skip to Main Content

یہ بھی اسوہ ہے

حفصہ محمد فیصل
۔۔۔۔۔

”دیکھو! میری مچھلیاں۔۔۔“پندرہ سالہ عدنان نے اپنے دوستوں کو اپنے بازو موڑتے ہوئے ان کے ابھار کو نمایاں کرتے ہوئے پکارا۔
”واہ بھئی! تم نے تو ایک ماہ میں ہی نمایاں کارکردگی دکھائی۔“ علی نے ستائشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”عدنان! تمہارے بھی شوق نرالے ہیں، کبھی جم جاکر پہلوانی کے مظاہرے کرتے ہو،تو کبھی کلب جاکر تیر انداز ی کی مشقیں کرتے ہو، بھئی آج کل کے دور میں تو ہر چیز آسان ہوتی جارہی ہے اور تم خود کو مشقتوں میں ڈالتے رہتے ہو۔“ افنان بیزاری سے بولا۔
عدنان نے اپنے دوست کی بیزاری کو محسوس کیا۔”وقت آنے پر سب بتاؤں گا میرے دوست!“
”کیا وقت آنے پر۔۔!ایسی بھی کیا راز کی بات ہے ان کاموں میں، جو ابھی نہیں بتارہے؟“افنان ناراضی سے بولا۔
”دوست! یہ تمام کام میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں۔“ عدنان فرط جذبات سے بولا۔
”یہ کسرت اور کھیل کو تم سنت کہہ رہے ہو؟“ افنان نے ہاتھ لہراتے ہوئے بات کو اڑایا۔
”اچھااا…… تمہیں یقین نہیں آرہا، پھر شام میں چائے پر ملتے ہیں۔تم سب کو آج شام کی چائے کی دعوت میری طرف ہے،وہاں تمہاری تسلی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کرنے کی کوشش کروں گا۔“ عدنان تحمل سے بولا۔
”ٹھیک ہے شام کو ملتے ہیں۔“ سب نے وعدہ کیا۔

۔۔۔۔۔

عدنان ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،سنتوں پر عمل پیرا ہونا اس کی گھٹی میں شامل کردیا گیا تھا، اس کے والدین اور گھر کے سب افراد سنتوں پر عمل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب سے عدنان نے یہ حدیث سنی تھی کہ:
”عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ اور جابر بن عمیر انصاری رضی اللہ عنہما کو دیکھا جو تیر اندازی کر رہے تھے، ایک اکتا کر بیٹھ گیا، دوسرے نے اس سے کہا:’تم سست ہوگئے ہو؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے:’ہر چیز جو اللہ کے ذکر سے نہیں وہ (لغو) لہو، اور سہو(فضول،کھیل تماشہ اور خطا،غلطی) ہے۔ سوائے چار کاموں کے۔ آدمی کا دو اہداف کے درمیان چلنا(یعنی تیر اندازی کرنا)، اپنے گھوڑے کو سدھانا، بیوی سے کھیلنااور تیراکی سیکھنا۔“
(ابی داؤد)
اسی وجہ سے عدنان نے چند ماہ پہلے جم میں کسرت اور تیراکی کی کلاس شروع کی تھی اور ایک کلب سے تیر اندازی کی مشق کررہا تھا۔
اس کے دوست جو اسکول کے بعد زیادہ ترآرام اور موبائل کو وقت دیتے تھے، جب کہ عدنان نے ایک باضابطہ نظام الاوقات کے تحت تمام کاموں کا وقت طے کیا ہوا تھا جسے وہ خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

