skip to Main Content
گزری صدیوں کے ہنر مند

گزری صدیوں کے ہنر مند

ظفر شمیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرعونوں کے مصرکی ہزاروں برس پرانی تہذیب انسانیت کی روشن تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کی دریافت ہونے والی ممیوں سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ قدیم مصری علم کیمیا سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ ساڑھے چار ہزار برس پہلے کے لوگ اتنے روشن خیال اور ترقی یافتہ ہوں گے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ جوں جوں نئی تحقیقات سامنے آتی جارہی ہیں حیرت اور انکشاف کے نئے دروازے ہم پر کھلتے جارہے ہیں۔ علم وادب کے لئے باقاعدہ طور پر ایک مستحکم نظام اس دور میں رائج تھا۔

ان کی عبادت گاہوں کے اندر ہی درسگاہیں یعنی اسکول ہوا کرتے تھے۔ اسکولوں کے لئے مندر کا ایک گوشہ الگ سے مختص ہوتا تھا۔ یہ درسگاہیں باقاعدہ طور پر مندر کا بڑا پجاری (کاہنس) خود چلاتا۔ بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اساتذہ ہوتے۔ طالب علموں کو سات برس کی عمر میں اسکول میں داخلہ ہوتا۔ ابتدائی اور لازمی تعلیم پوجا ہوا کرتی۔ کیمیا، ریاضی اور ادب کے اضافی مضامین بھی رکھے گئے تھے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ طالبات کے لئے صرف چار برس کی تعلیم رکھی گئی تھی۔ تعلیم کا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد طلباء وطالبات کو ایک بالغ شہری قرار دے دیا جاتا۔ غریب طبقہ اپنے بچوں کو صرف دو تین برس کی تعلیم کے بعد کھیتی باڑی کی تربیت دیتا۔ امراء اور رئیس اپنے بچوں کو پانچ سال کی تعلیم کے بعد یونیورسٹی بھیج دیتے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کا دورانیہ کل تین برس رکھا گیا تھا۔ مصری تہذیب کی یہ واحد یونیورسٹی اہرام مصرسے دو سو کلومیٹر دور جنوب میں سورج دیوتا کے مندر کے ساتھ دریافت ہوئی ہے۔ اس یونیورسٹی میں ایک لائبریری کے آثار بھی ملے ہیں جن سے ملنے والی کتابوں اور صفحات نے تاریخ کا ایک اور حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔ فرعونوں کے دور میں پریس بھی ہوا کرتے تھے یعنی چار ہزار برس پہلے کے لوگ کتابیں اور اخبارات بھی شائع کیا کرتے تھے۔ اور شعبہ ادب واشاعت سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی چھپائی کا طریقہ بہت آسان مگر دل چسپی سے بھرپور ہے۔ کتابوں کی اشاعت کا یہ عمل محض چار مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔

(1) یہ ایک خاص قسم کا پودا ہے جسے پیپی رنس (Papyrus)کہا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے پودے آج بھی بکثرت دریائے نیل کے کنارے لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ پودا سطح زمین سے چار میٹر بلند ہوتا ہے۔ اس کی آخری سرے پر گھاس نما بے شمار پتے ہوتے ہیں۔ اس کا تنا بالکل تکون ہوتا ہے چھپائی کے عمل کے لئے صرف اس کا تنا کارآمد ہوتا ہے۔ اشاعت کے اس پہلے مرحلے میں اس کے تنے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرلیا جاتا ہے۔

(2) تنے کے اندر اب سفیدی مائل گودا نظر آتا ہے۔ تنے کے تینوں اطراف ہرے رنگ کے پتوں سے ڈھکی مضبوط دیوار ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں تنے کے تینوں اطراف کی دیواریں کاٹ کر الگ کر دی جاتی ہیں اور گودا حاصل کرلیا جاتا ہے۔

(3) چھپائی کے لئے یہ تیسرا مرحلہ قدرے نازک اور احتیاط طلب ہوتا ہے۔ تنے سے حاصل کیا گیا گودالیس دار ہوتا ہے یہ بار بار ہاتھوں سے پھسل جاتاہے اس لئے اسے قابو کرنے کے لئے کھر درے کپڑے کے دستانے پہن لئے جاتے تھے۔ اب اس گودے کو بلیڈ نما تیز آلے سے باریک پلیٹوں کی شکل میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اب اسے لکڑی کے ہموار تختے پر ترتیب وار بچھا دیا جاتا ہے اور اوپر لینن کا کپڑا ڈھک دیا جاتا ہے۔ اب اسے بھاری پتھر یا لکڑی سے کپڑے کے اوپر سے ٹھکا جاتا ہے۔ اس طرح کٹے ہوئے ریشوں کے کنارے آپس میں مل جاتے ہیں۔ تین یا چار گھنٹے دھوپ میں رکھنے کے بعد کپڑا ہٹا دیا جاتا ہے۔

(4) اب لکھائی اور پینٹنگ کے لئے پیپی رس کے پورے سے بنایا گیا صفحہ تیار ہے۔ اس صفحے پر لکھنا ہی نہیں بلکہ تصویر بنانا بھی بے حد آسان ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک صفحے کی ایک ہی جیسی دو کاپیاں بنانے کے لئے لکھی گئی پیپی رس کی شیٹ پر اسی طرح کی دووسری شیٹ رکھ کر تیسرا مرحلہ دوبارہ دہرایا جاتا ہے۔ اس بار کوئی خاص محلول لینن کے کپڑے کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ تاکہ پیپی رس کے دونوں صفحات آپس میں نہ مل جائیں۔ یہ لیجئے مصریوں کی ممیوں کی طرح ان کی تحریریں اور تصوریں بھی ہمیشہ کے لئے امر ہوگئیں۔ تصویر میں رنگ بھرنے کے لئے رنگ برنگی پہاڑی پتھروں کو پیس کر ان کا پاؤڈر استعمال کیا جاتا تھا جبھی تو چار ہزار برس گزر جانے کے باوجود بھی ان کی تصویروں کا رنگ ماند نہیں پڑا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top