skip to Main Content

۲ ۔ پہلی وحی

اشتیاق احمد

پہلی وحی

انہوں نے آتے ہی کہا: 
’’اقراء۔‘‘ یعنی پڑھئے۔
آپ نے فرمایا: 
’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (یعنی میں پڑھا لکھا نہیں)۔
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ آپ فرماتے ہیں، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے موت کا گمان ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑدیا، پھر کہا:
’’پڑھیے۔‘‘یعنی جو میں کہوں، وہ پڑھیے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
’’میں کیا پڑھوں؟‘‘
تب جبرائیل علیہ السلام نے سورۃ العلق کی یہ آیات پڑھیں:
ترجمہ:’’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ (پر جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے (یعنی جب پڑھیں، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھا کیجئے) جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قران پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور ایسا ہے) جس نے لکھے پڑھوں کو قلم سے تعلیم دی۔ (اور عام طور پر) انسانوں کو (دوسرے ذریعوں سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ میرے پاس سے چلا گیا، ایسا لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہو، یعنی یہ کلمات مجھے زبانی یاد ہوگئے، اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:
’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔‘‘
آپ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ غار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ کی تلاش میں آپ کے عزیزواقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آپ تشریف لے آئے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔ حضرت جبرائیل کا یہ جملہ بھی بتایا کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’آپ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘
پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر وہ پکار اٹھے:
’’قدوس۔۔۔ قدوس۔۔۔ قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل آئے تھے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد اس امت کے نبی ہیں۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں۔‘‘
قدوس کا مطلب ہے، وہ ذات جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ لفظ تعجب کے وقت بولا جاتا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں، اللہ۔۔۔ اللہ۔
ورقہ بن نوفل کو جبرئیل کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔ 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:
’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، آپ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔‘‘
آپ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:
’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟‘‘
جواب میں ورقہ نے کہا:
’’ہاں! اس لئے کہ جو چیز آپ لے کر آئے ہیں، اسے لے کر جو بھی آیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘
ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:
’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ہیں۔‘‘
لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ چونکہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: 
’’ میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے۔ان کے جسم پر سرخ لباس تھا۔‘‘
ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جبرئیل علیہ السلام کی آمد کے بعد سلسلہ رک جانے کے بعد آپ کوصدمہ ہوا۔ کئی بار آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے، تاکہ خود کو وہاں سے گرا کر ختم کردیں، لیکن جب بھی آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے، جبرائیل علیہ السلام آپ کو پکارتے: 
’’ اے محمد! آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہے۔‘‘ 
یہ کلمات سن کر آپ سکون محسوس کرتے، لیکن جب پھر وحی کا وقفہ کچھ اور گزرجاتا تو آپ بے قرار ہوجاتے، رنج محسوس کرتے اور اسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے، چنانچہ پھر جبرائیل علیہ السلام آجاتے اور آپ کو تسلی دیتے، آخر دوبارہ وحی ہوئی۔
سورہ مدثر کی پہلی تین آیات اتریں۔
ترجمہ۔:’’ اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھو! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔‘‘
اس طرح آپ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں:
’’سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دلاسا دیا۔سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ایمان لانے کا واقع کچھ اس طرح ہے۔
ایک دن آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا: 
’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسندکیا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں، میں تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں، لات اور عزّٰی کی عبادت سے روکتا ہوں۔
حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا:
’’ یہ ایک نئی بات ہے، اس کے بارے میں میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا۔اس لیے میں اپنے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اپنے والد سے مشورہ کرلوں۔‘‘
ان کا جواب سن کر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’علی! اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو چھپائے رکھنا۔‘‘
انہوں نے وعدہ کیا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ رات بھر سوچتے رہے۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی۔سویرے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
علماء نے لکھا ہے، اس وقت حضرت علی کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔

گم شدہ بیٹا 

لیکن احتیاط کے باوجود حضرت علیؓ کے والد کو ان کے قبول اسلام کا علم ہوگیا۔ تو انہوں نے حضرت علیؓ سے اس کے متعلق استفسار کیا۔
اپنے والد کا سوال سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
’’ابا جان! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ اللہ کے رسول لے کر آئے ہیں، اس کی تصدیق کرچکا ہوں، لہٰذا ان کے دین میں داخل ہوگیا ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرچکا ہوں۔ ‘‘
یہ سن کر ابوطالب نے کہا: 
’’ جہاں تک ان کی بات ہے(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) تو وہ تمہیں بھلائی کے سواکسی دوسرے راستے پر نہیں لگائیں، لہٰذا ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔‘‘
ابوطالب اکثر یہ کہا کرتے تھے: 
’’ میں جانتا ہوں، میرا بھتیجا جو کہتا ہے، حق ہے، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش کی عورتیں مجھے شرم دلائیں گی، تو میں ضرور ان کی پیروی قبول کرلیتا۔‘‘
عفیف کندی رضی اللہ عنہ ایک تاجر تھے، ان کا بیان ہے:
’’ اسلام کرنے سے بہت پہلے میں ایک مرتبہ حج کے لئے آیا۔ تجارت کا کچھ مال خریدنے کے لئے میں عباس ابن عبدالمطلب کے پاس گیا۔ وہ میرے دوست تھے اور یمن سے اکثر عطر خرید کر لاتے تھے۔ پھر حج کے موسم میں مکہ میں فروخت کرتے تھے، میں ان کے ساتھ منیٰ میں بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان آیا۔ اس نے غروب ہوتے سورج کی طرف غور سے دیکھا، جب اس نے دیکھ لیا کہ سورج غروب ہوچکا تو اس نے بہت اہتمام سے وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگا۔ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے…پھر ایک لڑکا آیا، جو بالغ ہونے کے قریب تھا۔اس نے وضو کیا اور اس نوجوان کے برابر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا۔پھر ایک عورت خیمے سے نکلی اور ان کے پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد ان نوجوان نے رکوع کیا تو اس لڑکے اور عورت نے بھی رکوع کیا۔نوجوان نے سجدے میں گیا تو وہ دونوں بھی سجدے میں چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے عباس بن عبدالمطلب سے پوچھا: 
’’ عباس! یہ کیا ہوررہا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا: 
’’یہ میرے بھائی عبداللہ کے بیٹے کا دین ہے۔ محمدﷺ کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہ لڑکا میرا بھتیجا ہے علی ابن طالب ہے اور یہ عورت محمدﷺ کی بیوی خدیجہ ہے۔‘‘
یہ عفیف کندی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو کہا کرتے تھے: 
’’ کاش! اس وقت ان میں چوتھا آدمی میں ہوتا۔‘‘
اس واقعے کے وقت غالباً حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہیں تھے، اگرچہ اس وقت تک دونوں مسلمان ہوچکے تھے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے تھے، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔پہلے یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا تھا۔
یہ غلام کس طرح بنے، یہ بھی سن لیں۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کی والدہ انہیں لیے اپنے ماں باپ کے ہاں جارہی تھیں کہ قافلہ کو لوٹ لیا گیا۔ ڈاکو ان کے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھی لے گئے۔ پھر انہیں عکاظ کے میلے میں بیچنے کے لیے لایا گیا۔ ادھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کو میلے میں بھیجا۔ وہ ایک غلام خریدنا چاہتی تھیں۔ آپ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کی پھوپھی تھیں۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ میلے میں آئے تو وہاں انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر بکتے دیکھا، اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کو یہ اچھے لگے، چنانچہ انہوں نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے انہیں خرید لیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ پسند آئے اور انہوں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کردیا۔اس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی علیہ وسلم کے غلام بنے۔ پھر جب آپ نے اسلام کی دعوت دی تو فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا تھا مگر یہ عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ ان کے والد ایک مدت سے ان کی تلاش میں تھے۔ کسی نے انہیں بتایا کہ زید مکہ میں دیکھے گئے ہیں۔
ان کے والد اور چچا انہیں لینے فوراً مکہ معظمہ کی طرف چل پڑے۔ مکہ پہنچ کر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایاکہ زید ان کے بیٹے ہیں۔ 
ساری بات سن کر آپ نے ارشاد فرمایا: 
’’ تم زید سے پوچھ لو، اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور یہاں میرے پاس رہنا چاہیں تو ان کی مرضی۔‘‘
زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا۔
اس پر باپ نے کہا:
’’ تیرا برا ہو زید…تو آزادی کے مقابلے میں غلامی کو پسند کررہا ہے۔‘‘
جواب میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: 
’’ ہاں! ان کے مقابلے میں میں کسی اور کو ہرگز نہیں چن سکتا۔‘‘
آپ نے حضرت زید رضی اللّٰہ عنہ کی یہ بات سنی تو آپ کو فوراً حجر اسود کے پاس گئے اور اعلان فرمایا: 
’’ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔‘‘
ان کے والد اور چچا مایوس ہوگئے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں زید سے ملنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ملنے کے لیے آتے رہے۔
تو یہ تھے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ حضرت زید واحد صحابی ہیں جن کا قران کریم میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔

’’تم وہی ہو‘‘

مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے ہی دوست تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کے گھر آتے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے۔
ایک دن حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کی ایک باندی وہاں آئی اور کہنے لگی:
’’آج آپ کی پھوپھی خدیجہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام تھے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جونہی حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کی باندی کی یہ بات سنی،چپکے سے وہاں سے اٹھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ اس پر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو وحی آنے کا پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ بالکل سچ کہتے ہیں ،آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
آپ کے اس طرح فوراً تصدیق کرنے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔اس بارے میں دوسری روایت یہ ہے کہ صدیق کا لقب آپ نے انہیں اس وقت دیا تھا جب آپ معراج کے سفر سے واپس تشریف لائے تھے ۔مکہ کے مشرکین نے آپ کو جھٹلایا تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو سنتے ہیں فوری طور پر آپ کی تصدیق کی تھی اور آپ نے انہیں صدیق کا لقب عطا فرمایا تھا۔
غرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے آپ کی نبوت کی تصدیق فوری طور پر کر دی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رکھا، اس لیے کہ اس سے پہلے اُن کا نام عبدالکعبہ تھا۔ اس لحاظ سے ابوبکر صدیق وہ پہلے آدمی ہے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یوں بھی بہت خوبصورت تھے، اس مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب عتیق رکھا تھا۔ عتیق کا مطلب ہے خوبصورت، اس کا ایک مطلب آزاد بھی ہے۔یہ لقب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا:
’’ یہ جہنم کی آگ سے آزاد ہیں۔‘‘
غرض اسلام میں یہ پہلا لقب ہے جو کسی کو ملا۔ قریش میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ آپ بہت خوش اخلاق تھے۔ قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے۔ شریف، سخی اور دولت مند تھے۔ روپیہ پیسہ بہت فراخ دلی سے خرچ کرتے تھے۔ ان کی قوم کے لوگ انہیں بہت چاہتے تھے۔ لوگ ان کی مجلس میں بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خواب کی تعبیر بتانے میں بہت ماہر اور مشہور تھے۔ چنانچہ علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے بہترین تعبیر بتانے والے عالم ہیں۔‘‘
علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں بہت ماہر تھے اور اس سلسلے میں ان کی کتاب بھی موجود ہے۔ اس کتاب میں خوابوں کی حیرت انگیز تعبیر یں درج ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی تعبیریں بالکل درست ثابت ہوتی رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس میدان کے ماہر اس بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر تعبیر بتانے والے فرما رہے ہیں۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نسب نامہ بیان کرنے میں بھی بہت ماھر تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم بھی اس علم کے ماہر تھے، وہ فرماتے ہیں: 
’’میں نے نسب ناموں کا فن اور علم اور خاص طور پر قریش کے نسب ناموں کا علم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہی حاصل کیا ہے، اس لئے کہ وہ قریش کے نسب ناموں کے سب سے بڑے عالم تھے۔
قریش کے لوگوں کو کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رابطہ کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: 
’’’میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے کچھ نہ کچھ سوچ بچار اور کسی قدر وقفے کے بعد اسلام قبول کیا،سوائے ابوبکر کے، وہ بغیر ہچکچاہٹ کے فوراً مسلمان ہوگئے، ابوبکر سب سے بہتر رائے دینے والے ہیں۔ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے، اپنے معاملات میں ابوبکر سے مشورہ کیا کریں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ وزیر کے درجے میں تھے۔ آپ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے میری مدد کے لئے چار وزیر مقرر فرمائے ہیں، ان میں سے دو آسمان والوں میں سے ہیں یعنی جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) اور دو زمین والوں میں سے ایک ابوبکر اور دوسرے عمر (رضی اللہ عنہما)۔‘‘
اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا تھا، خواب میں آپ نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اُتر آیا ہے اور اس کا ایک ایک حصہ مکہ کے ہر گھرمیں داخل ہو گیا ہے۔ اور پھروہ سارے کا سارا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں آ گیا۔ آپ نے یہ خواب ایک عیسائی عالم کو سنایا۔ اُس نے اس خواب کی یہ تعبیر بیان کی کہ تم اپنے پیغمبر کی پیروی کرو گے جس کا دنیا انتظار کر رہی ہے اور جس کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ کہ پیرو کاروں میں سے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہو گے۔
ایک روایت کے مطابق عالم نے کہا تھا:
’’اگر تم اپنا خواب بیان کرنے میں سچے ہو تو بہت جلد تمہارے گاؤں میں سے ایک نبی ظاہر ہوں گے، تم اس نبی کی زندگی میں اس کے وزیر بنو گے اور ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوؤ گے۔‘‘
کچھ عرصہ بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو یمن جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یمن میں یہ ایک بوڑھے عالم کے گھر ٹھہرے۔ اس نے آسمانی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو دیکھ کر اس نے کہا:
’’میرا خیال ہے، تم حرم کے رہنے والے ہو اور میرا خیال ہے، تم قریشی ہو اور تمیمی خاندان سے ہو۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:
’’ہاں! تم نے بالکل ٹھیک کہا۔‘‘
اب اس نے کہا:
’’میں تم سے ایک بات اور کہتا ہوں…تم ذرا اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ۔‘‘
حضرت ابو بکر صد یق اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور بولے:
’’ایسا میں اس وقت تک نہیں کروں گا، جب تک کہ تم اس کی وجہ نہیں بتا دو گے۔‘‘
اس پر اس نے کہا:
’’میں اپنے مضبوط علم کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ حرم کے علاقے میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے ۔ ان کی مدد کرنے والا ایک نوجوان ہوگا اور ایک پختہ عمر والا ہوگا، جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے، وہ مشکلات میں کود جانے والا ہوگا، جہاں تک پختہ عمر کے آدمی کا تعلق ہے، وہ سفید رنگ کا کمزور جسم والا ہوگا ۔ اس کے پیٹ پر ایک بال دار نشان ہوگا ۔ حرم کا رہنے والا، تمیم خاندان کا ہوگا اور اب یہ ضروری نہیں کہ تم مجھے اپنا پیٹ دکھاؤ، کیونکہ باقی سب علامتیں تم میں موجود ہیں ۔
اس کی اس بات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹادیا ۔ وہاں ان کی ناف کے اوپر سیاہ اور سفید بالوں والا نشان موجود تھا ۔ تب وہ پکار اٹھا:
’’پروردگارِ کعبہ کی قسم! تم وہی ہو۔‘‘

دین نہیں چھوڑوں گا

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’جب میں یمن میں اپنی خریداری اور تجارتی کام کر چکا تو رخصت ہونے کے وقت اس کے پاس آیا۔ اس وقت اس نے مجھ سے کہا:
’’میری طرف سے چند شعر سن لو جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں۔‘‘
اس پر میں نے کہا:
’’اچھی بات ہے سناؤ۔‘‘
تب اس نے مجھے وہ شعر سنائے، اس کے بعد جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے بڑے سردار آئے۔ ان میں زیادہ اہم عقبہ بن ابی معیط، شیبہ، ابو جہل اور ابوالبختری تھے۔ان لوگوں نے مجھ سے کہا:
’’اے ابوبکر! ابو طالب کے یتیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہیں۔اگر آپ کا انتظار نہ ہوتا تو ہم اس وقت تک صبر نہ کرتے۔ اب جب کہ آپ آگئے ہیں، ان سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے۔‘‘
اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اچھے انداز سے ان لوگوں کو ٹال دیا اور خود آپ کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ آپ باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اے ابوبکر! میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں،اس لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ۔‘‘
آپ کی بات سن کر میں نے کہا:
’’آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے۔‘‘
آپ نے میری بات سن کر ارشاد فرمایا:
’’اس بوڑھے کے وہ شعر جو اس نے آپ کو سنائے تھے۔‘‘
یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور بولا:
’’میرے دوست! آپ کو ان کے بارے میں کس نے بتایا؟‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اپنا ہاتھ لایئے! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
آپ میرے ایمان لانے پر بہت خوش ہوئے، مجھے سینے سے لگایا۔ پھر کلمہ پڑھ کر میں آپ کے پاس سے واپس آگیا۔‘‘
مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلا کام کیا،وہ تھا اسلام کی تبلیغ۔ انہوں نے اپنے جاننے والوں کو اسلام کا پیغام دیا۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا،چنانچہ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر ان کے چچا حکم کو ہوئی تو اس نے انہیں پکڑ لیا اور کہا:
’’تو اپنے باپ دادا کا دین چھوڑکر محمد کا دین قبول کرتا ہے، اللہ کی قسم! میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تو اس دین کو نہیں چھوڑے گا ۔‘‘ 
اس کی بات سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔‘‘ 
ان کے چچا نے جب ان کی پختگی اور ثابت قدمی دیکھی تو انہیں دھوئیں میں کھڑا کرکے تکالیف پہنچائیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق یعنی ساتھی ہوتا ہے اور میرے ساتھی وہاں عثمان ابن عفان ہوں گے ۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی۔ آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی ۔ اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہوئے ۔جاہلیت کے زمانہ میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبدالرحمن رکھا ۔ یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’امیہ ابن خلف میرا دوست تھا، ایک روز اس نے مجھ سے کہا، تم نے اس نام کو چھوڑ دیا جو تمہارے باپ نے رکھا تھا۔‘‘ 
جواب میں میں نے کہا:
’’ہاں! چھوڑ دیا ۔‘‘ 
یہ سن کر وہ بولا:
’’میں رحمن کو نہیں جانتا، اس لیے میں تمہارا نام عبدالالٰہ رکھتا ہوں ۔‘‘
چناں چہ مشرک اس روز سے مجھے عبدالالٰہ کہہ کر پکارنے لگے۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں اکثر یمن جایا کرتا تھا، جب بھی وہاں جاتا عسکلان بن عواکف حمیری کے مکان پر ٹھہراکرتاتھا اور جب بھی میں اس کے ہاں جاتا وہ مجھ سے پوچھا کرتا تھا، کیا وہ شخص تم لوگوں میں ظاہر ہوگیا ہے جس کی شہرت اور چرچے ہیں، کیا تمہارے دین کے معاملے میں کسی نے مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ نہیں، ایسا کوئی شخص ظاہر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ سال آگیا جس میں نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ میں اس سال یمن گیا تو اسی کے یہاں ٹھہرا۔ اس نے یہی سوال پوچھا، تب میں نے اسے بتایا:
’’ہاں ان کا ظہور ہوگیا ہے۔ ان کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تم زمین والوں میں بھی امانت دار ہو اور آسمان والوں میں بھی۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد حضر ت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کوئی ہچکچاہٹ ظاہر نہ کی فوراً حضور نبی کریم ﷺ کے پاس چلے آئے، آپ سے آپ کے پیغام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے انھیں بتایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۹ سال تھی۔ یہ بنی زہرہ کے خاندان سے تھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آمنہ بھی اسی خاندان سے تھیں۔ اسی لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ماموں کہلاتے تھے۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بار فرمایا:
’’یہ میرے ماموں ہیں، ہے کوئی جس کے ایسے ماموں ہوں۔‘‘
حضر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے اور ان کی والدہ کو ان کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ بات انھیں بہت ناگوار گزری۔ ادھر یہ اپنی والدہ کے بہت فرماں بردار تھے۔ والدہ نے ان سے کہا:
’’کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے بڑوں کی خاطر داری اور ماں باپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘
یہ جواب سن کر والدہ نے کہا:
’’بس تو خدا کی قسم میں اسوقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک محمد کے لائے ہوئے پیغام کو کفر نہیں کہوگے اور اساف اور نائلہ بتوں کو جا کر چھوؤگے نہیں۔‘‘
اس وقت کے مشرکوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان بتوں کے کھلے منہ میں کھانا اور شراب ڈالا کرتے تھے۔
اب والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سے کہا:
’’خدا کی قسم ماں! تمھیں نہیں معلوم، اگر تمہارے پاس ایک ہزار زندگیاں ہوتیں اور وہ سب ایک ایک کرکے اس وجہ سے ختم ہوتیں، تب بھی میں نبی کریم ﷺ کے دین کو ہرگز نہ چھوڑتا۔ اس لیے اب یہ تمہاری مرضی ہے کھاؤ یا نہ کھاؤ۔‘‘
جب ماں نے ان کی یہ مضبوطی دیکھی تو کھانا شروع کردیا، تا ہم اس نے اب ایک اور کام کیا، دروازے پر آگئی اور چیخ چیخ کر کہنے لگی:
’’کیا مجھے ایسے مددگار نہیں مل سکتے جو سعد کے معاملے میں میری مدد کریں تاکہ میں اسے گھر میں قید کردوں اور قید کی حالت میں یہ مرجائے یا اپنے نئے دین کو چھوڑدے۔‘‘
حضرت سعد فرماتے ہیں، میں نے یہ الفاظ سنے تو ماں سے کہا:
’’میں تمہارے گھر کا رخ بھی نہیں کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کچھ دن تک گھر نہ گئے۔ والدہ تنگ آگئی اور اس نے پیغام بھیجا:
’’تم گھر آجاؤ، دوسروں کے مہمان بن کر ہمیں شرمندہ نہ کرو۔‘‘
چناں چہ یہ گھر چلے آئے۔ اب گھر والوں نے پیار ومحبت سے سمجھانا شروع کیا۔ وہ ان کے بھائی عامر کی مثال دے کر کہتی:
’’دیکھو عامر کتنا اچھا ہے، اس نے اپنے باپ دادا کا دین نہیں چھوڑا۔‘‘
لیکن پھر ان کے بھائی عامر بھی مسلمان ہوگئے۔ اب تو والدہ کے غیظ وغضب کی انتہا نہ رہی۔

