skip to Main Content

۵ ۔ مبارک ہستی

حکیم محمد سعید

۔۔۔۔۔۔۔۔

وحی
اس مبارک ہستی کی زندگی کو دیکھیے ،جس کو اللہ نے اپنا رسولﷺ بنایا اور جس کے ذریعہ سے ساری دنیا کو ہدایت کی روشنی عطا کی ،وہ کس طرح دنیا میں تشریف لائے ۔آپﷺ کے والد محترم ،عبداللہ اپنے والدین کے سب سے چہیتے بیٹے تھے ۔جوان ہوئے ۔حضرت آمنہ سے شادی ہوئی ۔پھر تجارت کے لیے شام گئے تو مکّے واپس نہ آئے ۔راستے ہی میں یثرب کے مقام پر ان کا انتقال ہو گیا ۔اس کے بعد حضرت آمنہ کے گھر آپﷺ پیدا ہوئے ۔والدہ آپﷺ کی پرورش کرتی رہیں اور جب آپﷺ بڑے ہو گئے اور والدہ کی پرورش کی ضرورت نہ رہی تو حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔
اب آپﷺ یتیم اور بے سہارا رہ گئے ۔لیکن اللہ جس نے آپﷺ کو دنیا کی ہدایت کے لیے پیدا کیا تھا، وہی آپﷺ کا مدد گار رہا ۔آپﷺ کو جو اہم کام سونپا جانے والا تھااس کے لیے آپ کو شروع ہی سے تیار کیا جا رہا تھا۔نبوت ملنے سے بہت عرصے پہلے تک آپﷺ اپنے پرورد گار کی ایسی نشانیاں دیکھا کرتے تھے ،جو آپ ﷺ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں۔آپﷺ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صحیح ثابت ہوتا ۔آپﷺ کو تنہائی پسند تھی، اس لیے آپﷺ مکّے کے شہر سے نکل کر پہاڑوں کی طرف چلے جاتے اور شہر کی گہما گہمی سے پہاڑوں کی خاموشی اور تنہائی کو پسند کرتے ۔آپﷺ اپنے چاروں طرف ایک نور دیکھتے ۔چاہے سورج کی روشنی ہو یا رات کا اندھیراآپﷺ کو ہر طرف ایک روشنی نظر آتی ۔آپﷺ چلتے تو آپﷺ کو ایسی آوازیں سنائی دیتیں جیسے کوئی آپﷺ سے چُپکے چپکے باتیں کر رہا ہو۔ایسی آوازیں آپﷺ درختوں ،پتھروں اور کنکریوں سے بھی سنتے ۔آپﷺ ان آوازوں سے خوف زدہ ہو گئے کیوں کہ آپ ﷺ نہ جانتے تھے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ۔چناں چہ ایک دن پریشان ہو کر آپﷺ نے اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ سے اس کا ذکر کیا۔انھوں نے آپ ﷺ کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ آپﷺ کو آپﷺ کا پرورد گار سب سے زیادہ پسند کرتا ہے ،وہ آپﷺ کوکوئی تکلیف نہیں دے گا ،کیوں کہ آپﷺ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ،سچ بولتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ۔
آخر کار وہ دن آگیا جب آپﷺ کو پیغمبری عطا ہوئی ۔آپﷺ مکے سے تین میل کے فاصلے پر منیٰ کی طرف جاتے ہوئے کوہِ حرا کے ایک غار میں تشریف لے جایا کرتے تھے جسے غارِ حرا کہتے ہیں ۔اور وہاں بیٹھ کر تنہائی میں اللہ کو یاد کیا کرتے تھے ۔ایک دن آپﷺ اسی طرح اللہ کی یاد میں مصروف تھے کہ یکایک جبریل امین آئے ۔ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک کتاب ان کے ہاتھ میں تھی ۔انھوں نے آکر حضورﷺسے کہا ،’’اِقْرَا‘‘ (پڑھو)
حضورﷺ نے فرمایا :’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
یہ سن کر جبریل امین نے آپﷺ کو زور سے بھینچا ،پھر آپ کو چھوڑ دیا اور دوبارہ کہا :’’پڑھو‘‘۔ آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا،’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ جبریل امین نے پھر اتنی زور سے بھینچا کہ حضور ﷺ کو محسوس ہوا جیسے آپﷺ کا دم نکل جائے گا۔پھر انھوں نے آپﷺ کو چھوڑ دیااور تیسری بار کہا،’’پڑھو‘‘۔حضورﷺ نے تیسری بار بھی یہی جواب دیا ،’’میں کیا پڑھوں ؟‘‘
اس پر حضرت جبریل نے یہ آیات پڑھیں :
اِقْرَا بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِِ ۔اِقْرَاوَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔عَلَّمَ الاِنْسَانَ مَا لَمْ ےَعْلَمْ ۔
چناں چہ آپﷺ نے اِن الفاظ کو دُہرایا ۔اس کے بعد جبریل چلے گئے ۔آپﷺ کو ایسا معلوم ہوا جیسے یہ الفاظ آپﷺ کے سینے پر لکھ دیے گئے ہیں ۔
آپﷺ گھر واپس آئے اور حضرت خدیجہؓ کو سارا واقعہ سنایا ۔حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلی دی اور کہا:آپ نیکی کرتے ہیں ،صدقہ دیتے ہیں ،محتاجوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپﷺ کا بال بیکا نہ ہونے دے گا۔‘‘
حضرت خدیجہؓ پھر فوراًاپنے چچا زاد بھائی ،ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور انھیں سارا ماجرا سنایا ۔وَرقہ عیسائی تھے اور توریت اور انجیل کے بڑے عالم تھے۔انھوں نے سُن کر کہا:
’’اے خدیجہ ،اللہ کی قسم ! یہ وہی فرشتہ تھا جو اِس سے پہلے موسیٰ کے پاس کتاب لا چکا ہے ۔محمّد ﷺ یقینااللہ کے رسول ہیں ۔تم ان سے جا کر کہوکہ وہ ثابت قدم رہیں ۔‘‘
آپﷺ سچّے ہیں
جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اسلام کی دعوت اب کھُل کر دیں اور اپنے سب سے قریبی عزیزوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں تو ایک روز صبح کو آپﷺ نے صفا کی پہاڑی کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے قریش کو پکارا:
عرب میں یہ قاعدہ تھا کہ جب صبح سویرے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تھا تو جس شخص کو اس کا پتا چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کر دیتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی اس کی طرف دوڑ پڑتے ۔
چناں چہ جب حضورﷺ کی آواز لوگوں نے سنی تو سب لوگ اپنے گھروں سے نکل آئے ۔جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے قریش کے ایک ایک خاندان کانام لے لے کر پُکارااور فرمایا:
’’لوگو!اگر میں تمھیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟‘‘
سب نے کہا:
’’ہاں ہم جانتے ہیں کہ تم سچے ہو۔تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’اچھا ،تو میں تمھیں خبر دار کرتا ہوں کہ اللہ کا عذاب آنے والا ہے ۔اپنی جانوں کو ا س سے بچانے کی فکر کرو ۔ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن دوسرے لوگ نیکیاں لے کر آئیں اور تم لوگ بُرائیاں لے کر آؤ ۔تم اللہ پر ایمان لے آؤ ۔میں اللہ کے سامنے تمھارے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ بولتا ،حضورﷺ کے اپنے چچا ،ابو لہب نے کہا:
’’تمھارا بُرا ہو!کیا تم نے ہمیں اس لیے یہاں جمع کیا تھا؟‘‘
اس طرح ابو لہب نے بات کاٹ دی اور قریش کے لوگوں کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیا۔وہ پہلے ہی دن سے آپﷺ کا اور دین اسلام کا دشمن ہو گیا اور آپﷺ کو طرح طرح سے ایذائیں پہنچانے لگا ۔اس کی دشمنی اتنی سخت تھی اور اس کی حرکتیں اتنی بُری کہ قرآن پاک میں اس کا نام لے کر اس پر اللہ نے اپنی ناراضی کا اظہار کیااور دنیا ہی میں اُس کو اس کی حرکتوں کی سزا دے دی۔
دین میں ثابت قدمی
رسول اللہ ﷺ جب اللہ کاپیغام لے کر اٹھے ،بُت پرستی کی علانیہ مذمت شروع کی تو مکّے کے قریش آپﷺ کے سخت مخالف ہو گئے اور انھوں نے آپﷺ کے چچا حضرت ابو طالب سے جو آپ ﷺ کے سر پرست تھے آکر شکایت کی ۔حضرت ابو طالب نے انھیں نرمی سے سمجھا بجھا کر واپس کر دیا۔
جب حضورﷺ اسی تن دہی سے دین کی تبلیغ فرماتے رہے تو قریش کے بڑے بڑے لوگ پھر ایک جماعت کی شکل میں حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے :
’’تمھارا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کر تا ہے ،ہمارے باپ دادا کو گم راہ کہتا ہے ، ہم کو بے وقوف کہتا ہے ۔اس لیے یا تو تم بیچ سے ہٹ جاؤ یا پھر تم بھی میدان میں آجاؤتا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے ۔‘‘
حضرت ابو طالب نے قریش کے سرداروں کی بات سن کر محسوس کیا کہ یہ لوگ اب زیادہ برداشت نہیں کریں گے اور وہ اکیلے ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔چناں چہ انھوں نے حضورﷺ کو بلا یااور آپﷺ کو بتایا کہ قریش کیا کہہ گئے ہیں ۔انھوں نے کہا:
’’میرے بھتیجے !مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اُٹھا نہ سکوں ۔‘‘
حضور ﷺ کو محسوس ہو اکہ اب اُن کے چچا بھی اُن کی حمایت سے ہاتھ اٹھا رہے ہیں اور یہ سہارا بھی ختم ہو رہا ہے تو آپ ﷺ کا دل بھر آیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے ۔لیکن آپﷺ تو اللہ کے حکم سے اور اسی کے بھروسے پر دین کو لے کر اُٹھے تھے،آپ ﷺ نے فرمایا:
’’چچا جان ! اللہ کی قسم !اگر یہ لوگ میرے سیدھے ہاتھ پر سورج رکھ دیں اور الٹے ہاتھ پر چاند تو بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا ۔یہاں تک کہ اللہ اس کام کو پورا کر دے گا یا میں اس پر اپنی جان قربان کر دوں گا ۔‘‘
حضرت ابو طالب پر حضورﷺ کے ان پُر درد الفاظ کا ایسا اثر ہوا کہ انھوں نے کہا:
’’جاؤ،کوئی شخص تمھارا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔‘‘
