skip to Main Content

۳ ۔ اچھّے اخلاق

حکیم محمد سعید

۔۔۔۔۔۔

اچھّے اخلاق
رسول اللہﷺ کے اخلاق کے آئینے میں اللہ تعالیٰ کی صفات جھلکتی تھیں ۔اللہ رحیم ہے ، حضورﷺ بھی دنیا کے حق میں رحمت تھے ، اللہ انصاف کرنے والا ہے ، آپ ﷺبھی انصاف کرتے تھے ، اللہ خطاؤں کا معاف کرنے والا ہے ، آپ ﷺ بھی خطائیں معاف کر دیا کرتے تھے ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو مخاطب کر کے فرمایاہے:
’’اے محمدﷺ !تم اخلاق کے بڑے درجے پر ہو ۔‘‘
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں :
’’حضور ﷺ کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتے تھے ، برائی کے بدلے برائی نہیں کرتے تھے ، معاف کر دیا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا ۔ آپ ﷺ نے اپنے کسی خادم کو ، عورت کو ، جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ آپ ﷺنے کبھی کسی کی کوئی درخواست نہیں ٹھکرائی ۔ آپ ﷺ جب گھر میں آتے تو مسکراتے ہوئے آتے ۔‘‘
حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ بڑے نرم مزاج تھے ، بہت مہربان اور رحم دل تھے ۔ کوئی بات ایسی ہوتی جو آپ ﷺ کو ناگوار ہوتی تو خاموش ہو جاتے ۔ حضور ﷺ نہ بحث مباحثہ کرتے اور نہ ضرورت سے زیادہ بات کرتے ۔ جو بات مطلب کی نہ ہوتی اس میں کبھی نہ پڑتے ۔ صرف وہی باتیں کرتے جن سے کوئی مفید نتیجہ نکل سکتا ہو ۔ آپ ﷺ بڑے فیاض ، سچ بولنے والے اور تحمل فرمانے والے تھے ۔‘‘
آپ ﷺ وعدے کے پابند ، انصاف پر قائم رہنے والے ، دوسروں کا حق ادا کرنے،سادگی اور قناعت کا نمونہ تھے۔حضورﷺ کی ساری زندگی سادگی میں گزری ۔ آپﷺ کے پاس جو کچھ ہوتا آپﷺ ضرورت مندوں میں اسی وقت تقسیم فرمادیتے ۔
حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں :
’’میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپﷺ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور آپﷺ کے مبارک بدن پر اُس کے نشان بن گئے تھے ، میں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ !آپﷺ اجازت دیجیے کہ ہم آپﷺ کے لیے چٹائی پر بچھانے کے لیے گدّا بنا دیں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’مجھے دنیا سے کیا واسطہ ۔ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو درخت کے سائے میں تھوڑی دیر آرام کر لے اور پھر وہاں سے چل دے ۔‘‘
دایہ کا احترام
حضور ﷺ کبھی کسی کے احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ آپﷺ نے ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جنھوں نے بچپن میں آپﷺ کی پرورش کی ۔ اس زمانے کے واقعات آپ ﷺ کبھی نہیں بھولے ۔
آپﷺ کی والدہ نے آپﷺ کو دودھ پلانے کے لیے حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا تھا، لیکن اس سے پہلے چند روز تک ابو لہب کی ایک لونڈی ، ثوبیہ نے آپﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب بڑے ہو کر آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے چاہا کہ اُس کے اس احسان کا بدلا دیا جائے ۔ آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے ذریعہ سے کوشش کی کہ ابو لہب سے ثوبیہ کو خرید کر آزاد کر دیا جائے ، لیکن ابو لہب ہمیشہ اس سے انکار کرتا رہا۔
جب تک آپ ﷺ مکّے میں رہے ، ابو لہب سے چھُپا کر کوئی نہ کوئی چیز ثوبیہ کو بھجواتے رہے ۔ مدینے تشریف لے جانے کے بعد بھی آپﷺ ان کو کپڑے اورد وسری چیزیں بھجواتے رہے ۔
رسول اللہ ﷺ جب خیبر کی جنگ سے واپس آئے تو آپ ﷺ کو اطلاع ملی کہ ثوبیہ کا انتقال ہو گیا۔ آپﷺ نے پوچھا کہ ان کے قریبی رشتے دار کون کون ہیں تا کہ انھیں اس نسبت سے تحفے بھجوا سکیں ۔لیکن معلوم ہوا کہ ان کا کوئی رشتہ دار زندہ نہیں ہے ۔
؂ ایک مرتبہ آپﷺ کی دایہ ، حلیمہ سعدیہ مکّے میں آپﷺ کے پاس آئیں اور اپنی محتاجی کا ذکر آپ ﷺ سے کیا ۔ حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے ذکر کیا۔ انھوں نے حلیمہ سعدیہ کوا سی وقت ایک اونٹ اور چالیس بکریاں دے دیں ۔
اسی طرح ایک مرتبہ وہ مدینے میں حضورﷺ کے پاس آئیں ۔ آپﷺ انھیں دیکھتے ہی ’’اماں ، اماں ‘‘ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ زمین پر ایک کپڑا بچھایا اور انھیں اس پر بٹھایا ۔ اس کے بعد ان سے ان کی ضرورت پوچھی اور جس کام سے وہ آئی تھیں وہ کر دیا ۔
