہیں تو عیادت کے لیے آ پہنچتے ہیں۔ سردارانِ قریش کو قریب پاکر ابوطالب اپنی نقاہت بھری آواز میں پہلے تو قریش کی خوبیاں اور خصائل بیان کرتے ہیں۔ پھر بات کا رُخ سردارانِ قریش کی جانب موڑتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اے سردارانِ قریش! خانہ کعبہ کی تعظیم ملحوظ رکھنا! اسی میں ربّ کی خوشنودی ہے۔ قطع رحمی، زیادتی اور حق ماری نہ کرنا۔ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا۔ سائل کی حاجت روی کرنا، صداقت اور ادائے امانت کے پابند رہنا۔ میں تمھیں محمد(ﷺ) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ اس کے ساتھ زیادتی سے پیش نہ آنا کہ یہ قریش میں ’’امین‘‘ اور عرب میں ’’صادق ترین‘‘ آدمی ہے۔ اور ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہیں۔ وہ ایسی بات لایا ہے۔ جسے دِل مانتا ہے اور زبان لوگوں کی دشمنی کی وجہ سے انکار کرتی ہے۔ مگر اللہ کی قسم! میں گویا آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ عرب کے کنگال، کمزور اور اطراف و انواع کے لوگ تو آگے بڑھ کر اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے اِس کلمہ کی تصدیق کریں گے۔ اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور محمد(ﷺ) اُنھیں ساتھ لے کر خطرات میں کود پڑے گا اور قریش کے سردار دم چھلّے بن کر رہ جائیں گے۔‘‘
سردارانِ قریش رخصت ہوتے ہیں تو ابوطالب اپنی اولاد کو اکٹھا کرتے ہیں اور اُنھیں مخاطب کرکے کہتے ہیں:
’’اے میری اولاد! جب تک محمد(ﷺ) کی بات سنو گے، ہمیشہ خیریت سے رہو گے!‘‘
نبی کریم ﷺ جب یہ سنتے ہیں تو حیرت سے پوچھتے ہیں:
’’چچاجان! آپ اِن لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو کیوں چھوڑے دے رہے ہیں۔‘‘
بھتیجے کا سوال سُن کر ابوطالب جواب دیتے ہیں:
’’میں پسند نہیں کرتا کہ موت کے وقت گھبرا کر اُکھڑ جانے والا قرار پاؤں اور قریش یہ رائے قائم کریں کہ میں نے صحت کی حالت میں تو اس چیز کو اختیار نہ کیا۔ مگر موت کی گھبراہٹ میں اسے اختیار کیا۔‘‘
ابوطالب کا یہ جواب سن کر نبی کریم(ﷺ) کے چہرہ اقدس پر کرب کے آثار ہویدا ہوجاتے ہیں۔
ابوطالب کے چل بسنے کے بعد نبی کریم ﷺ پر ایک اور کوہ غم ٹوٹ پڑتا ہے۔ خدیجہؓ کہ جس نے ہر آن رفاقت نبھائی تھی اور جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ
’’کانت لہ وزیراً‘‘
تین روز بعد خالق حقیقی سے جا ملتی ہیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنOط
اوچھے ہتھکنڈے
ستم کی چکی پہلے ہی شدت سے چل رہی تھی۔ مگر ابوطالب کے چل بسنے کے بعد ظالموں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اَب تو دشمنانِ حق داعئ حقؐ کے ساتھ دست درازی تک کرنے سے نہیں چوکتے۔
وہ گلیوں اور محلوں میں دعوت سنانے نکلتے ہیں تو آوارہ لونڈوں کے غول پیچھے لگ جاتے ہیں۔ قرآن سناتے ہیں تو شور مچایا جاتا ہے۔ نماز پڑھتے ہیں تو تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ جسم اطہر پر غلاظت پھینکی جاتی ہے۔ راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں۔
مگر محمد(ﷺ) برابر اپنے کام میں مگن لوگوں کو گمراہی کے گڑھوں سے نکالنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ یہ معاملہ دیکھ کر کفار زیادہ بھڑکتے ہیں۔
ابولہب کی بیوی اُمِّ جمیل ہاتھ میں پتھر اُٹھائے رسالت مآب(ﷺ) کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ تاکہ پتھر سے اُن کا کام تمام کر دے۔ یوں ڈھونڈتے ڈھونڈتے حرم تک جا پہنچتی ہے۔ نبی پاک (ﷺ) یہاں موجود ہیں۔ مگر اُمِّ جمیل کی نظر اتنی رسائی نہیں پاتی کہ وہ محمد(ﷺ) کو دیکھ سکے۔ وہیں ابوبکرؓ کو کھڑے دیکھ کر سارا غصہ اُن پر نکالتی ہے اور چیخ چیخ کر کہنے لگتی ہے:
مُذ۱۱؂َمَّمًا عَصَیْنَا وَ اَمْرَ اَبَیْنَا وَ دِیْنَہٗ قَلَیْتًا
’’ہم نے اس کی نافرمانی کی، اس کی بات ماننے سے انکار کیا اور اس کے دین سے بغض رکھا۔‘‘
ایک اور موقع پر ابوجہل ہاتھ میں پتھر اُٹھائے اِسی مقصد کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ مگر خدا کے اس فرستادہ نبی محمد(ﷺ) کے رعب سے کچھ یوں مرعوب ہوتا ہے کہ کچھ کرنے کے بجائے اُلٹے پاؤں پلٹ جاتا ہے۔
