skip to Main Content

۱۰ ۔ اے مکّہ! الوداع

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔

وَ اَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الغَمَامُ بِوَجْہِہٖ
ثِمَالَ الْیَتٰمٰی! عِصْمَۃً لِلْاَرَامِلِ
وہ گورے مکھڑے والا، جس کے رُوئے زیبا کے واسطے سے ابرِ رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ وہ یتیموں کا سہارا وہ بیواؤں اور مسکینوں کا سرپرست
(ابوطالب)

الوداع
وَکَمْ قَدْ تَرُکُنَا ممںْ حَمِیْمٍ مُنَاصحٍ وَ نَاصِحَۃٍ تَبْکِیْ بِدَمْعٍ وَ تَنْدِبُ
’’اور ہم نے کتنے خیرخواہ دوستوں اور کتنی خیرخواہ آنسو بہاتی چیختی چلاتی عورتوں کو چھوڑ دیا۱؂۔‘‘
الوداع!
اے مکّہ! الوداع
تجھے الوداع کہتے ہوئے، ہمارے کلیجے ہیں کہ کٹے جا رہے ہیں۔ آنکھیں ہیں کہ ڈبڈبا گئی ہیں۔ ساری حسرتیں کرچی کرچی ہوکر بکھر گئی ہیں۔ اے مکہ! لاَرَیْبَ کہ تیری فصیلوں سے، تیری گلیوں سے،تیرے ذرّوں سے، تیری دیواروں اور دروازوں سے ہمیں عشق ہے۔ اس لیے کہ تو ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے پاکیزہ ہاتھوں سے بنا ہے۔ اس لیے بھی کہ تیرے دامن میں خدا کاگھر کعبۃ اللہ موجود ہے۔
اے مکّہ! تجھ سے ہمیں پیار ہے۔اس لیے کہ تیری گلیوں میں ہم پلے بڑھے، جوان ہوئے اور عقل و شعور کی وادی میں قدم رکھے۔ تیرے سینے پر ایسے بھی مکیں موجود کہ اُن کی رگوں اور ہماری رگوں میں ایک ہی خاندان کا خون دوڑ رہا ہے۔ تیرے دامن میں ہم نے کاروبار کیے اور آشیاں تعمیر کیے۔
اے مکّہ! تو ہمیں اس لیے بھی عزیز ہے کہ تیرے سینے پر ایک ہیرا محمد(ﷺ) کی صورت چمکا اور اُس کی چکا چوند چمک سے ظلمت کی سیاہیاں مٹنی شروع ہوگئیں۔ تیری گلیوں میں محمد(ﷺ) نے پتھر کھائے، طعنے سنے، ستم سہے۔
لیکن اے مکّہ! یہ منظر بھی تو صدیوں سے دیکھ رہا ہے۔ تیرے سینے پر، تیرے بیٹوں نے دربارِ رحمان کے بجائے آستانہ شیطان پر جبینِ نیاز خم کی ہوئی ہے۔ تیری گود میں پلنے والے خدائے واحد کو چھوڑ کر شجر، حجر، آفتاب و ماہتاب، ستاروں، دریاؤں، پہاڑوں، سانپوں اور بچھوؤں کے پرستار بن گئے ہیں۔ قانون صرف صاحبِ اقتدار اور صاحبِ طاقت لوگوں کی اجارہ ہے۔ زیردستوں کی عصمت و عفت زبردستوں کے ہاتھ میں ہے۔ زیردستوں کے گلشن شباب کی اچھوتی کلیوں کا رس زبردست بھنورا بن کر چوستے رہتے ہیں۔ اور یوں اپنی ہوس کو تسکین بہم پہنچاتے ہیں۔ شرافت نام کو نہیں، غلاموں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔
اے مکّہ! تو دیکھ رہا ہے کہ ضلالت و جہالت، بدتمیزی و بے حیائی، ظلم ۲؂و ستم اور استبداد نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ شرم و حیا کو سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عقل و اخلاق کے تمام آئین و قوانین باد احمر کے چھلکتے جام کی نظر ہوچکے ہیں۔ لال پری محبوب جان بن چکی ہے۔ چپہ چپہ پر ظلمت و جہالت کی تاریکیاں محوِ رقص ہیں۔ حسن بے نقاب اور عشق بے حیا ہوچکا ہے، جس کے طفیل نفس پرستی کچھ یوں بے لگام ہوئی ہے۳؂۔ کہ زنا جیسے قبیح فعل پر ندامت کے بجائے فخرمحسوس کیا جا رہا ہے۔
اے مکّہ! تو دیکھ رہا ہے۔لونڈیوں کو رقص و سرود سکھلا کر نوک پلک سے آراستہ کرکے بازاروں پر بٹھلا دیا جاتا ہے اور جسم بیچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بساط ہستی کی نووارد جیتی جاگتی معصوم بچیوں کا گلا گھونٹ کر پیوندِ خاک کر دیا جاتا ہے۔ خون آشام تلواریں معمولی معمولی باتوں پر میانوں سے تڑپ کر نکلتی ہیں اور انسانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتی ہیں۔ بعض اوقات تو یہ خون ریزی ارض و ماہتاب کی بیسیوں گردشوں کے بعد بھی اختتام کو نہیں پہنچتی۔ وہ کعبہ کہ جسے ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے اس واسطے تعمیر کیا تھا کہ اس میں خدا واحد کی کبریائی بیان کی جائے گی۔ وہاں اب بے جان بے حس اور بے اختیار بتوں نے خدائے واحد کی جگہ سنبھال لی ہے اور بیت اللہ کو بیت الاصنام بنا کر رکھ دیاگیا ہے۔
اے مکّہ! پھر تو نے یہ بھی دیکھا! عالمگیر گمراہیوں اور ہولناک تاریکیوں کی اس شب تیرہ و تار میں ایک نور محمد(ﷺ) کی صورت چمکا۔ تو تیری گلیوں میں ایک انقلاب آفرین صدا گونجی جس نے ظلم و بربریت کی فضاؤں کو لرزہ براندام کر دیا۔ اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبز و شاداب ہوگئیں اور حق و صداقت کے اس ماہتابِ درخشاں نے جہالت وباطل کی تاریکیوں کو برہنہ کرکے رکھ دیا۔
اور اے مکّہ!
ہم نے اس نورِ حق سے اپنے سینوں کو منور کیا۔ اُس صراطِ مستقیم پر اپنے قافلے کو بڑھایا کہ جس پر چلنے کا حکم داعئ حق نے دیا تھا۔
لیکن اے مکّہ!
تیرے بیٹوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن کی عقلوں پر پتھر پڑے ہیں۔ اُنھوں نے دعوتِ حق کو سنا تو جبینوں پر تیوریاں اُبھر آئیں۔ اس لیے کہ اُن کی سرداریاں خطرے میں پڑ رہی تھیں۔ وہ اپنے حلیفوں کو ہمراہ لے کر آگے بڑھے۔ ہم پر اور ہمارے قائد محمد(ﷺ) پر ٹوٹ پڑے۔انھوں نے ہمیں کبھی پتھروں پر لٹایا۔ تو کبھی دہکتے انگاروں پر، کبھی پانی میں غوطے دیے تو کبھی دار پر کھینچا۔ کبھی ریت پر گھسیٹا تو کبھی نوکیلے پتھروں پر، کبھی نیزوں کی ا نّیوں پر آزمایا تو کبھی تلواروں کی دھاروں پر اور پھر تیری گلیاں خون سے لالہ زار ہوگئیں۔ الغرض تیرا دامن ہمارے لیے تنگ کر دیاگیا۔ ہمیں اجازت نہ دی گئی کہ تیرے ذرّوں پر اپنی جبینِ نیاز خداوند کریم کے حضور خم کر سکیں۔
کوئی کان ایسا نہ رہا جو دعوتِ حق کو سنے، کوئی زبان ایسی نہ رہی جو کلمہ حق کے جواب میں لبیک کی صدا بلند کرے۔ کوئی سینہ ایسا نہ رہا، جسے نورِ حق منور کر سکے! تو تیری آغوش میں ہمارا رہنا محال ہوگیا۔
اے مکّہ! پھر تو نے محمد(ﷺ) کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے بھی سنا کہ
اِنَّ اللّٰہَ قَدْ جَعَلَ لَکُمْ اِخْوَانًا وَ دَارًا تَأمِنُوْنَ بِہَا
’’اللہ نے تمھارے لیے ایسے بھائی اور ایسا شہر فراہم کر دیا ہے کہ جہاں تم امن سے رہ سکو۔‘‘
گویا تیرے سینے پر بسنے والے ہمارے بھائی نہیں رہے اور تو ہمارے لیے امن کی جگہ نہ رہا۔ اس لیے اے مکّہ! ہم تجھے الوداع کہتے ہیں۔
کبھی عامر بن ربیعۃ الغزی اور لیلیٰؓ بنت ابی خثمہ کی صورت میں، تو کبھی عمار بن یاسر اور بلال بن رباح کی صورت میں اور کبھی سعد بن ابی وقاص، عثمان بن عفان اور رقیہ بنت محمدؐ کی صورت میں، یا پھر کبھی عبداللہ۴؂ بن حجش، ابو احمدبن حجش، زینب ۵؂ بن حجش، حمنہ۶؂ بنت حجش، ام حبیب بنت حجش اور عمرؓ بن خطاب کی صورت میں
مکّہ! الوداع
اے مکّہ! الوداع۔۔۔۔۔۔ الوداع!
سب چل دیئے
اپنے باغِ محبت کے شیریں ثمرسلمہ کو گود میں لیے ام ۷؂سلمہؓ اُونٹ پر کَسے ہوئے کجاوے میں جا بیٹھیں۔تو ابو۸؂سلمہؓ نے اُونٹ کی مہار پکڑ لی اور دھیرے دھیرے مکّہ کی گلیوں میں آگے بڑھنے لگتے ہیں۔ دفعتاً اُن کے کانوں سے ایک کرخت آواز ٹکراتی ہے۔
’’ابوسلمہ! ٹھہر جاؤ‘‘
ابوسلمہؓ نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو بنی مغیرہ کے لوگوں کو رستہ روکے پایا۔ اُن کے ہمراہ بن الاسد کے لوگ بھی موجود ہیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
