skip to Main Content

۳ ۔ ہجرت کا آغاز

اشتیاق احمد

ہجرت کا آغاز

اگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے۔ان میں سے پانچ وہ تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپﷺ سے مل کر گئے تھے۔ان لوگوں سے بھی آپﷺ نے بیعت لی۔آپﷺ نے ان کے سامنے سورۃ النساء کی آیات تلاوت فرمائیں۔
بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس مدینہ منورہ جانے لگے تو آپﷺ نے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن مکتومؓ کو بھیجا۔ آپﷺ نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو بھی ان کے ساتھ بھیجاتا کہ وہ نئے مسلمانوں کو دین سکھائیں،قرآن کی تعلیم دیں۔انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ یہ مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی ہیں جنہیں قاری کہا گیا۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز پڑھانا شروع کی۔ سب سے پہلا جمعہ بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔جمعہ کی نماز اگرچہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی،لیکن وہاں مشرکین کی وجہ سے مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکے۔سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ منورہ میں دین کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سعد بن معاذ اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت اسید بن حضیرؓ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ان کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیرؓ حج کے دنوں میں واپس مکہ پہنچے۔مدینہ منورہ میں اسلام کی کامیابیوں کی خبر سن کر آپﷺ بہت خوش ہوئے۔ مدینہ منورہ میں جو لوگ اسلا م لا چکے تھے ان میں سے جو حج کے لئے آئے تھے، انہوں نے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں رات کے وقت آپﷺ سے ملاقات کی۔جگہ اور وقت پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ان لوگوں کے ساتھ چونکہ مدینہ سے مشرک لوگ بھی آئے ہوئے تھے اور ان سے اس ملاقات کو پوشیدہ رکھنا تھا،اس لئے یہ ملاقات رات کے وقت ہوئی۔یہ حضرات کل ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں۔ملاقات کی جگہ عقبہ کی گھاٹی تھی۔وہاں ایک ایک دو دو کر کے جمع ہو گئے۔اس مجمع میں گیارہ آدمی قبیلہ اوس کے تھے۔پھر آپﷺ تشریف لے آئے۔
آپﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ بھی ساتھ تھے۔ان کے علاوہ آپﷺ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حضرت عباسؓ بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت آپﷺ گویا اپنے چچا کے ساتھ آئے تھے تا کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں۔ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ بھی ساتھ آئے تھے۔سب سے پہلے حضرت عباسؓ نے ان کے سامنے تقریر کی۔انہوں نے کہا:
’’تم لوگ جو عہد و پیمان ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کرو،اس کو ہر حال میں پورا کرنا،اگر پورا نہ کر سکو تو بہتر ہے کہ کوئی عہد و پیمان نہ کرو۔‘‘
اس پر ان حضرات نے وفا داری نبھانے کے وعدے کیے۔ تب نبی اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:
’’تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک یہ کہتا ہوں کہ میری حمایت کرو اور میری حفاظت کرو۔‘‘
اس موقع پر ایک انصاری بولے:
’’اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی۔‘‘
اب وہ سب بول اٹھے:
’’یہ نفع کا سودا ہے ہم اس کو ختم نہیں کریں گے۔‘‘
اب ان سب نے نبیﷺ سے بیعت کی۔ حضور ﷺ کی حفاطت کا وعدہ کیا۔حضرت براء بن معرورؓ نے کہا:
’’ہم ہر حال میں آپﷺ کا ساتھ دیں گے۔ آپﷺ کی حفاظت کریں گے۔‘‘
حضرت براء بن معرورؓ یہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ ابو الہیثم بن التیہانؓ بول اٹھے:
’’چاہے ہم پیسے پیسے کو محتاج ہو جائیں اور چاہے ہمیں قتل کر دیا جائے، ہم ہر قیمت پر آپﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘
اس وقت حضرت عباسؓ بولے:
’’ذرا آہستہ آواز میں بات کرو۔۔۔کہیں مشرک آواز نہ سن لیں۔‘‘
اس موقع پر ابو الہیثمؓ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں۔ اب ہم ان کو توڑ رہے ہیں،ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپﷺ ہمیں چھوڑ کر مکہ آجائیں۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا:
’’نہیں! بلکہ میرا خون اور تمہارا خون ایک ہے،جس سے تم جنگ کرو گے اس سے میں جنگ کروں گا،جسے تم پناہ دو گے اسے میں پناہ دوں گا۔‘‘
پھر آپﷺ نے ان میں سے بارہ آدمی الگ کیے یہ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے تھے۔آپ نے ان سے فرمایا:
’’تم میرے جاں نثار ہو…میرے نقیب ہو۔‘‘ 
ان بارہ حضرات میں یہ شامل تھے:
سعد بن عبادہ،اسعد بن رواحہ،براء بن معرور، ابوالہیثم ابن التیہان،اسید بن حضیر،عبداللہ بن عمرو بن حزام، عبادہ بن صامت اور رافع بن مالک رضی اللہ عنہم ۔ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کا نمائندہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جاں نثاروں سے فرمایا: 
’’تم لوگ اپنی اپنی قوم کی طرف سے اس طرح میرے کفیل ہو جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواری ان کے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مہاجروں کی طرف سے کفیل اور ذمے دار ہوں۔‘‘ 
اس بیعت کو بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم تھی۔ اس بیعت کے ہونے پر شیطان نے بہت واویلا کیا،چیخا اور چلایا کیوں کہ یہ اسلام کی ترقی کی بنیاد تھی۔ 
جب یہ مسلمان مدینہ پہنچے تو انہوں نے کھل کر اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔اعلانیہ نمازیں پڑھنے لگے۔مدینہ منورہ میں حالات سازگار دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا کیونکہ قریش کو جب یہ پتا چلا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگجو قوم کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے اور ان کے ہاں ٹھکانہ بنالیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کا مکہ میں جینا اور مشکل کردیا،تکالیف دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اب تک ایسا نہیں کیا تھا ۔روز بروز صحابہ کی پریشانیاں اور مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں۔کچھ صحابہ کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے،طرح طرح کے عذاب دیے گئے۔آخر صحابہ نے اپنی مصیبتوں کی فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور مکہ سے ہجرت کر جانے کی اجازت مانگی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند دن خاموش رہے۔آخر ایک دن فرمایا:
’’مجھے تمہاری ہجرت گاہ کی خبر دی گئی ہے…وہ یثرب ہے (یعنی مدینہ)۔‘‘ 
اور اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔اس اجازت کے بعد صحابہ کرام ایک ایک دو دو کرکے چھپ چھپا کر جانے لگے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد ابن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت علی رضی اللہ کو خود اپنا بھائی بنایا۔ 
مسلمانوں میں سے جن صحابہ نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبد اللہ مخزومی رضی اللہ عنہ ہیں۔انہوں نے سب سے پہلے تنہا جانے کا ارادہ فرمایا۔جب یہ حبشہ سے واپس مکہ آئے تھے تو انہیں سخت تکالیف پہنچائی گئی تھیں۔آخر انہوں نے واپس حبشہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر پھر انہیں مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ رک گئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ روانہ ہوئے۔مکہ سے روانہ ہوتے وقت یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی ساتھ سوار کرلیا ۔ جب ان کے سسرال والوں کو پتا چلا تو وہ انہیں روکنے کے لیے دوڑے اور راستے میں جا پکڑا۔ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔

قتل کی سازش

انہوں نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑی اور بولے: 
’’اے ابوسلمہ! تم اپنے بارے میں اپنی مرضی کے مختار ہو مگر ام سلمہ ہماری بیٹی ہے،ہم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تم اسے ساتھ لے جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی لگام کھینچ لی۔اسی وقت ابوسلمہ کے خاندان کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور بولے: 
’’ ابوسلمہ کا بیٹا ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔جب تم نے اپنی بیٹی کو اس کے قبضے سے چھڑا لیا تو ہم بھی اپنے بچے کو اس کے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے بچے کو چھین لیا۔اس طرح ان ظالموں نے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اور بچے سے جدا کردیا۔ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تنہا مدینہ منورہ پہنچے۔ 
ام سلمہ رضی اللہ عنہا شوہر اور بچے کی جدائی کے غم میں روزانہ صبح سویرے مکہ سے باہر مدینہ منورہ کی طرف جانے والے راستے میں جاکر بیٹھ جاتیں اور روتی رہتیں۔ایک دن ان کا ایک رشتے دار ادھر سے گزرا۔ اس نے انہیں روتے دیکھا تو ترس آگیا۔وہ اپنی قوم کے لوگوں میں گیا اور ان سے بولا: 
’’ تمہیں اس غریب پر رحم نہیں آتا…اسے اس کے شوہر اور بچے سے جدا کردیا، کچھ تو خیال کرو۔‘‘
آخر ان کے دل پسیج گئے۔انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جانے کی اجازت دے دی۔یہ خبر سن کر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے رشتہ داروں نے بچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ بچے کو لے کر مدینہ چلی جائیں۔اس طرح انہوں نے مدینہ کی طرف تنہا سفر شروع کیا۔راستے میں حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ ملے۔یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، کعبہ کے چابی برادر تھے۔یہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔یہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں قبا میں پہنچا دیا۔پھر حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے:
’’ تمہارے شوہر یہاں موجود ہیں۔‘‘
اس طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچیں۔آپ پہلی مہاجر خاتون ہیں جو شوہر کے بغیر مدینہ آئیں۔حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ پہنچا کر جو عظیم احسان کیاتھا،اس کی بنیاد پر کہا کرتی تھیں: 
’’ میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ نیک اور شریف کسی کو نہیں پایا۔‘‘
اس کے بعد مکہ سے مسلمانوں کی مدینہ آمد شروع ہوئی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک کے بعد ایک آتے رہے۔انصاری مسلمان انہیں اپنے گھروں میں ٹھہراتے۔ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عیاش بن ابو ربیعہ رضی اللہ عنہ بیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ پہنچے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کی خاص بات یہ ہے کہ مکہ سے چھپ کر نہیں نکلے بلکہ باقاعدہ اعلان کرکے نکلے۔انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا،پھر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی،اس کے بعد مشرکین سے بولے: 
’’ جو شخص اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے،اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے یا اپنی ماں کی گود ویران کرنا چاہتا ہے…وہ مجھے جانے سے روک کر دکھائے۔‘‘
ان کا یہ اعلان سن کر سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔کسی نے ان کا پیچھا کرنے کی جرات نہ کی۔وہ بڑے وقار سے ان سب کے سامنے روانہ ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاری کررہے تھے۔ ہجرت سے پہلے وہ آرزو کیا کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ وہ روانگی کی تیاری کرچکے تھے۔ ایک دن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: 
’’ ابوبکر! جلدی نہ کرو، امید ہے، مجھے بھی اجازت ملنے والی ہے۔‘‘
چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے۔ انہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی تھیں۔انہوں نے ان دونوں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ماہ سے کھلا پلا رہے تھے۔ 
ادھر مشرکین نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مدینہ ہجرت کرتے جارہے ہیں اور مدینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہے…وہاں مسلمان روز بروز طاقت پکڑتے چلے جائیں گے تو انہیں خوف محسوس ہوا کہ اللہ کے رسول بھی کہیں مدینہ نہ چلے جائے اور وہاں انصار کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کی تیاری نہ کرنے لگیں…تو وہ سب جمع ہوئے…اور سوچنے لگے کہ کیا قدم اٹھائیں۔
یہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے۔دارالندوہ ان کے مشورہ کرنے کی جگہ تھی۔یہ پہلا پختہ مکان تھا جو مکہ میں تعمیر ہوا۔قریش کے اس مشورے میں شیطان بھی شریک ہوا۔وہ انسانی شکل میں آیا تھا اور ایک بوڑھے کے روپ میں تھا،سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔وہ دروازے پر آکر ٹھہر گیا۔اسے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا: 
’’ آپ کون بزرگ ہیں۔‘‘
اس نے کہا: 
’’ میں نجد کا سردار ہوں۔آپ لوگ جس غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں، میں بھی اسی کے بارے میں سن کر آیا ہوں تاکہ لوگوں کی باتیں سنوں اور ہوسکے تو کوئی مفید مشورہ بھی دوں۔‘‘
اس پر قریشیوں نے اسے اندر بلالیا۔اب انہوں نے مشورہ شروع کیا۔ان میں سے کوئی بولا: 
’’ اس شخص(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کا معاملہ تم دیکھ ہی چکے ہو،اللہ کی قسم!اب ہر وقت اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ اپنے نئے اور اجنبی مددگاروں کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ کرے گا،لہٰذا مشورہ کرکے اس کے بارے میں کوئی ایک بات طے کرلو۔‘‘
وہاں موجود ایک شخص ابوالبختری بن ہشام نے کہا: 
’’ اسے بیڑیاں پہنا کر ایک کوٹھری میں بند کردو اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک انتظار کرو،تاکہ اس کی بھی وہی حالت ہوجائے جو اس جیسے شاعروں کی ہوچکی ہے اور یہ بھی انہی کی طرح موت کا شکار ہوجائے۔‘‘
اس پر شیطان نے کہا: 
’’ ہرگز نہیں!یہ رائے بالکل غلط ہے۔یہ خبر اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی،وہ تم پر حملہ کردیں گے اور اپنے ساتھی کو نکال کر لے جائیں گے…وقت تمہیں پچھتانا پڑے گا،لہٰذا کوئی اور ترکیب سوچو۔‘‘
اب ان میں بحث شروع ہوگئی۔اسود بن ربیعہ نے کہا: 
’’ ہم اسے یہاں سے نکال کر جلاوطن کردیتے ہیں…پھر یہ ہماری طرف سے کہیں بھی چلا جائے۔‘‘
اس پر نجدی یعنی شیطان نے کہا: 
’’ یہ رائے بھی غلط ہے۔تم دیکھتے نہیں،اس کی باتیں کس قدر خوب صورت ہیں،کتنی میٹھی ہیں۔وہ اپنا کلام سناکر لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے۔اللہ کی قسم! اگر تم نے اسے جلاوطن کردیا تو تمہیں امن نہیں ملے گا۔ یہ کہیں بھی جاکر لوگوں کے دلوں کو موہ لے گا۔ پھر تم پر حملہ آور ہوگا…اور تمہاری یہ ساری سرداری چھین لے گا…لہٰذا کوئی اور بات سوچو۔‘‘
اس پر ابوجہل نے کہا: 
’’ میری ایک ہی رائے ہے اور اس سے بہتر رائے کوئی نہیں ہوسکتی۔‘‘
سب نے کہا: 
’’ اور وہ کیا ہے۔‘‘
ابوجہل نے کہا: 
’’ آپ لوگ ہر خاندان اور ہر قبیلے کا ایک ایک بہادر اور طاقتور نوجوان لیں۔ہر ایک کو ایک ایک تلوار دیں۔ان سب کو محمد پر حملہ کرنے کے لیے صبح سویرے بھیجیں۔وہ سب ایک ساتھ اس پر اپنی تلواروں کا ایک بھرپور وار کریں…اس طرح اسے قتل کردیں۔اس سے ہوگا یہ کہ اس کے قتل میں سارے قبیلے شامل ہوجائیں گے،لہٰذا محمد کے خاندان والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ان سب سے جنگ کریں…لہٰذا وہ خون بہا(یعنی فدیے کی رقم)لینے پر آمادہ ہوجائیں گے، وہ ہم انہیں دے دیں گے۔‘‘
اس پر شیطان خوش ہوکر بولا: 
’’ ہاں! یہ ہے اعلیٰ رائے…میرے خیال میں اس سے اچھی رائے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔‘‘
چنانچہ اس رائے کو سب نے منظور کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً جبرئیل علیہ السلام کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے عرض کیا: 
’’ آپ روزانہ جس بستر پر سوتے ہیں،آج اس پر نہ سوئیں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے مشرکین کی سازش کی خبر دی، چنانچہ سورۃ الاانفال کی آیت ۳۰ میں آتا ہے: 
ترجمہ:’’ اور اس واقعے کا بھی ذکر کیجئے،جب کافر لوگ آپ کی نسبت بری بری تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آیا آپ کو قید کرلیں،یا قتل کرڈالیں، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے مضبوط تدبیر والا اللہ ہے۔‘‘
غرض جب رات ایک تہائی گزر گئی تو مشرکین کا ٹولہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا…وہ انتظار کرنے لگا کہ کب وہ سوئیں اور وہ سب یک دم ان پر حملہ کردیں۔ان کفار کی تعداد ایک سو تھی۔