ذکر چند جاں نثاروں کا

ماں نے دنوں بھائیوں کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ آخر عامر رضی اللہ عنہ تنگ آکر حبشہ کو ہجرت کر گئے۔ عامر رضی اللہ عنہ کے حبشہ ہجرت کر جانے سے پہلے ایک روز حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ گھر آئے تو دیکھا ماں اور عامر رضی اللہ عنہ کے چاروں طرف بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں نے پوچھا:
’’لوگ کیوں جمع ہیں؟‘‘
لوگوں نے بتایا:
’’یہ دیکھو تمہاری ماں نے تمہارے بھائی کو پکڑ رکھا ہے اور اللہ سے عہد کر رہی ہے کہ جب تک عامر بے دینی نہیں چھوڑے گا، اس وقت تک یہ نہ تو کھجور کے سائے میں بیٹھے گی اور نہ کھانا کھائے گی اور نہ پانی پئے گی۔‘‘
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا:
’’اللہ کی قسم ماں!تم اس وقت تک کھجور کے سائے میں نہ بیٹھو اوراس وقت تک کچھ نہ کھاؤ پیو، جب تک کہ تم جہنم کا ایندھن نہ بن جاؤ۔‘‘
غرض انہوں نے ماں کی کوئی پروا نہ کی اور دین پر ڈٹے رہے۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے حضرت طلحہ تمیمی رضی اللہ عنہ بھی اسلام لے آئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور یہ آپ کے ہاتھ پرمسلمان ہوئے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے کا کھل کر اعلان کر دیا۔ ان کا اعلان سن کر نوفل ابن عدویہ نے انہیں پکڑ لیا۔ اس شخص کو قریش کا شیر کہا جاتا تھا۔ اس نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ اس کی اس حرکت پر ان کے قبیلے بنوتمیم نے بھی انہیں نہ بچایا۔ اب چونکہ نوفل نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھا تھا اور دونوں کے جسم آپس میں بالکل ملے ہوئے تھے، اس لئے انہیں قرینین کہا جانے لگا، یعنی ملے ہوئے۔ نوفل بن عدویہ کے ظلم کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’اے اللہ! ابن عدویہ کے شر سے ہمیں بچا۔‘‘
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام قبول کر لینے کا سبب اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں ایک مرتبہ بصریٰ کے بازار میں گیا، میں نے وہاں ایک راہب کو دیکھا، وہ اپنی خانقاہ میں کھڑا تھا اور لوگوں سے کہہ رہا تھا:
’’اس مرتبہ حج سے آنے والوں سے پوچھو، کیاان میں کوئی حرم کا باشندہ بھی ہے؟‘‘
میں نے آگے بڑھ کر کہا:
’’میں ہوں حرم کا رہنے والا۔‘‘
میرا جملہ سن کر اس نے کہا:
’’کیا احمد کا ظہور ہوگیا ہے؟‘‘
میں نے پوچھا:
’’احمد کون؟‘‘
تب اس راہب نے کہا:
’’احمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب۔۔۔ یہ اس کا مہینہ ہے، وہ اس مہینے میں ظاہر ہو گا، وہ آخری نبی ہے۔ اس کے ظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور اس کی ہجرت کی جگہ وہ علاقہ ہے،جہاں باغات ہیں، سبزہ زار ہیں، اس لیے تم پر ضروری ہے کہ تم اس نبی کی طرف بڑھنے میں پہل کرو۔‘‘
اس راہب کی کہی ہوئی بات میرے دل میں نقش ہوگئی ۔ میں تیزی کے ساتھ وہاں سے واپس روانہ ہوا اور مکہ پہنچا ۔ یہاں پہنچ کر میں نے لوگوں سے پوچھا:
’’کیا کوئی نیا واقعہ بھی پیش آیا ہے؟‘‘ 
لوگوں نے بتایا:
’’ہاں! محمد بن عبداللہ امین نے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا شروع کی ہے، ابوبکر نے ان کی پیروی قبول کرلی ہے۔‘‘
میں یہ سنتے ہی گھر سے نکلا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا ۔ میں نے انہیں راہب کی ساری بات سنادی ۔ ساری بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو یہ پورا واقعہ سنایا ۔آپ سن کر بہت خوش ہوئے ۔اسی وقت میں بھی مسلمان ہوگیا ۔‘‘
یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ یعنی جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی، ان میں سے ایک ہیں ۔ 
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کلمہ پڑھا، ان میں سے پانچ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ۔وہ یہ ہیں، حضرت زبیر، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم ۔ بعض نے ان میں چھٹے صحابی کا بھی اضافہ کیا ہے ۔ وہ ہیں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ۔ 
ان حضرات میں حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کپڑے کے تاجر تھے ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جانور ذبح کرتے تھے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر بنانے کا کام کرتے تھے ۔
ان کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایمان لائے، وہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں ایک دن عقبہ بن ابی معیط کے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آگئے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے پوچھا:
’’ کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟‘‘
میں نے کہا:
’’جی ہاں! لیکن میں تو امین ہوں۔‘‘ (یعنی یہ دودھ تو امانت ہے)۔ 
آپ نے فرمایا:
’’کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے ابھی کوئی بچہ نہ دیا ہو؟‘‘ 
میں نے کہا:
’’جی ہاں، ایک ایسی بکری ہے۔‘‘ 
میں اس بکری کو آپ کے قریب لے آیا ۔ اس کے ابھی تھن پوری طرح نہیں نکلے تھے ۔ آپ نے اس کی تھنوں کی جگہ پر ہاتھ پھیرا ۔اسی وقت اس بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے ۔‘‘
یہ واقعہ دوسری روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس بکری کے تھن سوکھ چکے تھے ۔آپ نے ان پر ہاتھ پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔وہ آپ کو ایک صاف پتھر تک لے آئے ۔وہاں بیٹھ کر آپ ﷺنے بکری کا دودھ دوہا ۔آپ نے وہ دودھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پلایا ۔پھر مجھے پلایا اور آخر میں آپ نے خود پیا ۔پھر آپ نے بکری کے تھن سے فرمایا:
’’سمٹ جا ۔‘‘
چنانچہ تھن فوراً ہی پھر ویسے ہوگئے جیسے پہلے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معجزہ دیکھا تو آپ سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! مجھے اس کی حقیقت بتائیے ۔‘‘
آپ نے یہ سن کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
’’اللہ تم پر رحم فرمائے، تم تو جان کار ہو۔‘‘ 
یہ عبداللہ بن مسعود باپ کی بجائے، ماں کی طرف سے زیادہ مشہور تھے ۔ان کی ماں کا نام ام عبد تھا ۔ان کا قد بہت چھوٹا تھا ۔نہایت دبلے پتلے تھے ۔ایک مرتبہ صحابہ ان پر ہنسنے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’عبداللہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے ترازو میں سب سے بھاری ہیں ۔‘‘
انہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
’’اپنی امت کے لیے میں بھی اسی چیز پر راضی ہوگیا جس پر ابن ام عبد یعنی عبداللہ ابن مسعود راضی ہوگئے ،اور جس چیز کو عبداللہ بن مسعود نے امت کے لیے ناگوار سمجھا، میں نے بھی اس کو ناگوار سمجھا ۔‘‘
آپ ان کی بہت عزت کرتے تھے ۔انہیں اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے، ان سے کسی کو چھپایا نہیں کرتے تھے، اسی لیے یہ آپ کے گھر میں آتے جاتے تھے ۔یہ نبی کریم کے آگے آگے یا ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے ۔آپ جب غسل فرماتے تو یہی پردے کے لیے چادر تان کر کھڑے ہوتے تھے ۔آپ جب سو جاتے تو یہی آپ کو وقت پر جگایا کرتے تھے ۔اسی طرح جب آپ کہیں جانے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کو جوتے پہناتے تھے ۔پھر جب آپ کہیں پہنچ کر بیٹھ جاتے تو یہ آپ کے جوتے اٹھاکر اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے تھے ۔ان کی انہی باتوں کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مشہور تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے والوں میں سے ہیں ۔انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’دنیا تمام کی تمام غموں کی پونجی ہے، اس میں اگر کوئی خوشی ہے تو وہ صرف وقتی فائدے کے طور پر ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔

پانچواں آدمی

حضرت ابوذر غفاریؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’آنحضرت ﷺ پر وحی آنے سے بھی تین سال پہلے سے میں اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھا کرتا تھا اور جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتے،میں اسی طرف چل پڑتا تھا ۔ اسی زمانہ میں ہمیں معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے،اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے ، یہ سن کر میں نے اپنے بھائی انیس سے کہا:
’’ تم اس شخص کے پاس جاؤ،اس سے بات چیت کرو اور آکر مجھے اس بات چیت کے بارے میں بتاؤ ۔‘‘
چنانچہ انیس نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی،جب وہ واپس آئے تو میں نے ان سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا۔انہوں نے بتایا:
’’ اللہ کی قسم! میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو اچھائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے تمھیں اسی شخص کے دین پر پایا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ نیکی اور بلند اخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا:
’’لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘
انیس نے بتایا: 
’’لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کاہن اور جادوگر ہے مگر اللہ کی قسم وہ شخص سچا ہے اور وہ لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘
یہ تمام باتیں سن کر میں نے کہا:
’’بس کافی ہے، میں خود جاکر ان سے ملتا ہوں۔‘‘ 
انیس نے فوراًکہا:
’’ضرور جاکر ملو، مگر مکہ والوں سے بچ کر رہنا۔‘‘
چنانچہ میں نے اپنے موزے پہنے، لاٹھی ہاتھ میں لی اور روانہ ہوگیا، جب میں مکہ پہنچا تو میں نے لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر کیا، جیسے میں اس شخص کو جانتا ہی نہیں اور اس کے بارے میں پوچھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ میں ایک ماہ تک مسجد حرام میں ٹھہرا رہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں زمزم کی برکت سے موٹا ہوگیا ۔ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں ۔ مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا تھا ۔ ایک رات جب حرم میں کوئی طواف کرنے والا نہیں تھا، اللہ کے رسول ایک ساتھی(ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ وہاں آئے اور بیت اللہ کا طواف کرنے لگے ۔ اس کے بعد آپ نے اور آپ کے ساتھی نے نماز پڑھی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں آپ کے نزدیک چلا گیا اور بولا:
’’السلام علیک یا رسول اللہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
میں نے محسوس کیا، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے ۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا:
’’تم کون ہو۔‘‘یں نے جواب میں کہا:
’’جی میں غفار قبیلے کا ہوں۔‘‘
آپ نے پوچھا:
’’یہاں کب سے آئے ہوئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’تیس دن اور تیس راتوں سے یہاں ہوں۔‘‘
آپ نے پوچھا:
’’تمہیں کھانا کون کھلاتا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی:
’’میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں،اس کو پی پی کر میں موٹا ہو گیا ہوں، یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں تک ختم ہو گئی ہیں اور مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔‘‘
آپ نے فرمایا:
’’مبارک ہو،یہ زمزم بہترین کھانا اور ہر بیماری کی دوا ہے۔‘‘
زمزم کے بارے میں احادیث میں آتا ہے، اگر تم آب زمزم کو اس نیت سے پیو کہ اللہ تعالی تمہیں اس کے ذریعے بیماریوں سے شفا عطا فرمائے تواللہ تعالی شفا عطا فرماتا ہے اوراگر اس نیت سے پیا جائے کہ اس کے ذریعے پیٹ بھر جائے اور بھوک نہ رہے تو آدمی شکم سیر ہو جاتا ہے اور اگر اس نیت سے پیا جائے کہ پیاس کا اثر باقی نہ رہے تو پیاس ختم ہو جاتی ہے۔اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جی بھر کر زمزم کا پانی پینا اپنے آپ کو نفاق سے دور کرنا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور منافقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ لوگ زمزم سے سیرابی حاصل نہیں کرتے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی حضرت ابو ذر غفاریؓ کی۔۔۔کہا جاتا ہے،ابوذر غفاری اسلام میں پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ کو اسلامی سلام کے الفاظ کے مطابق سلام کیا۔ ان سے پہلے کسی نے آپﷺ کو ان الفاظ میں سلام نہیں کیا تھا۔
اب ابو ذرؓ نے آپﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ اللہ تعالی کے معاملے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں گھبرائیں گے اور یہ کہ ہمیشہ حق اور سچی بات کہیں گے چاہے حق سننے والے کے لئے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔
یہ حضرت ابو ذرؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد ملک شام کے علاقے میں ہجرت کر گئے تھے۔پھر حضرت عثمانؓ کی خلافت میں انہیں شام سے واپس بلا لیا گیا اور پھر یہ ربذہ کے مقام پر آ کر رہنے لگے تھے۔ ربذہ کے مقام پر ہی ان کی وفات ہوئی تھی۔
ان کے ایمان لانے کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ آئے تو ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے ہوئی تھی اور حضرت علیؓ نے ہی ان کو آپ ﷺ سے ملوایا تھا۔
ابو ذرؓ کہتے ہیں:
’’بیعت کرنے کے بعد نبی کریمﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ ایک جگہ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے ایک دروازہ کھولا،ہم اندر داخل ہوئے،ابو بکر صدیقؓ نے ہمیں انگور پیش کیے۔ اس طرح یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں آنے کے بعد کھایا۔‘‘
اس کے بعد نبیﷺ نے ان سے فرمایا:
’’اے ابو ذرؓ اس معاملے کو ابھی چھپائے رکھنا، اب تو تم اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انہیں بتاؤ تاکہ وہ لوگ میرے پاس آ سکیں، پھر جب تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے خود اپنے معاملہ کا کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آ جانا۔‘‘
آپﷺ کی بات سن کر حضرت ابو ذر غفاریؓ بولے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی دے کر بھیجا، میں ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکار پکار کر اعلان کروں گا۔‘‘
حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں:
’’میں ایمان لانے والے دیہاتی لوگوں میں سے پانچواں آدمی تھا‘‘۔
غرض جس وقت قریش کے لوگ حرم میں جمع ہوئے، انہوں نے بلند آواز میں چلا کر کہا:
’’میں گواہی دیتا ہوں سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
بلند آواز میں یہ اعلان سن کر قریشیوں نے کہا:
’’اس بددین کو پکڑ لو‘‘۔
انہوں نے حضرت ابو ذرؓ کے پکڑ لیا اور بے انتہا مارا۔ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں،وہ لوگ ان پر چڑھ دوڑے۔ پوری قوت سے انہیں مارنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت عباسؓ درمیان میں آگئے۔ وہ ان پر جھک گئے اور قریشیوں سے کہا:
’’تمہارا برا ہو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے۔ ان کا علاقہ تمہاری تجارت کا راستہ ہے۔‘‘
ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ غفار کے لوگ تمہارا راستہ بند کر دیں گے اس پر ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔
ابو ذرؓ فرماتے ہیں، اس کے بعد میں زم زم کے کنویں کے پاس آیا۔ اپنے بدن سے خون دھویا اگلے دن میں نے پھر اعلان کیا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
انہوں نے پھر مجھے مارا۔ اس روز بھی حضرت عباسؓ ہی نے مجھے ان سے چھڑایا۔ پھر میں وہاں سے واپس ہوا اور اپنے بھائی انیس کے پاس آیا۔

خواب سچا ہے

انیس نے مجھ سے کہا:
’’تم کیا کر آئے ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا:
’’مسلمان ہو گیا ہوں، اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کر دی ہے۔‘‘
اس پر انیس نے کہا:
’’میں بھی بتوں سے بیزار ہوں اور اسلام قبول کر چکا ہوں۔‘‘
اس کے بعد ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو وہ بولیں:
’’مجھے پچھلے دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں، اللہ کے رسول کی تصدیق کر چکی ہوں۔
اس کے بعد ہم اپنی قوم غفار کے پاس آئے۔ ان سے بات کی، ان میں سے آدھے تو اسی وقت مسلمان ہو گئے۔باقی لوگوں نے کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے ہم اس وقت مسلمان ہوں گے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ غفار کے باقی لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔
ان حضرات نے جو یہ کہا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے، ہم اس وقت مسلمان ہوں گے تو ان کے یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا:
’’میں نخلستان یعنی کھجوروں کے باغ کی سرزمین میں جاؤں گا، جو یثرب کے سوا کوئی نہیں ہے، تو کیا تم اپنی قوم کو یہ خبر پہنچادو گے ۔ ممکن ہے، اس طرح تمہارے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو فائدہ پہنچادے اور تمہیں ان کی وجہ سے اجر ملے۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ اسلم کے لوگ آئے ۔ انہوں نے آپ سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! ہم بھی اسی بات پر مسلمان ہوتے ہیں جس پر ہمارے بھائی قبیلہ غفار کے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ غفار کے لوگوں کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے ۔‘‘
یہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حج کے لیے مکہ گئے ۔ طواف کے دوران کعبے کے پاس ٹھہر گئے ۔ لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے ۔ اس وقت انہوں نے لوگوں سے کہا:
’’بھلا بتاؤ تو! تم میں سے کوئی سفر میں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کیا وہ سفر کا سامان ساتھ نہیں لیتا؟‘‘
لوگوں نے کہا:
’’بے شک! ساتھ لیتا ہے ۔‘‘
تب آپ نے فرمایا:
’’تو پھر یاد رکھو! قیامت کا سفر دنیا کے ہر سفر سے کہیں زیادہ لمبا ہے اور جس کا تم یہاں ارادہ کرتے ہو، اسی لیے اپنے ساتھ اس سفر کا وہ سامان لے لو جو تمہیں فائدہ پہنچائے ۔‘‘
لوگوں نے پوچھا:
’’ہمیں کیا چیز فائدہ پہنچائے گی؟‘‘
حضرت ابوذر غفاری بولے:
’’بلند مقصد کے لیے حج کرو، قیامت کے دن کا خیال کرکے ایسے دنوں میں روزے رکھو جو سخت گرمی کے دن ہوں گے اور قبرکی وحشت اور اندھیرے کا خیال کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں اٹھ کر نمازیں پڑھو ۔‘‘
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ ایمان لائے ۔ کہا جاتا ہے، دیہات کے لوگوں میں سے مسلمان ہونے والوں میں یہ تیسرے یا چوتھے آدمی تھے ۔ ایک قول یہ ہے کہ پانچویں تھے۔یہ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے ۔ 
ان کے اسلام لانے کا واقعہ یوں ہے کہ انہوں نے خواب میں جہنم کو دیکھا ۔ اس کی آگ بہت خوفناک انداز میں بھڑک رہی تھی ۔ یہ خود جہنم کے کنارے کھڑے تھے ۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ انہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا دامن پکڑ کر انہیں دوزخ میں گرنے سے روک رہے ہیں ۔ اسی وقت گھبراہٹ کے عالم میں ان کی آنکھ کھل گئی ۔ انہوں نے فوراًکہا:
’’میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خواب سچا ہے ۔‘‘
ساتھ ہی انہیں یقین ہوگیا کہ جہنم سے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بچا سکتے ہیں ۔ فوراً ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ۔ انہیں اپنا خواب سنایا ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
’’اس خواب میں تمہاری بھلائی اور خیر پوشیدہ ہے، اللہ کے رسول موجود ہیں، ان کی پیروی کرو ۔‘‘
چنانچہ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ فوراً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ سے پوچھا:
’’اے محمد! آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’میں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، کوئی اس کے برابر کا نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور تم جو یہ پتھروں کی عبادت کرتے ہو، اس کو چھوڑ دو ۔ یہ پتھرنہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ۔ ان کے والد کا نام سعید بن عاص تھا ۔ اسے بیٹے کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو آگ بگولہ ہوگیا ۔ بیٹے کو کوڑے سے مارنا شروع کیے۔ یہاں تک کہ اتنے کوڑے مارے کہ کوڑا ٹوٹ گیا ۔ پھر اس نے کہا:
’’تو نے محمد کی پیروی کی، حالانکہ تو جانتا ہے، وہ پوری قوم کے خلاف جارہا ہے، وہ اپنی قوم کے معبودوں کو برا کہتا ہے ۔‘‘
یہ سن کرحضرت خالدبن سعید رضی اللہ عنہ بولے:
’’اللہ کی قسم! وہ جو پیغام لے کر آئے ہیں، میں نے اس کو قبول کرلیا ہے۔‘‘
اس جواب پر وہ اورغضب ناک ہوا اور بولا:
’’خداکی قسم! میں تیراکھانا پینابند کردوں گا۔‘‘
حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’اگر آپ میرا کھانا پینا بند کردیں گے تو اللہ تعالیٰ مجھے روٹی دینے والا ہے ۔‘‘
تنگ آکر سعید نے بیٹے کوگھر سے نکال دیا ۔ ساتھ ہی اپنے باقی بیٹوں سے کہا:
’’اگر تم میں سے کسی نے بھی اس سے بات چیت کی، میں اس کابھی یہی حشر کروں گا ۔‘‘
حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ گھر سے نکل کر حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے ۔ اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ ہی رہنے لگے ۔باپ سے بالکل بے تعلق ہوگئے ۔ یہاں تک کہ جب مسلمانوں نے کافروں کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی تو یہ ہجرت کرنے والوں میں سے پہلے آدمی تھے۔
ایک مرتبہ ان کا باپ بیمار ہوا، اس وقت اس نے قسم کھائی، اگر خدا نے مجھے اس بیماری سے صحت دے دی تو میں مکہ میں کبھی محمد کے خدا کی عبادت نہیں ہونے دوں گا۔
باپ کی یہ بات حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے کہا:
’’اے اللہ، اسے اس مرض سے کبھی نجات نہ دینا۔‘‘
چنانچہ ان کا باپ اسی مرض میں مر گیا…خالد بن سعید رضی اللہ عنہ پہلے آدمی ہیں، جنہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی۔
ان کے بعد ان کے بھائی عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہونے کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے خواب میں ایک نور دیکھا…نور زمزم کے پاس سے نکلا، اور اس سے مدینے کے باغ تک روشن ہو گئے اور اتنے روشن ہوئے کہ ان میں مدینے کی تازہ کھجوریں نظر آنے لگیں۔ انہوں نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا تو ان سے کہا گیا۔ زمزم عبد المطلب کے خاندان کا کنواں ہے اور یہ نور بھی انہی میں سے ظاہر ہوگا۔ پھر جب ان کے بھائی خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تو انہیں خواب کی حقیقت نظر آنے لگی۔ چنانچہ یہ بھی مسلمان ہو گئے۔ ان کے علاوہ سعید کی اولاد میں سے ریان اور حکم بھی مسلمان ہوئے۔ حکم کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ رکھا۔
اسی طرح ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والوں میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کا باپ ایران کے بادشاہ کسریٰ کا گورنر تھا۔ ایک مرتبہ قیصر کی فوجوں نے اس کے علاقے پر حملہ کیا۔ اس لڑائی میں صہیب رضی اللہ عنہ گرفتار ہو گئے۔ انہیں غلام بنا لیا گیا۔ اس وقت یہ بچے تھے، چنانچہ یہ غلامی کی حالت میں ہی روم میں پلے بڑھے ۔وہیں جوان ہوئے۔ پھر عرب کے کچھ لوگوں نے انہیں خرید لیا اور فروخت کرنے کے لیے مکہ کے قریب عکاظ کے بازار میں لے آئے۔ اس بازار میں میلہ لگتا تھا۔ اس میلے میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ میلے سے ایک شخص عبداللہ بن جدعان نے خرید لیا۔ اس طرح یہ مکہ میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہو گیا، ان کے دل میں آئی کہ جا کر بات تو سنوں…یہ سوچ کر گھر سے نکلے، راستے میں ان کی ملاقات عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ انہوں نے ان سے پوچھا:
’’صہیب کہاں جا رہے ہو؟‘‘
یہ فوراً بولے:
’’میں محمد کے پاس جا رہا ہوں تاکہ ان کی بات سنوں اور دیکھوں…وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بولے:
’’میں بھی اسی ارادے سے گھر سے نکلا ہوں۔‘‘
یہ سن کر صہیب رضی اللہ عنہ بولے:
’’تب پھر اکٹھے ہی چلتے ہیں۔‘‘
اب دونوں ایک ساتھ قدم اٹھانے لگے۔