فتح مکّہ کے موقع پر حلیمہ سعدیہ کی بہن حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپﷺ کو حلیمہ کے انتقال کی خبر دی تو حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دو سو درہم اور کپڑے دیے اور سواری کے لیے کجاوے سمیت ایک اونٹ عطا فرمایا۔
معذور لڑکی کی دل جوئی
امیر ہو یا غریب ، سمجھ دار ہو یا نا سمجھ ، تن درست ہو یا معذور ، حضورﷺ سب کا یکساں خیال رکھتے تھے ۔
مدینے میں ایک پاگل سی لڑکی تھی ، وہ شہر کی گلیوں میں پھرتی رہتی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتیں ۔ لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ لڑکی پاگل ہے اس لیے کوئی اس کی طرف توجہ بھی نہ دیتا تھا۔
ایک دن حضورﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ یہ لڑکی آ گئی اور کہنے لگی :
’’یا رسول اللہ ﷺ !کیا آپﷺ میرا ایک کام کر دیں گے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :’’ہاں بتاؤ کیا کام ہے ؟‘‘
لڑکی نے کہا :’’آپ ﷺ میرے ساتھ آئیے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا۔’’تم مجھے کہاں لے جانا چاہتی ہو ؟‘‘
لڑکی نے عرض کیا۔’’ا’س گلی تک ۔ پھر میںآ پﷺ کو بتاؤں گی کہ میرا کیا کام ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :’’اچھا چلو۔ میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں ۔‘‘
صحابہؓ کو بڑا تعجب ہوا کہ حضورﷺ اس لڑکی کے کہنے پر اُس کے ساتھ تشریف لے جا رہے ہیں حال آنکہ وہ پاگل ہے اور اُسے خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔
حضورﷺ اس لڑکی کے ساتھ تشریف لے گئے ۔ و ہ مدینے کی گلیوں میں چلتی رہی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی ۔ آپﷺ اُس کے ساتھ چلتے رہے ۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رُک گئی اور وہاں بیٹھ گئی اور حضورﷺ سے کہنے لگی :
’’یا رسول اللہ ﷺ آپ بھی بیٹھ جائیے ۔‘‘حضورﷺ اُس پاگل لڑکی کی دل جوئی کے لیے بیٹھ گئے ۔
بعض لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ حضورﷺ ایک پاگل لڑکی پر اتنی توجہ دے رہے ہیں لیکن صحابہؓ جانتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ پوری امت کے والی ہیں ۔سب کے ہمدرد اور غم گسار ہیں ۔ ایک معمولی پاگل سی لڑکی کی دل جوئی کی خاطر آپﷺ صحابہؓ کو چھوڑ کر اٹھ گئے ۔ آپﷺ تو سراپا رحمت تھے۔
’اے نبی ﷺ )بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ۔ (القلم :۴)
قاتل پر احسان
رسول اللہ ﷺ نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے تھے ، انھوں نے واپس آتے ہوئے نجد کے سردار ثَمامہ بن اَثَال کو گرفتار کر لیااور مدینے لا کر مسجد نبوی کے ستون سے باند ھ دیا۔
حضورﷺ مسجد میں تشریف لائے اور ثمامہ کے پاس آکر پوچھا:
‘‘ثمامہ !کیا حال ہے ؟‘‘
ثمامہ نے کہا :
’’اے محمدﷺ !میرا حال اچھا ہے ۔ اگر آپ میرے قتل کا حکم دیں گے تو یہ جائز ہو گا کیوں کہ میں قاتل ہوں اگر آپﷺا نعام فرمائیں گے تو ایک شکر گزار پر رحمت کریں گے ۔ اگر مال کی ضرورت ہے تو بتا دیجیے کہ کس قدر چاہیے ۔‘‘
دوسرے روز حضورﷺ نے پھر ثمامہ سے وہی سوال کیا ۔
انھوں نے کہا:
’’میں جواب دے چکا ہوں اگر آپ احسان فرمائیں گے تو یہ ایک شکر گزار پراحسان ہو گا۔‘‘
تیسرے روز حضورﷺ نے پھر ثمامہ سے وہی سوال کیا ۔
انھوں نے کہا،’’میرا جواب وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں ۔‘‘
رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دیا جائے ۔
ثمامہ رہائی پا کر مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے ، وہاں جا کر نہائے ۔ مسجد نبوی میں واپس آکر کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے ۔
پھر حضورﷺ سے عرض کرنے لگے :
’’یا رسول اللہ ﷺ !اللہ کی قسم !ساری دنیا میں آپ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی اور نفرت نہ تھی لیکن اب آپﷺ سے زیادہ مجھے کوئی پیارا نہیں ۔ اللہ کی قسم ، آپﷺ کے شہر سے بڑھ کر کوئی اور شہر مجھے بُرا نہ لگتا تھا لیکن آج اس سے اچھااور کوئی شہر نہیں ۔ واللہ ، آپ ﷺ کے دین سے بڑھ کر مجھے کسی اور دین سے بغض نہ تھا لیکن آج آپﷺ کا دین ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔‘‘
