skip to Main Content
گولر کا پھول

گولر کا پھول

شوکت تھانوی
۔۔۔۔۔

گولر کا درخت

۔۔۔۔۔۔۔
سہیل جس دن سے نئے مکان میں آیاہے،اس کی تمام تر توجہ اُس گولر کے درخت کی طرف ہے جو مکان کے صحن میں لگا ہوا ہے۔سہیل نے بہت سے پھلوں کے درخت دیکھے مگر ایسا کوئی درخت آج تک اس کی نظر سے نہیں گزرا جو بغیر پھول کے پھل دیتا ہو۔وہ گولر کے درخت کے متعلق بھی یہی سمجھتا تھا کہ اگر یہ پھل دیتاہے تو پھل سے پہلے پھول بھی دیتاہوگا۔مگر جب سے اس نے سنا ہے کہ صرف یہی ایک پھل دار درخت ایسا ہے جس کا پھول آج تک کسی نے نہیں دیکھا ،وہ برابر یہی سوچتا رہتا ہے کہ گولر کا پھول آخر کسی کو نظر کیوں نہیں آتا۔
ایک دن باتوں باتوں میں سہیل کی والدہ نے بتایا کہ گولر کاپھول اگر کسی کو مل جائے تو اس کو اور چاہئے ہی کیا۔گولر کا پھول جس چیز میں رکھ دیا جائے وہ چیز کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے ایک قصہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ ایک دہی والی ذرا آرام لینے کے لیے ایک گولر کے درخت کے سائے میں بیٹھ گئی تھی اور اتفاق سے اس رات پریاں درخت میں ایک پھول چھوڑ گئی تھیں جو اس دہی والی کی مٹکی میں گر گیا اور پھر اس مٹکی کا دہی کبھی ختم ہی نہ ہوا۔وہ زندگی بھر دہی بیچتی رہی مگر دہی کسی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
سہیل نے یہ سن کر اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ پریوں کی آپ نے کیا بات کہی ہے تو سہیل کی والدہ نے بتایا کہ گولر کا پھول رات کو بارہ بجے نکلتا ہے اور اسی وقت پریاں اسے توڑ کر لے جاتی ہیں،ورنہ یہ پھول بھی عام پھلوں کے پھولوں کی طرح سب ہی دیکھتے اور یہ پھول تو ایسا ہے کہ اگر مل جائے تو اسے روپوں کی تجوری میں رکھ دینا چاہئے تاکہ کبھی روپیہ ختم ہی نہ ہو۔
گولر کے پھول کے متعلق یہ باتیں سن کر سہیل کا بھی جی چاہنے لگا کہ اس کو کسی طرح ایک گولر کا پھول مل جائے اور وہ اسے اپنے اُس صندوقچے میں رکھ دے جس میں اپنا جیب خرچ رکھا کرتا ہے تاکہ وہ روپے کبھی ختم ہی نہ ہوں۔
اسے روز بروزکچھ یقین سا ہوتا گیا کہ یہ جو قارون کا خزانہ مشہور ہے یا یہ جو بینک وغیرہ ہوتے ہیں،ان میں ضرور گولر کا پھول رکھ دیا گیا ہے۔اس نے دنیا کے تمام دولت مند لوگوں کے متعلق یہی طے کر لیا کہ یہ سب گولر کے پھول سے دولت مند بنے ہیں اور اب وہ بھی ایک گولر کاپھول حاصل کرنا چاہتاتھا۔
اس نے گولر کے پھول اور اس کی کرامت کا ذکر جس کسی سے بھی کیا سب ہی نے یہ بات اس کو بتائی کہ واقعی گولر کے پھول میں یہ صفت تو ہے کہ جس چیز میں رکھ دیا جائے یا اتفاق سے گر پڑے وہ چیز کبھی ختم نہیں ہوتی۔ایک دوست نے اس کو بتایا کہ یہ جو سمندر ہے،یہ دنیا کی ابتدا میں ایک معمولی سا تالاب تھا مگر ایک رات اس تالاب میں ایک پری کے ہاتھ سے گولر کا پھول چھوٹ کر گر پڑا۔وہ دن اورآج کا دن کہ یہی تالاب بڑھتے بڑھتے سمندر بن گیا ہے اور اب دنیا میں ایک چوتھائی خشکی اور تین چوتھائی پانی ہے۔یہ سب گولر کے پھول کی وجہ سے ہوا ہے۔
ایک اور دوست نے بتایا کہ اسی طرح ایک پری گولر کاپھول لے کر بہت اونچی اڑ رہی تھی ،یہ پھول ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی پر جاگرا اور برف میں دب گیا۔اس دن سے آج تک ہمالیہ کی ان اونچی چوٹیوں کی برف ختم نہیں ہوئی ہے۔جاڑا توجاڑا سخت گرمی میں بھی یہ برف موجود ہوتی ہے اور پگھل نہیں سکتی۔
سیہل نے دل ہی دل میں کہا کہ کتنی فضول چیزوں میں یہ گولر کا پھول گرا ہے۔وہ تو یہ چاہتا تھا کہ اس کو اگر گولر کا پھول مل جائے تو وہ پہلے اپنے جیب خرچ والے صندوقچے میں اسے رکھے پھر اس صندوقچے سے روپیہ نکال کر الماری بھرتا رہے اور پھر الماری ہی میں وہ پھول رکھ دے۔اس کے بعد روپے سے کوٹھری بھر دے اور کو ٹھڑی میں گولر کا پھول رکھ دے۔یہاں تک کہ وہ اس تمام روپے سے ایک سونے کی کان خریدے اور سونے کی کان میں گولر کا پھول رکھ دے تاکہ کان کا سونا کبھی ختم ہی نہ ہو۔
مگر گولر کا پھول ملے کیسے اور وہ پریوں سے یہ پھول حاصل کس طرح کرے۔اس نے یہ بات کسی کو بھی نہ بتائی کہ وہ گولر کا پھول حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے مگر وہ اب کئی راتوں سے یہ کر رہا تھا کہ بارہ بجے رات تک جاگنے کی کوشش کرتا مگر نہ جانے کیاہوتا کہ جہاں بارہ بجے کا وقت قریب آتا ،وہ اونگھ جاتا تھا اور پھر آنکھ اس وقت کھلتی تھی جب بارہ بج کر کچھ منٹ ہوچکے ہوتے تھے۔
ایک مرتبہ اس نے الارم بھی لگا کر رکھنا چاہا مگر پھر خیال آیا کہ اور لوگ بھی جاگ اٹھیں گے۔آخر ایک دن وہ تمام دن سویا اور شام کو اٹھ کر اس نے طے کرلیاکہ اب میں تمام رات جاگوں گا اور ان پریوں کو دیکھوں گا جو گولر کا پھول ہر رات لے جاتی ہیں۔اس خیال سے کہ کہیں نیند نہ آجائے،وہ لیٹا ہی نہیں بلکہ بیٹھنا بھی غلط سمجھ کر ٹہلتا ہی رہا۔
سوتے جاگتے
۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں جب تک سب جاگتے رہے اُس وقت تک تو سہیل ایک کتاب پڑھتا رہامگر جب سب سو گئے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور گولر کے درخت کے نیچے ٹہلتا رہا۔آج وہ طے کر چکا تھا کہ اِدھر کی دنیا اُدھر ہوجائے مگر وہ سوئے گا ہر گز نہیں اور دن بھر سونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں نیند تھی بھی نہیں۔مگر پونے بارہ بجے کے قریب وہ ٹہلتے ٹہلتے تھک کر چبوترے پر بیٹھ گیا۔اس کو یقین تھا کہ وہ آج سو نہیں سکتا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اور چمن کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بھی پھیلی ہوئی تھی مگر آج سہیل پر نیند کا کوئی اثر نہ تھا۔وہ ٹکٹکی باندھے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کب پریاں اڑتی ہوئی آتی ہیں اور کب اس درخت سے پھول لے جاتی ہیں۔وہ بار بار غور سے درخت کی ایک ایک ڈال کو بھی دیکھ رہا تھا کہ کہیں کوئی پھول کھلا تو نہیں۔یہاں تک کہ قریب ہی کچہری کے گھڑیال نے بارہ بجائے۔
سہیل کو تعجب تھا کہ وقت تو ہوچکا ہے مگر پریاں اب تک نہیں آئیں۔پھر اس کو خیال آیا کہ شاید پریوں کی گھڑی میں ابھی بارہ نہ بجے ہوں۔دوسرے یوں بھی مختلف گھڑیوں میں ایک آدھ منٹ کا فرق تو ہوتا ہی ہے۔وہ ابھی ان ہی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ ایک دم اس نے دیکھا کہ روشنی کچھ تیز ہوگئی اور چاندنی جو پہلے سے چھٹکی ہوئی تھی کچھ اور نکھر گئی۔ابھی وہ اس روشنی پر غور ہی کررہا تھا کہ آسمان کے ستاروں میں سے ایک بہت بڑا ستارہ زمین کی طرف تیزی سے آتا نظر آیا اور جب وہ بہت قریب آگیا تومعلوم ہوا کہ ستارہ نہیں ہے بلکہ ایک جگمگاتا ہوا تخت ہے ،جس پر ایک بہت ہی خوب صورت سی لڑکی بیٹھی ہے۔سہیل نے آج تک ایسی خوب صورت لڑکی کبھی نہ دیکھی تھی۔یہ لڑکی اس چمک دار تخت پر گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھی ہوئی ایک سونے کی پنکھیا جھل رہی تھی۔اب یہ تخت ہوا میں منڈلاتا ہوا بالکل گولر کے درخت کے قریب آگیا۔سہیل چپکے سے اٹھ کر ایک کھمبے کی آڑ میں کھڑا ہوا گیا تاکہ پری اسے نہ دیکھ سکے اور وہ پری کو اچھی طرح دیکھ لے کہ وہ کیا کرتی ہے۔یہ تخت گولر کے درخت کے قریب باغ میں اتر گیا اور پری نے تخت سے اتر کر گولر کے درخت کے نیچے پہلے تو اپنی خوب صورت چمک دار جوتیاں اتاریں اور پھر درخت پر چڑھنا شروع کیا۔وہ اس پھرتی سے درخت پرچڑھ رہی تھی کہ سہیل کو حیرت بھی ہورہی تھی اور ڈر بھی لگتا تھاکہ کہیں وہ گر نہ پڑے۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت کی اونچی چوٹی تک پہنچ گئی اور سہیل نے دیکھا کہ وہ ننھے ننھے ستاروں جیسے پھول توڑ توڑ کر اپنی گود میں بھر رہی ہے ۔یہ پھول پری کے آنے سے پہلے سہیل کو نظر نہ آئے تھے مگر اب صاف دکھائی دیتے تھے اور وہ دیکھ رہا تھا کہ پری چن چن کر ایک ایک پھول توڑتی جاتی ہے اور اپنے دامن میں بھرتی جاتی ہے۔
اب سہیل طے کر چکا تھا کہ میں یہ پھول پری کو آسانی سے لے جانے نہ دوں گا اور آج اس سے ایک آدھ پھول حاصل کرکے رہوں گا۔مگر وہ پری کو روکے گا کیونکروہ تو درخت سے اترتے ہی اپنے تخت پر پھُر سے اڑ جائے گی۔اس کی ترکیب اس کی سمجھ میں یہ آئی کہ اس نے دبے پاؤں آگے بڑھ کر پری کی جوتیاں اٹھا لیں اور پھر کھمبے کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔اُسی وقت پری بھی اپنے دامن میں پھول بھرے درخت سے نیچے اتری اور چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی ۔وہ یقیناًاپنی جوتی ڈھونڈ رہی تھی۔آخر اس نے خود بخود کہا:
’’کمال ہے۔آخر میری جوتیاں کیا ہوئیں۔‘‘
اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی وہ درخت کے تنے کے چاروں طرف گھومتی،کبھی اپنی تخت تک جاتی اور کبھی ادھر ادھرنظر دوڑاتی۔آخر سہیل نے کھمبے کی آڑ ہی سے اس کی ایک جوتی اس کی طرف اچھال دی۔اپنی ایک جوتی دیکھ کر پری نے خود بخود کہنا شروع کیا:
’’اس قسم کی ذلیل شرارت سوائے انسان کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
انسان پر یہ جملہ سہیل برداشت نہ کرسکا اور دوسری جوتی ہاتھ میں لیے پری کے سامنے آکر بولا:
’’اور اس قسم کی ذلیل چوری سوائے پری کے اور کوئی نہیں کر سکتی کہ تم مدتوں سے میرے باغ کے یہ پھول چوروں کی طرح چرا کر لے جاتی ہو۔تم کو اس کا کیا حق ہے؟‘‘
پری نے کہا،’’ہم پریوں کو اس کا حق ہے اس لیے ہم لے جاتی ہیں۔تم کو کیا معلوم کہ گولر اصل میں ہمارے پرستان کا ایک درخت ہے جس کا ایک پھول غلطی سے تمہاری دنیا میں آگرا تھا اور یہ درخت یہاں بھی پیدا ہونے لگا ورنہ گولر سے تمہارا کیا واسطہ۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کچھ بھی سہی مگر آج میں تم کویہ پھول نہ لے جانے دوں گا۔‘‘
پری نے کہا،’’اچھا میری جوتی تو دو، میں ننگے پاؤں زمین پر کب تک کھڑی رہوں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ جوتی تم کو اس وقت ملے گی جب تم ان میں سے آدھے پھول مجھ کو دے دوگی۔‘‘
پری نے کہا،’’یہ پھول اگر میرے ہوتے تو ضرور تم کو دے دیتی مگر یہ تو پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوں گے اور وہاں ایک ایک پھول گنا جاتا ہے۔اگر ایک پھول بھی کم ہوجائے تو ہمارے پر نوچ لیے جائیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کچھ بھی ہو مگر آج یا تویہ جوتی تم کو نہ ملے گی ورنہ ان میں سے کچھ پھول تم مجھ کو دوگی۔‘‘
پری نے اپنی تخت پر بیٹھتے ہوئے سہیل سے کہا:
’’بیٹھ جاؤ میرے پاس میں تم کو سمجھاتی ہوں۔‘‘اور جیسے ہی سہیل اس تخت پر بیٹھا ،وہ تخت یک دم زمین سے اڑ کر آسمان کی طرف فراٹے بھرنے لگا۔
فیشن ایبل پرستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل کا ڈر کے مارے بڑا حال تھا۔اس کو یقین تھا کہ ہوا کا کوئی تیز جھونکا اس کو اس تخت سے اڑا کر اس زمین پر گرادے گا جس کی بڑی بڑی عمارتیں اس کو گھروندوں جیسی نظر آرہی تھیں اور یہ تخت جتنا جتنا اونچا ہوتا جاتا تھااتنی ہی چھوٹی ہوتی جارہی تھیں۔وہ دونوں ہاتھوں سے تخت کو پکڑے سہما ہوا بیٹھا تھا۔پری نے اس کا یہ حال دیکھ کر کہا:
’’تم ڈرو نہیں۔اس تخت سے تم گر نہیں سکتے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مجھے تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں۔تم نے دھوکہ دے کر مجھ کو تخت پر بٹھایا اور مجھ کو لے اڑیں۔‘‘
پری نے کہا،’’تم خود بتاؤ کہ اگر میں یہ نہ کرتی تو کیا کرتی۔تم کہہ چکے تھے کہ یا تو تم پھول لوگے ورنہ مجھ کو میری جوتی نہ دوگے۔مجبور ہوکر مجھے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر اب تم مجھے لیے کہاں جاتی ہو؟‘‘
پری نے کہا،’’تم میری دنیا میں چل رہے ہو جو تمہاری دنیا سے ہزار درجہ خوب صورت بھی ہے اور ترقی یافتہ بھی۔‘‘
سہیل نے گھبرا کر کہا،’’مگر میں جاکر کیا کروں گا اور تمہاراارادہ کیاہے۔‘‘
پری نے کہا،’’میں تم کو اپنے بادشاہ کے دربار میں پیش کروں گی۔پھر بادشاہ کو اختیار ہے وہ جو سلوک چاہے تمہارے ساتھ کرے۔‘‘
سہیل نے ڈر کر کہا،’’ممکن ہے تمہارا بادشاہ مجھ کو مار ڈالے۔‘‘
پری نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا،’’توبہ کرو، ہمارا بادشاہ ایسا ظالم نہیں ہے۔ہمارے یہاں کسی کو موت کی سزا نہیں ملتی۔پھر تم تو ہمارے مہمان ہوگے۔ہم مہمان کی بڑی خاطر کرتے ہیں۔‘‘
اس وقت یہ تخت ستاروں کے ایک جگمگاتے ہوئے گچھے سے گزررہا تھا اورروشنی اتنی تیز تھی کہ سہیل نے اپنی دونوں آنکھیں بند کرلیں۔جب روشنی ذرا ہلکی ہوئی تو اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ اب ان کے چاروں طرف چھوٹے بڑے بہت سارے ستارے ہی ستارے تھے اور سوائے ستاروں کے اس کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔پری نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ ،’’وہ دیکھو ہماری دنیا نظر آنے لگی۔‘‘اور سہیل نے دیکھاکہ ایک بڑا سا گولر چاند کی طرح چمکتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہاہے اور رفتہ رفتہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ۔یہاں تک کہ اب سوائے اس چمک دار گولر کے اور کچھ اس کی نظر کے سامنے نہ تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ گولر ایک دم کھلا اور جس طرح گولر میں بہت سارے جاندار بھنگے ہواکرتے ہیں،اُسی قسم کے جاندار بھُنگے اس کو نظر آنے لگے مگر پری نے کہا:
’’یہ جو تم کو بھنگوں کی قسم کے جاندار کیڑے نظر آرہے ہیں، یہ اصل میں ہماری دنیا کے باشندے ہیں۔میرے ہی جیسے اس دنیا کے بسنے والے پریاں اور پری زاد۔‘‘اور سہیل کو محسوس ہوا کہ جو اب تک گولر کی شکل کا ایک چاند نظر آرہا تھا وہ تو واقعی ایک دنیا ہے اور اس دنیا کے پہاڑ اور سمندر ،پھر میدان اور دریا اور رفتہ رفتہ خوب صورت عمارتیں اس کو نظر آنے لگیں اور اسے اندازہ ہو گیا کہ اب یہ تخت نیچے اتررہا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ تخت ایسی جگہ اتر گیا جہاں بجائے زمین کے ہر طرف چاندی ہی چاندی بچھی تھی اور اسی پری کی طرح کی بہت سی خوب صورت لڑکیاں اور لڑکے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔جیسے ہی یہ تخت اس چاندی کی زمین پر اترا،چند لڑکیاں اور لڑکے اس پری کے سامنے جھک گئے جس کے ساتھ سہیل آیا تھا۔پری نے سہیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ان کو لے جاکر غسل کراؤ اور خلعت پہنا کر دربار میں پیش ہونے کے لیے تیار کرو۔‘‘
یہ سنتے ہی ان سب نے سہیل کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور اس جگمگاتی ہوئی عمارت میں لے کر داخل ہو گئے جو جڑاؤ زیوروں کی طرح چم چم کر رہی تھی۔کئی آراستہ کمروں سے گزر کرسہیل ان سب کے ساتھ ایک ایسے کمرے میں پہنچا جس میں چاندی کے فرش پر ایک گنگا جمنی حوض تھا جس میں سونے کے فوارے سے موتیوں کی طرح پھوار نکل رہی تھی ۔ایک خوب صورت پری نے سہیل سے کہا،’’لیجیے آپ حمام کر لیجیے تاکہ آپ کو دربار کے وقت تک ہم سب تیار کر دیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پری باقی سب کے ساتھ غسل خانے سے چلی گئی اور غسل خانے کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔سہیل بھی تھکا ہوا تھا۔وہ خود چاہتا تھا کہ نہا دھو کر ذرا تازہ دم ہو جائے۔چنانچہ اس نے شفاف پانی کے حوض میں اتر کر فوارے سے نہانا شروع کر دیا۔ابھی وہ نہانے کے بعد یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا وہی کپڑے اس کو پہننا پڑیں گے جو اس نے اتارے ہیں کہ ایک دم سے ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ ایک الماری اس کے سامنے کھل گئی،جس میں وہ قیمتی جوڑا لٹک رہا تھا جو بالکل اس کے جسم پر درست آگیا اور جیسے ہی وہ کپڑے بدل چکا،تمام دروازے کھل گئے اور بہت سی پریوں اور پری زادوں نے آکر اس کو سنوارنا شروع کردیا۔
پرستان کا شہزادہ سہیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دربار میں جانے کے لیے تیار ہو کر جب سہیل نے اپنے کو قدِ آدم آئینے کے سامنے دیکھاتو پہلی نظر میں اسے خود اپنے کو پہچاننے میں دقت ہوئی۔وہ خود اپنے کو کسی سلطنت کا شہزادہ سمجھ کر اپنے ہی عکس کو ادب سے سلام کرنے والا تھا کہ اسی آئینے میں اس کو وہ پری آتی ہوئی نظر آئی جو اس کو اڑا لائی تھی۔اس نے گھوم کر دیکھا تو وہ کھڑی ہنس رہی تھی۔سہیل کو دیکھ کر وہ بولی:
’’سچ مچ تم تو پہچانے ہی نہیں جاتے۔معلوم ہوتا ہے اسی پرستان کے شہزادے ہو۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مجھے اتنی جلدی اپنے جسم کے اس لباس پر یہ تعجب ہے کہ یہ بن کیسے گیا۔‘‘
پری نے مسکرا کر کہا،’’تم اپنی دنیا کی سستی اور کاہلی سے یہاں کی کسی بات کا مقابلہ نہ کرو۔ہمارے یہاں بڑے سے بڑا کام ایک اشارے میں ہو جاتا ہے۔‘‘
سہیل نے اور بھی تعجب سے کہا،’’تو کیا یہ لباس ابھی بنا ہے؟‘‘
پری بولی،’’بالکل ابھی۔جس وقت تم غسل خانے میں داخل ہو رہے تھے،ہمارا درزی تم کو دیکھ رہاتھا۔اس نے اسی وقت کپڑا اپنی سلائی کی مشین میں تمہارے ناپ کا نمبر لگا کر ڈال دیا اور دوسری طرف سے سلا سلایا استری کیا ہوا یہ جوڑا نکال لیاجو تم پہنے کھڑے ہو۔اس میں مشکل سے پانچ منٹ لگے ہوں گے۔‘‘
سہیل تعجب سے گم سم اس عجیب سلائی کی مشین سے متعلق غور کر رہا تھا کہ پری نے کہا،’’ابھی سے تم نے تعجب شروع کردیا،تم کو تو یہاں ہر چیز ایسی ہی عجیب نظر آئے گی۔میں تم کو اچھی طرح یہاں کی ایک ایک چیز دکھاؤں گی۔اس وقت تو دربار چلنے کی جلدی ہے،لہٰذا تم فوراً پہلے ناشتہ کرلو۔‘‘
یہ کہہ کر پری سہیل کو ایک جگمگاتے کمرے میں لے گئی جہاں کھانے کی ایک ایسی میز لگی ہوئی تھی جس کے پائے نظر نہ آتے تھے اور معلوم ہوتا تھا میز کا تختہ ہوا میں معلق ہے۔اس میز کے چاروں طرف جو کرسیاں تھیں وہ بھی میز کی طرح بغیر پایوں کی تھیں۔پری نے ایک کرسی پر بیٹھنے کا سہیل کو اشارہ کیا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھ کر میز پر رکھی ہوئی ٹائپ رائٹر کی قسم کی ایک مشین کا ایک بٹن دبایا ہی تھا کہ سائیڈ بورڈ سے ایک ڈش خود بخود ہوا میں اڑتی ہوئی میز پر آگئی اورپری نے سہیل سے کہا:
’’ہمارے یہاں ناشتے کی ابتدا اسی چیز سے ہوتی ہے۔اس کو ہم عوش کہتے ہیں۔یہ خربوزے کے بیجوں کا دلیہ ہے۔چکھ کر دیکھو تمہیں ضرور پسند آئے گا۔‘‘
سہیل نے اپنی پلیٹ میں دوتین چمچے عوش کے لیے تو پری نے ہنس کر کہا،’’اتنا بہت سا تم سے کھایا نہ جائے گا۔اس کا تو بس ایک ہی چمچہ کافی ہوتا ہے۔یہ پلیٹ رہنے دو،تم دوسری پلیٹ میں نکال کر کھاؤ۔‘‘
سہیل نے دوسری پلیٹ میں ایک چمچہ عوش نکال لیااور اس کو چکھ کر دیکھا تو وہ اتنا لذیذ تھا کہ اس نے اس مزے کی آج تک کوئی چیز کبھی نہ کھائی تھی مگر اسے تعجب ہوا کہ اس کے ایک ہی چمچے سے اس کی طبیعت سیر ہوگئی۔اب پری نے ٹائپ کرنے کے انداز سے دوتین بٹن دبا دیے اور سہیل نے دیکھا کہ سائیڈ بورڈ سے دوتین عجیب و غریب قسم کے پرندے خود بخود اڑ کر کھانے کی میز پر آگئے۔پری نے سہیل سے کہا،’’تمہارے یہاں جیسے تیتر ہوتے ہیں،اُسی قسم کا یہ ہماری یہاں کا پرندہے ،اس کو ہم سرسر کہتے ہیں۔کھا کر دیکھو۔‘‘
سہیل نے تعجب سے کہا،’’یعنی زندہ پرندہ کھاجاؤں؟‘‘
پری نے ہنس کر کہا،’’نہیں یہ تو بھنے ہوئے ہیں، جیسے ہی تم ان کو چھوؤگے، ان کا دم نکل جائے گا۔‘‘
سہیل نے اور بھی تعجب سے کہا،’’کیا مطلب یعنی بھنتے ہوئے ان کا دم نہیں نکلا تھا۔‘‘
پری نے کہا،’’بھنتے ہوئے دم نکل جاتا تو یہ اڑ کر میز پر کیسے آتے۔ہم اپنے جانوروں کو خواہ مخواہ وہ چرند ہوں یا پرندمار کر نہیں پکاتے۔میں تم کو ایسے طرفے دکھاؤں گی جو بھنے بھنائے پھرا کرتے ہیں۔کھاتے ہیں ،پیتے ہیں مگرہیں بھنے ہوئے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’طرفے کیا؟‘‘
پری نے کہا،’’ہاں ٹھیک ہے تم کیا جانو طرفے۔تمہارے یہاں تو اس قسم کے چرندکو بکرایا دنبہ کہتے ہیں۔خیر میں تمہیں دکھاؤں گی طرفے۔لو یہ سرسر تو کھاؤ۔‘‘
سہیل نے ڈرتے ڈرتے اس زندہ پرندے کو چھوا ہی تھا کہ وہ پلیٹ میں گر پڑا اور اس کی کھال مع پروں کے خود بخود الگ ہو گئی اور اندر سے بھاپ نکلتا گرما گرم گوشت نکل آیا۔سہیل نے اس گوشت کو چکھا تو یہ دنیا کے تمام پرندوں کے گوشت سے زیادہ لذیذ تھا۔وہ تھوڑی ہی دیر میں تمام گوشت چٹ کر گیا۔اب پری نے بٹن دبایا تو دو گول گول گیند اُچھل کر میز پر آگئے۔پری نے ایک گیند سہیل کے آگے رکھ دیا اور دوسرا اٹھا کر میز پر اس طرح مارا کہ وہ پھر اچھل کرپری کے منہ کے قریب آکر غائب ہو گیا۔پری نے سہیل سے کہا،’’تم بھی کھاؤنا۔یہ یہاں کا ایک پھل ہے جو ہماری دنیا میں اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے جس طرح تمہارے یہاں چائے۔یہ اصل میں چائے کے درخت ہی کا پھل ہے ۔اس کے رس میں دودھ،قہوہ،چینی سب کچھ ملا ہوا ہوتا ہے۔اپنا منہ کھول کراس پھل کو میز پرمارو تو سہی۔‘‘
سہیل نے میز پر یہ گیند مارا ہی تھا کہ اس کو محسوس ہوا کہ نہایت نفیس چائے کی پیالی کسی نے اس کے منہ میں انڈیل دی ہے۔وہ چائے کا بہت عادی تھا مگر چائے کی یہ قسم استعمال کرکے وہ اپنی چائے بھول ہی گیا۔
پرستان کا جلوس
۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہو کر جب سہیل پری کے ساتھ آیا تو اس نے دیکھاکہ نہایت قیمتی وردیاں پہنے ایک لشکرکا لشکر باہر موجود ہے اور ایک سونے کی بگھی کھڑی ہے جس میں گھوڑوں کے برابر بارہ سنگھے جتے ہوئے ہیں۔پری نے سہیل سے کہا:
’’یہ ہے تمہارا جلوس جو تم کو شاہی دربار تک ان راستوں سے لے جائے گا جو تمہارے لیے سجائے گئے ہیں اور جہاں اس وقت تماشائیوں کا اتنا ہجوم ہے کہ کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں ۔وہ سب تم کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔جس وقت وہ تم کو دیکھ کر ’سہیل قُم قُم‘ کے نعرے لگائیں،تم اپنی ناک پکڑ کر ہلا دینا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’سہیل قُم قُم کیا؟ اور یہ ناک پکڑ کر ہلانے کی کیا بات کہی تم نے۔‘‘
پری نے کہا،’’سہیل قم قم کا مطلب ہے خوش آمدید،اورتم اپنی ناک پکڑ کر جو ہلاؤ گے ،اس کا مطلب ہوگا سلام کرنا۔ہمارے یہاں ناک ہلا کر سلام کیا جاتا ہے۔‘‘
سہیل اس پر غور کرتا ہوا پری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔اُسی وقت ایسے باجے بجنا شروع ہو گئے جو فوجی بینڈ سے ملتے جلتے تھے مگر سہیل نے اب تک جتنے فوجی بینڈ سنے تھے ان سب سے دلکش ۔پری نے اس کو بتایا کہ یہ ہمارا شاہی بینڈ ہے اور ہمارے شاہ کا محافظ دستہ بجا رہاہے جو اس وقت تمہارے جلوس کے ساتھ ہے۔پری یہ بتا ہی رہی تھی کہ جلوس روانہ ہو گیااور جیسے ہی جلوس کے ساتھ سہیل کی گاڑی سڑک پر آئی،سہیل نے دیکھاکہ سڑک کے اوپر ہر طرف ستارے سے جگمگا رہے تھے اور تھوڑی تھوڑی دور کے فاصلے پرنہایت خوب صورت پھاٹک بنائے گئے تھے۔پہلا پھاٹک ایسے چاندی کے پتوں سے سجایا گیا تھاجن میں جا بجا ستاروں کے گچھے لٹک رہے تھے اور چمک دار حروف میں کچھ لکھا ہواتھا۔پری نے ان حروف کی طرف اشارہ کرکے بتایا:
’’اس پھاٹک پر لکھا ہے دوسری دنیا کے باشندے، ہماری دنیا تم کو سلام کرتی ہے۔‘‘
اور اسی وقت سہیل نے دیکھاکہ سڑک کی دونوں طرف بے شمار پری زاد اور پریاں پھولوں کی شاخیں ہاتھ میں لیے کھڑی نعرے بلند کر رہی ہیں’سہیل قُم قُم۔‘سہیل کو فوراً یاد آگیا کہ یہ وقت ہے ناک پکڑ کر ہلانے کا۔اس نے اپنی چٹکی میں ناک پکڑ کر دونوں طرف دیکھ دیکھ کر ہلانا شروع کردی اور جیسے ہی اس نے ناک ہلائی دونوں طرف سے پھولوں کی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔اس وقت اس کی گاڑی ایک ایسے پھاٹک کے سامنے تھی جو زربفت کی قسم کے نہایت قیمتی کپڑے کا بنا ہوا تھااور اس پر بھی کچھ لکھا ہوا تھا۔پری نے کہا:
’’اس پھاٹک پر لکھا ہے معزز مہمان خوش آمدید۔‘‘
اسی طرح یہ جلوس کئی پھاٹکوں سے گزرا۔مجمع پھولوں کی ڈالیاں ہلا ہلا کر’سہیل قم قم۔‘ کے نعرے بلند کرتا رہا اور سہیل ناک ہلا ہلا کر سلام کرتا رہا۔یہاں تک کہ چاندی کی سڑک کے بعد یہ جلوس ایک ایسی سڑک سے گزرنے لگا جس پر پھول ہی پھول بچھے تھے اور اس قدر خوشبو تھی کہ سہیل کا دماغ معطر ہو گیا۔اس سڑک کے دونوں طرف صرف بچے تھے۔ننھی ننھی پریاں اور ننھے ننھے پری زاد۔یہ سب مل کر کچھ گا رہے تھے۔پری نے کہا:
’’یہ تمہاری شان میں نظمیں اور گیت گا رہے ہیں۔اب تم ناک نہ ہلاؤ بلکہ اپنے دونوں کان پکڑ لو۔اس کا مطلب ہوگا گویا تم بچوں کو دعا ء دے رہے ہو۔‘‘
سہیل نے کہا:’’ہمارے یہاں تو کان پکڑنے کا مطلب ہوتا ہے توبہ کرنا۔‘‘
پری نے کہا،’’عجیب بات ہے حالانکہ توبہ کرنے کے لیے ہمارے یہاں تالی بجائی جاتی ہے۔خیر چھوڑو ان باتوں کو۔اب میں تمہیں دربار کے متعلق کچھ باتیں بتا دوں۔یہ جلوس جیسے ہی شاہی محل پر پہنچے گا۔پری زادوں کاایک دستہ تم کو سلامی دے گا۔اس وقت تم گاڑی سے اتر کر ان کی سلامی اس طرح لینا کہ اپنے سیدھے ہاتھ کو چوم کر صرف انگوٹھا سب کو دکھا دینا۔‘‘
سہیل نے حیرت سے کہا،’’انگوٹھا دکھا دوں سب کو،یہ تو ہمارے یہاں ٹھینگا دکھانا کہلاتا ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے ایک قسم کے انکار سے یعنی جو تم مانگ رہے ہووہ نہیں مل سکتا۔‘‘
پری نے کہا،’’ہوگا تمہارے یہاں یہ مطلب مگر یہاں اس کا مطلب ہوتا ہے قبول کرنا،گویا تم نے وہ سلامی قبول کرلی۔اس سلامی کے بعد پریوں کا ایک دستہ آگے بڑھے گا اور تم کو اپنے جھرمٹ میں لے کراس شہ نشین کی طرف لے جائے گاجہاں ہمارے شاہ تمہارا خیر مقدم کریں گے۔وہ تم کو دیکھ کر اپنا منہ آگے بڑھائیں گے۔تم بھی اپنا منہ آگے بڑھا کر ان کی ناک سے اپنی ناک تین مرتبہ رگڑ دینا۔یہ ہمارے یہاں کا مصافحہ ہے۔اس کے بعد ہمارے شاہ اپنے قریب تم کو کرسی پر بٹھائیں گے اور تمہارے سامنے وزیر اعظم سپاس نامہ پڑھ کر پیش کریں گے۔اس کے بعد تم اس کا جواب دینا۔میں تمہاری تقریر کا یہاں کی زبان میں ترجمہ کروں گی۔اس کے بعد تم کو یہاں کے بڑے بڑے سرداروں اور امراء سے ملایا جائے گا۔تم سب سے تین تین مرتبہ ناک ملاتے ہوئے اس شہ نشین کی طرف چلے جانا جہاں ملکہ معظمہ موجود ہوں گی مگر خدا کے لیے ان سے ناک نہ ملانا۔وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تو تم اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ پر تالی بجا دینا۔‘‘
پری اتنا ہی بتا سکی تھی کہ جلوس شاہی محل پر پہنچ کر رک گیا۔
پریوں کے جھرمٹ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی کے ٹھہرتے ہی جگمگاتی ہوئی وردی میں ایک پری زاد نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور خود ایک طرف ہٹ کر نہایت ادب سے جھک کر کھڑا ہو گیا۔پری کے اشارے پر سہیل گاڑی سے اترا ہی تھا کہ پری زادوں کے ایک دستے نے جو سرخ اور سنہری وردی میں پروں والی ٹوپیاں پہنے تھا،اس کو سلامی دی اور بینڈ بجنے لگا۔سہیل نے پری کی ہدایت کے مطابق اپنے سیدھی ہاتھ کو چوم کر مٹھی بند کی اور اس دستے کو انگوٹھا دکھا دیا۔اس کے بعد ہی پریوں کا ایک غول آگے بڑھا جو بادلوں کے رنگ کے لباس میں تھیں۔ان پریوں کے ساتھ سہیل شہ نشین کی طرف بڑھا اور بینڈ برابر بجتا رہا۔شہ نشین کے قریب پہنچ کر پریاں رکوع کی طرح جھک گئیں اور سہیل نے دیکھا کہ ایک بارعب پری زاد جس کے لباس کی چمک سے آنکھیں نہ ٹھہرتی تھیں، ایک سونے کی کرسی پر بیٹھا ہے اورچند پریاں اس کے مرچھل جھل رہی ہیں۔ سہیل سمجھ گیا کہ یہی ان پریوں کا شاہ ہے۔سہیل کو قریب دیکھ کر شاہ بھی اپنی سونے کی کرسی سے اٹھا اور ایک قدم آگے بڑھ کراس نے اپنا منہ آگے بڑھادیا۔سہیل نے بھی اپنا منہ آگے بڑھا کر تین مرتبہ اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑی۔اس کے بعد شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر والی دوسری سونے کی کرسی پر اسے بٹھایا ہی تھا کہ ایک اور پری زاد نے اٹھ کر ایک جڑاؤ خول سے ایک کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ سہیل کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے مگر جگہ جگہ اس کا نام آ رہا تھا۔جب وہ پڑھ چکا تو سہیل کو ساتھ لانے والی پری نے آگے بڑھ کر کہا:
’’شاہی مہمان محترم سہیل صاحب!میں اعلیٰ حضرت شاہ کے حکم سے اس سپاسنامے کا ترجمہ آپ کو سناتی ہوں جو سلطنت کی طرف سے ہمارے وزیراعظم نے اپنی زبان میں پیش کیا ہے۔مجھے اجازت دیجئے۔‘‘
سہیل نے گردن کے اشارے سے اجازت دی تو پری نے پڑھنا شروع کیا:
’’پرواز کے عالم کے مہمان سہیل صاحب۔ہماری دنیا آپ کا خیر مقدم کرتی ہے اور ہم آپ کے شکر گزارہیں کہ آپ نے یہاں تشریف لانے کی تکلیف برداشت کی۔ہماری دنیا آپ کی دنیاسے بہت دور سہی مگر گولر کے پھول نے ہمارا اور آپ کاایک سلسلہ قائم کررکھا ہے کہ وہ تمام دنیا والے جن کے گھروں میں گولر کے درخت ہیں ،ہمارے محسن ہیں۔آپ کے گھر میں بھی گولر کا درخت ہے جس کے پھول ہم آپ کے گھر سے حاصل کرتے ہیں اور ان کو ایسے کاموں میں لاتے ہیں کہ ہمارے اس عالم پرواز کی تمام ترقی کا راز ان ہی گولر کے پھولوں میں ہے۔خود ہمارے یہاں بھی گولر کے بے شمار درخت ہیں مگر ان کے پھولوں میں وہ تاثیر اس لیے نہیں رہی ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ اس پھول کی ناقدری کرکے یہ پھول آپ کی دنیا میں گرا دیا تھا۔جس سے آپ کی دنیا میں گولر کی نسل بڑھی اور اب صرف آپ کی دنیا کے گولر کے پھولوں میں یہ تاثیر باقی رہ گئی ہے کہ یہ جس چیز میں ڈال دیے جائیں وہ چیز کبھی کم نہیں ہوتی۔آپ کو یہ معلوم ہوکر خوشی ہوگی کہ ہم یہ پھول بجلی میں ،پیٹرول جسے آپ مٹی کا تیل کہتے ہیں،اس کے چشموں میں،مختلف دھاتوں کی کانوں میں،غلے کے گوداموں میں اور اسی قسم کی چیزوں میں ڈالتے ہیں اور ہم کو آپ کی دنیا کے ان پھولوں کی کثرت سے اس لیے ضرورت ہے کہ ہماری آب و ہوا میں یہ پھول ایک دن سے زیادہ شاداب نہیں رہتے۔بہرحال اس اعتبار سے ہم آپ کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور ہم مادام نیلی کے بھی شکر گزار ہیں کہ ان کی وجہ سے ہم کو آپ کی میزبانی کا فخر حاصل ہوا ہے۔‘‘
سہیل کو اس سپاسنامے سے علاوہ اور باتوں کے یہ بات پہلی مرتبہ معلوم ہوئی کہ جو پری اس کو اڑا کرلائی ہے ،اس کا نام نیلی ہے۔سہیل کو اب اس سپاسنامے کا جواب دینا تھا۔لہٰذا وہ کھڑا ہو گیااور اس کے کھڑے ہوتے ہی تمام دربار سہیل قم قم کے نعروں سے گونج اٹھا اور ہر طرف سے پھول برسنے لگے۔سہیل نے تقریر شروع کی:
’’اعلیٰ حضرت شاہِ عالم پرواز اور حاضرین دربار،آپ نے جس عزت اور محبت سے میرا خیر مقدم کیا ہے اس کا مجھ پر اتنا اثر ہے کہ میں حیران ہوں۔یہ دراصل مادام نیلی کی عنایت ہے کہ وہ مجھ کو میری دنیا سے اڑا کر اس خوب صورت اور میرے لیے عجیب و غریب دنیا میں لے آئیں۔مجھے یہاں پہنچے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے اور نہ میں نے گولر کے پھول کے متعلق غور کیا ہے لہٰذا میں اس وقت سوائے آپ کی میزبانی کا شکریہ ادا کرنے کے اور کچھ نہ کہہ سکوں گا۔میری دعا ہے کہ جو عزت آپ مجھ کو دے رہے ہیں میں اس کے قابل ثابت ہو سکوں۔‘‘
سہیل کی تقریرکو سب نے خاموشی سے سنا مگر جب نیلی نے اس کا ترجمہ سنایا تو سب نے باربار سہیل قم قم کا نعرہ بلند کیا۔اس کے بعد سہیل کو اہل دربار سے ملایا گیا اور جب سہیل ملتا ہوا ملکہ کے قریب پہنچا تو اس نے ملکہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر اپنے ہاتھ سے تالی بجادی۔اس کے بعد شاہی دعوت شروع ہو گئی اور اس دعوت میں سہیل نے ایسی ایسی چیزیں کھائیں جو اس نے کبھی نہ کھائی تھیں۔دعوت کے بعد سہیل، شاہ اور ملکہ سے رخصت ہو کر مہمان خانے میں آگیا۔
عجائبات
۔۔۔۔
مہمان خانے میں سہیل کے پہنچنے سے پہلے ہی اس کی ضرورت کی ہر چیز پہنچادی گئی تھی اور سونے کے کمرے میں مسہری کے قریب ہی ایک میزپر آج کا تازہ اخباربھی رکھا ہوا تھا جس کے پہلے صفحے پر سہیل کی تصویر تھی مگرسہیل یہ اخبار کیونکر پڑھ سکتا تھا البتہ وہ یہ دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ کاغذ، لکھائی چھپائی سب اتنی اچھی تھی کہ سہیل نے یہ انتظام اور یہ تکلف اخبار میں تو کبھی دیکھاہی نہ تھا البتہ خاص خاص کتابوں میں اس کی نظر سے ضرور گزرا تھا۔مثلاً خود اس کی رنگین تصویر اتنی جلدی چھپ جانا اس کے لیے حیرت انگیز تھاکہ آج ہی وہ پہنچا اور آج ہی ایسی لاجواب تصویر بھی نکل گئی۔سہیل ابھی اس بات پر غور کررہا تھا کہ نیلی نے خواب گاہ کے دروازے پر آکر پوچھا،’’میں آسکتی ہوں اندر؟‘‘
سہیل نے کہا،’’تشریف لے آئیے نا۔‘‘
نیلی نے آتے ہوئے کہا،’’چھوٹی رات کا وقت ہو گیاہے اب تھوڑی دیر آرام کر لیں۔‘‘
سہیل نے چونک کر کہا،’’رات؟رات کیسی ابھی تو میں دن کا کھانا کھاکر آیا ہوں شاہی ضیافت سے،اور یہ چھوٹی رات کیا معنی؟‘‘
