skip to Main Content

گلابی جوتے

ہدیٰ محسن

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی ادب سے ماخوذ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’مریم، مریم۔‘‘ طلحہ چلاتا ہوا میرے کمرے میں آیا۔
’’ارے مریم! میرے ساتھ آؤ، میں تمھیں دکھاؤں میں نے امی کی سالگرہ کے لیے کیا زبردست تحفہ بنایا ہے۔‘‘
’’ کوئی نہیں!‘‘ میں جھلاتے ہوئے بولی: ’’ دیکھ نہیں رہے ہو میں ہوم ورک کررہی ہوں؟‘‘
’’اوہو، تو آپ ہوم ورک کررہی ہیں۔‘‘ طلحہ مصنوعی طور پر متاثر ہوتے ہوئے بولا: ’’کیا ہوم ورک ملا ہے؟‘‘
’’ مجھے اخبارات میں سے تصویریں کاٹ کر کاپی میں چپکانی ہیں۔‘‘ میں فخریہ انداز میں بولی۔
’’بس اتنا سا ! یہ تو ہم نرسری میں کرتے تھے جو تم پہلی جماعت میں کررہی ہو۔‘‘ طلحہ نے مجھے منھ چڑایا۔
’’اچھا چلو، دماغ نہ کھاؤ۔ جلدی سے دکھاؤ مجھے اپنا فضول تحفہ! میں نے بتایا نا مجھے ہوم ورک کرنا ہے۔‘‘ اندر ہی اندر مجھے جلن بھی ہو رہی تھی کہ کل امی کی سالگرہ تھی اور میرے پاس امی کو دینے کے لیے کوئی تحفہ نہیں تھا۔
طلحہ مجھے اپنے کمرے میں لے کر گیا، دروازہ بند کیا۔ پھر ایک تھیلے میں سے وہ تحفہ نکال کے مجھے دکھایا۔ ویسے تو آپ اسے فالتو ڈبوں کا پلندا کہہ سکتے تھے۔ اگر طلحہ نے اسے اتنی ذہانت اور سلیقہ سے نہ جوڑ رکھا ہوتا۔ مجھے اچھا لگا تو میں مسکراتے ہوئے بولی: ’’ اچھا ہے مگر یہ کس استعمال کا ہے؟‘‘
’’ یہ شوپیس ہے بے وقوف ! اس سے کچھ نہیں کرتے بس اسے سجا کر دیکھتے ہیں۔‘‘ طلحہ اونچا بنتے ہوئے بولا۔ یہ بھائی حضرات بھی بڑا درد سر ہوتے ہیں۔ خاص کر جب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ طلحہ مجھ سے ایک سال ہی بڑا ہے۔ تو ہم بھی روایتی بہن بھائیوں کی طرح خوب لڑتے ہیں۔
’’خیر تم نے کیا لیا ہے امی کے لیے۔‘‘طلحہ نے تحفہ واپس رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ میں کیوں بتاؤں۔‘‘ میں معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’بتاؤ ناں۔‘‘ طلحہ نے اصرار کیا۔
’’ یہ تم کل ہی دیکھ لینا۔‘‘ میں نے جان چھڑانا چاہی۔
’’کل کیا دکھاؤ گی؟ مجھے پتا ہے تمھارے پاس امی کو دینے کے لیے کوئی تحفہ نہیں ہے۔‘‘ صحیح تو کہہ رہاتھا۔ مگر میں اسے یہ بتا کر اس کے مزید طعنے سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔ ‘‘ کوئی نہیں بیٹا! تم دیکھ لینا میں۔‘‘ ابھی میں اس سے جھگڑنے کی تیاری میں تھی کہ امی کی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی گویا امی سودا سلف لے کر آچکی تھیں۔ ‘‘ اﷲ تیرا شکر ‘‘ میں مزید جھوٹ بولنے سے بچ گئی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد میں پھر ہوم ورک مکمل کرنے کے ارادے سے بیٹھی۔ اتنے میں ایک اشتہار اچھلتا کودتا میری نظروں کے سامنے آگیا۔ یہ کسی نئی کمپنی کے جوتوں کا اشتہار تھا۔ ‘‘ پچاس فیصد بچت کے ساتھ آج ہی اپنے قریبی کراؤن مارٹ جا کر ہماری سیل سے فائدہ اٹھائیں۔ گویا اشتہار ہم ہی سے مخاطب تھا۔ اب میں تصور میں امی کے پاؤں لے کے آئی۔‘‘ بھرے بھرے سرخ و سفید پاؤں پہ ۔۔۔ گلابی ہاں گلابی رنگ کے جوتے ٹھیک رہیں گے۔‘‘ میں سوچ سوچ کر ہی خوش ہوگئی۔ 
’’مگر جوتوں کی قیمت، ایک مسئلہ ہوسکتا ہے۔ ابھی میرے گھر میں پہننے والی چپل ڈھائی سو کی آئی اور وہ رعایت کے ساتھ تھی۔ جوتوں کے لیے پانچ سو روپے تو کہیں نہیں گئے۔‘‘
میں اپنے بچت بکس تک گئی، تالا کھولا۔ پچاس سو، ایک سو دس یعنی ناکافی رقم۔‘‘ میں پریشانی کے عالم میں سوچنے لگی۔ ’’ اب کل تک بلکہ کل سے پہلے میں اتنے سارے پیسے کہاں سے لاؤں گی؟ بھئی آج ہفتہ ہے اور کل اتوار ۔ مطلب ساری دکانیں بند اور ہفتے کو تو ابو ہفتے بھر کی عام خریداری کرنے ’کراؤن مارٹ‘ ہی جاتے ہیں۔ چلو میں خریداری میں ان کی مدد کروں گی تو وہ کچھ نہ کچھ پیسے بطور انعام دیتے ہی ہیں پھر بھی۔۔۔ ‘‘ ابھی میں اپنی پریشانی میں غوطہ زن تھی کہ امی نے پکارا اور میری تمام سوچیں منتشر ہوگئیں۔ اب میں کتاب میں پیسے رکھ کر چہکتے ہوئے امی کے پاس جاپہنچی ’’ جی امی!‘‘ 
’’تمھیں تو پتا ہے آج نانی امی لاہور سے آرہی ہیں۔ میں ان کے لیے کیک بنانے کا سوچ رہی تھی۔ میں سارا سامان لے آئی ہوں لیکن انڈے لانا بھول گئی۔ طلحہ سے منگوا لیتی لیکن وہ تمھارے ابو کے ساتھ پیٹرول پمپ تک گیا ہوا ہے لہٰذا تمھیں ساتھ والی دکان سے انڈے لانے ہوں گے۔‘‘ امی نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ ’’او ہاں ! میں تو بھول ہی گئی تھی نانی امی بھی تو آرہی ہیں اتنے عرصے بعد۔ ‘‘ میں خوش ہوتے ہوئے بولی ۔
’’اچھا یہ لو پیسے اور چھ انڈے لے آو میں دروازے پر ہی کھڑی ہوں۔ بھاگ کر جاؤ بھاگ کر لے آؤ بس انڈے توڑنا مت۔‘‘ میں بھی بھاگ کر گئی ۔ انڈے خریدے ، بھاگ کر آئی اور انڈے باحفاظت امی کو دے دیے۔ امی نے باقی بچے پیسے گنے اور تیس روپے ہمیں پکڑا دیے۔ ’’یہ رکھ لو بس طلحہ کو مت بتانا۔ ‘‘
’’اوہ شکریہ امی۔ ‘‘ میں خوشی خوشی شام ہونے کا انتظار کرنے لگی تاکہ جلدی سے شام ہو تو نانی امی آئیں اور ہم سب مل کر مزے سے کیک کھائیں۔