عُتبہ کو جواب
مکّے کے قریش کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہ کی اور آہستہ آہستہ لوگ مسلمان ہو نے لگے تو قریش کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ حضورﷺ سے بات چیت کر کے آپ ﷺ کو دین کے معاملے میں کسی مصالحت پر راضی کر لیا جائے ۔
چناں چہ ایک روز انھوں نے قریش کے ایک سردار عُتبہ بن رَبیعہ کو حضورﷺ کے پاس بھیجا ۔وہ آپﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’بھتیجے !ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل ہے وہ تم خود جانتے ہو۔تم ایک شریف گھرانے کے فرد ہو۔تم ہم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو۔ خاندان میں پھوٹ ڈال دی ہے ۔ہمارے دین کی بُرائی کرتے ہو،ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہتے ہو، ہمارے باپ دادا کو کافر ٹھیراتے ہو،اب ذرا میری بات غور سے سنو ۔میں کچھ تجویزیں تمھارے سامنے رکھتا ہوں ۔شاید تم ان میں سے کسی کو مان لو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے کہا:’’کہیے ،میں غور سے سنوں گا۔‘‘
عُتبہ بولا:’’بھتیجے ! یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے اگر اس کا مقصد دولت حاصل کرناہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دے دیتے ہیں کہ تم ہم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ،اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں ، اگر بادشاہ بننا چاہتے ہوتو بادشاہ بنا ئے لیتے ہیں ،اگر تم پر کوئی جِن آگیا ہے تو ہم سب مل کر اس کا علاج کرائے دیتے ہیں ۔‘‘
عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضورﷺ خاموشی سے سُنتے رہے ۔پھر جب وہ چُپ ہوا تو حضورﷺ نے فرمایا:
’’آپ کو جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکے یا ابھی اور کچھ کہنا باقی ہے ؟‘‘
عُتبہ نے کہا ،’’’بس مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ میں کہہ چُکا ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’اچھا تو اب میری سنیے ۔‘‘اس کے بعد آپﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر قرآن پاک کی سورۃ حٰم السجدہ پڑھنی شروع کی ۔عُتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سُنتا رہا ۔آیت سجدہ پر پہنچ کر رسول اللہﷺ نے سجدہ کیا ،پھر سر اُٹھا کر فرمایا :
’’آپ نے میرا جواب سن لیا ،اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔‘‘
عتبہ اُٹھ کر قریش کے سرداروں کی طرف آیا تو انھوں نے اسے دور سے دیکھ کر کہا :
’’اللہ کی قسم ،عُتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے ۔یہ وہ صورت نہیں جو وہ لے کر گیاتھا۔‘‘
جب وہ آکر بیٹھا تو انھوں نے پوچھا :
’’کیا سُن آئے ؟‘‘
اس نے کہا:
’’اللہ کی قسم ،میں نے ایسا کلا م اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا ۔یہ شعر ہے ،نہ جادو،اے قریش کے لوگو!میری بات ما نو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔میں سمجھتا ہوں جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ اپنا اثر دِکھا کر رہے گا۔‘‘
قریش کے سردار یہ سن کر کہنے لگے :
’’معلوم ہوتا ہے تم پر بھی ان کا جادو چل گیا۔‘‘
کردار کا اثر
رسو ل اللہ ﷺ ایسے اعلا کردار کے مالک تھے اور آپﷺ کے اخلاق اتنے اچھے تھے کہ ہر شخص چاہے وہ آپﷺ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو ،آپﷺ کی دل سے عزت کر تا تھا۔آپﷺ کی سچائی ،امانت داری او ر انصاف پسندی کا قائل تھا۔آپﷺ کی اِن اعلا صفات ہی کی وجہ سے لوگوں پر آپ ﷺ کا اثر تھا اور کوئی بھی آپﷺ کی بات ٹال نہ سکتا تھا۔آپﷺ کے اس اخلاقی رعب کی وجہ سے آپ ﷺ کے بد ترین دشمن بھی آ پ ﷺ کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے ۔
ایک مرتبہ ایک شخص کچھ اونٹ لے کر فروخت کرنے کے لیے مکّہ مکرمہ آیا۔ابو جہل نے جو قریش کا ایک بڑا سردار تھااور حضورﷺکا سخت دشمن تھا ،اس شخص سے کچھ اونٹ خرید لیے ،لیکن قیمت ادا نہیں کی ۔وہ آدمی جب بھی اس سے اپنی رقم مانگنے آتا ابو جہل اس کوٹال دیا کرتا ۔جب وہ بہت تنگ آگیا تو ایک دن حرم کعبہ میں جا کر چیخ چیخ کر شکایت کرنے لگااور قریش کے سرداروں سے جو وہاں تھے کہنے لگا کہ وہ اس کے پیسے دلوادیں ۔