اسلام کا پہلا مرکز

حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ نے دونوں کو اپنے پاس بٹھایا۔ جب یہ بیٹھ گئے تو آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم کی جو آیات آپ پر اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں، وہ پڑھ کر سنائیں۔ ان دونوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔ اسی روز شام تک یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے۔ شام کو دونوں چپکے سے چلے آئے، حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدھے اپنے گھر پہنچے تو ان کے ماں باپ نے ان سے پوچھا کہ دن بھر کہاں تھے۔ انہوں نے فوراً ہی بتا دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ان کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اور اس دن انہوں نے قرآن پاک کا جو حصہ یاد کیا تھا وہ ان کے سامنے تلاوت کیا۔ ان دونوں کو یہ کلام بے حد پسند آیا۔ دونوں فوراً ہی بیٹے کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ اسی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو الطیب المطیب کہا کرتے تھے یعنی پاک باز اور پاک کرنے والے۔
اسی طرح حضرت عمران رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو کچھ عرصے بعد ان کے والد حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو گئے ۔ ان کے اسلام لانے کی تفصیل یوں ہے:
ایک مرتبہ قریش کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لئے آئے۔ان میں حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ قریش کے لوگ تو باہر رہ گئے۔ حصین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا:
’’ان بزرگ کو جگہ دو۔‘‘
جب وہ بیٹھ گئے تب حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’یہ آپ کے بارے میں ہمیں کیسی باتیں معلوم ہو رہی ہیں، آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے حصین آپ کتنے معبودوں کو پوجتے ہیں؟‘‘ 
حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
ہم سات معبودوں کی عبادت کرتے ہیں۔ان میں سے چھ تو زمین میں ہیں، ایک آسمان پر۔‘‘ 
اس پر آپ نے فرمایا:
’’اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو پھر آپ کس سے مدد مانگتے ہیں؟‘‘
حضرت حصین رضی اللہ عنہ بولے:
’’اس صورت میں ہم اس سے دعا مانگتے ہیں جو آسمان میں ہے۔‘‘
یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا:
’’وہ تو تنہا تمہاری دعائیں سن کر پوری کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہو۔اے حصین کیا تم اپنے اس شرک سے خوش ہو۔اسلام قبول کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں سلامتی دے گا۔‘‘
حضرت حصین رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی مسلمان ہو گئے۔اسی وقت ان کے بیٹے حضرت عمران رضی اللہ عنہ اٹھ کر باپ کی طرف بڑھے اور ان سے لپٹ گئے۔
اس کے بعد حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
’’انہیں ان کے گھر تک پہنچا کر آئیں۔‘‘
حضرت حصین رضی اللہ عنہ جب دروازے سے باہر نکلے تو وہاں قریش کے لوگ موجود تھے۔انہیں دیکھتے ہی بولے:
’’لو یہ بھی بے دین ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد وہ سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور صحابہ کرام نے حضرت حصین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر تک پہنچایا:
اسی طرح تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے۔اس دوران جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا۔ وہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ کر نمازیں ادا کرتا تھا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں تھے کہ اچانک وہاں قریش کی ایک جماعت پہنچ گئی۔اس وقت صحابہ نماز پڑھ رہے تھے۔مشرکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا، وہ ان پر چڑھ دوڑے، ساتھ میں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایسے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اس کو ایک ضرب لگائی۔اس سے اس کی کھال پھٹ گئی، خون بہہ نکلا۔یہ پہلا خون ہے جو اسلام کے نام پر بہایا گیا۔
اب قریشی دشمنی پر اتر آئے۔ اس بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے آئے تاکہ دشمنوں سے بچاؤ رہے۔ اس طرح حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ مکان اسلام کا پہلا مرکز بنا۔ اس مکان کو دار ارقم کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں کی ایک جماعت مسلمان ہو چکی تھی۔ اب نماز دار ارقم میں ادا ہونے لگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہیں پر نماز پڑھاتے، وہیں بیٹھ کر عبادت کرتے اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیتے۔ اس طرح تین سال گزر گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم فرمایا۔ اعلانیہ تبلیغ کی ابتدا بھی دار ارقم سے ہوئی، پہلے آپ یہاں خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الشعراء میں آپ کو حکم فرمایا:
’’اور آپ اپنے نزدیک کے اہل خاندان کو ڈرائیے۔‘‘
یہ حکم ملتے ہی آپ کافی پریشان ہوئے۔یہاں تک کہ آپ کی پھوپھیوں نے خیال کیا کہ آپ کچھ بیمار ہیں چنانچہ وہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آپ کے پاس آئیں۔تب آپ نے ان سے فرمایا:
’’میں بیمار نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام بنی عبد المطلب کو جمع کروں اور انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دوں۔‘‘
یہ سن کر آپ کی پھوپھیوں نے کہا:
’’ضرور جمع کریں مگر ابو لہب کو نہ بلائیے گا کیونکہ وہ ہرگز آپ کی بات نہیں مانے گا۔‘‘
ابو لہب کا دوسرا نام عبد العزیٰ تھا۔یہ آپ کا چچا تھا اور بہت خوبصورت تھا مگر بہت سنگدل اور مغرور تھا۔
دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی عبد المطلب کے پاس دعوت بھیجی۔اس پر وہ سب آپ کے ہاں جمع ہو گئے۔ان میں ابو لہب بھی تھا۔اس نے کہا:
’’یہ تمہارے چچا اور ان کی اولادیں جمع ہیں ۔تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، اور اپنی بے دینی کو چھوڑ دو، ساتھ ہی تم یہ بھی سمجھ لو کہ تمہاری قوم میں یعنی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری خاطر سارے عربوں سے دشمنی لے سکیں، لہٰذا اگر تم اپنے معاملے پر اڑے رہے تو خود تمہارے خاندان والوں ہی کا سب سے زیادہ فرض ہو گا کہ تمہیں پکڑ کر قید کر دیں، کیونکہ قریش کے تمام خاندان اور قبیلے تم پر چڑھ دوڑیں، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ ہم ہی تمہیں قید کر دیں اور میرے بھتیجے حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو چیز اپنے رشتے داروں کے سامنے پیش کی ہے اس سے بد تر چیز کسی اور شخص نے آج تک پیش نہیں کی ہوگی۔‘‘
آپ نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی اور حاضرین کو اللہ کا پیغام سنایا۔ آپ نے فرمایا:
’’اے قریش!کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا:
’’اے قریش، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
وہاں صرف آپ کے رشتے دار ہی جمع نہیں تھے بلکہ قریش کے دوسرے قبیلے بھی موجود تھے، اس لیے آپ نے ان کے قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں مخاطب فرمایا یعنی آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے:
’’اے بنی ہاشم، اپنی جانوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ…اے بنی عبد شمس، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے بنی عبد مناف، اے بنی زہرہ، اے کعب بن لوی، اے بنی مرہ بن کعب، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے صفیہ، محمد کی پھوپھی، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ الفاظ بھی فرمائے:
’’نہ میں دنیا میں تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہوں نہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں۔سوائے اس صورت کے کہ تم کہو لا الہ الا اللہ۔چونکہ تمہاری مجھ سے رشتہ داری ہے اس لیے اس کے بھروسے پر کفر اور شرک کے اندھیروں میں گم نہ رہنا۔‘‘
اس پر ابو لہب آگ بگولہ ہو گیا۔اس نے تلملا کر کہا:
’’تو ہلاک ہو جائے۔کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا۔‘‘
پھر سب لوگ چلے گئے۔

اسلام کی تبلیغ

اس کے بعد کچھ دن تک آپ ﷺخاموش رہے۔ پھر آپﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے آپ کو اللہ کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر طرف پھیلا دینے کا حکم سنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ لوگوں کو جمع فرمایا۔ان کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں خاص طور پر تمہاری طرف اور عام طور پر سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اللہ کی قسم! تم جس طرح جاگتے ہو، اسی طرح ایک دن حساب کتاب کے لئے دوبارہ جگائے جاؤ گے۔ پھر تم جو کچھ کررہے ہو، اس کا حساب تم سے لیا جائے گا۔ اچھائیوں اور نیک اعمال کے بدلے میں تمہیں اچھا بدلہ ملے گا اور برائی کا بدلہ برا ملے گا، وہاں بلاشبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔اللہ کی قسم! اے بنی عبد المطلب! میرے علم میں ایسا کوئی نوجوان نہیں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور اعلیٰ کوئی چیز لے کر آیا ہو۔ میں تمہارے واسطے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت ترین انداز میں کہا:
’’اے بنی عبد المطلب! اللہ کی قسم! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈالے، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قابو پالو، یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی بات سن کر مسلمان ہوجاتے ہو، تو یہ تمہارے لئے ذلت و رسوائی کے بات ہوگی ۔ اگر تم اسے دوسرے دشمنوں سے بچانے کی کرو گے تو تم خود قتل ہوجاؤگے ۔‘‘
اس کے جواب میں اس کی بہن یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’بھائی! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہارے لیے مناسب ہے اور پھر اللہ کی قسم! بڑے بڑے عالم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبدالمطلب کے خاندان میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں، لہٰذا میں تو کہتی ہوں، یہی وہ نبی ہیں ۔‘‘
ابولہب کو یہ سن کر غصہ آیا، وہ بولا:
’’اللہ کی قسم یہ بالکل بکواس اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کی باتیں ہیں ۔ جب قریش کے خاندان ہم پر چڑھائی کرنے آئیں گے اور سارے عرب ان کا ساتھ دیں گے تو ان کے مقابلے میں ہماری کیا چلے گی ۔خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوالے کی حیثیت ہوں گے ۔‘‘
اس پر ابوطالب بول اٹھے:
’’اللہ کی قسم! جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کے حفاظت کریں گے ۔‘‘ 
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور تمام قریش کو اسلام کی دعوت دی ۔ ان سب سے فرمایا:
’’اے قریش! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے جھوٹا خیال کرو گے ۔‘‘ 
سب نے ایک زبان ہوکر کہا:
’’نہیں! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا ۔‘‘ 
اب آپ نے فرمایا:
’’اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا، میں تمہیں اس زبردست عذاب سے صاف ڈرا رہا ہوں جو تمہارے سامنے ہے، میں تم لوگوں کو دو کلمے کہنے کی دعوت دیتا ہوں، جو زبان سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں، لیکن ترازو میں بے حد وزن والے ہیں، ایک اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اب تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کو قبول کرتا ہے۔‘‘
آپ کے خاموش ہونے پر ان میں سے کوئی نہ بولا تو آپ نے اپنی بات پھر دہرائی، پھر آپ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی مگر اس بار بھی سب خاموش کھڑے رہے ۔ اتنا ہوا کہ سب نے آپ کی بات خاموشی سے سن لی اور واپس چلے گئے ۔ 
ایک دن قریش کے لوگ مسجد حرام میں جمع تھے، بتوں کو سجدے کررہے تھے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:
’’اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ گئے ہو۔‘‘ 
آپ کی بات کے جواب میں قریش بولے:
’’ہم اللہ تعالیٰ کی محبت ہی میں بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوسکیں ۔‘‘ 
(افسوس! آج کل ان گنت لوگ بھی قبروں کو سجدہ بالکل اسی خیال سے کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں) 
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کے جواب میں وحی نازل فرمائی:
ترجمہ:’’ آپ فرمادیجیے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے ۔‘‘ (سورۃ آل عمران:آیت 31)
قریش کو یہ بات بہت ناگوار گزری ۔ انہوں نے ابوطالب سے شکایت کی:
’’ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں، ہمیں بے عقل ٹھہرایا ہے، اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے، اس لیے یا تو ہماری طرف سے آپ نبٹیے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جایئے، کیونکہ خود آپ بھی اسی دین پر چلتے ہیں جو ہمارا ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلاف ہیں ۔‘‘
ابو طالب نے انہیں نرم الفاظ میں یہ جواب دے کر واپس بھیج دیا کہ: 
’’اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا ۔‘‘ 
ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا ۔ حضرت جبرئیل نہایت حسین شکل و صورت میں بہترین خوشبو لگائے ظاہر ہوئے اور بولے:
’’اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ آپ تمام جنوں اور انسانوں کی طرف سے اللہ تعالی کے رسول ہیں، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلایئے ۔‘‘ 
یہ حکم ملتے ہی آپ نے قریش کو براہ راست تبلیغ شروع کردی اور حالت اس وقت یہ تھی کہ کافروں کے پاس پوری طاقت تھی اور وہ آپ کی پیروی کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، کفر اور شرک ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا ۔ بتوں کی محبت ان کے اندر سرایت کرچکی تھی ۔ ان کے دل اس شرک اور گمراہی کے سوا کوئی چیز بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ شرک کی یہ بیماری لوگوں میں پوری طرح سماچکی تھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تو قریش کے درمیان ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہونے لگا ۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے دشمنی پر اتر آئے ۔ آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے ۔ یہاں تک سوچنے لگے کہ آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے، لیکن یہ لوگ پہلے ایک بار پھر ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے بولے:
’’ابوطالب! ہمارے درمیان آپ بڑے قابل، عزت دار اور بلند مرتبہ آدمی ہیں، ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے، مگر آپ نے کچھ نہیں کیا، ہم لوگ یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے معبودوں کو اور باپ داداؤں کو برا کہا جائے ۔ ہمیں بے عقل کہا جائے ۔ آپ انہیں سمجھا لیں ورنہ ہم آپ سے اور ان سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ختم نہ ہوجائے ۔‘‘

قتل کی کوشش

قریش تو یہ کہہ کر چلے گئے، ابوطالب پریشان ہوگئے ۔وہ اپنی قوم کے غصے سے اچھی طرح واقف تھے ۔دوسری طرف وہ اس بات کو پسند نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 
’’بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے یہ، یہ کہا ہے، اس لیے اپنے اوپر اور مجھ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں ۔‘‘
ابوطالب کی اس گفتگو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ اب چچا ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، وہ بھی اب آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتے، آپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھارہے ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا: 
’’چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں، تو بھی میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر فرمادیں۔‘‘ 
یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرا گئی ۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ پھر آپ اٹھ کر جانے لگے، لیکن اسی وقت ابوطالب نے آپ کو پکارا:
’’بھتیجے! ادھر آؤ ۔‘‘
آپ ان کی طرف مڑے تو انہوں نے کہا:
’’جاؤ بھتیجے! جو دل چاہے کہو، اللہ کی قسم میں تمہیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ 
جب قریش کو اندازہ ہوگیا کہ ابوطالب آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ عمارہ بن ولید کو ساتھ لیکر ابوطالب کے پاس آئے اور بولے:
’’ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے ۔ قریش کا سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور سب سے زیادہ حسین نوجوان ہے ۔ تم اسے لیکر اپنا بیٹا بنالو اور اس کے بدلے میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردو، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے دین کے خلاف جارہا ہے، اس نے تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کی عقلیں خراب کردی ہیں ۔ تم اسے ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں…انسان کے بدلے میں ہم تمہیں انسان دے رہے ہیں ۔‘‘
قریش کی یہ بیہودہ تجویز سن کر ابوطالب نے کہا:
’’اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اونٹنی اپنے بچے کو چھوڑ کر کسی دوسرے بچے کی آرزومند ہوسکتی ہے ۔‘‘ 
ان کا جواب سن کر مطعم بن عدی نے کہا:
’’ابوطالب! تمہاری قوم نے تمہارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور جو بات تمہیں ناپسند ہے اس سے چھٹکارے کے لیے کوشش کی ہے ۔ اب میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد تم ان کی کوئی اور پیش کش قبول کرو گے۔‘‘ 
جواب میں ابوطالب بولے:
’’اللہ کی قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ بلکہ تم سب نے مل کر مجھے رسوا کرنے اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، اس لیے اب جو تمھارے دل میں آئے کرلو ۔‘‘
بعد میں یہ شخص یعنی عمارہ بن ولید حبشہ میں کفر کی حالت میں مرا۔ اس پر جادو کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ وحشت زدہ ہوکر جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرا شخص مطعم بن عدی بھی کفر کی حالت میں مرا۔
غرض جب ابو طالب نے قریش کی یہ پیش کش بھی ٹھکرادی تو معاملہ حد درجے سنگین ہوگیا۔ دوسری طرف ابو طالب نے قریش کے خطرناک ارادوں کو بھانپ لیا، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بلایا، ان سے درخواست کی کہ سب مل کر آپ کی حفاظت کریں، آپ کا بچاؤ کریں۔ ان کی بات سن کر سوائے ابو لہب کے سب تیار ہوگئے۔ ابو لہب نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدبخت سختی کرنے اور آپ کے خلاف آواز اٹھانے سے باز نہ آیا۔ اسی طرح جو لوگ آپ پر ایمان لے آئے تھے ان کی مخالفت میں بھی ابو لہب ہی سب سے پیش پیش تھا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف پہنچانے میں بھی یہ قریش سے بڑھ چڑھ کر تھا۔
آپ کو تکالیف پہنچانے کے سلسلے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، ایک روز میں مسجد حرام میں تھا کہ ابو جہل وہاں آیا اور بولا: 
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر میں محمد کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لوں، تو میں ان کی گردن ماردوں۔‘‘
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سن کر میں فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور آپ کو بتایا کہ ابو جہل کیا کہہ رہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصے کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز چلتے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ گزرتے وقت آپ کو دیوار کی رگڑ لگ گئی۔ اس وقت آپ سورۃ العلق کی آیت 1،2 پڑھ رہے تھے:
ترجمہ:’’ اے پیغمبر! آپ اپنے رب کا نام لے کر (قرآن) پڑھا کیجئے! وہ جس نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس نے انہیں خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔‘‘
تلاوت کرتے ہوئے آپ اس سورۃ کی آیت 6 تک پہنچ گئے:
ترجمہ:’’ سچ مچ بے شک کافر آدمی حد سے نکل جاتا ہے۔‘‘
یہاں تک کہ آپ نے سورہ کا آخری حصہ پڑھا جہاں سجدے کی آیت ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ سجدے میں گرگئے۔ اسی وقت کسی نے ابو جہل سے کہا:
’’ابو الحکم! یہ محمد سجدے میں پڑے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی ابو جہل فوراً آپ کی طرف بڑھا، آپ کے نزدیک پہنچا، لیکن پھر اچانک واپس آگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا:
’’ابو الحکم! کیا ہوا؟‘‘
جواب میں اس نے اور زیادہ حیران ہوکر کہا:
’’جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں وہ نظر نہیں آرہا؟‘‘
اس کی بات سن کر لوگ اور زیادہ حیران ہوئے اور بولے:
’’تمہیں کیا نظر آرہا ہے ابو الحکم؟‘‘
اس پر ابو جہل نے کہا:
’’مجھے اپنے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق نظر آرہی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک دن ابو جہل نے کہا:
’’اے گروہ قریش! جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، محمد تمہارے دین میں عیب ڈال رہا ہے، تمہارے معبودوں کو برا کہہ رہا ہے، تمہاری عقلوں کو خراب بتا رہا ہے اور تمہارے باپ داداؤں کو گالیاں دے رہا ہے، اس لئے میں خدا کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ کل میں محمد کے لئے اتنا بڑا پتھر لے کر بیٹھوں گا جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، جونہی وہ سجدے میں جائیں گے، میں وہ پتھر ان کے سر پر دے ماروں گا، اس کے بعد تم لوگوں کو اختیار ہے، چاہو تو اس معاملے میں میری مدد کرنا اور مجھے پناہ دینا، چاہو تو مجھے دشمنوں کے حوالے کر دینا، پھر بنی عبد مناف میرا جو بھی حشر کریں۔‘‘
یہ سن کر قریش نے کہا:
’’اللہ کی قسم! ہم تمہیں کسی قیمت پر دغا نہیں دیں گے، اس لئے جو تم کرنا چاہتے ہو، اطمینان سے کرو۔‘‘
دوسرے دن ابو جہل اپنے پروگرام کے مطابق ایک بہت بھاری پتھر اٹھا لایا اور لگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عادت کے مطابق صبح کی نماز کے بعد وہاں تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔ آپ نماز کے لئے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوا کرتے تھے، کعبے کو اپنے اور بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے آتے ہی نماز کی نیت باندھ لی۔ ادھر قریش کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے؟ ابو جہل اپنے پروگرام میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟
پھر جونہی آپ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھایا اور آپ کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ آپ کے نزدیک ہوا، ایک دم اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ چہرے کا رنگ اڑگیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ادھر پتھر پر اس کے ہاتھ اس طرح جم گئے کہ اس نے چاہا، ہاتھ اس پر سے ہٹالے، لیکن ہٹا نہ سکا۔ قریش کے لوگ فوراً اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
’’ابو الحکم! کیا ہوا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’میں نے رات کو تم سے جو کہا تھا، اس کو پورا کرنے کے لئے میں محمد کی طرف بڑھا مگر جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، ایک جوان اونٹ میرے راستے میں آگیا۔ میں نے اس جیسا زبردست اونٹ آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک دم میری طرف بڑھا جیسے مجھے کھالے گا۔‘‘
جب اس واقعے کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ اگر وہ میرے نزدیک آتا تو وہ ضرور اسے پکڑ لیتے۔‘‘

کڑی آزمائش

ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا: 
’’ کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں۔‘‘
اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۸ ۱نازل ہوئیں۔
ترجمہ:’’ سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔‘‘
ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا: 
’’ آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں۔‘‘
اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی: 
ترجمہ:’’ چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔‘‘
آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔
ابولہب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں بچھاتی، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ اللہب نازل فرمائی۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئی۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئی، پتھر ہاتھ میں لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا: 
’’ اللہ کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھہرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔‘‘
ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’ ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔‘‘
اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئی۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی: 
’’ ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہے، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔‘‘
ابوبکر بولے: 
’’ کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔‘‘
’’کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔‘‘
انہوں نے پوچھا:
’’تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں۔‘‘
وہ سورۃ اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔
اس پر انہوں نے کہا: 
’’ نہیں! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’ اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:
’’میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔‘‘
ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۃ الہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:
’’ اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔‘‘
چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔(دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادیاں تھیں، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ 
اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:
’’ اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔‘‘
عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:
’’اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں۔‘‘
ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:
’’تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔‘‘
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
’’بیشک ہمیں معلوم ہے۔‘‘
ابو لہب یہ سن کر بولا:
’’تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔‘‘
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔
تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا: 
’’کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔‘‘
ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:
’’کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو ۔تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔‘‘
تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔
اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:
’’اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔‘‘
قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:
’’اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوہ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔‘‘
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:
’’ تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔‘‘
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرا بھی یہی حال ہے۔‘‘
پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ تیسرے پھیرے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا۔ پھر چوتھے پھیرے میں یہ تینوں یک دم آپ کی طرف جھپٹے۔

قربانیاں ہی قربانیاں 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔‘‘
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔‘‘
یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:
’’تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالیٰ خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔‘‘
اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوہ بدر کے دن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔‘‘
ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:
’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے…اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔‘‘
بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
’’مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟’‘‘
جواب میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔‘‘
یہ قول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔
پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: 
’’اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں۔‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔‘‘
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔ 
اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔ عقبہ تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا:
’’اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔‘‘
یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:
’’اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں، ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں۔‘‘
ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، اسلام قبول کرچکی تھیں،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:
’’ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں۔‘‘
ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:
’’میں نہیں جانتی۔‘‘
ساتھ ہی وہ بولیں:
’’کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں؟‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فوراً کہا: 
’’ہاں!‘‘
اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں:
’’جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناًفاسق اور بد ترین لوگ ہیں، مجھے یقین ہے، اللہ تعالیٰ ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں:
’’یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
’’ان کی طرف سے بے فکر رہیں،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔‘‘
اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔‘‘
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں۔‘‘
”ام جمیل نے فرمایا: 
’’دار ارقم میں ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے:
’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل نہ لوں۔‘‘
ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا…تاکہ باہر سکون ہو جائے…آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں، جونہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بے حد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کو بے حد خوشی ہوئی۔
ایک روز صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:
’’اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔‘‘
یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
’’میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا۔‘‘

