skip to Main Content

۱ ۔ زم زم کی کھدائی

اشتیاق احمد

’’سیرت النبی ﷺقدم بہ قدم‘‘ اردو میں بچوں کے لئے لکھی گئی سب سے مفصل سیرت ہے ۔یہ سیرت بچوں کے معروف و مقبول ناول نگار محترم ’اشتیاق احمد‘ صاحب نے اپنے قلمی نام یعنی ’عبداللہ فارانی‘ کے نام سے لکھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ مرحوم و مغفور قلم کارکے صاحب زادے محترم ’نوید اشتیاق‘ کی خصوصی دلچسپی کے ساتھ ادارہ ’روشنائی‘ اس سیرت کو دعوتی و تبلیغی مقاصد کے لیے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے جسے ’محمد اشفاق‘ نے کمپوز کیا۔

زم زم کی کھدائی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ۱۲ بیٹے تھے۔ ان کی نسل اس قدر ہوئی کہ مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی۔ ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے۔ عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا۔ نزار کے چار بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام مضر تھا۔ مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے، یہ فہر بن مالک بھی کہلائے۔ قریش کی اولاد بہت ہوئی۔ ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی۔ ان کی اولاد سے قصی نے اقتدار حاصل کیا۔ قصی کے آگے تین بیٹے ہوئے۔ ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے۔
ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی۔ ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام شیبہ رکھا گیا۔ یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے۔ ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا۔ جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے۔ اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے ۔ مطلّب نے لوگوں کو بتایا ’’یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔‘‘ اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا۔ اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا ۔ انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب ،حمزہ ،عباس،عبداللہ، ابولہب،حارث،زبیر،ضرار،اور عبدالرحمن پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے ۔ عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو،اس کنویں کو قبیلہ جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا ۔ قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے، بیت اللہ کے نگراں تھے ۔ انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی۔ ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا ۔ وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا ۔ جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانہ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈال دیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا ۔ کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا۔
اب اس کا نام و نشان مٹ گیا ۔ مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا ۔اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا ۔ بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گزرا ۔ کنواں بند رہا یہاں تک کے قصی کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا۔ انہوں نے خواب دیکھا ۔ خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا:۔
’’ میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا۔ اس نے مجھ سے کہا ،’’طیبہ کو کھودو ۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا ’’طیبہ کیا ہے؟‘‘
مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا ۔ دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا ، کہنے لگا ’’برہ کو کھودو ‘‘
میں نے پوچھا ،’’برّہ کیا ہے۔‘‘ وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا۔
تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا ۔ اُس نے کہا ،’’ مضنونہ کھودو ۔‘‘
میں نے پوچھا ،’’ مضنونہ کیا ہے؟‘‘ وہ بتائے بغیر چلا گیا ۔
اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا ،’’زم زم کھودو ‘‘ میں نے اس سے پوچھا ،’’زم زم کیا ہے؟ ‘‘ اس بار اس نے کہا:
’’ زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا،جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے ۔‘‘
عبدالمطلب کہتے ہیں،میں نے اس سے پوچھا:
’’یہ کنواں کس جگہ ہے؟ ‘‘
اس نے بتایا :
’’جہاں گندگی اور خون پڑا ہے،اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے۔‘‘
دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے ۔ اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا ۔ انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا،اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کیے جانے والے جانوروں کا تھا۔پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے ۔ انہوں نے کہا:
’’ اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے،تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لیے قربانیاں کرتے ہیں۔‘‘
عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا:
’’تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو،میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا۔‘‘
قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے ۔ آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی ۔ جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے ۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے:
’’ یہ دیکھو ،یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے ۔‘‘
جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے:
’’عبدالمطلب !اللہ کی قسم ، یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے، اس لئے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے ۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا:
’’ میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا ۔ یہ مجھ اکیلے کا کام ہے۔‘‘
اس پر قریش نے کہا:
’’ تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے۔‘‘
عبدالمطلب بولے:
’’ کسی سے فیصلہ کروالو ۔‘‘
انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا ۔ یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی ۔ آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے ۔ عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی ۔
جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی ۔ اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا،وہاں کہیں پانی نہیں تھا ۔ اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا ۔ سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے،یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا ۔ انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا ۔ اب انہوں نے ادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا ۔
عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے،جوں ہی ان کی سواری اٹھی،اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا ۔ انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے ۔ سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے ۔ اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:’’آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو ۔‘‘ اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا ۔ پانی پینے کے بعد وہ بولے:
’’ اللہ کی قسم…اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا ۔اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے ۔ جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گی، اس لیے یہیں سے واپس چلو ۔‘‘
اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے ۔
واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی ۔ ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں ۔ اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی ۔ یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا ۔ انہوں نے عبدالمطلب سے کہا:
’’عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ۔‘‘
ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا:
’’نہیں! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔ آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں ۔‘‘
انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا ۔ دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے…..پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے ۔ اس طرح فیصلہ ہوگیا ۔عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا ۔
زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا ۔ اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا:
’’اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو ۔‘‘

سو اونٹوں کی قربانی

عبدالمطلب کو یہ حکم اس وقت دیا گیا جب وہ اپنی منّت بھول چکے تھے ۔ پہلے خواب میں ان سے کہا گیا ’’ منّت پوری کرو ۔‘‘ انھوں نے ایک مینڈھا ذبح کرکے غریبوں کو کھلادیا ۔ پھر خواب آیا ۔’’ اس سے بڑی چیز پیش کرو ۔‘‘ اس مرتبہ انھوں نے ایک بیل ذبح کردیا ۔ خواب میں پھر یہی کہا گیاکہ اس سے بھی بڑی چیزپیش کرو ۔ اب انھوں نے اونٹ ذبح کیا ۔ پھر خواب آیا اس سے بھی بڑی چیز پیش کرو ۔ انھوں نے پوچھا: ’’ اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے ؟‘‘ تب کہا گیا:
’’ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذبح کرو جیسا کہ تم نے منّت مانی تھی ۔‘‘
اب انھیں اپنی منّت یاد آئی ۔ اپنے بیٹوں کو جمع کیا ۔ ان سے منّت کا ذکر کیا ۔سب کے سر جھُک گئے ۔ کون خود کو ذبح کرواتا ۔ آخر عبداللہ بولے:
’’ ابّاجان آپ مجھے ذبح کردیں ۔‘‘
یہ سب سے چھوٹے تھے ۔ سب سے خوبصورت تھے ۔ سب سے زیادہ محبت بھی عبدالمطلِّب کو انہیں سے تھی۔ لہٰذا انھوں نے قرعہ اندازی کرنے کا ارادہ کیا ۔ تمام بیٹوں کے نام لکھ کر قرعہ ڈالا گیا ۔عبداللہ کا نام نکلا اب انھوں نے چُھری لی ۔ عبداللہ کو بازو سے پکڑا اور انھیں ذبح کرنے کے لیے نیچے لٹادیا۔جونہی باپ نے بیٹے کو لٹایا ، عبّاس سے ضبط نہ ہوسکا،فوراً آگے بڑھے اور بھائی کو کھینچ لیا ۔ اس وقت یہ خود بھی چھوٹے سے تھے ۔ادھر باپ نے عبداللہ کو کھینچا ۔اس کھینچا تانی میں عبداللہ کے چہرے پر خراشیں بھی آئیں ۔ ان خراشوں کے نشانات مرتے دم تک باقی رہے ۔
اسی دوران بنو مخزوم کے لوگ آگئے ،انھوں نے کہا:
’’آپ اس طرح بیٹے کو ذبح نہ کریں،اس کی ماں کی زندگی خراب ہوجائے گی،اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بیٹے کا فدیہ دے دیں ۔‘‘
اب سوال یہ تھا کہ فدیہ کیا دیا جائے۔اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں،دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے۔اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ قربان کردیے جائیں۔اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے ۔ پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے ۔ اب اگر بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردیے جائیں ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں،اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں ۔
عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ہے ۔ دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے ۔ہر بار عبداللہ کا نام نکلتا چلا گیا،یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی ۔ تب کہیں جاکر اونٹوں والی پرچی نکلی ۔ اس طرح ان کی جان کے بدلے سو اونٹ قربان کیے گئے ۔ عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کے بدلے سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے ۔ انھوں نے کعبے کے پاس سو اونٹ قربان کیے اور کسی کو کھانے سے نہ روکا ۔ سب انسانوں،جانوروں اور پرندوں نے ان کو کھایا ۔
امام زہری کہتے ہیں کہ عبدالمطلِّب پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آدمی کی جان کی قیمت سو اونٹ دینے کا طریقہ شروع کیا ۔اس سے پہلے دس اونٹ دیے جاتے تھے ۔ اس کے بعد یہ طریقہ سارے عرب میں جاری ہوگیا ۔ گویا قانون بن گیا کہ آدمی کا فدیہ سو اونٹ ہے ۔ نبی کریمﷺ کے سامنے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے اس فدیے کی تصدیق فرمائی، یعنی فرمایا کہ یہ درست ہے اور اسی بنیاد پر نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
’’میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عبداللہ کی اولاد ہوں۔‘‘
حضرت عبداللہ قریش میں سب سے زیادہ حسین تھے۔ ان کا چہرہ روشن ستارے کی مانند تھا ۔قریش کی بہت سی لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی ہوئی۔
حضرت آمنہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کی بیٹی تھیں۔ شادی کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
یہ شادی کے لیے اپنے والد کے ساتھ جارہے تھے۔ راستے میں ایک عورت کعبہ کے پاس بیٹھی نظر آئی، یہ عورت ورقہ بن نوفل کی بہن تھی۔ورقہ بن نوفل قریش کے ایک بڑے عالم تھے۔ورقہ بن نوفل سے ان کی بہن نے سن رکھا تھا کہ وقت کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے اور ان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہوگی کہ ان کے والد کے چہرے میں نبوت کا نور چمکتا ہوگا۔جونہی اس نے عبداللہ کو دیکھا فوراً اس کے ذہن میں یہ بات آئی، اس نے سوچا ہونہ ہو یہی وہ شخص ہیں جو پیدا ہونے والے نبی کے باپ ہوں گے۔چنانچہ اس نے کہا:
’’اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو میں بدلے میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہاری جان کے بدلے میں ذبح کئے گئے تھے۔‘‘
اس پر انہوں نے جواب دیا:
’’میں اپنے باپ کے ساتھ ہوں۔ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔نہ ان سے الگ ہوسکتا ہوں اور میرے والد باعزت آدمی ہیں، اپنی قوم کے سردار ہیں۔‘‘
بہر حال انکی شادی حضرت آمنہ سے ہوگئی۔آپ قریش کی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے افضل تھیں ۔حضرت آمنہ، حضرت عبداللہ کے گھر آگئیں ۔ آپ فرماتی ہیں:
’’جب میں ماں بننے والی ہوئی تو میرے پاس ایک شخص آیا، یعنی ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا ۔ اس وقت میں جاگنے اور سونے کی درمیانی حالت میں تھی(عام طور پر اس حالت کو غنودگی کہاجاتاہے) ۔ اس نے مجھ سے کہا:
’’کہا تمہیں معلوم ہے، تم اس امت کی سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہو۔‘‘
اس کے بعد وہ پھر اس وقت آیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے تھے ۔اس مرتبہ اس نے کہا:
جب تمہارے ہاں پیدائش ہو تو کہنا:
’’میں اس بچے کے لیے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں، ہر حسد کرنے والے کے شر اور برائی سے ۔ پھر تم اس بچے کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ ان کا نام تورات میں احمد ہے اور زمین اور آسمان والے ان کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ قرآن میں ان کا نام محمد ہے، اور قرآن ان کی کتاب ہے ۔‘‘(البدایہ والنہایہ)
ایک روایت کے مطابق فرشتے نے ان سے یہ کہا:
’’تم وقت کے سردار کی ماں بننے والی ہو، اس بچے کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوگا، جس سے ملک شام اور بصریٰ کے محلات بھر جائیں گے ۔ جب وہ بچہ پیدا ہوجائے گا تو اس کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ تورات میں ان کا نام احمد ہے اور آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں، اور انجیل میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور قرآن میں ان کا نام محمد ہے ۔‘‘ (البدایہ والنہایہ)
حضرت عبداللہ کے چہرے میں جو نورچمکتا تھا، شادی کے بعد وہ حضرت آمنہ کے چہرے میں آگیا تھا۔
امام زہری فرماتے ہیں،حاکم نے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کو صحیح قراردیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتایئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور خوشخبری ہوں، جب میں اپنی والدہ کے شکم میں آیا تو انہوں نے دیکھا، گویا ان سے ایک نور ظاہر ہوا ہے جس سے ملک شام میں بصریٰ کے محلات روشن ہوگئے ۔‘‘
حضرت آمنہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ سے فرمایا تھا:
’’میرے اس بچے کی شان نرالی ہے، یہ میرے پیٹ میں تھے تو مجھے کوئی بوجھ اور تھکن محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ آخری پیغمبر ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری سنائی ہے ۔ اس بشارت کا ذکر قرآن میں بھی ہے، سورہ صف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور اسی طرح وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے فرمایا کہ:’’ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات آچکی ہے، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والا ہیں، ان کا نامِ مبارک احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔‘‘
اب چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ بشارت سناچکے تھے، اس لیے ہر دور کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے، ادھرآپ کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت عبداللہ انتقال کرگئے ۔ سابقہ کتب میں آپ کی نبوت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوجائے گا ۔ حضرت عبداللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کے لیے گئے تھے، اس دوران بیمار ہوگئے اور کمزور ہوکر واپس لوٹے ۔قافلہ مدینہ منورہ سے گزرا تو حضرت عبداللہ اپنے ننھیال یعنی بنو نجار کے ہاں ٹھہرے ۔ان کی والدہ بنو نجار سے تھیں، ایک ماہ تک بیمار رہے اور انتقال کرگئے ۔انہیں یہیں دفن کردیا گیا ۔
تجارتی قافلہ جب حضرت عبداللہ کے بغیر مکہ مکرمہ پہنچا اور عبدالمطلب کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے عبداللہ بیمار ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنی ننھیال میں ہیں تو انہیں لانے کے لیے عبدالمطلب نے اپنے بیٹے زبیر کو بھیجا ۔ جب یہ وہاں پہنچے تو عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا ۔ مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں اپنے والد کی وفات کے چند ماہ بعد تشریف لائے ۔