ابوسلمہؓ پوچھتے ہیں۔ تو بنو مغیرہ والے اس سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں۔
’’کیا تم مکّہ چھوڑے جا رہے ہو؟‘‘
ابوسلمہؓ جواباً کہتے ہیں:
’’ہاں!‘‘
رستہ روکنے والوں میں سے ایک اور کہتا ہے:
’’تم اپنی ذات کے متعلق تو خودمختار ہو، جہاں چاہو رہو، جو دین چاہو اپناؤ۔ لیکن ہم یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ ہمارے خاندان کی ’’بی بی‘‘ تمھارے ساتھ بے گھر ہو اور تم اسے ساتھ لیے شہر شہر کی خاک چھانتے پھرو۔‘‘
بنی مغیرہ والے یہ فیصلہ سنا کر آگے بڑھتے ہیں اور اُونٹ کی مہار ابوسلمہؓ سے چھین کر پلٹنے لگتے ہیں کہ بنی عبدالاسد کے لوگ بنی مغیرہ والوں کا رستہ روک کر کہتے ہیں:
’’تم نے ہمارے آدمی سے لڑکی چھین لی۔ اب اس پر تمھارا حق نہیں کہ تم ہمارا بچہ بھی ساتھ لے جاؤ۔ سلمہؓ ہمارے خاندان کا بچہ ہے، ہمارے ساتھ رہے گا۔‘‘
یہ کہہ کر بنی عبدالاسد کے لوگ ام سلمہؓ کی گود سے بچہ بھی چھین لے جاتے ہیں۔ ابوسلمہؓ کے دل سے ہوک سی اُٹھتی ہے۔ محو حیرت ہیں۔ ششدر ہیں، کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ بوجھل قدموں سے اپنا رُخ یثرب کی جانب کر لیتے ہیں جیسے وہاں سے اُنھیں کوئی صدا بلند ہوتی ہوئی سنائی دے رہی ہو!
ابوسلمہؓ! اگرچہ تیری بیوی اور تیرے بچے کو تجھ سے جدا کر دیا گیا۔ اور اس سے بڑھ کر تیری نظروں کے سامنے تیرے بچے کو اُس کی ماں سے بھی علیحدہ کر دیا گیا۔ لیکن ابوسلمہؓ تم یونہی یثرب چلے آؤ۔ اس راہ میں نقد جان بھی ہارنی پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔
آہ! کتنے ہیں جو بے گھر ہورہے ہیں۔ سب کچھ چھوڑ کر سُوئے یثرب بڑھے جا رہے ہیں، لیکن کفارِمکہ بھلا کب گوارا کر سکتے کہ یوں اہل ایمان بچ نکلیں۔ سو رستے روکے جاتے ہیں اور ستم کی آندھی ایک مرتبہ پھر چلا دی جاتی ہے۔
یہ صہیبؓ ہیں۔ ہجرت کے لیے نکلے ہیں، مگر ستم گر رستہ روک لیتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’صہیب! تم مکہ میں آئے تھے تو کنگال آئے تھے۔ تم مکہ میں رہ کر مالدار ہوئے۔ اب یہ چاہتے ہو کہ جان کے ساتھ مال و اسباب بھی بچا کر لے جاؤ۔ بخدا ہم ایسا نہ ہونے دیں گے۔‘‘
صہیبؓ کہتے ہیں:
’’اگر میں تمھیں تمام مال و اسباب دے دوں تو کیا تم مجھے یہ شہر چھوڑ جانے دو گے؟‘‘
ستمگرانِ مکہ کی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ کہتے ہیں:
’’ہاں!‘‘
اور یوں صہیبؓ مال و اسباب سے ہاتھ جھاڑ کر یثرب چل پڑتے ہیں۔ اُدھر محمد(ﷺ) کو خبر ملتی ہے تو پکار اُٹھتے ہیں:
رَبِحَ صُہَیْبٌ، رَبِحَ صُہَیْبٌ
’’صہیبؓ نفع میں رہے، صہیبؓ نفع میں رہے۔‘‘
یہ ہشا۹؂مؓ بن عاص ہیں۔ چلے ہیں جانبِ یثرب مگر صیاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ عیّا۱۰؂شؓ بن ابی ربیعہ ہیں۔ ظالموں کے پنجے سے نکل کر ایک مرتبہ پھر پنجہ ستم میں آ پھنستے ہیں اور قید کر دیے جاتے ہیں۔
یہ عبد۱۱؂اللہ بن سہیل عمرو ہیں۔یثرب چلنے لگتے ہیں کہ باپ سہیل بن عمرو رستہ روک لیتا ہے اور پکڑ کر قید خانے میں ڈال دیتا ہے۔
رفتہ رفتہ مکہ اہل حق سے خالی ہوتا جاتا ہے اور پھر یہ وقت بھی آ پہنچا ہے کہ داعئ حق محمد(ﷺ) کے علاوہ یا تو ابوبکرؓ و علیؓ مکہ میں موجود ہیں۔ یا پھر وہ کہ جنھیں پابندِ سلاسل کرکے مکہ میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
سنت الٰہی
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفَِ والْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَO الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ O اُولٰٓءِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ O
’’اور۱۲؂ ہم تمھاری آزمائش کریں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور پھلوں کے نقصان سے اور آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے کہ جب اُن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اور اُسی کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں کہ ان پر نوازشیں ہوں گی۔ اُن کے پروردگار کی طرف سے اور رحمت بھی اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
اک ذرا حبیب کے گھر تک
تمازتِ آفتاب سے مکہ کی دھرتی جل رہی ہے۔
شدّت کی اس گرمی نے انسانوں کو گھروں میں یوں دبکنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مکہ کی گلیاں سنسان ہوگئیں ہیں۔ مگر محمد(ﷺ) اس جھلسا دینے والی دوپہر میں اپنے رفیق خاص ابوبکرؓ کے گھر کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ خلافِ معمول عین دوپہر گھر آنے پر ابوبکرؓ تشویش زدہ ہوجاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں:
’’میرے ماں باپ محمد(ﷺ) پر قربان ضرور کوئی خاص بات ہے جس کی وجہ سے آپؐ اس وقت تشریف لائے ہیں۔‘‘
محمد(ﷺ) گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ تو ابوبکرؓ کے علاوہ عائشہ۱۳؂ اور ا۱۴؂سما کو بھی وہاں موجود پاتے ہیں تو ابوبکرؓ سے فرماتے ہیں:
أَخرِجَ عِنّی مَنْ عِنْدِکَ
’’جو لوگ تمھارے پاس ہیں اُنھیں ہٹا دو۔‘‘
ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں:
’’میرے ماں باپ آپؐ پہ قربان، اس وقت صرف میری بیٹیاں ہی یہاں موجود ہیں۔ ان کے رہنے میں کوئی قباحت نہیں۔‘‘
یہ سن کر محمد(ﷺ) فرماتے ہیں۱۵؂:
اِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَذِنَ لِی فِی الْخُرُوْجِ والْہِجْرَۃِ
’’اللہ تعالیٰ نے نکل جانے اور ہجرت کر جانے کی مجھے اجازت دی ہے۔‘‘
ابوبکرؓ دھڑکتے دل کے ساتھ عرض کرتے ہیں:
اَلصَّحْبَۃُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ
’’اے اللہ کے رسول! مجھے بھی صحبت ملے گی۔‘‘
محمد(ﷺ) جواب دیتے ہیں:
الصَّحبَۃُ
’’(ہاں تم بھی) ساتھ رہو گے۔‘‘
یہ خبر سنتے ہی ابوبکرؓ کی آنکھوں کے جام خوشی کے آنسوؤں سے چھلک پڑتے ہیں۔ اپنے جذبات پر قابو پانے کے بعد عرض کرتے ہیں:
’’میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں یا رسول اللہ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں۔ جو میں نے اسی مقصد کے لیے رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک آپؐ قبول فرمائیں۔‘‘
’’لیکن قیمتاً۔۔۔!!‘‘
محمد(ﷺ) جواب دیتے ہیں۔
ابوبکرؓ اصرار کرتے ہیں کہ کسی طرح ہدیتاً قبول فرما لیں، مگر محمد(ﷺ) اونٹنی۱۶؂ قیمتاً ہی لیتے ہیں۔
پھر دونوں عبداللہ۱۷؂ بن اریقط کے گھر کی جانب چل دیتے ہیں تاکہ اُسے اُجرت پر راستہ بتانے اور مخصوص وقت تک اونٹ چرانے کے لیے راضی کیا جا سکے۔ یہ کام کرچکنے کے بعد محمد(ﷺ) پھر اپنے گھر واپس پلٹ آتے ہیں۔
سازشیں
ابلیس۱۸؂ خوش شکل کہن سال بوڑھے نجدی کا روپ دھارے اور موٹی چادر میں اپنے جسم کو لپیٹے دار الندوہ کے دروازے پہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ اہل قر۱۹؂یش کی نظریں اس کہن سال بوڑھے ابلیس کے چہرے پر پڑتی ہیں تو وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوجاتے ہیں۔ حیران اس لیے کہ اس بوڑھے کو اس ’’خفیہ میٹنگ‘‘ کی اطلاع کیسے ہوگئی؟ حالانکہ اس معاملے میں بہت رازداری سے کام لیا گیا تھا اور پریشان اس لیے ہوئے کہ یہ راز نہیں رہا۔