حقیقت روشن ہوگئی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر صحابہ نے کہا:
’’ہمیں قریش کی طرف سے آپ کے بارے میں خطرہ ہے، ہم تو ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا خاندان قریش سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔‘‘
اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’تم میری پروا نہ کرو، اللہ تعالی خود میری حفاظت فرمائیں گے۔‘‘
دوپہر کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں پہنچ گئے۔آپ مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے۔اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اب انہوں نے بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔
قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے، 
’’اس غلام زادے کو کیا ہوا؟ ‘‘
کوئی اور بولا:
’’محمد جو کلام لے کر آئے ہیں، یہ وہی پڑھ رہا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طرف دوڑ پڑے اور لگے انہیں مارنے پیٹنے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چوٹیں کھاتے جاتے تھے اور قرآن پڑھتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سورۃ کا زیادہ تر حصہ تلاوت کرڈالا۔اس کے بعد وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے۔ان کا چہرہ اس وقت تک لہولہان ہوچکا تھا۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان بول اٹھے:
’’ہمیں تمہاری طرف سے اسی بات کا خطرہ تھا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! اللہ کے دشمنوں کو میں نے اپنے لیے آج سے زیادہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پایا۔اگر تم لوگ کہو تو کل پھر ان کے سامنے جا کر قرآن پڑھ سکتا ہوں۔‘‘
اس پر مسلمان بولے:
’’نہیں، وہ لوگ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں، آپ انہیں وہ کافی سنا آئے ہیں۔‘‘
کفار کا یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ایسے میں ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی کے پاس موجود تھے۔ابوجہل آپ کے پاس سے گزرا۔اس نے آپ کو دیکھ لیا اورلگا گالیاں دینے، اس نے آپ کے سر پر مٹی بھی پھینکی۔عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ منظر دیکھا۔پھر ابو جہل آپ کے پاس سے چل کر حرم میں داخل ہوا۔وہاں مشرکین جمع تھے۔وہ ان کے سامنے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔اسی وقت آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہوئے۔یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی۔وہ اس وقت شکار سے واپس آئے تھے۔ان کی عادت تھی کہ جب شکار سے لوٹتے تو پہلے حرم جا کر طواف کرتے تھے پھر گھر جاتے تھے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن جدعان کی باندی کے پاس سے گزرے، اس نے سارا منظر خاموشی سے دیکھا اور سنا تھا۔اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’اے حمزہ! کچھ خبر بھی ہے، ابھی ابھی یہاں ابو حکم بن ہشام(ابو جہل)نے تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔وہ یہاں بیٹھے تھے، ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، انہیں تکالیف پہنچائیں، گالیاں دیں اور بہت بری طرح پیش آیا، آپ کے بھتیجے نے جواب میں اسے کچھ بھی نہ کہا ۔‘‘
ساری بات سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’تم جو کچھ بیان کررہی ہو، کیا یہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔‘‘
اس نے فوراً کہا:
’’ہاں! میں نے خود دیکھا ہے ۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں آگئے ۔ چہرہ غصے سے تمتما اٹھا ۔ فوراً حرم میں داخل ہوئے، وہاں ابوجہل موجود تھا ۔ وہ قریشیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، یہ سیدھے اس تک جاپہنچے ۔ ہاتھ میں کمان تھی، بس وہی کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری ۔ ابوجہل کا سر پھٹ گیا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:
’’تو محمد کو گالیاں دیتا ہے، سن لے! میں بھی اس کا دین اختیار کرتا ہوں ، جو کچھ وہ کہتا ہے، وہی میں بھی کہتا ہوں، اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جواب دے۔‘‘ 
ابوجہل ان کی منت سماجت کرتے ہوئے بولا:
’’وہ ہمیں بے عقل بتاتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، ہمارے باپ دادا کے راستے کے خلاف چلتا ہے۔‘‘
یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بولے:
’’اور خود تم سے زیادہ بے عقل اور بیوقوف کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے ٹکڑوں کو پوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
ان کے یہ الفاظ سن کر ابوجہل کے خاندان کے کچھ لوگ یک دم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے کہا:
’’اب تمہارے بارے میں بھی ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی بے دین ہوگئے ہو۔‘‘ 
جواب میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آؤ…کون ہے مجھے اس سے روکنے والا ۔ مجھ پر حقیقت روشن ہوگئی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ حق اور سچائی ہے، اللہ کی قسم! میں انہیں نہیں چھوڑوں گا ۔اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ ۔‘‘
یہ سن کر ابوجہل نے اپنے لوگوں سے کہا:
’’ابو عمارہ (یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو چھوڑدو، میں نے واقعی ان کے بھتیجے کے ساتھ ابھی کچھ برا سلوک کیا تھا ۔‘‘
وہ لوگ ہٹ گئے ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ گھر پہنچے ۔ گھر آکر انہوں نے الجھن محسوس کی کہ یہ میں قریش کے سامنے کیا کہہ آیا ہوں…میں تو قریش کا سردار ہوں۔
لیکن پھر ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا، آخر شدید الجھن کے عالم میں انہوں نے دعا کی:
’’اے اللہ! اگر یہ سچا راستہ ہے تو میرے دل میں یہ بات ڈال دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے اس مشکل سے نکال دے، جس میں میں گھر گیا ہوں ۔‘‘
وہ رات انہوں نے اسی الجھن میں گزاری ۔ آخر صبح ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ۔ آپ سے عرض کیا:
’’بھتیجے! میں ایسے معاملے میں الجھ گیا ہوں کہ مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور ایک ایسی صورت حال میں رہنا، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا، یہ سچائی ہے یا نہیں، بہت سخت معاملہ ہے ۔‘‘
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے ۔ آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا ۔ ثواب کی خوش خبری سنائی، آپ کے وعظ و نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کا نور عطا فرمادیا، وہ بول اٹھے:
’’اے بھتیجے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے رسول ہو ۔بس اب تم اپنے دین کو کھل کر پیش کرو ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اسی واقعے پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ:’’ ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اسے لیے ہوئے چلتا پھرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الانعام)
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ خوشی ہوئی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے سگے چچا تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ قریش میں سب سے زیادہ معزز فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریش کے سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور خوددار انسان تھے اور اسی بنیاد پر جب قریش نے دیکھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے تو انہوں نے آپ کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بند کردیا، لیکن اپنے تمام ظلم و ستم اب وہ کمزور مسلمانوں پر ڈھانے لگے۔ کسی قبیلے کا بھی کوئی شخص مسلمان ہوجاتا وہ اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے، ایسے لوگوں کو قید کردیتے، بھوکا پیاسا رکھتے ،تپتی ریت پر لٹاتے، یہاں تک کہ اس کا یہ حال ہوجاتا کہ سیدھے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہتا۔ اس ظلم اور زیادتی پر سب سے زیادہ ابوجہل لوگوں کو اکساتا تھا۔
ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ کا پورا نام بلال بن رباح تھا۔ یہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلے عبداللہ بن جدعان تمیمی کے غلام تھے۔ عبداللہ بن جدعان کے سو غلام تھے، یہ ان میں سے ایک تھے۔ جب اسلام کا آغاز ہوا اور اس کا نور پھیلا تو عبداللہ بن جدعان نے اپنے ۹۹ غلاموں کو اس خوف سے مکہ سے باہر بھجوا دیا کہ کہیں وہ مسلمان نہ ہوجائیں۔ بس اس نے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ اس کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اسلام کی روشنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ تک بھی پہنچی۔ یہ ایمان لے آئے مگر انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ ایک روز انہوں نے کعبہ کے چاروں طرف رکھے بتوں پر گندگی ڈال دی۔ ساتھ ہی وہ ان پر تھوکتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: 
’’جس نے تمہاری عبادت کی وہ تباہ ہوگیا۔‘‘
یہ بات قریش کو معلوم ہوگئی۔ وہ فوراً عبداللہ بن جدعان کے پاس آئے…اور اس سے بولے: 
’’بے دین ہوگئے ہو۔‘‘
اس نے حیران ہوکر کہا: 
’’کیا میرے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟ ‘‘
اس پر وہ بولے: 
’’تمہارے غلام بلال نے آج ایسا ایسا کیا ہے۔‘‘
’’کیا!!! ‘‘
وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

آزمائشوں پر آزمائشیں 

عبداللہ بن جدان نے فوراً قریش کو ایک سو درہم دیے تاکہ بتوں کی جو توہین ہوئی ہے، اس کے بدلے ان کے نام پر کچھ جانور ذبح کردیے جائیں۔ پھر وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ اس نے انہیں رسی سے باندھ دیا۔ تمام دن بھوکا اور پیاسا رکھا۔ پھر تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیا۔ جب دوپہر کے وقت سورج آگ برسانے لگتا تو انہیں گھر سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر چت لٹادیتا۔ اس وقت ریت اس قدر گرم ہوتی تھی کہ اگر اس پر گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھن جاتا تھا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا، ایک وزنی پتھر منگاتا اور ان کے سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہ سکیں۔ پھر وہ بدبخت ان سے کہتا: 
’’ اب یا تو محمد کی رسالت اور پیغمبری سے انکار کر اور لات و عزیٰ کی عبادت کر ورنہ میں تجھے یہاں اسی طرح لٹائے رکھوں گا، یہاں تک کہ تیرا دم نکل جائے گا۔ ‘‘
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کی بات کے جواب میں فرماتے: 
’’ احد….احد۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کسی طرح اسلام سے نہ ہٹے تو تنگ آکر عبداللہ بن جدعان نے انہیں امیہ بن خلف کے حوالے کردیا۔ اب یہ شخص ان پر اس سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھانے لگا۔ 
ایک روز انہیں اسی قسم کی خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف سے گزرے۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ شدت تکلیف کی حالت میں احد احد پکار رہے تھے۔آپ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا: 
’’ بلال! تمہیں یہ احد احد ہی نجات دلائے گا۔‘‘
پھر ایک روز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے۔ امیہ بن خلف نے انہیں گرم ریت پر لٹا رکھا تھا۔ سینے پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا۔انہوں نے یہ دردناک منظر دیکھ کر امیہ بن خلف سے کہا: 
’’ کیا اس مسکین کے بارے میں تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا، آخر کب تک تم اسے عذاب دیے جاؤگے۔‘‘
امیہ بن خلف نے جل کر کہا: 
’’ تم ہی نے اسے خراب کیا ہے، اس لیے تم ہی اسے نجات کیوں نہیں دلادیتے۔‘‘
اس کی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: 
’’ میرے پاس بھی ایک حبشی غلام ہے، وہ اس سے زیادہ طاقتور ہے اور تمہارے ہی دین پر ہے، میں ان کے بدلے میں تمہیں وہ دے سکتا ہوں۔‘‘
یہ سن کر امیہ بولا: 
’’ مجھے یہ سودا منظور ہے۔ ‘‘
یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا حبشی غلام اس کے حوالے کردیا۔ اس کے بدلے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو لے لیا اور آزاد کردیا۔ سبحان اللہ! کیا خوب سودہ ہوا، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حبشی غلام دنیا کے لحاظ سے بہت قیمتی تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیہ بن خلف نے غلام کے ساتھ دس اوقیہ سونا بھی طلب کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا چنانچہ آپ نے اسے ایک یمنی چادر اور کچھ سونا دیا تھا ۔ ساتھ ہی آپ نے امیہ بن خلف سے فرمایا تھا:
’’اگر تم مجھ سے سو اوقیہ سونا بھی طلب کرتے تو بھی میں تمہیں دے دیتا ۔‘‘ 
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سے غلام مسلمانوں کو خرید کر آزاد فرمایا تھا، یہ وہ مسلمان غلام تھے جنہیں اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا ۔ ان میں ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی والدہ حمامہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ ایک عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ انہیں اللہ کا نام لینے پر بڑے بڑے سخت عذاب دیے جاتے ۔یہ قبیلہ بنی تمیم کے ایک شخص کے غلام تھے ۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار تھا ۔ آپ نے اپنے رشتے دار سے خرید کر انہیں بھی آزاد فرمایا ۔ ایک صاحب ابو فکیہ رضی اللہ عنہ تھے ۔یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ۔ یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے ۔
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی ابتدا میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے ۔ وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے ۔ ایک روز انہوں نے حضرت ابو فکیہ رضی اللہ عنہ کو گرم ریت پر لٹا رکھا تھا ۔ ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے ۔اس وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے:
’’اسے ابھی اور عذاب دو، یہاں تک کہ محمد یہاں آکر اپنے جادو سے اسے نجات دلائیں ۔‘‘ 
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے انہیں خرید کر آزاد کردیا ۔ 
اسی طرح زنیرہ رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس قدر خوفناک سزائیں دی گئیں کہ وہ بے چاری اندھی ہوگئیں، ایک روز ابوجہل نے ان سے کہا:
’’جو کچھ تم پر بیت رہی ہے، یہ سب لات و عزیٰ کر رہے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی زنیرہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’ہر گز نہیں، اللہ کی قسم، لات و عزیٰ نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ کوئی نقصان…یہ جو کچھ ہو رہا ہے، آسمان والے کی مرضی سے ہو رہا ہے۔میرے پروردگار کو یہ بھی قدرت ہے کہ وہ مجھے میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے۔‘‘
دوسرے دن وہ صبح اٹھیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی اللہ تعالیٰ نے لوٹا دی تھی۔
اس بات کا جب کافروں کو پتا چلا تو تو وہ بول اٹھے:
’’یہ محمد کی جادوگری ہے۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا۔
آپ نے زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو بھی خرید کر آزاد کیا۔ اسی طرح نہدیہ نام کی ایک باندی تھیں ۔ان کی ایک بیٹی بھی تھیں۔دونوں ولید بن مغیرہ کی باندیاں تھیں۔انھیں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کر دیا۔
عامر بن فہیرہ کی بہن اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئی تھیں۔یہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی باندیاں تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا۔
ایمان لانے والے جن لوگوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔کافروں نے انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوششیں کیں مگر یہ ثابت قدم رہے۔انہیں جاہلیت کے زمانے میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر انہیں ایک عورت ام انمار نے خرید لیا، یہ ایک لوہار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی دل جوئی فرماتے تھے۔ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔جب یہ مسلمان ہو گئے اور ام انمار کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت خوفناک سزائیں دیں۔ وہ لوہے کا کڑا لے کر آگ میں گرم کرتی۔ خوب سرخ کرتی۔پھر اس کو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھ دیتی،آخر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی مصیبت کا ذکر کیا تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کے فوراً بعد اس عورت کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا۔اس سے وہ کتوں کی طرح بھونکتی تھی، آخر کسی نے اسے علاج بتایا کہ وہ لوہا تپا کر سر پر رکھوائے، اس نے یہ کام حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا۔اب آپ وہ حلقہ خوب گرم کر کے اس کے سر پر رکھتے۔

چاند دو ٹکڑے ہو گیا

حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے۔‘‘
میرے الفاظ سنتے ہی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔پھر آپ نے فرمایا:
’’تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے۔ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھیاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دیے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے۔ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔‘‘
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔
ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
’’اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔‘‘
اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف سے گزرے، آپ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا:
’’اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما۔‘‘
ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔ اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔
ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
’’اے محمد! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔
اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:
’’اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے۔‘‘
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
’’ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کے اوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لو اب گواہی دو۔‘‘
ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:
’’محمد نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔‘‘
کچھ نے کہا:
’’محمد نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:
’’ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔‘‘
چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:
’’ ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی مشرک بول اٹھے:
’’بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔‘‘
کچھ نے کہا:
’’یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔‘‘
یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔ 
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی:
ترجمہ:’’ قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ 
اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:
’’اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے…جیسا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘
ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔‘‘

مشرکین کے مطالبات

ایک مشرک کہنے لگا:
’’آپ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ نبی کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپ کی تصدیق کرتا۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت 7 نازل فرمائی:
ترجمہ:’’ اور یہ کافر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔‘‘
پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس کی آیت نازل فرمائی:
’’ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔‘‘
اس کے بعد ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 
’’ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم جس رحمن کا ذکر کرتے ہو وہ رحمن یمامہ کا ایک شخص ہے، وہ تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے، ہم لوگ اللہ کی قسم! کبھی رحمن پر ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
یہاں رحمن سے ان لوگوں کی مراد یمامہ کے ایک یہودی کاہن سے تھی۔ اس بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرعد کی آیت 30 نازل فرمائی:
ترجمہ:’’ آپ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔‘‘
اس وقت آپ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپ وہاں سے اٹھ گئے۔
مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے آکر کہا:
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔‘‘
یہ سن کر آپ نے عرض کیا:
’’باری تعالیٰ! آپ اپنی رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں۔‘‘
دراصل آپ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے…رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا: 
’’ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
’’ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔‘‘
قاصدوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
’’تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’کم درجے کے لوگوں نے۔‘‘
اب انہوں نے کہا:
’’تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔

تین سوال

پہلے ان سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کرو جو پچھلے زمانے میں کہیں نکل گئے تھے۔ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں پوچھو کہ ان کا کیا واقعہ تھا۔ اس لئے کہ ان کا واقعہ نہایت عجیب و غریب ہے، ہماری پرانی کتابوں کے علاوہ اس واقعے کا ذکر کہیں نہیں ملے گا…اگر وہ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر پاکر ان کے بارے میں بتادیں گے…ورنہ نہیں بتا سکیں گے۔
پھر ان سے یہ پوچھنا کہ سکندر ذو القرنین کون تھا، اس کا کیا قصہ ہے۔ پھر ان سے روح کے بارے میں پوچھنا کہ وہ کیا چیز ہے۔ اگر انہوں نے پہلے دونوں سوالوں کا جواب دے دیا اور ان کا واقعہ بتادیا اور تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں بتادیا تو تم لوگ سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں، اس صورت میں تم ان کی پیروی کرنا۔‘‘
یہ لوگ یہ تین سوالات لے کر واپس مکہ آئے اور قریش سے کہا:
’’ہم ایسی چیز لے کر آئے ہیں کہ اس سے ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے ان سب کو تفصیل سنائی۔ اب یہ مشرکین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انہوں نے آپ سے کہا:
’’اے محمد! اگر آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو ہمارے تین سوالات کے جوابات بتادیں، ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ اصحاب کہف کون تھے؟ دوسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟ اور تیسرا سوال ہے کہ روح کیا چیز ہے؟‘‘
آپ نے ان کے سوالات سن کر فرمایا:
’’میں ان سوالات کے جوابات تمہیں کل دوں گا۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے میں ان شاء اللہ نہ فرمایا، یعنی یہ نہ فرمایا، ان شاء اللہ میں تمہیں کل جواب دوں گا۔ قریش آپ کا جواب سن کر واپس چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا انتظار کرنے لگے، لیکن وحی نہ آئی۔ دوسرے دن وہ لوگ آگئے، آپ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے، وہ لوگ لگے باتیں کرنے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا:
’’محمد کے رب نے انہیں چھوڑدیا۔‘‘
ان لوگوں میں ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی تھی۔ اس نے بھی یہ الفاظ کہے:
’’میں دیکھتی ہوں کہ تمہارے مالک نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور تم سے ناراض ہو گیا ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی یہ باتیں بہت شاق گزریں۔ آپ بہت پریشان اور غمگین ہو گئے۔ آخر جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر نازل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ہدایت کی گئی:
’’اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ اس کو کل کردوں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا لیا کیجئے (یعنی ان شاء اللہ کہا کیجئے) آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کیا کیجئے اور کہہ دیجئے کہ مجھے امید ہے میرا رب مجھے (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس سے بھی نزدیک تر بات بتادے گا۔‘‘ (سورہ کہف)
مطلب یہ تھا کہ جب آپ یہ کہیں کہ آئندہ فلاں وقت پر میں یہ کام کروں گا تو اس کے ساتھ ان شاء اللہ ضرور کہا کریں۔ اگر آپ اس وقت اپنی بات کے ساتھ ان شاء اللہ ملانا بھول جائیں اور بعد میں یاد آجائے تو اس وقت ان شاء اللہ کہہ دیا کریں۔ اس لئے کہ بھول جانے کے بعد یاد آنے پر وہ ان شاء اللہ کہہ دینا بھی ایسا ہے جیسے گفتگو کے ساتھ کہہ دینا ہوتا ہے۔
اس موقعے پر وحی میں دیر اسی بنا پر ہوئی تھی کہ آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ جب جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر آئے تو آپ نے ان سے پوچھا تھا:
’’جبرئیل! تم اتنی مدت میرے پاس آنے سے رکے رہے، اس سے تشویش پیدا ہونے لگی تھی۔‘‘
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:
’’ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں داخل ہو سکتے ہیں،نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں، ہم تو صرف اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں، اور یہ جو کفار کہہ رہے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑ دیا ہے تو آپ کے رب نے آپ کو ہرگز نہیں چھوڑا بلکہ یہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہوا ہے۔‘‘
پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اصحاب کہف کے بارے میں بتایا۔ ذوالقرنین کے بارے میں بتایا اور پھر روح کے بارے وضاحت کی۔ 
اصحاب کہف کی تفصیل تفسیر ابن کثیر کے مطابق یوں ہے:
’’وہ چند نو جوان تھے، دین حق کی طرف مائل ہوگئے تھے اور راہ ہدایت پر آگئے تھے۔ یہ نوجوان پرہیزگار تھے۔ اپنے رب کو معبود مانتے تھے یعنی توحید کے قائل تھے۔ ایمان میں روز بروز بڑھ رہے تھے اور یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر تھے۔ لیکن بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ یہ سوال یہودیوں نے پوچھے تھے اور اس کا مطلب ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔
قوم نے ان کی مخالفت کی۔ ان لوگوں نے صبر کیا۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا۔ وہ مشرک تھا،اس نے سب کو شرک پر لگا رکھا تھا۔ تھا بھی بہت ظالم۔ بت پرستی کراتا تھا۔ وہاں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہ نوجوان اپنے ماں باپ کے ساتھ اس میلے میں گئے۔ وہاں انہوں نے بت پرستی ہوتے دیکھی۔ یہ وہاں سے بیزار ہو کر نکل آئے اور سب ایک درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ اس سے پہلے یہ لوگ الگ الگ تھے۔ ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ آپس میں بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا، یہ سب بت پرستی سے بیزار ہو کر میلے سے چلے آئے ہیں۔ اب یہ آپس میں گھل مل گئے۔ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لئے ایک جگہ مقرر کرلی۔ رفتہ رفتہ مشرک قوم کو ان کے بارے میں پتا چل گیا، وہ انہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے سوالات کئے تو انہوں نے نہایت دلیری سے شرک سے بری ہونے کا اعلان کیا۔ بادشاہ اور درباریوں کو بھی توحید کی دعوت دی۔ انہوں نے صاف کہہ دیا، ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت کریں۔
ان کی اس صاف گوئی پر بادشاہ بگڑا۔ اس نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔
بادشاہ کا حکم سن کر ان میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی، ان کے دل اور مضبوط ہوگئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہاں رہ کر وہ اپنی دین داری پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اس لئے انہوں نے سب کو چھوڑ کر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ جب یہ لوگ اپنے دین کو بچانے کے لئے قربانی دینے پر تیار ہوگئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوئی۔ ان سے فرما دیاگیا:
’’جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو ۔تم پر تمہارے رب کی رحمت ہوگی اور وہ تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرماوے گا۔‘‘
پس یہ لوگ موقع پاکر وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کے غار میں چھپ گئے۔ قوم نے انہیں ہر طرف تلاش کیا، لیکن وہ نہ ملے…اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے دیکھنے سے عاجز کردیا…بالکل اسی قسم کا واقعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا جب آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی تھی، لیکن مشرکین غار کے منہ تک آنے کے باوجود آپ کو نہیں دیکھ سکے تھے۔
اس واقعے میں بھی چند روایات میں تفصیل اس طرح ہے کہ بادشاہ کے آدمیوں نے ان کا تعاقب کیا تھا اور غار تک پہنچ گئے تھے، لیکن غار میں وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آئے تھے۔ قرآن کریم کا اعلان ہے کہ اس غار میں صبح و شام دھوپ آتی جاتی ہے۔ 
یہ غار کس شہر کے کس پہاڑ میں ہے، یہ یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں…پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کردی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلواتے رہے۔ ان کا کتا بھی غار میں ان کے ساتھ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلادیا تھا، اسی طرح انہیں جگادیا۔ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے تھے۔ اب تین سو نو سال بعد جاگے تو بالکل ایسے تھے جیسے ابھی کل ہی سوئے تھے۔