ثمامہ حضورﷺ کی اجازت لے کر مدینے سے عمرہ کر نے کے لیے مکّے گئے اور وہاں جا کر اعلان کر دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اب یمامہ کے علاقے سے اس وقت تک تمھیں غلّہ نہیں ملے گا جب تک رسول اللہ ﷺ اس کی اجازت نہیں دیں گے ۔ پھر اپنے وطن واپس جا کر مکّے کو غلّہ بھیجنا بند کر دیا ۔ مکّے کے لوگ اس سے پریشان ہو گئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے التجا کی ۔ حضورﷺ نے ثمامہ کو ہدایت فرمائی کی مکّے کو غلّہ جانے دیں ۔
یتیم پر شفقت
حضورﷺ عید کی نماز کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستے میں آپﷺ نے دیکھا کچھ لڑکے کھیل رہے تھے ۔ ان میں ایک لڑکا الگ بیٹھا تھااور رو رہا تھا۔ کپڑے بھی پُرانے پہنے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس گئے ۔ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا ،’’ کیا بات ہے ؟کیوں رو رہے ہو ؟ دوسرے لڑکوں کے ساتھ کیوں نہیں کھیلتے ؟‘‘
لڑکے نے حضورﷺ کو نہیں پہچانا ۔ وہ کہنے لگا :
’’میرے باپ لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کی خاطر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں ۔ میری ماں نے دوسری شادی کر لی ہے ۔ میری ماں کے دوسرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور میرا مال لے لیا ہے ۔ اب نہ میرا کوئی گھر ہے ، نہ میرے پاس کپڑے ہیں اور نہ کھانے کو کچھ ہے ۔ سارا دن مزدوری کرتا ہوں ۔ شام میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کو آتا ہوں تو کوئی میرے ساتھ نہیں کھیلتا ۔ اسی لیے میں رو رہا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :
’’کیا تم اس سے خوش نہیں ہو گے کہ رسول اللہ ﷺ تمھارے باپ ، عائشہ تمھاری ماں ، علیؓ تمھارے چچا اور حسنؓ اور حسینؓ تمھارے بھائی ہوں ؟‘‘
لڑکے نے اب حضورﷺ کو پہچان لیا ، کہنے لگا:
’’میرے باپ آپﷺ پر قربان ہوئے ، میں بھی آپ ﷺ پر قربان ۔ میں کیوں نہ خوش ہوں گا ۔‘‘
اس کے بعد حضورﷺ اس یتیم لڑکے کو اپنے گھر لے گئے ۔ اسے صاف سُتھرا کیا ، اچھے کپڑے پہنائے اور کھانا کھلایا۔
لڑکا اب بہت خوش تھا ۔ وہ ہنستا دوڑتا لڑکوں کے پاس آیا ۔ جب لڑکوں نے اُسے آتا دیکھا تو پوچھا ،’’ابھی توتم رو رہے تھے اور اب اتنے خوش ہو۔‘‘
لڑکے نے جواب دیا۔
؂ ’’میں بھوکا تھا، اب میرا پیٹ بھر گیا ، میں ننگا تھااب میں اچھے کپڑے پہنے ہوں ۔ میں یتیم تھا اب اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ ہیں ، عائشہؓ میری ماں ، فاطمہؓ میری بہن ، علیؓ میرے چچا، حسنؓ اور حسینؓ میرے بھائی ہیں ۔ کیا مجھے خوش نہیں ہو نا چاہیے ؟‘‘
لڑکوں نے یہ سُن کر کہا ،’’کاش ہمارے باپ بھی اس لڑائی میں مارے گئے ہوتے !‘‘
وہ لڑکا ہمیشہ آپﷺ کی خدمت میں رہااور جب آپﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو وہ روتا تھااور کہتا تھا :
’’آج میں یتیم ہو گیا ، اب میں غریب اور بے گھر ہو گیا ۔‘‘
سب کا خیال رکھنا چاہیے
مدینے میں بنو سلمہ نے اپنے محلّے میں ایک مسجد بنا لی تھی ۔ جہاں حضرت معاذ بن جبلؓ نماز پڑھایا کرتے تھے ۔
ایک دن عشا کی نماز میں انھوں نے سورۂ بقر پڑھی جو قرآن پاک کی سب سے لمبی سورۃ ہے ۔ پیچھے کی صفوں میں ایک صاحب تھے جو سارا دن کھیت میں کام کر کے آئے تھے اور بہت تھکے ہوئے تھے ۔ حضرت معاذؓ کی نماز ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ نیت توڑ کر مسجد سے چلے گئے ۔
حضرت معاذؓ کوخبر ہوئی تو کہنے لگے کہ وہ منافق ہے ۔ انھوں نے بھی یہ بات سنی ۔ انھیں بہت رنج ہوا اور وہ حضورﷺ کے پاس آئے اور حضرت مُعاذؓ کی شکایت کی ۔
حضورﷺ نے حضرت مُعاذ کو بلایااور فرمایا :
’’چھوٹی سورتیں پڑھا کرو ، کیوں کہ تمھارے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، بوڑھے بھی اور وہ بھی جنھیں کوئی کام ہوتا ہے ۔ تم کو سب کا خیال رکھنا چاہیے ۔‘‘
اونٹ کی فریاد
ایک مرتبہ ایک انصاری کا اونٹ باؤلا ہو گیا۔ حضورﷺ کو بتایا گیاتو آپﷺ اس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !ایسا نہ کیجیے کہیں آپﷺ کو کاٹ نہ لے ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’مجھے اس کا کوئی ڈر نہیں ۔‘‘