ماہِ نبوت طلوع ہوا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آنول نال کٹی ہوئی تھی۔(آنول نال کو بچے پیدا ہونے کے بعد دایہ کاٹتی ہے۔)
آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے۔عبدالمطلب یہ دیکھ کر بے حد حیران ہوئے اور خوش بھی۔وہ کہا کرتے تھے، میرا بیٹا نرالی شان کا ہوگا۔(الہدایہ)
آپ کی پیدائش سے پہلے مکّہ کے لوگ خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔لیکن جونہی آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت قریب آیا۔بارشیں شروع ہوگئیں، خشک سالی دور ہوگئی۔درخت ہرے بھرے ہوگئے اور پھلوں سے لد گئے۔زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔
پیدائش کے وقت آپ اپنے ہاتھوں پر جھکے ہوئے تھے۔سر آسمان کی طرف تھا۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ سجدے کی سی حالت میں تھے۔(طبقات)
آپ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔جیسا کہ ہم نماز میں اٹھاتے ہیں۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جب میری والدہ نے مجھے جنم دیا تو ان سے ایک نور نکلا۔اس نور سے شام کے محلات جگمگا اٹھے۔‘‘ (طبقات)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں:
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیدائش کے وقت ظاہر ہونے والے نور کی روشنی میں مجھے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں تک نظر آئیں۔‘‘
علامہ سہلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے اللہ کی تعریف کی۔ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
’’اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا۔
اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اللہ تعالیٰ کی بے حد تعریف ہے اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔‘‘
آپ کی ولادت کس دن ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ پیر کا دن تھا۔آپ صبح فجر طلوع ہونے کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔
تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بہت سے قول ہیں۔ایک روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ایک روایت 8 ربیع الاول کی ہے، ایک روایت یہ ہے کہ2 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں۔زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ آپ 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔تقویم کے طریقہ کے حساب سے جب تاریخ نکالی گئی تو 9 ربیع الاول نکلی۔مطلب یہ کہ اس بارے میں بالکل صحیح بات کسی کو معلوم نہیں۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھا اور دن پیر کا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو پیر کے دن ہی نبوت ملی۔پیر کے روز ہی آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے روز ہی آپ کی وفات ہوئی۔
آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔یعنی ہاتھیوں والے سال میں۔اس سال کو ہاتھیوں والا سال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔
آپ کی پیدائش اس واقعے کے کچھ ہی دن بعد ہوئی تھی ۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ:
ابرہہ یمن کا عیسائی حاکم تھا ۔ حج کے دنوں میں اس نے دیکھا کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں ۔ اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا:
’’ یہ لوگ کہاں جاتے ہیں ۔‘‘
اسے جواب ملا:
’’ بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں ۔‘‘
اس نے پوچھا:
’’ بیت اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے۔‘‘
اسے بتایا گیا:
’’ پتھروں کا ہے ۔‘‘
اس نے پوچھا:
’’ اس کا لباس کیا ہے۔‘‘
بتایا گیا:
’’ ہمارے ہاں سے جو دھاری دار کپڑا جاتا ہے اس سے اس کی پوشاک تیار ہوتی ہے۔‘‘
ابرہہ عیسائی تھا ، ساری بات سن کر اس نے کہا :
’’مسیح کی قسم! میں تم لوگوں کے لیے اس سے اچھا گھر تعمیر کروں گا ۔‘‘
اس طرح اس نے سرخ ، سفید ، زرد اور سیاہ پتھروں سے ایک گھر بنوایا ۔ سونے اور چاندی سے اس کو سجایا ۔اس میں کئی دروازے رکھوائے۔ اس میں سونے کے پترے جڑوائے ۔ اس کے درمیان میں جواہر لگوائے ۔ اس مکان میں ایک بڑا سا یاقوت لگوایا ۔ پردے لگوائے ۔وہاں خوشبوئیں سلگانے کا انتظام کیا ۔ اس کی دیواروں پر اس قدر مشک ملا جاتا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کی ہوگئیں ۔ یہاں تک کہ جواہر بھی نظر نہیں آتے تھے۔
پھر لوگوں سے کہا:
’’ اب تمہیں بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جانے کی ضرورت نہیں رہی،میں نے یہیں تمہارے لیے بیت اللہ بنوادیا ہے لہٰذا اب تم اس کا طواف کرو ۔‘‘
اس طرح کچھ قبائل کئی سال تک اس کا حج کرتے رہے ۔ اس میں اعتکاف کرتے رہے ۔ حج والے مناسک بھی یہیں ادا کرتے رہے ۔
عرب کے ایک شخص نفیل خشمی سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی ۔ وہ اس مصنوعی خانہ کعبہ کے خلاف دل ہی دل میں کڑھتا رہا ۔آخر اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ ابرہہ کی اس عمارت کو گندہ کرکے چھوڑے گا ۔پھر ایک رات اس نے چوری چھپے بہت سی گندگی اس میں ڈال دی ۔ابرہہ کو معلوم ہوا تو سخت غضب ناک ہوا کہنے لگا:
’’یہ کارروائی کسی عرب نے اپنے کعبہ کے لیے کی ہے،میں اسے ڈھادوں گا ۔اس کا ایک ایک پتھر توڑدوں گا ۔‘‘
اس نے شاہ حبشہ کو یہ تفصیلات لکھ دیں،اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا ہاتھی بھیج دے ۔ اس ہاتھی کا نام محمود تھا ۔ یہ اس قدر بڑا تھا کہ اتنا بڑا ہاتھی روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔ جب ہاتھی اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ اپنی فوج لیکر نکلا اور مکہ کا رخ کیا ۔ یہ لشکر جب مکہ کے قرب و جوار میں پہنچا تو ابرہہ نے فوج کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے جانور لوٹ لیے جائیں ۔ اس کے حکم پر فوجیوں نے جانور پکڑ لیے ۔ ان میں عبدالمطلِّب کے اونٹ بھی تھے ۔
نفیل بھی اس لشکر میں ابرہہ کے ساتھ موجود تھا اور یہ عبدالمطلِّب کا دوست تھا ۔ عبدالمطلِّب اس سے ملے ۔ اونٹوں کے سلسلے میں بات کی ۔نفیل نے ابرہہ سے کہا:
’’ قریش کا سردار عبدالمطلِّب ملنا چاہتا ہے ،یہ شخص تمام عرب کا سردار ہے ۔ شرف اور بزرگی اسے حاصل ہے ۔لوگوں میں اس کا بہت بڑا اثر ہے ۔لوگوں کو اچھے اچھے گھوڑے دیتا ہے،انہیں عطیات دیتا ہے، کھانا کھلاتا ہے۔‘‘
یہ گویا عبدالمطلِّب کا تعارف تھا ۔ ابرہہ نے انہیں ملاقات کے لیے بلالیا ۔ابرہہ نے ان سے پوچھا :
’’ بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’ میں چاہتا ہوں میرے اونٹ مجھے واپس مل جائیں ۔‘‘
ان کی بات سن کر ابرہہ بہت حیران ہوا ۔ اس نے کہا:
’’ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ عرب کے سردار ہے ۔ بہت عِزّت اور بزرگی کے مالک ہیں ۔ لیکن لگتا ہے مجھ سے غلط بیانی کی گئی ہے۔ کیونکہ میرا خیال تھا آپ مجھ سے بیت اللہ کے بارے میں بات کریں گے جس کو میں گرانے آیا ہوں اور جس کے ساتھ آپ سب کی عِزّت وابستہ ہے لیکن آپ نے تو سرے سے اس کی بات ہی نہیں کی اور اپنے اونٹوں کا رونا لیکر بیٹھ گئے ۔ یہ کیا بات ہوئی۔‘‘
اس کی بات سن کر عبدالمطلِّب بولے :
’’آپ میرے اونٹ مجھے واپس دے دیں ۔بیت اللہ کے ساتھ جو چاہیں کریں ۔ اس لیے کہ اس گھر کا ایک پروردگار ہے ۔ وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا ۔ مجھے اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
ان کی بات سن کر ابرہہ نے حکم دیا:
’’ان کے اونٹ واپس دے دیے جائیں۔‘‘
جب انہیں ان کے اونٹ واپس مل گئے تو انھوں نے ان کے سموں پر چمڑے چڑھا دیے ۔ ان پر نشان لگادیے ۔ انہیں قربانی کے لیے وقف کرکے حرم میں چھوڑ دیا تاکہ پھر کوئی انہیں پکڑ لے تو حرم کا پروردگار اس پر غضب ناک ہو ۔
پھر عبدالمطلِّب حِرا پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست تھے ۔ انہوں نے اللہ سے درخواست کی:’’اے اللہ! انسان اپنے سامان کی حفاظت کرتا ہے، تو اپنے سامان کی حفاظت کر۔‘‘
ادھر سے ابرہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا۔وہ خود ہاتھی پر سوار لشکر کے درمیان موجود تھا۔ایسے میں اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ہاتھی بانوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ اٹھا۔انہوں نے اس کے سر پر ضربیں لگائیں۔آنکس چبھوئے مگر وہ کھڑا نہ ہوا۔کچھ سوچ کر انہوں نے اس کا رخ یمن کی طرف کیا تو وہ فوراً اس طرف چلنے لگا۔اس کا رخ پھر مکہ کی طرف کیا گیا تو پھر رک گیا۔ہاتھی بانوں نے یہ تجربہ بار بار کیا۔آخر ابرہہ نے حکم دیا، ہاتھی کو شراب پلائی جائے تاکہ نشے میں اسے کچھ ہوش نہ رہ جائے اور ہم اسے مکہ کی طرف آگے بڑھاسکیں۔چنانچہ اسے شراب پلائی گئی، لیکن اس پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔

ابرہہ کا انجام

ابرہہ کے ہاتھی کو اٹھانے کی مسلسل کوشش جاری تھی کہ اچانک سمندر کی طرف سے ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کو بھیج دیا۔وہ ٹڈیوں کے جھنڈ کی طرح آئیں۔
دوسری طرف عبدالمطلب مکہ میں داخل ہوئے۔ حرم میں پہنچے اور کعبہ کے دروازے کی زنجیرپکڑ کر ابرہہ اور اس کے لشکر کے خلاف فتح کی دعا مانگی۔ان کی دعا کے الفاظ یہ تھے۔
’’اے اللہ! یہ بندہ اپنے قافلے اور اپنی جماعت کی حفاظت کررہا ہے تو اپنے گھر یعنی بیت اللہ کی حفاظت فرما۔ابرہہ کا لشکر فتح نہ حاصل کرسکے۔ان کی طاقت تیری طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں، آج صلیب کامیاب نہ ہو۔‘‘صلیب کا لفظ اس لیے بولا کہ ابرہہ عیسائی تھا اور صلیب کو عیسائی اپنے نشان کے طور پر ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اب انہوں نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور حرا پہاڑ پر چڑھ گئے، کیونکہ ان کا خیال تھا، وہ ابرہہ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔یہ پرندے چڑیا سے قدرے بڑے تھے۔ان میں سے ہر پرندے کی چونچ میں پتھر کے تین تین ٹکڑے تھے۔یہ پتھر پرندوں نے ابرہہ کے لشکر پر گرانے شروع کیے۔جونہی یہ پتھر ان پر گرے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، بالکل اسی طرح جیسے آج کسی جگہ اوپر سے بم گرایا جائے تو جسموں کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ابرہہ کا ہاتھی محمود البتہ ان کنکریوں سے محفوظ رہا۔باقی سب ہاتھی تہس نہس ہوگئے۔ یہ ہاتھی 13 عدد تھے۔سب کے سب کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہوگئے۔جیسا کہ سورۃ الفیل میں آتا ہے۔
ابرہہ اور اس کے کچھ ساتھی تباہی کا یہ منظر دیکھ کر بری طرح بھاگے۔لیکن پرندوں نے ان کو بھی نہ چھوڑا۔ابرہہ کے بارے میں طبقات میں لکھا ہے کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ ہوکر گرتا چلا گیا۔یعنی وہ بھاگ رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ ہوکر گررہا تھا۔
دوسری طرف عبدالمطلب اس انتظار میں تھے کہ کب حملہ ہوتا ہے، لیکن حملہ آور جب مکہ میں داخل نہ ہوئے تو وہ حالات معلوم کرنے کے لیے نیچے اترے۔مکہ سے باہر نکلے، تب انہوں نے دیکھا، سارا لشکر تباہ ہوچکا ہے۔خوب مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا۔بیشمار سامان ہاتھ آیا، مال میں سونا چاندی بھی بے تحاشا تھا۔
لشکر میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو واپس نہیں بھاگے تھے۔یہ مکہ میں رہ گئے تھے ان میں ابرہہ کے ہاتھی کا مہاوت بھی تھا جو محمود کو آگے لانے میں ناکام رہا تھا۔
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے چند دن بعد پیدا ہوئے۔آپ جس مکان میں پیدا ہوئے، وہ صفا پہاڑی کے قریب تھا۔حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ میں ہوگی، یہ کعب پہلے یہودی تھے، اس لیے تورات پڑھا کرتے تھے۔
دنیا میں آتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جب حضرت آمنہ کے ہاں ولادت ہوئی تو میں وہاں موجود تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاتھوں میں آئے۔یہ غالباً دایہ تھیں۔ان کا نام شفا تھا۔فرماتی ہیں: ’’جب آپ میرے ہاتھوں میں آئے تو روئے۔‘‘
آپ کے دادا عبدالمطلب کو آپ کی ولادت کی اطلاع دی گئی۔وہ اس وقت خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔اطلاع ملنے پر گھر آئے۔بچے کو گود میں لیا۔اس وقت آپ کی والدہ نے ان سے کہا:
’’یہ بچہ عجیب ہے، سجدے کی حالت میں پیدا ہوا ہے، یعنی پیدا ہوتے ہی اس نے پہلے سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔‘‘
عبدالمطلب نے آپ کو دیکھا۔اس کے بعد آپ کو کعبہ میں لے آئے۔آپ کو گود میں لیے رہے اور طواف کرتے رہے۔پھر واپس لاکر حضرت آمنہ کو دیا۔آپ کو عرب کے دستور کے مطابق ایک برتن سے ڈھانپا گیا، لیکن وہ برتن ٹوٹ کر آپ کے اوپر سے ہٹ گیا۔اس وقت آپ اپنا انگوٹھا چوستے نظر آئے۔
اس موقع پر شیطان بری طرح چیخا۔تفسیر ابن مخلد میں ہے کہ شیطان صرف چار مرتبہ چیخا، پہلی بار اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اسے معلون ٹھہرایا، دوسری بار اس وقت جب اسے زمین پر اتارا گیا، تیسری بار اس وقت چیخا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور چوتھی مرتبہ اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔
اس موقع پرحضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’میں آٹھ سال کا تھا، جو کچھ دیکھتا اور سنتا تھا، اس کو سمجھتا تھا۔ایک صبح میں نے یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ایک یہودی کو دیکھا، وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر چلا رہا تھا۔لوگ اس یہودی کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
’’کیا بات ہے، کیوں چیخ رہے ہو؟ ‘‘
یہودی نے جواب دیا:
’’احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے اور وہ آج رات پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بعد میں 60 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے۔120 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔گویا ایمان کی حالت میں 60 سال زندہ رہے۔بہت اچھے شاعر تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اشعار میں تعریف کیا کرتے تھے اور دشمنوں کی برائی اشعار میں بیان کرتے تھے۔غزوات کے مواقع پراشعار کے ذریعے مسلمانوں کو جوش دلاتے تھے۔اسی بنیاد پر انہیں شاعر رسول کا خطاب ملا تھا۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کی خبر دے دی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا تھا:
’’تمہارے نزدیک جو مشہور چمک دار ستارہ ہے، جب وہ حرکت میں آئے گا، تو وہی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ہوگا۔‘‘
یہ خبر بنی اسرائیل کے علماء ایک دوسرے کو دیتے چلے آئے تھے اور اس طرح بنی اسرائیل کو بھی آنحضرت کی ولادت کا وقت یعنی اس کی علامت معلوم تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم مکہ میں رہتا تھا، جب وہ رات آئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو وہ قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا، اس نے کہا:
’’کیا تمہارے ہاں آج کوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔‘‘
لوگوں نے کہا:
’’ہمیں تو معلوم نہیں۔‘‘
اس پر اس یہودی نے کہا:
’’میں جو کچھ کہتا ہوں، اسے اچھی طرح سن لو، آج اس امت کا آخری نبی پیدا ہوگیا ہے اور قریش کے لوگوں! وہ تم میں سے ہے، یعنی وہ قریشی ہے۔اس کے کندھے کے پاس ایک علامت ہے(یعنی مہر نبوت)اس میں بہت زیادہ بال ہیں۔یعنی گھنے بال ہیں اور یہ نبوت کا نشان ہے۔نبوت کی دلیل ہے۔اس بچے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ دو رات تک دودھ نہیں پئے گا۔ان باتوں کا ذکر اس کی نبوت کی علامات کے طور پر پرانی کتب میں موجود ہے۔
علامہ ابن حجر نے لکھاہے کہ یہ بات درست ہے، آپ نے دودن تک دودھ نہیں پیاتھا۔
یہودی عالم نے جب یہ باتیں بتائیں تولوگ وہاں سے اٹھ گئے۔انہیں یہودی کی باتیں سن کر بہت حیرت ہوئی تھی۔جب وہ لوگ اپنے گھروں میں پہنچے توان میں سے ہر ایک نے اس کی باتیں اپنے گھرکے افرادکوبتائیں، عورتوں کوچونکہ حضرت آمنہ کے ہاں بیٹاپیداہونے کی خبرہوچکی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے مردوں کوبتایا:
’’آج رات تو پھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ہاں بیٹا پیدا ہواہے۔‘‘
اب یہ بات یہودی عالم کو بتائی گئی،اس نے کہا:
’’ذراچل کر مجھے وہ بچہ دکھاؤ۔‘‘
لوگ اسے ساتھ لیے حضرت آمنہ کے گھرکے باہرآئے، ان سے بچہ دکھانے کی درخواست کی۔آپ نے بچے کوکپڑے سے نکال کرانہیں دے دیا۔لوگوں نے آپ کے کندھے پرسے کپڑاہٹایا۔یہودی کی نظر جونہی مہرنبوت پر پڑی، وہ فوراًبیہوش ہوکرگر پڑا، اسے ہوش آیاتو لوگوں نے اس سے پوچھا:
’’تمہیں کیاہوگیاتھا۔‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’میں اس غم سے بیہوش ہواتھاکہ میری قوم میں سے نبوت ختم ہوگئی اور اے قریشیو! اللہ کی قسم! یہ بچہ تم پر زبردست غلبہ حاصل کریگا اور اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پھیل جائیگی۔‘‘