’’بڑے میاں تم کو ن ہو؟‘‘
خفیہ میٹنگ کرنے والوں میں سے ایک سوال کرتا ہے تو بوڑھا ابلیس جواب دیتا ہے۔
’’میں نجد والوں میں سے ایک شیخ ہوں سنا تھا کہ تم لوگ ایک قرارداد کے مطابق جمع ہوئے ہو۔ میں بھی چلا آیا کہ کچھ کہوں، کچھ سنوں، رائے دہی اور خیر خواہی میں کوتاہی نہ برتوں۔‘‘
قریش یہ سن کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انھیں ایک تجربہ کار گرگ باراں دیدہ کہن سال بوڑھے نجدی کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ میٹنگ کا آغاز ہوتا ہے تو ایک کہتا ہے:
’’تم لوگوں نے محمدؐ کا معاملہ دیکھ لیا۔ اب اُس کی روش ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہو رہی ہے۔ کوئی ایسی تدبیر سوچو کہ یہ معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۲۰؂۔‘‘
دوسرا تجویز پیش کرتا ہے:
’’اسے لوہے کی بیڑیاں پہنا کر قید خانے میں ڈال دو اور سِسک سِسک کر مر جانے دو۔‘‘
مگر بوڑھا نجدی کہنے لگا:
’’واللہ! تمھاری یہ تجویز ٹھیک نہیں۔ محمدؐ کے جانثار اپنے آقا کو چھڑانے کے لیے جدوجہد کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی طاقت میں اضافہ کرکے تم پر ٹوٹ پڑیں۔‘‘
ایک تجویز اور میٹنگ میں رکھی جاتی ہے:
’’محمدؐ کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ مکہ سے نکل جائے گا تو سکون ہوجائے گا۔ ہماری سردردی ختم ہوجائے گی۔ بعد میں وہ جہاں رہے، جیئے یا مرے ہمیں اس سے کیا سروکار۲۱؂۔ (خاکم بدہن)‘‘
لیکن اس مرتبہ بھی بوڑھا نجدی تجویز رد کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’کیا تم اُس کی شیرنی گفتار، خوبی کلام ا ور لوگوں کے دلوں پر اُس کی پیش کردہ چیز کا غلبہ نہیں دیکھتے؟ واللہ! اگر تم ایسا کر بیٹھے تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ عرب کے جس قبیلے میں جائے گا اُس پر اپنے شیریں کلام سے ایسا غلبہ پائے گا کہ وہ سب اُس کے مطیع ہوجائیں گے۔ پھر ممکن ہے وہ انھیں لے کر تم پر حملہ آور ہواور تمھاری حکومت چھین لے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم کوئی اور تجویز سوچو۔‘‘
آخر ابوجہل دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتا ہے:
’’میری اس سلسلے میں ایک تجویز ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تم اس پر متفق ہوجاؤ۔‘‘
سبھی پوچھتے ہیں:
’’ابوالحکم! بتاؤ تو وہ کیا تجویز ہے؟ جو تم رکھنا چاہتے ہو؟‘‘
ابوجہل تجویز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتا ہے:
’’ہر قبیلے سے ایک جوان مرد چُن لو۔ اُن تمام کے ہاتھوں میں تلواریں تھما دو اور جب محمدؐ صبح کے وقت اُٹھیں تو وہ سبھی یک بارگی یوں حملہ آور ہوں جیسے ایک ہی وار کیا گیا ہو! اس طرح خون تمام قبیلوں میں بٹ جائے گا اور محمد کے خاندان والے بدلہ لینے کے قابل نہ ہوسکیں گے۔‘‘
بوڑھا نجدی اس تجویز کو سنتا ہے تو عش عش کر اُٹھتا ہے۔ باقی بھی شرکاءِ میٹنگ بھی اس تجویز کی خوب تعریف کرتے ہیں۔ ابوجہل کی یہ خونی تجویز فیصلہ کا روپ دھارتی ہے تو اُن افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، جنھوں نے یہ کام سرانجام دینا ہے۔
اِدھر داراالندوہ میں محمد(ﷺ) کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف خداوند کریم کی جانب سے محمد(ﷺ) کو قریش کی سازشوں سے مطلع کر دیا جاتا ہے۔ جبرائیل حاضر ہوکر محمد(ﷺ) کو رات گھر قیام کرنے سے منع کر جاتے ہیں۔
پیچ و تاب
آکاش کا دامن ننھے منّے چمکتے دمکتے تاروں سے بھرا پڑا ہے۔ بے رونق سا چاند رات کی تاریکی پر اپنا ہلکا سا پرتو ڈال رہا ہے۔ گرم لُو کے جھونکے مکہ کے درودیوار کو تھپکیاں دے رہے ہیں اور پورا مکہ نیند کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہے۔ ایسے میں بارہ (۱۲) خون کے پیا۲۲؂سے دارالندوہ سے نکلتے ہیں اور محمد(ﷺ) کے مکان کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ جب کہ مکان کے اندر محمد(ﷺ) علی سے کہہ رہے ہیں۔
’’تم میرے بستر پر میری حضری چادر اُوڑھ کر سو رہو، اُن کی جانب سے کوئی ناپسندیدہ چیز تم تک نہ پہنچ سکے گی۔‘‘
علیؓ کو ہدایات دینے کے بعد محمد(ﷺ) گھر کی دہلیز کو عبور کرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو زبان پر قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی آیات جاری ہوجاتی ہیں
یٰسٓ O وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ O اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ O عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمِO
’’یٰسین، حکمت والے قرآن کی قسم! تو اللہ کے بھیجے ہوؤں میں سے ہے،ا ور سیدھے راستے پر ہے۔‘‘
محمد(ﷺ) بڑھے چلے جا رہے ہیں اور یہاں تک تلاوت کرتے جاتے ہیں کہ
بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنَاہُمْ فَہُمْ لاَیُبْصِرُوْنَ
’’اور ہم نے ان کے آگے پیچھے ایک قسم کی روک بنا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے کہ وہ دیکھتے ہی نہیں۔‘‘
خداوند عزوجل کی قدرت ملاحظہ ہو کہ جونہی محمد(ﷺ) تشنگانِ خون کے سامنے ہوتے ہیں۔ اُن کی بصارت ربِّ کائنات کی جانب سے چھین لی جاتی ہے اور اُن کی آنکھیں اس قابل نہیں رہتیں کہ محمد(ﷺ) کو دیکھ سکیں۔ محمد(ﷺ) نے اپنی مشت میں خاک اُٹھا رکھی ہے اور محاصرین کے سروں پر ڈالتے جاتے ہیں۔
پھر وہاں سے اپنے رفیق خاص ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ ابوبکرؓ کو ہمراہ لے کر پچھلی کھڑکی سے نکلتے ہیں۔ اور جانب جنوب چل دیتے ہیں۔ شہر سے نکل کر جب مقامِ حزورہ پہ پہنچتے ہیں۔ تو محمد(ﷺ) پلٹ کر بیت اللہ کی جانب رُخ کر لیتے ہیں۔ دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ بڑے دکھ اور حسرت سے فرماتے ہیں:
’’اے مکہ! خدا کی قسم! تو مجھے خدا کی زمین میں سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین پر تو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر تیرے باسی مجھے نہ نکالتے تو میں تجھے ہرگز خیرباد نہ کہتا۔‘‘
ادھر مکہ میں محمد(ﷺ) کے خون کے پیاسے بدستور گھر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں کہ ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے:
’’اے اہل قریش! کس کا انتظار ہے؟‘‘
’’محمدؐ کا۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ جواب دیتے ہیں تو نووارد کہتا ہے:
’’واللہ! محمدؐ تو تمھارے سامنے سے نکل گیا ہے اور حد یہ کہ تم سبھی کے سروں پر مٹی ڈالتا گیا۔ تمھیں خبر نہ ہوئی؟ ذرا اپنی حالتوں کو تو دیکھو!‘‘
یہ سن کر سبھی اپنے اپنے سروں پر ہاتھ مارنے لگتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سرخاک سے اَٹے پڑے ہیں۔ اُنھیں نوارد کی بات سچ معلوم ہونے لگی ہے۔ تسلی کرنے کی غرض سے دیوار سے جھانک کر اندر سبز حضرمی چادر اُوڑھے علیؓ کو دیکھتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں:
’’واللہ! محمدؐ تو سو رہا ہے۔ اور خود اُسی کی چادر اُس پر ہے۔‘‘