یہ کہہ کر آپﷺ جب اُس اونٹ کی طرف بڑھے تو اونٹ نے اپنا سر آپﷺ کے آگے ڈال دیا۔ آپﷺ نے اسے پکڑ کر اُس کے مالک کے حوالے کر دیااور فرمایا:
’’ہر مخلوق جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں سوائے گناہ گار انسانوں اور نافرمان جِنوں کے ۔‘‘
اسی طرح آپﷺ ایک مرتبہ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے جہاں ایک اونٹ کھڑا تھا۔حضورﷺ کو دیکھ کر وہ بلبلانے لگااور اُس کی دونوں آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔
حضورﷺ نے اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔
پھر آپﷺ نے اس اونٹ کے مالک کو بلایا اور فرمایا:
’’یہ اونٹ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اِس کو بھوکا رکھتے ہو۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ آپﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ نے آکر آپ ﷺ کے قدموں میں سر رکھ دیا۔
آپﷺ نے پوچھا:
’’یہ اونٹ کس کا ہے ؟یہ مجھ سے اپنے مالک کی شکایت کر رہا ہے ‘‘
تحقیق کرنے پر جب یہ بات صحیح ثابت ہوئی تو حضورﷺ نے اس اونٹ کو اس کے مالک سے لے کر صدقے کے اونٹوں میں بھیج دیا۔
جانوروں سے برتاؤ
ایک مرتبہ حضورﷺ اپنے صحابہؓ کے درمیان تشریف فرما تھے اور ان سے باتیں کر رہے تھے ۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’ایک آدمی سفر کر رہا تھا۔ راستے میں اسے سخت پیاس لگی ۔ اُس کو ایک کنواں نظر آیا ۔ اُس نے اس کنویں میں اُتر کر پانی پیا ۔جب باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے بے تاب ہو کر مٹی چاٹ رہا ہے ۔ اس شخص نے سوچا کہ یہ بھی میری طرح پیاسا ہے ۔ وہ کنویں میں اترا اور موزے میں پانی بھر کر لایااور کتّے کو پلایا۔ کتّے نے پانی پیااوراپنی پیاس بجھائی۔اس شکر نے اللہ کا شکر ادا کیااور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اللہ نے اس کے گناہ معاف کر دیے ۔‘‘
صحابہؓ نے سوال کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !کیا جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر بھی ہمیں ثواب ملے گا ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’ہاں ۔‘‘
پھر آ پﷺ نے فرمایا:’’ایک عورت بلّی کو باندھے رکھتی تھی ۔ نہ اُسے خود کھلاتی تھی اور نہ کھلا چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاکراپنی بھوک مٹا لے ۔ اپنی اِ س حرکت کی وجہ سے وہ دوزخ میں گئی ۔‘‘
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک اونٹنی بھوکی پیاسی بندھی ہوئی ہے ۔آپ ﷺ نے اس کی رسّی کھول دی اور ا س کو چھوڑ دیا۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو نصیحت کی کہ جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اللہ سے ڈریں ۔
غلاموں سے محبت
مکّے سے ہجرت کرکے مدینے آنے والے مہاجرین میں ایسے لوگ بھی تھے جو کافروں کے غلام رہے تھے اور اب آزاد تھے۔ اُنھوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے آقاؤں نے ان پر شدید ظلم کیے اور انھیں مجبور کیا کہ وہ اسلام چھوڑدیں ۔ لیکن وہ دین پر جمے رہے اور ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت برداشت کرتے رہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت اور اسلام سے وفاداری نے ان کو پوری اُمّت کامحبوب بنا دیا تھا۔ حضورﷺ ان کا بہت خیال رکھتے تھے ۔
انھی میں حضرت بلال حبشیؓ تھے جو سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے ۔ اسلام لانے کے بعد ان کے مالک نے انکو بہت ستایا،لیکن وہ اسلام پر قائم رہے ۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انھیں خرید کر آزاد کر دیااور وہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺکی خدمت میں رہنے لگے ، صحابہؓ ان کی بہت عزت کرتے تھے ۔
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ تھے جو ایک یہودی کے غلام تھے ۔ وہ حضورﷺ کے پاس آئے اور مسلمان ہو گئے ۔ حضورﷺ نے اس یہودی کو معاوضہ دے کر حضرت سلمان فارسیؓ کو آزاد کرالیا۔