مکہ سے غار ثور تک

ادھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’تم میرے بستر پر سو جاؤ اور میری یمنی چادر اوڑھ لو۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: 
’’تمہارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔‘‘
مشرکوں کے جس گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیر رکھا تھا، ان میں حکیم بن ابوالعاص، عقبہ بن ابی معیط، نصر بن حارث، اسید بن خلف، زمعہ ابن اسود اور ابوجہل بھی شامل تھے۔ ابوجہل اس وقت دبی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا:
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے، اگر تم اس کے دین کو قبول کرلو گے تو تمہیں عرب اور عجم کی بادشاہت مل جائے گی اور مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی اور وہاں تمہارے لیے ایسی جنتیں ہوں گی، ایسے باغات ہوں گے جیسے اردن کے باغات ہیں، لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کرو گے تو تم سب تباہ ہو جاؤ گے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو تمہارے لئے وہاں جہنم کی آگ تیار ہوگی اس میں تمہیں جلایا جائے گا۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے یہ الفاظ سُن لیے، آپ یہ کہتے ہوئے گھر سے نکلے:
’’ہاں! میں یقیناًیہ بات کہتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ:’’ یٰسین۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک آپ پیغمبروں کے گروہ میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن زبردست اللہ مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (پہلے تو) ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں، اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے سووہ دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
یہ سورۃ یٰسین کی آیات 1 تا 9 کا ترجمہ ہے۔ ان آیات کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کفار کووقتی طور پر اندھا کردیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم نے جو مٹی پھینکی تھی وہ ان سب کے سروں پر گری، کوئی ایک بھی ایسا نہ بچا جس پر مٹی نہ گری ہو۔
جب قریش کو پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر خاک ڈال کر جا چکے ہیں تو وہ سب گھر کے اندر داخل ہوئے۔ آپ صل اللہ و علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے:
’’خدا کی قسم یہ تو اپنی چادر اوڑھے سو رہے ہیں لیکن جب چادر الٹی گئی تو بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ مشرکین حیرت زدہ رہ گئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
’’تمارے صاحب کہاں ہیں؟‘‘مگر اُنھوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مارتے ہوئے باہر لے آئے اور مسجد حرام تک لائے، کچھ دیر تک انہوں نے انہیں روکے رکھا، پھر چھوڑ دیا۔
اب حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کو ہجرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:
’’میرے ساتھ دوسرا ہجرت کرنے والا کون ہوگا؟‘‘
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
’’ابوبکر صدیق ہونگے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک چادر اوڑھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دروازہ کھولا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں اور چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بول اُٹھے:
’’ اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناًکسی خاص کام سے تشریف لائے ہیں۔‘‘
پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چارپائی پر بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’دوسرے لوگوں کو یہاں سے اٹھا دو۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! یہ تو سب میرے گھر والے ہیں۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً بول اٹھے:
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ کے ساتھ جاؤں گا؟‘‘
جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ہاں! تم میرے ساتھ جاؤ گے ۔‘‘
یہ سنتے ہی مارے خوشی کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’ میں نے اپنے والد کو روتے دیکھا تو حیران ہوئی…اس لیے کہ میں اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ انسان خوشی کی وجہ سے بھی رو سکتا ہے ۔‘‘
پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک لے لیں، میں نے انہیں اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے ۔‘‘
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں یہ قیمت دے کر لے سکتا ہوں ۔‘‘ 
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! میں اور میرا سب مال تو آپ ہی کا ہے۔‘‘ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹنی لے لی ۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کی قیمت دی تھی ۔ اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کے پاس ہی رہی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ 
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ان دونوں اونٹنیوں کو جلدی جلدی سفر کے لیے تیار کیا ۔ چمڑے کی ایک تھیلی میں کھانے پینے کا سامان رکھ دیا ۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر پھاڑ کر اس کے ایک حصے سے ناشتے کی تھیلی باندھ دی ۔ دوسرے حصے سے انہوں نے پانی کے برتن کا منہ بند کردیا ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ تمہاری اس اوڑھنی کے بدلے جنت میں دو اوڑھنیاں دے گا۔‘‘
اوڑھنی کو پھاڑ کر دو کرنے کے عمل کی بنیاد پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ذات النطاقین کا لقب ملا یعنی دو اوڑھنی والی۔یاد رہے کہ نطاق اس دوپٹے کو کہا جاتا ہے جسے عرب کی عورتیں کام کے دوران کمر کے گرد باندھ لیتی تھیں۔
پھر رات کے وقت حضور صلی اللہ ھو علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اور پہاڑ ثور کے پاس پہنچے۔ سفر کے دوران کبھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
’’ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
جواب میں انہوں نے عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ کہیں راستے میں کوئی آپ کی گھات میں نہ بیٹھا ہو۔‘‘
اس پہاڑ میں ایک غار تھا۔ دونوں غار کے دہانے تک پہنچے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
’’قسم اُس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا۔ آپ ذرا ٹھہریے! پہلے میں غار میں داخل ہوں گا، اگر غار میں کوئی موذی کیڑا ہوا تو کہیں وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا دے….‘‘
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں داخل ہوئے۔ انہوں نے غار کو ہاتھوں سے ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ جہاں کوئی سوراخ ملتا اپنی چادر سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس کو بند کر دیتے۔

اللہ ہمارے ساتھ ہے 

اس طرح انہوں نے تمام سوراخ بند کردیے مگر ایک سوراخ رہ گیا اور اسی میں سانپ تھا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سوراخ پر اپنی ایڑی رکھ دی۔اس کے بعد آنحضرت ﷺ غار میں داخل ہوئے۔ ادھر سانپ نے اپنے سوراخ پر ایڑی دیکھی تو اس پر ڈنک مارا۔
تکلیف کی شدت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے لیکن انہوں نے اپنے منہ سے آواز نہ نکلنے دی، اس لیے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سورہے تھے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سانپ کے ڈسنے کے باوجود اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہ دی…نہ آواز نکالی کہ کہیں حضورﷺ کی آنکھ نہ کھل جائے، تاہم آنکھ سے آنسو نکلنے کو وہ کسی طرح نہ روک سکے…وہ حضورﷺ پر گرے۔ان کے گرنے سے حضورﷺ کی آنکھ کھل گئی۔آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا: 
’’ابوبکر کیا ہوا؟‘‘ 
انہوں نے جواب دیا: 
’’آپ پر میرے ماں باپ قربان۔مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے۔آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن سانپ کے کاٹے کی جگہ پر لگادیا۔اس سے تکلیف اور زہر کا اثر فوراً دور ہوگیا۔
صبح ہوئی، آنحضرت ﷺ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ کے جسم پر چادر نظر نہ آئی۔تو دریافت فرمایا: 
’’ابوبکر! چادر کہاں ہے؟ ‘‘
انہوں بتادیا: 
’’اللہ کے رسول! میں نے چادر پھاڑ پھاڑ کر کر اس غار کے سوراخ بند کیے ہیں۔آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور فرمایا: 
’’اے اللہ ابوبکر کو جنت میں میرا ساتھی بنانا۔‘‘
اسی وقت اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی ہے۔
ادھر قریش کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں اس غار کے قریب آپہنچے۔ان میں سے چند ایک جلدی سے آگے بڑھ کر غار میں جھانکنے لگے۔غار کے دہانے پر انہیں مکڑی کا جالا نظر آیا۔ساتھ ہی دو جنگلی کبوتر نظر آئے۔اس پر ان میں سے ایک نے کہا: 
’’اس غار میں کوئی نہیں ہے۔‘‘
ایک روایت میں یوں آیا ہے ان میں امیہ بن خلف بھی تھا، اس نے کہا:
’’ اس غار کے اندر جاکردیکھو۔‘‘ 
کسی نے جواب دیا: 
’’غار کے اندر جاکر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، غار کے منہ پر بہت جالے لگے ہوئے ہیں…اگر وہ اندر جاتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے، نہ یہاں کبوتر کے انڈے ہوتے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ان لوگوں کو غار کے دہانے پر دیکھا تو آپ رو پڑے اور دبی آواز میں بولے: 
’’اللہ کی قسم! میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا میں تو اس لیے روتا ہوں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ 
اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل کو سکون بخش دیا ۔ ان حالات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیاس محسوس ہوئی ۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا…تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اس غار کے درمیان میں جاؤ اور پانی پی لو۔‘‘ 
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اٹھ کر غار کے درمیان میں پہنچے ۔ وہاں انہیں اتنا بہترین پانی ملا کہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبو والا تھا ۔ انہوں نے اس میں سے پانی پیا، جب وہ واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے جنت کی نہروں کے نگراں فرشتے کو حکم فرمایا کہ اس غار کے درمیان میں جنت الفردوس سے ایک چشمہ جاری کردیں تاکہ تم اس میں سے پانی پی سکو ۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حیران ہوئے اور عرض کیا:
’’کیا اللہ کے نزدیک میرا اتنا مقام ہے ۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہاں! بلکہ اے ابوبکر! اس سے بھی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے پیغام کے ساتھ نبی بناکر بھیجا ہے، وہ شخص جو تم سے بغض رکھے، جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔‘‘ 
غرض قریش مایوس ہوکر غار ثور سے ہٹ آئے اور ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اعلان کردیا:
’’جو شخص محمد یا ابوبکر کو گرفتار کرے یا قتل کرے، اسے سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس غار میں تین دن تک رہے ۔ اس دوران ان کے پاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی آتے جاتے رہے۔ یہ اس وقت کم عمر تھے مگر حالات کو سمجھتے تھے۔ اندھیرا پھیلنے کے بعد یہ غار میں آجاتے اور منہ اندھیرے فجر کے وقت وہاں سے واپس آجاتے، اس سے قریش یہ خیال کرتے کہ انہوں نے رات اپنے گھر میں گزاری ہے۔ اس طرح قریش کے درمیان دن بھر جو باتیں ہوتیں، یہ ان کو سنتے اور شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر بتادیتے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ایک غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ پہلے طفیل نامی ایک شخص کے غلام تھے۔ جب یہ اسلام لے آئے تو طفیل نے ان پر ظلم ڈھانا شروع کیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔
یہ بھی ان دنوں غار تک آتے جاتے رہے۔ شام کے وقت اپنی بکریاں لے کر وہاں پہنچ جاتے اور رات کو وہیں رہتے۔ صبح منہ اندھیرے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد یہ بھی وہاں سے اپنی بکریاں اسی راستے سے واپس لاتے تاکہ ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں۔ ان تین راتوں تک ان کا برابر یہی معمول رہا۔ یہ ایسا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ وہ دن بھر قریش کی باتیں سنا کریں اور شام کو انہیں بتایا کریں۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو بھی ہدایت تھی کہ دن بھر بکریاں چرایا کریں اور شام کو غار میں ان کا دودھ پہنچایا کریں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا بھی شام کے وقت ان کے لیے کھاناپہنچاتی تھیں۔
ان تین کے علاوہ اس غار کا پتہ کسی کو نہیں تھا۔ تین دن اور رات گزرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’ اب تم علی کے پاس جاؤ، انہیں غار کے بارے میں بتادو اور ان سے کہو، وہ کسی رہبر کا انتظام کردیں۔ آج رات کا کچھ پہر گزرنے کے بعد وہ رہبر یہاں آجائے۔‘‘
چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سیدھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا۔حضرت علی رضی اللہ نے فوراً اجرت پرایک راہبر کا انتظام کیا۔ اس کا نام اریقط بن عبداللہ لیثی تھا۔ یہ راہبر رات کے وقت وہاں پہنچا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی اونٹ کی بلبلانے کی آواز سنی، آپ فوراً ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار سے نکل آئے اور راہبر کو پہچان لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔
اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے اپنے گھر سے وہ رقم بھی منگوالی تھی جو وہاں موجود تھی…یہ رقم چار پانچ ہزار درہم تھی۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے تو ان کے پاس چالیس پچاس ہزار درہم موجود تھے۔ گویا یہ تمام دولت انہوں نے اللہ کے راستے میں خرچ کردی تھی۔ جاتے وقت بھی گھر میں جو کچھ تھا، منگوالیا…ان کے والد ابوقحانہ رضی اللہ عنہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان کی بینائی ختم ہوگئی تھی…وہ گھر آئے تو اپنی پوتی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے کہنے لگے: 
’’ میرا خیال ہے، ابوبکر اپنی اور اپنے مال کی وجہ سے تمہیں مصیبت میں ڈال گئے ہیں۔‘‘(مطلب یہ تھا کہ جاتے ہوئے سارے پیسے لے گئے ہیں)
یہ سن کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: 
’’ نہیں بابا! وہ ہمارے لیے بڑی خیروبرکت چھوڑگئے ہیں۔‘‘
حضرت اسماء کہتی ہیں:
’’ اس کے بعد میں نے کچھ کنکر ایک تھیلی میں ڈالے اور ان کو طاق میں رکھ دیا۔ اس میں میرے والد اپنے پیسے رکھتے تھے۔ پھر اس تھیلی پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ ان پر رکھتے ہوئے میں نے کہا:
’’یہ دیکھیے! روپے یہاں رکھے ہیں۔‘‘
ابوقحانہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ رکھ کر محسوس کیا اور بولے: 
’’ اگر وہ یہ مال تمہارے لیے چھوڑ گئے ہیں تب فکر کی کوئی بات نہیں، یہ تمہارے لیے کافی ہے۔‘‘
حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑ گئے تھے۔‘‘