دور مشرقی جانب سے آسمان نیلگوں ہونا شروع ہوگیا ہے۔ تشنگانِ خون اب اپنے پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے قرار ہیں۔ اسی اثناء میں سونے والا چادر منہ سے اتار کر چارپائی سے اُتر پڑتا ہے۔ اہل قریش محمد(ﷺ) کے بجائے علیؓ کو بستر سے اُٹھتے دیکھتے ہیں۔ تو حیرت زدہ ہوجاتے ہیں۔
محمد(ﷺ) کہاں گئے؟
کیسے گئے؟
بہت پیچ و تاب کھاتے ہیں کہ شکار آج بھی ہاتھ سے نکل گیا! علیؓ کے قریب جا کر پوچھتے ہیں:
’’بتاؤ! محمد کہاں ہیں؟‘‘
’’مجھے کیا خبر کہ وہ کہاں ہیں۔ میں اُن پر کوئی نگراں تو نہیں، تم نے اُسے نکالا تو وہ چلے گئے۔‘‘
قریش یہ سن کر جھنجھلا جاتے ہیں۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے علیؓ کو نشانہ ستم بنا لیتے ہیں۔ مارپیٹ سے فارغ ہوتے ہیں تو کعبہ میں لے جا کر بند کر دیتے ہیں۔ لیکن علیؓ کی جانب سے مسلسل لاعلمی کا اظہار کیا جاتا ہے تو مجبوراً علیؓ کو چھوڑ دیتے ہیں۔
سارے منصوبے پر پانی پھرتے دیکھ کر ابوجہل کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اپنے ہمراہیوں کو لے کر ابوبکرؓ کے گھر کی جانب چل دیتا ہے اور جا دروازے میں کھڑا ہوتاہے۔ اسماؓ ابوجہل کو دروازے میں کھڑا دیکھتی ہیں۔ تو قریب آ جاتی ہیں۔ ابوجہل اسماؓ سے پوچھتا ہے:
’’اے ابوبکرؓ کی بیٹی! تیرا باپ کہاں ہے؟‘‘
اسماؓ جواب دیتی ہیں:
’’واللہ! میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہیں؟‘‘
یہ سن کر شقی القلب ابوجہل ننھی اسماؓ کے چہرے پر اس قدر زور سے تھپڑ رسید کرتا ہے کہ کان کی بالی ٹوٹ کر دور جا گرتی ہے۔
ننھا منا قافلہ
رات کی گھنیری سیاہی میں چاند اور ستارے دونوں بے رونق ہوچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شب بھر جاگتے رہنے کے بعد انھیں بھی نیند کی جھپکیاں آ رہی ہوں۔ ہوا کی تھپکیاں بدستور ویسے ہی ہیں۔ محمد(ﷺ) اپنے رفیقِ سفر ابوبکرؓ کے ہمراہ رفتہ رفتہ مکہ کی گلیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ تین میل کی مسافت اور پھر رستہ بھی دشوار گزار کچھ اور آگے بڑھتے ہیں تو سرتوڑ چڑھائی کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ سنگلاخ زمین اور نوکیلے پتھر ہیں کہ جن سے محمد(ﷺ) بار بار ٹھوکر کھائے جا رہے ہیں۔ پائے مبارک زخمی ہوگئے ہیں۔ ابوبکرؓ سے اپنے آقامحمد(ﷺ) کی یہ تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ آگے بڑھ کر اُنھیں کندھوں پر اُٹھا لیتے ہیں۔ غارثور پر پہنچ کر رُک جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے۔ جہاں کچھ عرصہ کے لیے قیام طَے ہے۔ عبداللہ بن اریقط کو بھی یہی ہدایت کی گئی تھی کہ مکہ والوں کی نظروں سے بچ کر اُونٹنیوں کے ہمراہ یہیں آ جانا۔
ابوبکرؓ محمد(ﷺ) کو باہر ٹھہرا کر خود غار کا اندر سے جائزہ لیتے ہیں۔ گرد و غبار سے غار اَٹا پڑا ہے اور جا بجا کیڑے مکوڑوں نے اپنے بل بنا رکھے ہیں۔ غار کو صاف کرنے کے بعد ابوبکرؓ اپنے تن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر تمام روزن بند کر دیتے ہیں ۔ لیکن ایک سوراخ ایسا بھی ہے جو ان کی نظروں سے بچ رہا ہے۔ اس کام سے فارغ ہوکر باہر نکلتے ہیں اور محمد(ﷺ) سے عرض کرتے ہیں:
’’یا رسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اندر تشریف لے آئیں۔‘‘
محمد(ﷺ) غار میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بدن تھکن سے چور ہے۔ ابوبکرؓ فرطِ محبت و عقیدت سے محمد(ﷺ) کا سرمبارک اپنے زانوں پر رکھ لیتے ہیں۔ تاکہ ان کا محبوب آرام کرسکے۔ دفعتاً ابوبکرؓ کی نظر اُس سوراخ پر جا پڑتی ہے۔ جو پہلے نظروں سے اوجھل رہا تھا۔ اپنا پاؤں سرکا کر اُس سوراخ پر رکھ دیتے ہیں کہ مبادا کوئی موذی کیڑا نکل کر ان کے محبوب کو گزند نہ پہنچائے۔ اتفاق کی بات ملاحظہ ہوکہ اس سوراخ میں موجود ایک سانپ ابوبکرؓ کے پاؤں پر ڈس جاتا ہے۔ زہر نے اپنا اثر دکھلانا شروع کر دیتا ہے۔ درد کی شدت ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ مگر ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیتے ہیں۔ اور اُف تک نہیں کرتے کہ کہیں محمد(ﷺ) کی نیند اُچاٹ نہ ہو جائے۔ لیکن لاکھ ضبط کے باوجود آنکھوں سے آنسو ڈھلک کر محمد(ﷺ) کے رُخ انور پر جا پڑتے ہیں۔ محمد(ﷺ) کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ابوبکرؓ سے ماجرا دریافت کرتے ہیں۔ تو مجبوراً ابوبکرؓ کو سارا وقوعہ سنانا پڑتا ہے۔ محمد(ﷺ) یہ سن کر اپنا دہن ابوبکرؓ کے زخم پر لگادیتے ہیں۔ تاثیر لعاب دہن سے زہر کا سارا اثر کافور ہوجاتا ہے۔
نوخیز عبد۲۳؂اللہ بن ابی بکر شام ڈھلے غار میں آ کر محمد(ﷺ) اور ابوبکرؓ کی رفاقت میں رات گزارتے اور صبح منہ اندھیرے مکہ واپس پلٹ جاتے ہیں اور پتہ لگاتے ہیں کہ قریش کیا مشورے کر رہے ہیں جو کچھ بھی خبریں ملتی ہیں۔ آ کر محمد(ﷺ) سے عرض کرتے ہیں۔ عامرؓ بن۲۴؂ فہیرہ کچھ رات گئے بکریاں چراتے چراتے ادھر لے آتے ہیں اور دونوں رفقا دودھ پی لیتے ہیں۔ جبکہ ننھی اسماءؓ روزانہ شام گھر سے کھانا پکار کر ننھے ننھے ہاتھوں میں اُٹھائے کفارِ مکہ سے چھپتے چھپاتے غار میں لے آتیں۔
اِدھر قریش مکہ کا ایک ایک کونہ چھان مارتے ہیں۔ اُن راہوں پر بھی سوار دوڑاتے ہیں جو یثرب کو جاتے ہیں۔ مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ آخر تھک ہار کر کرزبن علقمہ کے پاس جاتے ہیں۔ کرزبن علقمہ پاؤں کے نشانات کے ذریعے مفروروں کو ڈھونڈنے میں مہارت رکھتا ہے۔ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ محمد(ﷺ) کو تلاش کرنے میں مدد کرے۔ کرز بن علقمہ اسی فن کے ماہر اپنے ایک اور ساتھی کو ہمراہ لے کر قریش مکہ کے ساتھ محمد(ﷺ) کی جستجو میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار ثور کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
کتنے نازک لمحات ہیں یہ۔ محمد(ﷺ) اور ابوبکرؓ اندر موجود ہیں اور خون کے پیاسے سر پر پہنچ چکے ہیں۔مگر اُدھر خداوند کریم اپنے محبوب بندوں کی حفاظت کا یوں انتظام فرماتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ غار کے دہانے پر مکڑی حکم خدا سے جالا تن دیتی ہے۔ کرزبن علقمہ یہاں پہنچ کر کہتا ہے:
’’اب کچھ پتہ نہیں چل رہا، جانے والے اس کے بعد کہاں گئے۔‘‘
شک گزرتا ہے کہ کہیں غار میں نہ ہوں۔ مگر جو دہانے پر نظر پڑتی ہے تو وہاں مکڑی نے جالا تن رکھا ہے۔ مکڑی کے جالے کو دیکھ کر وہ اپنے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے۔ مکڑی اتنی جلدی جالا تن سکے۔ قریش میں سے ایک کرز بن علقمہ سے کہتا ہے:
’’کیوں نہ غار میں چل کر دیکھ لیا جائے۔‘
مگر دوسرا جواب دیتا ہے:
’’ارے یہاں کیا پاؤ گے اس غار پر تو مکڑی کا جالا محمد کی پیدائش سے بھی پہلے کا تنا ہوا ہے۔‘‘
غار کے اندر ابوبکرؓ محمد(ﷺ) کے خون کے پیاسوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور پریشان ہوجاتے ہیں۔ محمد(ﷺ) اپنے رفیق باوفا کو یوں پریشان دیکھتے ہیں تو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
لَاتَحْزَنْ اِنّ اللّٰہَ مَعَنَا