ایک دن حضرت بلالؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ ایک جگہ بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ انھیں ابو سفیان نظر آئے ۔ وہ مکّے کے کافروں کے نمائندے بن کر رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے مدینے آئے تھے تا کہ حُدیبیہ میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کی تجدید کرالیں ۔
حضرت بلالؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کو انھیں دیکھ کر غصّہ آگیا۔ انھیں وہ زمانہ یا دآگیا جب مکّے میں کافر مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے تھے ۔ وہ کہنے لگے :
’’اللہ کے دشمن ابھی تک تلوار کی زد میں نہیں آئے ۔‘‘
حضر ت ابو بکر صدیقؓ اُدھر سے گزر رہے تھے ۔ انھوں نے یہ الفاظ سُنے ۔ توا نھیں بُرا لگا کیوں کہ ابو سفیان قریش مکّہ کے سفیر بن کر آئے تھے ۔ انھوں نے حضرت بلالؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ سے کہا ، ’’تم کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘اور پھر جا کر رسول اللہ ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا۔
حضورﷺ نے جب یہ واقعہ سنا تو آپﷺ فکر مند ہو گئے ۔ آپﷺ نے حضرت ابو بکرؓ سے فرمایا:’’ابو بکر !شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ۔ اگر تم نے ان کو ناراض کیا تو اپنے رب کو ناراض کیا۔‘‘
حضورﷺ کی زبان سے یہ الفاظ سُن کر حضرت ابو بکرؓ گھبرا گئے ۔ ان کی تو ہر وقت یہ کوشش تھی کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ان سے راضی رہیں ۔ انھیں اللہ کی ناراضی کیسے گوارا ہو سکتی تھی ۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت بلالؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے :
’’میرے بھائیو ، میں نے تمھیں ناراض کیا۔ تم مجھ سے خفا تو نہیں ہو؟‘‘وہ دونوں بول اُٹھے ،’’ نہیں ، اے ہمارے بھائی ، اللہ آپ کو معاف کرے ہم آپ سے خفا نہیں ۔‘‘
غریبوں سے محبّت
اللہ کے رسول ﷺ اکثر یہ دُعا مانگا کرتے تھے :
’’اے اللہ !مجھے مسکین رکھ ، مسکین اُٹھااور مسکینوں کے ساتھ میرا حشر کر ۔‘‘
حضرت عائشہؓ حضورﷺ کو یہ دعا مانگتے دیکھا کرتی تھیں ۔ایک دن انھوں نے حضورﷺ سے پوچھا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ یہ دعا کیوں مانگتے ہیں کہ دنیا میں مجھے غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ رکھ ، انھی کے ساتھ میرا خاتمہ ہو اور قیامت کے دن غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ہی مجھے اُٹھا؟‘‘
حضورﷺنے فرمایا:
’’اس لیے کہ یہ دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے ۔ ‘‘
پھر آپ نے فرمایا:
’’اے عائشہؓ !کبھی کسی غریب مسکین کو اپنے دروازے سے نا مراد نہ پھیرنا۔ اسے کچھ ضرور دے دینا چاہے چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
اے عائشہؓ !غریبوں سے محبت رکھو ،ان کو اپنے قریب کر لو ۔ ایسا کرو گی تو اللہ بھی تمھیں اپنے قریب کر لے گا ۔‘‘
دشمنوں کے ساتھ احسان
حنین کی جنگ میں کام یابی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دشمنوں کے مال و اسباب کو جو اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور ان کے قیدیوں کو جعرانہ میں محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر دشمن کی اس فوج سے نمٹنے کے لیے جو طائف کے قلعے میں جا کر بیٹھ گئی تھی اور ایک نئی جنگ کی تیاری کر رہی تھی ، مسلمانوں کے لشکر کو لے کر طائف کی طرف روانہ ہو گئے ۔
حضور ﷺ نے بیس روز تک قلعے کا محاصرہ کیا۔ پھر جب اطمینان ہو گیا کہ اس قلعے میں گھری ہوئی فوج کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو واپس جعرانہ تشریف لائے ۔
یہاں پہنچ کر رسول اللہ ﷺنے چند روز انتظار کیا کہ جنگ حنین کے قیدیوں کے رشتے دار آئیں تو ان سے ان کی رہائی کی بات کریں ۔ لیکن جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی کوئی نہ آیا تو آپ ﷺ نے مال غنیمت اور قیدی مسلمانوں میں تقسیم کر دیے ۔
جب تقسیم ہو چکی تو قبیلہ ہوازن کا جس نے حنین میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی ، ایک وفد حضورﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا :
یا رسول اللہ ﷺ !ہم لوگ شریف خاندان ہیں۔ ہم پر جو مصیبت آئی ہے ، وہ آپ ﷺ کو معلوم ہے ۔حضورﷺ ہم پر احسان فرمائیں ،اللہ آپﷺ پر احسان فرمائے گا۔
