skip to Main Content

ہمارے پڑوسی

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنتے ہیں کہ اچھے پڑوسی اللہ کی نعمت ہیں، لیکن یہ بات شاید ہمارے پڑوسیوں نے نہیں سنی۔ ہم نہیں کہتے کہ ہمارے پڑوسی اچھے نہیں ہیں۔ صرف آپ کے سامنے ایک نقشہ سا کھینچتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے پڑوسی کیسے ہیں۔
سب سے پہلے مرزا صاحب کو لیجئے۔ یہ حضرت ریڈیو بجانے کے بہت شوقین ہیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ مارکونی صاحب کو ریڈیو ایجاد کرنے کا خیال مرزا صاحب کے ذوق و شوق کو دیکھ کر ہی آیا تھا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی بائیس گھنٹے ان کا ریڈیو بجتا ہے بلکہ چیختا ہے اور پورے زور و شور سے چیختا ہے۔ ان کو غالباً ریڈیو کی آواز کم کرنے کا طریقہ نہیں معلوم، اسی لیے تمام محلے والوں نے اپنے اپنے ریڈیو بیچ کر روئی کے بنڈل خرید لیے ہیں اور روئی نکال نکال کر کانوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ ان کے ریڈیو پر دنیا بھر کے دور دراز کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگرام پورا محلہ (روئی ٹھونسنے کے باوجود) آسانی سے سن لیتا ہے۔ البتہ قریب کھڑے ہوئے آدمی کی آواز نہیں سنائی دیتی۔
قریشی صاحب بھی کچھ اسی قسم کا شوق رکھتے ہیں۔ انہیں موسیقی سے بہت لگاﺅ ہے۔ لیکن فرصت انہیں آدھی رات کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے،اسی لیے یہ ٹھیک اسی وقت ستار، ہارمونیم اور طبلہ بجانا شروع کرتے ہیں جب مرزا صاحب کا ریڈیو بند ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے محلے میں چوبیس گھنٹے بجلی، پانی اور گیس کی سہولت کے ساتھ موسیقی بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔
محلے میں آدمی رات کو رونق میں مزید اضافہ اس وقت ہوجاتا ہے۔ جب جمالی صاحب کے دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ اس محفل میں خوب خوب قہقہے لگائے جاتے ہیں اور وہ ادھم مچتا ہے کہ توبہ ہی بھلی، کبھی کبھی ان کے دوستوں میں سے کوئی صاحب تانیں بھی اڑاتے ہیں۔ اس سارے ہنگامہ ہاﺅ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ محلے میں رات بھر کوئی چور پاس پھٹک تک نہیں سکتا۔
اس سارے شور شرابے پر جلالی صاحب البتہ بہت خفا ہوتے ہیں۔ جلالی صاحب کئی سال یورپ میں رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یورپ کے کسی شہر میں یہ سارا شور و غل ہو تو فوراً پولیس آجائے اور ان بدتمیزوں کو پکڑ کر لے جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں لوگ رات دس بجے کے بعد سیڑھیاں بھی دبے قدموں چڑھتے اترتے ہیں تاکہ گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو لیکن اس کا کیا علاج کہ ابھی جلالی صاحب کی موٹر سائیکل میں سائلنسر یعنی شور کم کرنے والا آلہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حضرت جب موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آتے جاتے ہیں تو پھٹ پھٹ کا ایک ایسا کان پھاڑ دینے و الا شور سنائی دیتا ہے کہ قبر میں پڑے مردے بھی سن لیں تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں یا کم از کم کروٹ تو ضرور لیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ اگر ایسی موٹر سائیکل یورپ کے کسی شہر میں چلائی جائے تو کیا ہو۔کیا وہاں پولیس ایسے بدتمیزوں کو انعام دیتی ہے۔
نازک صاحب بھی مزے کے آدمی ہیں۔ انہیں جانور پالنے کا شوق ہے۔ ان کے گھر کے باہر ایک بکرا دو بھینسیں اور ایک ہرن بندھا رہتا ہے۔ گھر کے صحن میں مور اور بطخیں ہیں اور گھر میں کسی جگہ طوطے، چڑیاں، بلبلیں اور نہ جانے کون کون سے پرندے پال رکھے ہیں۔ غرض گھر کیا ہے اچھا خاصا چڑیا گھر ہے۔ نازک صاحب ان تمام حیوانات کی غلاظت اور اپنے گھر کا کوڑا بڑی پابندی سے روزانہ گھر سے باہر سڑک پر پھینکتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ شہر میں گندگی بڑھتی جارہی ہے، لوگ صفائی کا خیال نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ایک اور پڑوسی طفیلی صاحب کی عادت ہے کہ وہ اکثر چیزیں ادھار مانگتے ہیں۔ مثلاً استری، اخبار، جھاڑو، برتن، کتابیں، تھوڑی سی چائے کی پتی، ذرا سا آٹا، صرف ایک انڈا، معمولی سا نمک، چٹک بھر کالی مرچیں وغیرہ اور بے چارے اکثر واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ ہماری بجلی کی استری کئی دن تک استعمال کرتے رہے اور ہم بڑی مشکل سے مانگ کر واپس لائے تو اگلے دن آموجود ہوئے ۔کہا ”ہماری“ استری واپس کیجئے۔ خاصی مغز ماری کے بعد انہیں یاد آیا کہ وہ استری ان کی نہیں اصل میں ہماری تھی اور کافی عرصے سے ان کے گھر میں رہنے کی وجہ سے انہیں اپنی لگنے لگی تھی۔
ہمارے پڑوسیوں کی فہرست خاصی لمبی ہے اور ان سب کی دلچسپ عادتیں بیان کی جائیں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں لیکن ہم یہ سوچ کر اس مضمون کو ختم کیے دیتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو کسی کے پڑوسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کو بھی ہم سے کچھ شکایتیں ہوں۔ اگرچہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی پڑوسی کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو، کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس شخص کی شراتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں وہ مومن نہیں۔
نونہال دوستو! امید ہے کہ آپ وہ سب نہیں کرتے ہوں گے جو ہمارے پڑوسی کرتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top