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ستارہ چمکا

ملک شام کاایک یہودی عیص مکہ سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا۔وہ جب بھی کسی کام سے مکہ آتا، وہاں کے لوگوں سے ملتا تو ان سے کہتا:
’’بہت قریب کے زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا، سارا عرب اس کے راستے پر چلے گا۔ اس کے سامنے ذلیل اور پست ہوجائے گا۔وہ عجم اور اس کے شہروں کا بھی مالک ہوجائے گا۔یہی اس کا زمانہ ہے۔جو اس کی نبوت کے زمانے کو پائے گا اور اس کی پیروی کرے گا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔جس خیر اور بھلائی کی وہ امید کرتاہے، وہ اس کو حاصل ہوگی اور جو شخص اس کی نبوت کا زمانہ پائے گا مگر اس کی مخالفت کرے گا، وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔‘‘
مکہ معظمہ میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ یہودی اس بچے کے بارے میں تحقیق کرتا اور کہتا، ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا۔آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو عبدالمطلب اپنے گھر سے نکل کر اس یہودی کے پاس پہنچے۔اس کی عبادت گاہ کے دروازے پر پہنچ کر انہوں آواز دی۔عیص نے پوچھا:
’’کون ہے؟ ‘‘
انہوں نے اپنا نام بتایا۔پھر اس سے پوچھا:
’’تم اس بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ‘‘
اس نے انہیں دیکھا، پھر بولا:
’’ہاں! تم ہی اس کے باپ ہوسکتے ہو، بیشک وہ بچہ پیدا ہوگیا ہے جس کے بارے میں، میں تم لوگوں سے کہا کرتا تھا۔وہ ستارہ آج طلوع ہوگیا ہے جو اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے…اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے، یہ تکلیف اسے تین دن رہے گی، اور اس کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
راہب نے جو یہ کہا تھا کہ بچہ تین دن تک تکلیف میں رہے گا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے تین دن تک دودھ نہیں پیا تھا اور یہودی نے جو یہ کہا تھا کہ ہاں! آپ ہی اس کے باپ ہوسکتے ہیں، اس سے یہ مراد ہے کہ عربوں میں دادا کو بھی باپ کہہ دیا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خود فرمایا تھا:
’’میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
یہودی نے عبدالمطلب سے یہ بھی کہا تھا:
’’اس بارے میں اپنی زبان بند رکھیں، یعنی کسی کو کچھ نہ بتائیں، ورنہ لوگ اس بچے سے زبردست حسد کریں گے، اتنا حسد کریں گے کہ آج تک کسی نے نہیں کیا اور اس کی اس قدر سخت مخالفت ہوگی کہ دنیا میں کسی اور کی اتنی مخالفت نہیں ہوئی۔‘‘
پوتے کے متعلق یہ باتیں سن کر عبدالمطلب نے عیص سے پوچھا:
’’اس بچے کی عمر کتنی ہوگی؟‘‘
یہودی نے اس سوال کے جواب میں کہا:
’’اگر اس بچے کی عمر طبعی ہوئی تو بھی ستر سال تک نہیں ہوگی۔بلکہ اس سے پہلے ہی 61 یا 63 سال کی عمر میں وفات ہوجائے گی اور اس کی امت کی اوسط عمر بھی اتنی ہوگی، اس کی پیدائش کے وقت دنیا کے بت ٹوٹ کر گر جائیں گے۔‘‘
یہ ساری علامات اس یہودی نے گزشتہ انبیاء کی پیش گوئیوں سے معلوم کی تھیں اور سب کی سب بالکل سچ ثابت ہوئیں۔
قریش کے کچھ لوگ عمرو بن نفیل اور عبداللہ بن حجش وغیرہ ایک بت کے پاس جایا کرتے تھے۔یہ اس رات بھی اس کے پاس گئے، جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔انہوں نے دیکھا وہ بت اوندھے منہ گرا پڑا ہے۔ان لوگوں کو یہ بات بری لگی، انہوں نے اس کو اٹھایا، سیدھا کردیا مگر وہ پھر گرگیا۔انہوں نے پھر اس کو سیدھا کیا، وہ پھر الٹا ہوگیا۔ان لوگوں کو بہت حیرت ہوئی، یہ بات بہت عجیب لگی۔تب اس بت سے آواز نکلی۔
’’یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش کی خبر ہے، جس کے نور سے مشرق اور مغرب میں زمین کے تمام گوشے منور ہوگئے ہیں۔‘‘
بت سے نکلنے والی آواز نے انہیں اور زیادہ حیرت زدہ کردیا۔
اس کے علاوہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایران کے شہنشاہ کسریٰ نوشیرواں کا محل ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے۔نوشیرواں کا یہ محل نہایت مضبوط تھا۔بڑے بڑے پتھروں اور چونے سے تعمیر کیا گیا تھا۔اس واقعے سے پوری سلطنت میں دہشت پھیل گئی۔شگاف پڑنے سے خوفناک آواز بھی نکلی تھی۔محل کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر نیچے آگرے تھے۔
آپ کی پیدائش پر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ فارس کے تمام آتش کدوں کی وہ آگ بجھ گئی جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو بجھنے نہیں دیتے تھے، لیکن اس رات میں ایک ہی وقت میں تمام کے تمام آتش کدوں کی آگ آناً فاناً بجھ گئی۔آگ کے پوجنے والوں میں رونا پیٹنا مچ گیا۔
کسریٰ کو یہ تمام اطلاعات ملیں تو اس نے ایک کاہن کو بلایا۔اس نے اپنے محل میں شگاف پڑنے اور آتش کدوں کی آگ بجھنے کے واقعات اسے سناکر پوچھا:
’’آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔‘‘
وہ کاہن خود تو جواب نہ دے سکا، تاہم اس نے کہا:
’’ان سوالات کے جوابات میرا ماموں دے سکتا ہے، اس کا نام سطیح ہے۔‘‘
نوشیرواں نے کہا:
’’ٹھیک ہے، تم جا کر ان سوالات کے جوابات لاؤ۔‘‘
وہ گیا، سطیح سے ملا، اسے یہ واقعات سنائے، اس نے سن کر کہا:
’’ایک عصا والے نبی ظاہر ہوں گے جو عرب اور شام پر چھا جائیں گے اور جو کچھ ہونے والا ہے، ہو کر رہے گا۔‘‘
اس نے یہ جواب کسریٰ کو بتایا۔ اس وقت تک کسریٰ نے دوسرے کاہنوں سے بھی معلومات حاصل کر لی تھیں، چنانچہ یہ سن کر اس نے کہا:
’’تب پھر ابھی وہ وقت آنے میں دیر ہے۔‘‘ (یعنی ان کا غلبہ میرے بعد ہو گا)
پیدائش کے ساتویں دن عبدالمطلب نے آپ کا عقیقہ کیا اور نام ’’محمد‘‘ رکھا۔ عربوں میں اس سے پہلے یہ نام کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ قریش کو یہ نام عجیب سا لگا۔چنانچہ کچھ لوگوں نے عبدالمطلب سے کہا:
’’اے عبدالمطلب! کیا وجہ ہے کہ تم نے اس بچے کا نام اس کے باپ دادا کے نام پر نہیں رکھا بلکہ محمد رکھا ہے اور یہ نام نہ تمہارے باپ دادا میں سے کسی کا ہے، نہ تمہاری قوم میں سے کسی کا ہے۔‘‘
عبدالمطلب نے انہیں جواب دیا:
’’میری تمنا ہے کہ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ اس بچے کی تعریف فرمائیں اور زمین پر لوگ اس کی تعریف کریں۔‘‘
(محمد کے معنی ہیں جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے۔)
اسی طرح والدہ کی طرف سے آپ کا نام احمد رکھا گیا۔ احمد نام بھی اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ان دونوں ناموں کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور کوئی بھی یہ نام نہ رکھ سکا۔ احمد کا مطلب ہے سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔
علامہ سہیلی نے لکھا ہے کہ آپ احمد پہلے ہیں اور محمد بعد میں۔ یعنی آپ کی تعریف دوسروں نے بعد میں کی، اس سے پہلے آپ کی شان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔ پرانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ذکر کیا گیا ہے۔
اپنی والدہ کے بعد آپ نے سب سے پہلے ثوبیہ کا دوھ پیا، ثوبیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی باندی تھیں۔ ان کو ابو لہب نے آپ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ ثوبیہ نے آپ کو چند دن تک دودھ پلایا۔ انہیں دنوں ثوبیہ کے ہاں اپنا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو صرف نو دن تک دودھ پلایا۔ انکے بعد ثوبیہ نے پلایا۔ پھر دودھ پلانے کی باری حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی آئی۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی بستی سے روانہ ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کا دودھ پیتا بچہ اور شوہر بھی تھے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا دوسری عورتوں کے بعد مکہ میں داخل ہوئیں۔ ان کا خچر بہت کمزور اور مریل تھا۔ ان کے ساتھ ان کی کمزور اور بوڑھی اونٹنی تھی۔ وہ بہت آہستہ چلتی تھی۔ ان کی وجہ سے حلیمہ رضی اللہ عنہا قافلے سے بہت پیچھے رہ جاتی تھیں۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ سب سے آخر میں مکہ میں داخل ہوئیں۔

حلیمہ سعدیہؓ کی گود میں

اس زمانے میں عرب کا دستور یہ تھاکہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ ہوتا تو وہ دیہات سے آنیوالی دائیوں کے حوالے کردیتے تھے تاکہ دیہات میں بچے کی نشوونمابہتر ہواوروہ خالص عربی زبان سیکھ سکے۔
دائیوں کا قافلہ مکہ میں داخل ہوا۔انہوں نے ان گھروں کی تلاش شروع کی جن میں بچے پیدا ہوئے تھے۔اس طرح بہت سی دائیاں جناب عبد المطلب کے گھر بھی آئیں۔نبی کریمﷺکو دیکھالیکن جب انہیں معلوم ہواکہ یہ بچہ تو یتیم پیدا ہواہے تو اس خیال سے چھوڑکر آگے بڑھ گئیں کہ یتیم بچے کے گھرانے سے انہیں کیاملے گا۔اس طرح دائیاں آتی رہیں، جاتی رہیں…کسی نے آپ کو دودھ پلانامنظور نہ کیااور کرتیں بھی کیسے؟ یہ سعادت تو حضرت حلیمہؓ کے حصے میں آنی تھی۔
جب حلیمہؓ مکہ پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا، سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیاہے اور اب صرف وہ بغیر بچے کے رہ گئیں ہیں اور اب کوئی بچہ باقی نہیں بچا، ہاں ایک یتیم بچہ ضرور باقی ہے جسے دوسری عورتیں چھوڑ گئیں ہیں۔
حلیمہ سعدیہؓ نے اپنے شوہر عبد اللہ ابن حارث سے کہا:
’’خدا کی قسم! مجھے یہ بات بہت ناگوار گزر رہی ہے کہ میں بچے کے بغیر جاؤں۔دوسری سب عورتیں بچے لے کر جائیں، یہ مجھے طعنے دیں گے، اس لیے کیوں نہ ہم اسی یتیم بچے کو لے لیں۔‘‘
عبداللہ بن حارث بولے:
’’کوئی حرج نہیں! ہوسکتا ہے، اللہ اسی بچے کے ذریعے ہمیں خیروبرکت عطا فرمادیں۔‘‘
چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا عبدالمطلب کے گھر گئیں۔جناب عبدالمطلب اور حضرت آمنہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔پھر آمنہ انہیں بچے کے پاس لے آئیں۔آپ اس وقت ایک اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔وہ چادر سفید رنگ کی تھی۔آپ کے نیچے ایک سبز رنگ کا ریشمی کپڑا تھا۔آپ سیدھے لیٹے ہوئے تھے، آپ کے سانس کی آواز کے ساتھ مشک کی سی خوشبو نکل کر پھیل رہی تھی۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے، انہوں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔لیکن جونہی انہوں نے پیار سے اپنا ہاتھ آپ کے سینے پر رکھا، آپ مسکرادیے اور آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میں نے دیکھا، آپ کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا، میں نے آپ کو گود میں اٹھا کر آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیانی جگہ پر پیار کیا۔پھر میں نے آپ کی والدہ اور عبدالمطلب سے اجازت چاہی، بچے کو لیے قافلے میں آئی۔میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹایا تو آپ دائیں طرف سے دودھ پینے لگے، پہلے میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانا چاہا، لیکن آپ نے اس طرف سے دودھ نہ پیا، دائیں طرف سے آپ فوراً دودھ پینے لگے۔بعد میں بھی آپ کی یہی عادت رہی، آپ صرف دائیں طرف سے دودھ پیتے رہے، بائیں طرف سے میرا بچہ دودھ پیتا رہا۔‘‘
پھر قافلہ روانہ ہوا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میں اپنے خچر پر سوار ہوئی۔آپ کو ساتھ لے لیا۔اب جو ہمارا خچر چلا تو اس قدر تیز چلاکہ اس نے پورے قافلے کی سواریوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔پہلے وہ مریل ہونے کی بنا پر سب سے پیچھے رہتا تھا۔میری خواتین ساتھی حیرانگی سے مخاطب ہوئیں:
’’اے حلیمہ! یہ آج کیا ہورہا ہے، تمہارا خچر اس قدر تیز کیسے چل رہا ہے، کیا یہ وہی خچر ہے، جس پر تم آئی تھیں اور جس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل تھا؟ ‘‘
جواب میں میں نے ان سے کہا:
’’بیشک! یہ وہی خچر ہے، اللہ کی قسم! اس کا معاملہ عجیب ہے۔‘‘
پھر یہ لوگ بنو سعد کی بستی پہنچ گئے، ان دنوں یہ علاقہ خشک اور قحط زدہ تھا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’اس شام جب ہماری بکریاں چر کر واپس آئیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا، ان میں سے دودھ بہت کم اور بہت مشکل سے نکلتا تھا۔ہم نے اس دن اپنی بکریوں کا دودھ دوہا تو ہمارے سارے برتن بھرگئے اور ہم نے جان لیا کہ یہ ساری برکت اس بچے کی وجہ سے ہے۔آس پاس کی عورتوں میں بھی یہ بات پھیل گئی، ان کی بکریاں بدستور بہت کم دودھ دے رہی تھیں۔
غرض ہمارے گھر میں ہر طرف، ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔دوسرے لوگ تعجب میں رہے۔اس طرح دو ماہ گزر گئے۔دو ماہ ہی میں آپ چلنے پھرنے لگے۔آپ آٹھ ماہ کے ہوئے تو باتیں کرنے لگے اور آپ کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں۔نو ماہ کی عمر میں تو آپ بہت صاف گفتگو کرنے لگے۔‘‘
اس دوران آپ کی بہت سی برکات دیکھنے میں آئیں۔حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں:
’’جب میں آپ کو اپنے گھر لے آئی تو بنو سعد کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا۔جس سے مشک کی خوشبو نہ آتی ہو، اس طرح سب لوگ آپ سے محبت کرنے لگے۔جب ہم نے آپ کا دودھ چھڑایا تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
اللہ اکبرکبیراوالحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا
پھر جب آپ ﷺدو سال کے ہو گئے تو ہم آپ کو لیکر آپ کی والدہ کے پاس آئے، اس عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو ماں باپ کے حوالے کردیا جاتاتھا۔ادھر ہم آپکی برکات دیکھ چکے تھے اور ہماری آرزو تھی کہ ابھی آپ کچھ اور مدت ہمارے پاس رہیں، چنانچہ ہم نے اس بارے میں آپ کی والدہ سے بات کی، ان سے یوں کہا :
’’ آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بچے کو ایک سال اوراپنے پاس رکھیں، میں ڈرتی ہوں، کہیں اس پر مکہ کی بیماریوں اور آب و ہوا کااثر نہ ہوجائے۔‘‘
جب ہم نے ان سے باربار کہا تو حضرت آمنہ مان گئیں اورہم آپ کو پھر اپنے گھر لے آئے۔جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو باہر نکل کر بچو ں کو دیکھتے تھے۔وہ آپ کو کھیلتے نظر آتے، آپ ان کے نزدیک نہ جاتے، ایک روز آپ نے مجھ سے پو چھا:
’’ امی جان ! کیا بات ہے دن میں میرے بھائی بہن نظر نہیں آتے۔‘‘ آپ اپنے دودھ شریک بھائی عبداللہ اور بہنوں انیسہ اور شیما کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’میں نے آپ کو بتایا، وہ صبح سویرے بکریاں چرانے جاتے ہیں، شام کے بعد گھر آتے ہیں۔‘‘ یہ جان کر آپ نے فرمایا:
’’تب مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا کریں۔‘‘
اسکے بعد آپ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ جانے لگے۔آپ خوش خوش جاتے اور واپس آتے، ایسے میں ایک دن میرے بچے خوف زدہ انداز میں دوڑتے ہوئے آئے اور گھبرا کر بولے:
’’امی جان! جلدی چلئے133 ورنہ بھائی محمدﷺ ختم ہو جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے، دوڑ کر وہاں پہنچے، ہم نے آپ کو دیکھا، آپ کھڑے ہوئے تھے، رنگ اڑا ہوا تھا، چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی ۔ اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ کو سینہ چاک کئے جانے سے کوئی تکلیف ہوئی تھی بلکہ ان فرشتوں کو دیکھ کر آپ کی حالت ہوئی تھی ۔‘‘
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہم نے آپ سے پوچھا:
’’کیا ہوا تھا؟‘‘
آپ نے بتایا:
’’میرے پاس دو آدمی آئے تھے ۔ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔(وہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام تھے) ان دونوں میں سے ایک نے کہا:
’’ کیا یہ وہی ہیں؟‘
دوسرے نے جواب دیا:
’’ہاں یہ وہی ہیں ۔‘‘
پھر وہ دونوں میرے قریب آئے، مجھے پکڑا اور لٹادیا ۔ اس کے بعد انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز تلاش کرنے لگے۔ آخر انہیں وہ چیز مل گئی اور انہوں نے اسے باہر نکال کر پھینک دیا، میں نہیں جانتا، وہ کیا چیز تھی ۔‘‘
اس چیز کے بارے میں دوسری روایات میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ایک دانہ سا تھا ۔ یہ انسان کے جسم میں شیطان کا گھر ہوتا ہے اور شیطان انسان کے بدن میں یہیں سے اثرات ڈالتا ہے ۔
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، پھر ہم آپ کو گھر لے آئے ۔ اس وقت میرے شوہر عبد اللہ بن حارث نے مجھ سے کہا:
’’حلیمہ! مجھے ڈر ہے، کہیں اس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، اس لیے اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو ۔‘‘میں نے کہا، ٹھیک ہے، پھر ہم آپ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔جب میں مکہ کے بالائی علاقے میں پہنچی تو آپ اچانک غائب ہوگئے ۔ میں حواس باختہ ہوگئی۔