سو اونٹنیوں کا انعام 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر جانے کی خبر ایک صحابی حضرت حمزہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو ملی تو کہنے لگے:
’’اب میرے مکہ میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘ 
پھر انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا ۔ یہ گھرانہ مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔ ابھی تنعیم کے مقام تک پہنچا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں یہ آیت نازل فرمائی:
’’اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہوا کہ اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرے گا، پھر اسے موت آ پکڑے، تب بھی اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ثابت ہوگیا اور اللہ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں، بڑے رحمت کرنے والے ہیں ۔‘‘ (آیت 100)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’حسان! کیا تم نے ابوبکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟‘‘ 
انہوں نے عرض کیا:
’’جی ہاں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے شاعر تھے، ان کو شاعر رسول کا خطاب بھی ملا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمائش پر انہوں نے جو دو شعر سنائے، ان کا ترجمہ یہ ہے:
’’حضرت ابوبکر صدیق جو دو میں کے دوسرے تھے، اس بلند و بالا غار میں تھے اور جب وہ پہاڑ پر پہنچ گئے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگائے۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق زار تھے جیسا کہ ایک دنیا جانتی ہے اور اس عشق رسول میں ان کا کوئی ثانی یا برابر نہیں تھا۔‘‘
یہ شعر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مسکرانے لگے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک نظر آئے۔ پھر ارشاد فرمایا:
’’تم نے سچ کہا حسان، وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا، وہ غار والے کے نزدیک (یعنی میرے نزدیک) سب سے زیادہ پیارے ہیں، کوئی دوسرا شخص ان کی برابری نہیں کر سکتا۔‘‘
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے چلتے دیکھا تو ارشاد فرمایا:
’’اے ابو درداء، یہ کیا، تم اس شخص سے آگے چلتے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے افضل ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، انبیاء و مرسلین کے بعد ابو بکر سے زیادہ افضل آدمی پر نہ کبھی سورج طلوع ہوا اور نہ غروب ہوا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’میرے پاس جبرئیل آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ ابو بکر سے مشورہ کیا کیجیے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’میری امت پر ابو بکر کی محبت واجب ہے۔‘‘
یہ چند احادیث حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں اس لیے نقل کر دی گئیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہجرت کے ساتھی تھے اور یہ عظیم اعزاز ہے۔
غار سے نکل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اونٹوں پر سوار ہوئے اور راہبر کے ساتھ سفر شروع کیا۔ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسی اونٹ پر سوار تھے۔
غرض یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا، راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے سے لے کر جا رہا تھا۔ راستے میں کوئی ملتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھتا:
’’یہ تمہارے ساتھ کون ہیں۔‘‘
تو آپ اس کے جواب میں فرماتے:
’’میرے ساتھ میرے راہبر ہیں۔‘‘
یعنی میرے ساتھ مجھے راستہ دکھانے والے ہیں۔ان کا مطلب تھا کہ یہ دین کا راستہ دکھانے والے ہیں مگر پوچھنے والے اس گول مول جواب سے یوں سمجھتے کہ یہ کوئی راہبر (گائیڈ) ہیں جو ساتھ جا رہے ہیں۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس طرح جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو میرے پاس سے ٹالتے رہنا، یعنی اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو تم یہی ذو معنی (گول مول) جواب دیناکیونکہ نبی کے لیے کسی صورت میں جھوٹ بولنا مناسب نہیں…چاہے کسی بھی لحاظ سے ہو، چنانچہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں سوال کرتا رہا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہی جواب دیتے۔رہ گئے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ…وہ ان راستوں سے اکثر تجارت کے لیے جاتے رہتے تھے، انہیں اکثر لوگ جانتے تھے، ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کون ہیں۔
ادھر قریش نے سو اونٹنیوں کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔
سراقہ رضی اللہ عنہ خود اپنی کہانی ان الفاظ میں سناتے ہیں:
’’میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا، اس نے کہا، کہ اے سراقہ!میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے ساتھی ہیں۔
مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں، چنانچہ میں اٹھا، گھر گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ میری گھوڑی نکال کر چپکے سے وادی میں پہنچا دے، اور وہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کے پچھلی طرف نکل کر وادی میں پہنچا۔اس رازداری میں مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی کام کر ڈالوں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کر لوں۔میں نے اپنی زرہ بھی پہن لی تھی، پھر میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس طرف روانہ ہوا، میں نے اپنی گھوڑی کو بہت تیز دوڑایا۔ یہاں تک کہ آخر کار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ فاصلے پر پہنچ گیا، لیکن اسی وقت میری گھوڑی کو ٹھوکر لگی، وہ منہ کے بل نیچے گری، میں بھی نیچے گرا، پھر گھوڑی اٹھ کر ہنہنانے لگی۔میں اٹھا، میرے ترکش میں فال کے تیر تھے۔یہ وہ تیر تھے جن سے عرب کے لوگ فال نکالتے تھے، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا، کرو، اور کسی پر لکھا ہوتا تھا، نہ کرو، میں نے ان میں سے ایک تیر لیا، اور فال نکالی،…یعنی میں جاننا چاہتا تھا، یہ کام کروں یا نہ کروں،…فال میں انکار نکلا، یعنی یہ کام نہ کرو، لیکن یہ بات میری مرضی کے خلاف تھی، میں سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کرنا چاہتا تھا، نہ والا تیر نکلنے کے باوجود میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا۔یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بہت قریب پہنچ گیا جو کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مڑ کر بار بار دیکھ رہے تھے۔
اسی وقت میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں، حالانکہ وہاں زمین سخت اور پتھریلی تھی۔میں گھوڑی سے اترا…اسے ڈانٹا…وہ کھڑی ہو گئی لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک زمین میں دھنسی ہوئی تھیں۔ وہ زمین سے نہ نکلیں۔
میں نے پھر فال نکالی۔انکار والا تیر ہی نکلا۔آخر میں پکار اٹھا:
’’میری طرف دیکھیے، میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا اور نہ میری طرف سے آپ کو کوئی ناگوار بات پیش آئے گی…میں سراقہ بن مالک ہوں، آپ کا ہمدرد ہوں…آپ کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہوں…مجھے معلوم نہیں کہ میری بستی کے لوگ بھی آپ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں یا نہیں۔
یہ کہنے سے میرا مطلب تھا، اگر کچھ اور لوگ اس طرف آ رہے ہوں گے تو میں انہیں روک دوں گا۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اس سے پوچھو، یہ کیا چاہتا ہے۔‘‘
اب میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا…اپنے ارادے کے بارے میں بتا دیا اور بولا:
بس آپ دعا کر دیجئے کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں…میں وعدہ کرتا ہوں، اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا۔‘‘