نیلی نے کہا،’’ارے ہاں سچ تو ہے میں تم کو بتانا بھول گئی تھی۔ہماری دنیا میں بارہ گھنٹے کا دن اور بارہ گھنٹے کی رات نہیں ہوتی بلکہ ایک چھوٹی سی رات دن کے کھانے کے بعد بھی ہوتی ہے کوئی ایک گھنٹے کی تاکہ دن کا کھانا کھانے کے بعد لوگ گھنٹہ بھر سو سکیں۔یہی کہنے آئی تھی کہ اب آپ سو جائیں ،گھنٹے بھر کے بعد میں پھر آکراگلا پروگرام بتاؤں گی۔چھوٹی شب بخیر۔‘‘
نیلی تو یہ کہہ کر چلی گئی مگر سہیل نے طے کیا کہ وہ تو ہر گزنہ سوئے گابلکہ اس عجیب و غریب گھنٹے بھر کی رات کودیکھے گا۔چنانچہ نیلی کے جاتے ہی وہ کمرے کے باہر برآمدے میں آگیااور اس نے دیکھاکہ واقعی ہر طرف اندھیرا پھیل رہا ہے اور چراغ جگمگانا شروع ہو گئے ۔آسمان پر اس کو تارے نظر آنے لگے اور دن کو ایک بجے کے قریب اچھی خاصی رات ہوگئی ہے۔اس دنیا میں یوں تو اس کو بہت سی عجیب وغریب باتیں نظر آئیں مگریہ رات اس کے لئے سب سے زیادہ عجیب و غریب تھی۔وہ برآمدے ہی میں موجود رہا تاکہ جب اس گھنٹے بھر کی رات کے بعد دن نکلنا شروع ہوتو وہ منظر بھی دیکھ سکے مگر اس کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ ایک گھنٹہ ختم ہونے کو آیامگر اب تک اتنا ہی گہرا اندھیرا ہے۔وہ بار بار اپنی کلائی پر لگی ہوئی گھڑ ی دیکھ رہا تھا اور جب چند سیکنڈ باقی رہ گئے تو ایک دم سے روشنی اس طرح پھیل گئی جیسے بجلی کا کرنٹ ایک دم سے آگیا ہو۔وہ تعجب کرتا ہوا برآمدے سے کمرے میں آگیا اور ابھی اس کو آئے ہوئے دیر نہ ہوئی تھی کہ نیلی نے بھی کمرے کا دروازہ بجا کر کہا،’’میں اندر آجاؤں؟‘‘
سہیل نے کہا،’’تشریف لائیے۔‘‘
نیلی نے آکر سہیل کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’ارے یہ کیا۔آپ تو معلوم ہوتا ہے بالکل نہیں سوئے۔آنکھوں سے رات کو جاگنے کی کیفیت نظر آرہی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’آپ ٹھیک سمجھی ہیں،میں واقعی نہیں سویا۔اس لیے کہ میں اس عجیب رات کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا جو ہمارے یہاں نہیں ہوتی۔‘‘
نیلی نے کہا،’’مگر آئندہ یہ تماشہ نہ دیکھئے گا ورنہ آپ بیمار ہو جائیں۔یہاں کی آب ہوا کو دیکھتے ہوئے چھوٹی رات میں سونا بہت ضروری ہوتا ہے۔بہرحال یہ لیجئے یہ آپ کاچھپا ہوا پروگرام آگیا ہے۔اس پروگرام کے مطابق ایک گھنٹے کے بعدآپ کو چاندی باغ پہنچنا ہے جہاں آپ کے اعزاز میں یہاں کی پارلیمنٹ کے ممبر آپ کو عصرانہ دے رہے ہیں۔عصرانے کے بعد رات کا کھانا آپ کو شاہی محل میں کھانا ہے جس میں صرف پریاں ہوں گی، کوئی پری زاد نہ ہوگا۔یہ ضیافت ہماری ملکہ معظمہ کی طرف سے ہے۔آپ کو ہر تقریب میں شرکت کرنے کے لئے کپڑے ہمیشہ اس الماری میں لٹکے ہوئے مل جایا کریں گے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’عصرانہ تو خیر ٹھیک ہے مگر ملکہ معظمہ کی ضیافت میں صرف پریاں ہوں اور مرد صرف میں ہوں گا،یہ عجیب بات ہے۔‘‘
پری نے کہا،’’آپ کے لیے عجیب بات ہوگی مگر یہاں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ خود اس دنیا کے مختلف ملکوں سے جو مہمان آتے ہیں ،ان کو ہماری ملکہ معظمہ ایک علیٰحدہ ضیافت دیتی ہیں اور اس میں علاوہ مہمانوں کے صرف پریاں ہوتی ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’بہرحال آپ تو ساتھ ہوں گی۔‘‘
نیلی نے ایک کاغذ نکال کر دکھاتے ہوئے کہا،’’میرے متعلق بھی یہ شاہی فرمان آج ہی نکلا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ ہر جگہ رہوں گی اور آپ کے اس دورے کے تمام انتظامات بھی میرے ہی سپرد ہو ئے ہیں ،بلکہ مجھے تو آپ کی وجہ سے وزارت کا عہدہ ہمارے بادشاہ سلامت نے بخش دیا ہے۔بہرحال اب آپ عصرانے کے لئے تیار ہو جائیے،وقت کم ہے۔‘‘
مادام نیلی
۔۔۔۔
عصرانے کے لیے جو لباس سہیل کے واسطے تیار ہوا تھا،وہ ان پریوں اور پری زادوں کی دنیا کا نہیں بلکہ وہی لباس تھا جو سہیل عام طور پر پہنا کرتا تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ نہ تو اتنا قیمتی کپڑاکبھی سہیل نے دیکھا تھا ،نہ اس کے تصور میں تھا۔جس کپڑے کی شیروانی تھی ،اس میں ریشم کے ساتھ سونے کے تار باندھے گئے تھے اور مختلف قسم کے جواہرات بھی ٹکے ہوئے تھے۔شیروانی کے بٹن اٹھنی کے برابر برابر سڈول یا قوتوں سے بنائے گئے تھے اوروہ جو کسی نے کہا ہے کہ :
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
وہ بھی یہاں سچ کر دکھایا تھا۔نہ جانے ان جوتوں میں کس قسم کے جواہرات لٹکے ہوئے تھے کہ ان کی چمک دور تک جاتی تھی اور جناح کیپ کی طرح کی جو ٹوپی تھی،اس میں بھی ایک اتنا بڑا ہیرا لگا ہوا تھا جیسے کسی نے ٹوپی میں پیپر ویٹ باندھ دیا ہو۔سہیل یہ لباس اپنے خدمت گار پری زادوں کی مدد سے پہن کر جب آئینے کے سامنے گیا تو اپنے کو بمشکل پہچان سکا۔اس کا جی چاہتا تھا کہ اسی شان سے اپنے گھر بھاگ جائے اور اپنے بہن، بھائیوں اور دوستوں کو جاکر دکھائے کہ دیکھو میری شان۔سہیل اپنا عکس آئینے میں دیکھ ہی رہا تھاکہ نیلی کی آواز آئی:
’’میں آسکتی ہوں؟‘‘
سہیل نے کہا،’’تشریف لے آئیے ،میں تیار ہوں۔‘‘
نیلی نے اندر آتے ہوئے کہا،’’باہر سواری بھی حاضر ہے،تشریف لے چلئے۔‘‘
سہیل نیلی کے ساتھ باہر آگیا اور اس نے دیکھا کہ وہی سونے کی گاڑی تیارکھڑی ہے اور اس کے آگے پیچھے زرق برق وردی پہنے سوار موجود ہیں۔سہیل نے نیلی سے کہا،’’کیا اس وقت بھی جلوس کی شکل میں سواری جائے گی؟‘‘
نیلی نے کہا،’’نہیں،یہ جلوس تو نہیں،یہ تو شاہ کا محافظ دستہ ہے جو آپ کے ساتھ ہر وقت رہے گا جب تک آپ یہاں ہیں۔البتہ اس وقت بھی سواری جن جن راستوں سے گزرے گی،تماشائی تو بہرحال ہوں گے،حالانکہ آپ کی سواری کے لئے سڑکیں بند کردی گئی ہیں۔‘‘
سہیل نیلی کے ساتھ آگے بڑھ کرگاڑی میں سوار ہو گیااور سواری روانہ ہو گئی۔واقعی اس وقت ہر سڑک کے دونوں طرف تماشائیوں کے ہجوم تھے۔جدھر جدھر سے سواری گزر رہی تھی ،یہ تماشائی اس وقت بھی سہیل قم قم کے نعرے بلند کررہے تھے جن کے جواب میں سہیل ناک برابر ہلاتا رہا۔وہ اب ناک ہلانے میں ماہر ہو چکا تھا اور نیلی کو اب بار بار یاد دلانا نہ پڑتا تھا کہ اب ناک ہلاؤ ۔یہاں تک کہ بچوں کا ایک مجمع دیکھ کر سہیل نے کانوں پر ہاتھ رکھ دئیے تو نیلی نے خوش ہو کر کہا،’’آپ تو بڑے ذہین معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مجھے ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ میری وجہ سے اس دنیا میں خود میری دنیا بدنام نہ ہو جائے۔‘‘
اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے یہ دونوں تمام راستہ طے کر گئے اور گاڑی ایک ایسے خوب صورت پھاٹک کے اندر داخل ہوئی جو بیلے کی قسم کے پھولوں سے گوندھا گیاتھا۔پھاٹک کے اندر سہیل نے دیکھاکہ ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔ایسے ایسے خوش رنگ پھولوں کے جا بجا تختے تھے جو سہیل نے آج سے پہلے کبھی دیکھے ہی نہ تھے اور ایسے ایسے رنگین درخت کہ یہ تمام منظر ایک رنگین تصویر نظر آرہا تھا۔گاڑی ایک تالاب کے کنارے جا کر رک گئی اور نیلی نے سہیل کو اترنے کا اشارہ کیا۔سہیل کو دیکھ کرایک پری زاد نے اپنا منہ آگے بڑھا دیا اور سہیل نے فوراًاس سے تین مرتبہ اپنی ناک رگڑ لی۔نیلی نے کہا:
’’آپ ہماری پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں عالی مرتبت جُو ہُو۔‘‘
سہیل کو عالی مرتبت جوہو نے اپنے ساتھ ایک مچھلی نما چاندی کی کشتی میں بٹھایا اور نیلی کو بھی اسی کشتی میں جگہ دی۔یہ کشتی تیزی سے تیرتی ہوئی اس ٹاپو تک گئی جو سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا اور جس کے چاروں طرف بے شمار فوارے موتی برسا رہے تھے۔اسی ٹاپو پر عصرانے کا انتظام تھا۔سہیل کے پہنچنے کے بعد شاہی بینڈ نے اپنا ترانہ بجایا اور طشتریاں ہوا میں اڑنا شروع ہو گئیں۔ان طشتریوں میں طرح طرح کے میوے، مٹھائیاں اور پھل وغیرہ تھے۔سہیل نے بھی سیر ہوکر بہت سے خوش ذائقہ پھل اور میوے کھائے۔کھانا پینا ختم ہونے کے بعد نیلی نے کہا کہ،’’اب آپ کو مہمانوں سے ملایا جائے گامگر اس موقعے پر آپ کسی سے ناک نہ رگڑیں بلکہ تھوڑی سی زبان نکال کر مہمانوں کی قطار سے گزر جائیں۔‘‘
سہیل نے حیرت سے کہا،’’زبان نکال کر؟مگر یہ تو بد تمیزی ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’جی نہیں اس کا مطلب ہے کہ کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔‘‘
اور آخر سہیل کو زبان نکال کر عالی مرتبت جوہو کے مہمانوں کی قطار وں سے گزرنا پڑا۔
ملکہ کی دعوت
۔۔۔۔۔۔۔
عصرانے سے واپس آکر سہیل نے اپنے خدمت گار پری زادوں کو منتظر پایا۔ان سب نے مل کر سہیل کا لباس اتارا اوراس کو غسل خانے میں لے جا کر کیوڑے اور گلاب کی قسم کے خوشبودار عرقوں سے نہلایا اور پھر نہایت ہی بھینی بھینی خوشبووالے عطر اس کے جسم پر ملے۔ اس کے بعد اس کو وہ لباس پہنایا گیا جو ملکہ معظمہ کی ضیافت کے لیے بنا تھا۔اس جوڑے میں شیروانی سیاہ تھی اور اس پر طلائی کام اس طرح ہوا تھاگویا شیروانی نہیں بلکہ تاروں بھری رات ہے۔سہیل کو فوراً خیال آیا کہ اس کی دنیا میں بھی کھانے اور رات کی دوسری تقریبوں کا لباس بھی سیاہ یا سفید ہوتا ہے۔اس جوڑے کے ساتھ جو کامدار جوتا تھا،اس کو پہن کر رات کے اندھیرے میں لالٹین یا ٹارچ لے کر چلنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ جوتا خود ہی روشنی دیتا تھا۔سہیل نے آئینے کے سامنے اپنے کو اس لباس میں بھی دیکھا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ لباس اس پر سب سے زیادہ سجا تھا۔
نیلی نے دروازے پر آکر آواز دی،’’میں حاضر ہو سکتی ہوں؟‘‘
سہیل نے کہا،’’بلا تکلف تشریف لے آئیے۔دیکھ لیجئے میں بالکل تیار ہوں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’ماشاء اللہ ۔سہیل صاحب اس لباس میں تو آپ بہت ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ملکہ معظمہ کی دعوت میں ہر ایک کی نظر یہی کہے گی ۔‘‘
سہیل نے کہا،’’اب مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہاں مجھے کیاکرنا پڑے گا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’کچھ بھی نہیں۔ملکہ معظمہ آپ کا خیر مقدم کریں گی تو آپ پہلے کی طرح اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ پر ہلکے سے تالی بجا دیجئے گا۔وہ آپ کو کھانے کی میز پر لے جائیں گی اور آپ کا جام صحت تجویز کریں گی۔پھر کھانا شروع ہو جائے گا۔کھانے کے بعد آپ کو عصرانے کی طرح اس ضیافت کی مہمان پریوں سے ملایا جائے گاتو آپ ان کی قطاروں سے زبان نکال کر گزر جائیے گا۔اس کے بعد آتش بازی ہوگی اور پھر ناچ گانے کی محفل۔ہاں اگر ناچ گانے کی محفل میں آپ کو کسی کا گانا یا ناچ پسند آئے تو تین مرتبہ کان پکڑ کر اٹھنا بیٹھنا۔‘‘
سہیل نے گھبرا کر کہا،’’جی کیا فرمایا،میں خواہ مخواہ میں اٹھا بیٹھی کروں۔‘‘
نیلی نے ہنس کر کہا،’’توبہ ہے آپ تو چونک ہی پڑے۔یہاں کا یہی دستور ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’جی نہیں ،میں باز آیا۔یہ تومجھ سے کبھی نہ ہوگا۔یہ تو دراصل ایک قسم کی سزا ہے جو سبق یاد نہ کرنے والے یا شرارت کرنے والے بچوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’آپ پھر اپنی دنیا کی باتیں کرنے لگے ہیں، اُس دنیا کا ذکر نہیں اِس دنیا کا ذکر کر رہی ہوں۔آپ اس محفل میں خود دیکھ لیجیے گا کہ بہت سی پریاں یہی کریں گی۔بہرحال آپ چلئے ،وقت ہو گیا ہے۔‘‘
سہیل نیلی کے ساتھ اسی سونے کی گاڑی پر شاہ کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔اس نے دیکھا کہ ہر طرف چراغاں ہے اوررنگ برنگی روشنی سے ہر طرف نور ہی نور برس رہا ہے۔نیلی نے بتایا،’’آپ کی تشریف آوری کی تقریب میں آج یہاں جشن چراغاں منایا گیا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر اس وقت تماشائی کیوں نہیں ہیں؟‘‘
نیلی نے کہا،’’ملکہ معظمہ جب ضیافت دیتی ہیں تو ان کے مہمان کو تماشائی نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
سہیل اس چراغاں کی بہار دیکھتا ہوا محل تک پہنچ گیا اور جب گاڑی رکی تو نیلی نے چپکے سے کہا،’’ملکہ معظمہ استقبال کے لئے موجود ہیں۔‘‘
سہیل نے گاڑی سے اتر کر ملکہ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ سے ہلکی سی تالی بجائی اور ملکہ اس کو اپنے ساتھ کھانے کی میز پر لے آئیں۔جس وقت ملکہ اور سہیل وہاں پہنچے تو سب پریاں کھڑی ہوگئیں اور جب وہ دونوں بیٹھے تو وہ بھی بیٹھ گئیں۔ملکہ نے ہاتھ بڑھایا تو ہوا میں اڑتا ہوا ایک جام اس کے ہاتھ میں آگیا۔اس نے نہ جانے کیاکہہ کر سہیل کی طرف مسکرا کر اشارہ کرتے ہوئے جام پی لیا اور سب پریوں نے ایک ایک جام پی لیا۔اس کے بعدہوا میں گرم گرم کھانے کی طشتریاں اڑنا شروع ہو گئیں اور سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔کھانا اتنا لذیذ تھا کہ سہیل کچھ زیادہ ہی کھا گیا۔کھانے کے بعد آتش بازی شروع ہو گئی۔ ایسی آتش بازی سہیل نے آج تک نہ دیکھی تھی۔خود اس کی تصویر آتش بازی میں دکھائی گئی۔آتش بازی کے بعد گانے کی محفل شروع ہوئی اور گانا سننے والی پریوں نے کان پکڑ کر اٹھا بیٹھی شروع کردی۔مگر سہیل کی سمجھ میں نہ گانا آیا نہ ناچ۔اس لیے اس کو اٹھا بیٹھی کرنا نہ پڑی۔مگر جب محفل ختم ہونے کے قریب تھی، ملکہ نے نیلی سے کچھ کان میں کہاتو نیلی نے کھڑے ہو کر سہیل سے کہا،’’ہمارا گانا اور ناچ تو آپ سمجھے نہ ہوں گے۔ اب مجھ کو ملکہ معظمہ نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کی دنیا کا ایک گانا ناچ کر پیش کروں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے گانا شروع کردیا،’’گھر آیا میرا پردیسی ،پیاس بجھی میری آنکھین کی۔‘‘اور یہ گانا اس مزے سے گایا کہ سہیل کو کئی مرتبہ کان پکڑ کر اٹھا بیٹھی کرنی پڑی۔اسے تعجب تھا کہ نیلی نے یہ گاناکہاں سے سیکھ لیا اور سیکھا بھی ایسا کہ اصل گانے سے بڑھ کر۔
دعوت سے واپسی پر سہیل کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ تھک گیا ہے۔ اسے نیند بھی بہت آرہی تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر نیلی نے کہا،’’آپ کو تھکن اور نیند اس لیے محسوس ہو رہی ہے کہ آپ چھوٹی رات بالکل نہیں سوئے ،آئندہ یہ نہ کیجئے گا۔ہمارے یہاں رات کو سونا اتنا ضروری نہیں جتنا چھوٹی رات میں سونا ضروری ہے۔بہرحال اب آپ آرام کریں ۔آپ کے خدمت گار پری زاد آپ کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے۔شب بخیر۔‘‘
یہ کہہ کر نیلی تو چلی گئی اور چند پری زادوں نے سہیل کو سونے کے کپڑے پہنچا کر درخواست کی کہ یہ لباس پہن کر مسہری پر تشریف لے چلیں۔ سہیل نے رات کو سونے کے کپڑے پہن لیے جو عطر میں بسے ہوئے تھے اور عطر کی خوشبو ایسی بھینی بھینی تھی کہ اس سے اور بھی نیند آتی تھی۔سہیل یہ کپڑے پہن کر سونے کے کمرے میں پہنچا تووہاں مسہری پھولوں کی جھالروں سے سجی ہوئی مہک رہی تھی اور ننھی سی پری ستار کی قسم کا ساز بیٹھی بجا رہی تھی۔سہیل نے اس سے کہا:
’’ آپ اب تکلیف نہ کریں میں بغیر یہ ساز سنے ہی سو جاؤں گا۔‘‘
پری نے بہت ادب سے کہا،’’یہ ساز آپ کی نیند کو مٹھاس سے بھر دے گااورآپ اس کے سروں میں اپنی نیند کو اور بھی دلکش پائیں گے۔آپ آرام فرمائیں۔‘‘
سہیل جیسے ہی مسہری پر لیٹا،کمرے کی روشنی چاندنی کی طرح دھیمی اور ٹھنڈی بن گئی اور دو پری زادوں نے اس کے پیر دبانااور تلوے سہلانا شروع کر دئیے اور ایک پری زاد نے اس کے بالوں میں نہایت عمدہ خوشبو کا تیل ڈال کر سر دبانا شروع کردیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سہیل کو فوراًہی نیند آگئی اور وہ ایسا بے خبر سویا کہ صبح پھر جب اس کے سرہانے ساز کے میٹھے میٹھے سرچھیڑے گئے تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو جاگتا ہوا دیکھ کر اس پری نے جو ساز بجا رہی تھی، ساز ایک طرف رکھ کر نہایت میٹھی آواز میں کہا۔’’صبح بخیر۔‘‘
سہیل نے مسکرا کر اس کو جواب دیاتو اس نے کہا،’’آپ کے لیے غسل خانے میں پری زاد آپ کو نہلانے کے لئے منتظر ہیں تاکہ آپ ناشتے کے لئے ٹھیک وقت پر تیار ہو جائیں۔آپ کو اس وقت عالی مرتبت ہوشو وزیر اعظم کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے۔مادام نیلی آتی ہی ہوں گی۔‘‘
سہیل مسہری سے نکل کر غسل خانے میں داخل ہو گیاجہاں اس کو خوشبودار پانی سے پری زادوں نے غسل کرایا اور پھر وہ جوڑا پہنا دیا جو اسے وزیر اعظم کے یہاں پہن کر جانا تھا۔یہ جوڑا کچھ فوجی وردی کی قسم کا تھا۔وہ ابھی تیار ہی ہوا تھا کہ نیلی کی آواز آئی،’’میں حاضر ہو سکتی ہوں؟‘‘
سہیل نے کہا،’’تشریف لائیے مادام نیلی۔‘‘