حضور ﷺ اس وقت حرم شریف میں ایک طرف تشریف فرما تھے۔قریش کے سرداروں نے اونٹ والے سے کہا:
’’دیکھو ،ہم تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتے ۔البتہ وہ صاحب جو اُس کو نے میں بیٹھے ہیں ،اُن سے جا کر کہو ،وہ تمھاری رقم دِلوا دیں گے ۔‘‘
اونٹ والا حضورﷺ کے پاس گیااور آپﷺ سے شکایت کی کہ ابو جہل میرے اونٹوں کی قیمت ادا نہیں کر رہا ہے ۔
حضورﷺ اسی وقت کھڑے ہوئے اور اسے لے کر ابو جہل کے گھر کی طرف چل پڑے ۔
قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا:
’’لو آج مزہ آئے گا۔‘‘اور اپنا ایک آدمی پیچھے لگا دیا کہ جو کچھ واقعہ ہو انھیں آکر بتائے۔
حضورﷺ سیدھے ابو جہل کے مکان پر پہنچے اور جا کر دروازے پر دستک دی ۔اس نے اندر سے پو چھا:
’’کون ؟‘‘
حضورﷺ نے جواب دیا :
’’محمّدﷺ ‘‘
وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا ۔
حضورﷺ نے فرمایا :
اِس کی جو رقم تمھارے ذمّے ہے اس کو دے دو۔‘‘
اُس نے جواب نہ دیا ۔چُپ چاپ اندر گیااور اونٹوں کی قیمت لا کر اونٹ والے کے ہاتھ میں دے دی ۔
قریش کا آدمی دور سے یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔وہ دوڑا دوڑا واپس آگیااور قریش کے سرداروں سے کہنے لگا:
’’واللہ ،آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ،حکم بن ہشام (یہ ابو جہل کا نام تھا)جب گھر سے باہر نکلااور محمد ﷺ کو دیکھا تو اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب انھوں نے اس سے کہا کہ اس آدمی کو حق دے دو تو ایسا لگتا تھا جیسے اس کے جسم میں جان نہیں ہے ۔‘‘
بابرکت ہستی
دوپہر ہو چکی تھی ،اُمِّ مَعبد اپنے خیمے کے آگے سائے میں چادر اوڑھے بیٹھی تھیں ۔وہ بڑی بہادر اور توانا عورت تھیں ۔انھیں صحرا میں اس طرح اکیلے ڈر نہیں لگتا تھا۔
سامنے سے ایک چھوٹا ساقافلہ آتا دکھائی دیا۔اللہ کے رسول ﷺ،اپنے دوست اور ساتھی ،حضرت ابو بکرصدیقؓ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ تھے۔یہ مبارک قافلہ مکّے سے ہجرت کر کے مدینے جا رہا تھا۔خیمے کے پاس پہنچ کر حضورﷺ ٹھیر گئے ۔
چوں کہ زادِ راہ ختم ہو چکا تھا اور حضورﷺ اور آپﷺ کے ساتھی بھوکے تھے ،اس لیے حضورﷺ نے کھجور یا گوشت خریدنے کے ارادے سے اُمِّ معبد سے پو چھا:
’’کوئی چیز کھانے کے لیے ہے ؟‘‘
یہ قحط کا زمانہ تھا اور اُمِّ معبد کے پاس کھانے کوکچھ نہ تھا ۔بڑے افسوس کے ساتھ جواب دیا:
’’واللہ !اگر ہمارے پاس کچھ ہوتا توہم آپ کی مہمان داری کرتے ۔‘‘
رسو ل اللہ ﷺ کی نظر ایک بکری پر پڑی جو خیمے سے بندھی ہوئی تھی ۔حضورﷺ نے فرمایا :
’’اُمِّ معبد یہ بکری کیسی ہے ؟‘‘
انھوں نے جواب دیا :
’’یہ بکری بہت کم زور ہے ۔دوسری بکریوں کے ساتھ چل نہیں سکتی اس لیے وہ دوسری بکریاں چرنے گئی ہیں اور یہ یہاں رہ گئی ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے پوچھا:
’’اس کے کچھ دودھ بھی ہے ؟‘‘
اُمِّ معبد نے جواب دیا :
’’اس کے لیے دودھ دینا،جنگل میں چرنے کے لیے جانے سے بھی مشکل ہے ۔‘‘رسول اللہ نے فرمایا:
’’تمھاری اجازت ہو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں !‘‘
اُمِ معبد بولیں :
’’میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں ،ہاں ،اگر اس کے دودھ ہو تو ضرور دوہ لیجیے ۔‘‘
حضورﷺ نے بسم اللہ کہہ کر بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا :
’’اے اللہ ،اُمِّ معبد کی بکری میں برکت دے ۔‘‘
اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں اور اس کے تھنوں میں دودھ بھر گیا ۔حضورﷺ نے اُمِّ معبد سے فرمایا:
’’اُمِّ معبد !اپنا وہ برتن لاؤ جو سب سے بڑا ہو۔‘‘
اُم معبد نے وہ برتن سامنے رکھ دیا ۔حضورﷺ نے دودھ دوہا۔دودھ تھا کہ چلا آتا تھا،یہاں تک کہ برتن منھ تک بھر گیااور جھاگ اوپر تیرنے لگے ۔حضورﷺ نے وہ برتن اُمّ معبد کو دیا اور فرمایا:
’’اُمِّ معبد پیو۔‘‘
اُمِّ معبد نے خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔جب سیر ہو گئیں تو حضورﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو دیا،پھر وہ پی چکے تو حضرت عامرؓ سے ارشاد ہو اکہ وہ پییں ۔انھوں نے عرض کیا کہ ،’’حضورﷺ !پہلے آپ پییں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’نہیں پلانے والے کو سب سے آخر میں پینا چاہیے ۔‘‘