لوہے کی دیوار

ان کے بدن، کھال، بال، غرض ہر چیز بالکل صحیح سلامت تھی۔یعنی جیسے سوتے وقت تھے، بالکل ویسے ہی تھے۔کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔وہ آپس میں کہنے لگے: 
’’ کیوں بھئی! بھلا ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ہیں؟ ‘‘
ایک نے جواب دیا: 
’’ایک دن یا اس سے بھی کم ۔‘‘ 
یہ بات اس نے اس لیے کہی تھی کہ وہ صبح کے وقت سوئے تھے اور جب جاگے تو شام کا وقت تھا۔اس لیے انہوں نے یہی خیال کیا کہ وہ ایک دن یا اس سے کم سوئے ہیں۔پھر ایک نے یہ کہہ کر بات ختم کردی: 
’’اس کا درست علم تو اللہ کو ہے۔‘‘ 
اب انہیں شدید بھوک پیاس کا احساس ہوا۔انہوں نے سوچا، بازار سے کھانا منگوانا چاہیے۔پیسے ان کے پاس تھے۔ان میں سے کچھ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرچکے تھے، کچھ ان کے پاس باقی تھے۔ایک نے کہا: 
’’ہم میں سے کوئی پیسے لے کر بازار چلاجائے اور کھانے کی کوئی پاکیزہ اور عمدہ چیز لے آئے اور جاتے ہوئے اور آتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑ جائے۔سودا خریدتے وقت بھی ہوشیاری سے کام لے۔کسی کی نظروں میں نہ آئے۔اگر انہیں ہمارے بارے میں معلوم ہوگیا تو ہماری خیر نہیں۔دقیانوس کے آدمی ابھی تک ہمیں تلاش کرتے پھررہے ہوں گے۔‘‘
چنانچہ ان میں سے ایک غار سے باہر نکلا، اسے سارا نقشہ ہی بدلا نظر آیا۔اب اسے کیا معلوم تھا کہ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے ہیں۔اس نے دیکھا کوئی چیز اپنے پہلے حال پر نہیں تھی۔شہر میں کوئی بھی اسے جانا پہچانا نظر نہ آیا۔یہ حیران تھا، پریشان تھا اور ڈرے ڈرے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔اس کا دماغ چکرارہا تھا، سوچ رہاتھا، کل شام تو ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں پھر یہ اچانک کیا ہوگیاہے۔جب زیادہ پریشان ہوا تو اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا، مجھے جلد از جلد سودا لیکر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جانا چاہیے۔آخر وہ ایک دکان پر پہنچا، دکان دار کو پیسے دیے اور کھانے پینے کا سامان طلب کیا۔دکان دار اس سکے کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔اس نے وہ سکہ ساتھ والے دکان دار کو دکھایا اور بولا: 
’’بھائی ذرا دیکھنا! یہ سکہ کس زمانے کا ہے؟‘‘ 
اس نے دوسرے کو دیا۔اس طرح سکہ کئی ہاتھوں میں گھوم گیا۔کئی آدمی وہاں جمع ہوگئے۔آخر انہوں نے اس سے پوچھا: 
’’تم یہ سکہ کہاں سے لائے ہو؟ تم کس ملک کے رہنے والے ہو؟‘‘ 
جواب میں اس نے کہا: 
’’میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں، کل شام ہی کو تو یہاں سے گیا ہوں، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے۔‘‘
وہ سب اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور بولے: 
’’یہ تو کوئی پاگل ہے، اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے چلو۔‘‘
آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔وہاں اس سے سوالات ہوئے۔اس نے تمام حال کہہ سنایا۔
بادشاہ اور سب لوگ اس کی کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔آخر انہوں نے کہا:
’’ اچھا ٹھیک ہے۔تم ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس لے چلو…وہ غار ہمیں بھی دکھاؤ۔‘‘
چنانچہ سب لوگ اس کے ساتھ غار کی طرف روانہ ہوئے۔ان نوجوانوں سے ملے اور انہیں بتایا کہ دقیانوس کی بادشاہت ختم ہوئے تین صدیاں بیت چکی ہیں اور اب یہاں اللہ کے نیک بندوں کی حکومت ہے۔بہرحال ان نوجوانوں نے اپنی بقیہ زندگی اسی غار میں گزاری اور وہیں وفات پائی۔بعد میں لوگوں نے ان کے اعزاز کے طورپر پہاڑ کی بلندی پر ایک مسجد تعمیر کی تھی۔ایک روایت یہ بھي ہے کہ جب شہر جانے والا پہلا نوجوان لوگوں کو لیکر غار کے قریب پہنچا تو اس نے کہا: 
’’تم لوگ یہیں ٹھہرو، میں جاکر انہیں خبر کردوں۔‘‘
اب یہ ان سے الگ ہوکر غار میں داخل ہوگیا۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر پھر نیند طاری کردی؛؛؛بادشاہ اور اس کے ساتھی اسے تلاش کرتے رہ گئے…نہ وہ ملا اور نہ ہی وہ غار انہیں نظر آیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی نظروں سے غار کو اور ان سب کو چھپادیا۔
ان کے بارے میں لوگ خیال ظاہر کرتے رہے کہ وہ سات تھے، آٹھواں ان کا کتا تھا، یا وہ نو تھے، دسواں ان کا کتا تھا۔بہرحال ان کی گنتی کا صحیح علم اللہ ہی کو ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے ارشاد فرمایا: 
’’ان کے بارے میں زیادہ بحث نہ کریں اور نہ ان کے بارے کسی سے دریافت کریں (کیونکہ ان کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے باتیں کرتے ہیں۔کوئی صحیح دلیل ان کے پاس نہیں) مشرکین کا دوسرا سوال تھا، ذوالقرنین کون تھا۔ذوالقرنین کے بارے تفصیلات یوں ملتی ہیں:
ذوالقرنین ایک نیک، خدا رسیدہ اور زبردست بادشاہ تھا۔ انہوں نے تین بڑی مہمات سر کیں، پہلی مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، یہاں انہیں ایک ایسی قوم ملی جس کے بارے میں اللہ نے انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو اس قوم کو سزا دیں، چاہیں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
ذولقرنین نے کہا :
’’ جو شخص ظالم ہے، ہم اسے سزا دیں گے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ بھی اسے سزا دیں گے، البتہ مومن بندوں کونیک بدلہ ملے گا۔‘‘
دوسری مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، وہاں انہیں ایسے لوگ ملے، جن کے مکانات کی کوئی چھت وغیرہ نہیں تھی۔ تیسری مہم میں وہ دو گھاٹیوں کے درمیان پہنچے، یہاں کے لوگ ان کی بات نہیں سمجھتے تھے۔انہوں نے اشاروں میں یا ترجمان کے ذریعے یاجوج ماجوج کی تباہ کاریوں کا شکوہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور یاجوج ماجوج کے درمیان بند بنادیں۔ ذوالقرنین نے لوہے کی چادریں منگوائیں۔ پھر ان سے ایک دیوار بنادی۔ اس میں تانبا پگھلا کر ڈالا گیا۔ اس کام کے ہونے پر ذوالقرنین نے کہا: 
’’ یہ اللہ کا فضل ہے کہ مجھ سے اتنا بڑا کام ہوگیا۔‘‘
قیامت کے قریب یاجوج ماجوج اس دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ذوالقرنین کے بارے میں مختلف وضاحتیں کتابوں میں ملتی ہیں۔ قرنین کے معنی دو سمتوں کے ہیں۔ ذوالقرنین دنیا کے دو کناروں تک پہنچے تھے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا۔ 
بعض نے قرن کے معنی سینگ کے لیے ہیں، یعنی دو سینگوں والے۔ ان کا نام سکندر تھا۔لیکن یہ یونان کے سکندر نہیں ہیں جسے سکندراعظم کہا جاتا ہے۔ یونانی سکندر کافر تھا جبکہ یہ مسلم اور ولی اللہ تھے۔ یہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ خضر علیہ السلام ان کی فوج کا جھنڈا اٹھانے والے تھے۔تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 
’’ یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہے، آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے قائم ہے۔‘‘ یعنی روح کی حقیقت اسی کے علم میں ہے، اس کے سوا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
روح کے بارے میں یہودیوں کی کتابوں میں بھی بالکل یہی بات درج تھی کہ روح اللہ کے حکم سے قائم ہے۔ اس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور اس نے اپنے سوا کسی کو نہیں دیا۔ یہودیوں نے مشرکوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے روح کے متعلق کچھ بتایا تو سمجھ لینا، وہ نبی نہیں ہیں۔ اگر صرف یہ کہا کہ روح اللہ کے حکم سے قائم ہے تو سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں۔ آپ نے بالکل یہی جواب ارشاد فرمایا۔
لگے ہاتھوں یہاں ایک واقعہ بھی سن لیں، جب مسلمانوں نے ہندوستان فتح کیا تو ہندو مذہب کا ایک عالم مسلمان عالموں سے مناظرہ کرنے کے لیے آیا۔ اس نے مطالبہ کیا: 
’’میرے مقابلے میں کسی عالم کو بھیجو، اس پر لوگوں نے امام رکن الدین کی طرف اشارہ کیا۔

حق دلوادیا

اب اس ہندوستانی نے ان سے پوچھا: 
’’ تم کس کی عبادت کرتے ہوں۔‘‘
انہوں نے جواب دیا: 
’’ ہم اس اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو سامنے نہیں ہے۔‘‘
اس پر اس ہندی عالم نے پوچھا: 
’’ تمہیں اس کی خبر کس نے دی۔ ‘‘
امام رکن الدین بولے: 
’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے۔‘‘
اس پر اس ہندی نے کہا: 
’’ تمہارے پیغمبر نے روح کے بارے میں کیا کہا ہے۔‘‘
امام بولے:
’’یہ روح میرے رب کے حکم سے قائم ہے۔‘‘
اس پر اس ہندی عالم نے کہا:
’’ تم سچ کہتے ہو۔‘‘
پھر وہ مسلمان ہوگیا۔
۔۔۔
ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ایسے میں قبیلہ زبید کا ایک شخص وہاں آیا۔اس وقت نزدیک ہی قریش مکہ بھی مجمع لگائے وہاں بیٹھے تھے۔ قبیلہ زبید کا وہ شخص ان کے نزدیک گیا اور اردگرد گھومنے لگا۔پھر اس نے کہا: 
’’اے قریش! کوئی شخص کیسے تمہارے علاقے میں داخل ہوسکتا ہے اور کوئی تاجر کیسے تمہاری سرزمین پر آسکتا ہے جبکہ تم ہر آنے والے پر ظلم کرتے ہو؟‘‘
یہ کہتے ہوئے جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے تو آپ نے اس سے فرمایا: 
’’ تم پر کس نے ظلم کیا۔‘‘
اس نے بتایا: 
’’ میں اپنے اونٹوں میں سے تین بہترین اونٹ بیچنے کے لیے لے کر آیا تھا مگر ابوجہل نے یہاں ان تینوں اونٹوں کی اصل قیمت سے صرف ایک تہائی قیمت لگائی۔اور ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا، کیونکہ وہ جانتا ہے وہ اپنی قوم کا سردار ہے۔ اس کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ رقم کوئی نہیں لگائے گا، مطلب یہ کہ اب مجھے وہ اونٹ اس قدر کم قیمت پر فروخت کرنے پڑیں گے، یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ میرا تجارت کا یہ سفر بے کار جائے گا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پوری بات سن کر فرمایا: 
’’ تمہارے اونٹ کہاں ہیں۔‘‘
اس نے بتایا: 
’’ یہیں خزورہ کے مقام پر ہیں۔‘‘
آپ اسی وقت اٹھے،اپنے صحابہ کو ساتھ لیا، اونٹوں کے پاس پہنچے۔ آپ نے دیکھا،اونٹ واقعی بہت عمدہ تھے۔ آپ نے اس سے ان کا بھاؤ کیا اور آخر خوش دلی سے سودا طے ہوگیا۔ آپ نے وہ اونٹ اس سے خریدلیے۔ پھر آپ نے ان میں سے دو زیادہ عمدہ فروخت کردیے اور ان کی قیمت بیوہ عورتوں میں تقسیم فرمادی۔ وہیں بازار میں ابوجہل بیٹھا تھا۔اس نے یہ سودا ہوتے دیکھا، لیکن ایک لفظ بول نہ سکا۔ آپ اس کے پاس آئے اور فرمایا: 
’’ خبردار عمرو! (ابوجہل کا نام)اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی تو بہت سختی سے پیش آؤں گا۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ خوف زدہ انداز میں بولا: 
’’ محمد! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا…میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘
اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹ آئے۔ادھر راستے میں امیہ بن خلف ابوجہل سے ملا۔ اس کے ساتھ دوسرے ساتھی بھی تھے۔ان لوگوں نے ابوجہل سے پوچھا: 
’’تم تو محمد کے ہاتھوں بہت رسوا ہوکر آرہے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا تم ان سے خوف زدہ ہوگئے ہو۔‘‘
اس پر ابوجہل نے کہا: 
’’ میں ہرگز محمد کی پیروی نہیں کرسکتا، میری جو کمزوری تم نے دیکھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو دیکھا تو ان کے دائیں بائیں بہت سارے آدمی نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور بھالے تھے اور وہ ان کو میری طرف لہرا رہے تھے۔اگر میں اس وقت ان کی بات نہ مانتا تو وہ سب لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑتے۔‘‘
ابوجہل ایک یتیم کا سرپرست بنا، پھر اس کا سارا مال غصب کرکے اسے نکال باہر کیا۔ وہ یتیم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوجہل کے خلاف فریاد لے کر آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس یتیم کو لیے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ آپ نے اس سے فرمایا:
’’اس یتیم کا مال واپس کردو۔‘‘
ابوجہل نے فوراً مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔مشرکین کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت حیران ہوئے،انہوں نے ابوجہل سے کہا:
’’کیا بات ہے؟ تم اس قدر بزدل کب سے ہوگئے کہ فوراً ہی مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔‘‘
اس پر اس نے کہا:
’’تمہیں نہیں معلوم محمد کے دائیں بائیں مجھے بہت خوف ناک ہتھیار نظر آئے۔میں ان سے ڈر گیا۔اگر میں اس یتیم کا مال نہ لوٹاتا تو وہ ان ہتھیاروں سے مجھے مار ڈالتے۔‘‘
قبیلہ خثعم کی یاک شاخ اراشہ تھی۔اس کے ایک شخص سے ابوجہل نے کچھ اونٹ خریدے ،لیکن قیمت ادا نہ کی۔اس نے قریش کے لوگوں سے فریاد کی۔ان لوگوں نے حضور نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑانے کا پروگرام بنا لیا۔انہوں نے اس اراشی سے کہا:
’’تم محمد کے پاس جا کر فریاد کرو۔‘‘
ایسا انہوں نے اس لیے کہا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ ابوجہل کا کچھ نہیں بگار سکتے۔
اراشی حضور ﷺ کے پاس گیا۔آپ نے فوراًاسے ساتھ لیا اور ابوجہل کے مکان پر پہنچ گئے۔اس کے دروازے پر دستک دی۔ابوجہل نے اندر سے پوچھا:
’’کون ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’محمد!‘‘
ابوجہل فوراً باہر نکل آیا۔آپ کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔آپ نے اس سے فرمایا:
’’ اس شخص کا حق فوراً ادا کردو۔‘‘
اس نے کہا: 
’’ بہت اچھا! ابھی لایا۔‘‘
اس نے اسی وقت اس کا حق ادا کردیا۔اب وہ شخص واپس اسی قریشی مجلس میں آیا اور ان سے بولا: 
’’ اللہ تعالیٰ ان(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم)کو جزائے خیر دے۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میرا حق مجھے دلوادیا۔‘‘
مشرک لوگوں نے بھی اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے بھیجا تھا اور اس سے کہا تھا کہ وہ دیکھتا رہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں، چنانچہ جب وہ واپس آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا: 
’’ ہاں! تم نے کیا دیکھا؟ ‘‘
جواب میں اس نے کہا: 
’’ میں نے ایک بہت ہی عجیب اور حیرت ناک بات دیکھی ہے۔‘‘

مشرکین کی گستاخیاں

’’اللہ کی قسم! محمد نے جیسے ہی اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ فوراً اس حالت میں باہر نکل آیا گویا اس کا چہرہ بالکل بے جان اور زرد ہورہا تھا۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو، وہ بولا، بہت اچھا۔ یہ کہہ کر وہ اندر گیا اور اسی وقت اس کا حق لاکردے دیا۔‘‘
قریشی سردار یہ سارا واقعہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ اب انہوں نے ابوجہل سے کہا: 
’’تمہیں شرم نہیں آتی، جو حرکت تم نے کی، ایسی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’تمہیں کیا پتا، جونہی محمد نے میرے دروازے پر دستک دی اور میں نے ان کی آواز سنی تو میرا دل خوف اور دہشت سے بھر گیا۔ پھر میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت قدآور اونٹ میرے سر پر کھڑا ہے، میں نے آج تک اتنا بڑا اونٹ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر میں ان کی بات ماننے سے انکار کردیتا تو وہ اونٹ مجھے کھالیتا۔‘‘
کچھ مشرک ایسے بھی تھے جو مستقل طور پر آپ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ:’’ یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو معبود قرار دیتے ہیں، ان سے آپ کے لئے ہم کافی ہیں۔‘‘ (سورۃ الحجر، آیت:95)۔
ان مذاق اڑانے والوں میں ابوجہل، ابولہب، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ (جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چچا تھا) اور عاص بن وائل شامل تھے۔
ابولہب کی حرکات میں سے ایک حرکت یہ تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی پھینک جایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ یہی حرکت کرکے جارہا تھا کہ اسے اس کے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے وہ گندگی اٹھاکر فوراً ابولہب کے سر پر ڈال دی۔
اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی ڈال جایا کرتا تھا۔ عقبہ نے ایک روز آپ کے چہرہ مبارک کی طرف تھوکا، وہ تھوک لوٹ کر اسی کے چہرے پر آپڑا۔ جس حصے پر وہ تھوک گرا، وہاں کوڑھ جیسا نشان بن گیا۔
ایک مرتبہ عقبہ بن ابی معیط سفر سے واپس آیا تو اس نے ایک بڑی دعوت دی۔ تمام قریشی سرداروں کو کھانے پر بلایا۔ اس موقعے پر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلایا مگر جب کھانا مہمانوں کے سامنے چنا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کردیا اور فرمایا:
’’میں اس وقت تک تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک کہ تم یہ نہ کہو، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
چوں کہ مہمان نوازی عرب کے لوگوں کی خاص علامت تھی اور وہ مہمان کو کسی قیمت پر ناراض نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے عقبہ نے کہہ دیا: 
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھالیا۔ کھانے کے بعد سب لوگ اپنے گھر چلے گئے۔ عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف کا دوست تھا۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ عقبہ نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ ابی بن خلف اس کے پاس آیا اور بولا: 
’’عقبہ! کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’خدا کی قسم! میں بے دین نہیں ہوا (یعنی مسلمان نہیں ہوا ہوں)۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک معزز آدمی میرے گھر آیا اور اس نے یہ کہہ دیا کہ میں جب تک اس کے کہنے کے مطابق توحید کی گواہی نہیں دوں گا، وہ میرے ہاں کھانا نہیں کھائے گا، مجھے اس بات سے شرم آئی کہ ایک شخص میرے گھر آئے اور کھانا کھائے بغیر چلا جائے۔ اس لئے میں نے وہ الفاظ کہہ دیے اور اس نے کھانا کھالیا، لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے وہ کلمہ دل سے نہیں کہا تھا۔‘‘
یہ بات سن کر ابی بن خلف کا اطمینان نہ ہوا، اس نے کہا:
’’میں اس وقت تک نہ اپنی شکل تمہیں دکھاؤں گا، نہ تمہاری شکل دیکھوں گا جب تک کہ تم محمد کا منہ نہ چڑاؤ، ان کے منہ پر نہ تھوکو اور ان کے منہ پر نہ مارو۔‘‘
یہ سن کر عقبہ نے کہا: 
’’یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘
اس کے بعد جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بدبخت کے سامنے آئے، اس نے آپ کا منہ چڑایا، آپ کے چہرہ مبارک پر تھوکا، لیکن اس کا تھوک آپ کے چہرہ مبارک تک نہ پہنچا بلکہ خود اس کے منہ پر آکر گرا۔ اس نے محسوس کیا، گویا آگ کا کوئی انگارہ اس کے چہرے پر آگیا ہے۔ اس کے چہرے پر جلنے کا نشان باقی رہ گیا اور مرتے دم تک رہا۔ 
اسی عقبہ بن معیط کے بارے میں سورہ فرقان کی آیت 37 نازل ہوئی: 
ترجمہ:’’ جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا اور کہے گا، کیا ہی اچھا ہوتا، میں رسول کے ساتھ دین کی راہ پر لگ جاتا۔‘‘ 
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: 
’’جس روز ظالم آدمی جہنم میں کہنی تک اپنا ایک ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، پھر دوسرے ہاتھ کو کاٹ کر کھائے گا، جب دوسرا کھاچکے گا تو پہلا پھر اُگ آئے گا اور وہ اس کو کاٹنے لگے گا۔ غرض اسی طرح کرتا رہے گا۔‘‘
اسی طرح حکم بن عاص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسخرہ پن کرتا تھا۔ ایک روز آپ ﷺچلے جارہے تھے۔ یہ آپ کے پیچھے چل پڑا۔ آپ کا مذاق اڑانے کے لئے منہ اور ناک سے طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگا۔ آپ چلتے چلتے اس کی طرف مڑے اور فرمایا:
’’تو ایسا ہی ہوجا۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد یہ ایسا ہوگیا تھا کہ اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہتی تھیں۔ ایک ماہ تک یہ بے ہوشی کی حالت میں رہا۔ اس کے بعد مرنے تک اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہیں۔ 
اسی طرح عاص بن وائل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا:
’’محمد! اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو (نعوذ باللہ) یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، خدا کی قسم ہماری موت صرف زمانے کی گردش اور وقت کے گزرنے کی وجہ سے آتی ہے۔‘‘
اسی عاص بن وائل کا ایک واقعہ اور ہے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مکہ میں لوہار کا کام کرتے تھے، تلواریں بناتے تھے۔ انہوں نے عاص بن وائل کو کچھ تلواریں فروخت کی تھیں، ان کی اس نے ابھی قیمت ادا نہیں کی تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اس سے قیمت کا تقاضا کرنے کے لئے گئے تو اس نے کہا:
’’خباب! تم محمد کے دین پر چلتے ہو، کیا وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ جنت والوں کو سونا، چاندی، قیمتی کپڑے، خدمت گار اور اولاد مرضی کے مطابق ملے گی؟‘‘
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بولے: 
’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘
اب عاص نے ان سے کہا:
’’میں اس وقت تک تمہارا قرض نہیں دوں گا جب تک کہ تم محمد کے دین کا انکار نہیں کروگے۔‘‘