قریش مکّہ محفل جمائے بیٹھے ہیں اور موضوع جناب رسول کریم ﷺ کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ اُن میں سے ایک کہہ رہا ہے:
’’ہم نے اس شخص کے بارے میں جتنا درگزر اور برداشت سے کام لیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘
اِسی لمحہ حضور(ﷺ) بھی آپہنچتے ہیں۔ اہل محفل رسول کریم ﷺ سے مخاطب ہوکر استفسار کرتے ہیں کہ
’’کیا آپؐ ایسا ہی کہتے ہیں؟‘‘
نبی کریم (ﷺ) پوری اخلاقی جرأت اور حوصلے سے جواب دیتے ہیں:
’’ہاں میں ایسا ہی کہتا ہوں!!‘‘
نبی کریم (ﷺ) کی زبان سے جونہی یہ الفاظ نکلتے ہیں ۔ وہ ظالم بھیڑیوں کی مانند پل پڑتے ہیں۔ پیٹتے پیٹے تھک جاتے ہیں تو آپ(ﷺ) فوق الانسانی جرأت سے کام لے کر ستمگروں سے کہتے ہیں:
’’میں تمھارے لیے یہ پیغام لایا ہوں کہ تم ذ۱۲؂بح ہوجانے والے ہو۔‘‘
نبی کریم ﷺ حرم کا تین مرتبہ طواف کرتے ہیں۔ حرم میں عقبہ۱۳؂ بن معیط، ابوجہل اور امیہ بن خلف بھی موجود ہیں۔ حضور اکرم ﷺ دورانِ طواف جب بھی ان کے پاس سے گزرتے ہیں۔ ان ظالموں کی زبانیں الفاظِ بد بکنے لگتی ہیں۔
آخر کار صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور نبی کریم ﷺ کے چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے۔ انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بخدا تم بغیر اس کے باز نہ آ ؤ گے کہ تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے۔‘‘
یہ کہہ کر نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حرم سے باہر نکل آتے ہیں اور ساتھیوں سے فرماتے ہیں:
’’تم لوگوں کو بشارت ہو۔ اللہ تعالیٰ یقیناًاپنے دین کو غالب کرے گا اور اپنے دین کی مدد کرے گاا ور یہ لوگ جنھیں تم دیکھتے ہو، اللہ تعالیٰ بہت جلد تمھارے ہاتھوں ذبح کرائے گا۱۴؂۔‘‘
محمدﷺ مکہ کے بازار سے گزر رہے ہیں۔ مکہ کا ایک اوباش ترین شخص آگے بڑھ کر سر مبارک پر مٹی ڈال دیتا ہے۔ آپ ﷺ اِسی حال میں گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ تو ایک صاحبزادی آگے بڑھ کر سردھوتی ہیں اور ساتھ ساتھ کفار کی اس دست درازی پر روتی بھی جاتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رو نہیں میری بیٹی! اللہ تیرے باپ کا حامی ہے۔‘‘
کعبۃ اللہ کے پاس محمدﷺ ربِّ کائنات سے محو گفتگو ہیں۔ پاس ہی ابوجہل مجلس جمائے بیٹھا ہے۔ نبی پاک ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھ کر اپنے حامیوں سے کہتا ہے:
’’تم میں سے کون ہے، جو ایک روز قبل مرے ہوئے اُونٹ کی اوجھ اور آلائش لاکر اس شخص کی پیٹھ پر سجدے کی حالت میں رکھ دے۔‘‘
عقبہ بن ابی معیط اس کام کا بیڑا اُٹھاتا ہے اور اُونٹ کی اُوجھ اور آلائش لا کر آپﷺ کے پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان اُس وقت رکھتا ہے۔ جب وہ سجدے کی حالت میں جاتے ہیں۔ اس قدر بوجھ ہے کہ آپ ﷺ اُٹھ نہیں سکتے۔ یہ منظر دیکھ کر شقی القلب ابوجہل خوشی سے دیوانہ ہوجاتا ہے اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے پر گرنے لگتا ہے۔ اس واقعہ کی اطلاع کوئی شخص محمدﷺ کے گھر جا کر دے دیتا ہے تو فاطمہؓ دوڑی دوڑی آتی ہیں۔ آپﷺ نماز ختم کر چکنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’اے اللہ! قریش سے نمٹ لے
اے اللّٰہ! قریش سے نمٹ لے۔
اے اللّٰہ! قریش سے نمٹ لے۔‘‘
رسولِ کریم ﷺکی زبان سے کفار بد دعا سنتے ہیں تو خوفزد۱۵؂ہ ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اُنھیں یقین ہے۔ آپ ﷺ جسے بد دعا دے دیں وہ کبھی بھی عذاب سے نہیں بچ سکتا!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ ابوعمارہؓ کنیت اور نام حمزہؓ تھا۔ عبدالمطلب کے بیٹے اور حضورؐ کے محترم چچا تھے۔ حضورؐ اور حمزہؓ دونوں نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔ اس وجہ سے آپ دونوں رضائی بھائی بھی تھے۔ بعثت کے دوسرے سال مسلمان ہوئے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوگئے۔ وحشی بن حرب نے آپ کو شہید کیا تھا۔ حضورؐ سے حضرت حمزہؓ دو یا چار سال بڑے تھے۔