جب وہ بھی پی چکے تو حضورﷺ نے سب سے آخر میں خود دودھ پیا۔آپ نے وہ برتن دوبارہ اُم معبد کو دیا اور پھر اپنے صحابہؓ کو۔سب نے باری باری دوبارہ دوبارہ دودھ پیا ۔پھر حضورﷺ نے اسی برتن میں دوبارہ دودھ دوہااور دودھ سے بھرا برتن اُمِّ معبد کو دیتے ہوئے فرمایا:
’’اُمِّ معبد!یہ رکھو،تمھاری ضرورت پوری کرے گا۔‘‘
حضورﷺ نے کچھ دیر اُمِّ معبد کے خیمے میں آرام فرمایااور پھر آگے سفر پر روانہ ہو گئے ۔
کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اُمِّ معبد کے شوہر ابو معبد اپنی بکریاں ہنکاتے ہوئے جنگل سے واپس آگئے ۔اِ ن بکریوں کی ایسی حالت تھی کہ کھا ل ہڈی سے لگی تھی اور چلنا تک دو بھر تھا۔انھوں نے برتن میں جو دودھ بھرا دیکھا تو سخت تعجب ہوا ۔پوچھا :
’’یہ دودھ کہاں سے آیا ؟بکریاں تو چرنے گئی ہوئی تھیں اور گھر میں کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں تھی ۔‘‘
ام معبد نے جواب دیا:
’’واللہ !یہ ایک بڑی ہی بابرکت ہستی کے یہاں قدم رکھنے سے ہوا ہے ۔‘‘
ابو معبد نے کہا:
’’اے اُم معبد ،ذرا مجھے ان کا حلیہ بتاؤ۔‘‘
’’وہ ایک بڑے پاکیزہ انسان تھے ،ان کا چہرہ نورانی اور اخلاق اچھے تھے ،وہ بہت خوب صورت تھے ۔وہ جب بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے موتی گر رہے ہوں ،جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر وِقار چھَا جاتا تھا۔ان کی زبان میٹھی اور باتیں سچی تھیں ۔ان کا قد بہت متناسب تھا۔وہ اپنے ساتھیوں میں سب سے ممتاز اور سب سے حسین تھے۔ان کے ساتھی ایسے تھے کہ جب وہ کچھ کہتے تو وہ ادب اور خاموشی سے سنتے ،جب کوئی حکم دیتے تو اسے کرنے کو دوڑتے ۔نہ وہ بد مزاج تھے اور نہ زیادہ باتیں کرنے والے۔‘‘
ابو معبد یہ سن کر بول اُٹھے :
’’واللہ !یہ تو وہی ہیں جن کا ہم نے ذِکر سنا ہے ۔اگر میں اس وقت آجاتا جب وہ یہاں تھے تو میں ان سے درخواست کرتا کہ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے ۔اُمِّ معبد !اگر تمھیں اس کا موقع ملے تو ضرور ایسا کرنا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے ،تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ،تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔‘‘(البقرہ:۱۵۱)
فُضالہ کیا سوچ کر آئے ہو؟
فُضالہ بن عُمیر نے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کا ارادہ کیااور اس نیت سے حرم شریف میں آئے کہ آپ ﷺ پر وارکریں۔ آپ ﷺ اس وقت کعبہ شریف کا طواف کر رہے تھے ۔
جب فضالہ حملے کے ارادے سے آگے بڑھے تو حضورﷺ کی نگاہ ان پر پڑی ۔آپﷺ نے پوچھا:
’’کو ن ؟فضالہ !‘‘
انھوں نے جواب دیا ،’’جی ہاں ،رسول اللہ ﷺ!فضالہ ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا،’’فضُالہ !کیا سوچ کر آئے تھے ؟‘‘
کہنے لگا :’’کچھ نہیں ، اللہ کو یاد کر رہا تھا۔‘‘
حضورﷺ فُضالہ کا جواب سُن کر مسکرائے پھر فرمایا:
’’ فضُالہ !اللہ سے توبہ کرو۔‘‘
پھر آپﷺنے اپناہاتھ ان کے سینے پر رکھا اور ان کے دل میں جو بے چینی تھی وہ ختم ہو گئی۔
فضالہ کہاکرتے تھے ،:’’ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور جب ہٹایا تو آپ ﷺ مجھے اتنے اچھے اور پیارے لگنے لگے کہ جیسے آپ ﷺ سے زیادہ اور کوئی پیاری چیز اللہ نے دنیا میں پیدا ہی نہیں کی۔‘‘
اسلام کیا ہے ؟
رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیااور کہنے لگا،’’یا رسول اللہ ﷺ! اسلام کیا چیز ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے جواب دیا :’’یہ کہ تمھارے دل میں اللہ کے سوا کچھ نہ ہو ،تمھاری زبان اور ہاتھ سے کسی مسلمان کوتکلیف نہ پہنچے ۔‘‘
اس شخص نے پھر سوال کیا،’’اے اللہ کے نبیﷺ!اسلام میں سب سے بڑی کیا چیز ہے ۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا۔’’ایمان ‘‘
اس شخص نے پوچھا ،’’ایمان کا کیا مطلب ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’ایمان کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ پر ،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھو اور اللہ کے رسولوں پر دل سے ایمان لاؤ۔‘‘
اس شخص نے پھر سوال کیا ؛’’یا رسول اللہ ﷺ!ایمان کی سب سے خاص بات کیا ہے ؟
حضور ﷺ نے جواب دیا ،’’ہجرت۔‘‘