اس قبیلے کے ایک سردار زُہیر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے :
’’یا رسول اللہ ﷺ !جو عورتیں یہاں قید ہیں ، ان میں آپ ﷺ کی پھوپھیاں ، خالائیں اور وہ عورتیں ہیں جنھوں نے آ پﷺ کی پرورش کی ہے ۔ اللہ کی قسم ، اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہوتا تو ان سے کچھ امیدیں ہوتیں لیکن آپﷺ سے تو بہت امیدیں ہیں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’اچھا، یہ بتاؤ کہ تمھیں اپنی عورتیں اور اولاد زیادہ پیاری ہے یا مال و اسباب ؟‘‘
انھوں نے کہا:
’’یا رسول اللہ ﷺ ، جب آپﷺ نے ہمیں ایک چیز لینے کااختیار دیا ہے تو ہماری اولاد اور عورتیں ہمیں دے دیجیے ۔ یہ ہمیں زیادہ پیاری ہیں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’میں نے تمھارا کئی دن انتظار کیا لیکن تم نہ آئے ۔ میں نے مالِ غنیمت اور قیدی مسلمانوں میں تقسیم کر دیے ۔ میرے اور میرے خاندان کے حصّے میں جو قیدی آئے ہیں وہ تو میں نے تمھیں دیے، باقی رہے دوسرے قیدی ، تو ان کے لیے یہ تدبیر ہے کہ جب میں نماز پڑھا چکوں تو تم مجمع میں کھڑے ہوکر کہنا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو شفیع ٹھیرا کر مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو شفیع ٹھیرا کر رسول اللہ ﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری اولاد اور ہماری عورتیں واپس کر دی جائیں ۔ اس وقت میں اپنے اور اپنے خاندان کے قیدی واپس کر دوں گا اور باقی قیدیوں کے لیے مسلمانوں سے کہوں گا۔‘‘
چناں چہ ہوازن کے آدمیوں نے ایسا ہی کیا اور نماز کے بعد اپنی درخواست پیش کر دی ۔حضورﷺ نے فرمایا:
’’میں نے اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصّہ تمھیں دیا ۔‘‘
انصاراور مہاجرین یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تو اپنے حصّے کے قیدی چھوڑ دیں اور وہ ان کو اپنی قید میں رکھیں ۔ انھوں نے فوراً! ایک زبان ہو کر عرض کیا :
’’ہم نے بھی اپنا حصّہ حضورﷺ کی نذر کیا۔‘‘
اس طرح حضورﷺ نے ہوازن سے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کے چھے ہزار قیدی واپس کر دیے ۔
غلطی پر انعام
رسول اللہ ﷺطائف کے محاصرے کے بعد جب جعرانہ کی طرف جا رہے تھے تو آپﷺ کے ایک صحابیؓ حضرت ابورہم غفاری کی اونٹنی حضور ﷺ کی اونٹنی سے بھڑ گئی اور ان کے پاؤں کی رگڑ سے حضورﷺ کے پاؤں کو تکلیف پہنچی۔ آپ ﷺ نے ابو رہم کے پاؤں کو کوڑے سے ٹہوکا دے کر فرمایا:’’پاؤں ہٹاؤ ، مجھے تکلیف ہورہی ہے ۔‘‘
ابو رہمؓ ایک دم خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں اس بے ادبی پر اللہ کی طرف سے عتاب نہ ہو۔
صبح کو جب جعرانہ پہنچ کر قافلہ ٹھیرا تو ابو رہمؓ اونٹ چرانے نکل گئے لیکن دل میں ڈرتے رہے ، اسی لیے واپس آتے ہی لوگوں سے پوچھا۔ معلوم ہو اکہ رسول ﷺ نے یاد فرمایا تھا۔ چناں چہ ڈرتے ڈرتے خدمت میں حاضر ہوئے ۔
لیکن یہ قیصرہ و کسریٰ کی شہنشاہیت نہ تھی جہاں ذرا سی بھی گستاخی پر سخت ترین سزا ملتی تھی ، بلکہ یہ رحمۃ للعٰلمین کا دربار تھا جہاں رحمت اور عفوو درگزر کے سوا کچھ نہ تھا ، جہاں آقا اور غلام اور چھوٹے اور بڑے کا کوئی فرق نہ تھا۔
جب ابو رہمؓ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے تو حضورﷺ نے فرمایا:
’’ابو رہم !تم نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی ۔ اس کے بدلے میں میں نے تمھارا پاؤں کوڑے سے ہٹا دیا تھا۔ اب اس کے بدلے میں یہ بکریاں انعام میں لے لو۔‘‘
حضورﷺ کی زبان سے یہ الفاظ سُن کر ابو رہم غفاریؓ کا چہرہ کھِل اٹھا اور انھیں یوں محسوس ہوا جیسے حضورﷺ راضی ہو گئے ہیں تو انھیں ساری کائنات مل گئی ہے ۔
حسنِ سلوک
زید بن سعنہ یہودی تھے ۔رُپے کا لین دین کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کچھ قرض لیا ۔ رقم کی ادائی میں ابھی کچھ دن باقی تھے کہ وہ تقاضے کو آئے ۔ حضورﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر کھینچی اور بُرا بھلا کہنے لگے۔
حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ وہ غصّے سے بے تاب ہو گئے ۔ اُن سے کہنے لگے :