مذاق اڑانے والے

جواب میں حضرت خباب بن ارتؓ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم میں محمدﷺ کا دین نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
اسی طرح ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک اسود بن یغوث بھی تھا۔ یہ حضورﷺ کا ماموں زاد تھا۔ جب بھی مسلمانوں کو دیکھتا تو اپنے ساتھیوں سے کہتا:
’’دیکھو!تمہارے سامنے روئے زمین کے وہ بادشاہ آرہے ہیں جو کسریٰ اور قیصر کے وارث بننے والے ہیں۔‘‘
یہ بات وہ اس لئے کہتا تھا کیونکہ صحابہؓ میں سے اکثر کے لباس پھٹے پرانے ہوتے تھے،وہ مفلس اور نادار تھے اور آپﷺ یہ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ مجھے ایران اور روم کی سلطنتوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔
اسود آپﷺ سے یہ بھی کہا کرتا تھا:
’’محمد! آج تم نے آسمانوں کی باتیں نہیں سنائیں،آج آسمان کی کیا خبریں ہیں۔‘‘
یہ اور اس کے ساتھی جب آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کو دیکھتے تو سیٹیاں بجاتے تھے،آنکھیں مٹکاتے تھے۔
اسی قسم کا ایک آدمی نضر بن حارث تھا۔ یہ بھی آپﷺ کا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔
ان میں سے اکثر لوگ ہجرت سے پہلے ہی مختلف آفتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوئے۔
ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ بھی تھا۔ یہ ابو جہل کا چچا تھا۔قریش کے دولت مند لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔حج کے زمانے میں تمام حاجیوں کو کھانا کھلاتا تھا، کسی کو چولہا نہیں جلانے دیتا تھا،لوگ اس کی بہت تعریف کرتے تھے، اس کے قصیدے پڑھتے تھے، اس کے بہت سے باغات تھے۔ایک باغ تو ایسا تھا جس میں تمام سال پھل لگتا تھا،لیکن اس نے آپﷺ کو اس قدر تکالیف پہنچائیں کہ آپﷺ نے اس کے لئے بددعا فرما دی۔ اس کے بعد اس کا تمام مال ختم ہو گیا،باغات تباہ ہو گئے، پھر حج کے دنوں میں کوئی اس کا نام لینے والا بھی نہ رہا۔
ایک روز جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لائے،اس وقت آپﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، جبرائیل علیہ السلام نے آ کر عرض کیا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپﷺ کو مذاق اڑانے والوں سے نجات دلاؤں۔‘‘
ایسے میں ولید بن مغیرہ ادھر سے گزرا۔جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ سے پوچھا:
آپﷺ اسے کیسا سمجھتے ہیں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا
اللہ تعالیٰ کا برا بندہ ہے۔‘‘
یہ سن کر جبرائیل علیہ السلام نے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا اور بولے:
’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔‘‘
پھر عاص بن وائل سامنے سے گزرا تو جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا:
’’اسے آپﷺ کیسا آدمی پاتے ہیں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’یہ بھی ایک برا بندہ ہے۔‘‘
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیر کی طرف اشارہ کیا اور پھر بولے:
’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیاہے۔‘‘
اس کے بعد اسود وہاں سے گزرا۔ اس کے بارے میں آپﷺ نے یہی فرمایا کہ برا آدمی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور بولے:
’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
پھر حارث بن عیطلہ گزرا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا:
’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
اس واقعے کے بعد اسود بن یغوث اپنے گھر سے نکلا تو اس کو لو کے تھپیڑوں نے جھلسا دیا۔ اس کا چہرہ جل کر بالکل سیاہ ہو گیا۔ جب یہ واپس اپنے گھر میں داخل ہوا تو گھر کے لوگ اسے پہچان نہ سکے۔ انہوں نے اسے گھر سے نکال دیااور دروازہ بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ زبردست پیاس میں مبتلا ہو گیا، مسلسل پانی پیتا رہتا تھا،یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا۔
حارث بن عیطلہ کے ساتھ یہ ہوا کہ اس نے ایک نمکین مچھلی کھا لی، اس کے بعد اسے شدید پیاس نے آلیا۔یہ پانی پیتا رہا، یہاں تک کہ اس کا بھی پیٹ پھٹ گیا۔
ولید بن مغیرہ ایک روز ایک شخص کے پاس سے گزرا۔ وہ شخص تیر بنا رہا تھا۔ اتفاق سے ایک تیر اس کے کپڑوں میں الجھ گیا۔ولید نے تکبر کی وجہ سے جھک کر اس کا تیر نکالنے کی کوشش نہ کی اور آگے بڑھنے لگا تو
وہ تیر اس کی پنڈلی میں چبھ گیا۔ اس کی وجہ سے زہر پھیل گیا اور وہ مر گیا۔
عاص بن وائل کے تلوے میں ایک کانٹا چبھا۔ اس کی وجہ سے اس کے پیر پر اتنا ورم آگیا کہ وہ چکی کے پاٹ کی طرح چپٹا ہو گیا۔ اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق یہ لوگ ایک ہی رات میں ہلاک ہوئے تھے۔
نبی کریمﷺ نے محسوس فرمایا کہ قریش مکہ مسلمانوں کو بے تحاشا تکالیف پہنچا رہے ہیں اور مسلمانوں میں ابھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ سکیں، چنانچہ آپﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا:
’’تم لوگ روئے زمین پر ادھر ادھر پھل جاؤ،اللہ تعالی پھر تمہیں ایک جگہ جمع فرما دے گا۔‘‘
’’ہم کہاں جائیں؟ ‘‘صحابہ کرامؓ نے پوچھا۔
آپﷺ نے ملک حبشہ کی طرف اشار ہ کر تے ہوئے فرمایا:
’’تم لوگ ملک حبشہ کی طرف چلے جاؤ، اس لئے کہ وہاں کا باشاہ نیک ہے۔ وہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا، وہ سچائی کی سر زمیں ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ان مصیبتوں کا خاتمہ کر کے تمہارے لئے آسانیاں پیدا کر دے۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بچانے کے لئے ادھر سے ادھر کہیں گیا، چاہے وہ ایک بالشت ہی چلا اس کے لئے جنت واجب کر دی جاتی ہے۔
چنانچہ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمان اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے وطن سے ہجرت کر گئے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کی اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے تنہا ہجرت کی۔ جن لوگوں نے بیوی بچوں سمیت ہجرت کی،ان میں حضرت عثمان غنیؓ بھی تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی یعنی آپﷺ کی صاحب زادی حضرت رقیہؓ بھی ہجرت کر گئیں۔
حضرت عثمان غنیؓ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے شخص ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لاتے ہیں

اسی طرح حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت عامر ابن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔جن صحابہ نے تنہا ہجرت کی، ان کے نام یہ ہیں۔حضرت عبد الرحمن ابن عوف، حضرت عثمان ابن مظعون، حضرت سہیل ابن بیضاء، حضرت زبیر ابن العوام اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم۔
کفار کو جب ان کی ہجرت کا پتا چلا تو وہ تعاقب میں دوڑے، لیکن اس وقت تک یہ حضرات بحری جہاز پر سوار ہو چکے تھے۔ وہ جہاز تاجروں کے تھے، اس طرح یہ حضرات حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے ایک غلط خبر سنی، وہ یہ تھی کہ تمام قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد حبشہ کے بہت سے مہاجرین مکہ روانہ ہوئے۔نزدیک پہنچ کر پتا چلا کہ اطلاع غلط تھی۔اب انہوں نے حبشہ جانا مناسب نہ سمجھااور کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں داخل ہو گئے۔
پناہ حاصل کرنے والے ان مہاجرین نے جب اپنے مسلمان بھائیوں پر اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم دیکھا تو انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ ہم پناہ کی وجہ سے اس ظلم سے محفوظ رہیں۔لہٰذا انہوں نے اپنی اپنی پناہ لوٹا دی اور کہا کہ ہم بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا سامنا کریں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک اسلام دشمنی پر کمر باندھے ہوئے تھے۔ ایک روز وہ مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک قریشی شخص سے ہوئی۔ ان کا نام حضرت نعیم ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ تھا۔ یہ اس وقت تک اپنی قوم کے خوف سے اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ یہ پریشان ہو گئے، ان سے پوچھا کہ کیا ارادے ہیں، وہ بولے:
’’محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
یہ سن کر حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلال میں آ گئے۔بہن کے گھر کا رخ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن کا نام فاطمہ تھا، ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ تھے، یہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ ادھر خود حضرت سعید کی بہن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
بہن کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دستک دی۔اندر سے پوچھا گیا:’’کون ہے۔‘‘
انہوں نے اپنا نام بتایا تو اندر یک لخت خاموشی چھا گئی۔
اندر اس وقت حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن پڑھا رہے تھے۔انہوں نے فوراً قرآن کے اوراق چھپا دیے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
’’اے اپنی جان کی دشمن میں نے سنا ہے تو بے دین ہو گئی ہے۔‘‘
ساتھ ہی انہوں نے انہیں مارا۔ان کے جسم سے خون بہنے لگا۔خون کو دیکھ کر بولیں:
’’عمر، تم کچھ بھی کر لو، میں مسلمان ہو چکی ہوں۔‘‘
اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
’’یہ کون سی کتاب تم پڑھ رہے تھے، مجھے دکھاؤ۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں:
’’یہ کتاب تمہارے ہاتھ میں ہر گز نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ تم ناپاک ہو، پہلے غسل کر لو، پھر دکھائی جا سکتی ہے۔‘‘
آخر انہوں نے غسل کیا، پھر قرآن مجید کے اوراق دیکھے۔ جیسے ہی ان کی نظر بسم اللہ الرحمن الرحیم پر پڑی، ان پر ہیبت طاری ہو گئی۔آگے سورہ طہٰ تھی، اس کی ابتدائی آیات پڑھ کر تو ان کی حالت غیر ہو گئی،بولے:
’’مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس لے چلو۔‘‘
حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے، ان کے الفاظ سن کر سامنے آ گئے، بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مارا پیٹا تھا، اس کا مطلب ہے صرف حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ چھپے ہوئے تھے۔
بہرحال اس موقع پر وہ سامنے آ گئے اور بولے:
’’اے عمر، تمہیں بشارت ہو، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ، دو آدمیوں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما، یا تو عمرو ابن ہشام (ابو جہل) کے ذریعے یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعے۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا تھا:
’’ان دونوں میں سے جو تجھے محبوب ہو، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا بدھ کے روز مانگی تھی ۔ جمعرات کے روز یہ واقعہ پیش آیا۔ حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما انہیں دار ارقم لے گئے۔
دروازے پر دستک دی گئی۔ اندر سے پوچھا گیا۔کون ہے؟انہوں نے کہا۔عمر ابن خطاب۔یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بتائی گئی کہ دروازے پر عمر بن خطاب ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا:
’’دروازہ کھول دو، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے تو ہدایت پا لے گا۔‘‘
دروازہ کھولا گیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی، پھر دو صحابہ نے انہیں دائیں بائیں سے پکڑ کر آپ کی خدمت میں پہنچایا۔آپ نے فرمایا:
’’انہیں چھوڑ دو۔‘‘
انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کرتے کا دامن پکڑ کر انہیں اپنی طرف کھینچا اور فرمایا:
’’اے ابن خطاب!اللہ کے لیے ہدایت کا راستہ اختیار کرو۔‘‘
انہوں نے فوراً کہا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
ان کے یہ الفاظ سنتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے خوشی سے بے تاب ہو کر اس قدر زور سے تکبیر کہی، مکہ کے گوشے گوشے تک یہ آواز پہنچ گئی۔آپ نے تین بار ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا :
’’اے اللہ، عمر کے دل میں جو میل ہے، اس کو نکال دے، اور اس کی جگہ ایمان بھر دے۔‘‘
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ قریش کے پاس پہنچے، انہیں بتایا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔قریش ان کے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے:
’’لو عمر بھی بے دین ہو گیا ہے۔‘‘
عتبہ بن ربیعہ آپ پر جھپٹا، لیکن آپ نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا، پھر کسی کو ان کی طرف بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا:
’’اللہ کی قسم، آج کے بعد مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت چھپ کر نہیں کریں گے۔‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے ساتھ دار ارقم سے نکلے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار ہاتھ میں لیے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہتے جا رہے تھے:
’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
یہاں تک کہ سب حرم میں داخل ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قریش سے فرمایا:
’’تم میں سے جس نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی، میری تلوار اس کا فیصلہ کرے گی۔‘‘

نجاشی کے دربار میں

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام مسلمانوں نے کعبہ کا طواف شروع کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آگے آگے رہے۔مسلمانوں نے کعبہ کے گرد نماز ادا کی۔سب نے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی کی۔جبکہ اس سے پہلے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تھے۔
اب تمام قریش نے مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خاندان والوں سے کہا:
’’تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمہیں فائدہ پہنچ جائے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے غصے میں آکر یہ طے کیا کہ تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے طے کیا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ کوئی چیز نہ خرید سکیں۔ان سے شادی بیاہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے لیے کوئی صلح قبول کی جائے۔ان کے معاملے میں کوئی نرم دلی نہ اختیار کی جائیں،یعنی ان پر کچھ بھی گزرے، ان کے لیے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہونے دیا جائے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ بنی ہاشم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے قریش کے حوالے نہ کردیں ۔
قریش نے اس معاہدے کی باقاعدہ تحریری لکھی، اس پر پوری طرح عمل کرانے اور اس کا احترام کرانے کے لیے اس کو کعبے میں لٹکادیا ۔
اس معاہدے کے بعد ابولہب کو چھوڑ کر تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی طالب میں چلے گئے، یہ مکہ سے باہر ایک گھاٹی تھی۔ ابولہب چونکہ قریش کا پکا طرف دار تھا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بھی تھا، اس لیے اسے گھاٹی میں جانے پر مجبور نہ کیا گیا ۔ یوں بھی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے میں قریش کا ساتھ دیا تھا، ان کی مخالفت نہیں کی تھی ۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی ۔ بخاری میں ہے کہ اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بہت مشکل اور سخت وقت گزارا ۔ قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی ۔ سب لوگ بھوک سے بے حال رہتے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے گھاس پھوس اور درختوں کے پتے کھاکر یہ دن گزارے ۔ 
جب بھی مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آتا تو یہ مجبور اور بیکس حضرات وہاں پہنچ جاتے تاکہ ان سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں لیکن ساتھ ہی ابولہب وہاں پہنچ جاتا اور کہتا:
’’لوگو! محمد کے ساتھی اگر تم سے کچھ خریدنا چاہیں تو اس چیز کے دام اس قدر بڑھا دو کہ یہ تم سے کچھ خرید نہ سکیں، تم لوگ میری حیثیت اور ذمے داری کو اچھی طرح جانتے ہو ۔‘‘ 
چنانچہ وہ تاجر اپنے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاتے اوریہ حضرات ناکام ہوکر گھاٹی میں لوٹ آتے ۔ وہاں اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا تڑپتا دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ادھر بچے انہیں خالی ہاتھ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگتے۔ابولہب ان تاجروں سے سارا مال خود خرید لیتا۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خاندان کے لوگ قریش کے اس معاہدے کے بعد حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود اس گھاٹی میں چلے آئے تھے۔یہ بات نہیں کہ قریش مکہ نے انہیں گرفتار کرکے وہاں قید کردیاتھا۔
اس بائیکاٹ کے دوران بہت سے مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی۔اس ہجرت میں اڑتیس مردوں اور بارہ عورتوں نے حصہ لیا۔ان لوگوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ ان میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبیداللہ بن جحش اور اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا بھی تھے۔یہ عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر اسلام سے پھرگیاتھا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کرلیاتھا۔اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔اس کی بیوی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اسلام پر رہیں۔ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا۔
ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے۔بادشاہ کے علاوہ انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے…تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا۔اب انہوں نے بادشاہ سے کہا: 
’’ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ ۔اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔‘‘
یہ سن کر نجاشی نے کہا: 
’’ وہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا: 
’’ آپ ہی کے ہاں ہیں۔‘‘
نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا: 
’’ آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا: 
’’ پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں۔‘‘
اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: 
’’ نجاشی سے میں بات کروں گا۔‘‘
ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔
مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا: 
’’ کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ ‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فوراً بولے: 
’’ ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں…اور ہمیں حکم دیا کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔‘‘
نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔

یہ تووہی کلام ہے

اس کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
اس وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:
’’یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسیٰ علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔‘‘
اس پر نجاشی نے پوچھا:
’’تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
پھر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی:
’’اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں،ہم انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، روزے رکھیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔‘‘
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا:
’’کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟‘‘
’’ہاں! موجود ہے۔‘‘ جواب میں حضرت جعفر بولے۔
’’وہ مجھے پڑھ کر سنائیں۔‘‘نجاشی بولا۔
اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا:
’’ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔‘‘
اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں۔تب نجاشی نے کہا: 
’’اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لیکر آئے تھے۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘
اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب میں مقیم تھے۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کے سال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہیں بچا، آنحضرت صلی اللہﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی، ابوطالب فوراً گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا:
’’تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے اور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد صلی اللہعلیہ وسلم کوتمہارے حوالے نہیں کریں گے۔‘‘ 
یہ سن کر قریش نے کہا: 
’’ہمیں تمہاری بات منظور ہے…ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی۔صرف اللہ کا نام باقی تھا۔اس طرح مشرک اس معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔
معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا: 
’’ آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔‘‘
اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔
اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ 
ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔

غم کا سال

جب نجران کے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرچکے تو آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ قرآن کریم کی کچھ آیات پڑھ کر سنائیں۔ آیات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کے دلوں نے اس کلام کی سچائی کی گواہی دے دی۔چنانچہ فوراً ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ ان لوگوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور خبریں پڑھ رکھی تھیں۔ اس لیے آپ کو دیکھ کر پہچان گئے کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔
اس کے بعد یہ لوگ اٹھ کر جانے لگے تو ابوجہل اور چند دوسرے قریشی سرداروں نے انہیں روکا اور کہا: 
’’ خدا تمہیں رسوا کرے، تمہیں بھیجا تو اس لیے گیا تھا کہ تم یہاں اس شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرکے انہیں بتاؤ مگر تم اس کے پاس بیٹھ کر اپنا دین ہی چھوڑ بیٹھے…تم سے زیادہ احمق اور بے عقل قافلہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔‘‘
اس پر نجران کے لوگوں نے کہا: 
’’ تم لوگوں کو ہمارا سلام ہے…ہم سے تمہیں کیا واسطہ، تم اپنے کام سے کام رکھو،ہمیں اپنی مرضی سے کام کرنے دو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں ان کی تعریف بیان فرمائی۔ اسی طرح قبیلہ اَزد کے ایک شخص جن کا نام ضماد تھا مکہ آئے۔ یہ صاحب جھاڑ پھونک سے جنات کا اثر زائل کیا کرتے تھے۔ مکہ کے لوگوں کو انہوں نے یہ کہتے سنا کہ محمد پر جن کا اثر ہے۔ یہ سن کر انہوں نے کہا: 
’’ اگر میں اس شخص کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمادے۔‘‘
اس کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کا بیان ہے،میں نے آپ سے کہا: 
’’ اے محمد! میں جھاڑ پھونک سے علاج کرتا ہوں، لوگ کہتے ہے کہ آپ پر جنات کا اثر ہے۔اگر بات یہی ہے تو میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں۔‘‘
ان کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتاہے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی نصیب کرتا ہے،اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا: 
’’ یہ کلمات میرے سامنے دوبارہ پڑھیے۔‘‘
آپ نے کلمہ شہادت تین مرتبہ دہرایا۔تب انہوں نے کہا: 
’’ میں نے کاہنوں کے کلمات سنے ہیں۔جادوگروں اور شاعروں کے کلمات بھی سنے ہیں۔مگر آپ کے ان کلمات جیسے کلمات کبھی نہیں سنے۔ اپنا ہاتھ لایئے،میں اسلام قبول کرتا ہوں۔‘‘
چنانچہ ضماد رضی اللہ عنہ نے اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔آپ نے فرمایا: 
’’ اپنی قوم کے لیے بھی بیعت کرتے ہو۔‘‘
جواب میں انہوں نے کہا: 
’’ہاں! میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔‘‘
اس طرح یہ صاحب جو آپ پر سے جنات کا اثر اتارنے کی نیت سے آئے تھے، خود مسلمان ہوگئے۔ ایسے اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو دس سال کا عرصہ گذر چکا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال کرگئیں۔اس سے چند دن پہلے ابوطالب فوت ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو حجون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے،انتقال کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 65 سال تھی۔ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں ہوا تھا۔ اس سال کو سیرت نگاروں نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔ کیونکہ ہر موقعے پر ساتھ دینے والی دو ہستیاں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آپ ہر وقت غمگین رہنے لگے،گھر سے بھی کم نکلتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شادی کے بعد پچیس سال تک آپ کے ساتھ رہیں۔اتنی طویل مدت تک آپ کا اور ان کا ساتھ رہا تھا۔
ابوطالب جب بیمار ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے آئے۔
اس وقت قریش کے سردار بھی وہاں موجود تھے۔آپ نے چچا سے فرمایا: 
’’ چچا! لا اللہ الا اللہ پڑھ لیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کی شفاعت کرسکوں۔‘‘
اس پر ابوطالب نے کہا: 
’’ خدا کی قسم بھتیجے! اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میرے بعد لوگ تمہیں اور تمہارے خاندان والوں کو شرم اور عار دلائیں گے اور قریش یہ کہیں گے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ کہہ دیاتو میں یہ کلمہ پڑھ کر ضرور تمہارا دل ٹھنڈا کرتا۔ میں جانتا ہوں، تمہاری یہ کتنی خواہش ہے کہ میں یہ کلمہ پڑھ لوں…مگر میں اپنے بزرگوں کے دین پر مرتا ہوں۔‘‘
اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ جسے اللہ چاہے، ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کاعلم بھی اسی کو ہے۔‘‘(سورۃ القصص: آیات 56)
اس طرح ابوطالب مرتے دم تک کافر ہی رہے، کفر پر ہی مرے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’ اے اللہ کے رسول! ابوطالب ہمیشہ آپ کی مدد اور حمایت کرتے رہے، کیا اس سے انہیں آخرت میں فائدہ پہنچے گا۔‘‘
جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ہاں!مجھے ان کی قیامت کے دن کی حالت دکھائی گئی۔ میں نے انہیں جہنم کے اوپر والے حصے میں پایا، ورنہ وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔‘‘(بخاری مسلم)
ابوطالب کے مرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’ خدا کی قسم! میں اس وقت تک آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا، جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی اس سے نہ روک دے۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: 
’’ پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔اگرچہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں،اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘(سورۃ التوبہ۔آیت ۱۱۳)
اس سے بھی ثابت ہوا کہ ابوطالب ایمان پر نہیں مرے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات کے چند ماہ بعد آپ نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی۔آپ سے پہلے ان کی شادی ان کے چچا کے بیٹے سکران رضی اللہعنہ سے ہوئی تھی۔ حضرت سکران رضی اللہ عنہ دوسری ہجرت کے حکم کے وقت ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ پھر مکہ واپس آگئے تھے۔اس کے کچھ عرصہ ہی بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی عدت کا زمانہ پورا ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔ 
اس نکاح سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہانے ایک عجیب خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر سکران رضی اللہ عنہ سے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کر سکران رضی اللہ عنہ نے کہا: 
’’ اگر تم نے واقعی یہ خواب دیکھا ہے تو میں جلد ہی مرجاؤں گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے۔‘‘
دوسری رات انہوں نے پھر خواب دیکھا کہ وہ لیٹی ہوئی ہے، اچانک چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کے پاس آگیا۔ انہوں نے یہ خواب بھی اپنے شوہر کو سنایا، وہ یہ خواب سن کر بولے: 
’’ اب شاید میں بہت جلد فوت ہوجاؤں گا۔‘‘
اور اسی دن حضرت سکران رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے۔ شوال کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