حضرت ام معبد کے خیمے پر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ آپ کے دعا فرماتے ہی حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کی گھوڑی کے پاؤں زمین سے نکل آئے۔
گھوڑی کے پاؤں جونہی باہر آئے، سراقہ رضی اللہ عنہ پھر اس پر سوار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
’’اے اللہ! ہمیں اس سے باز رکھ۔‘‘ 
اس دعا کے ساتھ ہی گھوڑی پیٹ تک زمین میں دھنس گئی ۔ اب انہوں نے کہا:
’’اے محمد! میں قسم کھا کر کہتا ہوں…مجھے اس مصیبت سے نجات دلادیں…میں آپ کا ہمدرد ثابت ہوں گا۔‘‘ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے زمین! اسے چھوڑ دے ۔‘‘
یہ فرمانا تھا کہ ان کی گھوڑی زمین سے نکل آئی…بعض تفاسیر میں لکھا ہے کہ سراقہ رضی اللہ عنہ نے سات مرتبہ وعدہ خلافی کی…ہر بار ایسا ہی ہوا…بعض روایات میں ہے کہ ایسا تین بار ہوا…آخر حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکتے…چنانچہ انہوں نے کہا:
’’میں اب آپ کا پیچھا نہیں کروں گا…آپ میرے سامان میں سے کچھ لینا چاہیں تو لے لیں…سفر میں آپ کے کام آئے گا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: 
’’ تم بس اپنے آپ کو روکے رکھو اور کسی کو ہم تک نہ آنے دو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ رضی اللہ سے یہ بھی فرمایا: 
’’ اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔‘‘
سراقہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے: 
’’ آپ نے کیا فرمایا…کسریٰ بادشاہ کے کنگن مجھے پہنائے جائیں گے۔‘‘
ارشاد فرمایا: 
’’ہاں! ایسا ہی ہوگا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیرت انگیز پیشن گوئی تھی…کیونکہ اس وقت ایسا ہونے کا قطعاً کوئی امکان دور دور تک نہیں تھا، لیکن پھر ایک وقت آیا کہ حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مسلمانوں کو فتوحات پر فتوحات ہوئیں اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کو شکست فاش ہوئی تو اس مال غنیمت میں کسریٰ کے کنگن بھی تھے۔ یہ کنگن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو پہنائے، اور اس وقت سراقہ رضی اللہ عنہ کو یاد آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت ارشاد فرمایا تھا: 
’’ اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔‘‘
اپنے ایمان لانے کی تفصیل سراقہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں: 
’’ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حنین اور طائف کے معرکوں سے فارغ ہوچکے تو میں ان سے ملنے کے لیے روانہ ہوا۔ ان سے میری ملاقات جعرانہ کے مقام پر ہوئی۔میں انصاری سواروں کے درمیان سے لشکر کے اس حصے کی طرف روانہ ہوا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر تشریف فرما تھے۔ میں نے نزدیک پہنچ کر عرض کیا: 
’’ اے اللہ کے رسول! میں سراقہ ہوں۔‘‘
ارشاد فرمایا: 
’’قریب آجاؤ۔‘‘
میں نزدیک چلا آیا اور پھر ایمان لے آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے کنگن مجھے پہناتے ہوئے فرمایاتھا: 
’’ تمام تعریفیں اس ذات باری تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے یہ چیزیں شاہ ایران کسریٰ بن ہرمز سے چھین لیں جو یہ کہا کرتا تھا، میں انسانوں کا پروردگار ہوں۔‘‘
یہ سراقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی ملنے کے بعد واپس پلٹے اور راستے میں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آتا ہوا انہیں ملا، یہ اسے یہ کہہ کر لوٹاتے رہے:
’’میں اس طرف ہی سے ہوکر آرہا ہوں…ادھر مجھے کوئی نہیں ملا…اور لوگ جانتے ہی ہیں مجھے راستوں کی کتنی پہچان ہے۔‘‘
غرض اس روز یہ قافلہ تمام رات چلتا رہا…یہاں تک کہ چلتے چلتے اگلے دن دوپہر کا وقت ہوگیا۔ اب دور دور تک کوئی آتا جاتا نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں سامنے ایک چٹان ابھری ہوئی نظر آئی۔ اس کا سایہ کافی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ پر پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سواری سے اترے اور اپنے ہاتھوں سے جگہ کو صاف کرنے لگے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چٹان کے سائے میں سوسکیں، جگہ صاف کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی پوستین وہاں بچھادی اور عرض کیا: 
’’ اللہ کے رسول! یہاں سوجائیے…میں پہرہ دوں گا…‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک چرواہے کو چٹان کی طرف آتے دیکھا…شاید وہ بھی سائے میں آرام کرنا چاہتا تھا۔ 
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوراً اس طرف مڑے اور اس سے بولے: 
’’تم کون ہوں؟ ‘‘
اس نے بتایا: 
’’ میں مکہ کا رہنے والا ایک چرواہا ہوں۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے: 
’’ کیا تمہاری بکریوں میں کوئی دودھ والی بکری ہے۔‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’ ہاں ہے۔‘‘
پھر وہ ایک بکری سامنے لایا۔ اپنے ایک برتن میں دودھ دوہا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیا۔ وہ دودھ کا برتن اٹھائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جوکہ اس وقت سورہے تھے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا، دودھ کا برتن لیے اس وقت تک کھڑے رہے، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ نہیں گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دودھ میں پانی کی دھار ڈالی تاکہ وہ ٹھنڈا ہوجائے، پھر خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا: 
’’ یہ دودھ پی لیجئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا، اور پوچھا: 
’’ کیا روانگی کا وقت ہوگیا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 
’’ جی ہاں! ہوگیا ہے۔‘‘
اب یہ قافلہ پھر روانہ ہوا…ابھی کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ایک خیمہ نظر آیا۔ خیمے کے باہر ایک عورت بیٹھی تھی۔یہ ام معبد رضی اللہ عنہا تھیں۔ جو اس وقت تک اسلام کی دعوت سے محروم تھیں۔ ان کا نام عاتکہ تھا۔ یہ ایک بہادر اور شریف خاتون تھیں۔انہوں نے بھی آنے والوں کو دیکھ لیا۔اس وقت ام معبد رضی اللہ عنہا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ کن ہستیوں کا ہے۔ نزدیک آنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ام معبد رضی اللہ عنہا کے پاس ایک بکری کھڑی نظر آئی…وہ بہت ہی کمزور اور دبلی پتلی سی بکری تھی۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: 
’’کیا اس کے تھنوں میں دودھ ہے؟ ‘‘
اُمّ معبد رضی اللہ عنہ نے بولیں: 
’’ اس کمزور اور مریل بکری کے تھنوں میں دودھ کہاں سے آئے گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ کیا تم مجھے اس کو دوہنے کی اجازت دوگی۔‘‘
اس پر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں: 
’’ لیکن یہ تو ابھی ویسے بھی دودھ دینے والی نہیں ہوئی…آپ خود سوچیے، یہ دودھ کس طرح دے سکتی ہے…میری طرف سے اجازت ہے، اگر اس سے آپ دودھ نکال سکتے ہیں تو نکال لیجئے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس بکری کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی: 
’’ اے اللہ! اس بکری میں ہمارے لیے برکت عطا فرما۔‘‘
جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی…بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے اور ان سے دودھ ٹپکنے لگا۔ 
یہ نظارہ دیکھ کر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا حیرت زدہ رہ گئیں۔

مدینۂ منورہ میں آمد

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایک برتن لاؤ۔‘‘
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا ایک برتن اٹھا لائیں…وہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے آٹھ دس آدمی سیراب ہوسکتے تھے ۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا دودھ نکالا ۔ اس کے تھنوں میں دودھ بہت بھر گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پہلے اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دیا ۔ انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، اس کے بعد ان کے گھر والوں نے پیا ۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود دودھ نوش فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا:
’’قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے ۔‘‘
سب کے دودھ پی لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کا دودھ نکال کر اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کو دے دیا اور وہاں سے آگے روانہ ہوئے ۔ 
شام کے وقت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ لوٹے، وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے گئے ہوئے تھے ۔ خیمے پر پہنچے تو وہاں بہت سا دودھ نظر آیا ۔ دودھ دیکھ کر حیران ہوگئے، بیوی سے بولے:
’’اے اُمّ معبد! یہ یہاں دودھ کیسا رکھا ہے…گھر میں تو کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ہے؟‘‘
مطلب یہ تھا کہ یہاں جو بکری تھی، وہ تو دودھ دے ہی نہیں سکتی تھی ۔ پھر یہ دودھ کہاں سے آیا؟ 
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں:
’’آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا ۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ اور حیران ہوئے، پھر بولے:
’’ان کا حلیہ تو بتاؤ۔‘‘
جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے ۔ (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے ۔ وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے ۔ بال نہایت سیاہ تھے ۔ وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے ۔ ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی ۔ اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے ۔ سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے ۔‘‘
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ حلیہ سن کر ان کے شوہر بولے:
’’اللہ کی قسم! یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہیں، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور ان کی پیروی اختیار کرلیتا اور میں اب اس کی کوشش کروں گا ۔‘‘
چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ معبد اور حضرت ابومعبد رضی اللہ عنہما ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ 
حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کی جس بکری کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہا تھا، وہ بکری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہی ۔ 
ادھر مکہ میں جب قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ پتہ نہ چلا تو وہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آئے ۔ ان میں ابوجہل بھی تھا ۔ دروازے پر دستک دی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باہر نکلیں ۔ ابوجہل نے پوچھا:
’’تمہارے والد کہاں ہیں؟‘‘
وہ بولیں:
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
یہ سن کر ابوجہل نے انہیں ایک زوردار تھپڑ مارا ۔ تھپڑ سے ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر گرگئی ۔ 
اس پر بھی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انہیں کچھ نہ بتایا ۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی بڑبڑاتے ہوئے ناکام لوٹ گئے ۔ 
۔۔۔
ادھر مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ اللہ کے رسول مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے ہیں…اب تو وہ بے چین ہوگئے ۔ انتظار کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا ۔ روزانہ صبح سویرے اپنے گھروں سے نکل پڑتے اور حرہ کے مقام تک آجاتے جو مدینہ منورہ کے باہر ایک پتھریلی زمین ہے ۔ جب دوپہر ہوجاتی اور دھوپ میں تیزی آجاتی تو مایوس ہوکر وآپس لوٹ آتے ۔پھر ایک دن ایسا ہوا… مدینہ منورہ کے لوگ گھروں سے مقام حرہ تک آئے ۔ جب کافی دیر ہوگئی اور دھوپ میں تیزی آگئی تو وہ پھر واپس لوٹنے لگے ۔ ایسے میں ایک یہودی حرہ کے ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا ۔ اسے مکہ کی طرف سے کچھ سفید لباس والے آتے دکھائی دئیے ۔ اس قافلے سے اٹھنے والی گرد سے نکل کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واضح طور پر نظر آئے تو وہ یہودی پکار اٹھا:
’’اے گروہِ عرب! جن کا تمہیں انتظار تھا، وہ لوگ آگئے۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی مسلمان واپس دوڑے اور حرہ کے مقام پر پہنچ گئے ۔ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتے پایا ۔ 
ایک روایت میں ہے کہ پانچ سو سے کچھ زائد انصاریوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال کیا ۔ 
وہاں سے چل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبا تشریف لائے ۔اس روز پیر کا دن تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کلثوم بن معدم رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا ۔ بنی عمرو کا یہ گھرانہ قبیلہ اوس میں سے تھا ۔ ان کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے ۔
قبا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی ۔ اس کا نام مسجد قبا رکھا ۔ اس مسجد کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مکمل طور پر وضو کیا، پھر مسجد قبا میں نماز پڑھی تو اسے ایک حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس مسجد میں تشریف لاتے رہے ۔ اس مسجد کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں ایک آیت بھی نازل فرمائی ۔
قبا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے ۔ جونہی آپ کی آمد کی خبر مسلمانوں کو پہنچی، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر جتنا خوش دیکھا، اتنا کسی اور موقع پر نہیں دیکھا…سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دونوں طرف آکھڑے ہوئے اور عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں تاکہ آپ کی آمد کا منظر دیکھ سکیں ۔ عورتیں اور بچے خوشی میں یہ اشعار پڑھنے لگے:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا 
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ 
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا 
مَا دَعَا للہ دَاعِ 
أَیھاَ ا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا 
جِءْتَ بِالْأَمْرِ الْمُطَاعِ 
ترجمہ:’’چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پکارنے والا اس سر زمین پر باقی ہے، ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ اے آنے والے شخص جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں، آپ ایسے احکامات لیکر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے ۔‘‘
راستے میں ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے جب کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جوان نظر آتے تھے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے بال سیاہ تھے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے دو سال بڑے تھے ۔ 
اب ہوا یہ کہ جن لوگوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں خیال کیا کہ اللہ کے رسول یہ ہیں اور گرم جوشی سے ان سے ملنے لگے ۔ یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً محسوس کرلی…اس وقت تک دھوپ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی تھی، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کردیا ۔ تب لوگوں نے جانا اللہ کے رسول یہ ہیں۔ 
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ سے روانہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور ساتھ ساتھ بہت سے لوگ چل رہے تھے ۔ ان میں سے کچھ سوار تھے تو کچھ پیدل ۔ اس وقت مدینہ منورہ کے لوگوں کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
’’اللہ اکبر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ۔‘‘
راستے میں آپ کی خوشی میں حبشیوں نے نیزہ بازی کے کمالات اور کرتب دکھائے…ایسے میں ایک شخص نے پوچھا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ جو یہاں سے آگے تشریف لے جارہے ہیں تو کیا ہمارے گھروں سے بہتر کوئی گھر چاہتے ہیں؟‘‘
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے ایک ایسی بستی میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھالے گی۔‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ دوسری بستی کے لوگوں پر اثر انداز ہوجائے گی یا دوسری بستیوں کو فتح کرلے گی ۔ 
یہ جواب سن کر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا راستہ چھوڑ دیا ۔ اس بستی کے بارے میں سب کو بعد میں معلوم ہو گیا کہ وہ مدینہ منورہ ہے ۔ 
مدینہ منورہ کا پہلا نام یثرب تھا ۔ یثرب ایک شخص کا نام تھا ۔ وہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا ۔ مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدجمعہ کے روز ہوئی، چنانچہ اس روز پہلا جمعہ پڑھا گیا۔