اس شخص نے پوچھا ،’’یا رسول اللہ ﷺ!ہجرت کسے کہتے ہیں ؟‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا:
’’بُری باتوں کو چھوڑ دینا۔‘‘
دین کی تعلیم
رسول اللہ،صحابہؓ کے درمیان بیٹھے ہو ئے تھے کہ ایک بدّو آیا اور کہنے لگا:
’’آپ ﷺ کا قاصد ہمارے پاس آیااور اس نے ہم سے کہا کہ آپﷺ کہتے ہیں آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپﷺ کو اللہ نے بھیجا ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’اس نے سچ کہا۔‘‘
بدّو نے پوچھا :’’آسمان کو کس نے پیدا کیا؟‘‘
فرمایا،’’اللہ تعالیٰ نے۔‘‘
اس نے پوچھا :’’زمین اور پہاڑ کس نے بنائے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا۔’’اللہ تعالیٰ نے۔‘‘
اس نے پھر کہا ،’’ان میں ہمارے فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:’’اللہ بزرگ و بر تر نے ۔‘‘
بدّو نے پھر سوال کیا،’’ا س اللہ کی قسم جس نے آسمان کو پیدا کیا،زمین کو بنایا ،پہاڑوں کو کھڑا کیااور ان میں فائدے رکھے ،کیا سچ مچ اللہ ہی نے آپﷺ کو بھیجا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:’’ہاں ‘‘
بدّو نے کہا ۔’’آپ ﷺ کے قاصد کا کہنا تھا کہ ہم پرپانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں اور ہمارے مال میں زکوٰۃ ہے ۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا ،’’اس نے سچ کہا ۔‘‘
بدّو نے پھر سوال کیا، ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو بھیجا ہے ،کیا اللہ نے آپ ﷺ کو یہ حکم دیا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے کہا،’’بے شک،‘‘
اب اس نے کہا،’’آپ ﷺکے قاصد نے یہ بھی کہا کہ سال میں ایک مہینے کے روزے بھی ہیں ۔‘‘
فرمایا، ’’ہا ں سچ کہا۔‘‘
اس نے کہا،’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو رسول بنایا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس کا حکم دیا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے کہا ،’’ہاں ‘‘
بدّو نے کہا، ’’آپﷺ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ اگر قدرت ہو تو حج کریں ۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا:’’ہاں ،سچ کہا۔‘‘
اب بدّو نے پوچھا ،’’کیا اللہ نے اس کاحکم دیا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے جواب دیا ،’’ہاں ‘‘
بدّو بولا ،’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں ان احکام میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔‘‘رسول اللہ ﷺ نے یہ سُن کر فرمایا ،’’اگر یہ سچ کہتا ہے تو جنت میں جائے گا ۔‘‘
دیکھو !نرمی کرنا سختی نہیں
یمن کے علاقے میں جو بحرین تک پھیلا ہوا تھا اسلام کی تعلیم کے لیے حضورﷺ نے اپنے دو صحابہ حضرت مُعاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو مقرر فرمایا۔یہ دونوں یمن کے ایک ضلع میں بھیجے گئے ۔
جب یہ دونوں مدینے سے روانہ ہو نے لگے تو رسول ﷺ نے ان کو بلایا اور فرمایا :
’’دیکھو ، تم دونوں مل کر کام کر نا، لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ،سختی مت کرنا، خوش خبری سنانا ، نفرت مت دلانا ۔تم کو وہ لو گ ملیں گے جو پہلے سے کوئی مذہب رکھتے ہیں ،پہلے ان کو بتانا کہ اللہ ایک ہے ، اس کا کوئی ساتھی نہیں ، پھر بتاناکہ محمد ﷺ کو اللہ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ جب وہ ان دونوں باتوں کو مان لیں تو پھر اُن سے کہنا کہ اللہ نے پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے ۔ جب وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتا نا کہ تم پر زکوٰۃ فرض ہے جو امیروں سے لی جائے گی اور غریبوں کو دی جائے گی ۔
دیکھو ، جب وہ زکوٰۃ دینا قبول کرلیں تو چُن کر صرف اچھا مال نہ لینا۔مظلوموں کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے ۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ !یمن میں جو اور شہد کی شراب بنتی ہے ۔کیا یہ بھی حرام ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’ہا ں ، ہر چیز جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے ۔‘‘
علم کی اہمیت
ایک روز رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے ۔صحابہؓ بھی موجود تھے ۔کچھ ایک طرف بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے اور دعا میں مشغول تھے ۔کچھ صحابہؓ دوسری طرف بیٹھے علمی باتیں کر رہے تھے ۔