طائف کا سفر

ابو طالب کے انتقال کے بعد قریش کھل کر سامنے آ گئے۔ ایک روز انہوں نے آپ کو پکڑ لیا، ہر شخص آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگا…اور کہنے لگا:
’’یہ تو وہی ہے جس نے ہمارے اتنے سارے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا۔‘‘
ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تڑپ کر یک دم آگے آگئے۔ اس بھیڑ میں گھس گئے۔ کسی کو انہوں نے مار کر ہٹایا،کسی کو دھکا دیا، وہ ان لوگوں کو آپ سے ہٹاتے جاتے اور کہتے جاتے تھے:
’’کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے۔‘‘
اس پر وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگئے۔ ہوش آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت معلوم کی، پتا چلا کہ خیریت سے ہیں تو اپنی تکلیف کو بھول گئے۔
شوال۰ ۱ نبوی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ اس سفر میں صرف آپ کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔ طائف میں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا۔ آپ یہ اندازہ کرنے کے لئے طائف تشریف لے گئے کہ قبیلہ ثقیف کے دلوں میں بھی اسلام کے لیے کچھ گنجائش ہے یا نہیں۔ آپ یہ امید بھی لے کر گئے تھے کہ ممکن ہے، یہ لوگ مسلمان ہو جائیں اور آپ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔
طائف پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے اس قبیلے کے سرداروں کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ یہ تین بھائی تھے۔ ایک کا نام عبدیالیل تھا۔ دوسرے کا نام مسعود تھا۔ تیسرے کا نام حبیب تھا۔ ان تینوں کے بارے میں پوری طرح وضاحت نہیں ملتی کہ یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے یا نہیں۔
بہر حال! آپ نے ان تینوں سے ملاقات کی۔ اپنے آنے کا مقصد بتایا،اسلام کے بارے میں بتایا، انہیں اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ مخالفوں کے مقابلے میں ساتھ دینے کی دعوت دی۔ ان میں سے ایک نے کہا:
’’کیا وہ تم ہی ہو جسے خدا نے بھیجا ہے؟‘‘ ساتھ ہی دوسرے نے کہا:
’’ تمہارے علاوہ خدا کو رسول بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا تھا؟‘‘اس کے ساتھ ہی تیسرا بول اٹھا:
’’خدا کی قسم! میں تم سے کوئی بات چیت نہیں کروں گا، کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو تمہارے ساتھ بات چیت کرنا بہت خطرناک ہے(یہ اس نے اس لیے کہا تھا کی وہ لوگ جانتے تھے، کسی نبی کے ساتھ بحث کرنا بہت خطرناک ہے) اور اگر تم نبی نہیں ہو تو تم جیسے آدمی سے بات کرنا زیب نہیں دیتا۔‘‘
آپ ان سے مایوس ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ان تینوں نے اپنے یہاں کے اوباش لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ راستے میں بھی دونوں طرف لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جب آپ ان کے درمیان سے گزرے تو وہ بد بخت ترین لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسانے لگے۔ یہاں تک کہ آپ جو قدم اٹھاتے،وہ اس پر پتھر مارتے۔ آپ کے دونوں پاؤں لہولہان ہو گئے۔ آپ کے جوتے خون سے بھر گئے۔ جب چاروں طرف پتھر مارے گئے تو تکلیف کی شدت سے آپ بیٹھ گئے… ان بدبخت اوباشوں نے آپ کی بغلوں میں بازو ڈال کر آپ کو کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا… جونہی آپ نے چلنے کے لئے قدم اٹھائے، وہ پھر پتھر برسانے لگے۔ساتھ میں وہ ہنس رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کو پتھروں سے بچانے کے لئے خود کو ان کے سامنے کر رہے تھے، اس طرح وہ بھی لہو لہان ہو گئے، لیکن اس حالت میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر تھی، اپنی کوئی پروا نہیں تھی۔ ان کے اتنے زخم آئے کہ سر پھٹ گیا۔
آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بستی سے نکل کر ایک باغ میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ان بدبخت ترین لوگوں سے چھٹکارا ملا۔ آپ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس وقت تک زخموں سے بالکل چور ہو چکے تھے اور بدن لہو لہان تھے۔ آپ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی:
’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری، لا چاری اور بے بسی کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا ساتھی ہے اور تو ہی میرا رب ہے اور میں تجھ ہی پر بھروسہ کرتا ہوں…اگر مجھ پر تیرا غضب اور غصہ نہیں ہے تو مجھے کسی کی پروا نہیں۔‘‘
اُسی وقت اچانک آپ نے دیکھا کہ وہاں باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ بھی موجود ہیں۔وہ بھی دیکھ چکے تھے کہ طائف کے بدمعاشوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ وہ دونوں اللہ کے دین کے دشمن ہیں۔ ادھر ان دونوں کو آپ کی حالت پر رحم آگیا۔ انہوں نے فوراً اپنی نصرانی غلام کو پکارا۔ اس کا نام عداس تھا۔ عداس حاضر ہوا تو انہوں نے اسے حکم دیا:
’’اس بیل سے انگور کا خوشہ توڑو اور ان کے سامنے رکھ دو۔‘‘
عداس نے حکم کی تعمیل کی۔ انگور آپ کو پیش کیے۔ آپ نے جب انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو فرمایا:
’’بسم اللہ!‘‘
عداس نے آپ کے منہ سے بسم اللہ سنا تو اس نے اپنے آپ سے کہا: 
’’اس علاقے کے لوگ تو ایسا نہیں کہتے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
’’تم کس علاقے کے رہنے والے ہو،تمہارا دین کیا ہے؟‘‘
عداس نے بتایا کہ وہ نصرانی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے ۔اس کے منہ سے نینویٰ کا نام سن کر آپ نے فرمایا:
’’ تم تو یونس (علیہ السلام) کے ہم وطن ہو جو متی کے بیٹے تھے۔‘‘
عداس بہت حیران ہوا،بولا:
’’آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا، خدا کی قسم جب میں نینویٰ سے نکلا تھا تو وہاں دس آدمی بھی ایسے نہیں تھے جو یہ جانتے ہوں کہ یونس بن متی کون تھے۔ اس لیے آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہو گیا؟‘‘
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ میرے بھائی تھے،اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ ہی نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔‘‘
آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنتے ہی عداس فوراً آپ کے نزدیک آگیا اور آپ کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔
باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ دور کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے عداس کو آپ کے قدم چومتے دیکھا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:
’’تمہارے اس غلام کو تو اس شخص نے گمراہ کردیا۔‘‘
پھر عداس ان کی طرف آیاتو ایک نے اس سے کہا:
’’تیرا ناس ہو،تجھے کیا ہوگیا تھا کہ تو اس کے ہاتھ اور پیر چھونے لگا تھا۔‘‘اس پر عداس بولا:
’’میرے آقا! اس شخص سے بہتر انسان پوری زمین پر نہیں ہوسکتا، اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو کوئی نبی ہی بتا سکتا ہے۔‘‘
یہ سن کر عتبہ نے فوراً کہا:
’’تیرا برا ہو،اپنے دین سے ہرگز مت پھرنا۔‘‘
ان عداس کے بارے میں آتا ہے کہ یہ مسلمان ہوگئے تھے۔ عتبہ اور شیبہ کے باغ سے نکل کر آپ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سر اٹھایا تو ایک بدلی آپ پر سایہ کئے نظرآئی۔ اس بدلی میں آپ کو جبرئیل علیہ السلام نظر آئے،انہوں نے آپ سے کہا:
’’آپ نے اپنی قوم یعنی بنی ثقیف کو جو کہا اور انہوں نے جو جواب دیا، اس کو اللہ تعالیٰ نے سُن لیا ہے اور مجھے پہاڑوں کے نگران کے ساتھ بھیجا ہے، اس لئے بنی ثقیف کے بارے میں جو چاہیں،اس فرشتے کو حکم دیں۔‘‘
اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! اگر آپ چاہیں تو میں ان پہاڑوں کے درمیان اس قوم کو کچل دوں یا انہیں زمین میں دھنسا کر ان کے اوپر پہاڑ گرا دوں۔‘‘

جنات سے ملاقات

پہاڑوں کے فرشتے کی بات کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا:
’’نہیں! مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالی ان کی اولاد میں ضرور ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘
اس پر پہاڑوں کے فرشتے نے جواب دیا:
’’اللہ تعالی نے جیسا آپﷺ کو نام دیا ہے آپﷺ حقیقت میں رؤف و رحیم ہیں یعنی بہت معاف کرنے والے اور بہت رحم کرنے والے ہیں۔‘‘
طائف کے اسی سفر سے واپسی پر نو(۹) جنوں کا آپﷺ کے پاس سے گزر ہوا۔وہ نصیبین کے رہنے والے تھے۔ یہ شام کے ایک شہر کا نام ہے۔آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ جنات نے آپﷺ کی قرات کی آواز سنی تو اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ پہلے وہ یہودی تھے۔
طائف سے واپسی پر آپﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو حرم میں آئے اور بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ اس کے بعد گھر تشریف لے گئے۔
ادھر ۹ جن جب اپنی قوم میں گئے تو انہوں نے باقی جنوں کو آپﷺ کے بارے میں بتایا،چنانچہ وہ سب کے سب مکہ پہنچے۔ انہوں نے حجون کے مقام پر قیام کیا اور ایک جن کو آپﷺ کی خدمت میں بھیجا۔اس نے آپﷺ سے عرض کیا:
’’میری قوم حجون کے مقام پر ٹھہری ہوئی ہے آپﷺ وہاں تشریف لے چلئے۔‘‘
آپﷺ نے اس سے وعدہ فرمایا کہ آپﷺ رات میں کسی وقت حجون آئیں گے۔ حجون مکہ کے ایک قبرستان کا نام تھا۔ رات کے وقت آپﷺ وہاں پہنچے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ آپﷺ کے ساتھ تھے۔ حجون پہنچ کر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے گرد ایک خط کھینچ دیا اور فرمایا:
’’اس سے باہر مت نکلنا،اگر تم نے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تو قیامت کے دن تک تم مجھے نہیں دیکھ پاؤ گے اور نہ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے ان سے یہ فرمایا:
’’میرے آنے تک تم اسی جگہ رہو۔تمہیں کسی چیز سے ڈر نہیں لگے گا، نہ کسی چیز کو دیکھ کر ہول محسوس ہو گا۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ کچھ فاصلے پر جا کر بیٹھ گئے۔ اچانک آپﷺ کے پاس بالکل سیاہ فام لوگ آئے۔ یہ کافی تعداد میں تھے اور آپﷺ پر ہجوم کر کے ٹوٹے پڑ رہے تھے، یعنی قرآن پاک سننے کی خواہش میں ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔
اس موقع پر حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ نے چاہا کے آگے بڑھ کر ان لوگوں کو آپﷺ کے پاس سے ہٹا دیں، لیکن پھر انہیں آپﷺ کا ارشاد یاد آگیا اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ ادھر جنات نے آپﷺ سے کہا:
’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم جس جگہ کے رہنے والے ہیں یعنی جہاں ہمیں جانا ہے وہ جگہ دور ہے، اس لئے ہمارے اور ہماری سواریوں کے لئے سامان سفر کا انتظام فرما دیجیے۔‘‘
جواب میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو،جب تمہارے ہاتھوں میں پہنچے گی تو پہلے سے زیادہ پر گوشت ہو جائے گی اور یہ لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ ہے۔‘‘
اس طرح جنات آپﷺ پر ایمان لائے۔ 

حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ کا قبول اسلام

طفیل بن عمرو دوسیؓ ایک اونچے درجے کے شاعر تھے۔ یہ ایک مرتبہ مکہ آئے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر قریش ان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے طفیل بن عمرو دوسیؓ سے کہا:
’’آپ ہمارے درمیان ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ ہمارے درمیان اس شخص نے اپنا معاملہ بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس نے ہمارا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ہم میں پھوٹ ڈال دی ہے۔اس کی باتوں میں جادو جیسا اثر ہے،اس نے دو سگے بھائیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اب ہمیں آپ کی اور آپ کی قوم کی طرف سے بھی پریشانی لاحق ہو گئی ہے،اس لئے اب آپ نہ تو اس سے کوئی بات کریں اور نہ اس کی کوئی بات سنیں۔‘‘
انہوں نے ان پر اتنا دباؤڈالا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:
’’نہ میں محمد کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ان سے کوئی بات کروں گا۔‘‘
دوسرے دن طفیل بن عمرو دوسیؓ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیاکہ کہیں ان کی کوئی بات ان کے کانوں میں نہ پہنچ جائے۔ آپﷺ اس وقت کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔یہ آپﷺ کے قریب ہی کھڑے ہو گئے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ آپﷺ کا کچھ کلام ان کے کانوں میں پڑ جائے۔چنانچہ انہوں نے ایک نہایت پاکیزہ اور خوب صورت کلام سنا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگے: ’’میں اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہوں۔اس لئے ان صاحب کی بات سن لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر یہ اچھی بات کہتے ہیں تو میں قبول کر لو ں گا اور بری بات ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔‘‘
کچھ دیر بعد آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہوں نے کہا:
’’اے محمد! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے، اسی لئے میں نے آپ کی باتوں سے بچنے کے لئے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیا تھا، مگر آپ اپنی بات میرے سامنے پیش کریں۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی،قرآن سن کر طفیل بن عمرو دوسیؓ بول اٹھے:
’’اللہ کی قسم میں نے اس سے اچھا کلام کبھی نہیں سنا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔ پھر انہوں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اپنی قوم میں اونچی حیثیت کا مالک ہوں،وہ سب میری بات سنتے ہیں…مانتے ہیں، میں واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دوں گا۔اس لئے آپﷺ میرے لئے دعا فرمائیں۔‘‘
اس پر آپﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔
پھر وہ واپس روانہ ہو گئے۔ اپنی بستی کے قریب پہنچے تو وہاں انہیں پانی کے پاس قافلے کھڑے نظر آئے۔ عین اس وقت ان کی دونوں آنکھوں کے درمیاں چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہو گیا اور ایسا آپﷺ کی دعا کی وجہ سے ہوا تھا۔ رات بھی اندھیری تھی۔ اس وقت انہوں نے دعا کی:
’’اے اللہ! اس نور کو میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا فرما دے۔ مجھے ڈر ہے، میری قوم کے لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ دین بدلنے کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ گئی۔‘‘
چنانچہ اسی وقت وہ نور ان کے چہرے سے ان کے کوڑے میں آگیا ۔اب ان کا کوڑا کسی قندیل کی طرح روشن ہوگیا۔
اسی بنیاد پر حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کو ذی النور کہا جانے لگا…یعنی نور والے وہ گھر پہنچے تو ان کے والد ان کے پاس آئے۔انہوں نے ان سے کہا: 
’’آپ میرے پاس نہ آئیں،اب میرا آپ سے کوئی کوئی تعلق نہیں اور نہ آپ کا مجھ سے کوئی تعلق رہ گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر ان کے والد نے پوچھا: 
’’کیوں بیٹے! یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ 
انہوں نے جواب دیا: 
’’میں مسلمان ہوگیاہوں،میں نے محمدﷺ کا دین قبول کرلیاہے۔‘‘یہ سنتے ہی ان کے والد بول اٹھے: 
’’بیٹے جو تمہارا دین ہے،وہی میرا دین ہے۔‘‘
تب طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل کرنے اور پاک کپڑے پہننے کے لیے کہا۔جب وہ ایسا کرچکے تو ان پر اسلام پیش کیا ۔وہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ۔ پھر ان کی بیوی ان کے پاس آئیں۔انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔
اب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں پر اسلام پیش کیا…وہ لوگ بگڑ گئے۔

مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک

ان کا یہ حال دیکھ کر حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ پھر حضور نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے عرض کیا: 
’’اے اللہ کے رسول!قومِ دوس مجھ پر غالب آگئی،اس لئے آپ ان کیلئے دعا فرمائیے ۔‘‘
آپﷺ نے دعا فرمائی: 
’’اے اللہ! قوم دوس کو ہدایت عطا فرما،انہیں دین کی طرف لے آ۔
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ پھر اپنے لوگوں میں گئے۔انہوں نے پھر دین اسلام کی تبلیغ شروع کی…وہ مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضور نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔آخر وہ لوگ ایمان لے آئے۔ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ انہیں ساتھ لے کر مدینہ آئے،اس وقت تک غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق ہوچکے تھے اور نبی کریم ﷺ خیبر کے مقام پر موجود تھے ۔حضرت طفیل بن عمرو دوسی کے ساتھ ستر، اسی گھرانوں کے لوگ تھے،ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔چونکہ یہ لوگ وہاں غزوہ خیبر کے وقت پہنچے تھے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کا بھی حصہ نکالا۔اگرچہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
طائف کے سفر کے بعد معراج کا واقعہ پیش آیا جو حضور نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور نبوت کا بہت بڑا معجزہ ہے۔یہ واقعہ اس طرح ہواکہ حضورﷺ مکہ معظمہ میں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر رات کو آرام فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا۔ وہ آپ کو مسجد الحرام لے گئے۔ پھر وہاں سے براق پر سوار کرکے مسجد اقصیٰ لے گئے جہاں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔اس کے بعد آپ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور آپ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔اس سفر کی کچھ اہم تفصیلات یہ ہیں:
حضور نبی کریم ﷺ بیت المقدس پہنچنے سے پہلے حضرت جبرئیل کے ساتھ چلے جارہے تھے کہ راستے میں ایک سرسبز علاقے سے گزر ہو۱۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا: 
’’یہاں اترکر دو رکعت نماز پڑھ لیجیے۔‘‘
آپ نے براق سے اترکر دو رکعتیں ادا کیں۔جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا،آپ کو معلوم ہے یہ کونسا مقام ہے۔آپ نے فرمایا نہیں۔تب جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 
’’یہ آپ نے طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں نماز پڑھی ہے اور یہی آپ کی ہجرت گاہ ہے۔‘‘(یعنی مکہ سے ہجرت کرکے آپ نے یہیں آنا ہے) 
اس کے بعد براق پھر روانہ ہوا۔اس کا ہر قدم جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں پڑتا تھا۔ایک اور مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
’’ آپ یہاں اترکر نماز پڑھیے۔‘‘آپ نے وہاں بھی دو رکعت اداکی۔انہوں نے بتایا: 
’’آپ نے مدین میں نماز پڑھی ہے۔‘‘
اس بستی کا نام مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین کے نام پر رکھاگیا تھا۔
انہوں نے اسی مقام پر قیام کیا تھا۔اس کے بعد وہاں آبادی ہوگئی تھی۔حضرت شعیب علیہ السلام اسی بستی میں مبعوث ہوئے تھے۔
اس کے بعد پھر آپ اسی براق پر سوار ہوئے۔ایک مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا:
’’اب یہاں اتر کر نماز پڑھیے۔‘‘آپ نے وہاں بھی دو رکعت نماز ادا کی۔جبرئیل علیہ السلام نے بتایا:
’’ یہ بیت اللحم ہے۔‘‘
بیت اللحم بیت المقدس کے پاس ایک بستی ہے جہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔
اسی سفر میں آپ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کا حال دیکھا۔یعنی آپ کو آخرت کی مثالی شکل کے ذریعے مجاہدین کے حالات دکھائے گئے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا:
’’یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہیں۔ اللہ نے ان کی ہر نیکی کا ثواب سات سو گنا کردیا ہے۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دنیا لائی گئی،دنیا ایک حسین و جمیل عورت کی صورت میں دکھائی گئی۔اس عورت نے آپ سے کہا:
’’اے محمد! میری طرف دیکھیے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ 
آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟ ‘‘
انہوں نے بتایا:
’’یہ دنیا ہے اگر آپ اس طرف توجہ دیتے تو آپ کی امت آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلیتی۔‘‘
اس کے بعد آپ نے راستے میں ایک بڑھیا کو دیکھا آپ نے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
جبرئیل علیہ السلام نے بتایا:
’’یہ دنیا ہی ہے،دنیا کی عمر کا اتنا حصہ ہی باقی رہ گیا ہے جتنا کہ اس بڑھیا کا ہوسکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد امانت میں خیانت کرنے والے فرض نماز کو چھوڑنے والے،زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے، بدکاری کرنے والے، رہزنی کرنے والے،(ڈاکہ ڈالنے والے)دکھائے گئے۔ان کے بھیانک انجام آپ کو دکھائے گئے۔
امانت میں خیانت کرنے والے اپنے بوجھ میں اضافہ کیے جارہے تھے اور بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔فرض نمازوں کو چھوڑنے والوں کے سر کو کچلا جارہا تھا۔ان کے سر ریزہ ریزہ ہو رہے تھے اور پھر اصل حالت میں آجاتے تھے ۔کچلنے کا عمل پھر شروع ہوجاتا تھا، غرض انہیں ذرہ بھر مہلت نہیں دی جارہی تھی۔
اپنے مال میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے ستر پر آگے اور پیچھے پھٹے ہوئے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے وہ اونٹوں اور بکریوں کی طرح چررہے تھے…اور زقوم درخت کے کڑوے پتے اور کانٹے کھا رہے تھے، زقوم درخت کے بارے میں آتا ہے کہ اس قدر کڑوا اور زہریلا ہے کہ اس کی کڑواہٹ کا مقابلہ دنیا کا کوئی درخت نہیں کرسکتا ۔ اس کا ایک ذرہ دنیا کے میٹھے دریاؤں میں ڈال دیا جائے تو تمام دریا کڑوے ہو جائیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دنیا میں مذاق اڑانے والوں کو بھی یہ درخت کھلایا جائے گا۔اس درخت کے پتوں اور کانٹوں کے علاوہ وہ لوگ جہنم کے پتھر چباتے نظر آئے۔
بدکاروں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے سامنے دسترخوان لگے ہوئے تھے ۔ان دسترخوانوں میں سے کچھ پرنہایت بہترین بھنا ہوا گوشت تھا، کچھ میں بالکل سڑا ہوا گوشت تھا۔وہ اس بہترین گوشت کو چھوڑ کر سڑا ہوا بدبودار گوشت کھا رہے تھے اور بہترین گوشت نہیں کھا رہے تھے۔ان کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا:
’’یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاک اور حلال عورتیں تھیں لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار عورتوں کے پاس جاتے تھے، یا یہ وہ عورتیں تھیں جن کے خاوند تھے،لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار مردوں کے پاس جاتی تھیں۔‘‘
سود کھانے والوں کا انجام آپ کو یہ دکھایا گیا کہ وہ خون کے دریا میں تیر رہے تھے اور پتھر نگل رہے تھے۔
آپ کو ایسے عالموں کا انجام دکھایا گیا جو لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے اور خود بے عمل تھے،ان کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے،اور جیسے ہی کٹ جاتے تھے،فوراً پیدا ہو جاتے تھے اور پھر اسی طرح کاٹے جانے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔یعنی انہیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں مل رہی تھی۔
چغل خوروں کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے۔
مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کی نماز میں امامت فرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی، جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا حال دکھایا گیا۔ آپ کا گزر جنت کی ایک وادی سے ہوا۔ اس سے نہایت بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی اور مشک سے زیادہ خوشبودار ٹھنڈی ہوا آرہی تھی اور ایک بہترین آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ آواز کہہ رہی تھی:
’’میرے عشرت کدے میں ریشم،موتی،سونا،چاندی،مونگے،شہد، دودھ اور شراب کے جام و کٹورے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں:
’’ہر وہ مؤمن مرد اور عورت تجھ میں داخل ہوگا جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوگا،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہوگا… نہ مجھ سے بڑھ کر یا میرے برابر کسی کو مانتا ہوگا۔ سن لے! جس کے دل میں میرا ڈر ہے، اس کا دل میرے خوف کی وجہ سے محفوظ رہتا ہے، جو مجھ سے مانگتا ہے میں اسے محروم نہیں رکھوں گا، جو مجھے قرض دیتا ہے یعنی نیک عمل کرتاہے اور میری راہ میں خرچ کرتا ہے میں اسے بدلہ دوں گا، جو مجھ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے اس کی جمع پونجی کو اس کی ضرورت کے لئے پورا کرتا رہوں گا، میں ہی سچا معبود ہوں، میرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میرا وعدہ سچا ہے، غلط نہیں ہوتا، مؤمن کی نجات یقینی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی برکت دینے والا ہے اور سب سے بہترین خالق یعنی پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
یہ سن کر میں نے کہا:
’’بس اے میرے پروردگار میں خوش اور مطمئن ہوں۔‘‘