مسجد نبوی کی تعمیر

جمعہ کی یہ پہلی نماز مدینہ منورہ کے محلے بنی سالم بن عوف میں ہوئی۔ اس میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد سو کے قریب تھی۔بنی سالم کی جس مسجد میں آپ نے جمعہ ادا کیا، اب اس مسجد کو’’مسجد جمعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قبا کی طرف جانے والے راستے کے بائیں طرف ہے۔اس طرح یہ پہلی نماز جمعہ تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز سے پہلے خطبہ بھی دیا تھا۔اس پہلے خطبے میں جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کا کچھ حصہ یہ تھا:
’’پس جو شخص اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہتا ہے تو ضرور بچالے۔چاہے وہ آدھے چھوہارے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، جسے کچھ بھی نہ آتا ہو، وہ کلمہ طیبہ کو لازم کرلے، کیونکہ نیکی کا ثواب دوگنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور سلام ہو اللہ کے رسول پر اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔‘‘
نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑدی، یعنی اسے اپنی مرضی سے چلنے کی اجازت دی۔اونٹنی نے پہلے دائیں اور بائیں دیکھا، جیسے چلنے سے پہلے فیصلہ کررہی ہوکہ کس سمت میں جانا ہے، ایسے میں بنی سالم کے لوگوں(یعنی جن کے محلے میں جمعے کی نماز ادا کی گئی تھی)نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ہاں قیام فرمایئے، یہاں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ یہاں آپ کی پوری حفاظت ہو گی…یہاں دولت بھی ہے، ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں…ہمارے پاس باغات بھی ہیں اور زندگی کی ضرورت کی سب چیزیں بھی موجود ہیں ۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سن کر مسکرائے، ان کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا:
’’میری اونٹنی کا راستہ چھوڑدو، یہ جہاں جانا چاہے، اسے جانے دو، کیونکہ یہ مامور ہے۔‘‘ 
مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اونٹنی خود چلے گی اور اسے اپنی منزل معلوم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو دعا دی:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے ۔‘‘ 
اس کے بعد اونٹنی روانہ ہوئی ۔ یہاں تک کہ بنی بیاصہ کے محلے میں پہنچی ۔ یہاں کے لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے ہاں ٹھہریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا جو بنی سالم کو دیا تھا ۔ اسی طرح بنی ساعدہ کے علاقے سے گزرے ۔ ان حضرات نے بھی یہ درخواست کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب فرمایا ۔ اونٹنی آگے بڑھی ۔ اب یہ بنی عدی کے محلے میں داخل ہوئی، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی ننھیال تھی ۔ ان لوگوں نے عرض کیا:
’’ہم آپ کے ننھیال والے ہیں، اس لیے یہاں قیام فرمایئے ۔ یہاں آپ کی رشتہ داری بھی ہے، ہم تعداد میں بھی بہت ہیں ۔ آپ کی حفاظت بھی بڑھ چڑھ کر کریں گے، پھر یہ کہ ہم آپ کے رشتہ دار بھی ہیں، سو ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں ۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی وہی جواب دیا کہ یہ اونٹنی مامور ہے، اسے اپنی منزل معلوم ہے ۔ اونٹنی اور آگے بڑھی اور اسی محلے میں ایک جگہ بیٹھ گئی ۔ یہ جگہ بنی مالک بن نجار کے محلے کے پاس تھی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے دروازے کے قریب تھی ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نام خالد بن زید نجار انصاری تھا ۔ یہ قبیلہ خزرج کے تھے ۔ بیعت عقبہ کے موقع پر موجود تھے ۔ ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت قریبی معاونین میں سے رہے ۔ ان کی وفات یزید کے دور میں قسطنطنیہ کے جہاد کے دوران ہوئی ۔
اونٹنی بیٹھ گئی، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اُترے نہیں تھے کہ وہ اچانک پھر کھڑی ہوگئی…چند قدم چلی اور ٹھہر گئی…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام بدستور چھوڑے رکھی تھی ۔ اونٹنی اس کے بعد واپس اس جگہ آئی جہاں پہلے بیٹھی تھی ۔ وہ دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی ۔ اپنی گردن زمین پر رکھ دی اور منہ کھولے بغیر ایک آواز نکالی ۔ اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اترے ۔ ساتھ ہی فرمایا:
’’اے میرے پروردگار! مجھے مبارک جگہ پر اتارنا اور تو ہی بہترین جگہ ٹھہرانے والا ہے ۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ چار مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر فرمایا:
’’ان شاء اللہ! یہی قیام گاہ ہوگی۔‘‘ 
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان اتارنے کا حکم دیا ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’کیا میں آپ کا سامان اپنے گھر لے جاؤں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔ وہ سامان اتار کر لے گئے ۔ اسی وقت حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ آگئے ۔ انہوں نے اونٹنی کی مہار تھام لی اور اونٹنی کو لے گئے، چنانچہ اونٹنی ان کی مہمان بنی ۔
بنی نجار کے ہاں اترنے پر ان کی بچیوں نے دف ہاتھوں میں لے لیے اور خوشی سے سرشار ہوکر ان کو بجانے لگیں اور یہ گیت گانے لگیں:
ترجمہ:’’ہم بنی نجار کے پڑوسیوں میں سے ہیں، کس قدر خوش قسمتی کی بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہیں ۔‘‘
ان کی آواز سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے ۔ ان کے نزدیک آئے اور فرمایا:
’’کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟‘‘ 
وہ بولیں:
’’ہاں! اے اللہ کے رسول ۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ جانتا ہے، میرے دل میں بھی تمہارے لیے محبت ہی محبت ہے ۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر اس وقت تک ٹھہرے جب تک کہ مسجد نبوی اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ تیار نہیں ہوگیا ۔آپ تقریباً گیارہ ماہ تک وہاں ٹھہرے رہے ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبا سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ساتھ اکثر مہاجرین بھی مدینہ منورہ آگئے تھے ۔ اس وقت انصاری مسلمانوں کا جذبہ قابل دید تھا ۔ ان سب کی خواہش تھی کہ مہاجرین ان کے ہاں ٹھہریں ۔ اس طرح ان کے درمیان بحث ہوئی ۔ آخر انصاری حضرات نے مہاجرین کے لیے قرعہ اندازی کی ۔ اس طرح جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آئے، وہ انہی کے ہاں ٹھہرے، انصاری مسلمانوں نے انہیں نہ صرف اپنے گھروں میں ٹھہرایا بلکہ ان پر اپنا مال اور دولت بھی خرچ کیا ۔ 
مہاجرین کی آمد سے پہلے انصاری مسلمان ایک جگہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے ۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھاتے تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنانے کی فکر ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی ۔ اونٹنی چل پڑی، وہ اس جگہ جاکر بیٹھ گئی جہاں آج مسجد نبوی ہے، جس جگہ مسلمان نماز ادا کرتے رہتے تھے، وہ جگہ بھی اس کے آس پاس ہی تھی، اس وقت وہاں صرف دیواریں کھڑی کی گئی تھیں…ان پر چھت نہیں تھی ۔ اونٹنی کے بیٹھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بس! مسجد اس جگہ بنے گی۔‘‘ 
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’تم یہ جگہ مسجد کے لیے فروخت کردو۔‘‘ 
وہ جگہ دراصل دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی اور اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ان کے سرپرست تھے ۔ یہ روایت بھی آئی ہے کہ ان کے سرپرست معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’آپ یہ زمین لے لیں، میں اس کی قیمت ان دونوں کو ادا کردیتا ہوں ۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا خرید لیا ۔ یہ قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے ادا کی گئی (واہ! کیا قسمت پائی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ قیامت تک مسجد نبوی کے نمازیوں کا ثواب ان کے نامہ اعمال میں لکھا جارہا ہے ۔) 
یہ روایت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں یتیم لڑکوں کو بلوایا ۔ زمین کے سلسلے میں ان سے بات کی ۔ ان دونوں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! ہم یہ زمین ہدیہ کرتے ہیں۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یتیموں کا ہدیہ قبول کرنے سے انکار فرمادیا اور دس دینار میں زمین کا وہ ٹکڑا ان سے خرید لیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں دس دینار ادا کردیں، چنانچہ انہوں نے وہ رقم ادا کردی ۔
زمین کی خرید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ فرمایا، اینٹیں بنانے کا حکم دیا، پھر گارا تیار کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے پہلی اینٹ رکھی ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دوسری اینٹ وہ رکھیں ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لگائی ہوئی اینٹ کے برابر دوسری اینٹ رکھ دی ۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا ۔ انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر تیسری اینٹ رکھی ۔ اب آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا ۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اینٹ کے برابر چوتھی اینٹ رکھی ۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’میرے بعد یہی خلیفہ ہوں گے ۔‘‘ (مستدرک حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے) 
پھر حضور اقدس نے صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو حکم فرمایا:
’’اب پتھر لگانا شروع کردو۔‘‘

مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرے کا آغاز

مسلمان پتھروں سے بنیادیں بھرنے لگے ۔ بنیادیں تقریباً تین ہاتھ(ساڑھے 4 فٹ) گہری تھیں ۔ اس کے لیے اینٹوں کی تعمیر اٹھائی گئی ۔ دونوں جانب پتھروں کی دیواریں بنا کر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت بنائی گئی اور کھجور کے تنوں کے ستون بنائے گئے ۔ دیواروں کی اونچائی انسانی قد کے برابر تھی ۔ 
ان حالات میں کچھ انصاری مسلمانوں نے کچھ مال جمع کیا ۔ وہ مال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے اور عرض کیا:
’’اللہ کے رسول! اس مال سے مسجد بنائیے اور اس کو آراستہ کیجیے، ہم کب تک چھپر کے نیچے نماز پڑھیں گے ۔‘‘ 
اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے مسجدوں کو سجانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔‘‘ 
اسی سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’قیامت قائم ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں آرائش اور زیبائش کرنے لگیں گے جیسے یہود اور نصاریٰ اپنے کلیساؤں اور گرجوں میں زیب و زینت کرتے ہیں ۔‘‘
مسجد نبوی کی چھت کھجور کی چھال اور پتوں کی تھی اور اس پر تھوڑی سی مٹی تھی ۔ جب بارش ہوتی تو پانی اندر ٹپکتا…یہ پانی مٹی ملا ہوتا…اس سے مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتا ۔ یہ بات محسوس کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ! اگر آپ حکم دیں تو چھت پر زیادہ مٹی بچھا دی جائے تاکہ اس میں سے پانی نہ رِسے، مسجد میں نہ ٹپکے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’نہیں! یونہی رہنے دو ۔‘‘ 
مسجد کے تعمیر کے کام میں تمام مہاجرین اور انصار صحابہ نے حصہ لیا ۔ یہاں تک کہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اپنے ہاتھوں سے کام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی چادر میں اینٹیں بھر بھر کر لاتے یہاں تک کہ سینہ مبارک غبار آلود ہو جاتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اینٹیں اٹھاتے دیکھا تو وہ اور زیادہ جانفشانی سے اینٹیں ڈھونے لگے ۔ (یہاں اینٹوں سے مراد پتھر ہیں ۔) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ باقی صحابہ تو ایک ایک پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو پتھر اٹھا کر لا رہے تھے تو ان سے پوچھا:
’’عمار! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک پتھر کیوں نہیں لاتے ۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب چاہتا ہوں ۔‘‘
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بہت نفیس اور صفائی پسند تھے ۔ وہ بھی مسجد کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے ۔ پتھر اٹھا کر چلتے تو اس کو اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تاکہ کپڑے خراب نہ ہوں ۔ اگر مٹی لگ جاتی تو فوراً چٹکی سے اس کو جھاڑنے لگ جاتے ۔ دوسرے صحابہ دیکھ کر مسکرادیتے ۔ 
مسجد کی تعمیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس میں پانچ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلے کا رخ بیت اللہ کی طرف ہو گیا ۔ مسجد کا پہلے فرش کچا تھا، پھر اس پر کنکریاں بچھا دی گئیں ۔ یہ اس لیے بچھائی گئیں کہ ایک روز بارش ہوئی، فرش گیلا ہوگیا ۔ اب جو بھی آتا، اپنی جھولی میں کنکریاں بھر کر لاتا اور اپنی جگہ پر ان کو بچھا کر نماز پڑھتا ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ سارا فرش ہی کنکریوں کا بچھا دو ۔ 
پھر جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد کو وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا ۔ مسجد کے ساتھ زمین کا ایک ٹکڑا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ ٹکڑا انہوں نے ایک یہودی سے خریدا تھا ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسجد کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا جنت کے ایک مکان کے بدلے میں خرید لیں ۔‘‘
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین کا وہ ٹکڑا ان سے لے لیا ۔ مسجد نبوی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اگر میری یہ مسجد صنعا کے مقام تک بھی بن جائے(یعنی اتنی وسیع ہوجائے) تو بھی یہ میری مسجد ہی رہے گی، یعنی مسجد نبوی ہی رہے گی ۔‘‘
اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ، آپ نے مسجد نبوی کے وسیع ہونے کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی اور ہوا بھی یہی ۔ بعد کے ادوار میں اس کی توسیع ہوتی رہی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا ۔ 
مسجد نبوی کے ساتھ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے دو حجرے بنائے گئے ۔ یہ حجرے مسجد نبوی سے بالکل ملے ہوئے تھے ۔ ان حجروں کی چھتیں بھی مسجد کی طرح کھجوروں کی چھال سے بنائی گئی تھیں ۔ مسجد نبوی کی تعمیر تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام پذیررہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے مکان میں نچلی منزل میں قیام فرمایا تھا، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی تھی:
’’حضور! آپ اوپر والی منزل میں قیام فرمائیں ۔‘‘ 
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا:
’’مجھے نیچے ہی رہنے دیں…کیونکہ لوگ مجھ سے ملنے کے لیے آئیں گے، اسی میں سہولت رہے گی۔‘‘
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ ایک رات ہماری پانی کی گھڑیاں ٹوٹ گئی ۔ ہم گھبرا گئے کہ پانی نیچے نہ ٹپکنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشانی نہ ہو…تو ہم نے فوراً اس پانی کو اپنے لحاف میں جذب کرنا شروع کردیا…اور ہمارے پاس وہ ایک ہی لحاف تھا اور دن سردی کے تھے ۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اوپر والی منزل پر قیام کرنے کی درخواست کی…آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات مان لی ۔ 
ان کے گھر کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کھانا حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما کے ہاں سے بھی آتا تھا ۔ 
اس تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت زید بن رافع رضی اللہ عنہما کو مکہ بھیجا تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر والوں کو لے آئیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سفر میں خرچ کرنے کے لیے 500 درہم اور دو اونٹ دئیے ۔ رہبر کے طور پر ان کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو بھیجا ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اخراجات برداشت کیے ۔ ان کے گھر والوں کو لانے کی ذمے داری بھی انہیں ہی سونپی گئی ۔ اس طرح یہ حضرات مکہ معظمہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحب زادیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، اور دایہ ام ایمن رضی اللہ عنہا(جو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں)اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ آگئے۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایا کے بیٹے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد درجے عزیز تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس لیے انہیں ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بعد میں ہجرت کی تھی اور اپنے شوہر کو کفر کی حالت میں مکہ ہی چھوڑ آئی تھیں۔ان کے شوہر ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ تھے۔یہ غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوئے، گرفتار ہوئے، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا، پھر یہ مسلمان ہوگئے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ اپنے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پہلے ہی حبشہ ہجرت کرگئی تھیں۔یہ بعد میں حبشہ سے مدینہ پہنچے تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر والے بھی ساتھ ہی مدینہ منورہ آگئے۔ان میں ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام رومان، حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا شامل تھیں۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’جس شخص کو جنت کی حوروں میں سے کوئی حور دیکھنے کی خواہش ہو، وہ ام رومان کو دیکھ لے۔‘‘
ہجرت کے اس سفر میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے قبا میں ٹھہرنا پڑا۔ان کے ہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔بچے کی پیدائش کے بعد مدینہ پہنچیں اور اپنا بچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں برکت حاصل کرنے کے لیے پیش کیا ۔ یہ ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا ۔ ان کی پیدائش پر مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی، کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مہاجرین مدینہ آئے ہیں، ان کے ہاں کوئی نرینہ اولادنہیں ہوئی کیونکہ ہم نے ان پر جادو کردیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان لوگوں کی یہ بات غلط ثابت ہوگئی، اس لیے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی ۔ 
مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوگئی تو رات کے وقت اس میں روشنی کا مسئلہ سامنے آیا ۔ اس غرض کے لیے پہلے پہل کھجور کی شاخیں جلائی گئیں ۔ پھر حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو وہ اپنے ساتھ قندیلیں، رسیاں اور زیتون کا تیل لائے ۔