حضورﷺ نے دونوں کی طرف دیکھااور فرمایا:
’’یہ دونوں اچھے کام کر رہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے علم سِکھانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘
یہ کہہ کر آپﷺ ان صحابہؓ کے ساتھ بیٹھ گئے جو علمی گفت گو کررہے تھے ۔
اسی طرح ایک مرتبہ دو صحابہؓ آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ایک صاحب نے کہا:
’’اگر ہم دشمن کا مقابلہ کر رہے ہوں اور ہم میں سے کوئی شخص یہ کہہ کر دشمن کے نیزہ مارے کہ ’لو بچو ‘میں غِفاری قبیلے کا جوان ہوں ، تو تمھارے خیال میں اس کا یہ کہنا کیسا ہے ؟‘‘
دوسرے صاحب نے جواب دیا :
’’میرے خیال میں تو یہ صحیح نہیں ، ایسا کہنے والے کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ۔‘‘
ایک تیسرے صحابی بھی قریب بیٹھے یہ گفت گو سُن رہے تھے ۔وہ کہنے لگے :
’’میرے خیال میں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ۔‘‘
اس پر دونوں میں اختلاف ہوا ۔حضورﷺ بھی مجلس میں تشریف فرما تھے۔آپﷺ بھی اُن کی گفت گو سن رہے تھے ۔آپﷺ نے فرمایا:
’’ثواب اور شہرت میں کوئی مخالفت نہیں ۔‘‘
غریب بھائیوں کی مدد کرو
مہاجرین مکّے سے بالکل لُٹے پِٹے مدینے آئے تھے ، اس لیے شروع میں ان کا سارا بوجھ انصار پر تھا۔مہاجرین اسے پسند نہیں کرتے تھے ۔اگر چہ انصار ان کی ہر طرح مدد کرتے تھے اور انھوں نے مہاجرین کی تنگ دستی دور کرنے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں کوئی کمی نہیں کی تھی ، لیکن مہاجرین کسی طرح بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ مدینے میں ان کے انصار بھائیوں پر ان کا بوجھ پڑے ۔مہاجرین مکّے میں مال دار تھے اور اپنا سارا مال اسباب ہجرت کے وقت مکّے میں چھوڑ آئے تھے جس پر کافروں نے قبضہ کر لیا تھا۔ ان کے لیے یہ صورتِ حال اور بھی زیادہ تکلیف دہ تھی ۔
چناں چہ جب مدینے کے یہودی قبیلے ، بنو نضیر کو ان کی شرارتوں اور سازشوں کی وجہ سے مدینے سے نکال دیا گیا اور حضورﷺ ان کا مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم فرمانے لگے تو آپﷺ نے انصار سے فرمایا :
’’تمھارے مہاجر بھائیوں کے پاس کچھ نہیں ہے ۔وہ خالی ہاتھ ہیں اگر اجازت دو تو یہ مال میں ان کو دے دو ں ، لیکن اگر تمھاری مرضی نہ ہو تو میں یہ مال غنیمت تمھارے اور مہاجرینؓ کے درمیان تقسیم کر دوں ۔‘‘
انصارؓ حضورﷺ کی یہ بات سن کر کھڑے ہو گئے اور ادب سے عرض کر نے لگے :
’’یا رسول اللہ ﷺ !آپﷺپر ہمارے ماں باپ قربان ہوں ، آپ نہ صرف یہ مال مہاجرین میں تقسیم کر دیجیے ، بلکہ ہمارے مال میں سے بھی جو چاہیں ان کو دے دیجیے ۔‘‘
سچ کی گواہی
رسول اللہ ﷺ نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا ۔آپﷺ اس اعرابی کو ساتھ لے چلے کہ اس کی قیمت ادا کریں ۔آپﷺ تیز چل رہے تھے اور اعرابی آہستہ ۔اس لیے آپﷺ اس سے کچھ دور ہو گئے ۔لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ گھوڑا بِکاؤ ہے ،اعرابی کو روک لیااور گھوڑے کی قیمت لگا نے لگے ۔ ان کو یہ خبر نہ تھی کہ یہ گھوڑا تو اعرابی حضورﷺ کے ہاتھ بیچ چکا ہے ۔کچھ لوگوں نے گھوڑے کی اس قیمت سے جو حضورﷺ سے طے ہو چکی تھی ،زیادہ قیمت لگا دی ۔
اعرابی نے جب یہ دیکھا کہ گھوڑے کی قیمت زیادہ مل رہی ہے تو حضورﷺ کو آواز دی اور کہنے لگا،’’اگر تمھارا ارادہ اسے خریدنے کا ہے تو خرید لو۔ ورنہ میں اسے بیچتا ہوں ۔‘‘
یہ سُن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ،’’کیا میں تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں چکا ہوں ؟‘‘
وہ بو لا :’’نہیں ۔‘‘
اب لوگ حضور ﷺاور اعرابی کے گرد جمع ہو گئے ۔ اب اعرابی نے یہ کہنا شروع کیا کہ کوئی گواہ لاؤ جو یہ شہادت دے سکے کہ میں نے گھوڑا آپﷺ کے ہاتھ بیچ دیا ہے ۔
اب مسلمانوں میں سے جو بھی وہاں آتا وہ یہی کہتا:
’’اے بد بخت ، اللہ کے رسول ﷺ ہمیشہ سچ فرماتے ہیں ۔‘‘
اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت خذیمہ بن ثابتؓ آگئے ۔انھوں نے بھی اعرابی کی یہ بات سنی جو حضورﷺ سے کہہ رہا تھا کہ کوئی گواہ لائیے جو یہ گواہی دے کہ میں گھوڑا آپﷺ کے ہاتھ بیچ چکا ہوں ۔
خُذیمہؓ فوراً بول اُٹھے :