اللہ سے ہم کلامی

دوزخ کا حال یہ دکھایا گیاکہ آپ وادی میں پہنچے۔وہاں آپ نے ایک بہت بدنما آواز سنی۔ آپ نے بدبو بھی محسوس کی۔ آپ نے پوچھا: 
’’ جبرئیل! یہ کیا ہے؟‘‘
انہوں نے بتایا: 
’’یہ جہنم کی آواز ہے، یہ کہہ رہی ہے ۔ اے میرے پروردگار!مجھے وہ غذا دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میری زنجیریں اور بیڑیاں، میری آگ، میرے شعلے، گرمی، گرم ہوا، پیپ اور عذاب کے دوسرے ہیبت ناک سامان بہت بڑھ گئے ہیں، میری گہرائی اور اس گہرائی میں آگ کی تپش یعنی میرا پیٹ اور اس کی بھوک بہت زیادہ ہے، اس لیے مجھے میری وہ خوراک دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔‘‘
جہنم کی اس پکار کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
’’ہر کافر اور مشرک، بدطینت، بدمعاش اور خبیث مرد اور عورت تیری خوراک ہیں۔‘‘
یہ سن کر جہنم نے جواب دیا: 
’’بس! میں خوش ہوگئی۔‘‘
اسی سفر میں آپ کو دجال کی صورت دکھائی گئی۔ اس کی شکل عبدالعزیٰ ابن قطن جیسی تھی۔یہ عبدالعزیٰ جاہلیت کے زمانے میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہی مرگیا تھا۔
آپ کو وہاں کچھ لوگ دکھائے گئے۔ان کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پتھروں کی طرح کے بڑے بڑے انگارے تھے۔ یعنی اتنے بڑے بڑے تھے کہ ایک ایک انگارے میں ان کا ہاتھ بھرگیا تھا۔ وہ لوگ انگاروں کو اپنے منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ نے یہ منظر دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: 
’’ جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ ‘‘ جواب میں انہوں نے بتایا: 
’’یہ وہ لوگ ہیں جو زبردستی اور ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے تھے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے کچھ لوگ دیکھے ، ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ جیسے گھر میں کوٹھڑیاں ہوں،ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے،وہ باہر سے نظر آرہے تھے۔آپ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا:’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘
انہوں نے بتایا کہ :’’یہ سود خور ہیں۔‘‘
پھر آپ نے ایسے لوگ دیکھے، جن کے سامنے ایک طرف بہترین قسم کا گوشت رکھا تھا۔ دوسری طرف سڑا ہوا بدبودار گوشت تھا۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے تھے۔ آپ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا: 
’’ یہ کون لوگ ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا: 
’’ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتیں یعنی بیویاں دی تھیں مگر یہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔یا وہ ایسی عورتیں ہیں جو اپنے خاوند کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے پاس جاتی تھیں۔ ‘‘
آپ نے وہاں ایسے لوگ دیکھے جو اپنے ہی جسم سے پہلوؤں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ان سے کہا جارہا تھا:
’’ یہ بھی اسی طرح کھاؤ جس طرح تم اپنے بھائی کا گوشت کھایا کرتے تھے۔‘‘
آپ نے دریافت فرمایا: 
’’ یہ کون لوگ ہے؟‘‘
جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 
’’ یہ وہ لوگ ہے جو ایک دوسرے پر آوازے کسا کرتے تھے۔‘‘
جہنم دکھانے کے بعد آپ کو جنت دکھائی گئی۔آپ نے وہاں موتیوں کے بنے ہوئے گنبد دیکھے۔وہاں کی مٹی مشک کی تھی۔آپ نے جنت میں انار دیکھے، وہ بڑے بڑے ڈولوں جتنے تھے۔اور جنت کے پرندے اونٹوں جتنے بڑے تھے۔ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ سیر کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ بیری کا ایک درخت ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں ایک چشمہ دیکھا۔اس سے دو نہریں پھوٹ رہی تھیں۔ایک کا نام کوثر اور دوسری کا نام رحمت۔آپ فرماتے ہیں، میں نے اس چشمے میں غسل کیا۔
ایک روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں۔ان میں سے ایک نہر پانی کی،دوسری دودھ کی، تیسری شہد کی اور چوتھی نہر شراب کی ہے۔
اسی وقت سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا یعنی جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا۔ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے۔ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی تعداد میں گر رہے تھے کہ ان کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے۔
پھر ایک بدلی نے آپ کو آکر گھیر لیا۔آپ کو اس بدلی کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔(بدلی کی جگہ بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعے اٹھانے کا ذکر بھی آیا ہے۔)۔یہاں آپ نے صریر اقلیم(یعنی لوح محفوظ پر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ)کی آوازیں سنیں۔یہ تقدیر کے قلم تھے اور فرشتے ان سے مخلوق کی تقدیریں لکھ رہے تھے۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگے نہیں گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عرش اعظم کے دائیں طرف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ساتویں آسمان کے اوپر گئے۔ وہاں ایک نہر پر پہنچے۔اس میں یاقوتوں، موتیوں اور زبرجد کے خیمے لگے تھے۔ اس نہر میں ایک سبز رنگ کا پرندہ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھا کہ اس جیسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: 
’’یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔‘‘
آپ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا، اس میں یاقوت اور زمرد کے تھالوں میں رکھے ہوئے سونے اور چاندی کے جام تیر رہے تھے۔ اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے ایک جام اٹھایا۔اس نہر سے بھر کر پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
آپ فرماتے ہیں، جبرائیل علیہ السلام مجھے لیے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔اس کے پاس حجاب اکبر ہے۔ حجاب اکبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: 
’’ میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا۔ اب آپ آگے تشریف لے جائیں۔‘‘
آپ فرماتے ہیں، میں آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں سونے کے ایک تخت تک پہنچ گیا۔ اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا تھا۔اسی وقت میں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز سنی…وہ کہہ رہے تھے: 
’’ اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کی تعریف فرما رہا ہے۔آپ سنیے اور اطاعت کیجئے۔آپ کلام الٰہی سے دہشت زدہ نہ ہوں۔‘‘
چنانچہ اس وقت میں نے حق تعالیٰ کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مجھے اللہ کا دیدار ہوا۔ میں فوراً سجدے میں گرگیا۔پھر اللہ نے مجھ پر وحی اتاری، وہ یہ تھی: 
’’ اے محمد! جب تک آپ جنت میں داخل نہیں ہوجائیں گے،اس وقت تک تمام نبیوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔اسی طرح جب تک آپ کی امت جنت میں داخل نہیں ہوگی، تمام امتوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔‘‘
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
’’ اے محمد!ہم نے کوثر آپ کو عطا فرما دی ہے۔اس طرح آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام جنتی آپ کے مہمان ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔پچاس نمازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے کم کرائی گئیں۔یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ کردی گئی تاہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
’’ اے محمد! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا ثواب دس کے برابر ہوگا اور اس طرح ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ملے گا۔آپ کی امت میں سے جو شخص بھی نیکی کا ارادہ کرے اور پھر نہ کرسکے، تو میں اس کے حق میں صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھوں گا اور اگر اس نے وہ نیک عمل کر بھی لیا تو اسے دس نیکیوں کے برابر لکھوں گا اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دوں گا اور اگر اس نے وہ بدی کرلی تو اس کے نتیجے میں ایک بدی لکھوں گا۔‘‘
آپ فرماتے ہیں،میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: 
’’ صدقے کا صلہ دس گنا ہے اور قرض کا صلہ اٹھارہ گنا ہے۔‘‘
میں نے جبرائیل سے پوچھا: 
’’ یہ کیا بات ہے کہ قرض دینا صدقے سے افضل ہے؟‘‘
جواب میں انہوں نے کہا: 
’’ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل جسے صدقہ دیاجاتا ہے، وہ مانگتا ہے تو اس وقت اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔جب کہ قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

نماز کی ابتداء

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے دوران جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا۔ وہ انتہائی سخت طبیعت کا فرشتہ ہے۔ اس کے چہرہ پر غصہ اور غضب رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کیا۔ داروغہ نے سلام کا جواب دیا۔ خوش آمدید بھی کہا،لیکن مسکرایا نہیں۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا:
’’یہ کیا بات ہے کہ میں آسمان والوں میں سے جس سے بھی ملا،اس نے مسکرا کر میرا استقبال کیا، مگر داروغہ جہنم نے مسکرا کر بات نہیں کی۔‘‘
اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
’’یہ جہنم کا داروغہ ہے،جب سے پیدا ہوا ہے،آج تک کبھی نہیں ہنسا، اگر یہ ہنس سکتا تو صرف آپ ہی کے لیے ہنستا۔‘‘
یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی…بعض لوگ معراج کو صرف ایک خواب کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف روح گئی تھی جسم ساتھ نہیں گیا تھا…اگر یہ دونوں باتیں ہوتیں تو پھر معراج کے واقعے کی بھلا کیا خصوصیت تھی۔خواب میں تو عام آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے…معراج کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سمیت آسمانوں پر تشریف لے گئے…لہٰذا گمراہ لوگوں کے بہکاوے میں مت آئیں۔اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر یہ صرف خواب ہوتا، یا معراج صرف روح کو ہوتی تو مشرکین مکہ مذاق نہ اڑاتے۔جب کہ انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور مذاق بھی اڑایا۔خواب میں دیکھے کسی واقعے پر بھلا کوئی کیوں مذاق اڑاتا۔
معراج کے بارے میں اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔۔۔۔اس بارے میں دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں۔اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ ہم خاموشی اختیار کریں،کیونکہ یہ ہمارے اعتقاد کا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہم سے قیامت کے دن یہ سوال پوچھا جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے بعد آسمانوں سے واپس زمین پر تشریف لے آئے۔جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسی طرح گرم تھا جس طرح چھوڑ کر گئے تھے۔ یعنی معراج کا یہ عجیب واقعہ اور اتنا طویل سفر صرف ایک لمحے میں پورا ہوگیا، یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دوران کائنات کے وقت کی رفتار کو روک دیا جس کے باعث یہ معجزہ نہایت تھوڑے وقت میں مکمل ہوگیا۔
معراج کی رات کے بعد جب صبح ہوئی اور سورج ڈھل گیا تو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔انہوں نے امامت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تاکہ آپ کو نمازوں کے اوقات اور نمازوں کی کیفیت معلوم ہوجائے۔معراج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح شام دو دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور رات میں قیام کرتے تھے،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ فرض نمازوں کی کیفیت اس وقت تک معلوم نہیں تھی۔
جبرئیل علیہ السلام کی آمد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ سب لوگ جمع ہوجائیں…چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔
یہ ظہر کی نماز تھی…اسی روز اس کا نام ظہر رکھا گیا۔اس لیے کہ یہ پہلی نماز تھی جس کی کیفیت ظاہر کی گئی تھی۔چونکہ دوپہر کو عربی میں ظہیرہ کہتے ہیں اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے یہ نام اس بنیاد پر رکھا گیا ہو،کیونکہ یہ نماز دوپہر کو پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز میں آپ نے چار رکعت پڑھائی اور قرآن کریم آواز سے نہیں پڑھا ۔ 
اسی طرح عصر کا وقت ہوا تو عصر کی نماز ادا کی گئی۔سورج غروب ہوا تو مغرب کی نماز پڑھی گئی۔یہ تین رکعت کی نماز تھی، اس میں پہلی دو رکعتوں میں آواز سے قرأت کی گئی۔ آخری رکعت میں قرأت بلند آواز سے نہیں کی گئی۔ اس نماز میں بھی ظہر اور عصر کی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام آگے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے اور صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں۔ اس کا مطلب ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقتدی بھی تھے اور امام بھی۔
رہا یہ سوال کہ یہ نماز کہاں پڑھی گئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں پڑھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، کیونکہ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے اسی کی سمت منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ 
جبرائیل علیہ السلام نے پہلے دن نمازوں کے اول وقت میں یہ نماز پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ معلوم ہوجائے،نمازوں کے اوقات کہاں سے کہاں تک ہیں۔ 
اس طرح یہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بھی آسمان سے نازل ہوا۔آج کچھ لوگ کہتے نظر آتے ہیں…نماز کا کوئی طریقہ قرآن سے ثابت نہیں…لہٰذا نماز کسی بھی طریقے سے پڑھی جاسکتی ہے…ہم تو بس قرآن کو مانتے ہیں…ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں…نماز کا طریقہ بھی آسمان سے ہی نازل ہوا اور ہمیں نماز اسی طرح پڑھنا ہوں گی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پڑھتے رہے۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فرض نمازیں پانچ ہیں،حدیث کے منکر پانچ نمازوں کا انکار کرتے ہیں ۔وہ صرف تین فرض نمازوں کے قائل ہیں۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں صرف تین نمازوں کا ذکر آیا ہے۔ حالانکہ اول تو ان کی یہ بات ہے ہی جھوٹ۔ دوسرے یہ کہ جب احادیث سے پانچ نمازیں ثابت ہیں تو کسی مسلمان کے لیے ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ 
پانچ نمازوں کی حکمت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس یعنی پانچ حسیں رکھیں ہیں۔ انسان گناہ بھی انہی حسوں کے ذریعے سے کرتا ہے(یعنی آنکھ، کان، ناک، منہ، اعضاء و جوارح یعنی ہاتھ پاؤں) لہٰذا نمازیں بھی پانچ مقرر کی گئیں تاکہ ان پانچوں حواسوں کے ذریعے دن اور رات میں جو گناہ انسان سے ہوجائیں، وہ ان پانچوں نمازوں کے ذریعے دھل جائیں اس کے علاوہ بھی بے شمار حکمتیں ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج کے واقعے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر جانا ثابت کرتا ہے کہ آسمان حقیقت میں موجود ہیں۔
موجودہ ترقی یافتہ سائنس کا یہ نظریہ ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ کائنات ایک عظیم خلا ہے۔ انسانی نگاہ جہاں تک جاکر رک جاتی ہے، وہاں اس خلا کی مختلف روشنیوں کے پیچھے ایک نیلگوں حد نظر آتی ہے۔ اسی نیلگوں حد کو انسان آسمان کہتا ہے۔ 
لیکن اسلامی تعلیم نے ہمیں بتایا ہے کہ آسمان موجود ہیں اور آسمان اسی ترتیب سے موجود ہیں،جو قرآن اور حدیث نے بتائی ہے ۔قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آسمان کا ذکر ہے ۔بعض آیات میں ساتوں آسمان کا ذکر ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ایک اٹل حقیقت ہے نہ کہ نظر کا دھوکہ۔ 
الحمد للہ معراج کابیان تکمیل کو پہنچا۔اس کے بعد سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم بہ قدم میں ہم معراج کے بعد کے واقعات بیان کریں گے،ان شاء اللہ۔

کامیابی کی ابتدا

حج کے دنوں میں مکہ میں دور دور سے لوگ حج کرنے آتے تھے، یہ حج اسلامی طریقے سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں کفریہ اور شرکیہ باتیں شامل کر لی گئی تھیں، ان دنوں یہاں میلے بھی لگتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلام کی دعوت دینے کے لیے ان میلوں میں بھی جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں پہنچ کر لوگوں سے فرماتے تھے:
’’کیا کوئی شخص اپنی قوم کی حمایت مجھے پیش کر سکتا ہے،کیونکہ قریش کے لوگ مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم منیٰ کے میدان میں تشریف لے جاتے۔لوگوں کے ٹھکانے پر جاتے اور ان سے فرماتے:
’’لوگو،اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کرتے ہوئے ابو لہب بھی وہاں تک پہنچ جاتا اور ان لوگوں سے بلند آواز میں کہتا:
’’لوگو، یہ شخص چاہتا ہے تم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ذو المجاز کے میلے میں تشریف لے جاتے اور لوگوں سے فرماتے:
’’لوگو!لا الہ الا اللہ کہہ کر بھلائی کو حاصل کرو۔‘‘
ابو لہب یہاں بھی آ جاتا اور آپ کو پتھر مارتے ہوئے کہتا:
’’لوگو!اس شخص کی بات ہرگز نہ سنو، یہ جھوٹا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ کندہ اور قبیلہ کلب کے کچھ خاندانوں کے پاس گئے۔ان لوگوں کو بنو عبداللہ کہا جاتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:
’’لوگو!لا الہ الا اللہ پڑھ لو…فلاح پا جاؤ گے۔‘‘
انہوں نے بھی اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنو حنیفہ اور بنو عامر کے لوگوں کے پاس بھی گئے۔ان میں سے ایک نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سن کر کہا:
’’اگر ہم آپ کی بات مان لیں،آپ کی حمایت کریں اور آپ کی پیروی قبول کر لیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ سرداری اور حکومت ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گی۔‘‘
یعنی انہوں نے یہ شرط رکھی کہ آپ کے بعد حکمرانی ان کی ہوگی۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’سرداری اور حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے سونپ دیتا ہے۔‘‘
اس کے بعد اس شخص نے کہا:
’’تو کیا ہم آپ کی حمایت میں عربوں سے لڑیں،عربوں کے نیزوں سے اپنے سینے چھلنی کرا لیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو سرداری اور حکومت دوسروں کو ملے۔نہیں، ہمیں آپ کی ایسی حکومت اور سرداری کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
اس طرح ان لوگوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔بنو عامر کے یہ لوگ پھر اپنے وطن لوٹ گئے۔وہاں ان کا ایک بہت بوڑھا شخص تھا۔بوڑھا ہونے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ حج کے لیے نہیں جا سکا تھا۔جب اس نے ان لوگوں سے حج اور میلے کے حالات پوچھے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا بھی ذکر کیا اور اپنا جواب بھی اسے بتایا۔
بوڑھا شخص یہ سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور افسوس بھرے لہجے میں بولا:
’’اے بنی عامر!تم سے بہت بڑی غلطی ہوئی…کیا تمہاری اس غلطی کا کوئی علاج ہو سکتا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسماعیل علیہ السلام کی قوم میں سے جو شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے،جھوٹا نہیں ہو سکتا۔وہ بالکل سچا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی سچائی تمہاری عقل میں نہ آ سکے۔‘‘
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو عبس، بنو سلیم، بنو غسان، بنو محارب، بنو فزارہ، بنو نضر، بنو مرہ اور بنو عذرہ سمیت کئی قبیلوں سے بھی ملے، ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور بھی برے جوابات دیے، وہ کہتے:
’’آپ کا گھرانہ اور آپ کا خاندان آپ کو زیادہ جانتا ہے، اسی لیے انہوں نے آپ کی پیروی نہیں کی۔‘‘
عرب قبیلوں میں سب سے زیادہ تکلیف یمامہ کے بنو حنیفہ سے پہنچی۔مسیلمہ کذاب بھی اسی بد بخت قوم کا تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔اسی طرح بنو ثقیف کے قبیلے نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت برا جواب دیا۔
ان تمام تر ناکامیوں کے بعد آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو پھیلانے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اکرام کرنے اور اپنا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کے دنوں میں گھر سے نکلے۔وہ رجب کا مہینہ تھا۔عرب حج سے پہلے مختلف رسموں اور میلوں میں شریک ہونے کے لیے مکہ پہنچا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سال بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختلف قبیلوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم عقبہ کے مقام پر پہنچے۔
عقبہ ایک گھاٹی کا نام ہے۔جس جگہ شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔یہ گھاٹی اسی مقام پر ہے۔مکہ سے منیٰ کی طرف جائیں تو یہ مقام بائیں ہاتھ پر آتا ہے۔اب اس جگہ ایک مسجد ہے۔
وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات مدینہ کے قبیلے خزرج کی ایک جماعت سے ہوئی۔اوس اور خزرج مدینہ منورہ کے مشہور قبیلے تھے۔یہ اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔یہ بھی دوسرے عربوں کی طرح حج کیا کرتے تھے۔یہ حضرات تعداد میں کل چھ تھے،ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد آٹھ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھا تو ان کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے فرمایا:
’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ بولے:
’’ضرور کہیں۔‘‘
فرمایا:
’’بہتر ہوگا کہ ہم لوگ بیٹھ جائیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس بیٹھ گئے۔ان لوگوں نے جب آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں سچائی ہی سچائی اور بھلائی ہی بھلائی نظر آئی…ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں آپ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں…میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی انہوں نے کہا:
’’اللہ کی قسم…آپ کے بارے میں ہمیں معلوم ہے۔یہودی ایک نبی کی خبر ہمیں دیتے رہے ہیں اور ہمیں اس سے ڈراتے رہے ہیں (یعنی وہ کہتے رہے ہیں کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں) آپ ضرور وہی ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے پہلے وہ آپ کی پیروی اختیار کرلیں۔اصل میں بات یہ تھی کہ جب بھی یہودیوں اور مدینے کے لوگوں میں کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا تو یہودی ان سے کہا کرتے تھے:
بہت جلد ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے،ان کا زمانہ نزدیک آ چکا ہے۔ہم اس نبی کی پیروی کریں گے اور ان کے جھنڈے تلے اس طرح تمہارا قتل عام کریں گے جیسے قوم عاد اور قوم ارم کا ہوا تھا۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم تمہیں نیست و نابود کر دیں گے۔اسی بنیاد پر مدینے کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کے بارے میں معلوم تھا…اور اسی بنیاد پر انہوں نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی اور مسلمان ہو گئے۔
پے در پے ناکامیوں کے بعد یہ بہت زبردست کامیابی تھی…اور پھر یہ کامیابی تاریخی اعتبار سے بھی بہت بڑی ثابت ہوئی۔اس بیعت نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا،گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ایک زبردست خیر کا ارادہ فرمایا تھا۔اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے عرض کیا:
’’ہم اپنی قوم اوس اور خزرج کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ ان کے درمیان زبردست جنگ جاری ہے، اس لیے اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ان سب کو ایک کر دے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی۔‘‘
اوس اور خزرج دو سگے بھائیوں کی اولاد تھے۔پھر ان میں دشمنی ہو گئی۔لڑائیوں نے اس قدر طول کھینچا کہ ایک سو بیس سال تک وہ نسل در نسل لڑتے رہے، قتل پر قتل ہوئے…
اس وقت انہوں نے اسی دشمنی کی طرف اشارہ کیا تھا،لہٰذا انہوں نے کہا:
’’ہم اوس اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں گے۔ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے نام پر انہیں ایک کر دے۔اگر آپ کی وجہ سے وہ ایک ہو گئے،ان کا کلمہ ایک ہو گیا تو پھر آپ سے زیادہ قابل عزت اور عزیز کون ہوگا۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات کو پسند فرمایا۔پھر یہ حضرات حج کے بعد مدینہ منورہ پہنچے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top