skip to Main Content
گھڑی

گھڑی

محمد الیاس نواز

جب گھڑی میں پرزے ہی درست نہ ہوں گے تو گھڑی بھلا کیوں کر چلے گی۔

کردار:

جمال: ایک طالب علم بچہ
کمال صاحب: جمال کے والد

پس منظر

 

پچھلے جمعے کے خطبے میں محلے کی مسجد کے امام صاحب نے ’نماز‘کے موضوع پر خطبہ دیا۔جمال نے تقریر بڑے غور سے سنی مگر ایک سوال اس کے ذہن میں اٹک کر رہ گیا،جوآج موقع پاکر اس نے اپنے ابو سے پوچھ ہی لیا۔

منظر

 

شام کا وقت ہے۔ ٹی وی لاؤنج کامنظر ہے۔کمال صاحب صوفے پر بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں۔ساتھ ساتھ ٹی وی کے چینل بھی تبدیل کئے جارہے ہیں۔اتنے میں ان کا بیٹا جمال اندر آتا ہے۔

(پردہ اٹھتاہے)

جمال:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘

 

کمال صاحب:’’وعلیکم السلام۔۔۔بیٹا آج آپ کا پرچہ تھاناں…….وہ کیسا ہوا؟‘‘

 

جمال:’’پرچہ توبہت اچھا ہواابو جی۔‘‘

 

کمال صاحب:(خوش ہوتے ہوئے)’’شاباش بیٹا!اور ابھی آپ کہاں سے آرہے ہیں؟‘‘

 

جمال:’’میں ابھی نماز پڑھ کر آرہا ہوں ابو جی۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بیٹا نماز ہوئے تو کافی دیر ہو چکی ہے۔آپ اتنی دیر سے کیوں آرہے ہیں؟‘‘

 

جمال:(صوفے پر بیٹھتے ہوئے)’’ابو!مسجد میں جو بچے نماز پڑھنے آتے ہیں ناں۔۔۔ان سے میری دوستی ہو گئی ہے۔توہم تھوڑی دیر مسجد میں ہی بیٹھ گئے تھے۔‘‘

 

کمال صاحب:’’اچھا!بیٹا یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کی دوستی نمازی بچوں سے ہوگئی اور پھر مسجد سے اچھی جگہ بھلا اورکون سی ہو سکتی ہے،شاباش بیٹا!‘‘

 

جمال:’’ابو میں نے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔‘‘

 

کمال صاحب:(چائے کی چسکی لے کر کپ میز پر رکھتے ہوئے)’’ہاں،ہاں۔۔۔پوچھئے بیٹا ،کیا پوچھنا ہے؟‘‘

 

جمال:’’ابو جی!پچھلے جمعے کی تقریر میں اپنے محلے کی مسجد کے امام صاحب نے نماز کے بارے میں جو باتیں بتائی تھیں۔۔۔وہ آپ نے سنی تھیں ناں؟‘‘

 

کمال صاحب:’’بیٹا میں نے تو جمعہ کی نماز اپنے دفتر کے ساتھ والی مسجد میں ادا کی تھی۔۔۔آپ بتائیے،امام صاحب نے کیا باتیں بتائی تھیں؟‘‘

 

جمال:ابوجی!امام صاحب نے بتائی تو بہت سی باتیں تھیں ۔۔۔جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ نماز برے کاموں اور بری باتوں سے روکتی ہے۔‘‘

 

کمال صاحب:’’ہاں بیٹا!انہوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔‘‘

 

جمال:’’تو ابو جی!۔۔۔ہمارے آس پاس مسجدیں بھی ہیں اور لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں توپھرہمارے آس پاس سے برے کام اور بری باتیں کیوں نہیں رکتیں؟‘‘

 

(کمال صاحب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی ہے ۔وہ ٹی وی بند کرکے ریموٹ کو میز پر رکھتے ہیں اور جمال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں)

 

کمال صاحب:’’بیٹا!آپ نے بہت خوب صورت سوال کیا۔۔۔آپ کا سوال بتا رہا ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔اور یہ اللہ کا احسان ہے جس پر شکر کرنا چاہئے۔۔۔بیٹا!آپ کے سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہت زیادہ لوگ اب نماز پڑھتے ہی نہیں ہیں۔۔۔اور جو پڑھتے ہیں ۔۔۔ وہ بھی دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق درست نہیں پڑھتے۔۔۔تو پھر نماز کے پورے اثرات اور فوائد ہمیں کیسے مل سکتے ہیں؟‘‘