’’گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
چنانچہ یہی ہوتا ہے اور کفار باہر ہی سے بحث و مجادلہ کے بعد واپس پلٹ جاتے ہیں۔ محمد(ﷺ) اور ابوبکرؓ غار میں تین راتیں اور بسر کرتے ہیں۔ چوتھے روز شام ڈھلے عبداللہ بن اریقط اونٹوں کو لیے حسبِ وعدہ پہنچ جاتا ہے اور یوں یہ ننھا قافلہ ایک مرتبہ پھر سوئے یثرب چل پڑتا ہے۲۵؂۔
کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
’’سراقہ۲۶؂ سنو تو!‘‘
سراقہ بن جعشم کو اپنی قوم کے لوگوں میں بیٹھا دیکھ کر ایک نوارد نے متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ سراقہ نوارد کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے:
’’ابھی میں نے ساحل پر کچھ آدمی جاتے دیکھے، میرا خیال ہے وہ محمدؐ اور اُن کے ساتھی ہیں۔‘‘
سراقہ یہ سنتا ہے تو چونک اُٹھتا ہے اور جی ہی جی میں کہتا ہے:
’’کتنی اہم بات اس نے یونہی سرمحفل کہہ دی ۔‘‘
سراقہ کو یقین ہوچکا ہے کہ ساحل پہ دیکھے جانے والے لوگ محمد(ﷺ) اور اُن کے ساتھی ہی ہیں۔ دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ عنقریب وہ سو اونٹوں کا مالک بن جائے گا۔ کل ہی تو اہل قریش میں سے ایک آدمی نے آکر اطلاع دی تھی کہ :
’’جو محمدؐ کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا سو (۱۰۰) اونٹوں کا حق دار ٹھہرے گا۔‘‘
اب یہ سنہری موقع سراقہ کسی طور پر ہاتھ سے نہیں کھونا چاہتا تھا۔ چنانچہ چپکے سے محفل سے یوں اُٹھ آتا ہے اور کسی کو شک بھی نہیں گزرتا۔ خود سر پہ رکھے، نیزہ تانے بدن پر ہتھیار سجائے اپنی گھوڑی پر سراقہ ہوا سے باتیں کرتا جا رہا ہے۔ دفعتاً اُس کی نظر محمد(ﷺ) اور اُن کے ساتھیوں پر پڑتی ہے۔ دِل میں خیال جنم لیتا ہے۔
’’لو میں کامیاب ہوگیا۔‘‘
لیکن گھوڑی زور سے ٹھوکر کھا کر گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑتی ہے اور سراقہ بھی دور جا گرتا ہے۔
خود اُٹھا، گھوڑی کو اُٹھایا، سوار ہوا اور پھر چل پڑا۔ محمد(ﷺ) قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اور اللہ سے لو لگائے آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں کہ محمد(ﷺ) کو دشمنِ جان کے قریب پہنچنے کی اطلاع دی جاتی ہے۔ محمد(ﷺ) فرماتے ہیں:
’’الٰہی! ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھ۔‘‘
اِدھر یہ الفاظ زبان مبارک سے نکلتے ہیں۔ اُدھر سراقہ کی گھوڑی کے اگلے پاؤں زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ سراقہ ایک جھٹکے سے زمین پر جا پڑتا ہے۔ اسی لمحے درِ ذہن پر یہ حقیقت دستک دیتی ہے کہ:
’’خدا، جس کی حفاظت کرے اُس پر غالب آنا محال ہے۔‘‘
پھر وہیں سے پکار کر کہتا ہے:
’’صاحبو! میں سراقہ بن جعشم ہوں۔ مجھے اتنی مہلت دو کہ میں تم سے بات کر سکوں۔ واللہ! میں کوئی دغا نہ کروں گا اور نہ میری جانب سے کوئی ایسی بات پہنچے گی جو تم کو پسند نہ ہو۔‘‘
یہ سن کر محمد(ﷺ) اپنے ساتھی ابوبکرؓ سے فرماتے ہیں:
قُلْ لَہٗ مَا تَبْتَغِی مِنّا
’’اُس سے کہو وہ کیا چاہتا ہے۔‘‘
ابوبکرؓ محمد(ﷺ) کی بات سراقہ سے کہتے ہیں تو وہ درخواست کرتا ہے کہ:
’’مجھے امان کی تحریر لکھ دی جائے!‘‘
محمد(ﷺ) کے ارشاد پر عامر بن فہیرہ خط امان لکھ کر دیتے ہیں۔ سراقہ جب واپس پلٹنے لگتا ہے۔ تو محمد(ﷺ) فرماتے ہیں:
کَیْفَ بِکَ اِذَا السبت سواری کسریٰ
’’سراقہ تیرا کیا حال ہوگا۔جب تو کسریٰ کے کنگن پہنے گا۔‘‘
سراقہ یہ سن کر چکرا جاتا ہے اور حیرت سے استفسار کرتا ہے:
اکسریٰ فارس
’’کیا ایران کا کسریٰ؟‘‘
محمد(ﷺ) اثبات میں جواب دیتے ہیں مگر اس موقع پر یہ بات سن کر سراقہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکے گا۲۷؂۔
میں انؐ سے ضرور ملوں گا
’’اُمِ معبد۲۸؂، اُمِ معبد‘‘
عاتکہ بنت خالد اپنے شوہر کو یوں پکارتے سنتی ہے تو اُس کی جانب یوں دیکھتی ہے جیسے پوچھ رہی ہو:
’’کیا بات ہے؟‘‘
ابومعبد کہتے ہیں:
’’معبد کی ماں! میں حیران ہوں کہ یہ دودھ کا بھرا ہوا برتن کہاں سے آ گیا؟‘‘
عاتکہ یہ سن کر کہتی ہے:
’’ایک بہت ہی بابرکت شخص کا گزر یہا۲۹؂ں سے ہوا مجھ سے اُنھوں نے کھانے کے لیے کچھ مانگا مگر چونکہ کچھ۳۰؂ نہ تھا۔ اس لیے میں نے کہا: اگر کوئی چیز موجود ہوتی تو واللہ! میں خود حاضر کر دیتی۔‘‘
اُس بابرکت شخ نے جو اس نحیف بکری کو خیمے کے کونے میں کھڑے دیکھا تو پوچھا:
’’یہ بکری کیوں کھڑی ہے؟‘‘
میں نے کہا:
’’یہ بے چاری اتنی لاغر اور کمزور ہے کہ ریوڑ کے ساتھ نہیں چل سکتی۔‘‘
اُنھوں نے پھرکہا:
’’اگر اجازت ہو تو ہم اسے دوہ لیں۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے کہا: اگر آپ کو دودھ معلوم ہوتا ہے تو دوہ لیجیے۔ میری جانب سے اجازت پا کر اُس مقدس شخص نے برتن منگوایا اور بکری کو دوہنا شروع کر دیا۔ میں حیران ہوگئی کہ یہ سوکھی سڑی بکری جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے اور پہلے کبھی بھی چند گھونٹوں سے زائد دودھ نہیں دیا۔ آج برتن بھرے جا رہی تھی۔ سب سیر ہوگئے اور یہ دودھ بچ رہا جو میں نے تمھاری خاطر رکھ چھوڑا۔‘‘
یہ داستان سن کر ابومعبد پوچھنے لگے:
’’کہیں یہ وہی صاحب قریش تو نہیں کہ جس کی مجھے تلاش ہے۔ ذرا تم اُس کی توصیف تو کرو۔‘‘
عاتکہ ابومعبد کا تجسس دیکھ کر یوں گویا ہوتی ہے:
ظاہر الوضاء ۃ ابلج الوجہ حسن الخلق لَمْ تعبد ثجلۃ وَ لَمْ تزربہ صلعۃ وسیمٌ تسیمٌ فی عینیہ و عج و فی اشعارہ وطف وفی صوتہ حمل و فی عنفہ سطح احوراکحل ازج اقرن شدید سوار الشعازدا صمت علاہ الوقار و ان تکلم علاہ
’’حسن و جمال میں نمایاں، چہرہ روشن، اخلاق پاکیزہ، بدن نہ بھاری نہ نحیف خوبصورت اور خوش اندام، آنکھوں میں گہری سیاہی اور پلکیں لمبی۔ آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگین چشم، باریک و پیوستہ ابرو، گھنگریالے بال، خاموش ہوتاتو وقار نمایاں ہوجاتا گویا دلی وابستگی لیے ہوئے۔‘‘
الیہا اجمل النَّاس و البہا ہم من بعید وَ اَحسنہ و احلاہ من قریب جلو المنطق فصل، لاتزر ولا ہذرکان منطقہ خزرات، نظم یتحدرن ربعۃٌ لا یقحمہ عین من قصر ولایشناء من طول
’’دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین شیریں کلام، واضح الفاظ کلام کمی و بیش الفاظ معرا تمام گفتگو موتیوں کی لڑی میں پروئی ہوئی میانہ قد کہ کوتاہی سے حقیر نظر نہ آتے نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔‘‘
غصنین فہو انضر الثلثۃ منظر أو احسنہم قدرًاالہ رفقاء یخفون بہ اذا قال استمعوا لقولہ و اذا امرتبا درواِلٰی امرہ، محفور، محشور لا عابس و لا تنعد
’’زیبندہ نہال کی تازہ شاخ زیبندہ منظر والا قدر، رفیق ایسے کہ ہر وقت گردو پیش رہتے۔ جب وہ کچھ کہتا تو چپ چاپ سنتے۔ حکم دیتا تو تعمیل کو جھپٹتے۔ مخدوم، مطاع، نہ ترش رونہ درشت کلام۳۱؂۔‘‘
ابومعبد جو یہ صفات سنتے ہیں تو پکار اُٹھتے ہیں:
’’قسم خدا کی! یہ تو وہی صاحبِ قریش۳۲؂ ہے، جس کا ذکر ہم سنتے رہے ہیں۔ اگر میں اُن سے ملتا تو ساتھ دینے کی درخواست کرتا اور اب میری کوشش ہوگی کہ میں اُسے ضرور ملوں۳۳؂۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ ابن ہشام