’’اے اللہ کے دشمن !تو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے مسکرا کر فرمایا :
’’عمرؓ !مجھے تم سے کچھ اور امید تھی ۔ اس شخص کو سمجھاتے کہ نرمی سے تقاضا کرے اور مجھ سے کہتے کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں ۔‘‘
پھر حضرت عمرؓ سے فرمایا،’’جاؤ ، اس کاقرض ادا کر دو اور اس کوبیس صاع کھجور کے اور زیادہ دے دو۔‘‘
زید بن سعنہ پر حضور ﷺ کے ا س طرز عمل کا ایسا اثر ہوا کہ مسلمان ہوگئے ۔
میں حضورﷺ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا
ایک واقعہ جو حضورﷺ کے اعلا ترین اخلاق کا ثبوت ہے ، حضرت زید بن حارثہؓ کاہے ۔
زیدؓ ، حارثہ بن شرجیل کے بیٹے تھے ۔ وہ آٹھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ سُعدیٰ انھیں لے کر اپنے میکے گئیں ۔ دورانِ سفر ان کے پڑاؤ پر ڈاکا پڑا اور قافلے کاسامان لوٹ لیا گیا ۔ زیدؓ کو ڈاکو پکڑ کر لے گئے اور انھیں طائف کے قریب عکاظ کے میلے میں لے جا کر بیچ دیا۔
زیدؓ کو جنھوں نے خریدا وہ حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے ۔ انھوں نے مکّے آکر زیدؓ کو اپنی پھوپھی کو دے دیا ۔ جب حضورﷺ کی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوئی تو حضور ﷺ نے زیدؓ کودیکھا ۔ ان کی عادتیں حضورﷺ کو پسند آئیں اور انھوں نے زیدؓ کو اپنے لیے مانگ لیا ۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا حضورﷺ کے ساتھ رہنے لگا۔
زیدؓ کی عمر اس وقت پندرہ برس کی تھی ۔
کچھ عرصے کے بعد ان کے باپ اور چچا کو پتا چلا کہ ان کا لڑکا مکّے میں ہے ۔ وہ اسے تلاش کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا، ’’ہمارا لڑکا ہمیں دے دیجیے ۔ آپﷺ جو معاوضہ مانگیں ہم دینے کو تیار ہیں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’میں لڑکے کو بُلاتا ہوں اور اس کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ تمھارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پا س رہنا چاہتا ہے ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا ۔ تم اسے لے جا سکتے ہو ۔ لیکن اگر اس نے میرے پاس رہنا چاہا تو میں ایسا نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہے میں اسے بلا وجہ نکال دوں ۔‘‘
زیدؓ کے باپ اور چچا بول اُٹھے ،’’یہ توآپﷺ نے انصاف سے بھی بڑھ کر بات کی ہے ۔‘‘
حضورﷺ نے زیدؓ کو بلایا اور ان کے باپ اور چچا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا:
’’ان کو جانتے ہو؟‘‘
زیدؓ نے عرض کیا:
’’جی ہاں، یہ میر ے باپ اور چچا ہیں۔‘‘
پھر حضورﷺ نے کہا:
’’اچھا، تم ان کو پہنچانتے ہواور مجھے بھی جانتے ہو۔ اب تمھیں اختیار ہے ، چاہے ان کے ساتھ چلے جاؤ، چاہے میرے پاس رہو۔‘‘
زید نے فوراً! جواب دیا:
’’میں آپﷺ کو چھوڑ کر کسی کے پاس جانا نہیں چاہتا ۔‘‘
زیدؓ کے والد اور چچا یہ سن کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے:
’’زید !کیا تمھیں آزادی کے مقابلے میں غلامی پسند ہے ؟اپنے ماں باپ اور گھر والوں کو چھوڑ کر دوسروں کے پاس رہنا چاہتے ہو؟‘‘
زیدؓ نے کہا:
’’میں نے حضورﷺ کے جو اوصاف دیکھے ہیں اس کے بعد اب میں کسی کو بھی اُن پر ترجیح نہیں دے سکتا ‘‘
زیدؓ کا یہ جواب سن کر ان کے باپ اور چچا خوشی سے انھیں حضورﷺ کے پاس چھوڑنے پر تیار ہو گئے ۔
یہ واقعہ حضورﷺ کی نبوت سے پہلے کا ہے ۔
یتیم بچّوں سے معاملہ
مدینے پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام اللہ کے گھر کی تعمیر تھی۔ اب تک تو یہ طریقہ تھا کہ جہاں موقع مل جاتا آپ ﷺ نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔ لیکن اب ایک مسجد کی ضرورت تھی۔
حضورﷺ جہاں ٹھیرے ہوئے تھے اس کے قریب نجار کے لوگوں کی ایک زمین تھی ۔ اس پر کچھ قبریں تھیں اور کچھ کھجور کے درخت ۔آپﷺ نے اُن لوگوں کو بلا کر فرمایا:
’’میں یہ زمین اس کی قیمت ادا کر کے لینا چاہتا ہوں ۔‘‘
نجار کے لوگوں نے عرض کیا:
’’ہم قیمت لیں گے ، لیکن آپﷺسے نہیں ، اللہ سے ۔‘‘
یہ زمین دراصل دو بچّوں کی تھی جن کے باپ مر چکے تھے ۔ حضورﷺ نے ان یتیم بچوں کو بلایااور ان سے فرمایا کہ وہ یہ زمین دے دیں اور اس کی جو قیمت ہو وہ لے لیں ۔ ان بچوں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !آپ خوشی سے یہ زمین لے لیجیے ، ہمیں اس کی کوئی قیمت نہیں چاہیے ۔ یہ زمین ہماری طرف سے آپ کی نذر ہے ۔‘‘