نیلی بھی اس وقت فوجی لباس میں تھی۔اس نے آتے ہی کہا،’’امید ہے رات آرام سے بسر ہوئی ہوگی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’ایسا آرام مجھ کو کبھی نہیں ملا۔میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ اس وقت آپ ہمارے وزیر اعظم عالی مرتبت ہوشو کے ساتھ ناشتہ نوش فرمائیں گے اور اس کے بعد ہی آپ کے اعزاز میں ہماری فوجوں کی پریڈ ہے جس میں آپ سلامی لیں گے۔پھر سپہ سالار عالی مرتبت شیم شام کے ساتھ دن کا کھانا کھائیں گے۔اور پھر چھوٹی رات کا آرام فرمانے کے بعد آپ ہمارے ولی عہد بُش لِش کے ساتھ یہاں کی یونیورسٹی جائیں گے، جہاں آپ کو ڈاکٹر آف ساسا کی اعزازی ڈگری دی جائے گی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ ڈاکٹر آف ساسا کیابلا ہوتی ہے؟‘‘
نیلی نے کہا،’’ساسا کا مطلب ہے ہر فن مولا۔یہ یہاں کی سب سے بڑی ڈگری ہے ،جو اب تک صرف مریخ کے ایک شاہی مہمان کو دی گئی ہے اور دوسری مرتبہ آپ کو مل رہی ہے۔اس ڈگری کے ساتھ آپ کو سات مختلف علوم کے تمغے بھی پیش کئے جائیں گے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’پھر مجھے کیا کرنا پڑے گا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’کچھ بھی نہیں، بس آپ ہر تمغے پر ناک پر انگلی رکھ کر ایک چکر کھالیا کیجئے گا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یعنی میں ناک پر انگلی رکھ کر ناچوں گا وہاں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’وہ تو سب ہی کو اس قسم کے موقعے پر کرنا پڑتا ہے۔جب یہ رسم ختم ہوگی تو آپ کو تقریر کرنا پڑے گی جس کا ترجمہ بعد میں مجھ کو سنانا ہوگا۔پھر یہ جلسہ ختم ہو جائے گا۔امید ہے کہ اس عصرانے میں ہمارے بادشاہ سلامت بھی شرکت کریں ،اس لیے کہ عصرانے کے بعد ہی آپ کو شاہی تھیٹر میں خود بادشاہ سلامت لے جائیں گے اور وہاں آپ ہمارا وہ سینما دیکھیں گے جو آپ کی دنیا کے سینما سے کہیں زیادہ ترقی حاصل کرچکا ہے۔آپ کے یہاں اب تک صرف تین رخی تصویریں بنی ہیں۔مگر ہمارے یہاں یہ تصویریں آپ سے ہاتھ بھی ملائیں گی ۔آپ ان کی خوشبو سونگھ سکیں گے اور وہ آ پ کی نبض دیکھ سکیں گی۔اورآپ ان کی سانس تک محسوس کریں گے ۔ممکن ہے کوئی تصویر آپ کو گود میں اٹھا لے جائے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’پھر کیا ہوگا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’جو کچھ ہوگا دیکھ لیجئے گا۔بہرحال اب چلئے تو سہی۔‘‘
فوجی پریڈ
۔۔۔۔۔
سہیل اس فوجی وردی میں نیلی کے ساتھ باہر نکلا تو اس نے دیکھاکہ اس وقت شاہ کے محافظ دستے اور سونے کی گاڑی کی جگہ دو سفید رنگ کے گھوڑوں کی طرح کے بارہ سنگھے زین کاٹھی لگائے کھڑے ہیں۔سہیل نے نیلی سے کہا:
’’کیا مجھے ان میں سے ایک بارہ سنگھے پر بیٹھنا پڑے گا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’جی ہاں، فوجی پریڈ پر جو جانا ہے مگر آپ اطمینان رکھیے یہ بارہ سنگھے آپ کے گھوڑوں کی طرح بھڑکتے اور چمکتے نہیں ہیں بلکہ بہت شائستہ ہوتے ہیں اور ان پر بیٹھنے کے لئے ان کی سواری سیکھنا نہیں پڑتی بلک خود ان کو سدھایا جاتا ہے کہ یہ سواری کو کیونکر لے کر چلیں کہ سواری کوئی تکلیف محسوس نہ کرے۔اس طرف جو بارہ سنگھا کھڑا ہے ،یہ آپ کے لئے آیا ہے اور یہ خاص ہمارے بادشاہ کی سواری کا ہے۔‘‘
سہیل کو بہت کچھ اطمینان ہو گیا اور اس نے بڑھ کر رکاب میں پیر ڈال کر نیلی کو دیکھا کہ وہ کیا کرتی ہے۔نیلی نے رکاب پر پیر رکھ کر بالکل گھوڑے پر بیٹھنے کی طرح باری سنگھے کی پیٹھ پر بیٹھ کر لگام تھام لی تو سہیل نے بھی یہی کیا اور جب بیٹھ گیا تو نیلی نے جھک کر بارہ سنگھے کے کان میں کہا:
’’عالی مرتبت ہوشو کے محل چلو۔‘‘اور پھر سہیل کے باری سنگھے کی طرف جھک کر کہا،’’تم میرے ساتھ ساتھ چلو۔‘‘
یہ کہنا تھا کہ سہیل نے محسوس کیا کہ یہ دونوں بارہ سنگھے زمین سے کچھ اوپر اٹھنا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں بارہ سنگھے عمارتوں کے اوپراڑنے لگے۔یہاں تک کہ سہیل نے دیکھا کہ تمام عمارتیں اوپر سے چھوٹے چھوٹے گھروندے نظر آنے لگیں مگر تعجب کی بات یہ تھی کہ سہیل نہ ڈر رہا تھا نہ اس کو یہ ڈر تھا کہ وہ کہیں گر نہ پڑے۔ان بارہ سنگھوں نے اوپر اڑتے اڑتے ایک دم نیچے اترنا شروع کیا اور ایک ایسے باغ کا چکر کاٹنا شروع کردیا جس میں فوارے رنگ برنگ کا پانی اچھال رہے تھے۔رفتہ رفتہ یہ بارہ سنگھے ایک سبزہ زار پر اتر گئے جہاں پہلے ہی سے جگمگاتے ہوئے شامیانے لگے تھے اور بہت سے پری زاد اور پریاں قطاروں میں سونے چاندی کی کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔سہیل کے بارہ سنگھے سے اترتے ہی بینڈ کے ترانے گونجنے لگے اور ایک طرف پری زادوں کا اور دوسری طرف سے پریوں کا ایک دستہ اس کی طرف بڑھا۔پری زادوں کے دستے کے آگے جو سردار تھا،اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نیلی نے کہا،’’آپ ہیں ہمارے وزیر اعظم عالی مرتبت ہوشو۔سہیل نے ہوشو سے تین مرتبہ ناک رگڑی تو نیلی نے پریوں کے دستے کی سردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’یہ ہیں مادام ہوشو۔ہمارے وزیر اعظم کی بیگم۔‘‘سہیل نے اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ ہاتھ پر ہلکے سے تالی بجادی اور پھر پریوں اور پری زادوں کے دستوں نے دونوں طرف سے اس پر پھولوں کی بارش کی اور وزیر اعظم ہوشو اور مادام ہوشو نے اس کو اپنے ساتھ لے کر اس شامیانے میں پہنچادیاجہاں قیمتی لباس میں معزز پری زاد اور پریاں اس کی منتظر تھیں۔سہیل نے ان سب کو دیکھ کر ناک ہلائی۔ایک چھوٹے سے پری زاد اور ایک ننھی سی پری نے آگے بڑھ کر سہیل کے گلے میں ایسے ہار ڈال دئیے جن کے پھول باربار اپنا رنگ اور خوشبو بدل رہے تھے۔نیلی نے ان بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یہ دونوں بچے ہمارے وزیر اعظم اور مادام ہوشو کی اولاد ہیں۔‘‘
سہیل نے یہ سن کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔اسی وقت سہیل نے دیکھاکہ بے شمار طشتریوں کا ایک طوفان سا قریب کی ایک عمارت سے اٹھ کر فضا میں پھیل گیا اور رفتہ رفتہ یہ طشتریاں ان شامیانوں میں آگئیں جن میں مہمان موجود تھے۔خاص طور سے سہیل تو طشتریوں کے نرغے میں آگیا۔اس نے ایک طشتری سنبھال کر خربوزے کے بیجوں کاوہ دلیہ کھالیا جو اس کو بہت پسند تھا۔پھر ایک اور طشتری خود بخود اس کے ہاتھ میں آگئی جس میں کچھ بھی نہ تھا۔نیلی نے کہا،’’یہ نہ سمجھئے کہ اس میں کچھ نہیں ہے۔یہ اصل میں ایک نظر نہ آنے والا کیک ہے جو صبح کی ہوا سے بنایا جاتا ہے۔اس پلیٹ پر چمچہ پھیر کرذرا سی ہوا کھا کر دیکھئے۔‘‘سہیل نے خالی پلیٹ پر چمچہ پھیر کر جو کھایا تو مزہ آگیا۔کلیجے میں ٹھنڈل پڑ گئی۔آنکھیں روشن ہوگئیں اور مزہ کچھ اس قسم کا آیا کہ سہیل جھومنے لگا۔اسی طرح اس نے بہت سی عجیب و غریب چیزیں کھائیں اور جب ناشتہ ختم ہو گیاتو عالی مرتبت ہوشو نے جواہرات سے بھری ہوئی ایک کشتی اس کو تحفے میں دی اور اس کی کمر میں ایک ایسا خنجر باندھ دیا جس کے متعلق اسے بتایا گیا کہ یہ نیام سے نکل کر خود دشمن پر حملہ کرتا ہے اور حملہ کرنے کے بعد پھر خود ہی نیام میں آجاتا ہے۔سہیل نے مٹھی بند کرکے وزیر اعظم کو انگوٹھا دکھایا اور پھر زبان نکالتے ہوئے مہمانوں کے مجمع سے گزرتا ہوا نیلی کے ساتھ اپنے سفید بارہ سنگھے تک آگیا جہاں وزیر اعظم اور مادام ہوشو نے اس کو رخصت کیا اور وہ بارہ سنگھے پر بیٹھ گیا تو نیلی نے دونوں بارہ سنگھوں کے کانوں میں کہا،’’پریڈ کے میدان میں چلو۔‘‘
بارہ سنگھے اڑتے ہوئے جس وقت پریڈ کے میدان میں اترے ہیں ۔سہیل نے دیکھا کہ یہاں تو اتنی بڑی پریڈ کا انتظام ہے کہ ایسی پریڈ اس نے کبھی دیکھی ہی نہیں ۔بہت بڑے میدان میں ہر طرف مختلف وردیوں میں پری زاد پرے جمائے کھڑے تھے اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجیوں کی قطاریں ہی نظر آرہی تھیں۔یہاں پہنچتے ہی نیلی نے ایک خوب صورت کارڈ سہیل کو دے کر کہا،’’یہاں جو کچھ ہوگا اس کا یہ پروگرام آپ کے لئے ہے اور جو کچھ آپ کو کرنا ہے وہ بھی اس میں لکھا ہوا ہے۔آپ اسے دیکھ دیکھ کر ہر موقعے پر یہاں کی رسم کے مطابق ہر بات کر سکیں گے۔یہ کہہ کر نیلی نے بارہ سنگھوں سے کہا،‘‘جھنڈے کے نیچے چلو۔‘‘یہ دونوں بارہ سنگھے گھوڑوں کی طرح چل کر جھنڈے کے نیچے پہنچے ہی تھے کہ ایک اور نیلے رنگ کا بارہ سنگھا جس پر ایک پری زاد بہت ہی شاندار وردی پہنے اور بہت سے تمغے لگائے بیٹھا تھا،آگے بڑھا اور بارہ سنگھے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا۔نیلی نے سہیل سے کہا،’’یہ ہیں ہمارے سپہ سالار عالی مرتبت شیم شام۔‘‘
سہیل نے کارڈ دیکھ کر بارہ سنگھے کی پیٹھ پر کھڑے ہوکر اپنے دل پر اپنا دہنا ہاتھ رکھ کر اپنا بایاں شانہ اچکا دیا۔یہی سپہ سالار شیم شام نے بھی کیا۔اس کے بعد یہ تینوں جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوگئے اور شیم شام نے نیلی سے کچھ کہا۔نیلی نے اپنا بارہ سنگھا سہیل کے بارہ سنگھے کے سامنے لاکر کہا،’’عالی مرتبت سپہ سالار کی طرف سے میں عرض کرتی ہوں کہ پریڈ معائنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
سہیل نے کارڈ دیکھ کر اپنے بارہ سنگھے کے کان میں کہا،’’معائنے کے لئے چلو۔‘‘اور تینوں بارہ سنگھے تیر کی طرح تیزی سے ان قطاروں کے قریب پہنچ گئے جہاں فوجی پری زاد پرے باندھے کھڑے تھے۔سہیل سمجھ رہا تھا کہ اتنی بڑی فوج کا معائنہ تو تمام دن لے لے گا مگر یہ بارہ سنگھے بہت ہی تیزی سے ان بے شمار صفوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے آخر پھر جھنڈے کے نیچے آکر کھڑے ہو گئے اور قواعد شروع ہوگئی۔سہیل نے جلدی سے کارڈ کو دیکھا کہ اسے اب کیا کرناہے اور جب تک پہلا دستہ اس کے سامنے سے گزرا،وہ سلامی لینے کو تیار ہوچکا تھا۔اس نے مٹھی بند کرکے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا پیشانی پر رکھ لیا۔وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ پھرتیلے پری زاد کس قدر باقاعدگی سے مارچ کررہے ہیں۔کیا مجال کہ ایک قدم بھی کسی کا بے قاعدہ پڑے۔وہ پریڈ کی سلامی لے ہی رہاتھا کہ وہ خنجر اس کی کمر سے نکل گیا جو وزیر اعظم ہوشو نے اس کو دیا تھا اور سہیل نے دیکھا کہ وہی خنجر ایک بانکے سجیلے پری زاد کوزخمی کرکے گراتا ہوا پھر سہیل کی کمر میں لگ گیامگر اس سجیلے پری زاد کے گرتے ہی وہاں ایک ابتری سی پیدا ہوگئی اور نیلی نے بے ساختہ کہا،’’بے وقوف شومو یہ تم نے کیا کیا۔‘‘اور تھوڑی ہی دیر میں کچھ پری زاد اس اس زخمی کو اٹھا کر لے گئے مگر پریڈ جاری رہی، البتہ سہیل دیکھ رہا تھا کہ نیلی سخت پریشان ہے،اس لئے اس نے نیلی سے کہا،’’میں کچھ نہیں سمجھا کہ یہ کیا ہوا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’اگر وزیر اعظم نے آپ کو یہ خنجر نہ دیا ہوتا تو غضب ہو گیا تھااس وقت ۔یہ زخمی جس کا نام شومو ہے،فوج کا ایک بہت بڑا افسر ہے اور میرا منگیتر ہے۔‘‘
سہیل نے چونک کر کہا،’’تمہارا منگیتر؟‘‘
نیلی نے کہا،’’دستہ گزررہا ہے ،سلامی لیجئے۔‘‘
سہیل نے اس دستے کی بھی سلامی لے کر نیلی سے پوچھا:
’’تو کیا وہ تمہارا منگیتر تھا، مگر اس کو ہوا کیا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’وہ پاگل ہو گیا ہے اور میری اس سے آج ہی منگنی ٹوٹ جائے گی۔میں جو آپ کے ساتھ ساتھ ہوں تو وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں آدم زاد سے محبت کرنے لگی ہوں۔اسی جلن میں اس نے آپ پر قاتلانہ حملہ کرنا چاہا مگر خوش قسمتی سے آپ کو وزیر اعظم نے یہ خنجر پہلے دے دیا تھا ورنہ آپ نہ بچ سکتے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر تمہارا منگیتر شومو تو بچ جائے گا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’بچ گیا توبھی تووہ اس قابل تو نہیں رہا کہ میری اس سے منگنی باقی رہ جائے۔ہمارے بادشاہ سلامت اس کو کبھی معاف نہ کریں گے اور میں خود اس سے کبھی محبت نہ کر سکوں گی۔ہمارے یہاں مجرم سے سب کو خود بخود نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘
یہ دونوں باتیں بھی کرتے رہے اور ادھر دستے بھی گزرتے رہے اور سہیل سلامی بھی لیتا رہا۔یہاں تک کہ پریڈ ختم ہو گئی تو تمام فوج نے سپہ سالار شیم شام کے اشارے پر تین مرتبہ سہیل قم قم کا نعرہ بلند کیا اور سہیل نے ناک ہلاکر سب کو سلام کیا اور وہاں سے رخصت ہو کر سپہ سالارکے ساتھ اس کے محل میں آگیا جہاں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔یہاں جو سہیل سے ملتا وہ اس کو حملے سے بچ جانے پر مبارک باد دیتا۔یہاں تک کہ بادشاہ سلامت نے بھی مبارک باد کا پیغام سہیل کو یہیں بھیجا۔
اعلیٰ حضرت شاہ پری زاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاندار وردی پہنے ہوئے ایک پری زاد نے ایک خوبصورت سا صندوقچہ اس کے سامنے رکھ کر نیلی سے کچھ کہا تو نیلی نے بڑھ کر سہیل سے کہا،’’اعلیٰ حضرت شاہ آپ سے مخاطب ہیں۔ ‘‘اور اس نے دیکھا کہ اسی صندوقچے سے اعلیٰ حضرت شاہ برآمد ہوئے اور سہیل سے باقاعدہ ناک رگڑنے کے بعد نیلی سے کچھ کہا تو نیلی نے سہیل سے کہا،’’اعلیٰ حضرت آپ کو مبارک باد دے رہے ہیں کہ آپ اس قاتلانہ حملے سے بال بال بچ گئے جو ایک پاگل فوجی افسر شومو نے کرنا چاہا تھا،اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ شومو کی اس حرکت سے عالم پرواز کا کوئی فرد خوش نہیں ہو سکتا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر حضرت شاہ سے میں درخواست کروں گا کہ شومو صاحب کو معاف کردیا جائے۔ان کو میرے بارے میں غلط فہمی تھی۔‘‘
نیلی نے ترجمہ بادشاہ سلامت کو سنا کر ان کا جواب سہیل کو سنادیاکہ ’’ہم ضرور اس کو معاف کر دیتے مگر آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری دنیا میں صرف غلط فہمی ہی ایک ایسا جرم ہے جس کو بادشاہ بھی معاف نہیں کر سکتا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کم سے کم مجھ کو یہ اجازت دی جائے کہ میں شومو سے خود مل کر اس کے زخمی ہونے پر اظہار افسوس کر سکوں۔‘‘
نیلی نے بادشاہ سلامت سے یہ بات کہہ کر بادشاہ سلامت کا جواب سہیل کو سنا دیا کہ’’آپ کے لئے اس بات کا انتظام کردیا جائے گا کہ آپ زخمی شومو سے فوجی ہسپتال میں مل لیں مگر وہ اس ہمدردی اور شرافت کا مستحق نہیں ہے۔اس نے پوری قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے اورہماری دنیا کی تاریخ کو اپنے اس شرمناک فعل سے ناپاک کردیا ہے۔‘‘
سہیل نے نیلی سے کہا،’’میری طرف سے اعلیٰ حضرت سے پھر درخواست کرو کہ آپ کا مہمان آپ سے صرف یہ چاہتا ہے کہ آپ کسی طرح شومو کو بخش دیں۔‘‘
نیلی نے یہ بات حضرت شاہ سے کہہ کر اس کا جواب سہیل کو سنا دیا کہ ،’’کاش میں اپنے عزیز مہمان کی یہ درخواست پوری کر سکتامگریہ میرے یا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔میں بادشاہ ضرور ہوں مگر اپنے قانون کا پابند ہوں۔مجھے امید ہے کہ آپ میری مجبوری کو محسوس کریں گے اور یہ اصرار نہ کریں گے۔‘‘
نیلی جب یہ جواب سہیل کو سنا چکی تو بادشاہ سلامت نے پھر سہیل سے ناک رگڑی اور اسی صندوقچے میں غائب ہوگئے۔سہیل نے حیران ہو کر نیلی سے پوچھا،’’اتنے سے صندوقچے سے بادشاہ سلامت برآمد کیسے ہوئے اور پھر اسی میں غائب کیونکر ہوگئے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’لو سنو،کیا آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ خود بادشاہ سلامت تشریف لائے ہیں ۔یہ تو ٹیلیفون پر ان کا پیغام تھا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کیا کہہ رہی ہو تم مادام نیلی۔میں نے خود بادشاہ سلامت کو ابھی دیکھا ہے۔ان سے ناک رگڑی ہے۔ان کی ناک کی گرمی محسوس کی ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’جی ہاں ٹھیک ہے مگر یہ صرف ٹیلیفون تھا۔ہمارے یہاں کا ٹیلیفون اتنی ہی ترقی کر چکا ہے کہ اس پر بولنے والا بالکل سامنے محسوس ہوتا ہے۔یہ اصل میں ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن کی بہت ہی ترقی یافتہ صورت ہے۔جس طرح آپ بادشاہ سلامت کو یہاں محسوس کررہے تھے اسی طرح بادشاہ سلامت اپنے ٹیلیفون پر آپ کو محسوس کررہے ہوں گے۔مگر یہ تو صرف عکس ہوتا ہے۔‘‘