شام میں ہم نانی امی کو دیکھ کر جتنا خوش ہوئے ۔ نانی امی ہمیں دیکھ کر اس سے بھی زیادہ خوش ہوئیں۔ 
’’ماشااﷲ! کتنے بڑے ہو گئے میرے نواسے۔‘‘ پھر جب نانی امی نے ایک سو کا نوٹ طلحہ کے ہاتھ میں اور ایک سو کا نوٹ میرے ہاتھ پر رکھا تو خوشی سے ہماری باچھیں کِھل گئیں۔
’’اور بھئی اس دفعہ عیدی کتنی جمع ہوئی؟‘‘ نانی امی نے رات کے کھانے کے بعد سوال کیا۔ ’’اوہ عیدی۔‘‘ طلحہ کو نانی کے ساتھ باتوں میں لگا کر میں اپنی دراز تک پہنچی وہاں اس سال کی بچی ہوئی عیدی سو سو کے تین نوٹوں کی شکل میں پڑی تھی۔ اب ہم نے پیسے گنے تو پیسے پانچ سو سے بھی زیادہ تھے۔ اتنے میں مجھے ابو کے جانے کی تیاریوں کا پتا چلا تو میں نے بھی ساتھ چلنے کی فرمائش کی اور مارٹ میں خریداری میں ان کا اتنا اچھا ہاتھ بٹایا کہ ابو خوش ہو گئے۔اور پیسے دینے کے لیے قطار میں لگتے ہوئے بولے: ’’ ہم آپ کی مدد کرنے سے بہت خوش ہوئے۔ یہ لیجیے آپ کا انعام۔‘‘ اور یوں مجھے پچاس روپے عنایت ہوگئے۔ اب میرے پاس پورے چھ سو روپے تھے۔ میں نے دیکھا ابھی ابو سے پہلے پانچ لوگوں کا حساب کتاب ہو کر بل نکلنا باقی تھا۔ میں فٹافٹ بھاگ کر اپنی مطلوبہ دُکان پہنچی اور گلابی جوتوں کی آخری جوڑی اٹھا لائی ابو کی باری کے بعد میں نے جوتے الگ سے کاؤنٹر پر دیے تاکہ ابو کو پتا نہ چلے۔
اگلے دن طلحہ نے پہلے اپنا تحفہ امی کو دیا جسے دیکھ کر پہلے تو امی نے بڑی واہ وا کی مگر میرے تحفے کو دیکھ کر طلحہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور امی تو سکتے میں آگئیں۔ 
’’ارے مریم یہ تم نے کہاں سے لیے یہ تو بہت ہی پیارے ہیں بہت بہت شکریہ۔ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہیں۔‘‘ اور پھر اُنھوں نے پہن کر دیکھے اور بولیں۔ ’’بہت آرام دہ ہیں۔‘‘ 
جی یہ ہر طرح کے پیروں کے لیے آرام دہ ہیں۔‘‘ میں خوش ہوتے ہوئے بولی ۔ میرے ابو ذرا کھانے پکانے کے بڑے شوقین ہیں تو اتوار کا ناشتہ وہ ہی بناتے ہیں۔ 
’’چلیں میں آج آپ کے لیے خاص ناشتہ بناتا ہوں۔‘‘ ابو بولے۔
’’زیادہ خاص مت بنائیے گا۔ آج کے لیے اتنا خاص ہونا ہی کافی ہے۔‘‘
مگر ان جوتوں کے ساتھ مسئلہ اگلے دن سے ہی شروع ہوگیا جب وہ گم ہو گئے اور ان کے لیے پورا گھر چھاننا پڑگیا ۔ پھر وہ ہماری پالتو بلی کے مخصوص گدے کے نیچے سے برآمد ہوئے کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ گم ہو گئے اور ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ اس دن ابو کا ارادہ اپنی توجہ باغ کو دینے کا تھا۔ انھیں پتا ہی نہ چلا کہ وہ گھاس کاٹنے والی مشین لے کر پانچ بار ان جوتوں پر سے گزر گئے جو گھاس پر جانے کہاں سے آئے۔ آخری دونوں وارداتوں کی مجرم تو بلی صاحبہ کو سمجھا گیا۔ مگر جب اگلے دن جوتے الماری کے اوپر سے ملے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ بلی جوتے لے کر الماری پر کیسے چڑھی۔ نہ ہماری سمجھ میں یہ آیا کہ ہماری پالتو چڑیا کے پنجرے میں وہ جوتے کس نے رکھے جس میں صبح چڑیا اور اس کے بچوں کو سوتا پایا گیا۔
اس دن جب میں اور طلحہ ناشتہ کررہے تھے تو طلحہ مجھ سے بولا: ’’ مجھے نہیں لگتا امی کو تمھارا تحفہ پسند ہے۔‘‘
’’تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو! ان کو بہت پسند ہیں وہ جوتے ! اور تم جب نوالہ منھ میں ہو تو مت بولا کرو۔ اتنا گندہ لگتا ہے تمھیں دیکھ کر۔‘‘ میں چلائی۔
’’مگر میرا تحفہ تو غائب نہیں ہوتا وہ تو ابھی تک فرج پر رکھا ہوا ہے۔ ‘‘ طلحہ سکون سے بولا میں تیزی سے امی سے پوچھنے گئی۔ طلحہ بھی میری پیچھے آیا۔ 
’’امی ! طلحہ کہتا ہے آپ کو میرے دیئے ہوئے جوتے نہیں پسند؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ امی کہنے لگیں۔ ’’ مجھے پسند ہیں وہ جوتے۔ وہ بہت پیارے ہیں اور تم نے دیے ہیں تو مجھے کیوں پسند نہیں ہوں گے۔ اب میں ان کو کبھی نہیں اُتاروں گی تاکہ وہ گم ہی ناہوں۔‘‘
اس رات سونے سے پہلے طلحہ کمرے میں آیا اور بولا: ’’حریم ایک بات بتاؤں بولو گی تو نہیں کسی کو؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں حیران ہوئی۔ 
’’وہ جوتے دراصل میں ہی چھپاتا تھا۔‘‘طلحہ آہستہ سے بولا۔
’’کیا؟‘‘ میں غصہ سے بولی۔’’ ہاں ناں دیکھو اب میں نے تمھیں بتا دیا ناں اب نہیں چھپاؤں گا۔‘‘ طلحہ نے اعتراف جرم کیا۔ 
’’مگر کیوں؟ ‘‘ مجھے اب بھی دُکھ ہو رہا تھا۔
’’ بھئی تمھارا تحفہ میرے تحفہ سے زیادہ اچھا تھا اور امی کو بھی تمھارا تحفہ زیادہ اچھا لگتا تھا تو۔۔۔‘‘ 
’’تو تم نے یہ نہیں دیکھا کہ امی کتنی پریشان ہوجاتی تھیں ان جوتوں کے لیے۔‘‘ میں خفگی سے بولی۔
’’اسی لیے تو اب نہیں کررہا اب امی کو مت بتانا ورنہ وہ مجھ پر بہت افسوس کریں گی۔ پلیز اچھی بہن۔‘‘ 
یہ بھائی حضرات بھی بڑے لاڈ اُٹھواتے ہیں ایسے بن جاتے ہیں جیسے ان سے معصوم کوئی نہیں۔

*۔۔۔*

نئے الفاظ:
جَھلّانا: ناراض ہونا
پلندا: بنڈل، ڈھیر
طعنہ: طنز کرنا، چبھتی ہوئی بات کہنا
غوطہ زن: غوطے مارنا
باچھیں: ہونتوں کے دیہنی اور بائیں جانب کا کونہ جہاں دونوں ہونٹ ملتے ہیں
اعتراف: قبول کرنا
خفگی: ناراض

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top