اسلامی بھائی چارہ

حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے یہ قندیلیں مسجد میں لٹکادیں، پھر رات کے وقت ان کو جلادیا ۔ یہ دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’ہماری مسجد روشن ہوگئی، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بھی روشنی کا سامان فرمائے، اللہ کی قسم! اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی تم سے کردیتا ۔‘‘ 
بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں قندیل جلائی تھی ۔ 
مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو حجرے اپنی بیویوں کے لیے بنوائے تھے (باقی حجرے ضرورت کے مطابق بعد میں بنائے گئے) ۔ ان دو میں سے ایک سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور دوسرا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا ۔ 
مدینہ منورہ میں وہ زمینیں جو کسی کی ملکیت نہیں تھیں، ان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے لیے نشانات لگادئیے، یعنی یہ زمینیں ان میں تقسیم کر دیں ۔ کچھ زمینیں آپ کو انصاری حضرات نے ہدیہ کی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی تقسیم فرمادیا اور ان جگہوں پر ان مسلمانوں کو بسایا جو پہلے قبا میں ٹھہر گئے تھے، لیکن بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ قبا میں جگہ نہیں ہے تو وہ بھی مدینہ چلے آئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیویوں کے لیے جو حجرے بنوائے، وہ کچے تھے ۔ کھجور کی شاخوں، پتوں اور چھال سے بنائے گئے تھے ۔ ان پر مٹی لیپی گئی تھی ۔ 
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مشہور تابعی ہیں اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ تابعی اسے کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کو دیکھا ہو ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں امہات المومنین کے حجروں میں جاتا تھا، ان کی چھتیں اس قدر نیچی تھیں کہ اس وقت اگرچہ میرا قد چھوٹا تھا، لیکن میں ہاتھ سے چھتوں کو چھو لیا کرتا تھا ۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابھی دو سال باقی تھے ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی باندی خیرہ کے بیٹے تھے ۔ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں ۔ صحابہ کرام انہیں برکت کی دعائیں دیا کرتے تھے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لے گئی تھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان الفاظ میں دعا دی تھی:
’’اے اللہ! انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور لوگوں کے لیے یہ پسندیدہ ہوں ۔‘‘ 
مسجد نبوی کے چاروں طرف حضرت حارثہ بن نعمان کے مکانات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد نکاح فرمائے تھے، جن میں دینی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک مکان یعنی حجرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیتے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کا قیام ہوجاتا ۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے سارے مکان اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدیہ کردیے ۔ 
اسی زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار مسلمانوں کے سامنے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ کیا ۔ اس معاہدے کی ایک تحریر بھی لکھوائی ۔ معاہدے یں طے پایا کہ یہودی مسلمانوں سے کبھی جنگ نہیں کریں گے، کبھی انہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں وہ کسی کی مدد نہیں کریں گے اور اگر کوئی اچانک مسلمانوں پر حملہ کرے تو یہ یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ۔ ان شرائط کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کی جان و مال اور ان کے مذہبی معاملات میں آزادی کی ضمانت دی گئی ۔ یہ معاہدہ جن یہودی قبائل سے کیا گیا، ان کے نام بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا ۔ اس بھائی چارہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت اور خلوص کا بے مثال رشتہ قائم ہوا ۔ اس بھائی چارہ کو مواخات کہتے ہیں ۔ بھائی چارہ کا یہ قیام حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان پر ہوا ۔ یہ بھائی چارہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ہوا ۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا:
’’اللہ کے نام پر تم سب آپس میں دودو بھائی بن جاؤ۔‘‘ 
اس بھائی چارہ کے بعد انصاری مسلمانوں نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ خود مہاجرین پر اس سلوک کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھے:
’’اے اللہ کے رسول! ہم نے ان جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے ۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اس قدر ہمدردی اور غم گساری کی ہے، اس قدر فیاضی کا معاملہ کیا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی..یہاں تک کہ محنت اور مشقت کے وقت وہ ہمیں الگ رکھتے ہیں اور صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس میں برابر کا شریک کرلیتے ہیں…ہمیں تو ڈر ہے…بس آخرت کا سارا ثواب یہ تنہا نہ سمیٹ لے جائیں ۔‘‘
ان کی یہ بات سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ نہیں! ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور انہیں دعائیں دیتے رہو گے ۔‘‘
بعض علماء نے لکھا ہے کہ بھائی چارہ کرانا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیات میں سے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کسی نبی نے اپنے امتیوں میں اس طرح بھائی چارہ نہیں کرایا ۔
اس سلسلہ میں روایت ملتی ہے کہ انصاری مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی ہر چیز میں سے نصف حصہ دے دیا ۔ کسی کے پاس دو مکان تھے تو ایک اپنے بھائی کو دے دیا ۔ اسی طرح ہر چیز کا نصف اپنے بھائی کو دے دیا ۔ یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں انھوں نے اپنے مہاجِر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں ۔میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں ۔ عِدّت پوری ہونے کے بعد تم اس سے شادی کرلینا ۔لیکن مہاجِر مسلمان نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا ۔
ان کاموں سے فارِغ ہونے کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے بلایا کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا ۔ اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا لہرادیا جائے ۔ لوگ اس کو دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کو بتادیا کریں گے ۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو پسند نہ فرمایا ۔ پھر کسی نے کہا کہ بگُل بجادیا کریں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی نا پسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا ۔اب کسی نے کہا کہ ناقوس بجا کر اعلان کردیا کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا ۔ اس لیے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ تھا ۔ 
کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ جلادی جایا کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تجویز کو بھی پسند نہ فرمایا اس لیے کہ یہ طریقہ مجوسیوں کا تھا ۔
ایک مشورہ یہ دیا گیاکہ ایک شخص مقرر کردیا جائے کہ وہ نماز کا وقت ہونے پر گشت لگالیا کرے ۔ چنانچہ اس رائے کو قبول کرلیا گیا۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کرنے والا مقرر کردیا گیا ۔ انہی دنوں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا ۔انہوں نے ایک شخص کو دیکھاکہ اس کے جسم پر دو سبز کپڑے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس (بگُل) تھا۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا :
’’ کیا تُم یہ ناقوس فروخت کرتے ہو …‘‘اس نے پوچھا: 
’’تم اس کا کیا کروگے ۔‘‘
میں نے کہا:’’ہم اس کو بجا کر نمازیوں کو جمع کریں گے۔‘‘ اس پر وہ بولا:
’’ کیا میں تمہیں اس کے لیے اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں ۔‘‘ 
میں نے کہا: ’’ ضرور بتائیے…‘‘اب اس نے کہا…’’تم یہ الفاظ پکار کر لوگوں کو جمع کیا کرو ۔‘‘ 
اور اس نے اذان کے الفاظ دہرادیے ۔ یعنی پوری اذان پڑھ کر انھیں سنادی ۔ پھر تکبیر کہنے کا طریقہ بھی بتادیا ۔ 
صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا یہ خواب سُنایا…خواب سُن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ بے شک! یہ سچا خواب ہے۔ ان شاء اللہ! تم جاکر یہ کلمات بلال کو سکھادو… تاکہ وہ ان کے ذریعے اذان دیں ۔ ان کی آواز تم سے بلند ہے اور ذیادہ دل کش بھی ہے ۔‘‘ 
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انھوں نے کلمات سیکھنے پر صبح کی اذان دی…اس طرح سب سے پہلے اذان فجر کی نماز کے لیے دی گئی

یہودیوں کے سوالات

جونہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان گونجی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے وہ جلدی سے چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور تیز تیز چلتے مسجد نبوی میں پہنچے۔ مسجد میں پہنچ کر انہیں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے عرض کیا: 
’’ اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے،میں نے بھی بالکل یہی خواب دیکھا ہے۔‘‘ 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی خواب کی تصدیق سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: 
’’اللہ کا شکر ہے ۔‘‘ 
اب پانچوں وقت کی نمازوں کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے ۔ ان پانچ نمازوں کے علاوہ کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرنا ہوتا،مثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن ہوجاتا یا بارش طلب کرنے کے لیے نماز پڑھنا ہوتی تو وہ ’’الصلاۃ جامعۃ ‘‘ کہہ کر اعلان کرتے تھے ۔
اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ موذن رہے۔ ان کی غیر موجودگی میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے لوگوں سے یہ کہا کرتے تھے: 
’’ بہت جلد ایک نبی ظاہر ہوں گے۔ ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی(یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نشانیاں بتایا کرتے تھے) ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں کو سابقہ قوموں کی طرح تہس نہس کردیں گے۔ جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کو تباہ کیا گیا۔ہم بھی تم لوگوں کو اسی طرح تباہ کردیں گے ۔‘‘ 
جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور مبارک ہوگیا تو یہی یہود حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنے لگے۔ 
جب اوس اور خزرج کے لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تو بعض صحابہ نے ان یہودیوں نے کہا: 
’’ اے یہودیو! تم تو ہم سے کہا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ۔ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی۔ہم ان پر ایمان لاکر تم لوگوں کو تباہ و برباد کردیں گے لیکن اب جبکہ ان کا ظہور ہوگیا ہے تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ تم تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ تک بتایا کرتے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب یہ بات کہی تو یہودیوں میں سلام بن مشکم بھی تھا۔ یہ قبیلہ بنی نضیر کے بڑے آدمیوں میں سے تھا ۔اس نے ان کی یہ بات سن کر کہا: 
’’ ان میں وہ نشانیاں نہیں ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے تھے ۔‘‘ 
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 89 نازِل فرمائی۔
ترجمہ:’’ اور جب انہیں کتاب پہنچی(یعنی قرآن) جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی بھی تصدیق کرنے والی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے یعنی تورات، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (اس نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرتے تھے،پھر وہ چیز آپہنچی جس کو وہ خود جانتے پہچانتے تھے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت)تو اس کا صاف انکار کر بیٹھے بس اللہ کی مار ہو ایسے کافروں پر۔‘‘ 
اس بارے میں ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کے ایک بڑے سردار مالک بن صیف سے فرمایا:
’’میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی،کیا تورات میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ موٹے تازے’’حبر‘‘ یعنی یہودی راہب سے نفرت کرتا ہے،کیونکہ تم بھی ایسے ہی موٹے تازے ہو،تم وہ مال کھا کھا کر موٹے ہوئے جو تمہیں یہودی لا لا کر دیتے ہیں۔‘‘
یہ بات سن کر مالک بن صیف بگڑ گیا اور بول اٹھا:
’’اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری۔‘‘ 
گویا اس طرح اس نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب تورات کا بھی انکار کردیا…اور ایسا صرف جھنجھلاہٹ کی وجہ سے کہا۔ دوسرے یہودی اس پر بگڑے۔انھوں نے اس سے کہا:
’’ہم نے تمہارے بارے میں کیا سنا ہے۔‘‘ 
جواب میں اس نے کہا:
’’محمد نے مجھے غصہ دلایا تھا…بس میں نے غصہ میں یہ بات کہہ دی۔‘‘
یہودیوں نے اس کی اس بات کو معاف نہ کیا اور اسے سرداری سے ہٹادیا۔اس کی جگہ کعب بن اشرف کو اپنا سردار مقرر کیا۔
اب یہودیوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرنا شروع کردیا،ایسے سوالات پوچھنے کی کوشش کرنے لگے جن کے جوابات ان کے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ دے سکیں گے۔مثلاً ایک روز انھوں نے پوچھا:
’’اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)آپ ہمیں بتائیں،روح کیا چیز ہے؟۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کے بارے میں وحی کا انتظار فرمایا،جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے۔‘‘ 
یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
ترجمہ:’’اور یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں،آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے ۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل:آیت85) 
پھر انھوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب آئے گی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے…اس کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی اور ظاہر نہیں کریگا۔‘‘(سورۃ الأعراف) 
اسی طرح دو یہودی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور پوچھا:
’’آپ بتائیے!اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو کن باتوں کی تاکید فرمائی تھی۔‘‘ 
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بدکاری نہ کرو،اور حق کے سوا(یعنی شرعی قوانین کے سوا) کسی ایسے شخص کی جان نہ لو جس کو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے،چوری مت کرو، سحر اور جادوٹونہ کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ،کسی بادشاہ اور حاکم کے پاس کسی کی چغل خوری نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ، گھروں میں بیٹھنے والی(پاک دامن) عورتوں پر بہتان نہ باندھو۔اوراے یہودیو! تم پر خاص طور پر یہ بات لازم ہے کہ ہفتے کے دن کسی پر زیادتی نہ کرو،اس لیے کہ یہ یہودیوں کا متبرک دن ہے ۔‘‘
یہ نو ہدایات سن کر دونوں یہودی بولے:
’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبی ہیں۔‘‘ 
اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’تب پھر تم مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟‘‘انھوں نے جواب دیا:
’’ہمیں ڈر ہے،اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہودی ہمیں قتل کرڈالیں گے۔‘‘
دو یہودی عالم ملک شام میں رہتے تھے۔ انہیں ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کی خبر نہیں ہوئی تھی۔دونوں ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے۔مدینہ منورہ کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:
’’یہ شہر اس نبی کے شہر سے کتنا ملتا جلتا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے ہیں۔‘‘ 
اس کے کچھ دیر کے بعد انہیں پتا چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے اس شہر مدینہ منورہ میں آچکے ہیں۔یہ خبر ملنے پر دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے کہا:
’’ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں،اگر آپ نے جواب دیدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’پوچھو!کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ 
انھوں نے کہا:
’’ہمیں اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی گواہی اور شہادت کے متعلق بتایئے۔‘‘
ان کے سوال پر سورہ آل عمران کی آیت 19 نازل ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ ان کے سامنے تلاوت فرمائی۔
ترجمہ:’’اللہ نے اس کی گواہی دی ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی گواہی دی ہے اور وہ اس شان کے مالک ہیں کہ اعتدال کے ساتھ انتظام کو قائم رکھنے والے ہیں۔ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں،وہ زبردست ہیں،حکمت والے ہیں۔بلاشبہ دین حق اور مقبول،اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘
یہ آیت سن کر دونوں یہودی اسلام لے آئے۔اسی طرح یہودیوں کے ایک اور بہت بڑے عالم تھے۔ ان کا نام حصین بن سلام تھا۔یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ان کا تعلق قبیلہ بنی قینقاع سے تھا۔ جس روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کرکے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے،یہ اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔جونہی انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک دیکھا،فوراً سمجھ گئے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا۔ پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام سنا تو فوراً پکار اُٹھے:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی لے کر آئے ہیں۔‘‘
پھر ان کا اسلامی نام آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن سلام رکھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اپنے گھر گئے۔اپنے اسلام لانے کی تفصیل گھر والوں کو سنائی تو وہ بھی اسلام لے آئے۔