سہیل نے اس ٹیلیفون کا اگر خود تجربہ نہ کیا ہوتا تو اسے ہرگزیقین نہ آتا کہ ٹیلیفون کے ذریعے یہ سب کچھ بھی ممکن ہے جو ابھی ہواہے۔وہ اسی پر تعجب کررہا تھا کہ عالی مرتبت سپہ سالار شیم شام نے آکر کچھ کہا۔نیلی نے سہیل کو بتایا کہ کھانا تیار ہے اور اس شامیانے میں سہیل کا انتظار ہو رہا ہے جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔لہٰذا سہیل برابر والے اس شامیانے میں آگیا جس میں تمام معزز مہمان اس کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور اسی وقت تمام شامیانے میں طشتریاں اڑنا شروع ہوگئیں۔سپہ سالار خود سہیل کے لیے طشتریاں پکڑ پکڑ کر پیش کرتے رہے اور نیلی سہیل کو ان کھانوں کے متعلق سمجھاتی رہی کہ یہ کیا ہیں اور ان کو کھانے کا کیا طریقہ ہے۔مثلاً ایک پلیٹ میں بڑا سا بلبلارکھا ہوا تھا جیسے کسی بچے نے صابن کے جھاگ سے بنایا ہو۔نیلی نے بتایا کہ یہ یہاں کی بہت ہی قیمتی اور پسندیدہ غذا ہے۔اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دانت نہ لگنے پائیں۔صرف زبان سے اس کو کھائیں۔یہ کہہ کر اس نے خود یہی بلبلا زبان نکال کر کھالیا تو سہیل نے بھی اپنی طشتری کا بلبلا اسی طرح کھالیا اور کھا کر نیلی سے کہا،’’میں نے آج تک خودیہاں کے کھانوں میں جتنی چیزیں کھائی ہیں ان میں سب سے زیادہ مزیدار یہی کھانا ہے۔‘‘
اسکے بعد سپہ سالار نے ایک اڑتی ہوئی پلیٹ پکڑ کر سہیل کے سامنے پیش کی۔اس میں مختلف پھل تھے۔نیلی نے کہا،’’یہ غذاؤں کے پھل ہیں،مثلاً یہ پلاؤ کا پھل ہے۔یہ نرگسی کوفتوں کا پھل ہے۔یہ بھنے ہوئے مرغ کا پھل ہے۔یہ سب آپ کی دنیا کے کھانے ہیں جن کو یہاں پھلوں کی صورت میں اگایا جاتا ہے۔‘‘
سہیل نے پلاؤ والے پھل کو جو کاٹا تو حیران رہ گیا کہ اس میں سے بھاپ نکلتی گرما گرم بریانی نکل آئی اور اس نے مزے لے لے کر کھانا شروع کردی۔اس طرح مختلف پھل چکھے اور حیران ہوتا رہا۔کھانے کے بعد چونکہ چھوٹی رات قریب تھی لہٰذا وہ سیدھا مہمان خانے روانہ ہوگیا۔
شیشے کی گاڑی
۔۔۔۔۔۔۔
مہمان خانے میں پری زادوں نے اس کو جلدی جلدی وہ کپڑے پہنا دئیے جنہیں پہن کر اس کو اس وقت سونا تھااور نیلی نے تاکید کردی تھی کہ کل کی طرح کہیں آج بھی جاگتے نہ رہیے گا ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی۔لہٰذا سہیل فوراً اپنی مسہری پر پہنچ گیا ۔اس کے مسہری پر پہنچتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور اس نے سونے کے لئے آنکھ بند ہی کی تھی کہ اس کو نیند آگئی اور آنکھ اس وقت کھلی جب ایک پری زاد اس کا منہ صاف کررہا تھا۔وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا تو پری زاد نے کہا،’’میں آپ کو یونیورسٹی جانے کے لئے تیار کر رہا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے سہیل کا منہ صاف کرنے کے بعد اس کے بال بھی یہیں بیٹھے بیٹھے بنا دئیے اور پھر اس کو ایک نہایت قیمتی سوٹ پہنا دیا جو اسے اس سوٹ سے بھی زیادہ پسند آیا جو اس کے بھائی جان اپنے لیے لندن سے سلوا کر لائے تھے اور جس پر ان کو بڑا فخر تھا۔یہ سوٹ پہن کر جب سہیل آئینے کے سامنے گیا تو اس نے خود اپنے کو بہت پسند کیا۔اسی وقت دروازے پر نیلی کی آواز آئی:
’’میں آجاؤں اندر؟‘‘
سہیل نے کہا،’’تشریف لے آئیے مادام نیلی۔‘‘
نیلی نے آکر کہا،’’تشریف لے چلئے، وقت ہو چکا ہے اور سہیل نے باہر نکل کر دیکھاکہ اس وقت شاہ کا محافظ دستہ پھر موجود تھا مگر بجائے سونے کے شیشے کی گاڑی کھڑی تھی۔نیلی نے کہا،’’یہ ہمارے ولی عہد بہادر کی خاص سواری کی گاڑی ہے جو ایک عظیم الشان ہیرے کو تراش کر بنائی گئی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’اتنا بڑا ہیرا کیونکر ممکن ہے؟‘‘
نیلی نے کہا،’’ممکن نہ ہوتا تو یہ گاڑی کیسے بنتی۔ہمارے یہاں سب کچھ ممکن ہے۔بہرحال تشریف لائیے۔کہیں دیر نہ ہوجائے،ولی عہد بہادر منتظر ہوں گے۔‘‘
اور اب جو سہیل اس گاڑی پر بیٹھ کر چلا ہے تو آج بھی سڑک کے دونوں طرف بے شمار تماشائی پھولوں کی شاخیں لئے موجود تھے۔سہیل نے ان کو دیکھ کر ناک پکڑ کر ہلاناشروع کردی اور وہ’ سہیل قم قم‘کے نعرے بلند کرنے اور پھول برسانے لگے۔سہیل نے دیکھا کہ آج بھی تمام راستے میں جا بجا خوب صورت پھاٹک لگائے گئے تھے مگر یہ وہ پھاٹک نہ تھے جو کل کے جلوس میں اس نے دیکھے تھے۔یہ بالکل نئے تھے اوران میں سے ایک پھاٹک تو ایسا تھا جیسے پورا پھاٹک ایک بہت بڑی پھلجڑ ی ہے جس سے رنگ برنگ کے پھول برس رہے تھے۔ایک جگہ پہنچ کر اسی جلوس میں ایک اور جلوس مل گیا۔نیلی نے کہا:
’’یہ ہمارے ولی عہد بہادر کی سواری ہے اور وہ خود آج زمرد کی گاڑی میں تشریف رکھتے ہیں۔اصل میں یہ گاڑی ملکہ معظمہ کی ہے۔‘‘
یہ جلوس ایک ایسے پھاٹک میں داخل ہو گیا جو دور سے ایک بڑا گلاب کا پھول نظر آرہا تھا اور اب سڑک کچھ اس قسم کی تھی جیسے دریا بہہ رہا ہو بلکہ سہیل کو تعجب ہو رہا تھا کہ اس کی گاڑی اس دریا میں ڈوبتی کیوں نہیں۔وہ ابھی یہ غور ہی کررہا تھا کہ گاڑی ٹھہر گئی اور نیلی نے کہا،’’ولی عہد بہادر استقبال کے لئے موجود ہیں۔‘‘
سہیل نے گاڑی سے اتر کر نہایت خوب صورت پری زاد یعنی ولی عہد سے ناک رگڑی اور پھر ولی عہد بہادر کے ساتھ اس ہال میں داخل ہوا جہاں حاضرین پہلے ہی تعظیم کے لئے کھڑے ہو چکے تھے۔اس کو سونے کے چبوترے پر ایک جگمگاتے ہوئے چھپر کے نیچے جواہرات جڑی ہوئی ایک کرسی پر بٹھایاگیا اور دوسری کرسی پر ولی عہد بہادر بیٹھ گئے۔اسی وقت ایک پری زاد نے کھڑے ہو کر کچھ کہا اور نیلی کے اشارے پر سہیل اپنی کرسی پر کھڑا ہو گیا تو دو پری زادوں نے بڑھ کر اس کو ایک جگ مگ کرتا ہوا لبادہ پہنا دیا اور پھر ولی عہد بہادر نے کھڑے ہو کر کچھ کہا اور اس کو ایک جڑاؤ چونگلی میں رکھا ہوا ایک کاغذ دیا۔پھر ایک پری زاد ایک کشتی لے کر آگے بڑھا جس میں سات تمغے رکھے ہوئے تھے۔ولی عہد بہادر نے تمغہ اس کے لبادے میں لگا دیا تو وہ ناک پر انگلی رکھ کر چکر کھا گیا۔یہاں تک کہ ساتوں تمغے اس کے لگا دیے گئے او ر وہ سات مرتبہ ناک پر انگلی رکھ کر چکر کھاتا رہا۔جب تمغے لگ چکے تو نیلی کے اشارے پر سہیل نے تقریر شروع کی:
’’ولی عہد بہادر اور حاضرین!میں آپ کی عزت افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ڈاکٹر آف ساسا کی وہ اعزازی ڈگری مجھ کو عطا کی جو آپ کے یہاں کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز ہے۔کاش میں اپنے کو اس عزت کاا ہل ثابت کر سکوں۔ایک دوسری دنیا کے باشندے کے ساتھ آپ کا یہ سلوک خود آپ کی بلندی کا ثبوت ہے اور میں آپ کی اس بلندی کو حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔میں ایک مرتبہ پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد ہی نیلی نے اس تقریر کا ترجمہ سنایا تو تمام ہال ’ڈاکٹر سہیل قم قم‘کے نعروں سے گونج اٹھا اور سہیل ولی عہد بہادر کے ساتھ اسی لبادے میں ہال سے باہر آگیااور اس نے سبزہ زار میں پہنچا دیا گیا جہاں اس وقت عصرانے کا انتظام تھا۔اس کے پہنچتے ہی بگل بجنے لگے اور نیلی نے کہا کہ اعلیٰ حضرت شاہ کی سواری آرہی ہے مگر بجائے دروازے کی طرف دیکھنے کے سب آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور واقعی آسمان ہی کی طرف سے ایک اڑتی ہوئی مسند آئی اور اس پر اعلیٰ حضرت گاؤ لگائے بیٹھے تھے۔سہیل سے ناک لڑانے کے بعد اعلیٰ حضرت بھی عصرانے میں شریک ہوگئے۔
پرستان کی فلم
۔۔۔۔۔۔
عصرانے کے بعد اعلیٰ حضرت شاہ نے اپنی اسی مسند پر سہیل اور نیلی کو بٹھا لیا اور مسند اڑتی ہوئی ایک نہایت عالی شان عمارت کی چھت پر جاکر اتر گئی جہاں فوجی وردی پہنے چند پری زاد پہلے سے استقبال کے لیے موجود تھے۔سہیل اور نیلی دونوں اعلیٰ حضرت کے ساتھ چھت سے نیچے اتر کر اس ہال میں آگئے جس میں اس وقت سوائے شاہی خاندان اور اہل دربار کے اور کوئی نہ تھا۔نیلی نے سہیل کو بتایا کہ شاہی تھیٹر ہے اور یہیں اس وقت اس کو سینما دکھایا جائے گا۔نیلی ابھی یہ بتا ہی رہی تھی کہ ہال میں ایک دم سے اندھیرا ہوگیااور سفید پردے پر نہایت خوش خط اردو میں یہ الفاظ جگمگائے۔
’’ڈاکٹر سہیل خوش آمدید۔‘‘
نیلی نے کہا،’’اس وقت جو تصویر دکھائی جائے گی۔یہ خاص طور پرآپ کے لیے آپ ہی کی زبان میں بنائی گئی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’میرے لیے بنائی گئی ہے۔اتنی جلدی کیسے بن سکتی ہے کوئی تصویر۔‘‘
نیلی نے کہا،’’ہمارے یہاں ایک دن میں دو تصویریں آسانی سے بن جاتی ہیں۔‘‘
دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ تصویر کے پردے سے ایک صاحب نکل کر آئے اور کرسی کھینچ کر سہیل کے سامنے بیٹھ کر کہنے لگے،’’میں آپ کو اپنا قصہ سنانا چاہتا ہوں۔میرا نام شہزاد ہے اور جس لڑکی سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں ،اس کا نام نرگس ہے۔وہ دیکھئے میری نرگس بھی اسی طرف آرہی ہے۔‘‘اور پھر سہیل کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے دبا کر کہا،’’خاموش بیٹھے رہیے ورنہ وہ اس طرف نہ آئے گی اور آپ قریب سے اسے نہ دیکھ سکیں گے بلکہ میں آپ کی کرسی کے نیچے چھپا جاتا ہوں تاکہ وہ آپ سے بے تکلف ہو سکے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ حضرت سہیل کی کرسی کے نیچے چھپ گئے تو سہیل نے نیلی سے کہا،’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘
نیلی نے کہا،’’یہ کوئی صاحب تھوڑی ہیں ،یہ تو آ پ فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘
سہیل نے چونک کر کہا،’’کیا کہا فلم،یہ فلم کیونکر ہو سکتی ہے۔اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑ کر دبایا ہے۔اس کے ہاتھ کی گرمی تک میں نے محسوس کی ہے۔وہ مجھ سے سرگوشی میں باتیں کررہا تھاتو اس کی سانس تک میں محسوس کررہا تھا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’جی ہاں میں نے تو پہلے ہی آپ کو بتادیاتھا کہ ہمارے یہاں فلم بہت ترقی کر چکی ہے اور دیکھنے والا اب خود فلم کی کہانی میں گھل مل جاتا ہے اور دیکھئے وہ نرگس آرہی ہے،وہ بھی اسی طرح آپ کو دھوکہ دے گی۔‘‘
سہیل کے سامنے ہی ایک خوب صورت سی لڑکی گنگناتی ہوئی آئی اور سہیل کو دیکھ کر جاتے جاتے رک کر اس نے کہا،’’معاف کیجیے گا۔آپ نے میرے منگیتر شہزاد کوتو نہیں دیکھا،وہ اسی طر ف آئے تھے۔میں چاہتی ہوں کہ کسی طرح آپ ہی ان کو سمجھائیں،وہ میرا کہنا نہیں مانتے اور شادی کے لیے میرے ماں باپ کی جو شرط ہے وہ پوری نہیں کرتے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ لڑکی سہیل کا ہاتھ اپنے نرم ہاتھ میں لے کر بولی،’’دیکھئے نا اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ میرے ماں باپ ایک نکھٹو کو اپنی لڑکی کیسے دے دیں۔شہزاد کے پاس اتنے پیسے بھی تو نہیں ہیں کہ وہ مجھ کو سال گرہ کا اچھا سا تحفہ دے سکتا۔اس نے یہ گھٹیا سا سوتی رومال مجھ کو دیا۔ذرادیکھئے تو سہی اسے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے سہیل کے ہاتھ میں رومال دے دیا اور سہیل نے اس رومال کو دیکھا بلکہ رومال نیلی کودکھاکر کہا،’’کیا اس کو بھی آپ رومال نہیں رومال کی پرچھائیں کہیں گی؟‘‘
نیلی نے کہا،’’اگر یہ اصل رومال ہے تو اس کو پھاڑنے کی کوشش کیجئے۔‘‘
اور سہیل نے واقعی پورا زور لگا کر رومال پھاڑنے کی کوشش کی مگر وہ پھٹ نہ سکا تو سہیل نے کہا:
’’عجیب بات ہے کہ یہ معمولی سا کپڑا مجھ سے نہیں پھٹتامگر یہ پرچھائیں کیسے ہوئی جب کہ میں اس پر لگے ہوئے عطر کی خوشبو تک سونگھ رہا ہوں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’سہیل صاحب یہ واقعی پرچھائیں ہے۔اچھا آپ نرگس کے منہ پر طمانچہ مارنے کی کوشش کیجئے۔اسی سے آپ کو اطمینان ہو جائے گااور اگر آپ طمانچہ مارنا مناسب نہیں سمجھتے تو کم سے کم نرگس کے کانوں سے اس کی ایک بالی ہی اتار لیجئے۔‘‘
سہیل یہ کوشش کرکے بھی ناکام رہا اور رفتہ رفتہ اس کو یقین آگیا کہ یہ واقعی بہت ہی ترقی یافتہ فلمی صنعت ہے یہاں تک کہ ایک تصویر نے اس کو زبردستی ایک پھل کھلایا اور سہیل نے اس پھل کا مزہ تک محسوس کیا۔اس کی عقل کام نہیں کرتی تھی کہ یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہو سکتاہے،مگر وہ باتیں اس کے وہم میں بھی نہ آسکتی تھیں جو یہاں پیش آرہی تھیں۔وہ اسی حیرت کے ساتھ تماشا دیکھتا رہا اور جب فلم ختم ہو گئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے منہ میں اس پھل کا مزہ تھا نہ وہ خوشبوئیں جو تصویر کے پھولوں اور باغوں سے آرہی تھیں، نہ وہ ہوا تھی جو تصویر میں چلتی تھی جو اسے بھی محسوس ہوتی تھی اور نہ اس کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے جو بارش کے ایک منظر میں اس کے نزدیک بالکل بھیگ گئے تھے۔تصویر ختم ہونے کے بعد جب ہال میں روشنی ہوئی تو وہ بادشاہ سلامت اور نیلی کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اور حیرت کا پتلا بن کر رہ گیا تھا۔نیلی نے اس سے کہا۔’’اب تشریف لے چلئے بادشاہ سلامت کے ساتھ اس وقت آپ کو کھانا کھانا ہے۔‘‘
سہیل خاموشی سے اٹھ کر بادشاہ سلامت کے ساتھ پہلے اس سینما کی چھت پر گیا اور وہاں سے اڑ کر شاہی محل کی طرف روانہ ہوگیا۔
اڑن قالین
۔۔۔۔۔۔
شاہی محل سے رات کاکھاناکھانے کے بعد سہیل نیلی کے ساتھ جب واپس آنے لگا تو نیلی نے کہا،’’صبح آپ کو بذریعہ قالین شرموز جانا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ شرموز کیاہے اور بذریعہ قالین جانا کیا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’شرموز ہماری اس دنیا کا ایک اور ملک ہے جہاں کے بادشاہ ہمارے بادشاہ سلامت کے چھوٹے بھائی ہیں اور قالین کے ذریعے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بادشاہ سلامت نے آپ کو شرموز لے جانے کے لیے اپنا خاص اڑن قالین دیاہے تاکہ وہ آپ کو اس دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرائے۔آپ کے دورے کا پورا پروگرام بن چکا ہے اور انتظام کیا گیا ہے کہ آپ ایک ہفتے کے اندر تمام دنیا کا دورہ کرکے پھر یہیں واپس آجائیں گے اور یہاں سے آپ کی واپسی ہوگی۔ہمارے بادشاہ سلامت آپ کو اس دنیا کی باشندگی کا حق بھی دینے والے ہیں۔یہ رسم آپ کی واپسی کے وقت بڑی شان سے ادا کی جائے گی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر میں دورے پر جانے سے پہلے آپ کے زخمی منگیتر سے ملنا چاہتا تھا اور بادشاہ سلامت نے مجھ سے وعدہ بھی فرمایا تھا کہ مجھ کو اس کی اجازت دے دی جائے گی۔‘‘
نیلی نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا،’’مگر آپ اس کم بخت سے کیوں ملنا چاہتے ہیں جس سے اس دنیا کا ہر باشندہ سخت نفرت کررہا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر کیا آپ بھی اس سے نفرت کرتی ہیں؟‘‘
نیلی نے کہا،’’کیا میں اس دنیا سے باہر کی کوئی چیز ہوں۔مجھے بھی اس سے سخت نفرت ہے اور میں اس کی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’تو کیا آپ کو اس سے کبھی محبت نہ تھی۔‘‘
نیلی نے کہا،’’مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی جتنی اب نفرت ہے مگر ہمارے یہاں اس قسم کا جرم کرنے والے سے سب کے دل خود بخود پھر جاتے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کیا یہ نہیں ہوسکتاکہ آپ اس کو معاف کردیں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’میرے معاف کرنے سے کیا ہوگا۔اس کا وہ زخم تو بھر نہیں سکتاجو اس خنجر سے اس کو پہنچا ہے۔اس خنجر کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔دوسرے میں آپ کو بتاؤں کہ ہماری دنیا میں اس قسم کی بزدلی کو معاف کیا ہی نہیں جا سکتا۔خود بادشاہ سلامت بھی معاف نہیں کر سکتے۔وہ آپ سے خود کہہ چکے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مجھے افسوس ہے مگر میں پھر بھی اس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’میں ابھی مہمان خانے پہنچ کر آپ کا پیغام ٹیلیفون سے بادشاہ سلامت تک پہنچادوں گی۔‘‘
مہمان خانے پہنچ کر نیلی اسی قسم کا صندوقچہ اٹھا لائی جیسا پریڈ کے میدان میں سہیل نے دیکھاتھا جس میں سے بادشاہ سلامت برآمد ہوئے تھے اور نیلی نے ایک نمبر ملادیا۔ابھی نمبر ملایا ہی تھا کہ صندوقچے سے بادشاہ سلامت پھر برآمد ہوگئے اور سہیل نے بڑھ کران کی ناک سے اپنی ناک رگڑی۔اس کے بعد نیلی نے بادشاہ سلامت سے کچھ کہااور پھر بادشاہ سلامت کا جواب سہیل کو سنا دیا کہ،’’مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور میں نے طے کیا ہے کہ اس دنیا کے دورے کے بعد آپ شومو سے مل سکتے ہیں اور اگر آپ دورے سے پہلے ہی شومو سے ملنا چاہتے ہیں تو اس وقت بھی انتظام کیا جا سکتاہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’اگر کوئی تکلیف نہ ہو تو میں اسی وقت اس سے ملنا پسند کروں گا۔‘‘