۲۔ مظلوموں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے معاشرے کو بڑی حکمت سے تیار کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر زہیر ابن ابی سلمیٰ اس معاشرتی فساد کو بھڑکانے کی غرض سے کہتا ہے۔ (ترجمہ اشعار)
’’جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا۔ تباہ و برباد ہوگا اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا۔ وہ بالآخر خود ظلم کا شکار ہوگا۔‘‘
اسی طرح ایک اور اُس دور کا عربی معقولہ ہے: انصر اخاک ظالما أو مظلوما(اپنے بھائی کی مدد کہ خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا اُس پر ظلم ہو رہا ہو) سیّد قطب

۳۔ دورِ جاہلیت میں زنا اور نکاح کے مروّجہ طریقوں کا ذکر سید قطب شہید نے اپنے مضمون ’’رسولؐ کا طریقہ انقلاب‘‘ میں بخاری شریف کے حوالے سے یوں کیا ہے۔ ’’جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں۔ ایک تو وہ صورت تھی جو آج کل لوگوں میں جاری ہے۔ یعنی ایک آدمی دوسرے شخص کو اُس کی بیٹی یا اُس کی تولیت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغام نکاح دیتا ہے اور اُس سے نکاح کر لیتا ہے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے جبکہ وہ حیض سے پاک ہوچکی ہوتی۔ کہتا کہ فلاں آدمی کو بلا اور اُس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا ہے۔اور اُس وقت تک اُسے نہیں چھوتا جب تک اُس آدمی کے حمل کے آثار نہ ظاہر ہوجائیں۔ آثار ظاہر ہونے کے بعد خاوند اگر چاہتا ہے تو ہم بستری کر لیتاوہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا۔ تاکہ اُسے اچھے نسب کا لڑکا ملے۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی جمع ہو جاتی اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتی اور اُسی سے مقاربت کرتی۔ جب اُسے ٹھہر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر جانے کے بعد وہ اُن سب کو بلا بھیجتی۔ اس طرح بلاوا ملنے پر کوئی شخص انکارنہ کرسکتا تھا۔ جب وہ اُس کے پاس جمع ہوجاتے۔ تو وہ عورت اُن سے کہتی تمھیں اپنی کارروائی کا نتیجہ معلوم ہوہی چکا ہے۔ میں نے ایک بچہ جنا ہے۔ پھر وہ اُن میں سے ایک کی طرف اشارہ کرکے کہتی یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس پر اُس بچے کا نام اُس شخص پر رکھ دیا جاتا اور لڑکا اُس کی طرف منسوب ہوجاتا اور وہ اس نسب سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے جس کے پاس جانے میں کسی کو رکاوٹ نہ ہوتی۔ دراصل پیشہ ور فاحشہ عورتیں تھیں اور علامت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کر لیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا۔ ان کے پاس چلا جاتا۔ ایسی عورتوں میں سے اگر کسی کو حمل ٹھہر جاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ اُس کے پاس جمع ہوجاتے۔ اور ایک قیافہ شناس کو بلا لیتے ۔ وہ ان میں سے جس کی طرف لڑکے کو منسوب کرتا۔ وہ لڑکا اُس شخص کا قرار پاتا۔ ور وہ اس سے انکار نہ کر سکتا تھا۔