ابتدائی غزوات

چند یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال پوچھا:
’’آپ یہ بتائیں،اس وقت لوگ کہاں ہوں گے جب قیامت کے دن زمین اور آسمان کی شکلیں تبدیل ہوجائیں گی؟‘‘
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا:
’’اس وقت لوگ پل صراط کے قریب اندھیرے میں ہوں گے۔‘‘ 
اسی طرح ایک مرتبہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بادلوں کی گرج اور کڑک کے بارے میں پوچھا۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’یہ اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کا نگران ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑا ہے،اس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہوا اس طرف لے جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔‘‘ 
ان یہودیوں ہی میں سے ایک گروہ منافقین کا تھا۔یہ بات ذرا وضاحت سے سمجھ لیں۔مدینہ منورہ میں جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو یہودیوں کا اقتدار ختم ہوگیا۔بہت سے یہودی اس خیال سے مسلمان ہوگئے کہ اب ان کی جانیں خطرے میں ہیں۔سو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہ جھوٹ موٹ کے مسلمان ہو گئے تھے،لیکن ان کی ہمدردیاں اور محبتیں اب بھی یہودیوں کے ساتھ تھیں۔ظاہر میں وہ مسلمان تھے،اندر سے وہی یہودی تھے،ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول نے منافق قرار دیا ہے۔ان کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ 
انہی منافقوں میں عبداللہ ابن اُبیّ بھی تھا…یہ منافقوں کا سردار تھا۔ 
یہ منافقین ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ کب اور کس طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں…مسلمانوں کو پریشان کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جیسا کہ آئندہ چل کر آپ پڑھیں گے۔
ہجرت کے پہلے سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی…یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آگئیں۔بعض روایات کے مطابق رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب نبوت عطا کی گئی تھی تو اس وقت جنگ کے بغیر تبلیغ کا حکم ہوا تھا…اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ان کافروں سے الجھیے مت بلکہ دامن بچائے رکھیے اور صبر کیجیے۔یہ حکم مکّہ کی زندگی تک رہا۔ 
پھر ہجرت کے بعد اس طرح جنگ کرنے کی اجازت ملی کہ اگر مشرک جنگ کی ابتداء کریں تو مسلمان ان سے دفاعی جنگ کرسکتے ہیں،البتہ حرام(قابل احترام) مہینوں میں جنگ نہ کریں یعنی رجب،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں…کچھ مدت بعد جنگ کی عام اجازت ہوگئی یعنی کافروں کے حملہ نہ کرنے کی صورت میں بھی مسلمان ان سے اقدامی جنگ کریں…اور کسی بھی مہینے میں جنگ کرسکتے ہیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کی اجازت مل گئی تو 12ربیع الاول 2ہجری میں پہلی بار حضور صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کی غرض سے مدینہ سے روانہ ہوئے۔مدینہ سے نکل کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ودان کے مقام پر پہنچے۔یہ ایک بڑی بستی تھی اور ابواء کے مقام سے چھ یا آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔ابواء مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا ۔اس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف مہاجرین تھے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ بنی ضمرہ پر حملہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ 70 صحابہ تھے…بنی ضمرہ کے سردار نے جنگ کے بغیر صلح کرلی…صلح کا معاہدہ لکھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لے آئے۔اس طرح یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا غزوہ تھا۔اس کو غزوہ بنی ضمرہ کہا جاتا ہے۔اس غزوہ میں مسلمانوں کا جھنڈا سفید تھا اور یہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا گیا تھا۔ 
صلح کے معاہدے میں طے پایا تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے مقابلے پر نہیں آئیں گے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم انہیں جب بھی بلائیں گے،انہیں مدد کے لیے آنا ہوگا۔اس غزوے میں مسلمانوں کو پندرہ دن لگے۔
اس کے بعد غزوہ بواط ہوا۔اس میں اسلامی لشکر میں دو سو مہاجرین تھے۔جھنڈا سفید رنگ کا تھا۔یہ ربیع الثانی 2ہجری میں پیش آیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ اس قافلے کا سردار قریش کا سردار امیہ بن خلف تھا۔اس کے ساتھ قریش کے سو آدمی تھے۔قافلے میں دوہزار پانچ سو اونٹ تھے،ان پر تجارتی سامان لدا ہوا تھا۔ 
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس غزوے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تو اپنا قائم مقام حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنایا۔مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم بواط کے مقام پر پہنچے۔ یہ ایک پہاڑ کا نام ہے،اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام غزوہ بواط پڑا۔لیکن بواط پہنچنے پر دشمنوں سے سامنا نہ ہوسکا،کیونکہ قریشی قافلہ مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے رخصت ہوچکا تھا…اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جنگ کے بغیر ہی تشریف لے آئے۔
جمادی الاولیٰ کے مہینے میں غزوہ عشیرہ پیش آیا۔ اس مرتبہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک قریشی قافلے کو روکنے کے لیے تشریف لے گئے۔وہ قافلہ ملک شام کی طرف جارہا تھا۔
قریش نے اس قافلے میں اپنا بہت سا مال و اسباب شامل کررکھا تھا…غرض مکّہ کے سبھی لوگوں نے اس میں مال شامل کیا تھا۔ اس قافلے کے ساتھ پچاس ہزار دینار تھے۔ ایک ہزار اونٹ تھے۔ قافلے کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے(جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) ۔ ستائیس آدمی بھی ہمراہ تھے۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں ابوسلمہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ڈیڑھ سو کے قریب صحابہ کرام تھے۔ مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عشیرہ کے مقام تک پہنچے۔ اس غزوے میں بھی اسلامی جھنڈے کا رنگ سفید تھا،جھنڈا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ 
اسلامی لشکر بیس اونٹوں پر سوار ہوا۔سب لوگ باری باری سوار ہوتے رہے۔عشیرہ کے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ قافلہ وہاں سے گزر کر شام کی طرف جاچکا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پھر جنگ کے بغیر واپس تشریف لے آئے…تاہم اس دوران بنی مدلج سے امن اور سلامتی کا معاہدہ طے پایا۔
اسی سفر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب کا لقب ملا۔ یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو زمین پر اس طرح سوتے پایا کہ ان کے اوپر مٹی لگ گئی۔آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاؤں سے ہلایا اور فرمایا:
’’اے ابوتراب (یعنی اے مٹی والے) اٹھو۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ عشیرہ سے واپس آئے تو چند دن بعد ہی پھر ایک مہم پیش آگئی۔ایک شخص کرز بن جابر فہری نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ سفوان کی وادی میں پہنچے۔یہ وادی میدان بدر کے قریب ہے۔اسی مناسبت سے اس غزوے کو غزوہ بدر اولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔کرز بن جابر مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جاچکا تھا…اس غزوے کے لیے نکلنے سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنایا۔اس مرتبہ بھی جھنڈا سفید تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا گیا تھا۔ 
اسی سال2ہجری کے دوران قبلے کا رخ تبدیل ہوا اور اس وقت تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ 
قبلہ کی تبدیلی کا حکم ظہر کی نماز کے وقت آیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ عصر کی نماز میں حکم آیا تھا ۔ قبلے کی تبدیلی اس لیے ہوئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آرزو کی تھی کہ قبلہ بیت اللہ ہو ۔ خاص طور پر یہ آرزو اس لیے تھی کہ یہودی کہتے تھے :
’’محمد ہماری مخالفت بھی کرتے ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اگر ہم سیدھے راستے پر نہ ہوتے تو تم ہمارے قبلے کی طرف رخ کرکے نمازیں نہ پڑھا کرتے۔‘‘
ان کی بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی کہ ہمارا قبلہ بیت اللہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا منظور فرمائی۔ 
قبلے کی تبدیلی کا حکم نماز کی حالت میں آیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے دوران ہی اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی رخ تبدیل کرلیا۔یہ نماز مسجد قبلتین میں ہورہی تھی۔