یہ غالب آئے گا

حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا:
’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘
عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ’’ لڑکے تم کون ہو؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا:
’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب بولے:
’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘
پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔
آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا:
’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘
حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:
’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘
تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینہ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے:
’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا
کیا یہ بچہ یتیم ہے؟
میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’نہیں! یہ رہے اس بچے کے باپ‘‘
تب انہوں نے کہا:
’’اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے۔‘‘
یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے۔اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے۔اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں۔جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا۔یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا۔عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لیے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی۔اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں۔اس نے پکار کر کہا:
’’لوگو، اس بچے کو مار ڈالو۔‘‘
حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی۔
میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا:
’’کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔‘‘
اس نے ان لوگوں کو بتایا:
’’میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا۔‘‘
یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لیے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الجاز سے ان کا گزر ہوا۔یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا۔اس بازار میں ایک نجومی تھا۔ لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے ۔وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا۔حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی۔وہ چلا اٹھا:
’’اے عرب کے لوگو!اس لڑکے کو قتل کر دو۔یہ یقیناتمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا۔
ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں۔ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا:
’’کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟‘‘
انہوں نے جواب میں کہا:
’’نہیں،کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔‘‘
ان عیسائیوں نے کہا:
’’تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘
حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سے دور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا۔
ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور ان کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے…
جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی۔
جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔
ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے:
’’ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا، پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا:
’’یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں…مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں۔

نرالی شان کا مالک

حضرت آمنہ کے انتقال کے پانچ دن بعد ام ایمن آپ کو لے کر مکہ پہونچیں۔ آپ کو عبدالمطلب کے حوالے کیا۔آپ کے یتیم ہوجانے کا انہیں اتنا صدمہ تھا کہ بیٹے کی وفات پر بھی اتنا نہیں ہوا تھا۔
عبدالمطلب کے لیے کعبہ کے سائے میں ایک قالین بچھایا جاتا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کا احترام اس قدر تھا کہ کوئی اور اس قالین پر بیٹھتا نہیں تھا، چنانچہ ان کے بیٹے اور قریش کے سردار اس قالین کے چاروں طرف بیٹھتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لاتے تو سیدھے اس قالین پر جا بیٹھتے۔ اس وقت آپ ایک تندرست لڑکے تھے، آپ کی عمر نو سال کے قریب ہو چلی تھی، آپ کے چچا عبدالمطلب کے ادب کی وجہ سے آپ کو اس قالین سے ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے :
’’میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم! یہ بہت شان والا ہے۔‘‘
پھر وہ آپ کو محبت سے اس فرش پر بٹھاتے، آپ کی کمر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے، آپ کی باتیں سن سن کر حد درجے خوش ہوتے رہتے۔
کبھی وہ دوسروں سے کہتے:
’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھنے دو، اسے خود بھی احساس ہے کہ اس کی بڑی شان ہے، اور میری آرزو ہے یہ اتنا بلند رتبہ پائے جو کسی عرب کو اس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہو اور نہ بعد میں کسی کو حاصل ہوسکے۔‘‘
ایک بار انہوں نے یہ الفاظ کہے:
’’ میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اس کے مزاج میں طبعی طور بلندی ہے…اس کی شان نرالی ہوگی۔‘‘
یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں حضرت عبدالمطلب کی آنکھیں جواب دے گئی تھیں، آپ نابینا ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں ایک روز وہ اس قالین پر بیٹھے تھے کہ آپ تشریف لے آئے اور سیدھے اس قالین پر جا پہنچے۔ ایک شخص نے آپ کو قالین سے کھینچ لیا۔ اس پر آپ رونے لگے، آپ کے رونے کی آواز سن کر عبدالمطلب بے چین ہوئے اور بولے:
’’میرا بیٹا کیوں رو رہا ہے۔‘‘
’’آپ کے قالین پر بیٹھنا چاہتا ہے…ہم نے اسے قالین سے اتار دیا ہے۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا:
’’میرے بیٹے کو قالین پر ہی بٹھا دو، یہ اپنا رتبہ پہچانتا ہے، میری دعا ہے کہ یہ اس رتبے کو پہنچے جو اس سے پہلے کسی عرب کو نہ ملا ہو،نہ اس کے بعد کسی کو ملے۔‘‘
اس کے بعد پھر کسی نے آپ کو قالین پر بیٹھنے سے نہیں روکا۔
ایک روز بنو مدلج کے کچھ لوگ حضرت عبدالمطلب سے ملنے کے لئے آئے…ان کے پاس اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔بنو مدلج کے لوگوں نے آپ کو دیکھا، یہ لوگ قیافہ شناس تھے، آدمی کا چہرہ دیکھ کر اس کے مستقبل کے بارے میں اندازے بیان کرتے تھے۔انہوں نے عبدالمطلب سے کہا:
’’ اس بچے کی حفاظت کریں، اس لیے کہ مقام ابراہیم پر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان ہے، اس بچے کے پاؤں کا نشان بالکل اس نشان سے ملتا جلتا ہے، اس قدر مشابہت ہم نے کسی اور کے پاؤں کے نشان میں نہیں دیکھی…ہمارا خیال ہے…یہ بچہ نرالی شان کا مالک ہوگا…اس لیے اس کی حفاظت کریں۔‘‘
مقام ابراہیم خانہ کعبہ میں وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ معجزے کے طور پر اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پیروں کے نشان پڑگئے تھے۔ لوگ اس پتھر کی زیارت کرتے ہیں۔ یہی مقام ابراہیم ہے۔ چونکہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس لیے ان کے پاؤں کی مشابہت آپ میں ہونا قدرتی بات تھی۔
ایک روز حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ایسے میں ان کے پاس نجران کے عیسائی آگئے۔ان میں ایک پادری بھی تھا۔ اس پادری نے عبدالمطلب سے کہا:
’’ہماری کتابوں میں ایک ایسے نبی کی علامات ہیں جو اسماعیل کی اولاد میں ہونا باقی ہے، یہ شہر اس کی جائے پیدائش ہوگا، اس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی۔‘‘
ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ کوئی شخص آپ کو لے کر وہاں آپہنچا۔ پادری کی نظر جونہی آپ پر پڑی، وہ چونک اٹھا، آپ کی آنکھوں، کمر اور پیروں کو دیکھ کر وہ چلا اٹھا:
’’ وہ نبی یہی ہیں، یہ تمہارے کیا لگتے ہیں۔‘‘
عبدالمطلب بولے:
’’ یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘
اس پر وہ پادری بولا:
’’ اوہ! تب یہ وہ نہیں…اس لیے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے والد کا انتقال اس کی پیدائش سے پہلے ہوجائے گا۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب بولے:
’’ یہ دراصل میرا پوتا ہے، اس کے باپ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
اس پر پادری بولا:
’’ہاں! یہ بات ہوئی نا…آپ اس کی پوری طرح حفاظت کریں۔‘‘
عبدالمطلب کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو کہتے:
’’میرے بیٹے کو لے آؤ۔‘‘
آپ تشریف لاتے تو عبدالمطلب آپ کو اپنے پاس بٹھاتے۔ آپ کو اپنے ساتھ کھلاتے۔
بہت زیادہ عمر والے ایک صحابی حیدہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’ میں ایک مرتبہ اسلام سے پہلے، جاہلیت کے زمانے میں حج کے لئے مکہ معظمہ گیا۔وہاں بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، جو بہت بوڑھا اور بہت لمبے قد کا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھااور کہہ رہا تھا، اے میرے پروردگار میری سواری کو محمد کی طرف پھیر دے اور اسے میرا دست و بازو بنادے۔میں نے اس بوڑھے کو جب یہ شعر پڑھتے سنا تو لوگوں سے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
لوگوں نے بتایا یہ عبدالمطلب بن ہاشم ہیں۔ انہوں نے اپنے پوتے کو اپنے ایک اونٹ کی تلاش میں بھیجا ہے۔ وہ اونٹ گم ہوگیا ہے، اور وہ پوتا ایسا ہے جب بھی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں اسے بھیجاجاتا ہے تو وہ چیز لے کر ہی آتا ہے۔ پوتے سے پہلے یہ اپنے بیٹوں کو اس اونٹ کی تلاش میں بھیج چکے ہیں، لیکن وہ ناکام لوٹ آئے ہیں، اب چونکہ پوتے کو گئے ہوئے دیر ہوگئی ہے، اس لئے پریشان ہے، اور دعا مانگ رہے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کو لئے تشریف لا رہے ہے۔عبدالمطلب نے آپ کودیکھ کر کہا:
’’میرے بیٹے! میں تمہارے لئے اس قدر فکر مند ہوگیا تھا کہ شاید اس کا اثر کبھی میرے دل سے نہ جائے۔‘‘
عبدالمطلب کی بیوی کا نام رقیقہ بنت ابو سیفی تھا۔ وہ کہتی ہیں:
’’قریش کئی سال سے سخت قحط سالی کا شکار تھے۔بارشیں بالکل بند تھیں۔سب لوگ پریشان تھے، اسی زمانے میں، میں نے ایک خواب دیکھا، کوئی شخص خواب میں کہہ رہا تھا:
اے قریش کے لوگو!تم میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس کے ظہور کا وقت آ گیا ہے۔اس کے ذریعے تمہیں زندگی ملے گی، یعنی خوب بارشیں ہوں گی، سرسبزی اور شادابی ہوگی۔ تم اپنے لوگوں میں سے ایک ایسا شخص تلاش کرو جو لمبے قد کا ہو، گورے رنگ کا ہو، اس کی پلکیں گھنی ہوں، بھنویں اور ابرو ملے ہوئے ہوں، وہ شخص اپنی تمام اولاد کے ساتھ نکلے اور تم میں سے ہر خاندان کا ایک آدمی نکلے، سب پاک صاف ہوں اور خوشبو لگائیں، وہ حجر اسود کو بوسہ دیں پھر سب جبل ابو قیس پر چڑھ جائیں،پھر وہ شخص جس کا حلیہ بتایا گیا ہے، آگے بڑھے اور بارش کی دعا مانگے اور تم سب آمین کہو تو بارش ہو جائے گی۔‘‘
صبح ہوئی تو رقیقہ نے اپنا یہ خواب قریش سے بیان کیا۔انہوں نے ان نشانیوں کو تلاش کیا تو سب کی سب نشانیاں انہیں عبد المطلب میں مل گئیں، چنانچہ سب ان کے پاس جمع ہوئے۔ہر خاندان سے ایک ایک آدمی آیا۔ان سب نے شرائط پوری کیں۔اس کے بعد سب ابو قیس پہاڑ پر چڑھ گئے۔ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے۔آپ اس وقت نو عمر تھے۔پھر عبد المطلب آگے بڑھے اور انہوں نے یوں دعا کی:
’’اے اللہ !یہ سب تیرے غلام ہیں، تیرے غلاموں کی اولاد ہیں، تیری باندیاں ہیں اور تیری باندیوں کی اولاد ہیں، ہم پر جو برا وقت آ پڑا ہے، تو دیکھ رہا ہے، ہم مسلسل قحط سالی کا شکار ہیں۔اب اونٹ، گائیں، گھوڑے، خچر اور گدھے سب کچھ ختم ہو چکے ہیں اور جانوں پر بن آئی ہے۔اس لیے ہماری یہ خشک سالی ختم فرما دے ہمیں زندگی اور سرسبزی اور شادابی عطا فرما دے۔‘‘
ابھی یہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔وادیاں پانی سے بھر گئیں لیکن اس بارش میں ایک بہت عجیب بات ہوئی،اور وہ عجیب بات یہ تھی کہ قریش کو یہ سیرابی ضرور حاصل ہوئی مگر یہ بارش قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کی قریبی بستیوں میں بالکل نہ ہوئی۔اب لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ایک قبیلے پر بارش اور آس پاس کے سب قبیلے بارش سے محروم…تمام قبیلوں کے سردار جمع ہوئے، اس سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی۔ایک سردار نے کہا:
’’ہم زبردست قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں جب کہ قریش کو اللہ تعالیٰ نے بارش عطا کی ہے اور یہ عبد المطلب کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے ہم سب ان کے پاس چلتے ہیں، اگر وہ ہمارے لیے دعا کر دیں تو شاید اللہ ہمیں بھی بارش دے دے۔‘‘
یہ مشورہ سب کو پسند آیا، چنانچہ یہ لوگ مکہ معظمہ میں آئے اور عبد المطلب سے ملے۔انہیں سلام کیا پھر ان سے کہا:
’’اے عبد المطلب ہم کئی سال سے خشک سالی کے شکار ہیں ۔ہمیں آپ کی برکت کے بارے میں معلوم ہوا ہے، اس لیے مہربانی فرما کر آپ ہمارے لیے بھی دعا کریں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کی دعا سے قریش کو بارش عطا کی ہے۔‘‘
ان کی بات سن کر عبد المطلب نے کہا:
’’اچھی بات ہے میں کل میدان عرفات میں آپ لوگوں کے لیے بھی دعا کروں گا۔‘‘
دوسرے دن صبح سویرے عبد المطلب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ان کے ساتھ دوسرے لوگوں کے علاوہ ان کے بیٹے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے۔عرفات کے میدان میں عبد المطلب کے لیے ایک کرسی بچھائی گئی۔وہ اس پر بیٹھ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے گود میں بٹھا لیا، پھر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی:
’’اے اللہ، چمکنے والی بجلی کے پروردگار، اور کڑکنے والی گرج کے مالک، پالنے والوں کے پالنے والے، اور مشکلات کو آسان کرنے والے۔یہ قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کے لوگ ہیں، یہ بہت پریشان ہیں، ان کی کمریں جھک گئی ہیں، یہ تجھ سے اپنی لا چاری اور بے کسی کی فریاد کرتے ہیں اور جان و مال کی بربادی کی شکایت کرتے ہیں ۔پس اے اللہ، ان کے لیے خوب برسنے والے بادل بھیج دے اور آسمان سے ان کے لیے رحمت عطا فرما تاکہ ان کی زمینیں سرسبز ہو جائیں اور ان کی تکالیف دور ہو جائیں۔‘‘
عبد المطلب ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک سیاہ بادل اٹھا، عبد المطلب کی طرف آیا اور اس کے بعد اس کا رخ قبیلہ قیس اور بنو مضر کی بستیوں کی طرف ہو گیا۔یہ دیکھ کر عبد المطلب نے کہا:
’’اے گروہ قریش اور مضر، جاؤ! تمہیں سیرابی حاصل ہو گی۔‘‘
چنانچہ یہ لوگ جب اپنی بستیوں میں پہنچے تو وہاں بارش شروع ہو چکی تھی۔
آپ سات سال کے ہو چکے تھے کہ آپ کی آنکھیں دکھنے کو آگئیں۔مکہ میں آنکھوں کا علاج کرایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔عبد المطلب سے کسی نے کہا:
’’عکاظ کے بازار میں ایک راہب رہتا ہے وہ آنکھوں کی تکالیف کا علاج کرتا ہے۔‘‘
عبد المطلب آپ کو اس کے پاس لے گئے۔اس کی عبادت گاہ کا دروازہ بند تھا۔انہوں نے اسے آواز دی۔راہب نے کوئی جواب نہ دیا۔اچانک عبادت گاہ میں شدید زلزلہ آیا۔راہب ڈر گیا کہ کہیں عبادت خانہ اس کے اوپر نہ گر پڑے۔اس لئے ایک دم باہر نکل آیا۔
اب اس نے آپ کو دیکھا تو چونک اٹھا۔اس نے کہا:
’’اے عبد المطلب!یہ لڑکا اس امت کا نبی ہے۔اگر میں باہر نہ نکل آتا تو یہ عبادت گاہ ضرور مجھ پر گر پڑتی۔اس لڑکے کو فوراً واپس لے جاؤ اور اس کی حفاظت کرو،کہیں یہودیوں یا عیسائیوں میں سے کوئی اسے قتل نہ کر دے۔‘‘
پھر اس نے کہا:
’’اور رہی بات ان کی آنکھوں کی…تو آنکھوں کی دعا تو خود ان کے پاس موجود ہے۔‘‘
عبد المطلب یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے:
’’ان کے اپنے پاس ہے، میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’ہاں،ان کا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگائیں۔‘‘
انہیں نے ایسا ہی کیا، آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں۔
پرانی آسمانی کتابوں میں آپ کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی تھیں۔اس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے۔
یمن میں ایک قبیلہ حمیر تھا۔وہاں ایک شخص سیف بن یزن تھا۔وہ سیف حمیری کہلاتا تھا۔کسی زمانے میں اس کے باپ دادا اس ملک پر حکومت کرتے تھے لیکن پھر حبشیوں نے یمن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ وہاں حبشیوں کی حکومت ہو گئی۔ستر سال تک یمن حبشیوں کے قبضے میں رہا، جب یہ سیف بڑا ہوا تو اس کے اندر اپنے باپ دادا کا ملک آزاد کرانے کی امنگ پیدا ہوئی، چنانچہ اس نے ایک فوج تیار کی۔ فوج کے ذریعے حبشیوں پر حملہ کیا اور انہیں یمن سے بھگا دیا۔اس طرح وہ باپ دادا کے ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا، وہاں کا بادشاہ بن گیا۔یہ یمن عرب کا علاقہ تھا۔جب اس پر حبشیوں نے قبضہ کیا تھا تو عربوں کو بہت افسوس ہوا۔70 سال بعد جب یمن کے لوگوں نے حبشیوں کو نکال باہر کیا تو عربوں کو بہت خوشی ہوئی۔ان کی خوشی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی حبشیوں نے ابرہہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تھی۔چاروں طرف سے عربوں کے وفد سیف کو مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے۔
قریش کا بھی ایک وفد مبارک دینے کے لیے گیا۔اس وفد کے سردار عبد المطلب تھے۔یہ وفد جب یمن پہنچا تو سیف اپنے محل میں تھا۔اس کے سر پر تاج تھا، سامنے تلوار رکھی تھی اور حمیری سردار اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔سیف کو قریش کے وفد کی آمد کے بارے میں بتایا گیا، اسے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ کس رتبے کے ہیں۔اس نے ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دی۔یہ وفد دربار میں پہنچا۔عبد المطلب آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔انہوں نے بات کرنے کی اجازت چاہی، سیف نے کہا:
’’اگر تم بادشاہوں کے سامنے بولنے کے آداب سے واقف ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے۔‘‘
تب عبد المطلب نے کہا:
’’اے بادشاہ، ہم کعبہ کے خادم ہیں، اللہ کے گھر کے محافظ ہیں، ہم آپ کو مبارکباد دینے آئے ہیں۔یمن پر حبشی حکومت ہمارے لیے بھی بوجھ بنی ہوئی تھی۔آپ کو مبارک ہو، آپ کے اس کارنامے سے آپ کے بزرگوں کو بھی عزت ملے گی اور آنے والی نسلوں کو بھی وقار حاصل ہو گا۔‘‘
سیف ان کے الفاظ سن کر بہت خوش ہوا، بے اختیار بول اٹھا:
’’اے شخص تم کون ہو، کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
انہوں نے کہا:
’’میرا نام عبد المطلب بن ہاشم ہے۔‘‘
سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا:
’’تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو۔‘‘
عبد المطلب کی والدہ مدینے کے قبیلے خزرج کی تھیں اور خزرج کا قبیلہ دراصل یمن کا تھا۔اس لیے سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا، تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو۔پھر اس نے کہا:
’’ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد قریش کے وفد کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا۔ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی…یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا۔ایک ماہ کی مہمان نوازی کے بعد سیف نے انہیں بلایا۔عبد المطلب کو اپنے پاس بلا کر اس نے کہا:
’’اے عبد المطلب، میں اپنے علم کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز تمہیں بتا رہا ہوں، تمہارے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں ہر گز نہ بتاتا، تم اس راز کو اس وقت تک راز ہی رکھنا جب تک کہ خود اللہ تعالیٰ اس راز کو ظاہر نہ فرما دے۔ہمارے پاس ایک پوشیدہ کتاب ہے ۔وہ پوشیدہ رازوں کا ایک خزانہ ہے۔ہم دوسروں سے اس کو چھپا کر رکھتے ہیں۔میں نے اس کتاب میں ایک بہت عظیم الشان خبر اور ایک بڑے خطرے کے بارے میں پڑھ لیا ہے…اور وہ آپ کے بارے میں ہے۔‘‘
عبد المطلب یہ باتیں سن کر حد درجے حیرت زدہ ہوئے اور پکار اٹھے:
’’میں سمجھا نہیں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔‘‘
’’سنو، عبد المطلب، جب تہامہ کی وادی یعنی مکہ میں ایسا بچہ پیدا ہو جس کے دونوں کندھوں کے درمیان بالوں کا گچھا (یعنی مہر نبوت) ہو تو اسے امامت اور سرداری حاصل ہو گی اور اس کی وجہ سے تمہیں قیامت تک کے لیے اعزاز ملے گا، عزت ملے گی۔‘‘
عبد المطلب نے یہ سن کر کہا:
’’اے بادشاہ!اللہ کرے آپ کو بھی ایسی خوش بختی میسر آئے، آپ کی ہیبت مجھے روک رہی ہے، ورنہ میں آپ سے پوچھتا کہ اس بچے کا زمانہ کب ہو گا۔‘‘
بادشاہ نے جواب میں کہا:
’’یہی اس کا زمانہ ہے، وہ اسی زمانے میں پیدا ہو گا یا پیدا ہو چکا ہے ۔اس کا نام محمد ہو گا، اس کی والدہ کا انتقال ہو جائے گا، اس کے دادا اور چچا اس کی پرورش کریں گے۔ہم بھی اس کے آرزو مند رہے کہ وہ بچہ ہمارے ہاں پیدا ہو، اللہ تعالیٰ اسے کھلے عام ظاہر فرمائے گا اور اس کے لیے ہم میں سے (یعنی مدینے کے قبیلے خزرج میں) اس نبی کے مددگار بنائے گا (ہم میں سے اس نے اس لیے کہا کہ خزرج اصل میں یمن کے لوگ تھے) ان کے ذریعے اس نبی کے خاندان اور قبیلے والوں کو عزت حاصل ہو گی اور ان کے ذریعے اس کے دشمنوں کو ذلت ملے گی اور ان کے ذریعے وہ تمام لوگوں سے مقابلہ کرے گا اور ان کے ذریعے زمین کے اہم علاقے فتح ہو جائیں گے۔وہ نبی رحمان کی عبادت کرے گا، شیطان کو دھمکائے گا۔آتش کدوں کو ٹھنڈا کرے گا (یعنی آگ کے پجاریوں کو مٹائے گا) بتوں کو توڑ ڈالے گا، اس کی ہر بات آخری فرمان ہو گی، اس کے احکامات انصاف والے ہوں گے، وہ نیک کاموں کا حکم دے گا، خود بھی ان پر عمل کرے گا، برائیوں سے روکے گا، ان کو مٹا ڈالے گا۔‘‘
عبد المطلب نے سیف بن یزن کو دعا دی۔پھر کہا:
’’کچھ اور تفصیل بیان کریں۔‘‘
’’بات ڈھکی چھپی ہے اور علامتیں پوشیدہ ہیں مگر اے عبد المطلب اس میں شبہ نہیں کہ تم اس کے دادا ہو۔‘‘
عبد المطلب یہ سن کر فوراً سجدے میں گر گئے اور پھر سیف نے ان سے کہا:
’’اپنا سر اٹھاؤ،اپنی پیشانی اونچی کرو،اور مجھے بتاؤ، جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے،کیا تم نے ان میں سے کوئی علامت اپنے ہاں دیکھی ہے؟‘‘
اس پر عبد المطلب نے کہا:
’’ہاں میرا ایک بیٹا تھا،میں اسے بہت چاہتا تھا،میں نے ایک شریف اور معزز لڑکی آمنہ بنت وہب عبد مناف سے اس کی شادی کر دی،وہ میری قوم کے انتہائی باعزت خاندان سے تھی،اس سے میرے بیٹے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،میں نے اس کا نام محمد رکھا،اس بچے کا باپ اور ماں دونوں فوت ہو چکے ہیں۔اب میں اور اس کا چچا ابو طالب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘‘
اب سیف نے ان سے کہا:
’’میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے،وہ واقعہ اسی طرح ہے۔ اب تم اپنے پوتے کی حفاظت کرو،اسے یہودیوں سے بچائے رکھو،اس لیے کہ وہ اس کے دشمن ہیں،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گز ان لوگوں کو ان پر قابو نہیں پانے دے گا اور میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے،اس کا اپنے قبیلے والوں سے ذکر نہ کرنا،مجھے ڈر ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے ان لوگوں میں حسد اور جلن نہ پیدا ہو جائے۔یہ لوگ سوچ سکتے ہیں،یہ عزت اور بلندی آخر انہیں کیوں ملنے والی ہے ۔یہ لوگ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ اگر یہ لوگ اس وقت تک زندہ نہ رہے تو ان کی اولادیں یہ کام کریں گی۔ اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس نبی کے ظہور سے پہلے ہی موت مجھے آ لے گی تو میں اپنے اونٹوں اور قافلے کے ساتھ روانہ ہوتا اور ان کی سلطنت کے مرکز یثرب پہنچتا،کیونکہ میں اس کتاب میں یہ بات پاتا ہوں کہ شہر یثرب ان کی سلطنت کا مرکز ہوگا، ان کی طاقت کا سرچشمہ ہو گا،ان کی مدد اور نصرت کا ٹھکانہ ہو گا اور ان کی وفات کی جگہ ہوگی اور انہیں دفن بھی یہیں کیا جائے گا اور ہماری کتاب پچھلے علوم سے بھری پڑی ہے۔مجھے پتا ہے اگر میں اسی وقت ان کی عظمت کا اعلان کروں تو خود ان کے لیے اور میرے لیے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔یہ ڈر نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بارے میں یہ تمام باتیں سب کو بتا دیتا۔عربوں کے سامنے ان کی سربلندی اور اونچے رتبے کی داستانیں سنا دیتا،لیکن میں نے یہ راز تمہیں بتایا ہے….تمہارے ساتھیوں میں سے بھی کسی کو نہیں بتایا۔‘‘
اس کے بعد اس نے عبد المطلب کے ساتھیوں کو بلایا،ان میں سے ہر ایک کو دس حبشی غلام،دس حبشی باندیاں اور دھاری دار یمنی چادریں،بڑی مقدار میں سونا چاندی،سو سو اونٹ اور عنبر کے بھرے ڈبے دیے۔پھر عبد المطلب کو اس سے دس گنا زیادہ دیا اور بولا:
’’سال گزرنے پر میرے پاس ان کی خبر لے کر آنا اور ان کے حالات بتانا۔‘‘
سال گزرنے سے پہلے ہی اس بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔
عبد المطلب اکثر اس بادشاہ کا ذکر کیا کرتے تھے،آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو عبد المطلب کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ایک عظیم سرپرست کا ساتھ چھوٹ گیا۔اس وقت عبد المطلب کی عمر 95 سال تھی۔تاریخ کی بعض کتابوں میں ان کی عمر اس سے بھی زیادہ لکھی ہے۔
جس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا۔آپ ان کی چارپائی کے پاس موجود تھے،آپ رونے لگے،عبد المطلب کو عجون کے مقام پر ان کے دادا قصی کے پاس دفن کیا گیا۔
مرنے سے پہلے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کیا۔اب ابو طالب آپ کے نگران ہوئے۔انہیں بھی آپ سے بے تحاشا محبت ہو گئی۔
ان کے بھائی عباس اور زبیر بھی آپ کا بہت خیال رکھتے تھے۔پھر زبیر بھی انتقال کر گئے تو آپ کی نگرانی آپ کے چچا ابو طالب ہی کرتے رہے۔
انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت محبت تھی۔جب انہوں نے آپ کی برکات دیکھیں، معجزے دیکھے تو ان کی محبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ یہ مالی اعتبار سے کمزور تھے۔دو وقت سارے گھرانے کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ کھانا کھاتے تو تھوڑا کھانا بھی ان سب کے لیے کافی ہو جاتا۔سب کے پیٹ بھر جاتے۔اسی لیے جب دوپہر یا رات کے کھانے کا وقت ہوتا تو اور سب دسترخوان پر بیٹھتے تو ابو طالب ان سے کہتے:
’’ابھی کھانا شروع نہ کرو،میرا بیٹا آ جائے پھر شروع کرنا۔‘‘
پھر آپ تشریف لے آتے اور ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔آپ کی برکت اس طرح ظاہر ہوتی کہ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی کھانا بچ جاتا،اگر دودھ ہوتا تو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پینے کے لیے دیا جاتا،پھر ابو طالب کے بیٹے پیتے،یہاں تک کہ ایک ہی پیالے سے سب کے سب دودھ پی لیتے،خوب سیر ہو جاتے اور دودھ پھر بھی بچ جاتا،ابو طالب کے لیے ایک تکیہ رکھا رہتا تھا،وہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے تو آ کر سیدھے اس تکیے کے ساتھ بیٹھ جاتے،یہ دیکھ کر ابو طالب کہتے:
’’میرے بیٹے کو اپنے بلند مرتبے کا احساس ہے۔‘‘
ایک بار مکہ میں قحط پڑ گیا،بارش بالکل نہ ہوئی،لوگ ایک دوسرے سے کہتے تھے،لات اور عزیٰ سے بارش کی دعا کرو،کچھ کہتے تھے تیسرے بڑے بت منات پر بھروسہ کرو،اسی دوران ایک بوڑھے نے کہا:
’’تم حق اور سچائی سے بھاگ رہے ہو،تم میں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی نشانی موجود ہے، تم اسے چھوڑ کر غلط راستے پر کیوں جا رہے ہوَ‘‘
اس پر لوگوں نے اس سے کہا:
’’کیا آپ کی مراد ابو طالب سے ہے؟‘‘
اس نے جواب میں کہا:
’’ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
اب سب لوگ ابو طالب کے گھر کی طرف چلے،وہاں پہنچ کر انہوں نے دروازے پر دستک دی،تو ایک خوبصورت آدمی باہر آیا،اس نے تہبند لپیٹ رکھا تھا، سب لوگ اس کی طرف بڑھے اور بولے:
’’اے ابو طالب،وادی میں قحط پڑا ہے،بچے بھوکے مر رہے ہیں،اس لیے آؤ اور ہمارے لیے بارش کی دعا کرو۔‘‘
چنانچہ ابو طالب باہر آئے،ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،آپ ایسے لگ رہے تھے جیسے اندھیرے میں سورج نکل آیا ہو،ابو طالب کے ساتھ اور بھی بچے تھے لیکن انہوں نے آپ ہی کا بازو پکڑا ہوا تھا، اس کے بعد ابو طالب نے آپ کی انگلی پکڑ کر کعبے کا طواف کیا۔یہ طواف کر رہے تھے اور دوسرے لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے،جہاں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن پھر اچانک ہر طرف سے بادل گھر گھر کر آنے لگے،اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ شہر اور جنگل سیراب ہو گئے۔
ابو طالب ایک بار ذی المجاز کے میلے میں گئے،یہ جگہ عرفات سے تقریباً 8 کلو میٹر دور ہے۔ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،ایسے میں ابو طالب کو پیاس محسوس ہوئی۔انہوں نے آپ سے کہا:
’’بھتیجے،مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘
یہ بات انہوں نے اس لیے نہیں کہی تھی کہ آپ کے پاس پانی تھا…بلکہ اپنی بے چینی ظاہر کرنے کے لیے کہی تھی۔چچا کی بات سن کر آپ فوراً سواری سے اتر آئے اور بولے:
’’چچا جان آپ کو پیاس لگی ہے۔‘‘انہوں نے کہا:
’’ہاں بھتیجے۔پیاس لگی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی آپ نے ایک پتھر پر اپنا پاؤں مارا۔