 

جمال:(فکر مندی سے)’’ہنہ ہ ہ ہ۔۔۔تو یہ بات ہے۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بیٹا !اگر ایک بچہ اسکول ہی نہ جائے اور اگر جائے بھی تو ٹھیک طرح پڑھے ہی نہ۔۔۔تو کیا تعلیم کے اس پر اثرات مرتب ہوں گے؟

 

جمال:’’بالکل بھی نہیں۔‘‘

 

کامل صاحب:’’یہ تو مختصر جواب تھا،مگر بیٹا میں آپ کو ذرا تفصیل سے سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘

 

جمال:(سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے)’’جی ابو جی!۔۔۔ضرور۔‘‘

 

کامل صاحب:’’بیٹا !ہمارے گھر میں دیوار والی کتنی گھڑیاں ہیں؟‘‘

 

جمال:(ایک لحظہ سوچنے کے بعد)’’ہمارے گھرکے کمروں میں دیوار والی تین گھڑیاں لگی ہیں۔۔۔ایک دادا جی کی پرانی چاپی والی۔۔۔ اور دونئی سیل والی۔۔۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بیٹا سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ گھڑی کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔اور گھڑی کا مقصد ہے بالکل ٹھیک وقت بتانا۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا؟‘‘

 

جمال:(دل چسپی سے سنتے ہوئے)’’جی ابو جی!‘‘

 

کمال صاحب:’’ بیٹا!۔۔۔کسی بھی گھڑی کے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں پرزے پورے ہوں۔۔۔پھر ان پرزوں کوآپس میں بالکل ٹھیک طرح جوڑا گیا ہو۔۔۔پھرچابی والی گھڑی کو چابی دی جائے اور سیل والی ہو تو سیل لگایا جائے ۔۔۔تو ہر پرزہ اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔۔۔اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باہر ہندسوں والے تختے پر سوئیاں حرکت کرنے لگتی ہیں اور ایک ایک سیکنڈ درست بتانے لگتی ہیں۔۔۔پھر چابی دینے اور سیل لگانے کا بھی اصول ہے ۔۔۔کہ جس وقت اس کو سیل یا چابی کی ضرورت پڑے،اسی وقت اس کو چابی دی جائے یا سیل لگایا جائے۔۔۔اور چابی دینے یا سیل لگانے کا جو طریقہ مقرر ہے اسی کے مطابق چابی دی جائے یا سیل لگایا جائے ۔۔۔اور اگر وہ طریقہ اختیا ر نہیں کریں گے تو اول تو گھڑی چلے گی نہیں اوراگر چل پڑی تو درست وقت نہیں بتائے گی۔۔۔ایسا ہی ہوگا ناں بیٹا؟‘‘

جمال:’’جی ابو جی !آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔‘‘

 

کمال صاحب:’’اچھا بیٹا اگر ایک گھڑی میں پورے پرزے موجود ہوں،کوئی ایک بھی کم نہ ہو۔۔۔مگر یہ آپس میں جڑے ہوئے نہ ہوں بلکہ ہر پرزہ الگ الگ ہو تو کیا چابی دینے سے یا سیل لگانے سے گھڑی چلے گی؟‘‘

 

جمال:’’نہیں ابو جی!۔۔۔کبھی بھی نہیں چلے گی۔‘‘

 

کمال صاحب:(مصنوعی حیرانی سے)’’کیوں؟۔۔۔کیوں نہیں چلے گی؟۔۔۔اس میں پرزے بھی پورے ہیں،چابی یا سیل کا بھی خیال رکھا جا رہا ہے۔۔۔پھر آخر کیوں؟‘‘

 

جمال:’’اس لئے ابو جی! کہ صرف پرزے پورے ہونے سے کوئی چیز نہیں چلتی۔۔۔جب تک سارے پرزے آپس میں مل کر ایک ترتیب کے مطابق کام نہ کریں۔‘‘

 

کمال صاحب:’’شاباش بیٹا!۔۔۔بہت اعلیٰ!۔۔۔اچھا اگر ایسا کیا جائے کہ اس گھڑی میں کچھ پرزے کپڑے سینے والی مشین کے لگا دیے جائیں ۔۔۔اور پھر اس کو چابی دی جائے یا سیل لگایا جائے۔۔۔ تو یہ کپڑے سیئے گی یا وقت بتائے گی؟‘‘