بادشاہ سلامت نے مسکرا کر نیلی سے کچھ کہا اور غائب ہوگئے۔نیلی نے سہیل سے کہا کہ بادشاہ سلامت ابھی خودشوموکویہیں بھیجنے کا بندوبست کررہے ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ آپ خود ہسپتال جائیں ورنہ اس طرح اس قسم کے مجرموں کے حوصلے بڑھیں گے کہ ان سے ہمدردی کی جاتی ہے۔‘‘
ابھی یہ دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ ایک پری زاد نے آکر بتایا کہ ہسپتال کی گاڑی میں زخمی شومو حاضر ہوگیاہے۔نیلی نے سہیل سے کہاکہ آپ ملاقات کے کمرے میں چلئے مگر اس سے کسی افسوس کا اظہار نہ کیجئے گا اور نہ کوئی ایسی بات کیجئے گا جس سے ہمدردی ٹپکتی ہو۔‘‘
سہیل نے کہا،’’میں جو چاہوں کہوں ترجمہ تو آپ ہی کو کرنا ہے،آپ جو مناسب سمجھئے گا کہہ دیجئے گا۔‘‘
یہ کہہ کر دونوں ملاقات کے کمرے میں گئے جہاں سونو سنگینوں میں گھرا ہوا کھڑا تھا۔اس نے سہیل کو دیکھ کر ناک ہلائی تو سہیل نے اس سے کہا،’’میں تم سے صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں تمہاری مصیبت کا سبب بنا ہوں مگر تم کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ سب تمہارا وہم تھا۔‘‘
نیلی نے شومو کو یہ سب سنا دیاتو شومو نے جو کچھ کہا وہ سہیل کو سنا دیا کہ :’’میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔مجھ کو یہاں کا قانون معاف نہیں کر سکتامگر آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھ کو معاف کردیں۔‘‘سہیل نے اس سے کہہ دیا کہ میں نے معاف کیا اور پھر نیلی کے اشارے سے وہ واپس کردیا گیا۔
شرموز کی سیر
۔۔۔۔۔۔۔
صبح تڑکے ہی سازوں کی جھنکار سے سہیل کی آنکھ کھل گئی تو ساز بجانے والی پری نے اس سے کہاکہ آپ کو روانگی کے لیے فوراًتیار ہوجانا چاہئے۔سہیل فوراً غسل خانے گیا اور نہا دھو کرسفر کے لئے تیار ہوگیا۔اسی وقت نیلی کی آواز باہر سے آئی:
’’میں حاضر ہوسکتی ہوں؟‘‘
سہیل نے کہا،’’شوق سے تشریف لائیے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’اب آپ چھت پر تشریف لے چلیں۔قالین تیار ہے اور شاہ کا محافظ دستہ سلامی دینے کو موجود ہے۔‘‘
سہیل نیلی کے ساتھ شیشے کی سیڑھیوں سے چھت پر پہنچاتو اس نے دیکھا کہ شاہ کا محافظ دستہ قطاروں میں کھڑا ہے۔سہیل کے پہنچتے ہی اس دستے نے بینڈ بجایا اور سلامی دی۔اس کے نیلینے قالین پر سہیل کا استقبال کیااور قالین ہوا میں اڑنے لگا۔اس قالین پر سہیل گاؤ کے سہارے بیٹھ اتھااور دوسرے گاؤ کے سہارے نیلی بیٹھی تھی۔بیچ صراحیوں میں شربت اورچاندی سانے کی طشتریوں میں پھل اور صبح کا ناشتہ موجود تھا۔سہیل نے صبح کا ناشتہ کرتے ہوئے کہا،’’مادام نیلی مجھے رہ رہ کر اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ آپ کی دنیا میں میرا شاہانہ استقبال آخر کیوں ہوا ہے؟‘‘
نیلی نے کہا،’’کیا سچ مچ آپ بالکل نہیں سمجھے۔دیکھئے نا ایک تو وجہ یہ ہے کہ آپ دوسری دنی اکے مہمان ہیں اور ہمارے یہاں اس دنیا کے باہر والوں کی بہت ہی عزت ہوتی ہے مگر اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمارے محسن ہیں اور ہماری دنیا میں آپ کو جو کچھ نظر آرہا ہے یہ سب آپ ہی کے طفیل میں ہے۔اگر آپ گولر کا درخت نہ لگائیں یا دوسرے درختوں کی طرح گولر کے درخت کو بھی کاٹ کر اس کی لکڑٰ جلا ڈالیں تو ہم کو وہ پھول نہیں مل سکتے جن سے ہماری دنیا میں اتنی دولت ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر گولر کے درخت تو بہت سے گھروں میں ہیں،کیا آپ سب کی ایسی ہی آؤ بھگت کریں گی۔‘‘
نیلی نے کہا،’’جی نہیں۔اور کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ گولر کے پھول ہم آپ کی دنیا سے اس طرح اڑا لے جاتے ہیں اور سب نے صرف قصے کہانیاں سنی ہیں مگر آپ نے تو مجھے عین موقعے پر پکڑ بھی لیا تھا۔اس لیے آپ کی خاطر مدارت ہورہی ہے کہ آپ ہم کو باقاعدہ گولر کے پھول لے جانے کی اجازے دے دیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’اگر میں اجازت نہ دوں تو؟‘‘
نیلی نے کہا،’’ہم یہی کوشش کریں گے کہ صلح اور دوستی سے آپ کومنا لیں اور آپ خود ہنسی خوشی اجازت دے دیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر یہ تو سوچئے کہ ہم اپنی دنیا کی اتنی بڑی دولت آخر کیوں کسی کو لے جانے دیں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’ہم کو آپ سے یہی توڈر ہے کہ کہیں آپ یہ باتیں نہ سوچنے لگیں۔میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ آپ یہ باتیں اپنے دماغ سے نکال دیں ورنہ ممکن ہے کہ آپ کو اس دنیا سے واپس ہی نہ بھیجا جائے۔‘‘
اور اب سہیل نے بھی سوچا کہ واقعی اگر اس نے ضد کی اور یہاں ہمیشہ کے لیے گرفتار ہوگیا تو کیا ہوگا۔وہ چپ سا ہو گیا اور اس کو پانے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی یاد ستانے لگی۔ اس کی اس خاموشی کو دیکھ کر نیلی نے کہا:
آپ خفا تو نہیں ہوگئے۔میں تو آپ سے ایک سچی بات کہہ دی ہے کہ ہم پہر قیمت پر گولر کا پھول ضرور حاصل کریں گے خواہ اس کے لئے ہم کو آپ کی دنیا سے جنگ کرنا پڑے خواہ یہ کام دوستی سے طے پاجائے۔
سہیل نے کہا،’’میں اسی بات پر غور کررہا ہوں۔بہرحال ابھی غور کرنے کا بہت وقت ہے ۔آپ یہ بتائیے کہ جس ملک میں ہم لوگ جا رہے ہیں وہاں مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’وہاں کی رسمیں بھی ہمارے ہی ملک سے ملتی جلتی ہیں بلکہ یہ ملک بھی ہمارے ہی ملک کا ایک حصہ ہے اور ہمارے بادشاہ سلامت کو خراج دیتا ہے۔اس دنیا کے تمام ملک ہمارے بادشاہ سلامت کو خراج دیتے ہیں اور اس اعتبار سے ہمارے بادشاہ سلامت گویاشہنشاہ ہیں۔اور ہمارے بادشاہ سلامت ہی کے پانچ بھائی یہاں کے پانچ ملکوں کے بادشاہ اور ایک بہن چھٹے ملک کی ملکہ ہیں۔ملکہ کا ملک بہت ہی خوب صورت ہے ،وہاں بھی آپ جائیں گے اور سب سے زیادہ وہیں خوش ہوں گے۔وہ دیکھئے شرموز کے پہاڑ اور میدان نظر آنے لگے ۔شرموز کے دارالسلطنت شرز کے ہوائی اڈے پر آپ کا استقبال خود شاہ شرموز اور ان کی ملکہ کریں گی اور آپ کو شاہ کا محافظ دستہ سلامی دے گا۔پھر ملکہ کا محافظ دستہ پھولوں کی چھڑیوں سے سلامی دے گا اور آپ کو ایک جھولے میں بٹھا کر ایسا پینگ دیا جائے گا کہ آپ شاہی مغل پہنچ جائیں گے۔اصل مین آپ کی سواری کا جلوس چھوٹی رات کے بعد سہ پہر کو نکلے گا۔جب آپ شاہی محل سے اس عصرانے میں شرکت کے لئے جائیں گے جو شرز کے شہریوں کی طرف سے دیا جا رہا ہے ۔‘‘
شرز کے ہوائی اڈ ؁ پر جیسے ہی قالین اترا۔شاہ شرموز نے بڑھ کر سہیل سے تین مرتبہ ناک رگڑی پھر ملکہ نے ہاتھ بڑھایا تو سہیل نے ہلکے سے اس پر تالی بجا دی۔اسی وقت موتیوں کا لباس پہنے ہوئے پری زادوں کے ایک دستے نے سلامی دی۔سہیل نے مٹحی بند کرکے انگوٹھا دکھا دیاتو تازہ خوشبودارپھولوں میں خوب صورت پریوں کے ایک دستے نے آگے بڑھ کر پھولوں کی چھڑیوں سے سلامی دی۔سہیل نے یہ سلامی بھی قبول کی اور اب وہ شاہ اور ملکہ کے ساتھ اس جھولے کی طرف بڑحا جس پر بیٹھ کر اس کو شاہی محل جانا تھا۔درمیان میں وہ بیٹھا،اِدھر شاہ،اُدھر ملکہ ،پیچھے نیلی کو جگہ ملی اور پریوں کے دستے نے پینگ دے کر جیسے ہی اس جھولے کے تختے کو چھوڑا ہے وہ اڑتا ہوا شاہی محل کی سب سے اونچی چھت پر پہنچ کر رک گیا اور سب جھولے سے اتر پڑے اور سہیل شاہ اور ملک کے ساتھ نیچے اترنے لگا۔نیلی نے سہیل کے قریب آکر کہا،’’یہ سیڑھیا دربار عام کی طرف جا رہی ہیں جہاں آپ کا خیر مقدم کیا جائے گااور تمام ملک کے بڑے بڑ ؁ افسر اور نواب یہاں موجود ہوں گے۔اس کے بعد شاہی ضیافت ہے۔‘‘
نیلی ابھی یہ بتا ہی رہی تھی کہ سونے کا عصاء لئے ہوئے ایک پری زاد نے آگے بڑھ کر اونچی آواز میں کہا،’’حضرت والا ڈاکٹر سہیل۔‘‘
دوسرے عصاء بردار پری زادوں نے اسی طرح کہا،’’اعلیٰ حضرت شاہ۔‘‘
تیسری ایک پری نے آگے بڑھ کر کہا،’’ملکہ معظمہ۔‘‘
یہ گویا اہل دربار اور حاضرین کو بتایا گیا کہ شاہی مہمان اور خود شاہ اور ملکہ کی سواری آپہنچی ہے۔سہیل دیکھرہا تھا کہ اس اعلان کے ساتھ ہی تمام حاضرین ادب سے کھڑ ؁ ہوگئے اور ایک سناٹا سا چھاگیا۔شاہ اور ملکہ سہیل کو اپنے درمیان لئے دونوں طرف کھڑے ہوئے،پھر دربارکے بیچ سے ہوتے ہوئے اس شہ نشین تک پہنچے جہاں سورج مکھی کے ایک بہت بڑے پھول کی شکل کے تخت پر چار جواہرات سے جگمگاتی ہوئی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔بیچ کی دو کرسیوں پر شاہ اور سہیل بیٹھ گئے اور سے کی کرسیوں پر ملکہ اور نیلی نے جگہ پالی۔اس کے بعد ایک بوڑھے سے پری زاد نے بڑھ کر سہیل پر کچھ عطر سا چھڑکا اور کچھ پڑحا جسے سہیل بالکل نہ سمجھ سکا۔اس کے بعدبادشاہ سلامت کے کھڑے ہوکر ایک تقریری کی جس کا ترجمہ کے لیے نیلی کو کھڑا ہونا پڑا۔نیلی نے بادشاہ سلامت کی تقریر کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا:
’’میرا ملک اور رعایا اپنی اس عزت پر فخر کررہے ہیں کہ آپ نے ایک دوسری دنیا سے تشریف لاکر ہم کو اس کا موقع دیا ہے کہ ہم اپنی دوستی اور احسان مندی کا آپ کو یقین دلا سکیں۔مجھے امید ہے آپ ہماری دوستی پر یقین کریں گے۔میں سب سے پہلے اآ کو اس ملک کی باشندگی کا حق پیش کرتا ہوں۔‘‘
نیلی کے بیٹھنے کے بعد شاہ نے اٹھ کر ایک جڑاؤ کشتی میں ایک سونے کی چابی جس میں ہیرے اور دوسرے جواہرات جڑ ؁ ہوئے تھے،سہیل کو پیش کی۔سہیل نے یہ چابی قبول کرتے ہوئے تقریر کی:
’’اعلیٰ حضرت شاہ،ملکہ معظمہ اور اہل دربار آپ نے اپنے ملک کی باشندگی کاحق دے کر جس محبت سے اپنایا ہے،اس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں آپ کی محبت کے جواب میں اپنی طرف سے بھی محبت ہی پیش کر سکوں گا۔میں اآ کو بھی یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری دنیا کے باشندے بھی اگر اسی محبت کے عادی ہو جائیں جو مجھے یہاں نظر آتی ہے تو ہماری بہت سی مشکلیں ختم ہو سکتی ہیں۔بہرحال میں آپ کی دنیا سے اپنی دنیا کے لیے محبت کا پیغام لے کر جاؤں گا۔‘‘
سہیل کی اس تقیری کا ترجمہ جس وقت نیلی نے سنایا ہے، تمام ایوان میں ایک دم پھولوں کی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور نعرے گونجنے لگے:
’’سہیل قم قم ‘‘
نیلی نے سہیل کے قریب آکر کہا،’’یہاں تو اُا نے بہت ہی اچھی تقریر کی ہے ۔دیکھ لیجئے گا یہ تقریر اس ملک کے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا دے گی اور سارے ملک بلکہ ساری دنیا کے اخباروں کے پہلے صفحے پر آج یہی تقریر ہوگی۔‘‘
شاہ شرموز نے نیلی سے کچھ کہا تو نیلی نے سہیل سے کہا:
’’اعلیٰ حضرت شاہ بھی آپ کی اس تقریر کی تعریف کرہرے ہیں اور شکر گزار ہیں کہ آپ نے ان کی م حبت کی یہ قدر کی ہے۔‘‘
اسی وقت پریون اور پری زادوں نے ناچنا شروع کردیا اور بڑے سریلے نغمے شروع ہوگئے اور رتمام ایوان میں قہقہوں کی طرح کے رنگ رنگ کے گلاس اڑنے لگے۔یہ شربت کے گلاس تھے۔ایک چمکتا ہوا گلاس جس میں پگھلے ہوئے سونے کے قسم کی کوئی چیز تھی،سہیل کے سامنے آکررک گیا۔نیلی نے کہا،’’پی لیجئے،یہ سونے کا شربت ہے۔سہیل مزے لے لے کر یہ شربت پینے لگا۔
عجیب و غریب ضیافت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دربار ختم ہونے کے بعدشاہ کی درخواست پر سہیل نے یہ رسم ادا کی کہ ایک چاندی اور سونے سے بنے ہوئے نہایت خوب صورت دروازے کا تالا اس کنجی سے کھولا جو اس کو دی گئی تھی۔اس دروازے کا کھلنا تھا کہ ہر طرف کے تمام دروازے کھل گئے اور دروازے کھلتے ہی بے شمار برتن ہوا میں اڑتے ہوئے ایوان کے اندر آگئے اور شاہی ضیافت شروع ہوگئی۔اس ملک کا ایک عجیب طریقہ یہ تھا کہ مہمانوں کے سامنے سے جو پلیٹ بھی گزرتی تھی اس کا مزہ خود بخود مہمان کی زبان پر آجاتا تھااور پلیٹ خالی ہوجاتی تھی۔سہیل نے ایک مرتبہ ہاتھ بڑھا کرایک پلیٹ روکنا چاہی تو نیلی نے کہا،’’آپ کیوں تکلیف کررہے ہیں۔یہ پلیٹیں اس ملک کے ایک سائنس دان کی ایجاد ہیں اور یہ خود ہی کھانا کھلاتی ہیں۔‘‘چنانچہ سہیل کو واقعی محسوس ہوا کہ وہ کھاناجو اس پلیٹ میں تھا اس کے منہ میں موجود ہے۔آخر اس نے نیلی سے کہا،’’اب ان طشتریوں کو روکومیرا پیٹ بھر چکا ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’جب آپ کا پیٹ بھر جائے گاتو یہ پلیٹیں خود ہی آپ کے پاس نہ آئیں گی۔آپ کی بھوک کا اندازہ آپ سے زیادہ خود ان طشتریوں کو ہے۔‘‘
اور واقعی اب کھانے کی پلیٹیں اس کے پاس نہیں آرہی تھیں مگر ایک پلیٹ پھر بھی آگئی تو نیلی نے کہا:
’’یہ کھالیجئے اس کا تعلق بھوک سے نہیں ہے۔یہ آگ کی آئس کریم ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’آگ کی آئس کریم سے کیا مطلب؟‘‘
نیلی نے کہا،’’یہ اصل میں آگ کی آنچ کو جما کر بنائی جاتی ہے اور اس موسم میں یہاں کے لوگ یہی آگ کی آئس کریم کھاتے ہیں۔اس سے آپ یہاں کی سردی میں بھی گرمی محسوس کریں گے اور آپ کو آتش دان کے پاس بیٹھنے کی ضرورت نہ رہے گی۔‘‘
سہیل نے یہ آئس کریم کھائی تو وہ عام آئس کریم کی طرح بہت ہی ٹھنڈی تھی مگر جب حلق سے اترنے لگی تو معلوم ہوا کہ جیسے بہت تیز اور گرم کافی کا گھونٹ پی لیا ہو۔سہیل یہ پلیٹ بھی صاف کرگیا۔اس کے بعد عجیب عجیب قسم کے پھل اور میوے آنا شروع ہوگئے تو نیلی نے پھر کہا،’’آپ شوق سے جو چاہے کھائیں،ان میں سے کوئی چیز بھی معدے میں نہیں جاتی صرف زبان کا مزہ بدلنے کے لیے ہوتی ہے۔
سہیل نے کہا،’‘’اچھا اچھا میں سمجھ گیا۔یہ چیزیں شاید ان لوگوں کے لئے ہوتی ہیں جن کا پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر نیت نہیں بھرتی۔‘‘
نیلی نے کہا،’’یہاں تو دن رات بچے اسی قسم کی چیزیں کھاتے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی بیمار نہیں ہوتا۔شروع شروع میں یہاں کچھ ڈاکٹر تھے مگر اب وہ کچھ اور ہی کام کرتے ہیں مگر ڈاکٹری پڑھائی ضرور جاتی ہے اور ہسپتال بھی ہیں تاکہ اگر اتفاق سے کوئی زخمی ہو جائے یا بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج ہو سکے۔یہاں اصل میں تقریباً ہر شخص ڈاکٹر ہوتا ہے۔
سہیل نے کہا،’’ہر شخص ڈاکٹر ہوتا ہے تو پھر مریض کون ہوتا ہوگا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’مریض ہونا کوئی ضروری بات تھوڑی ہے مگر ہر ایک کو ڈاکٹری اس لئے پڑھا دی جاتی ہے کہ وہ اپنے کو بیمار نہ ڈال دے۔یہاں جو ڈاکٹر ہوتا ہے وہ اپنے لئے ہوتا ہے کسی اور کے لئے نہیں۔صرف چند ڈاکٹر ایسے ہیں جو دوسروں کا علاج بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
سہیل اور نیلی باتیں کر رہے تھے کہ پریوں اور پری زادوں کے دو دستے آگے بڑھے اور سہیل اور نیلی کو اپنے حلقے میں لے لیا تو نیلی نے کہا،’’چلئے واپسی کا وقت آگیا ہے اور چھوٹی رات قریب ہے اس لیے یہ ہم دنوں کو لے جانے کے لئے آئے ہیں۔آپ کو یہاں شاہی محل میں ٹھہرایا جائے گا اور بادشاہ سلامت کے خاص دوست کی حیثیت سے آپ اس کمرے میں رہیں گے جس میں بزرگ قولو رہتے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ بزرگ قولو کون ہیں؟‘‘
نیلی نے کہا،’’اس تمام دنیا میں صرف یہی ایک بوڑھے آدمی ہیں ورنہ ہماری دنیا میں کوئی بوڑھا نہیں ہوتا۔سب بچپن سے جوان ہو کر بس جوان ہی رہتے ہیں۔بزرگ قولو تو اس لئے بوڑھے ہوگئے کہ ان کی بیوی مر گئی تھیں اور بزرگ قولو کو خطرہ تھا کہ کہیں ان کی شادی پھر نہ کردی جائے،اس لیے یہ ایک دن گولرکا پھول کھاگئے جس سے عمر میں برکت ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہ اب سے چالیس ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے۔اب یہ مر نہیں سکتے بس بوڑھے ہی ہوتے رہیں گے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’میں ان بزرگ قولو سے ملنا چاہتا ہوں۔تاکہ ان سے آپ کی اس دنیا کی کہانیاں سنوں۔انہوں نے تو سب ہی کچھ دیکھا ہوگا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’یہ اس دنیا کی سب سے مکمل تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اب تک لاکھوں بادشاہ دیکھ چکے ہیں۔ہاں ایک بات میں آپ کو بتا ؤں کہ یہ اگر چاہیں تو آپ کے حملہ آور شومو کو معاف کر سکتے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’پھر تو میں ان سے ضرور ملوں گا۔‘‘
اور یہ باتیں کرتے ہوئے یہ دونوں شاہی محل کے اس کمرے میں آگئے جہاں سہیل کو ٹھہرنا تھا۔