شام کا سفر

جونہی آپ نے پتھر پر پاؤں مارا،اس کے نیچے سے صاف اور عمدہ پانی پھوٹ نکلا،انہوں نے ایسا پانی پہلے کبھی نہیں پیا تھا۔خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا:
’’بھتیجے!کیا آپ سیر ہوچکے؟‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں!‘‘
آپ نے اسی جگہ اپنی ایڑی پھر ماری اور وہ جگہ دوبارہ ایسی خشک ہوگئی جیسے پہلے تھی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند سال اپنے دوسرے چچا زبیر بن عبد المطلب کے ساتھ بھی رہے تھے۔اس زمانے میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان چچا کے ساتھ ایک قافلے میں یمن تشریف لے گئے۔راستے میں ایک وادی سے گزر ہوا۔اس وادی میں ایک سرکش اونٹ رہتا تھا۔گزرنے والوں کا راستہ روک لیتا تھا مگر جونہی اس نے نبی کریم کو دیکھا تو فوراً بیٹھ گیا اور زمین سے اپنی چھاتی رگڑنے لگا۔آپ اپنے اونٹ سے اتر کر اس پر سوار ہوگئے،اب وہ اونٹ آپ کو لے کر چلا اور وادی کے پار تک لے گیا۔اس کے بعد آپ نے اس اونٹ کو چھوڑدیا۔
یہ قافلہ جب سفر سے واپس لوٹا تو ایک ایسی وادی سے اس کا گزر ہوا جو طوفانی پانی سے بھری ہوئی تھی،پانی موجیں مار رہا تھا۔یہ دیکھ کر آپ نے قافلے والوں سے فرمایا:
’’میرے پیچھے پیچھے آؤ۔‘‘
پھر آپ اطمینان سے وادی میں داخل ہوگئے،باقی لوگ بھی آپ کے پیچھے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پانی خشک کردیا اور آپ پورے قافلے کو لیے پار ہوگئے۔قافلہ مکہ پہنچا تو لوگوں نے یہ حیرت ناک واقعات بیان کئے۔لوگ سن کر بول اٹھے:
’’اس لڑکے کی تو کچھ شان ہی نرالی ہے۔‘‘
ابن ہشام لکھتے ہیں،بنولہب کا ایک شخص بہت بڑا قیافہ شناس تھا یعنی لوگوں کی شکل و صورت دیکھ کر ان کے حالات اور مستقبل کے بارے میں اندازہ لگایا کرتا تھا۔مکہ آتا تو لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لاتے۔ وہ انہیں دیکھ دیکھ کر ان کے بارے میں بتاتا تھا۔ایک بار یہ آیا تو ابو طالب آپ کو بھی اس کے پاس لے گئے اور اس وقت آپ ابھی نوعمر لڑکے ہی تھے۔ قیافہ شناس نے آپ کو ایک نظر دیکھا، پھر دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا۔فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا:
’’اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔‘‘
ابو طالب نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ قیافہ شناس نے ان کے بھتیجے کو عجیب نظروں سے دیکھا ہے لہٰذا وہ آپ کو لے کر وہاں سے نکل آئے تھے۔جب قیافہ شناس کو معلوم ہوا کہ آپ وہاں موجود نہیں ہیں تو وہ چیخنے لگا :
’’تمہارا بُرا ہو،اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ جسے میں نے ابھی دیکھا ہے،اللہ کی قسم! وہ بڑی شان والا ہے۔‘‘
ابو طالب نے نکلتے ہوئے اس کے یہ الفاظ سن لیے تھے۔
۔۔۔
ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام جانے کا ارادہ کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساتھ جانے کا شوق ظاہر فرمایا بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے جانے کے لئے خاص طور پر فرمائش کی۔ابو طالب نے آپ کا شوق دیکھ کر کہا:
’’اللہ کی قسم!میں اسے ساتھ ضرور لے جاؤں گا،نہ یہ کبھی مجھ سے جدا ہوسکتا ہے،نہ میں اسے کبھی اپنے سے جدا کرسکتا ہوں۔‘‘
ایک روایت میں یوں آیا ہے،آپ نے ابو طالب کی اونٹنی کی لگام پکڑلی اور فرمایا:
’’چچا جان!آپ مجھے کس کے پاس چھوڑے جارہے ہیں؟میری نہ ماں ہے نہ باپ۔‘‘
اس وقت آپ کی عمر مبارک نو سال تھی۔آخر ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔آپ کو اپنی اونٹنی پر بٹھایا۔راستے میں عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ کے پاس ٹھہرے۔خانقاہ کے راہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو چونک اٹھا۔اس نے ابو طالب سے پوچھا:
’’یہ لڑکا تمہارا کون ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
یہ سن کر راہب نے کہا:
’’یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ سن کر ابو طالب بہت حیران ہوئے،بولے:
’’کیا مطلب…یہ کیوں میرا بیٹا نہیں ہوسکتا بھلا؟‘‘
اس نے کہا:
’’یہ ممکن ہی نہیں کہ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو،یہ نبی ہے۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ ان میں جو نشانیاں ہیں وہ دنیا کے آخری نبی کی ہیں اور ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ یتیم ہوں گے۔ان کے باپ کا انتقال اسی زمانے میں ہو جائے گا جب کہ وہ ابھی پیدا ہونے والے ہوں گے۔اس لڑکے میں آنے والے نبی کی تمام علامات موجود ہیں۔ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ بچپن میں ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوجائے گا۔
اب ابو طالب نے اس راہب سے پوچھا:
’’نبی کیا ہوتا ہے؟‘‘
راہب نے کہا:
’’نبی وہ ہوتا ہے جس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور پھر وہ زمین والوں کو ان کی اطلاع دیتا ہے…تم یہودیوں سے اس لڑکے کی حفاظت کرنا۔‘‘
اس کے بعد ابو طالب وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک اور راہب کے پاس ٹھہرے۔یہ بھی ایک خانقاہ کا عابد تھا۔اس کی نظر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو یہی پوچھا:
’’یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے؟‘‘
ابو طالب نے اس سے بھی یہی کہا:
’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
راہب یہ سن کر بولا:
’’یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،اس کا باپ زندہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
ابو طالب نے پوچھا:
’’وہ کیوں…؟‘‘
راہب نے جواب میں کہا:
’’اس لیے کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے۔اس کی آنکھیں ایک نبی کی آنکھیں ہیں یعنی اس نبی جیسی جو آخری امت کے لئے بھیجے جانے والے ہیں،ان کی علامات پرانی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔‘‘
اس کے بعد یہ قافلہ روانہ ہو کر بصریٰ پہنچا۔یہاں بحیرا نام کا ایک راہب اپنی خانقاہ میں رہتا تھا۔اس کا اصل نام جرجیس تھا،بحیرااس کا لقب تھا۔ وہ بہت زبردست عالم تھا۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے اس خانقاہ کا راہب،نسل در نسل یہ عالم فاضل خاندان ہی چلا آرہا تھا۔اس طرح اس زمانے میں ان کا سب سے بڑا عالم بحیرا ہی تھا۔
قریش کے لوگ اکثر بحیرا کے پاس سے گزرا کرتے تھے مگر اس نے کبھی ان سے کوئی بات نہیں کی تھی،مگر اس بار اس نے قافلے میں آپ کو دیکھ لیا تو پورے قافلے کے لئے کھانا تیار کروایا۔
بحیرا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بدلی سایہ کیے ہوئے تھی۔جب یہ قافلہ ایک درخت کے نیچے آ کر ٹھہرا تو اس نے بدلی کی طرف دیکھا،وہ اب اس درخت پر سایہ ڈال رہی تھی اور اس درخت کی شاخیں اس طرف جھک گئیں تھیں جدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ اس نے دیکھا،بہت سی شاخوں نے آپ کے اوپر جمگھٹا سا کرلیا تھا۔اصل میں ہوا یہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس درخت کے پاس پہنچے تو قافلے کے لوگ پہلے ہی سایہ دار جگہ پر قبضہ کر چکے تھے۔اب آپ کے لئے کوئی سایہ دار جگہ نہیں بچی تھی،چنانچہ آپ جب دھوپ میں بیٹھے تو شاخوں نے اپنا رخ تبدیل کرلیا اور آپ کے اوپر جمع ہوگئیں۔اس طرح آپ مکمل طور پر سائے میں ہوگئے۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا تھا۔آپ کی یہ نشانی دیکھ کر اس نے قافلے والوں کو پیغام بھجوایا:
’’اے قریشیو!میں نے آپ لوگوں کے لئے کھانا تیار کروایا ہے، میری خواہش ہے کہ آپ تمام لوگ کھانا کھانے آئیں یعنی بچے بوڑھے اور غلام سب آئیں۔‘‘
بحیرا کا یہ پیغام سن کر قافلے میں سے ایک نے کہا:
’’اے بحیرا…آج تو آپ نیا کام کررہے ہیں،ہم تو اکثر اس راستے سے گزرتے ہیں،آپ نے کبھی دعوت کا انتظام نہیں کیا،پھر آج کیا بات ہے۔‘‘
بحیرا نے انہیں صرف اتنا جواب دیا:
’’تم نے ٹھیک کہا،لیکن بس آپ لوگ مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا بہت اچھی بات ہے۔‘‘
اس طرح تمام لوگ بحیرا کے پاس پہنچ گئے…لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نہیں تھے۔انہیں پڑاؤ ہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

یہ تمہارا بیٹا نہیں

آپ کو قافلے کے ساتھ اس لئے نہیں لے جایا گیا تھا کہ آپ کم عمر تھے۔آپ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ادھر بحیرا نے لوگوں کو دیکھا اور ان میں سے کسی میں اسے وہ صفت نظر نہ آئی جو آخری نبی کے بارے میں اسے معلوم تھی،نہ ان میں سے کسی پر وہ بدلی نظر آئی،بلکہ اس نے عجیب بات دیکھی کہ وہ بدلی وہیں پڑاؤ کی جگہ پر ہی رہ گئی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا بدلی وہیں ہے، جہاں اللہ کے رسول ہیں، تب اس نے کہا:
’’اے قریش کے لوگو! میری دعوت سے آپ میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
اس پر قریش نے کہا:
’’ اے بحیرا!جن لوگوں کو آپ کی اس دعوت میں لانا ضروری تھا،ان میں سے تو کوئی رہا نہیں…ہاں ایک لڑکا رہ گیا ہے جو سب سے کم عمر ہے۔‘‘
بحیرا بولا:
’’تب پھر مہربانی فرما کر اسے بھی بلالیں،یہ کس قدر بری بات ہے کہ آپ سب آئیں اور آپ میں سے ایک رہ جائے اور میں نے اسے آپ لوگوں کے ساتھ دیکھا تھا۔‘‘
تب ایک شخص گیا اور آپ کو ساتھ لے کر بحیرا کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت وہ بدلی آپ کے ساتھ ساتھ چلی اور تمام راستے اس نے آپ پر سایہ کئے رکھا۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا،وہ اب آپ کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا تھا اور آپ کے جسم مبارک میں وہ علامات تلاش کررہا تھا جو ان کی کتب میں درج تھیں۔
جب لوگ کھانا کھا چکے اور ادھر ادھر ہوگئے،تب بحیرا آپ کے پاس آیا اور بولا:
’’میں لات اور عزیٰ کے نام پر آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں،جو میں پوچھوں،آپ مجھے بتائیں۔‘‘
اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
’’لات اور عزیٰ (بتوں کے نام) کے نام پر مجھ سے کچھ نہ پوچھو!اللہ کی قسم!مجھے سب سے زیادہ نفرت انہی سے ہے۔‘‘
اب بحیرا بولا:
’’اچھا تو پھر اللہ کے نام پر بتائیں جو میں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تو آپ نے فرمایا:
’’پوچھو! کیا پوچھنا ہے۔‘‘
اس نے بہت سے سوالات کئے۔آپ کی عادات کے بارے میں پوچھا،اس کے بعد اس نے آپ کی کمر پر سے کپڑا ہٹا کر مہر نبوت کو دیکھا وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ اس نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا۔اس نے فوراً مہر نبوت کی جگہ کو بوسہ دیا۔قریش کے لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے اور حیران ہورہے تھے۔آخر لوگ کہے بغیر نہ رہ سکے:
’’یہ راہب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)میں بہت دلچسپی لے رہا ہے…شاید اس کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔‘‘
ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے بعد بحیرا ابو طالب کی طرف آیا اور بولا:
’’یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے۔‘‘
ابو طالب نے کہا:
’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
اس پر بحیرا نے کہا:
’’نہیں!یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا باپ زندہ ہو۔‘‘
ابو طالب کو یہ سن حیرت ہوئی،پھر انہوں نے کہا:
’’دراصل یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘
’’ان کا باپ کہاں ہے۔‘‘
’’وہ فوت ہوچکا ہے،اس کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔‘‘
یہ سن کر بحیرا بول اٹھا:
’’ہاں!یہ بات صحیح ہے اور ان کی والدہ کا کیا ہوا؟‘‘
’’ان کا ابھی تھوڑے عرصہ ہی پہلے انتقال ہوا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی بحیرا نے کہا:
’’بالکل ٹھیک کہا…اب تم یوں کرو کہ اپنے بھتیجے کو واپس وطن لے جاؤ،یہودیوں سے ان کی پوری طرح حفاظت کرو،اگر انہوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان میں وہ نشانیاں دیکھ لیں جو میں نے دیکھی ہیں تو وہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے تمہارا یہ بھتیجا نبی ہے، اس کی بہت شان ہے،ان کی شان کے بارے میں ہم اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہوا پاتے ہیں اور ہم نے اپنے باپ داداؤں سے بھی بہت کچھ سن رکھا ہے،میں نے یہ نصیحت کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے اور انہیں واپس لے جانا تمہاری ذمہ داری ہے۔‘‘
ابو طالب بحیرا کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگئے۔ آپ کو لے کر مکہ واپس آگئے۔اس واقعے کے وقت آپ کی عمر نو سال تھی۔
اس عمر کے لڑکے عام طور پر کھیل کود میں ضرور حصہ لیتے ہیں،ان کھیلوں میں خراب اور گندے کھیل بھی ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سلسلے میں بھی بالکل محفوظ رکھا۔جاہلیت کے زمانے میں عرب جن برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے،ان برائیوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ایک واقعہ آپ نے خود بیان فرمایا:
’’ایک قریشی لڑکا مکہ کے بالائی حصے میں اپنی بکریاں لئے،میرے ساتھ تھا۔میں نے اس سے کہا:
’’تم ذرا میری بکریوں کا دھیان رکھو تاکہ میں قصہ گوئی کی مجلس میں شریک ہوسکوں،وہاں سب لڑکے جاتے ہیں۔‘‘
اس لڑکے نے کہا:’’اچھا۔‘‘اس کے بعد میں روانہ ہوا۔ میں مکہ کے ایک مکان میں داخل ہوا تو مجھے گانے اور باجے کی آواز سنائی دی۔میں نے لوگوں سے پوچھا،یہ کیا ہورہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک قریشی کی فلاں شخص کی بیٹی سے شادی ہورہی ہے۔میں نے اس طرف توجہ دی ہی تھی کہ میری آنکھیں نیند سے جھکنے لگیں،یہاں تک کہ میں سو گیا۔پھر میری آنکھ اس وقت کھلی جب دھوپ مجھ پر پڑی۔‘‘
آپ واپس اس لڑکے کے پاس پہنچے۔تو اس نے پوچھا:’’ تم نے وہاں جاکر کیا کیا؟‘‘میں نے اسے واقعہ سنا دیا۔دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا۔‘‘
مطلب یہ کہ قریش کی لغو مجلسوں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔
قریش کے ایک بت کا نام بوانہ تھا۔قریش ہر سال اس کے پاس حاضری دیا کرتے تھے۔اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔اس کے پاس قربانی کا جانور ذبح کرتے،سر منڈاتے،سارا دن اس کے پاس اعتکاف کرتے۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ اس بت کے پاس حاضری دیتے، اس موقع کو قریش عید کی طرح مناتے تھے۔ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
’’بھتیجے!آپ بھی ہمارے ساتھ عید میں شریک ہوں۔‘‘
آپ نے انکار فرمادیا۔ابو طالب ہر سال آپ کو شریک ہونے کے لئے کہتے رہے،لیکن آپ ہر بار انکار ہی کرتے رہے۔ آخر ایک بار ابو طالب کو غصہ آگیا۔آپ کی پھوپھیوں کو بھی آپ پر بے تحاشہ غصہ آیا،وہ آپ سے بولیں:
’’تم ہمارے معبودوں سے اس طرح بچتے ہو اور پرہیز کرتے ہو،ہمیں ڈر ہے کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا:
’’محمد!آخر تم عید میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟‘‘
ان کی باتوں سے تنگ آکر آپ ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں دور چلے گئے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:
’’میں جب بھی بوانہ یا کسی اور بت کے نزدیک ہوا،میرے سامنے ایک سفید رنگ کا بہت قد آور آدمی ظاہر ہوا،اس نے ہر بار مجھ سے یہی کہا:
’’محمد! پیچھے ہٹو!اس کو چھونا نہیں۔‘‘