 

جمال:(ہنستے ہوئے)’’ابوجی! نہ یہ وقت بتائے گی اور نہ ہی کپڑے سیئے گی۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بس بیٹا!اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ۔۔۔اگر گھڑی میں پرزے پورے ہوں مگر آپس میں جڑے ہوئے نہ ہوں یا گھڑی میں اس کے اصل پرزوں کی جگہ دوسری مشین کے پرزے لگے ہوں۔۔۔آپ اس کو جتنی چابی دیں گے،گھڑی وقت نہیں بتائے گی۔۔۔دیکھنے والے کو وہ گھڑی ہی نظر آئے گی اور یہ بھی نظر آئے گا کہ چابی دینے والا یا سیل لگانے والا چابی یا سیل کا اہتمام بھی کررہا ہے۔۔۔اور وہ یہی امید کرے گا کہ گھڑی درست وقت بتائے۔۔۔مگر بیٹا!جب گھڑی میں گھڑی پن ہی باقی نہیں رہا تووہ درست وقت کیسے بتائے گی۔۔۔چاہے جتنی بھی چابی دی جائے اور سیل لگائے جائیں۔۔۔کیا میں نے درست کہا؟‘‘

 

جمال:’’جی ابو جی!آپ نے بالکل درست کہا۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بس بیٹا!آپ اس مثال سے سارا معاملہ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔آپ دین کو اس گھڑی کی طرح سمجھ لیجئے۔۔۔جس طرح گھڑی کا مقصد درست وقت بتانا ہے اسی طرح دین کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے مطابق چلنا اور دوسروں کو چلانا ہے۔۔۔اس مقصد کے لئے دین میں بھی وہ پرزے جمع کئے گئے ہیں جو اس کے نظام کو چلانے کے لئے ضروری تھے۔
دین کے عقائدیعنی جن چیزوں پر ہم ایمان لاتے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کے حقوق۔۔۔انسانوں کے حقوق۔۔۔کمانے اور خرچ کرنے کے طریقے۔۔۔جنگ اور صلح کے طریقے اور حکومت کرنے کے طور طریقے۔۔۔یہ سب دینِ اسلام کے پرزے ہیں۔
بیٹا!ان سب پرزوں کو جمع کرکے صحیح ترتیب کے ساتھ کس دیا جائے۔۔۔پھر اس گھڑی کو سیل یا چابی دی جائے تویہ پرزے چل پڑتے ہیں اور ان پرزوں کی حرکت سے ان کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا نظام غالب نظر آنے لگتا ہے۔۔۔بیٹا گھڑی کے نظام اور دین کے نظام کی سمجھ آگئی؟‘‘

 

جمال:’’جی ابو جی!‘‘

 

کمال صاحب:’’ٹھیک ہے آگے چلتے ہیں۔۔۔جیسے گھڑی کے پرزوں کو آپس میں جڑا رکھنے کے لئے چند کیلیں،پنیں یا پتریاں لگائی جاتی ہیں۔۔۔اسی طرح اسلام کے سارے پرزوں کو درست ترتیب کے ساتھ جڑا رکھنے کے لئے بھی کیلیں،پنیں اور پتریاں چاہئے ہوتی ہیں۔۔۔اورپتا ہے بیٹا ہے وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو کیلیں،پنیں یا پتریاں بنتے ہیں؟‘‘

 

جمال:(تجسس سے)’’نہیں ابو جی!۔۔۔کون ہوتے ہیں؟‘‘

 

کمال صاحب:’’اسلام کے سارے پرزوں کو درست ترتیب کے ساتھ جڑا رکھنے کا کام وہ افراد کرتے ہیں جو صحیح علم بھی رکھتے ہوں اور نیک بھی ہوں۔۔۔وہی اسلام میں جماعت کا نظام قائم رکھتے ہیں۔۔۔اور مسلمانوں کی جماعت کے باقی افراد اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ ان کے ہاتھ پاؤں بن کر ان کی مدد کرتے ہیں اور ان کی بات بھی مانتے ہیں یعنی اطاعت بھی کرتے ہیں۔۔۔اور اس طرح ان سب کی طاقت مل کراسلام کے قوانین کو نافذ کرتی ہے اور لوگوں کو اس کی خلاف ورزی سے روکتی ہے۔
اس طرح جب سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل ٹھیک ترتیب سے جڑ جائیں اورنظام ٹھیک چل پڑے تواس نظام کو ٹھیک چلتے رہنے کے لئے جس سیل یا چابی کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔وہ سیل یا چابی یہ نماز ہے۔
پھر اس گھڑی کو صاف کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔۔۔تو یہ کام سال میں ایک بار تیس دن کے روزے کرتے ہیں۔۔۔اور زندگی میں ایک بارحج اس کی مکمل جانچ پڑتال کرتاہے۔۔۔بیٹا بات سمجھ میں آئی؟۔۔۔کہ نماز سیل یا چابی کا کام کرتی ہے۔‘‘