بزرگ قولو
۔۔۔۔۔۔
چھوٹی رات کے آرام کے بعد جب نیلی سہیل سے ملی تو اس وقت بھی سہیل نے وہی بات پھر شروع کی کہ میں بزرگ قولو سے ملنا چاہتاہوں تاکہ غریب شومو کو معاف کرا سکوں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’آپ کی ملاقات کا انتظام کردیاجائے گا۔آج اور کل تو یہ ملاقات ناممکن ہے،اس لئے کہ پروگرام میرے پاس آگیا ہے جس کے بعد آپ کے پاس اس ملاقات کے لئے کوئی وقت ہی نہیں ۔اسی وقت آپ کو یہاں کے مشہور دریا چھل بل میں تیرایا جائے گا۔‘‘
سہیل نے گھبرا کر کہا،’’تیرایا جائے گا مجھے؟خدا کے لئے ایسا غضب بھی نہ کرنا مجھے تیرنا نہیں آتا اور میں پانی سے ویسے بھی بہت ڈرتا ہوں۔میرے دادا ڈوب کر ہی تو مرے تھے۔‘‘
نیلی نے ایک دم کھڑے ہوکر کہا،’’آپ کے دادا ڈوب کر مرے تھے؟یہ بات آپ نے پہلے کیوں نہ بتائی۔اگر یہ سچ ہے تو آپ ہمارے عزیز ہوئے۔‘‘
سہیل نے تعجب سے کہا،’’آپ کے عزیز ہوئے؟یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
نیلی نے کہا،’’کیا واقعی آپ کے دادا ڈوب کے مرے تھے؟آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کی دنیا میں جو ڈوب جاتے ہیں خواہ وہ کسی سمندر میں ڈوبیں یا دریا میں یا کنویں میں۔کسی طرح بھی ڈوب جائیں وہ ہماری اسی دنیا میں ابھرتے ہیں، بلکہ اصل میں ہماری یہ دنیا آپ ہی کی دنیا کے ڈوبے ہوئے لوگوں کی بستی ہے اور یہی رشتہ ہے ہماری اور آپ کی دنیا کے درمیان۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ نئی بات معلوم ہوئی مگر میں اپنے دادا کو پہچان کیسے سکوں گا؟‘‘
نیلی نے کہا،’’آپ تو پہچان نہیں سکتے مگر آپ کے دادا اگر واقعی ڈوب کر مرے ہیں تو وہ آپ کو ضرور پہچان جائیں گے۔بلکہ مجھے تو تعجب ہے کہ اب تک کسی پری زاد نے یہ بات کیوں نہ کہی کہ وہ آپ کا دادا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’خیر یہ بات تو دوسری ہی چھڑ گئی مگر میں تیروں گا ہرگز نہیں۔‘‘
نیلی نے ہنس کر کہا،’’آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ڈاکٹر سہیل !یہاں کوئی پانی میں ڈوب نہیں سکتا۔یہاں تو پانی پر لوگ چہل قدمی کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر آپ کی سواری نہروں اور ندیوں پر سے گزری ہے۔آپ تیرنے سے بالکل نہ ڈرئیے۔آپ کو تیرایا تو اس لئے جائے گا کہ اس وقت دریا ہی کے اندر عصرانہ ہے اور دریا میں آپ کو تمام دریائی چیزیں کھلائی جائیں گی۔آپ تیار ہوجائیے آپ کو لینے کشتی آتی ہی ہوگی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کشتی آئے گی یہاں خشکی پر؟‘‘
نیلی نے اس کو بتایا کہ یہاں کا یہ طریقہ ہے کہ اس قسم کی تقریب کے موقع پر دریا کی لہریں خود مہمان کو لینے جاتی ہیں۔یہ دونوں ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے سے پانی اندر آنا شروع ہو گیا۔نیلی نے اونچی آواز سے کہا،’’چھل بل کی موجو! وہیں ٹھہرو،ہم ابھی چلتے ہیں‘‘ اور پھر سہیل سے کہا،’’دیکھئے دریا کی موجیں آپ کو لے جانے کے لئے آگئی ہیں۔سہیل کو جلدی جلدی پری زادوں نے تیار کردیا اور وہ نیلی کے ساتھ باہر نکلا تواس نے ہرطرف پانی ہی پانی دیکھا جس میں سیپ کی بنی ہوئی ایک خوب صورت کشتی موجود تھی۔سہیل اور نیلی دونوں اس کشتی میں بیٹھ گئے تو اب سہیل نے یہ تماشا دیکھا کہ کشتی نہیں بلکہ دریا چل رہا ہے۔ جتنا جتنا وہ آگے بڑھتا جا تا ہے پیچھے خشکی پیدا ہوتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ یہ کشتی اب ایک بڑے دھارے میں آگئی تو نیلی نے کہا،’’اب ہم دریا چھل بل میں آگئے ہیں،یہ دیکھئے عصرانے میں شرکت کرنے والے معزز مہمان دریا میں تیر رہے ہیں۔اب آپ بھی کشتی سے اتریئے۔‘‘یہ کہہ کر نیلی کشتی سے اتر کر دریا پر چلنے لگی تو سہیل بھی ہمت کرکے دریا پر اترآیا اور اس کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ ریت پر چل رہا ہے ۔وہ ابھی چند ہی قدم چلا ہوگا کہ پری زادوں کے ایک دستے نے آکر اس کو سلامی دی اور بینڈ بجاتے ہوئے یہ پری زاد اس کے ساتھ ہوگئے۔تھوڑی دور چل کر اس کا خیر مقدم بادشاہ سلامت اور ملکہ نے کیا اور بادشاہ نے اس کے سامنے ہی بجائے دریا پر چلنے کے تیرنا شروع کردیا۔ملکہ اور نیلی بھی تیرنے لگیں تو سہیل نے بھی ڈرتے ڈرتے دریا پر لیٹ کر تیرنے کا اردہ ہی کیا تھا کہ وہ خود بخود ایسا تیرا جیسے اس کو تیرنے کی بڑی اچھی مشق ہو۔اس نے دیکھا کہ رنگ برنگ کی چھوٹی بڑی مچھلیاں سامنے آنے لگیں اور نیلی نے ان مچھلیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا:
’’ڈاکٹر سہیل تکلف نہ کیجئے ،کھائیے،یہ مچھلیاں سب تلی ہوئی ہیں،کچی نہ سمجھئے گا انہیں۔‘‘
اور سہیل کو فوراً وہ مرغ کی قسم کا پرندہ یاد آگیا جو بھنا ہوا اڑ کر اس کی پلیٹ میں آگیا تھا۔لہٰذا اس نے ایک سرخ رنگ کی مچھلی جو پکڑ کر کھائی تو لطف آگیا۔ایسی عمدہ مچھلی اور اتنی اچھی تلی ہوئی اس نے زندگی بھر کبھی نہ کھائی تھی۔پھر تو اس نے بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارنا شروع کردئیے۔کسی مچھلی میں کیک کا مزہ تھا،کسی میں حلوے کا،کوئی تنور میں بھنے ہوئے مرغ کے مزے کی تھی تو کوئی شامی کبابوں جیسی۔ایک کچھوا جو اس کے سامنے آیا تو سہیل ڈر کر ایک طرف کھسک گیا مگر نیلی نے کہا،’’کھائیے نا یہ فروٹ کیک ہے۔خاص طور پر آپ ہی کے لئے بنا ہے۔‘‘
سہیل نے کچھوا چکھ کر دیکھا تو واقعی بہت مزے دار تھا۔اسی طرح دریا سے وہ نہ جانے کتنے دریائی جانور پکڑ پکڑ کر کھا گیا اور ہر جانور اس کو لطف دے گیا۔مگر اس کو سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ وہ اتنی دیر سے دریا میں تیر رہا ہے مگر اس کے کپڑے ذرا بھی نہیں بھیگے اور جوتوں پر بھی کوئی چھینٹ نہیں پڑی۔پھر یہ کہ کھانے کی اکثر چیزیں دریا میں بھی گرم تھیں۔
اس دریا ئی دعوت کے بعد نیلی نے بادشاہ سلامت سے کچھ کہا تو بادشاہ سلامت نے سہیل سے ناک رگڑنے کے بعد نیلی سے جو کچھ کہا اس کا ترجمہ نیلی نے سہیل کو سنا دیا،’’میں نے بادشاہ سلامت سے کہا تھا کہ آپ بزرگ قولو سے ملنا چاہتے ہیں،لہٰذا بادشاہ سلامت آپ کو اپنے ساتھ محل لیے چلتے ہیں،وہیں بزرگ قولو کو بلا لیا جائے گا۔‘‘
وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ وہی سیپ والی کشتی آگئی اور بادشاہ سلامت کے ساتھ ہی سہیل اور نیلی دونوں اس کشتی پر بیٹھ گئے تو ایک لہر نے چلنا شروع کیااور یہ لہر سڑکوں سے گزرتی ہوئی شاہی محل تک آگئی۔محل میں پہنچ کر سہیل اپنے کمرے میں جانے کے بجائے نیلی کے اشارے پر بادشاہ سلامت ہی کے ساتھ ہولیااور جس وقت یہ سب شاہ کے ملاقات والے کمرے میں پہنچے ہیں،بزرگ قولو وہاں پہنچ چکے تھے اور سہیل کے منتظر تھے۔بزرگ قولو سے بادشاہ سلامت نے کچھ کہاتو وہ سہیل سے مخاطب ہوگئے اور سہیل کو سخت تعجب ہواکہ بزرگ نے سہیل کی زبان میں اس سے بات کرنا شروع کردی۔آخر سہیل نے کہا،’’بزرگ قولو آپ کو میری زبان کیسے آگئی؟‘‘
قولو نے کہا،’’معزز سہیل میں اتنے دنوں سے زندہ ہوں کہ مجھ کو سب ہی کچھ آتا ہے،میں نے ہر دنیا کی زبان سیکھ لی ہے اور اسی طرح اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کو مصروف رکھا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مجھے آپ سے ملنے کا اس لیے اشتیاق تھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ چالیس ہزار سال سے بھی زیادہ عمرکے بزرگ ہیں۔‘‘
قولونے کہا،’’یہ ٹھیک ہے میں اس دنیا کے ابتدائی پری زادوں میں سے ایک ہوں اور اس دنیا کے چالیس ہزار چالیس سال دیکھ چکا ہوں۔طوفان نوح تم نے سنا ہوگا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’جی ہاں میں نے سنا ہے۔‘‘
قولو نے کہا،’’طوفان نوح کو یہاں کے حساب سے چالیس ہزار سال ہوچکے ہیں۔اسی طوفان کے وقت میں تمہاری دنیا میں تھا مگر جب طوفان آیا تو خدا کو نہ ماننے والے بدکاروں کے ساتھ میں بھی کشتئ نوح پر جگہ نہ پاکر ڈوب گیااور ڈوب کر اس دنیا میں ابھرا۔تم کو شاید معلوم نہ ہو کہ تمہاری دنیا کے ڈوبنے والے اسی دنیا میں ابھرے ہیں۔بہرحال جب میں اور میرے ساتھی اس دنیا میں ابھرے تو ہم کو احساس ہوا کہ ہم واقعی گمراہ تھے۔لہٰذا ہم نے توبہ شروع کی اور اتنی توبہ کی کہ گولر کے پھول ہر درخت پر کھل گئے۔یہ گویا علامت تھی اس بات کی کہ ہماری یہ دنیااب اس عذاب سے پاک ہوگئی جس نے ہم کو ڈبویا تھااور ہم کومعاف کردیا گیا ہے۔پھر رفتہ رفتہ ہم نے تمام برائیاں چھوڑدیں،جھوٹ،دغابازی،چوری۔‘‘
سہیل نے کہا،’’بزرگ قولو معاف کیجئے گا جھوٹ تو آپ نے نہیں چھوڑا۔اس لئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے چوری چھوڑدی اور یہ جھوٹ ہے۔آپ جب تک ہماری دنیا سے گولر کے پھول چوری کرکے اس دنیا میں لاتے ہیں۔‘‘
قولو نے کہا،’’میرے عزیز مہمان! میں سچ بول رہا ہوں اور یہ چوری نہیں ہے بلکہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اُس دنیا میں ہم گولر کا پھول نہ رہنے دیں جس میں آج بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔یہ گولر کا پھول جھوٹ سے مرجھاجاتا ہے اور سچ سے کھلتا ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’مگر اس کے باوجود اب ہم نے طے کیا ہے کہ ہم آپ کی اجازت کے بغیر آ پکے یہاں سے گولر کا پھول نہ لایا کریں گے۔‘‘
قولو نے کہا،’’میری بچی نیلی احتیاط سے بات کرو۔ممکن ہے یہ تمہاری ذرا سی بات جھوٹ بن جائے۔یہ ابھی طے نہیں ہوا ہے بلکہ یہاں کی مجلس قانون ساز میں یہ بات طے کرنے کے لئے آج پیش ہورہی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کیا میں اس مجلس قانون ساز کی سیر کر سکتا ہوں؟‘‘
نیلی نے کہا،’’جی ہاں آپ کے پروگرام میں یہ بھی شامل ہے کہ آج آپ ہماری پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔‘‘
قولو نے کہا،’’تو میرے معزز مہمان! میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم نے اس دنیا کو ہر برائی سے پاک کرنے کی کوشش کی اور شکر ہے کہ اب اس دنیا میں بہت ہی کم برائیاں باقی ہیں۔اس کا انعام ہم کو یہ ملا کہ ہم ہر اعتبار سے ترقی کررہے ہیں۔ہمارے علم اور فن اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ تمہاری دنیا ابھی ان کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔خیر چھوڑو اس قصے کو میں اپنا قصہ سنا رہا تھا کہ جب میری بیوی مری تو میں نے خود کشی کرنا چاہی مگر یہ ایک برائی تھی اور مجھ کو بتایا گیا کہ اگر میں نے خود کشی کرلی تو پھر اُس دنیا میں پیدا کردیا جاؤں گا جہاں سے ڈوب کر اس دنیا میں ابھرا ہوں۔میں یہ نہ چاہتا تھا۔اتنے بڑے عذاب کے لئے میں تیار نہ تھا اور یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں خود کشی نہ کر بیٹھوں۔اس خطرے سے بچنے کے لئے میں نے ایک دن گھبرا کر گولر کا پھول کھالیا کہ میں مر ہی نہ سکوں اور خود کشی کا خطرہ بھی باقی نہ رہے۔وہ دن اور آج کا دن کہ بس جیتا ہی چلا جاتا ہوں۔چالیس ہزار چالیس سال ہوچکے ہیں اور ابھی نہ جانے مجھے اور کتنا جینا ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’بزرگ قولو مجھے آپ سے ایک سفارش بھی کرنا ہے۔‘‘
قولو نے کہا،’’وہ مجھے معلوم ہے،اس پر میں غور کروں گا۔‘‘یہ کہہ کر قولو اٹھ کر چل دیا۔
تُوراتُوری
۔۔۔۔۔
بزرگ قولو کے جانے کے بعد نیلی نے کہا،’’سہیل صاحب !شام قریب ہے اور رات آپ کے اعزاز میں ایک بہت بڑی شاہی تقریب ہونے والی ہے جس میں آپ کو اس سلطنت کاسب سے بڑا خطاب ’توراتوری‘دیا جائے گا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’توراتوری کیا ہوتاہے؟‘‘
نیلی نے کہا،’’اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ یہ کیا ہوتا ہے۔اس کا مطلب ہے سب سے بڑا سردار۔بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی دنیا میں جو سب سے بڑا خطاب ہو سکتا ہے،یہ اس سے بھی بڑا ہے۔اس خطاب کے ساتھ آپ کو اس ملک کے ہر شہر کے ہر سرکاری بینک سے جب کبھی بھی جس قدر روپیہ درکار ہو،لینے کا حق دیا جائے گا۔یہ خطاب اب تک صرف یہاں کے بادشاہ کو دیا گیا ہے۔بہرحال میں اس عزت افزائی پر آپ کو مبارک باد دپیش کرتی ہوں اور اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ آخر اپنی دنیا کو واپس کیوں جائیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مادام نیلی! کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ کو میرے والدین اور بہن بھائی کس قدر یاد آرہے ہیں۔نہ جانے میرے لئے ان کا کیا حال ہوگا۔‘‘
نیلی نے کہا،’’آپ اطمینان رکھیں ،آپ کے گھر کی خیریت روز اس پری سے منگوا لی جاتی ہے جو میری جگہ آج کل کام کررہی ہے اور آپ کے گھر سے روز گولر کے پھول لاتی ہے۔آپ کے یہاں سب خیریت ہے اور آپ کے متعلق خیال یہ ہے کہ آپ کہیں سیر سپاٹے کو کسی دوسرے شہر چلے گئے ہیں ۔آپ کے لئے ہر طرف خط ضرور لکھے جا رہے ہیں اور اخباروں میں اشتہار بھی دے دئیے گئے ہیں۔ پرسوں سے سب کو اطمینان ہے،اس لئے کہ آپ کی طرف سے ایک خط آپ کے گھر پہنچادیا گیا ہے کہ آپ خیریت سے ہیں اور عنقریب پہنچنے والے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ آپ نے بہت اچھا کیا ورنہ میری ماں تو نہ جانے اپنا کیا حال کرلیتیں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’اچھا اب آپ تیار ہو جائیں۔آپ کو اس وقت کہکشانی جوڑا پہنایا جائے گاجو آپ کے کمرے میں پہنچ چکا ہے۔سہیل نیلی کے ساتھ اپنے کمرے میں پہنچاجہاں اس کے خادم پری زاد اس کا انتظار کررہے تھے۔سب نے مل کر اس کو ایسے کپڑے پہنا دئیے کہ وہ چمک اٹھا ۔ابھی وہ تیار ہی ہوا تھا کہ باہر سے بگل کی آواز سنائی دی تو نیلی نے کہا،’’بادشاہ سلامت پارلیمنٹ کے لئے روانہ ہوگئے۔ پروگرام کے مطابق اب ہم کو بھی روانہ ہو جانا چاہئے۔‘‘
سہیل نیلی کے ساتھ باہر آگیااور اس نے دیکھا کہ ہرطرف چراغاں کا ایسا انتظام ہے جیسے تاروں بھرا آسمان زمین پر اتر آیا ہو۔ سہیل کے لئے یہاں ایک کھلی ہوئی نیلم کی گاڑی کھڑی تھی جس میں پچاس کے قریب ہرن جتے ہوئے تھے۔سہیل مع نیلی کے جیسے ہی اس گاڑی میں بیٹھا،یہ ہرن چوکڑی بھرتے ہوئے روانہ ہوگئے اور ان سڑکوں سے گزرے جن پر تماشائیوں کا ہر طرف ہجوم تھا۔ سڑک پر دونوں طرف طرح دار پری زادوں کا پہرا تھا اور روشنی سے تمام سڑک ستاروں کی سڑک معلوم ہو رہی تھی۔سہیل تماشائیوں کو ناک ہلا ہلاکرسلام کرتا رہا اور تماشائی پھول اور ستارے برساتے رہے۔جس وقت سواری پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہوئی ،توپوں سے سہیل کو سلامی دی گئی اور خود بادشاہ سلامت نے جو خود بھی کہکشانی لباس میں تھے،اس کا خیر مقدم کیا۔پری زادوں کے ایک دستے نے اس کو ننگی تلواروں کے سائے میں لے کر چلنا شروع کیا اور پریوں کا دستہ اس پر ستارے برساتا رہا۔پارلیمنٹ کے ہال میں کہیں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔بادشاہ سلامت اور سہیل کا خیر مقدم یہاں کی پارلیمنٹ کی صدر کی حیثیت سے ملکہ نے کیا اور تمام حاضرین نے’ سہیل قم قم‘ کا نعرہ بلند کیا۔انگوٹھی کے نگ کی طرح کے چمک دار تخت پر سہیل کو بٹھایا گیااور سب سے پہلے بزرگ قولو نے کھڑے ہوکر کچھ کہا،پھر خود ہی اس کا ترجمہ سہیل کو سنایا:
’’پارلیمنٹ کا یہ خاص اجلاس گولر کے ایکٹ میں یہ ترمیم منظور کرتا ہے کہ آئندہ سے ڈاکٹر سہیل کے گھر کے گولر سے بغیر ان کی اجازت کے پھول ہرگز نہ لائے جائیں گے۔‘‘
اور پھر یہ کاغذ بادشاہ سلامت کے سامنے رکھ دیا۔بادشاہ نے اس پر اپنی انگوٹھی کا نشان بنا دیا تو ملکہ نے اٹھ کر کچھ اور کہا جس کا ترجمہ نیلی نے کیا:
’’پارلیمنٹ کے اجلاس میں سلطنت شرموز کا سب سے بڑا خطاب ’تورا توری‘ معزز مہمان ڈاکٹر سہیل کو پیش کیا جاتاہے۔‘‘
اوراسی وقت ملکہ نے ایک چھوٹا سا سورج سہیل کی شیروانی کی بائیں جیب پر لگا دیا اور بادشاہ سلامت نے ایک انگوٹھی سہیل کے داہنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنادی۔یہ گویا علامت تھی کہ سلطنت کے جس سرکاری بینک سے وہ جتنا چاہے روپیہ لے سکتا ہے۔اس رسم کے بعد سب کھانے کے لئے اٹھے اور بزرگ قولو نے سہیل کے قریب آکر کہا،’’معزز مہمان !میری طرف سے بھی مبارک باد قبول کیجئے۔‘‘اور پھر سہیل کو ضیافت کی طرف لے گئے۔
داداجان
۔۔۔۔۔