۲۔ ابوالحکم ابوجہل کی کنیت تھی۔

۳۔ اِن کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ نبوت کے چھٹے سال دارِ ارقم میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ ان سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام قبول کر چکی تھیں۔ جب عمرؓ اسلام لائے تو جبرائیل نے آکر حضورؐ سے فرمایا: ’’اے محمدؐ! تمام آسمانوں والے عمر کے اسلام سے بہت خوش ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ کی وجہ سے اسلام کو بہت تقویت ملی۔ تمام غزوات میں شریک رہے۔ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمومنین کے لقب سے پکارے گئے۔ مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ نے مدینہ میں ۲۳ہجری میں آپ کو زخمی کیا، اِسی زخم کی وجہ سے ۱۴ دن بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ اُس وقت ان کی عمر۶۳ سال تھی۔ مدّت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ نمازجنازہ صہیبؓ رومی نے پڑھائی۔

۴۔ مقاطعہ کی یہ دستاویز منصور بن عکرمہ عبدری نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر کعبے میں لٹکائی ، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بعد میں اِس ظالم کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔

۵۔ یہ فضلہ بن ہاشم بن عبدمناف کے بھتیجے یعنی اُس کے ماں جائے بھائی کے بیٹے ہیں۔ یہ اس موقع پر چوری چھپے صلہ رحمی کا بھی حق ادا کرتے رہے۔

۶۔ یہ بنی مخزوم کا رئیس تھا۔ یہ اُمِّ سلمہؓ کا بھائی اور حضورؐ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا بیٹھا تھا۔

۷۔ ابوجہل کی کنیت۔

۸۔ یہ بنی نوفل بن عبد مناف کا سردار تھا۔

۹۔ یہ بنی اسد بن عبدالعزّیٰ کا سردار تھا۔

۱۰۔ یہ بھی بنی اسد بن عبدالعزّیٰ کے سرداروں میں سے تھا۔

۱۱۔ کفارِ مکہ کی اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ اُنھوں نے آپ کا نام بگاڑ کر مذمّم کہنا شروع کر دیا۔ مذمّم کے معنی ہیں جس کی مذّمت کی گئی ہو! خدا کے رسولؐ! اِس کے جواب میں فرمایا کرتے: ’’دیکھو! مجھے قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح میرے ربّ نے بچا لیا۔ وہ مذمّم کو گالیاں دیتے ہیں۔ مذمّم پر لعنت کرتے ہیں اور میں تو محمدؐ ہوں۔ (بخاری شریف)

۱۲۔ یعنی جو ظلم کی چھری تم مجھ پر تیز کر رہے ہو وہ وقت آنے والا ہے۔ جب اسلام کو عروج حاصل ہوگا اور اس تیز چھری سے تمھیں خود ذبح ہونا پڑے گا۔

۱۳۔ یہ بہت شقی القلب مشرک تھا۔ اس نے حضورؐ کو بے انتہا اذیتیں دیں۔ حضورؐ کے قتل کے منصوبے جب بنائے جا رہے تھے تو یہ اُس خفیہ میٹنگ میں بھی شریک تھا۔ مشرکین کی ہر مرحلے پر مدد و اعانت کرتا رہا۔

۱۴۔ یعنی یہ لوگ تمھارے ہاتھوں بہت جلد مفتوح ہوجائیں گے۔

۱۵۔ بعض روایات میں ہے کہ حضورﷺ نے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ بن ربیعہ، اُمیّہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کا نام لے کر بد دُعا دی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top