 

جمال:’’جی ابو جی!بہت اچھی طرح سمجھ آگئی۔‘‘

 

کمال صاحب:’’بیٹا!پہلی بات یہ کہ گھڑی کے فریم میں پرزے پورے ہوں۔۔۔دوسری بات یہ کہ وہ بالکل درست اُسی ترتیب سے جڑے ہوئے ہوں جس ترتیب سے گھڑی ساز نے اِن کو جوڑا تھا۔۔۔اور آخر میں چابی یا سیل وقت پرملتے رہیں تو یہ درست نتائج دکھاتے رہیں گے۔‘‘

 

جمال:’’ابو جی!۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ نماز کی چابی سے پہلے ضروری ہے کہ گھڑی میں پرزے پورے ہوں اورٹھیک جڑے ہوئے ہوں ورنہ نماز بھی اپناکام نہیں کرسکے گی۔‘‘

 

کمال صاحب:’’ہاں بیٹا!۔۔۔بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔اب حال یہ ہے کہ دین کی اس گھڑی کی کیلیں،پنیں اور پتریاں یعنی جماعت کا وہ نظام جو تمام پرزوں کو جوڑے رکھے وہ باقی نہیں رہا۔۔۔جس کی وجہ سے سارے پرزے یا تو ڈھیلے ہو گئے یا بکھر گئے۔۔۔اور اس سے بھی دل نہیں بھرا توہم نے اس گھڑی کے اصل پرزے نکال کراس میں اپنی پسند کی مشینوں کے پرزے لا کرڈال دیئے۔۔۔کوئی کسی بس کا پرزہ لے آیا توکوئی سلائی مشین کا اور کوئی آٹے والی چکی کا۔۔۔اب ہم مسلمان بھی ہیں اور سود بھی کھاتے ہیں۔۔۔رشوت بھی لیتے ہیں۔۔۔جھوٹے مقدمے بھی کرواتے ہیں۔۔۔کافروں کے وفادار بھی ہیں۔۔۔غیر مسلموں کی پیروی بھی کرتے ہیں۔۔۔اوراس طرح کے سارے غیر اسلامی پرزے لا کر ہم نے اسلام کی اس گھڑی میں ٹھونس دئیے ہیں۔۔۔اورپھر بھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ جب اس گھڑی کو چابی یا سیل دیں تو یہ نہ صرف چل پڑے بلکہ نتیجہ بھی بالکل ٹھیک دے۔‘‘

 

جمال:’’ابو جی!۔۔۔اس طرح تو ہم ساری زندگی بھی اگر اس گھڑی کی صفائی کرتے رہیں اور اسے چابی دیتے رہیں یا سیل لگاتے رہیں تو نتائج نہیں نکلیں گے۔‘‘

 

کمال صاحب:’’جی بیٹا بالکل۔۔۔جب تک ہم اس میں اصل پرزے نہیں لگائیں گے اور ان کی ترتیب درست نہیں کریں گے۔۔۔ نتائج کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔۔۔اول تو ہم میں سے نماز پڑھتے ہی کتنے ہیں۔۔۔اور ان میں سے بھی درست پڑھنے والے کتنے ہیں۔۔۔اور ہوں بھی تو جب پرزے سارے بکھرے ہوئے ہوں تو کیا ہو سکتا ہے۔۔۔مگر دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ سیل لگایا جا رہاہے یا چابی دی جا رہی ہے مگر فریم میں کیا کارستانیاں کی گئی ہیں۔۔۔اس کی دیکھنے والوں کو کیا خبر۔۔۔؟‘‘

 

(اتنے میں اذان کی آواز آنے لگتی ہے اور دونوں باپ بیٹا چابی دینے کواٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔)

(پردہ گرتاہے)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top