سہیل کو رات دیر تک اسی خیال سے نیند نہ آئی کہ اِس دنیا کی طرف سے اس کی جو خاطر اور عزت ہورہی ہے،اس کا جواب وہ کیا دے۔جہاں تک گولر کے پھول کا تعلق ہے،وہ اجازت دینے میں اس لئے پس و پیش کررہا تھا کہ اتنی بڑی دولت خود اپنے ہاتھ سے کیوں گنوائے۔وہ دیکھ رہا تھا کہ اس دنیا میں جو دولت کی زیادتی ہے ،اس کی وجہ یہی گولر کا پھول ہے اور اس کو بھی یہ اندازہ ہو رہاتھاکہ خود اسکی جو آؤ بھگت ہورہی ہے،اس کی وجہ بھی گولرکا پھول ہی ہے۔اس نے بہت غور کیا آخر اس نتیجے پر پہنچاکہ اس معاملے میں بزرگ قولو سے مشورہ کرنا چاہئے۔وہ ابھی اس بات پر غور ہی کررہا تھا کہ نیلی نے اجازت لینا بھی ضروری نہ سمجھی اور کمرے میں آکر کہا،’’مبارک ہو سہیل صاحب آپ کے داداجان آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
سہیل نے چونک کر کہا،’’میرے دادا؟مگر مجھے کیسے یقین ہوکہ یہ میرے داد ہیں جو ڈوب کر میری پیدائش سے پہلے ہی مرچکے ہیں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’یقین تو وہ خود آپ کو دلائیں گے،میں ان کو بلائے لیتی ہوں۔‘‘
سہیل کو تعجب میں چھوڑ کر نیلی کمرے سے نکل گئی اور واپسی میں اپنے ساتھ ایک نوعمر پری زاد کو لے آئی،جس نے آتے ہی کہا:
’’برخوردار آخر میں نے تمہارا پتا چلاہی لیا۔‘‘
سہیل نے کہا،’’آپ مجھے برخوردار کہہ رہے ہیں حالانکہ میری ہی عمر کے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کا دھپ کھیلنا شروع کردوں۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو،وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بوڑھا نہیں ہوتا مگر میں تمہارا دادا ہوں جو پیراکی کے شوق میں لاہور کے دریا ئے راوی میں ڈوب گیا تھا۔اس وقت تمہارے باپ میاں طفیل کی عمر گیارہ سال تھی۔‘‘
سہیل کو بڑا تعجب ہوا کہ اس پری زاد نے اس کے باپ کا نام بھی بتادیا۔اس نے اور بھی اطمینان کرنے کے لئے کہا،’’اچھا خود آپ کا کیا نام تھا؟‘‘
پری زاد نے کہا،’’میرا نام تو تم کو معلوم ہوگا کہ ادریس تھا۔‘‘
سہیل کو اب یقین ہوگیا اور اس نے اٹھ کر ادب سے سلام کرتے ہوئے کہا،’’دادا ابّا آداب!معاف کیجئے گا کہ مجھے آپ پر شک ہوا۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’معافی کی کوئی بات نہیں،تم کو شک ہونا ہی چاہئے تھا۔‘‘
سہیل نے نیلی سے کہا،’’مجھے تھوڑی دیر دادا ابا کے ساتھ تنہا چھوڑ دیجئے۔‘‘
نیلی یہ سنتے ہی باہر چلی گئی تو سہیل نے پری زاد سے کہا،’’داداابّا!اب میں بجائے بزرگ قولو کے آپ ہی سے مشورہ لوں گا۔آپ ہی بتائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔کیا میں گولر کے پھول لے جانے کی کھلی اجازت دے دوں؟‘‘
پری زاد نے ہنس کر کہا،’’وہ تم کو دینا ہی پڑے گی اور مجھ سے اگر تم یہ سمجھ کر مشورہ لے رہے ہوکہ میں تمہارا دادا رہ چکا ہوں تو یہ غلط ہے۔مجھ کو ہمدردی اس دنیا سے ہوسکتی ہے وہ تم سے یا تمہاری دنیا سے نہیں ہوسکتی۔‘‘
سہیل نے کہا،’’یہ آپ نے کیا فرمایا کہ اجازت تو دینا ہی پڑے گی۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں برخوردار اگر نیلی سے تمہاری شادی ہوئی تو مہر میں یہ پھول بندھوا لیے جائیں گے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’نیلی سے شادی؟یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’نیلی بہت اچھی پری ہے۔اس کے منگیتر کو تم پر شبہ ہوا اور وہ اپنی سزا کو پہنچ گیا۔اب یہاں کے رواج کے مطابق تم ہی کو اس کا منگیتر بنایا جائے گا۔فرض کرلو کہ تم کو یہ منظور نہ ہو تو بھی گولر کے پھولوں کی اجازت تم کو اس لیے دینا پڑے گی کہ تم بہرحال واپس جانا چاہوگے۔‘‘
میں اجازت تو دے دوں گا مگر نیلی کی شادی تو میں شومو ہی سے کرانا چاہتا ہوں۔میں نے بزرگ قولو سے ذکر بھی کیا ہے،وہ کہہ چکے ہیں کہ میں غور کروں گا۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’بس تو پھر تم سے یہ کہا جائے گا کہ شومو کو اس شرط پر معاف کیا جا سکتاہے کہ تم گولر کے پھولوں کی اجازت دے دو۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر دادا ابا غور تو کیجئے کہ گولر کے پھول کتنی بڑی دولت ہیں۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’یہ دولت تمہارے لئے عذاب بن جائے گی۔اس کی وجہ سے لڑائیاں ہوں گی،خون ہوں گے،لوٹ مار ہوگی۔تمہاری دنیا ابھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کو یہ دولت ملے،تم کیوں یہ مصیبت خریدتے ہو۔تم تو نیلی سے شادی کرکے یہاں شاہانہ زندگی بسر کرو۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر دادا ابا میں نیلی کی وجہ سے اپنی دنیا، اپنے ماں باپ،اپنے بہن بھائی نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
پری زاد نے کہا،’’اچھا تو تم گولر کے پھول کے بدلے پروں کی جوڑی مانگو تاکہ جب چاہو یہاں آسکو۔‘‘
سہیل نے کہا،’’کیا یہ ممکن ہے؟مجھ کو پر مل سکتے ہیں؟‘‘
پری زاد، ’’ ہاں ہاں ‘‘کہتا ہوا کمرے سے اٹھ کر چلا گیا۔
شاہ شینا م
۔۔۔۔۔
سہیل نے اس دنیا میں آکر جتنی حیرت انگیز چیزیں دیکھی تھیں ان سب سے زیادہ حیرت انگیزبزرگ قولو اور خوداس کے دادا کی اس سے ملاقات تھی۔اپنے دادا کے جانے کے بعد وہ خاموش بیٹھا سوچتا رہا کہ یہ نیلی کی شادی کا کیا قصہ چھڑگیا ہے اور کیا اس کو ان ترکیبوں سے گولر کے پھول کے لئے اجازے دے دینے کو پھانسا نہیں جا رہا ہے۔جتنا جتنا وہ گولر کے پھول کے متعلق غور کرتا تھا اس کا ارادہ پختہ ہوتا جاتا تھا کہ اتنی بڑی دولت تو کسی طرح ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔رات کافی آچکی تھی اور نیند اسی فکر میں غائب تھی مگر آخر کب تک نیند نہ آتی ،وہ یہی باتیں سوچتے سوچتے سو گیا اور صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے بتایا گیا کہ مادام نیلی اس کی منتظر ہیں۔وہ اصل میں اب نیلی سے بھی الجھنے لگا تھاکہ کہیں یہ پری اس سے زبردستی شادی کرکے مہر میں گولر کے پھول نہ لکھوا لے۔مگر نیلی سے بچ بھی نہ سکتا تھا۔بہرحال اس وقت وہ جلد جلد نہا دھو کر تیار ہو گیااور نیلی کو بلوایا تو نیلی نے آتے ہی کہا:
’’معاف کیجئے گا سہیل صاحب میں رات آپ کو یہ بتانا بھول گئی تھی کہ آج ہی ہم کو یہاں سے روانہ ہوکر ایک اور ملک’غورس‘ جانا ہے۔غورس کے بعد شینام کا دورہ ہے اور شینام کے بعدملکہ کی حکومت بلورستان کا دورہ کرنا ہے۔اب آپ فوراً تشریف لے چلیں۔اڑن قالین اسی ایوان کی چھت پر تیار ہے۔اور بادشاہ سلامت آپ کو خدا حافظ کہنے کے لئے تشریف لانے ہی والے ہیں۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر مادام نیلی !مجھے تو بزرگ قولو سے بہت ہی ضروری باتیں کرنا تھیں۔‘‘
نیلی نے کہا،’’وہ ہمارے ساتھ اسی قالین پر شینام تشریف لے جا رہے ہیں بلکہ آپ کے دادا بھی ساتھ ہوں گے اور یہ دونوں اب ہمارے ساتھ ہی رہیں گے۔شہنشاہ کے دربار سے یہی احکام جاری ہوئے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ آپ کے ساتھ رہیں ۔‘‘
سہیل کو یہ سن کر اطمینان ہو گیا اور وہ نیلی کے ساتھ ایوان کی چھت پر پہنچ گیا جہاں اس وقت حکومت کے بڑے بڑے افسروں اور عہدے داروں کے علاوہ بزرگ قولو اور سہیل کے دادا ادریس بھی موجود تھے۔جیسے ہی سہیل چھت پر پہنچا ہے بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے اور بادشاہ کے محافظ دستے نے سلامی دی۔بادشاہ سلامت نے سہیل سے تین مرتبہ ناک رگڑی اور سہیل اپنے ساتھیوں کے ساتھ قالین پر آگیا۔اُ س وقت بادشاہ کے محافظ دستے کے بینڈ نے رخصتی ترانہ بجایا اور قالین ہوا میں اڑنے لگا تو سہیل بزرگ قولو سے متوجہ ہوا۔
’’بزرگ قولو !میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ مجھے آپ سے ایک سفارش کرناہے۔‘‘
قولو نے کہا،’’معزز مہمان آپ جو سفارش کرنے والے ہیں وہ مجھ کو معلوم ہے اور میں اسی کے متعلق غور کررہا ہوں۔آپ کو یہاں کا دستور نہیں معلوم ۔یہاں دستور یہ ہے کہ اوّل تو کسی کو اپنی منگیتر پر شک کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور کوئی غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے تو اس غلط فہمی کو سچ کردیا جاتا ہے یعنی جس کے متعلق غلط فہمی ہوتی ہے اسی سے اس لڑکی یعنی پری کی شادی کردی جاتی ہے۔اس قانون کے مطابق شومو تو اپنی سزا کو پہنچ گیا مگر نیلی کی شادی اب آپ سے ہو جانا چاہئے۔‘‘
یہ سن کر نیلی شرما گئی اور سہیل کو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ یہاں کا شرمانے کا طریقہ یہ ہے کہ نیلی نے اپنے لمبے لمبے بال کھول کر اپنے منہ پر ڈال لیے اور کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا تو بزرگ قولو نے کہا،’’بڑی شرمیلی پری ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’بزرگ قولو میں تو چاہتا تھاکہ آپ میری خاطر شومو کا قصور معاف کر دیں اور نیلی کی شادی شومو ہی سے ہو۔‘‘
نیلی نے اپنے بال سمیٹ کر غصے سے کہا،’’مجھے اس سے نفرت ہے،اس نے ہماری قوم کو بدنام کیا ہے، میں قومی مجرم سے شادی نہیں کرسکتی۔‘‘
سہیل کے دادا نے جھوم کرکہا،’’شاباش قوم پرست پریاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔شومو کو ہرگز معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
بزرگ قولو نے بڑی متانت سے کہا،’’یہ غلط ہے کہ معاف نہیں کیا جا سکتا۔میں اس کو معاف بھی کرسکتا ہوں مگر اس طرح نہیں کہ تمام پری زاد اور پریاں میری ہی دشمن ہو جائیں۔میں اسی کی ترکیب سوچ رہا ہوں کہ اس بدبخت کو کس طرح معاف کیا جائے۔بہرحال یہ فیصلہ میں شہنشاہ سے بات کرنے کے بعد کرسکتا ہوں۔مگر معزز مہمان تم کو نیلی سے شادی کرنے میں کیا عذر ہے۔‘‘
نیلی نے پھر بالوں سے منہ چھپا کر ہنسنا شروع کردیا۔سہیل نے گھبرا کر کہا:
’’بزرگ قولو مجھ کو صرف یہ عذار ہے کہ میں نیلی کے لیے اپنے ماں باپ کو،بہن بھائیوں کو اور اپنی دنیا کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
بزرگ قولو نے کہا،’’تم سچ کہتے ہو۔میں بہت خوش ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتے ورنہ ایسی خوب صورت پری کودیکھ کر تمہاری دنیا کے بہت سے لوگ جھوٹ بول جاتے۔‘‘
یہ لوگ یہی باتیں کررہے تھے کہ سہیل کے دادا نے کہا:
’’بزرگ قولو! شینام آپہنچا اور ہمارا قالین نیچے اتر رہا ہے۔‘‘
اسی وقت سہیل نے دیکھا کہ پری زادوں کا ایک دستہ اڑتا ہوا اس قالین کے چاروں طرف پھیل گیا۔نیلی نے کہا،’’یہ ہمارا خیرمقدم ہوا ہی میں کررہے ہیں۔قالین رفتہ رفتہ نیچے اتر گیا اور سہیل نے دیکھا کہ ایک بہت ہی خوب صورت پری زادنے آگے بڑھ کر سہیل سے تین مرتبہ ناک رگڑی اور بزرگ قولو نے بتایا کہ آپ شاہ شینام ہیں۔سہیل شاہ کے ساتھ سلامی لینے کے لیے چبوترے پر پہنچ گیا اور بینڈ بجنے لگا۔
بلورستان میں،جب آنکھ کھلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شینام میں سہیل دودن ٹھہرا۔یہاں بھی شاہی ضیافت ہوئی،فوجوں کی پریڈ ہوئی اور ایک خاص تقریب میں سہیل کو شینام کا سب سے بڑا خطاب’’پاپاپی‘‘دیا گیا اور یہاں سہیل نے شتر مرغوں کی پالی دیکھی اور ایک شتر مرغ پر بیٹھ کر تمام شینام کی سیر کے بعد یہی شتر مرغ سہیل کو تحفے میں دے دیا گیا۔پروگرام کے مطابق سہیل کو شینام سے پہلے غورس جانا تھا مگر راستے میں غورس سے یہ پیغام مل گیا کہ غورس کے شاہ شینام گئے ہوئے ہیں اپنے بھائی سے ملنے لہٰذا غورس کا دورہ ملتوی کردیاگیا۔شینام میں دودن تک مختلف تقریبوں میں شرکت کرنے کے بعد یہ سب بلورستان روانہ ہو گئے۔بلورستان اس دنیا کا سب سے خوب صورت ملک ہے جہاں پہاڑوں پر مخمل پیدا ہوتی ہے اور جہاں بادل ریشم کے ہوتے ہیں اور بارش موتیوں کی ہوتی ہے۔یہاں کے دریاؤں میں رنگین پانی بہتا ہے اور یہاں پینے کے لئے شبنم کے قطرے جمع کیے جاتے ہیں۔سہیل نے اس ملک کی اتنی تعریف سن رکھی تھی کہ جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ قالین اس وقت بلورستان کے دارالسلطنت شیشہ پر اڑ رہا ہے تو اس نے نیچے کے مناظر کی سیر کرنا شروع کردی۔واقعی پہاڑوں پر ہر طرف مخمل پھیلی ہوئی تھی اور رنگین دریا اور چشمے ہر طرف نظر آرہے تھے،نیلی نے سہیل کو بتایا:
’’اس حکومت میں آپ کو کوئی پری زاد نظر نہ آئے گا۔ یہاں صرف پریاں ہوتی ہیں اور ہماری دنیا کی سب سے خوب صورت پریاں اسی ملک میں ہوتی ہیں۔خود یہاں کی ملکہ اس دنیا کی سب سے حسین پری ہیں۔‘‘
وہ یہ بتا ہی رہی تھی کہ قالین ایک ایسے میدان میں اتر گیا جس میں ہر طرف سونا بچھا ہوا تھا اور کنکروں،پتھروں کی طرح بہت سے ہیرے،زمرد،نیلم وغیرہ بکھرے ہوئے تھے۔قالین کے اترتے ہی ایک بہت ہی خوب صورت پری نے آگے بڑھ کر سہیل کے آگے اپناہاتھ پھیلا دیا۔سہیل نے اس ہاتھ پرآہستہ سے تالی بجا دی تو نیلی نے کہا،’’یہ ہیں ملکہ معظمہ بلورستان ہمارے شہنشاہ کی سب سے چھوٹی بہن۔‘‘
سہیل ملکہ کے ساتھ اس شامیانے میں گیا جہاں پریاں موجود تھیں۔سہیل کو دیکھتے ہی ان پریوں نے اپنے اپنے آنچل میں بھرے ہوئے پھول ،ستارے اور موتی اس کی طرف اچھا ل دیے۔ملکہ نے سہیل کو اپنے ساتھ ایک مسند پر بٹھایا ہی تھا کہ مسند ان دونوں کو لے کر اڑی اور آن کی آن میں ملکہ کے محل میں پہنچا دیا۔ان دونوں کے پہنچنے کے بعد ہی ایک دوسری مسند پر بزرگ قولو، سہیل کے دادا اور نیلی بھی پہنچ گئی تو ضیافت شروع ہوئی۔نیلی نے آگے بڑھ کر سہیل سے کہا:
’’یہاں کچھ کھانہ لیجئے گا۔یہاں کوئی چیز کھائی نہیں جاتی ،صرف سونگھی جاتی ہے۔‘‘
سہیل نے کہا،’’مگر مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’یہاں کے کھانوں کے سونگھنے ہی سے مزہ بھی آتاہے اور پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔‘‘
یہ لوگ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مختلف پھول اور پھل ہوا میں اڑ اڑکر سہیل کے سامنے آنے لگے اور سہیل باری باری سب کو سونگھتا رہا۔اس کو واقعی سونگھنے سے مزہ بھی آرہا تھا اور پیٹ بھی بھر رہا تھا۔وہ حیران تھا کہ ناک سے کھانا کھانے کی ترکیب نرالی ہے ۔جب وہ سیرہو کر سونگھ چکا تو ملکہ نے نیلی سے کچھ کہا۔نیلی نے اس کا ترجمہ سہیل کو سنا دیاکہ،’’ملکہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوئی ہیں اور آپ کو اپنی انگوٹھی پہنا کر بھائی بنانا چاہتی ہیں۔‘‘سہیل نے بڑی خوشی سے اپنا ہاتھ بڑھادیا۔تو ملکہ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اس کی انگلی میں پہنا دی۔سہیل نے انگوٹھی پہننے کے بعد نیلی سے کہا:
’’کیا میں بھی اپنی وہ انگوٹھی ملکہ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں جو شاہ شرموز نے مجھ کو دی ہے۔‘‘
نیلی نے کہا،’’ہرگز نہیں،آپ ایک کا تحفہ دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ اگر خود آپ کے پاس کوئی چیزہوتو آپ دے سکتے ہیں۔‘‘
سہیل کے پاس بھلا کیا چیز تھی جو وہ دیتا مگر جس محبت سے ملکہ نے اس کو بھائی بنایا تھا اسی محبت سے وہ بھی ملکہ کو بہن بنانا چاہتا تھا۔وہ دیر تک کھڑا یہی سوچتا رہا اور آخر ایک نتیجے پر پہنچ کر اس نے نیلی سے کہا،’’مادام نیلی میں نے سب کچھ طے کرلیا ہے،آپ فوراً قلم، دوات، کا غذ منگائیں۔‘‘
ملکہ نے نیلی کا اشارہ پاکر قلم، دوات، کا غذ منگانے کا حکم دیا۔سہیل نے کاغذ پر لکھا:
’’اس دنیا کی کسی دولت کی لالچ یا کسی دھمکی کی بجائے میں ملکہ بلورستان کی محبت کا جواب اس محبت سے دینا چاہتا ہوں کہ میرے گھر کے گولر کے پھولوں کو لے اڑنے کی کھلی اجازت صرف ملکہ بلورستان کو حاصل ہوگی۔یہ بھائی کا تحفہ ہے بہن کے لئے۔‘‘
یہ لکھ کر جیسے ہی سہیل نے دستخط کئے،بزرگ قولونے بڑھ کر سہیل کو اس زور سے دھکا دیا کہ سہیل کی آنکھ کھل گئی۔وہ اپنے گھر کے صحن میں گولر کے درخت کے نیچے پڑا تھا۔دن نکل آیا تھا اور گھر کے سب لوگ جاگ چکے تھے۔سہیل اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا کھڑا ہوگیا اور سوچنے لگا کہ کیا یہ سب خواب تھا۔اور اس کی سمجھ میں آنے لگا کہ یہ سب خواب و خیال کی دنیا تھی،جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ہماری اصلی دنیا کی حقیقت اور سچائی کا مقابلہ خیالی دنیا کے یہ عجیب وغریب طلسم نہیں کر سکتے۔سنی سنائی باتوں میں نہ کوئی پائیداری ہے نہ پختگی۔
سب سے بڑا گولر کا پھول تو انسان کی ذاتی قابلیت، ہمت اور محنت ہے۔جس کی بدولت دنیا کی ہر چیز پر قابو حاصل ہو سکتا ہے۔اور یہی وہ پھول ہے جس کی خوشبو اور قوت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔خیالی پرستان اور فرضی طلسم تو خواب کی طرح بے اصل اور بے حقیقت ہیں۔جب آنکھ کھلی تو سب کچھ غائب!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top