skip to Main Content

کہاوتوں کی کہانیاں۔۱

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔

اونٹ کے گلے میں بلی،دودھ کا دودھ پانی کا پانی،یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے،اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا،اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا ہے۔ کہاوت کسی واقعے یا بات میں چھپی ہوئی سچائی یا عقل کی بات کو سمجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔
کہاوتیں بڑی دل چسپ اور مزے دار ہوتی ہیں۔ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی بھی ہوتی ہے۔آج ہم آپ کو کچھ کہاوتیں، ان کا مطلب اور ان کی کہانیاں سناتے ہیں ،مگر ایک بات یاد رکھیے گا،یہ کہانیاں ضروری نہیں کہ سچ ہی ہوں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کہاوت مشہور ہوئی تو لوگوں نے اس کی کہانی بنالی،ہاں ان کہانیوں سے یہ فائدہ ضرورہوتا ہے کہ کہاوتوں کا مطلب،ان کا صحیح استعمال اور ان میں چھپا ہوا سبق یا دانش مندی کی بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔

اپنا الّو کہیں نہیں گیا
مطلب یہ کہ کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی بےوقوف آدمی سے اپنا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا کہ ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سوداگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روز نامچے میں لکھا، ”بادشاہ الّو ہے۔“اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شخص کہنے لگا، ”حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔“
بادشاہ نے کہا، ”اور اگر وہ واپس آ گیا تو؟“
اس شخص نے فوراً جواب دیا، ”تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا۔“

ٹیڑھی کھیر ہے
یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا،”کھیر کھاؤ گے؟“
تو فقیر نے سوال کیا،”کھیر کیسی ہوتی ہے؟“
اس شخص نے جواب دیا،”سفید ہوتی ہے۔“
اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا،”سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟“
اس شخص نے کہا،”بگلے جیسا۔“
فقیر نے پوچھا، ”بگلا کیسا ہوتا ہے؟“
اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، ”بگلا ایسا ہوتا ہے۔“
نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا،”نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔“

اونٹ کے گلے میں بلی
مطلب یہ کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھے یا ایک مفید کام کے ساتھ نقصان دہ کام لازم ہو جائے۔
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اونٹ کو بہت تلاش کیا۔ سارا شہر چھان مارا پر اونٹ کا کہیں پتا نہ چلا۔ اس پر اسے اتنا غصّہ آیا کہ قسم کھالی کہ اگر اونٹ مل گیا تو ایک رپے میں بیچ دوں گا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جلد ہی اس کا اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو اس کا اونٹ ایک رپے میں خریدنے اس کے گھر پہنچے۔ اب تو وہ شخص بہت گھبرایا۔ ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس عقلمند دوست نے اسے مشورہ دیا،”اونٹ کے گلے میں لمبی سی رسّی باندھو اور رسّی کے دوسرے سرے پر ایک بلّی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت تو بےشک ایک ہی روپیہ رکھو، لیکن بلی کی قیمت ایک سو روپیہ رکھو۔ خریدار کے لیے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔“
اس نے ایسا ہی کیا۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے کہ یہ تو اونٹ کے گلے میں بلی ہے۔ اور یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔

چور کے گھر مور یا چور کو مور پڑنا
یعنی خود چور کے گھر چوری ہو گئی۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص بے ایمان کے ساتھ بے ایمانی کرے یا کسی ٹھگ کو کوئی شخص ٹھگ لے۔
مور ایکاپنا الّو کہیں نہیں گیا?
مطلب یہ کہ کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی بےوقوف آدمی سے اپنا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا کہ ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سوداگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روز نامچے میں لکھا، “بادشاہ الّو ہے۔”
اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شخص کہنے لگا، “حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔”
بادشاہ نے کہا، “اور اگر وہ واپس آ گیا تو؟”
اس شخص نے فوراً جواب دیا، “تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا۔”
ٹیڑھی کھیر ہے?
یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر ا?ن پڑے۔
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا الل? کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، “کھیر کھاؤ گے؟”
تو فقیر نے سوال کیا، “کھیر کیسی ہوتی ہے؟”
اس شخص نے جواب دیا، “سفید ہوتی ہے۔”
اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، “سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟”
اس شخص نے کہا، “بگلے جیسا۔”
فقیر نے پوچھا، “بگلا کیسا ہوتا ہے؟”
اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، “بگلا ایسا ہوتا ہے۔”
نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، “نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔”
اونٹ کے گلے میں بلّی?
مطلب یہ کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھے یا ایک مفید کام کے ساتھ نقصان دہ کام لازم ہو جائے۔
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اونٹ کو بہت تلاش کیا۔ سارا شہر چھان مارا پر اونٹ کا کہیں پتا نہ چلا۔ اس پر اسے اتنا غصّہ آیا کہ قسم کھالی کہ اگر اونٹ مل گیا تو ایک رپے میں بیچ دوں گا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ الل? کا کرنا یہ ہوا کہ جلد ہی اس کا اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو اس کا اونٹ ایک رپے میں خریدنے اس کے گھر پہنچے۔ اب تو وہ شخص بہت گھبرایا۔ ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس عقلمند دوست نے اسے مشورہ دیا، “اونٹ کے گلے میں لمبی سی رسّی باندھو اور رسّی کے دوسرے سرے پر ایک بلّی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت تو بےشک ایک ہی روپیہ رکھو، لیکن بلّی کی قیمت ایک سو روپیہ رکھو۔ خریدار کے لیے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلّی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔”
اس نے ایسا ہی کیا۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے کہ یہ تو اونٹ کے گلے میں بلّی ہے۔ اور یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔
چور کے گھر مور یا چور کو مور پڑنا?
یعنی خود چور کے گھر چوری ہو گئی۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص بےایمان کے ساتھ بے ایمانی کرے یا کسی ٹھگ کو کوئی شخص ٹھگ لے۔
مور ایک ایسا پرندہ ہے جو چھوٹے موٹے سانپ کھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک چور نے ایک قیمتی ہار چوری کیا اور گھر میں لا کر ایک طرف ڈال دیا۔ گھر میں مور تھا۔ مور نے ہار کو سانپ سمجھ کر نگل لیا۔ چور نے یہ معاملہ دیکھا تو بولا، ”بہت خوب! چور کے گھر مور۔“
اس کہاوت کو یوں بھی بولتے ہیں،”چور کو مور پڑ گئے۔“

ہم بھی ہیں پانچ سواروں میں
یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے آپ کو زبردستی بڑے اور مشہور آدمیوں کے ساتھ شامل کرے یا تھوڑا اور چھوٹا کام کر کے مشہور ہونا چاہے۔
کہتے ہیں کہ چار آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر دکن جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک کمہار بھی گدھے پر سوار جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا، ”یہ سوار کہاں جاتے ہیں؟“اس پر کمہار نے خود کو بھی شامل کرتے ہوئے کہا، ”ہم پانچوں سوار دکن کو جاتے ہیں۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top