فجار کی جنگ

خانہ کعبہ میں تانبے کے دو بت تھے۔ان کے نام اساف اور نائلہ تھے۔طواف کرتے وقت مشرک برکت حاصل کرنے کے لئے ان کو چھوا کرتے تھے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔جب میں طواف کے دوران ان بتوں کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی ان کو چھوا نبی پاک ﷺ نے فوراً فرمایا:’’ان کو ہاتھ مت لگاؤ‘‘
اس کے بعد ہم طواف کرتے رہے،میں نے سوچا،ایک بار پھر بتوں کو چھونے کی کوشش کروں گا تاکہ پتا تو چلے،ان کو چھونے سے کیا ہوتاہے اور آپ نے کس لیے مجھے روکا ہے،چنانچہ میں نے ان کو پھر چھولیا،تب آپ نے سخت لہجے میں فرمایا:’’کیا میں نے تمہیں ان کو چھونے سے منع نہیں کیا تھا۔‘‘
اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں،نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی کسی بت کونہیں چھوا،یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرمادی اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ حرام چیزوں سے بھی آپ کی حفاظت فرماتے تھے۔ مشرک بتوں کے نام پر جانور قربان کرتے تھے،پھر یہ گوشت تقسیم کردیا جاتاتھا یا پکا کر کھلا دیا جاتاتھا،لیکن آپ نے کبھی بھی ایسا گوشت نہ کھایا،خود آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا:’’ میں نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں چکھی جو بتوں کے نام پر ذبح کی گئی ہو،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت عطا کردی‘‘
اسی طرح آپ سے پوچھا گیا:
’’کیا آپ نے بچپن میں کبھی بت پرستی کی؟ ‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا :’’نہیں ۔‘‘
آپ سے پھر پوچھاگیا:
’’آپ نے کبھی شراب پی؟ ‘‘
جواب میں ارشادفرمایا:
’’نہیں!حالانکہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ کتاب اللہ کیا ہے اور ایمان(کی تفصیل)کیا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کے علاوہ بھی اس زمانے میں کچھ لوگ تھے جو بتوں کے نام ذبح کیا گیا گوشت نہیں کھاتے تھے اور شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔
۔۔۔
بچپن میں آپ نے بکریاں بھی چرائیں۔آپ مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔معاوضے کے طور پر آپ کو ایک سکہ دیا جاتاتھا۔آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے،ان سب نے بکریاں چرانے کا کام کیا۔میں مکہ والوں کی بکریاں قراریط (سکہ) کے بدلے چرایا کرتاتھا۔‘‘
مکہ والوں کی بکریوں کے ساتھ آپ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔
پیغمبروں نے بکریاں کیوں چرائیں،اس کی وضاحت یوں بیان کی جاتی ہے:
’’اس کام میں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت ہے،بکری کمزور جانور ہے،لہٰذا جو شخص بکریاں چراتاہے،اس میں قدرتی طورپر نرمی،محبت اور انکساری کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ہر کام اور پیشے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاً قصاب کے دل میں سختی ہوتی ہے،لوہار جفاکش ہوتاہے،مالی نازک طبع ہوتاہے،اب جو شخص بکریاں چراتا رہا،جب وہ مخلوق کی تربیت کا کام شروع کرے گا تو اس کی طبیعت میں سے گرمی اور سختی نکل چکی ہوتی ہے۔مخلوق کی تربیت کیلئے وہ بہت نرم مزاج ہوچکا ہوتاہے اور تبلیغ کے کام میں نرم مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔
عربوں میں ایک شخص بدر بن معشر غفاری تھا۔یہ عکاظ کے میلے میں بیٹھا کرتا تھا۔لوگوں کے سامنے اپنی بہادری کے قصے سنایاکرتاتھا۔اپنی بڑائیاں بیان کرتاتھا۔ایک دن اس نے پیر پھیلا کر اور گردن اکڑا کر کہا:
’’میں عربوں میں سے سب سے زیادہ عزت دار ہوں اور اگر کوئی خیال کرتاہے کہ وہ زیادہ عزت والا ہے تو تلوار کے زور پر یہ بات ثابت کر دکھائے۔‘‘
اس کے یہ بڑے بول سن کر ایک شخص کو غصہ آگیا۔وہ اچانک اس پر جھپٹا اور اس کے گھٹنے پر تلوار دے ماری۔اس کا گھٹنا کٹ گیا۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ گھٹنا صرف زخمی ہواتھا۔اس پر دونوں کے قبیلے آپس میں لڑ پڑے۔ان میں جنگ شروع ہوگئی۔اس لڑائی کو فجار کی پہلی لڑائی کہا جاتاہے،اس وقت آپ ﷺ کی عمر 10 سال تھی۔
فجار کی ایک اور لڑائی بنو عامر کی ایک عورت کی وجہ سے ہوئی۔اس میں بنو عامر بنو کنانہ سے لڑے، کیونکہ کنانہ کے ایک نوجوان نے اس قبیلے کی کسی عورت کو چھیڑا تھا۔
فجار کی تیسری لڑائی بھی بنو عامر اور بنو کنانہ کے درمیان ہوئی۔یہ لڑائی قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ہوئی۔
فجار کی ان تینوں لڑائیوں میں نبی ﷺ نے کوئی حصہ نہیں لیا۔البتہ فجار کی چوتھی لڑائی میں آپ نے شرکت فرمائی تھی۔عربوں کے ہاں چار مہینے ایسے تھے کہ ان میں کسی کا خون بہانا جائز نہیں تھا،یہ مہینے ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم،اور رجب تھے۔یہ لڑائیاں چونکہ حرمت کے ان مہینوں میں ہوئیں،اس لیے ان کا نام فجار کی لڑائیاں رکھا گیا۔فجار کا معنی ہے گناہ، یعنی یہ لڑائیاں ان کا گناہ تھا۔چوتھی لڑائی جس میں نبی کریم ﷺ نے بھی حصہ لیا،اس کا نام فجار برّاض ہے یہ لڑائی اس طرح شروع ہوئی:
قبیلہ بنو کنانہ کے براض نامی ایک شخص نے ایک آدمی عروہ کو قتل کردیا۔عروہ کا تعلق قبیلہ ہوازن سے تھا۔یہ واقعہ حرمت والے مہینے میں پیش آیا۔براض اور عروہ کے خاندان کے لوگ یعنی بنو کنانہ اور ہوازن اس وقت عکاظ کے میلے میں تھے۔وہیں کسی نے بنو کنانہ کو یہ خبر پہنچادی کہ براض نے عروہ کو قتل کردیاہے۔یہ خبر سن کر بنو کنانہ کے لوگ پریشان ہوئے کہ کہیں میلے ہی میں ہوازن کے لوگ ان پر حملہ نہ کردیں،اس طرح بات بہت بڑھ جائے گی،چنانچہ وہ لوگ مکہ کی طرف بھاگ نکلے۔ہوازن کو اس وقت تک خبر نہیں ہوئی تھی۔انہیں کچھ دن یا کچھ وقت گزرنے پر خبر ہوئی، یہ بنو کنانہ پر چڑھ دوڑے لیکن بنو کنانہ حرم میں پناہ لے چکے تھے۔عربوں میں حرم کے اندر خون بہانا حرام تھا۔اس لئے ہوازن رک گئے۔اس دن لڑائی نہ ہوسکی لیکن دوسرے دن بنو کنانہ کے لوگ خود ہی مقابلے کے لئے باہر نکل آئے،ان کی مدد کرنے کے لیے قبیلہ قریش بھی میدان میں نکل آئے۔اس طرح فجار کی یہ جنگ شروع ہوئی۔یہ جنگ چار یا چھ دن تک جاری رہی،اب چونکہ قریش بھی اس جنگ میں شریک تھے،لہٰذا آپ ﷺ کے چچا آپ کو بھی ساتھ لے گئے مگر آپ نے جنگ کے سب دنوں میں لڑائی میں حصہ نہیں لیا البتہ جس دن آپ میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو بنی کنانہ کو فتح ہونے لگتی اور جب آپ وہاں نہ پہنچتے تو انہیں شکست ہونے لگتی۔آپ نے اس جنگ میں صرف اتنا حصہ لیا کہ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے رہے اور بس۔
چھ دن کی جنگ کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔آخر دونوں گروہوں میں صلح ہوگئی لیکن یہ کافی خون خرابے کے بعد ہوئی تھی۔
اس جنگ کے فوراً بعد حلف الفضول کا واقعہ پیش آیا۔یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص اپنا کچھ مال لے کر مکہ آیا۔اس سے یہ مال عاص بن وائل نے خرید لیا۔یہ عاص بن وائل مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔اس کی بہت عزت تھی۔اس نے مال تو لے لیا،لیکن قیمت ادا نہ کی،زبیدی اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کرتا رہا،لیکن عاص بن وائل نے رقم ادا نہ کی۔اب یہ زبیدی شخص اپنی فریاد لے کر مختلف قبیلوں کے پاس گیا۔ان سب کو بتایا کہ عاص بن وائل نے اس پر ظلم کیا ہے،لہٰذا اس کی رقم دلوائی جائے۔اب چونکہ عاص مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا، اس لیے ان سب لوگوں نے عاص کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا،الٹا اسے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس بھیج دیا۔جب زبیدی نے ان لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو دوسرے دن صبح سویرے وہ ابوقیس نامی پہاڑی پر چڑھ گیا۔قریش ابھی اپنے گھروں ہی میں تھے۔ اوپر چڑھ کر اس نے بلند آواز سے چند شعر پڑھے جن کا خلاصہ یہ ہے:
’’ اے فہر کی اولاد!ایک مظلوم کی مددکرو،جو اپنے وطن سے دور ہے اور جس کی تمام پونجی اس وقت مکہ کے اندر ہی ہے۔‘‘
اس زبیدی شخص کی یہ فریاد آپ ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب نے سن لی۔ان پر بہت اثر ہوا،انہوں نے عبداللہ بن جدعان کو ساتھ لیا اور اس آدمی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔پھر ان کے ساتھ بنو ہاشم،بنو زہرہ اور بنو اسد کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔یہ سب عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے۔یہاں ان سب کو کھانا کھلایا گیا۔اس کے بعد ان سب سے خدا کے نام پر حلف لیا گیا۔حلف کے الفاظ یہ تھے:
’’ہم ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے رہیں گے اور اس کا حق اسے دلاتے رہیں گے۔‘‘
اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔اس عہد اور حلف کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ بھی قریش کے ساتھ موجود تھے۔

نسطورا کی ملاقات

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عہد یعنی حلف الفضول کو بہت پسند فرمایا۔ آپ فرماتے تھے:
’’میں اس عہد نامے میں شریک تھا۔ یہ عہد نامہ بنو جدعان کے مکان میں ہوا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس عہد نامے سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے بدلے میں سو اونٹ لے لیں تو میں نہیں لوں گا۔ اس عہد نامے کے نام پر اگر کوئی آج بھی مجھے آواز دے تو میں کہوں گا۔ میں حاضر ہوں۔‘‘
آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر آج بھی کوئی مظلوم یہ کہہ کر آواز دے، اے حلف الفضول والو! تو میں اس کی فریاد کو ضرور پہنچوں گا۔ کیوں کہ اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ سچائی کا نام بلند کرے اور مظلوم کی مدد اور حمایت کرے۔
یہ حلف الفضول بعد میں بھی جاری رہا۔
مکہ میں آپ کی امانت اور دیانت کی وجہ سے آپ کو ا’مین ‘کہہ کر پکارا جانے لگا تھا۔ آپ کا یہ لقب بہت مشہور ہوگیا تھا۔ لوگ آپ کو امین کے علاوہ اور کسی نام سے نہیں پکارتے تھے۔انہی دنوں ابوطالب نے آپ سے کہا:
’’اے بھتیجے! میں ایک بہت غریب آدمی ہوں اور قحط سالی کی وجہ سے اور زیادہ سخت حالات کا سامنا ہے، کافی عرصہ سے خشک سالی کا دور چل رہا ہے، کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ اپنا کام چلاسکیں اور نہ ہماری کوئی تجارت ہے، ایک تجارتی قافلہ شام جانے والا ہے، اس میں قریش کے لوگ شامل ہیں۔ قریش کی ایک خاتون خدیجہ بنت خویلد شام کی طرف اپنا تجارتی سامان بھیجا کرتی ہیں، جو شخص ان کا مال لے کر جاتا ہے وہ اپنی اجرت ان سے طے کرلیتا ہے، اب اگر تم ان کے پاس جاؤ اور ان کا مال لے جانے کی پیش کش کرو تو وہ ضرور اپنا مال تمہیں دے دیں گی، کیوں کہ تمہاری امانت داری کی شہرت ان تک پہنچ چکی ہے، اگرچہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم شام کے سفر پر جاؤ۔ یہودی تمہارے دشمن ہیں، لیکن حالات کی وجہ سے میں مجبور ہوں، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔‘‘
یہاں تک کہہ کر ابوطالب خاموش ہوگئے، تب آپ نے فرمایا:
’’ممکن ہے، وہ خاتون خود میرے پاس کسی کو بھیجیں۔‘‘
یہ بات آپ نے اس لئے کہی تھی کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ایک بااعتماد آدمی کی ضرورت تھی اور اس وقت مکہ میں آپ سے زیادہ شریف، پاک باز، امانت دار، سمجھ دار اور قابل اعتماد آدمی کوئی نہیں تھا۔
ابوطالب اس وقت بہت پریشان تھے۔ آپ کی یہ بات سن کر انہوں نے کہا:
’’اگر تم نہ گئے تو مجھے ڈر ہے، وہ کسی اور سے معاملہ طے کرلیں گی۔‘‘
یہ کہہ کر ابوطالب اٹھ گئے۔ ادھر آپ کو یقین سا تھا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا خود ان کی طرف کسی کو بھیجیں گی اور ہوا بھی یہی۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا، پھر آپ سے کہا:
’’میں نے آپ کی سچائی، امانت داری اور نیک اخلاق کے بارے میں سنا ہے اور اسی وجہ سے میں نے آپ کو بلوایا ہے، جو معاوضہ آپ کی قوم کے دوسرے آدمیوں کو دیتی ہوں،آپ کو ان سے دو گنا دوں گی۔‘‘
آپ نے ان کی بات منظور فرما لی۔پھر آپ اپنے چچا ابو طالب سے ملے۔انہیں یہ بات بتائی۔ ابو طالب سن کر بولے:
’’یہ روزی تمہارے لئے اللہ نے پیدا فرمائی ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ ﷺ سیدہ خدیجہؓ کا سامان تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ سیدہ خدیجہؓ کے غلام میسرہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ روانگی کے وقت حضرت خدیجہؓ نے میسرہ سے کہا:
’’کسی معاملے میں ان کی نافرمانی نہ کرنا، جو یہ کہیں وہی کرنا، ان کی رائے سے اختلاف نہ کرنا۔‘‘
آپ ﷺ کے سب چچاؤں نے قافلے والوں سے آپ کی خبر گیری رکھنے کی درخواست کی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ذمے داری کے لحاظ سے یہ آپﷺ کا پہلا تجارتی سفر تھا۔ گویا آپ ﷺاس کام میں بالکل نئے تھے۔
ادھر آپ روانہ ہوئے ادھر آپﷺ کا معجزہ شروع ہو گیا۔ ایک بدلی نے آپﷺ کے اوپرسایہ کر لیا۔آپﷺ کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ جب آپﷺ شام پہنچے تو بصریٰ شہر کے بازار میں ایک درخت کے سائے میں اترے۔یہ درخت ایک عیسائی راہب نسطورا کی خانقاہ کے سامنے تھا۔ اس راہب نے میسرہ کو دیکھا تو خانقاہ سے نکل آیا۔ اس وقت اس نے آپﷺ کو دیکھا۔آپﷺ درخت کے نیچے ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس نے میسرہ سے پوچھا:
’’یہ شخص کون ہے جو اس درخت کے نیچے موجود ہے؟‘‘
میسرہ نے کہا:
’’یہ ایک قریشی شخص ہیں۔حرم والوں میں سے ہیں۔‘‘
یہ سن کر راہب نے کہا:
’’اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کبھی کوئی آدمی نہیں بیٹھا۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ اس درخت کے نیچے آج تک کوئی شخص نہیں بیٹھا، اللہ تعالی نے اس درخت کو ہمیشہ اس سے بچایا ہے کہ اس کے نیچے نبی کے سوا کوئی دوسرا شخص بیٹھے۔
اس کے بعد اس نے میسرہ سے پوچھا:
’’کیا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے؟‘‘
میسرہ نے جواب دیا:
’’ہاں بالکل ہے اور یہ سرخی ان کی آنکھوں میں مستقل رہتی ہے۔‘‘
اب نسطورا نے کہا:
’’یہ وہی ہیں۔‘‘
میسرہ نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور بولے:
’’کیا مطلب۔۔یہ وہی ہیں۔۔کون وہی؟‘‘
’’یہ آخری پیغمبر ہیں۔کاش میں وہ زمانہ پا سکتا جب انہیں ظہور کا حکم ملے گا،یعنی جب انہیں نبوت ملے گی۔‘‘
اس کے بعد وہ چپکے سے آپﷺ کے پاس پہنچا، پہلے تو اس نے آپﷺ کے سر کو بوسہ دیا پھر آپﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا اور بولا:
میں آپﷺ پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے تورات میں فرمایا ہے۔‘‘
اس کے بعد نسطورا نے کہا:
’’اے محمدﷺمیں نے آپﷺ میں وہ تمام نشانیاں دیکھ لی ہیں،جو پرانی کتابوں میں آپﷺ کی نبوت کی علامتوں کے طور پر درج ہیں۔صرف ایک نشانی باقی ہے، اس لئے آپﷺ ذرا اپنے کندھے سے کپڑا ہٹائیں۔‘‘
آپﷺ نے اپنے شانہ مبارک سے کپڑا ہٹا دیا۔تب نسطورا نے وہاں مہر نبوت کو جگمگاتے دیکھا۔ وہ فوراً مہر نبوت کو چومنے کے لیے جھک گیا، پھر بولا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بارے میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے خوش خبری دی تھی اور انہوں نے کہا تھا:
’’میرے بعد اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھے گا، سوائے اس پیغمبر کے جو امی (یعنی ان پڑھ)ہاشمی،عربی اور مکی (یعنی مکہ کے رہنے والے)ہوں گے۔قیامت میں حوض کوثر اور شفاعت والے ہوں گے۔‘‘
اس واقعے کے بعد آپﷺ بصریٰ کے بازار تشریف لے گئے۔ وہاں آپﷺ نے مال فروخت کیا جو ساتھ لائے تھے اور کچھ چیزیں خریدیں۔
اس خرید و فروخت کے دوران ایک شخص نے آپﷺ سے کچھ جھگڑا کیا اور بولا:
’’لات اور عزیٰ کی قسم کھاؤ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
’’میں نے ان بتوں کے نام پر کبھی قسم نہیں کھائی۔‘‘
آپﷺ کا یہ جملہ سن کر وہ شخص چونک اٹھا۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ کو پہچان لیا تھا، چنانچہ بولا:
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، کہنے لگا:
’’میسرہ! یہ نبی ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔‘‘
میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے،ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے،ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔
پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا:
’’اے محمد! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہ کے لئے تجارت کر رہے ہیں، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے۔‘‘
آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو دو فرشتے دھوپ سے بچانے کیلئے آپ پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ کا غلام ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ سیدھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دور سے آپ کو دیکھ لیا۔ آپ اونٹ پر سوار تھے اور دو فرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں۔
اب آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تجارت کے حالات سنائے۔منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا:
’’میسرہ کہاں ہے؟‘‘
آپ نے بتایا:
’’وہ ابھی پیچھے ہے۔‘‘
یہ سن کر سیدہ نے کہا:
’’آپ فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے۔‘‘
آپ واپس روانہ ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دراصل آپ کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں۔ جونہی آپ روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ کو دیکھنے لگیں۔ آپ کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میسرہ سے کہا:
’’میں نے ان پر دو فرشتوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے۔‘‘
جواب میں میسرہ نے کہا:
’’میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔‘‘
اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔
ان تمام باتوں سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت حیران ہوئیں۔ اب وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے ملیں، یہ پچھلی کتابوں کے عالم تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں، جو کچھ خود دیکھا اورمیسرہ کی زبانی سنا تھا، وہ سب کہہ سُنایا۔ ورقہ بن نوفل اس وقت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے،اس سے پہلے وہ یہودی تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تمام باتیں سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا:
’’خدیجہ! اگر یہ باتیں سچ ہیں تو سمجھ لو، محمد اس امت کے نبی ہیں۔ میں یہ بات جان چکا ہوں کہ وہ اس امت کے ہونے والے نبی ہیں، دنیا کو انہی کا انتظار تھا۔ یہی ان کا زمانہ ہے۔‘‘
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے تجارتی سفر صرف ایک بار ہی نہیں کیا چند سفر اور بھی کیے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک شریف اور پاک باز خاتون تھیں۔ نسب کے اعتبار سے بھی قریش میں سب سے اعلیٰ تھیں۔ اُنہیں قریش کی سیدہ کہا جاتا تھا۔ قوم کے بہت سے لوگ اُن سے نکاح کے خواہشمند تھے، کئی نوجوانوں کے پیغام اُن تک پہنچ چکے تھے، لیکن انہوں نے کسی کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کے سفر سے واپس آئے تو آپ ﷺ کی خصوصیات دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ متاثر ہو چکی تھیں لہٰذا انہوں نے ایک خاتون نفیسہ بنت منیہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہوں نے آکر آپ سے کہا کہ اگر کوئی دولتمند اور پاک باز خاتون خود آپ کو نکاح کی پیشکش کرے تو کیا آپ مان لیں گے۔
اُن کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
’’وہ کون ہیں؟‘‘
نفیسہ نے فوراً کہا:
’’خدیجہ بنت خویلد۔‘‘
آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ نفیسہ بنت منیہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں۔ انہیں ساری بات بتائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا عمرو بن اسد کو اطلاع کرائی، تاکہ وہ آکر نکاح کر دیں۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ ان کا پہلا نکاح عتیق ابن مائد سے ہوا تھا۔ اس سے بیٹی ہندہ پیدا ہوئی تھی۔ عتیق کے فوت ہو جانے کے بعد سیدہ کا دوسرا نکاح ابوہالہ نامی شخص سے ہوا۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا ارادہ کر لیا۔ اس وقت سیدہ کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد وہاں پہنچ گئے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کو لے کر پہنچ گئے۔ نکاح کس نے پڑھایا، اس بارے روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ نکاح چچا ابوطالب نے پڑھایا تھا۔ مہر کی رقم کے بارے میں بھی روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ مہر کی رقم بارہ اوقیہ کے قریب تھی، دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے مہر میں بیس جوان اونٹنیاں دیں۔
نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت کھلائی اور اس دعوت میں آپ نے ایک یا دو اونٹ ذبح کیے۔