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ تو یہ گھوڑا رسو ل اللہ ﷺ کے ہاتھ بیچ چکا ہے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے حضرت خذیمہؓ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
’’خُذیمہ ! تم کیسے گواہی دیتے ہو؟ تم تو ہمارے ساتھ نہیں تھے۔‘‘
خُذیمہؓ نے جواب دیا :
’’یا رسو ل اللہ ﷺ ، اس لیے کہ آپﷺ سچّے ہیں ۔آپﷺ جب آسمان کی خبر دیتے ہیں تو ہم آپﷺ کی تصدیق کرتے ہیں تو اس بات کی تصدیق کیوں نہ کریں ؟‘‘
دانش مندی کا فیصلہ
ابتدا میں کعبے کی عمارت آدمی کے قد کی برابر اونچی تھی اور اس پر کوئی چھت بھی نہیں تھی ۔بارش کے دنوں میں آس پاس کی پہاڑیوں سے پانی بہ کر آتا جس سے اکثر کعبے کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ، چناں چہ قریش نے فیصلہ کیا کہ اس عمارت کو گرا کر دوبارہ ایک مضبوط عمارت بنا لی جائے ۔
ان دنوں جدّے کی بندر گاہ پر ایک جہاز ساحل سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا تھا۔ قریش نے اپنا ایک آدمی جدّہ بھیج کر اس جہاز کے لکڑی کے تختے منگوا لیے ۔جہاز پر ایک رومی معمار بھی تھا، اسے بھی بلا لیا تا کہ وہ کعبے کی نئی عمارت بنانے میں مدد کر سکے ۔
قریش کے تمام قبیلوں نے مل کرکعبے کی عمارت بنانی شروع کی۔انھوں نے مختلف کام اپنے اپنے ذمّے لے لیے تا کہ سارے قبیلوں کو کعبے کی تعمیر میں حصّہ لینے کی عزت حاصل ہو سکے ۔
جب عمارت بن کر تیار ہو گئی اور حجر اسود لگانے کا وقت آیا تو اس بات پر جھگڑا ہونے لگا کہ یہ عزت کس قبیلے کوحاصل ہو۔یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ تلواریں نکل آئیں اور لڑائی کی نوبت آگئی ۔آخر کار قریش کے ایک بزگ نے جن کانام ابو امیّہ بن مغیرہ تھااٹھ کر کہا:
’’اے قریش کے لوگو !اس بات پر اتفاق کر لو کہ کل صبح سب سے پہلے جو شخص اس مسجد کے دروازے سے داخل ہو وہ اس کا فیصلہ کر دے ۔‘‘
چناں چہ دوسرے دن صبح صبح تمام سردار وہاں پہنچ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں کون شخص سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔یہ اللہ کی قدرت تھی کہ سب سے پہلے جس شخص پر ان کی نظریں پڑیں وہ اللہ کے رسولﷺ تھے ۔سب پکار اٹھے:
’’امین آگئے، محمّد ﷺ آگئے ۔یہ ہمیں پسند ہیں ۔‘‘
قریش کے سرداروں نے حضورﷺ کو ساری بات بتائی اور کہا کہ آپﷺ فیصلہ کر دیجیے ۔آپﷺ جو فیصلہ کریں گے وہ ہم سب مانیں گے ۔
آپﷺ نے ایک چادر منگائی اور حجر اسود اس پر رکھ دیا ۔پھر آپﷺ نے سب قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑ لیں اور اسے اٹھا کر اس جگہ تک لے چلیں جہاں پتھر لگانا ہے ۔جب قریش کے سردار وہ چادر وہاں تک لے آئے توحضورﷺ نے پتھر اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر لگا دیا ۔ا س طرح آپﷺ کی دانش مندی سے ایک بڑا جھگڑا ٹل گیا اور خون خرابہ رُ ک گیا۔
اس واقعے سے حضورﷺ کی شرافت ،انکساری اور انصاف پسندی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپﷺ نے حجرِ اسود کو کعبے میں لگانے کا اعزاز اکیلے حاصل کرنا نہیں چاہا ۔بلکہ قریش کے تمام قبیلوں کو اس میں شریک کرلیا۔
ابن سعد کا کہنا ہے کہ صرف یہی ایک موقع نہ تھاجب حضورﷺ نے قریش کے ایک جھگڑے کا فیصلہ کیا بلکہ نبوت سے پہلے اکثر لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے حضور ﷺ کے پاس آتے تھے اور آپﷺ دانش مندانہ اور منصفانہ فیصلے فرماتے تھے۔
غیرت
حضورﷺ کسی کونادم و شرمندہ ہوتے دیکھنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ کو کسی کی کوئی بات ناپسندیدہ نظر آتی تو آپ ﷺ اس کا نام لے کر خصوصیت کے ساتھ کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ یوں کہہ دیتے تھے کہ ’’وہ کیسے لو گ ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘یوں اس کو اشارتاًتنبیہ ہو جاتی اور وہ دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جاتا۔باقی لوگوں کو بھی اس حرکت کی خرابی معلوم ہو جاتی ۔
بھری محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے آپ ﷺ زبان سے کچھ نہ کہتے ،چہرے کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہؓ سمجھ جاتے اور ان کو تنبیہ ہو جاتی ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top