شام پانچ بجے تمام دوست عدنان کے گھر کی بیٹھک میں جمع تھے، عدنان کی والدہ نے پہلے پھل بھجوائے،موسم کے رسیلے پھلوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے عدنان نے اپنی بات شروع کی کہ ”پیارے دوستو! آپ سب میری ان کسرتوں اور مشقوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ میں اکیسویں صدی میں پہنچ کر بھی پرانے زمانے کے کھیل کود اپنا کر اپنا وقت ضائع کررہا ہوں،تو دوستو! میں اپنی بات کی وضاحت دینے سے پہلے اپنے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزانہ واقعہ آپ سب کو سناتا ہوں۔
قبیلہ بنو ہاشم میں ”رکانہ“ نامی ایک مشرک شخص تھا۔ یہ بڑا ہی زبردست، دلیر اور نامی گرامی پہلوان تھا، اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی کسی نے نہیں گرایا تھا۔یہ پہلوان ”اضم“ نام کے ایک جنگل میں رہتا تھا جہاں یہ بکریاں چراتا تھا اور بڑا ہی مال دار تھا۔ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس کی طرف جا نکلے۔ رکانہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا۔’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!، تو وہی ہے جو ہمارے (خداؤں) لات و عزیٰ کی توہین اور تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے؟ اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا۔‘اور کہنے لگا کہ’میرے ساتھ کشتی کر، تو اپنے خدا کو پکار۔ میں اپنے خداؤں (لات و عزیٰ) کو پکارتا ہوں۔ دیکھیں تمہارے خدا میں کتنی طاقت ہے۔‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’رکانہ اگر کشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں۔‘رکانہ یہ جواب سن کر پہلے تو بڑا حیران ہوا اور پھر بڑے تکبر کے ساتھ مقابلے میں کھڑ ا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں اسے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ زندگی میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی اور بولا۔ ’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! میرے سینے سے اٹھ کھڑے ہو۔ میرے خداؤں (لات و عزیٰ)نے میری طرف دھیان نہیں دیا، ایک بار اور موقع دو اور آؤ دوسری مرتبہ کشتی لڑیں۔‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکانہ کے سینے سے اٹھ گئے اور دوبارہ کشتی کے لئے رکانہ پہلوان بھی اٹھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی رکانہ کو پل بھر میں گرا لیا، رکانہ نے کہا،’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! معلوم ہوتا ہے آج میرے خدا مجھ سے ناراض ہیں اور تمہارا خدا تمہاری مدد کررہا ہے۔ خیر ایک مرتبہ اور آؤ، اس مرتبہ میرے خدا لات و عزیٰ میری مدد ضرور کریں گے۔‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی کشتی کے لیے منظور کرلیا۔ اور تیسری مرتبہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔
اب تو رکانہ پہلوان بڑا ہی شرمندہ ہوا اور کہنے لگا۔’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! میری ان بکریوں میں سے جتنی چاہو بکریاں لے لو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’رکانہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں، ہاں اگر تم مسلمان ہوجاؤ،تو جہنم کی آگ سے بچ جاؤگے۔‘
رکانہ نے جواب دیا۔ ’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!میں مسلمان تو ہوجاؤں، مگر میرا نفس جھجکتا ہے کہ مدینہ اور گرد نواح کے لوگ کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے پہلوان نے شکست کھائی اور مسلمان ہوگیا۔‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو تیرا مال تجھ ہی کو مبارک ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کی۔’کیا آپ نے رکانہ کو پچھاڑا؟ وہ تو ایسا پہلوان تھا کہ آج تک اسے کسی نے نہیں پچھاڑا۔‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ہاں میں نے اللہ سے دعا کی اور اس نے میری مدد کی۔‘روایات میں آتا ہے پھر اس پہلوان رکانہ نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔ایک جلیل القدر صحابی بنے۔ (سنن ابی داؤد)
اس کے علاوہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ۔۔۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا خوب صورت، طاقتور اور چست جسم مبارک بھی اسوہ حسنہ میں شامل ہے۔۔۔وہ جسم جس کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ترغیب ملتی اور وہ بھی اس طرح بننے کی کوشش کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے پیدل طائف کا سفر طے کرنا۔۔۔
پہاڑی علاقہ، پتھر، کانٹے، یہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی فرمائی۔۔تو یہ بھی سنت ہوگئی، کشتی کرنے کے لیے انسان کو کتنی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ اور کشتی بھی مکہ کے سب سے بڑے پہلوان ”رکانہ“ سے اور پھر اسے ایک بار نہیں تین بار پچھاڑ دینا۔۔۔۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تیر اندازی فرماتے تھے۔۔۔اور بہترین نشانہ لگاتے تھے۔۔۔۔ یہ بھی سنت ہوگئی، اس اسوہ حسنہ کوبھی اپنانا ہے، تیر اندازی کے لیے کتنی جسمانی طاقت کی ضرورت ہے۔یہ کسی تیر انداز سے پوچھیے۔۔ ہاتھوں کی انگلیاں مضبوط ہونا شرط، کلائیاں مضبوط ہونا شرط، بازوؤں کی مچھلیاں مضبوط ہونا شرط، کندھے مضبوط ہونا شرط، سینے کا طاقتور ہونا شرط، کمر کا سیدھا ہونا شرط اور ٹانگوں میں قوت اور طاقت ہونا ضروری۔یہ سب چیزیں موجود ہوں تو انسان اچھی طرح تیر اندازی کرسکتا ہے ورنہ نہیں کرسکتا۔۔۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیر اندازی میں بہت محنت فرمائی کیوں کہ اللہ کا حکم اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔صحابہ کرام گھنٹوں تیر اندازی کی مشق فرماتے۔ جنگوں میں مسلسل کئی کئی گھنٹوں تک تیر پھینکتے تھے مگر ان کے بازوؤں میں کسی قسم کی تھکاوٹ نہیں آتی تھی۔ تیر اندازی نگاہ کو بھی تیز کرتی ہے اور رہی تیراکی کرنا۔۔۔ تو یہ دنیا کی بہترین ورزش ہے۔جس میں جسم کاہر عضو چاق و چوبند ہوکر مضبوط بنتا ہے۔
دوستو! تو میں نے ثابت کیا کہ میں جو کچھ کررہا ہوں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور سنت کو اپنانے کی نیت سے کررہا ہوں اور جب کبھی میرے دین اور وطن کو میری جان کی ضرورت پڑی تو وہ تیار ہوگی، حاضر ہوگی، لیکن معذرت کے ساتھ دوستو! آپ سب ہر وقت اسکرین کے سامنے بیٹھ کر اپنے جسم کو لاغر اور ناتواں بنا رہے ہو، کمر، گردن اور نظر کے بے شمار مسائل کا شکار ہوچکے ہو، کیا کبھی دین و ملک کو جان کی ضرورت پڑی تو آپ کا جسم تیار ہوگا؟“عدنان کے سوال نے سب کے سر کوجھکا دیا۔۔
”کل سے میں بھی تمہارے ساتھ جم جاؤں گا۔“ یہ افنان تھا اور پھر ایک ایک کرکے سب نے عزم باندھا۔ جب کہ عدنان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتے ہوئے اپنی عقیدت کا اظہار کررہا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top