قریش کا تجارتی قافلہ

حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ نماز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پڑھی تھی،یہ مسجد سے نکل کر راستے میں دو انصاریوں کے پاس سے گزرے…وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اس وقت رکوع میں تھے۔انہیں دیکھ کر عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے۔‘‘ 
قبا والوں کو یہ خبر اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ وہ لوگ اس وقت دوسری رکعت میں تھے کہ منادی نے اعلان کیا:
’’لوگو!خبردار ہوجاؤ!قبلے کا رخ کعبہ کی طرف تبدیل ہوگیا ہے۔‘‘ 
نماز پڑھتے ہوئے لوگ قبلے کی طرف گھوم گئے۔اس طرح مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ بنا۔ 
اسی سال یعنی3ہجری میں رمضان کے روزے اور صدقہ فطر کا حکم نازل ہوا۔پھر مسجد نبوی میں منبر نصب کیا گیا،جب تک منبر نہیں بنا تھا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے اور خطبہ دیتے تھے،جب منبر بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کے اس تنے کی بجائے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا تو وہ تنا رونے لگا…اس کے رونے کی آواز ایسی بلند ہوئی کہ تمام لوگوں نے اس آواز کو سنا۔آواز اس قدر دردناک تھی کہ ساری مسجد ہل گئی،وہ اس طرح رورہا تھا جیسے کوئی اونٹنی اپنے بچے کے گم ہونے پر روتی ہے۔ 
اس کے رونے کی آواز سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر سے اتر کر اس کے پاس پہنچے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا،اس کے بعد اس میں سے ایک بچے کے سسکنے کی آوازیں آنے لگیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
’’پرسکون اور خاموش ہوجا۔‘‘ 
تب کہیں جا کر اس کا رونا بند ہوا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تنے کو منبر کے نیچے دفن کرنے کا حکم دیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ارشاد فرمایا:
’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘ 
یعنی یہ مقام جنت ہی کا ایک مقام ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو جنت میں شامل کردیا ہے۔ 
گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ قریش کے ایک تجارتی قافلے پر حملے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم روانہ ہوئے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشیرہ کے مقام پر پہنچے تو قافلہ اس مقام سے گزرکر شام کی طرف روانہ ہوچکا تھا…چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لے آئے تھے۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع ملی کہ وہ قافلہ شام سے واپس آرہا ہے اور اس سامانِ تجارت کا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا:
’’قریش کا تجارتی قافلہ آرہا ہے،اس میں ان کا مال و دولت ہے۔تم اس پر حملہ کرنے کے لیے بڑھو۔ممکن ہے، اللہ تمہیں اس سے فائدہ دے۔‘‘
ادھر اس قافلے کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے…یہ قریش کے بھی سردار تھے۔
(اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے) ان کی عادت تھی کہ جب ان کا قافلہ حجاز کی سرزمین پر پہنچتا تو جاسوسوں کو بھیج کر راستے کی خبریں معلوم کرلیتے تھے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خوف بھی تھا،چنانچہ ان کے جاسوس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس تجارتی قافلے کو گھیرنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ یہ سن کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ خوف زدہ ہوگئے۔ انھوں نے فوراً ایک شخص کو مکہ کی طرف روانہ کیا اور ساتھ ہی اسے یہ ہدایات دیں:
’’تم اپنے اونٹ کے کان کاٹ دو،کجاوہ الٹ دو،اپنی قمیص کا اگلا اور پچھلا دامن پھاڑ دو،اسی حالت میں مکہ میں داخل ہونا ۔ انہیں بتانا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)اپنے اصحاب کے ساتھ ان کے قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں۔‘‘ ایسا اس لیے کیا تاکہ مشرکین جلد مدد کو آجائیں۔ 
وہ شخص بہت تیزی سے روانہ ہوا۔ ابھی یہ مکہ پہنچا نہیں تھا کہ وہاں عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی تھیں۔(یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ بعد میں یہ اسلام لے آئی تھیں یا نہیں،روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے…کچھ روایات کہتی ہیں،ایمان لے آئیں تھیں، کچھ میں ہے کہ انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) خواب بہت خوف ناک تھا،یہ ڈر گئیں۔انھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنا خواب سنایا…لیکن اس شرط پر سنایا کہ وہ کسی اور کو نہیں سنائیں گے…انھوں نے پوچھا:
’’اچھا ٹھیک ہے…تم خواب سناؤ، تم نے کیا دیکھا ہے؟‘‘
عاتکہ بنت عبدالمطلب نے کہا:
’’میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار چلا آ رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ ابطخ کے پاس آکر رکا۔(ابطخ مکہ معظمہ سے کچھ فاصلے پر ہے) وہاں کھڑے ہوکر اس نے پوری آواز سے پکار پکار کر کہا:
’’ لوگو! تین دن کے اندر اندر اپنی قتل گاہوں میں چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
’’پھر میں نے دیکھا کہ لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ہیں،پھر وہ وہاں سے چل کر بیت اللہ میں داخل ہوا۔لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔پھر وہ شخص اونٹ سمیت کعبہ کی چھت پر نظر آیا۔وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے،اس کے بعد وہ ابوقبیس کے پہاڑ پر چڑھ گیا۔وہاں بھی اس نے پکار کر یہ الفاظ کہے۔پھر اس نے ایک پتھر اٹھا کر لڑھکایا۔ پتھر وہاں سے لڑھکتا پہاڑ کے دامن میں پہنچا تو اچانک ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔پھر مکہ کے گھروں میں سے کوئی گھر نہ بچا جہاں اس کے ٹکڑے نہ پہنچے ہوں۔‘‘
یہ خواب سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اللہ کی قسم عاتکہ!تم نے بہت عجیب خواب دیکھا ہے…تم خود بھی اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا۔‘‘
حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے تو راستے میں انہیں ولید بن عتبہ ملا،یہ ان کا دوست تھا۔عباس رضی اللہ عنہ نے خواب اس سے بیان کردیا اور وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گا نہیں۔ولید نے جاکر یہ خواب اپنے بیٹے عتبہ کو سنا دیا۔اس طرح یہ خواب آگے ہی آگے چلتا رہا،یہاں تک کہ ہر طرف عام ہوگیا۔مکہ میں اس خواب پر زور شور سے تبصرہ ہونے لگا۔آخر تین دن بعد وہ شخص اونٹ پر سوار مکہ میں داخل ہوا جسے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھیجا تھا۔وہ مکہ کی وادی کے درمیان میں پہنچ کر اونٹ پر کھڑا ہوگیا اور پکارا:
’’اے قریش!اپنے تجارتی قافلے کی خبر لو،تمہارا جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آرہے ہیں،اس پر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) حملہ کرنے والے ہیں…جلدی مدد کو پہنچو۔‘‘ 
اس تجارتی قافلے میں سارے قریشیوں کا مال لگا ہوا تھا،چنانچہ سب کے سب جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ جو مال دار تھے،انھوں نے غریبوں کی مدد کی…تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد جنگ کے لیے جائیں۔ جو بڑے سردار تھے، وہ لوگوں کو جنگ پر ابھارنے لگے۔ ایک سردار سہیل بن عمرو نے اپنی تقریر میں کہا:
’’اے قریشیو!کیا یہ بات تم برداشت کرلو گے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اور ان کے بے دین ساتھی تمہارے مال اور دولت پر قبضہ کرلیں، لہٰذا جنگ کے لیے نکلو…جس کے پاس مال کم ہو،اس کے لیے میرا مال حاضر ہے۔‘‘
اس طرح سب سردار تیار ہوئے،لیکن ابولہب نے کوئی تیاری نہ کی،وہ عاتکہ کے خواب کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا تھا،وہ کہتا تھا:
’’عاتکہ کا خواب بالکل سچا ہے،اور اسی طرح ظاہر ہوگا۔‘‘ 
ابولہب خود نہیں گیا،لیکن اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام کو چار ہزار درہم دے کر جنگ کے لیے تیار کیا، یعنی وہ اس کی طرف سے چلا جائے۔
ادھر خوب تیاریاں ہورہی تھیں،ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ مدینہ سے باہر بئر عتبہ نامی کنویں کے پاس لشکر کو پڑاؤ کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کنویں سے پانی پینے کا حکم دیا اور خود بھی پیا۔ یہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا:
’’مسلمانوں کو گن لیا جائے۔‘‘ 
سب کو گنا گیا،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کا معائنہ بھی فرمایا۔جو کم عمر تھے،انہیں واپس فرمادیا ۔ واپس کیے جانے والوں میں حضرت اسامہ بن زید اور رافع بن خدیجہ،براء بن عازب،اسید بن زھیر،زید بن ارقم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ 
جب انہیں واپس چلے جانے کا حکم ہوا تو عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے۔آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی،چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے۔اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔

بدر کی طرف روانگی

روحاء کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو گننے کا حکم دیا۔گننے پر معلوم ہوا مجاہدین کی تعداد 313 ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا: 
’’یہ وہی تعداد ہے جو طالوت کے ساتھیوں کی تھی،جو ان کے ساتھ نہر تک پہنچے تھے۔‘‘(طالوت بنی اسرائیل کے ایک نیک مجاہد بادشاہ تھے،ان کی قیادت میں 313 مسلمانوں نے جالوت نامی کافر بادشاہ کی فوج کو شکست دی تھی)
لشکر میں گھوڑوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔اونٹ ستر کے قریب تھے۔اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین یا چار چار آدمیوں کے حصے میں دیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جو اونٹ آیا، اس میں دو اور ساتھی بھی شریک تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس اونٹ پر اپنی باری کے حساب سے سوار ہوتے اور ساتھیوں کی باری پر انہیں سوار ہونے کا حکم فرماتے…اگرچہ وہ اپنی باری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینے کی خواہش ظاہر کرتے…وہ کہتے: 
’’اے اللہ کے رسول!آپ سوار رہیں…ہم پیدل چل لیں گے۔‘‘
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: 
’’تم دونوں پیدل چلنے میں مجھ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو اور نہ میں تمہارے مقابلے میں اس کی رحمت سے بے نیاز ہوں۔‘‘(یعنی میں بھی تم دونوں کی طرح اجر کا خواہش مند ہوں)۔
روحاء کے مقام پر ایک اونٹ تھک کر بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو پتا چلا،اونٹ تھک کر بیٹھ گیا ہے اور اٹھ نہیں رہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پانی لیا۔اس سے کلی کی۔کلی والا پانی اونٹ والے کے برتن میں ڈالا اور اس کے منہ میں ڈال دیا۔اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اس قدر تیز چلا کہ لشکر کے ساتھ جاملا۔اس پر تھکاوٹ کے کوئی آثار باقی نہ رہے۔
اس غزوے کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا،وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کی زوجہ محترمہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 
’’تمہیں یہاں ٹھہرنے کا بھی اجر ملے گا اور جہاد کرنے کا اجر بھی ملے گا۔‘‘
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔
طلحہ بن عبید اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو جاسوسی کی ذمے داری سونپی تاکہ یہ دونوں لشکر سے آگے جاکر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ سے ہی روانہ فرمادیا تھا۔روحاء کے مقام سے اسلامی لشکر آگے روانہ ہوا۔عرق ظبیہ کے مقام پر ایک دیہاتی ملا۔اس سے دشمن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔اب لشکر پھر آگے بڑھا۔اس طرح اسلامی لشکر ذفران کی وادی تک پہنچ گیا۔اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قریش مکہ ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے کوچ کرچکے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع ملنے پر تمام لشکر کو ایک جگہ جمع فرمایا اور ان سے مشورہ کیا کیونکہ مدینہ منورہ سے مسلمان صرف ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے…کسی باقاعدہ لشکر کے مقابلے کے لیے نہیں نکلے تھے… اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باری باری اپنی رائے دی…حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 
’’اے اللہ کے رسول!آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، اس کے مطابق عمل فرمایئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ کی قسم!ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جاکر لڑ لیجئے،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں…بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں،ہم آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑیں گے،آخر دم تک لڑیں گے۔‘‘
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو دعا دی۔حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی تقاریر کیں…ان کی تقاریر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے طرف دیکھا،کیونکہ ابھی تک ان میں سے کوئی کھڑا نہیں ہوا تھا۔اب انصاری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ سمجھ گئے،چنانچہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: 
’’اے اللہ کے رسول!شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے…تو عرض ہے کہ ہم ایمان لاچکے ہیں،آپ کی تصدیق کرچکے ہیں اور گواہی دے چکے ہیں،ہم ہر حال میں آپ کا حکم مانیں گے،فرماں برداری کریں گے۔‘‘
ان کی تقریر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’اب اٹھو،کوچ کرو، تمہارے لیے خوش خبری ہے،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا۔‘‘
ذفران کی وادی سے روانہ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے مقام پر پہنچے۔اس وقت تک قریشی لشکر بھی بدر کے قریب پہنچ چکا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قریش کے لشکر کی خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔انہیں دو ماشکی(پانی بھرنے والے)ملے…وہ قریشی لشکر کے ماشکی تھے۔ان دونوں سے لشکر کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں…انہوں نے لشکر میں شامل بڑے بڑے سرداروں کے نام بھی بتادیئے…اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 
’’مکہ نے اپنا دل اور جگر نکال کر تمہارے مقابلے کے لیے بھیجے ۔‘‘
یعنی اپنے تمام معزز اور بڑے بڑے لوگ بھیج دیئے ہیں۔
اس دوران ابوسفیان رضی اللہ عنہ قافلے کا راستہ بدل چکے تھے اور اس طرح ان کا قافلہ بچ گیا…جب کہ اس قافلے کو بچانے کے لیے جو لشکر آیا تھا،اس سے اسلامی لشکر کا آمنا سامنا ہوگیا۔ادھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ قافلہ تو اب بچ گیا ہے،اس لیے انہوں نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ واپس مکہ کی طرف لوٹ چلو…کیونکہ ہم اسلامی لشکر سے بچ کر نکل آئے ہیں لیکن ابوجہل نے واپس جانے سے انکار کردیا۔
قریشی لشکر نے بدر کے مقام پر اس جگہ پڑاؤ ڈالا،جس جگہ پانی نزدیک تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر نے جس جگہ پڑاؤ ڈالا،پانی وہاں سے فاصلے پر تھا۔اس سے مسلمانوں کو پریشانی ہوئی۔تب اللہ تعالیٰ نے وہاں بارش برسادی اور ان کی پانی کی تکلیف رفع ہوگئی۔جب کہ اسی بارش کی وجہ سے کافر پریشان ہوئے۔وہ اپنے پڑاؤ سے نکلنے کے قابل نہ رہے…مطلب یہ کہ بارش مسلمانوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے زحمت ثابت ہوئی۔
صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا: 
’’لوگو! نماز کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘
چنانچہ صبح کی نماز ادا کی گئی…پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطبہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں تمہیں ایسی بات کے لیے ابھارتا ہوں،جس کے لیے تمہیں اللہ نے ابھارا ہے تنگی اور سختی کے موقعوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ تمام تکالیف سے بچالیتا ہے اور تمام غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔‘‘
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے…اور قریش سے پہلے پانی کے قریب پہنچ گئے۔مقام بدر پر پانی کا چشمہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں رکتے دیکھ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: 
’’اے اللہ کے رسول!قیام کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں ہے، میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں…آپ وہاں پڑاؤ ڈالیں جو دشمن کے پانی سے قریب ترین ہو۔ہم وہاں ایک حوض بناکر پانی اس میں جمع کرلیں گے۔اس طرح ہمارے پاس پینے کا پانی ہوگا…ہم پانی کے دوسرے گڑھے اور چشمے پاٹ دیں گے،اس طرح دشمن کو پانی نہیں ملے گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو بہت پسند فرمایا….ایک روایت کے مطابق اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے اور بتایا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی رائے بہت عمدہ ہے۔
اس رائے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کو لے کر آگے بڑھے اور اس چشمے پر آگئے جو اس جگہ سے قریب ترین تھا جہاں قریش نے پڑاؤ ڈالا تھا۔مسلمانوں نے یہاں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسرے گڑھے بھرنے کا حکم دیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top