۴۔ یہ عبداللہ بن حجش اسدی، حضرت زینبؓ ام المؤمنین کے بھائی ہیں۔ حضورؐ کے دارارقم میں آمد سے قبل اسلام قبول کیا۔ انھوں نے ہجرت حبش اور ہجرت مدینہ دونوں کی۔ غزوہ بدر میں حاضر ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوگئے۔

۵۔ یہ امہات المومنین میں سے ہیں۔ ان کی والدہ کا نام امیّہ تھا جو عبدالمطلب کی بیٹی تھی۔ اور حضورؐ کی پھوپھی، یہ زید بن حارثہ(حضورؐ کے آزادکردہ غلام) کی بیوی تھیں۔ پھر زید نے ان کو طلاق دے دی اور حضورؐ نے ۵ ہجری میں ان کو نکاح میں لے لیا۔ حضورؐ کی وفات کے بعد تمام ازواج میں پہلے انتقال فرمایا۔ ان کا پہلا نام ’’برہ‘‘ تھا۔ حضورؐ نے نام زینبؓ رکھا۔ ۲۰ ہجری مدینہ میں وفات پائی۔ اُس وقت عمر۵۳ سال تھی۔

۶۔ یہ حمنہؓ حجش کی بیٹی تھی اور حضرت زینبؓ کی بہن تھی۔ مصعبؓ بن عمیر کی زوجیت میں تھیں۔ پھر مصعبؓ بن عمیر

۷۔ یہ اُم المومنین ہند بنت اُمیہ ہیں۔ حضورؐ کے ساتھ نکاح سے قبل ابوسلمہؓ کے نکاح میں تھیں۔ ابوسلمہؓ کا جب ۴ہجری میں انتقال ہوا تو ان کا نکاح حضورؐ سے ہوا۔ اِن کا انتقال ۵۹ ہجری میں ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر۸۴ سال تھی۔

۸۔ ابوسلمہؓ عبداللہ بن عبدالاسد کے بیٹے مخزومی قریشی رسول اللہؐ کی پھوپھی کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ ’’برہ‘‘ عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ تمام غزوات میں شریک رہے۔ ۴ہجری میں انتقال ہوا۔

۹۔ یہ عاص بن وائل کے بیٹے ہیں۔ مکہ میں اسلام قبول کیا۔ دوسری ہجرت حبش میں شریک تھے۔ ہجرت مدینہ کے لیے نکلے تو والد نے پکڑ کر قید کر لیا۔ جنگ خندق کے بعد مدینہ آئے۔ جنگ اجنادین میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں شہید ہوئے۔ ان کا جسم میدان جنگ میں گھوڑوں تلے اس قدر روندا گیا کہ گوشت جمع کرکے دفن کرنا پڑا۔ ۱۳ ہجری کو شہادت ہوئی۔

۱۰۔ عیّاشؓ بن ابی ربیعہ بن المغیرہ والد کا نام۔ حضورؐ کے دارارقم میں آنے سے قبل اسلام قبول کیا۔ ہجرت ثانیہ میں ملک حبش گئے۔ پھر مکہ آئے اور اصحابِ رسول کے ساتھ مدینہ ہجرت کی، لیکن قبا سے ابوجہل اور حارث بن ہشام کے اصرار کرنے پر واپس مکہ آئے۔ مکہ میں انھیں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور قید کر دیا گیا۔ پھر یہاں سے رہا ہوکر مدینہ آئے تو رحلتِ رسولؐ تک یہیں رہے۔ پھر شام چلے گئے۔ وہاں سے مکّہ آ گئے اور مکّہ میں ہی انتقال فرمایا۔

۱۱۔ قدیم الاسلام صحابی تھے۔ ہجرت ثانیہ میں ملک حبش کو گئے۔ حبشہ سے مکہ آئے مدینہ جانا چاہتے تھے کہ والد نے گرفتار کر لیا اور بیڑیاں پہنا دیں۔ پھر یہ مشرکین کے ساتھ جنگِ بدر کے لیے روانہ ہوئے۔ دل سے وہ مخلص مسلمان تھے۔ مگر ظاہری طور پر مشرکین کے ساتھ رہے۔ بدر کے میدان میں موقع ملتے ہی اسلامی فوج میں بھاگ کر شامل ہوگئے۔ اُحد و خندق کے معرکوں میں حضورؐ کے ہمرکاب رہے۔ جنگ یمامہ میں بھی حاضر ہوئے۔ اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ ہی میں ۱۲ ہجری کو شہادت پائی۔ اُس وقت اِن کی عمر اڑتیس (۳۸) سال تھی۔

۱۲۔ سورۃ البقرہ آیات نمبر۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷، پارہ نمبر۲، رکوع نمبر۲۔ یہاں یہ آیاتِ مبارکہ درج کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سنتِ الٰہی کی یاد دہانی ہوجائے۔

۱۳۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ امیر المومنین حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی ہیں۔ ہجرت سے قبل۱۰ نبوی کو مکہ میں حضورؐ کے نکاح میں آئیں۔ ۱۸ ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ حضورؐ کے ساتھ ۹ سال تک رہیں۔ حضورؐ کے وصال کے وقت عمر۱۸ سال تھی۔ ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں ۱۷؍رمضان کو وفات پائی۔ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ نمازجنازہ حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی۔

۱۴۔ یہ بھی حضرت ابوبکرؓ صدیق کی صاحبزادی ہیں۔ ان کو ذات النطاقین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی والدہ ہیں۔ مکہ میں اسلام لائیں۔ اُس وقت صرف ۷۰ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ۷۳ ہجری میں تقریباً ایک سو سال کی عمر میں مکہ میں آپؓ کا انتقال ہوا۔

۱۵۔ جب اہل ایمان ایک ایک کرکے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو ابوبکرؓ نے بھی ہجرت کرنا چاہی۔ مگر حضورؐ نے اپنے رفیق باوفا کو روک کر کہا: لاَ تَعْجَل لَعَلَّ اللّٰہَ یَجْعَلُ لَکَ صَاحِبًا ’’جلدی نہ کرو شاید اللہ تعالیٰ تمھارے لیے کوئی ساتھ پیدا کر دے‘‘ یہ سن کر ابوبکرؓ صدیق کو یقین ہوگیا تھا کہ ہو نہ ہو مجھے ہجرت کے وقت حضوراکرمﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی۔ اس مقصد کے لیے دو اونٹنیاں خریدیں اور انھیں کھلا پلا کر تیار کیا اور پھر وہ ساعتِ سعید بھی آپہنچی۔ جب حضورؐ کو اذِنِ خداوندی ملا۔
وَ قُل رَّبّ اَدْخِلْنِی مُدْخل صِدقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَل لِّی مِنْ لّدُنْکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً
’’اور (اے نبیؐ!) دعا کرو کہ اے میرے رب مجھے داخل کر سچائی کے ساتھ داخل ہونے کی جگہ اور خارج کر سچائی کے ساتھ خارج ہونے کی جگہ سے اور کسی طاقت کو میرا مددگار بنا دے۔‘‘(بنی اسرائیل)
رب کائنات کی جانب سے اجازت ملی تو حضوراکرمﷺ ابوبکرؓ کو سنانے چل پڑے اور جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ سنا کہ اُنھیں بھی رفاقت کا شرف نصیب ہو رہا ہے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔

۱۶۔ ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ جب ابوبکرؓ نے دونوں اُونٹنیاں رسول اللہؐ کے سامنے پیش کیں تو دونوں میں سے جو بہتر تھی۔ اُسے آگے بڑھایا اور رسولِ خدا کی خدمت میں ہدیتاً پیش کرنا چاہا۔ مگر حضورؐ نے فرمایا: اِنِّی لاَ أَرْکَبُ بَعَیْرًا لَیْسَ لِی ’’میں ایسے اُونٹ پر نہیں بیٹھتا جو میرا نہ ہو‘‘۔ ابوبکرؓنے عرض کیا: یاررسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں یہ آپؐ کی نذر ہے: حضورؐ نے فرمایا: لاَ ولکن ما الثمنُ الَّذِی ابتقہا بہ ’’ نہیں(یہ نہیں ہوگا) لیکن تم نے اسے کتنے میں خریدا ہے؟‘‘ ابوبکرؓ نے قیمت خرید بتائی تو حضورؐ نے فرمایا: قَدْ أَخَذْتُہَا بِذٰلِکَ ’’میں نے اسے اسی قیمت میں لے لیا۔‘‘(حضورؐ نے جو اونٹنی قیمتاً خریدی، اُس کا نام ’’جدعا‘‘ تھا۔)

۱۷۔ یہ شخص اگرچہ مشرک تھا، مگر رسول خدا اور ابوبکرؓ اسے قابل اعتماد فرد گردانتے تھے۔ اور اس نے پوری وفاداری سے یہ خدمت انجام دی۔ حالانکہ قریش کو خبر دے کر بھاری رقم اور انعام حاصل کر سکتا تھا۔ طائف سے واپسی پر بھی حضورؐ نے عبداللہ بن اریقط کو ہی پناہ حاصل کرنے کی غرض سے معطم بن عدی کے پاس بھیجا تھا۔

۱۸۔ بروایت ابن ہشام۔

۱۹۔ اُس وقت دارالندوہ میں درج ذیل اشخاص موجود تھے۔ و بنو عبدشمس سے:(۱) شیبہ بن ربیعہ، (۲) عتبہ بن ربیعہ (۳) ابوسفیان بن حرب ۔ و بنو نوفل سے: (۴) طعیمہ بن عدی، (۵) جبیر بن مطعم، (۶) حارث بن عمر، و بنو اسد بن عبدالعزیٰ سے: (۷) ابوالنجتری بن ہشام، (۸) ذمعہ بن اسود، (۹) حکیم بن حزام، و بنومخزوم سے: (۱۰) ابوجہل بن ہشام بنو سہم سے، (۱۱) نبیہ بن حجاج، (۱۲) مبنّہ بن حجاج، وبنو جمع سے: (۱۳) رمیّہ بن خلف اور بنو عبدالدار سے، (۱۴) نصر بن حارث بن کلدہ۔

۲۰۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ہے: یکیدون کیدًا و اکید کیدًا فمہل الکٰفرین، اِنَّہُمْ رویدًا ’’وہ تدبیریں کرتے ہیں اور خدا بھی تدبیر کرتا ہے۔ اے نبی! آپ ان کو آہستگی اور نرمی سے چھوڑ دیجیے) اس آیتِ مبارکہ کے ساتھ ساتھ ان سرداروں کا انجام ملاحظہ ہو کہ تین ابوسفیان، جبیر بن معطم، حکیم بن حزام کےعلاوہ سبھی ایک ہی دن جنگِ بدر میں قتل ہوگئے۔

۲۱۔ محمد سلمان سلیمان منصورپوری نے اس تجویز کو یوں نقل کیا ہے کہ ’’ایک سرکش اونٹ پر بٹھا کر اسے یہاں سے نکال دیا جائے۔ ہماری جانب سے کہیں جائے کہیں رہے جیئے یا مرے۔‘‘

۲۲۔ قتل پر مامور کیے جانے والے بارہ افراد کے نام یہ ہیں:
(۱) ابوجہل، (۲) حکم بن ابی العاص، (۳) عقبہ بن ابی معیط، (۴) نضربن حارث، (۵) اُمیّہ بن خلف، (۶) حارث بن قیس، (۷) ذمعہ بن الاسود، (۸) طعیمہ بن عدی، (۹) ابولہب، (۱۰) اُبی بن خلف، (۱۱)نبیّہ بن حجاج اور (۱۲) منبّہ بن حجاج۔

۲۳۔ یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے ہیں۔ خلافت ابوبکر میں ۱۱ شوال میں وفات پائی۔ یہ قدیم الاسلام صحابہ میں سے ہیں۔

۲۴۔ مکہ میں طفیل بن عبداللہ کے غلام تھے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ مسلمان ہوتے ہی عامرؓ کے آقا نے بے انتہا تشدد کیا۔ ابوبکرؓ نے آپ کو خرید کر آزاد کر دیا۔ بدر اور اُحد کی لڑائیوں میں شرکت کی۔ ۴؍ہجری بیئرمعونہ میں ۴۰؍سال کی عمر میں سابق آقا طفیل کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ حضورؐ کو واقع بیئر مغونہ پر سخت صدمہ ہوا اور ۴۰دن تک قاتلان بیئر مغونہ کو بد دعا دیتے رہے۔

۲۵۔ جب عبداللہ بن اریقط اونٹنیاں لے کر پہنچا تو ٹھیک اُسی وقت اسماءؓ بھی زادِ راہ ایک تھیلے میں لیے پہنچ گئیں۔ مگر ان کو باندھنے کے لیے کوئی چیز ساتھ لانے کا خیال نہ رہا۔ اسماءؓ نے اپنا نطاق (کمر باندھنے والا کپڑا) پھاڑ کر دو حصے کیے اور ایک حصے سے توشہ باندھ کر کجاوے کے ساتھ لٹکایا۔ اِسی وجہ سے اسماءؓ کو ’’ذات النطاقین‘‘بھی کہا جاتا ہے۔

۲۶۔ نام سراقہ، ابوسفیان کنیت، والد کا نام مالک بن جعشم۔ لیکن سراقہ بن جعشم کے نام سے مشہور ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ حنین اور طائف کے معرکوں سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں مقامِ جعرانہ پر سراقہ نے مل کر اسلام قبول کیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ۲۴ ہجری کو وفات پائی۔

۲۷۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا تاج اور مرصع زیورات حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیے گئے تو اُنھوں نے سراقہ کو بلایا۔ اورا س کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنا دیے اور یوں حضورؐ کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔

۲۸۔ عاتکہ بنت خالد نام ، اُمِ معبد کنیت، پختہ عمر کی باعفت عورت تھی۔ لوگوں کی میزبانی کرکے خوشی محسوس کرتی تھی۔

۲۹۔ یہ واقعہ قدید کے علاقے کا ہے۔

۳۰۔ جس زمانے میں حضورؐ کا گزر اس علاقے سے ہوا پورا علاقہ بُری طرح قحط سے متأثر تھا۔

۳۱۔ بحوالہ رحمت اللعالمین، جلد اوّل۔

۳۲۔ مکہ سے باہر بدوی غیر مسلم قبائل میں حضورؐ کو لوگ ’’صاحبِ قریش‘‘ کہتے تھے۔

۳۳۔ بعد میں ابومعبد مسلمان ہوئے اور ہجرت کرکے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اُم معبد بھی مسلمان ہوئیں اور انھوں نے بھی ہجرت کی اور خدمتِ رسولؐ میں حاضر ہوئیں۔ بروایت عبدالملک بن وہب۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top