تین تحریریں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35سال ہوئی تو مکہ میں زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھامگر یہ سیلاب اس قدر زبردست تھا کہ بند توڑکر کعبے میں داخل ہو گیا۔ پانی کے زبردست ریلے اور پانی کے اندر جمع ہونے کی وجہ سے کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑگئے۔اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ دیواریں آگ لگ جانے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں اور یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ایک مرتبہ کوئی عورت کعبے کو دھونی دے رہی تھی کہ اس آگ میں سے ایک چنگاری اڑکر کعبے کے پردوں تک پہنچ گئی۔اس سے پردوں کو آگ لگ گئی اور دیواریں تک جل گئیں۔اس طرح دیواریں بہت کمزور ہو گئی تھیں،یہی وجہ تھی کہ سیلاب نے ان کو کمزور دیواروں میں شگاف کردیے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی جو دیواریں اٹھائی تھیں،وہ نو گز اونچی تھیں۔ان پر چھت نہیں تھی۔لوگ کعبے کے لئے نذرانے وغیرہ لاتے تھے۔یہ نذرانے کپڑے اور خوشبو ئیں وغیرہ ہوتی تھیں۔کعبے کے اندر جو کنواں تھا،یہ سب نذرانے اس کنوئیں میں ڈال دیئے جاتے تھے،کنواں اندرونی حصے میں دائیں طرف تھا۔ اس کو کعبے کا خزانہ کہا جاتا تھا۔ کعبے کے خزانے کو ایک مرتبہ ایک چور نے چرانے کی کوشش کی،چور کنوئیں ہی میں مر گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے ایک سانپ کو مقرر کر دیا۔یہ سانپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہتا تھا۔ کسی کو خزانے کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ قریش بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔اب جب کہ کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا،وہ اس سانپ کو اٹھا لے گیا۔(البدایہ والنہایہ)
یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بہت خوش ہوئے۔اب انہوں نے نئے سرے سے کعبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا۔اور پروگرام بنایا کہ بنیادیں مضبوط بنا کر دیواروں کو زیادہ اونچا اٹھایا جائے۔اس طرح دروازے کو بھی اونچا کردیا جائے گا تاکہ کعبے میں کوئی داخل نہ ہو۔ صرف وہی شخص داخل ہو جسے وہ اجازت دیں۔
اب انہوں نے پتھر جمع کیے۔ ہر قبیلہ اپنے حصے کے پتھر الگ جمع کررہا تھا۔چندہ بھی جمع کیا گیا۔چندے میں انہوں نے پاک کمائی دی۔ ناپاک کمائی نہیں دی۔مثلاًطوائفوں کی آمدنی،سود کی کمائی،دوسروں کا مال غصب کرکے حاصل کی گئی دولت چندے میں نہیں دی اور پاک کمائی انہوں نے بلاوجہ نہیں دی تھی۔ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا۔جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کام میں صرف پاک کمائی لگائی جائے گی۔ وہ واقعہ یوں تھا:
ایک قریشی سردار ابو وہب عمرو بن عابد نے جب یہ کام شروع کرنے کے لیے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر اس کے ہاتھ سے نکل کر پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا۔اس پر قریشی حیران وپریشان ہوئے۔آخر خود وہب کھڑا ہوا اور بولا:
’’اے گروہِ قریش! کعبے کی بنیادوں میں سوائے پاک مال کے کوئی دوسرا مال شامل مت کرنا۔ بیت اللہ کی تعمیر میں کسی بدکار عورت کی کمائی،سود کی کمائی یا زبردستی حاصل کی گئی دولت ہرگز شامل نہ کرنا۔‘‘
یہ وہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کا ماموں تھا اور اپنی قوم میں ایک شریف آدمی تھا۔
جب قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھورہے تھے تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺبھی پتھر ڈھونے میں شریک تھے۔آپ پتھر اپنی گردن پر رکھ کر لا رہے تھے۔تعمیر شروع کرنے سے پہلے قریش کے لوگوں نے خوف محسوس کیا کہ دیواریں گرانے سے کہیں ان پر کوئی مصیبت نہ نازل ہو جائے۔آخر ایک سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:
’’کعبہ کی دیواریں گرانے سے تمہارا ارادہ اصلاح اور مرمت کا ہے یا اس کو خراب کرنے کا۔‘‘
جواب میں لوگوں نے کہا ظاہر ہے ہم تو مرمت اور اصلاح چاہتے ہیں، یہ سن کر ولید نے کہا:
’’تب پھر سمجھ لو،للہ تعالیٰ اصلاح کرنے والوں کو برباد نہیں کرتا۔‘‘
پھرولید ہی نے گرانے کے کام کی ابتدا کی لیکن اس نے بھی صرف ایک حصہ ہی گرایاتاکہ معلوم ہو جائے کہ ان پر کوئی تباہی تو نہیں آتی۔جب وہ رات خیریت سے گزر گئی، تب دوسرے دن سب لوگ اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور پوری عمارت گرادی۔یہاں تک کہ اسکی بنیاد تک پہنچ گئے۔یہ بنیاد ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ کی رکھی ہوئی تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنیادوں میں سبز رنگ کے پتھر رکھے تھے۔یہ پتھر اونٹ کے کوہان کی طرح کے تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے انکو توڑ نا بہت مشکل کام ثابت ہوا۔
دائیں کونے کے نیچے سے قریش کو ایک تحریر ملی، وہ تحریر سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی۔انہیں سریانی زبان نہیں آتی تھی، آخر ایک یہودی کو تلاش کرکے لایا گیا، اس نے وہ تحریر پڑھ کر انہیں سنائی تحریر یہ تھی:
’’میں اللہ ہوں، مکّہ کا مالک جس کومیں نے اس دن پیداکیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جس دن میں نے سورج اور چاند بنائے۔میں نے اس کو یعنی مکہ کو سات فرشتوں کے ذریعہ گھیر دیاہے۔اسکی عظمت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ اس کے دونوں طرف پہاڑ موجود ہیں، ان پہاڑوں سے مراد ایک تو ابو قیس پہاڑ ہے جو کہ صفا پہاڑی کے سامنے ہے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ ہے جو مکہ کے قریب ہے اور جس کا رخ ابو قیس پہاڑ کی طرف ہے۔ اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے پانی اور دودھ کے لحاظ سے بہت بابرکت اور نفع والا ہے۔‘‘
یہ پہلی تحریر تھی۔ دوسری مقام ابراہیم سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
’’مکہ اللہ تعالیٰ کا محترم اور معظم شہر ہے۔ اس کا رزق تین راستوں سے اس میں آتا ہے۔‘‘
یہاں تین راستوں سے مراد قریش کے تین تجارتی راستے ہیں۔ ان راستوں سے قافلے آتے جاتے تھے۔
تیسری تحریر اس سے کچھ فاصلے سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
’’جو بھلائی بوئے گا لوگ اس پر رشک کریں گے یعنی اس جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جو شخص رسوائی بوئے گا وہ رسوائی اور ندامت پائے گا۔ تم برائیاں کرکے بھلائی کی آس لگاتے ہو، ہاں! یہ ایسا ہی ہے جیسے کیکر یعنی کانٹے دار درخت میں کوئی انگور تلاش کرے۔‘‘
یہ تحریر کعبے کے اندر پتھر پر کھدی ہوئی ملی۔ کعبے کی تعمیر کے سلسلے میں قریش کو پتھروں کے علاوہ لکڑی کی بھی ضرورت تھی۔ چھت اور دیواروں میں لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کا مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک جہاز عرب کے ساحل سے آکر ٹکراگیا، آج اس مقام کو جدہ کا ساحل کہا جاتا ہے، پہلے یہ مکہ کا ساحل کہلاتا تھا، اس لیے کہ مکہ کا قریب ترین ساحل یہی تھا۔ ساحل سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ گیا۔ وہ جہاز کسی رومی تاجر کا تھا۔ اس جہاز میں شاہ روم کے لیے سنگ مرمر، لکڑی اور لوہے کا سامان لے جایا جارہا تھا۔ قریش کو اس جہاز کے بارے میں پتا چلا تو یہ لوگ وہاں پہنچے اور ان لوگوں سے لکڑی خرید لی۔ اس طرح چھت کی تعمیر میں اس لکڑی کو استعمال کیا گیا۔ آخر خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام حجر اسود تک پہنچ گیا۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ حجر اسود کون اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے گا۔ہر قبیلہ یہ فضیلت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔
یہ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ مرنے مارنے تک نوبت آگئی۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تل گئے۔
قبیلہ عبد الدار نے تو قبیلہ عدی کے ساتھ مل کر ایک برتن میں خون بھرا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو کر کہا:
’’حجر اسود ہم رکھیں گے۔‘‘
اسی طرح دوسرے قبیلے بھی اڑگئے۔ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں۔

حجر اسود کون رکھے گا؟

آخروہ سب بیت اللہ میں جمع ہوئے۔ان لوگوں میں ابوامیہ بن مغیرہ بھی تھا۔اس کانام حذیفہ تھا۔قریش کے پورے قبیلے میں یہ سب سے زیادہ عمروالاتھا۔یہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کا باپ تھا۔قریش کے انتہائی شریف لوگوں میں سے تھا۔مسافروں کوسفرسامان اورکھاناوغیرہ دینے کے سلسلے میں بہت مشہور تھا۔جب کبھی سفر کرتاتواپنے ساتھیوں کے کھانے پینے کاسامان خودکرتاتھا۔
اس وقت اس شدیدجھگڑے کوختم کرنے کے لیے اس نے ایک حل پیش کیا۔اس نے سب سے کہا:
’’اے قریش کے لوگواپناجھگڑاختم کرنے کے لیے تم یوں کروکہ حرم کے صفانامی دروازے سے جوشخص سب سے پہلے داخل ہو، اس سے فیصلہ کرالو۔وہ تمہارے درمیان جو فیصلہ کرے، وہ سب اس کومان لیں۔‘‘
یہ تجویزسب نے مان لی۔آج اس دروازے کوباب السلام کہاجاتاہے۔ یہ دروازہ رکن یمانی اور رکن اسودکے درمیانی حصے کے سامنے ہے۔
اللہ کی قدرت کہ اس دروازے سے سب سے پہلے حضورنبیﷺتشریف لائے۔ قریش نے جیسے ہی آپ کودیکھا، پکاراٹھے:
’’یہ تو امین ہیں، یہ تو محمد ہیں، ہم ان پر راضی ہیں۔‘‘
اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش اپنے آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ ہی سے کرایا کرتے تھے۔ آپ کسی کی بے جا حمایت نہیں کرتے تھے، نہ بلا وجہ کسی کی مخالفت کرتے تھے۔
پھر ان لوگوں نے اپنے جھگڑے کی تفصیل آپ کو سنائی۔ ساری تفصیل سن کر آپ نے فرمایا:
’’ایک چادر لے آؤ۔‘‘
وہ لوگ چادر لے آئے۔ آپ نے اس چادر کو بچھایا اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر قبیلے کے لوگ اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑلیں، پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چادر کو اٹھائے ہوئے وہ اس مقام تک آگئے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم نے حجر اسود کو اٹھاکر اس کی جگہ رکھنا چاہا، لیکن عین اسی وقت ایک نجدی شخص آگے بڑھا اور تیز آواز میں بولا:
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ایک کم عمر نوجوان کو اپنا راہنما بنالیا ہے، اس کی عزت افزائی میں لگ گئے ہو، یاد رکھو، یہ شخص سب کو گروہوں میں تقسیم کردے گا، تم لوگوں کو پارہ پارہ کردے گا۔‘‘
قریب تھا کہ لوگوں میں اس کی باتوں سے ایک بار پھر جھگڑا ہوجائے، لیکن پھر خود ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ لڑانے والا نہیں، لڑائی ختم کرنے والا ہے، چنانچہ حجر اسود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے، یہ نجدی شخص دراصل ابلیس تھا جو اس موقع پر انسانی شکل میں آیا تھا۔جب کعبے کی تعمیر مکمل ہوگئی تو قریش نے اپنے بتوں کو پھر سے اس میں سجادیا ۔ کعبے کی یہ تعمیر جو قریش نے کی، چوتھی تعمیر تھی ۔ سب سے پہلے کعبے کو فرشتوں نے بنایا تھا ۔ بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی کے اوپر تھا، جب عرش کو پانی پر ہونے کی وجہ سے حرکت ہوئی تو اس پر یہ کلمہ لکھا گیا:
لا إِِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ
اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔
اس کلمے کے لکھے جانے کے بعد عرش ساکن ہوگیا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے پانی پر ہوا کو بھیجا ۔ اس سے پانی میں موجیں اُٹھنے لگیں، اور بخارات اٹھنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان بخارات یعنی بھاپ سے آسمان کو پیدا فرمایا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی جگہ سے پانی کو ہٹادیا، جگہ خشک ہوگئی، چنانچہ یہی بیت اللہ کی جگہ ساری زمین کی اصل ہے اور اس کا مرکز ہے ۔ یہی خشکی بڑھتے بڑھتے سات براعظم بن گئی ۔ جب زمین ظاہر ہوگئی تو اس پر پہاڑ قائم کیے گئے ۔ زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے ۔
پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا:
’’زمین پر میرے نام کا ایک گھر بناؤ تاکہ آدم کی اولاد اس گھر کے ذریعے میری پناہ مانگے ۔ انسان اس گھر کا طواف کریں، جس طرح تم نے میرے عرش کے گرد طواف کیا ہے، تاکہ میں ان سے راضی ہوجاؤں ۔‘‘
فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی ۔ پھر آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی ۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔ اس طرح قریش کے ہاتھوں یہ تعمیر چوتھی بار ہوئی تھی۔
۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی تو وحی کے آثار شروع ہوگئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے۔ آپ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچے خوابوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ اچانک فرشتے کی آمد سے کہیں آپ خوفزدہ نہ ہوجائیں۔ ان دنوں ایک بار آپ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’جب میں تنہائی میں جاکر بیٹھتا ہوں تو مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے، اے محمد۔۔۔۔ اے محمد۔۔۔‘‘
ایک بار آپ نے فرمایا:
’’مجھے ایک نور نظر آتا ہے، یہ نور جاگنے کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مجھے ڈر ہے، اس کے نتیجے میں کوئی بات نہ پیش آجائے۔‘‘
ایک بار آپ نے یہ بھی فرمایا:
’’اللہ کی قسم! مجھے جتنی نفرت ان بتوں سے ہے، اتنی کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘
وحی کے لئے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے اسرافیل کو آپ کا ہم دم بنادیا تھا۔ آپ ان کی موجودگی کو محسوس تو کرتے تھے، مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح آپ کو نبوت کی خوش خبریاں دی جاتی رہیں۔ آپ کو وحی کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں تنہائی کا شوق پیدا فرمادیا تھا، چنانچہ آپ کو تنہائی عزیز ہوگئی۔ آپ غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں وقت گزارتے۔ اس پہاڑ سے آپ کو ایک بار آواز بھی سنائی دی تھی:
’’میری طرف تشریف لائیے۔ اے اللہ کے رسول۔‘‘
اس غار میں آپ مسلسل کئی کئی راتیں گزارتے۔ اللہ کی عبادت کرتے۔ کبھی آپ تین راتوں تک وہاں ٹھہرے رہتے، کبھی سات راتوں تک۔ کبھی پورا مہینہ وہاں گزاردیتے۔ آپ جو کھانا ساتھ لے جاتے تھے، جب ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے جاتے، یہ کھانا عام طور پر زیتون کا تیل اور خشک روٹی ہوتا تھا۔ کبھی کھانے میں گوشت بھی ہوتا تھا۔ غار حرا میں قیام کے دوران کچھ لوگ وہاں سے گزرتے اور ان میں کچھ مسکین لوگ ہوتے تو آپ انہیں کھانا کھلاتے۔
غار حرا میں آپ عبادت کس طرح کرتے تھے۔ روایات میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ علما کرام نے اپنا اپنا خیال ضرور ظاہر کیا ہے۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ آپ کائنات کی حقیقت پر غور وفکر کرتے تھے اور یہ غور وفکر لوگوں سے الگ رہ کر ہی ہوسکتا تھا۔
پھر آخر کار وہ رات آگئی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور رسالت عطا فرمادی۔ آپ کی نبوت کے ذریعہ اپنے بندوں پر عظیم احسان فرمایا۔ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور تاریخ سترہ تھی۔ بعض علما نے یہ لکھا ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ تھا، کیوں کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ آٹھویں اور تیسری تاریخ بھی روایات میں آئی ہے اور یہ پہلا موقع تھا جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے۔ جس صبح جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے، وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’پیر کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا، پیر کے دن ہی مجھے نبوت ملی۔‘‘
بہر حال اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اس وقت آپ کی عمر مبارک کا چالیس واں سال تھا۔ آپ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لے آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑا تھا اور اس کپڑے میں ایک کتاب تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top