مگر حضور ﷺنے بغیر قیمت ادا کیے زمین لیناپسند نہ فرمایا اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو ہدایت کی کہ وہ اس کی قیمت دے دیں ۔ انھوں نے قیمت دے کر وہ زمین لے لی ۔
اسی زمین پر مسجد نبوی تعمیر ہوئی ۔
جاؤ ، آج تم سب آزاد ہو
رمضان ۸ ہجری میں مکّہ فتح ہوا۔ رسول اللہ ﷺ اس شہر میں جہاں کافروں نے آپﷺ کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھااور آپﷺ کے صحابہؓ کو طرح طرح سے ستا کر ہجرت کر جانے پر مجبور کر دیا تھا ، اس شان سے داخل ہوئے کہ دس ہزار جاں نثار وں کا لشکر آپ کے ساتھ تھا۔
آپﷺ نے اعلان کر دیا تھا کہ جو شخص کعبے میں پناہ لے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ، جو اپنے گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھ جائے گا وہ بھی محفوظ رہے گا اور جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے گا ، وہ بھی محفوظ ہو گا۔ یہ ابو سفیان وہی تھے جو اسلام کے سخت دشمن تھے ، جنھوں نے مدینے پر بار بار حملہ کیا، عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور خود رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی ۔مگر اب وہ کچھ دیر پہلے ایمان لے آئے تھے اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ان کی ساری پچھلی باتیں بھلا دی تھیں اور ان کو یہ عزت دی تھی کہ ان کے گھر کو کافروں کے لیے پناہ گاہ بنا دیا تھا۔
حضورﷺ مکّے میں داخل ہو کر سیدھے کعبہ شریف پہنچے ۔ وہاں جو بت رکھے تھے ان کو گرا یا، پھر خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ، وہاں دیواروں پر جو تصویریں تھیں انھیں مٹوادیا۔ جو بت رکھے تھے ان کو نکلوایا۔
اس کے بعد حضورﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا ۔ خطبے کے بعد آپ ﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا۔ بڑے بڑے کافر موجود تھے ۔ ان میں وہ بھی تھے جنھوں نے حضورﷺ کی مخالفت میں دن رات ایک کر دیے تھے ، اسلام کو مٹانے میں کوئی کسر نہ رکھی تھی ، مسلمانوں کو ایذائیں پہنچائی تھیں ، طرح طرح کے ظلم کیے تھے ، آپﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے ، آپﷺ کے بارے میں ناگوار باتیں کہی تھیں ، ان میں وہ بھی تھے جنھوں نے آپﷺ کے صحابہؓ کو قتل کیا تھاا ور خود آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کے خون سے ہاتھ رنگے تھے ۔
آپﷺ نے ان سب کی طرف دیکھااورپھر پوچھا:
’’اے قریش کے لوگو! آج تم مجھ سے کس قسم کے برتاؤ کی توقع رکھتے ہو؟‘‘
لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
’’ہمیں آپ سے بھلے برتاؤ کی توقع ہے ۔ آپ ہمارے شریف بھائی ہیں ، شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔‘‘
حضورﷺ تودونوں جہاں کے لیے رحمت تھے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا :
’’جاؤ ، آج تم سب آزاد ہو۔‘‘
کافروں میں سے ایک شخص آپ کی طرف بڑھا تو رعب سے اس کا بدن کانپنے لگااور اس کے قدم لڑکھڑانے لگے۔
آپﷺ نے دیکھا تو درد بھرے لہجے میں فرمایا:
’’ڈرو نہیں ، میں بھی قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں ، کوئی بادشاہ نہیں ہوں ۔‘‘
فرماں برداری
حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ حضورﷺ کے صحابی تھے ۔ ان کے ذمّے یہ خدمت تھی کہ سفر میں حضورﷺ جس اونٹ پر سوار ہوتے وہ اس کی نکیل پکڑکر آگے آگے چلتے ۔
ایک مرتبہ ایک سفر میں اپنی یہی خدمت انجام دے رہے تھے کہ حضورﷺ نے وہ اونٹ جس پر آپ ﷺ سوار تھے بٹھا دیااور خود اُتر کر فرمایا:
’’عقبہ !اب تم سوار ہو لو۔‘‘
انھوں نے عرض کیا،’’سبحان اللہ یا رسول اللہ ﷺ! میں اور آپ ﷺ کی سواری پر سوار ہوں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے پھر حکم دیا:
’’عقبہ !اب تم سوارہوجاؤ ۔‘‘
عقبہؓ نے پھر وہی عرض کیا:
’’حضورﷺ !میں آپﷺ کی سواری پر نہیں بیٹھ سکتا ۔‘‘
آپﷺ نے جب زیادہ اصرار کیا تو فرماں برداری کے لیے عقبہ اونٹ پر بیٹھ گئے اور حضورﷺ ان کی اونٹ کی نکیل تھام کر آگے آگے چلنے لگے ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top